جمالا کالج کے زمانے سے سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھی۔ ہر قسم کے مقابلوں میں اول آتی۔ ایک دفعہ اس نے کالج میں ڈرامے میں حصہ لیا اور نوکرانی کا کردار ادا کیا اور ڈرامے کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ میری کلاس فیلو تھی اور میں ہی پیار سے اسے جمالا کہتی تھی۔ اس کا اصل نام گل جمال تھا۔ پہلے وہ ایک الہڑ مٹیار تھی، اب سنجیدہ ہو گئی۔ وہ اب غریبوں کے مسائل پر ہمدردی سے غور کرنے لگی تھی۔ انہی دنوں اس کے والد جو ایک صحافی تھے ، کے پاس ایک متوسط گھرانے کا نوجوان آیا اور التجا کی میری کہیں سفارش کر دیں تاکہ مجھے کو ملازمت یا روزگار میسر آجائے۔ اس کا نام ایاز تھا۔ وہ ایک لائق لڑکا تھا لیکن سفارش یارشوت نہ ہونے کی صورت میں ملازمت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھا حالانکہ وہ ایک انجینئر تھا۔ جمالا کو علم تھا کہ یہ پوزیشن ہولڈر اور گولڈ میڈلسٹ ہے۔ اس کا دل بہت کڑھا۔ ایاز در اصل ان کے پرانے محلے کارہائشی تھا۔ ان کا اور جمالا کے والد کا مکان آمنے سامنے تھا پھر یہ لوگ مکان بیچ کر پوش علاقے میں آگئے تھے لیکن ایاز کے والد ابھی تک وہاں ہی مقیم تھے۔ ایاز کو یہ سبھی بچپن سے جانتے تھے خاص طور پر جمالا کے دل میں اس کی قدر و منزلت یوں بھی تھی کہ جب وہ اوائل عمر میں ان کے یہاں جاتی تھی تو ایاز نہایت ادب اور عزت سے پیش آنا تھا۔ یوں اس کا ایک اچھا امیج جمالا کے دل میں بن گیا تھا۔ ایاز نے ان کے گھر کئی چکر لگائے۔ گل جمال کے والد نے نوکری دلوانے کا وعدہ تو کر لیا مگر وہ نہایت مصروف آدمی تھے، کبھی لاہور ، کبھی اسلام آباد اور کبھی کراچی ، وہ ارباب اقتدار کے ساتھ سفر میں ہوتے اور اکثر بیرون ملک چلے جاتے تھے۔ دو تین بار ایاز آیا تو جمالا نے اپنے ابو سے کہا۔ بابا جان آپ اس بیچارے کی طرف توجہ کریں۔ اگر اس کے لیے کچھ کر سکتے ہیں تو ہمیں ثواب ہو گا۔ آپ اپنے قلم سے اتنا کچھ معاشرے کے بارے میں لکھتے ہیں تو پھر ایاز کی مدد کیوں نہیں کرتے۔ اگر کر سکتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو صاف جواب دے دیجئے۔ اس کے والد بیٹی کے آگے لاجواب سے ہو گئے اور بولے۔ تم ٹھیک کہتی ہو ، مجھے سے بھی کوتاہی ہو گئی ہے لیکن اب میں ضرور ایاز کے لیے کسی سے کہوں گا۔ بس جب میں اسلام آباد جائوں تم ذرا مجھ کو یاد کرا دینا۔ گل جمال نے ایسا ہی کیا اور ایاز کو ایک نیک دل صحافی کے توسط سے نوکری مل گئی۔ ایاز شکریہ ادا کر نے آیا، مٹھائی بھی لایا لیکن گل جمال کو افسوس تھا کہ ایک پوزیشن ہولڈر کو معمولی نوکری کے لیے ان کے در کے کتنے چکر کاٹنے پڑے۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس نوجوان سے شادی کر کے اس کو اونچے مقام تک پہنچادے گی ۔ اپنی ماں سے اس ارادے کا اظہار بھی کر دیا لیکن جب ماں نے اس کے والد کو آگاہ کیا تو وہ اس امر پر راضی نہ تھے کیونکہ ایاز اور ان کے بیچ زمین آسمان کا فرق تھا۔ تاہم گل جمال ایک تعلیم یافتہ لڑکی تھی اور باپ نے اس کو اظہار رائے کا حق بھی دیا تھا تو اس نے اپنے والد کو ایاز کی محنت اور ایمانداری کے اوصاف بتا کر یقین دلایا کہ اگر اس نوجوان کو مواقع ملے تو وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام ضرور حاصل کرلے گا۔ چونکہ ان باتوں کو موصوف سمجھتے تھے اور ہمیشہ ان کا پر چار بھی کرتے رہتے تھے لہذا بیٹی کو نہیں جھٹلا سکے اور اس کے دلائل مان لیے۔ یوں ایاز اور گل جمال کی شادی ہو گئی تاہم یہ فیصلہ گل جمال کا اپنا ہی تھا۔ جسے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے والدین نے رد نہیں کیا۔ گل جمال ایک بڑے سے گھر سے نکل کر چار مرلے کے چھوٹے سے گھر میں آگئی۔ وہ ایک سمجھدار اور کفایت شعار بیوی ثابت ہوئی۔ کم تنخواہ میں بھی آسانی سے گزارا کر لیتی تھی۔ کبھی زبان پر اپنے شوہر کی کم آمدنی کا شکوہ نہ لائی۔ دونوں کے چہروں پر طمانیت اور مسکراہٹ رہتی تھی کیونکہ وہ دل سے زندگی کی حقیقتوں کو تسلیم کرتے تھے اور اپنے رب کے شکر گزار تھے۔ دو سال پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ کبھی جمالا نے والدین سے حالات کا شکوہ نہیں کیا۔ وہ جب ان سے ملنے آتی، ہنستی مسکراتی ہوئی آتی تھی۔ بیٹی کو خوش پا کر والدین بھی پر سکون اور مطمئن تھے۔ ایاز کی ملازمت فیکٹری ایریا کے پاس ایک محکمے میں تھی۔ وہ روز صبح سویرے آفس جاتا تھا اور پانچ بجے کے قریب گھر لوٹ آتا تھا۔ آج ان کی شادی کی سالگرہ تھی ۔ گل جمال سالگرہ منانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس نے شوہر سے دو پہر کو جلد آنے کا کہا تھا۔ وہ ایاز کے انتظار میں تھی کہ پڑوسن کے گھر سے آواز آئی۔ جمال بہن آپ کا فون ہے ، آکر سن جائیے۔ وہ سمجھ گئی ایاز ہو گا۔ دوڑی گئی اور جب فون اٹھایا تو اس کے والد بول رہے تھے۔ ایاز کورشوت لینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وہ آج گھر نہ آسکے گا۔ لہذا تم پریشان مت ہونا۔ ان شاء اللہ کل پر سوں تک ضمانت ہو جائے گی۔ یہ خبر کسی جان لیوا حادثے سے کم نہیں تھی۔ شادی کو ابھی دو ہی سال ہوئے تھے۔ جانے اس گھر کو کس کی نظر لگ گئی۔ وہ تو پہلے ہی ایاز سے شادی کے خلاف تھے، اوپر سے یہ ایک نئی افتاد پڑ گئی جس سے گل جمال کی اپنی نیک نامی پر حرف آرہا تھا۔ بہر حال معاملہ جھوٹا تھا یا سچا، سامنا تو کرنا تھا۔ ضمانت ہو گئی لیکن ایاز کی نوکری جاتی رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی بدخواہ نے غلط کیس میں پھنسایا ہے جبکہ اس نے رشوت نہیں لی، تاہم فی زمانہ ایسی باتوں کو کون سنتا ہے جبکہ چہار جانب رشوت کا بازار گرم ہو۔۔ آہستہ آہستہ گھر کے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ شاید ستارہ گردش میں تھا کہ ناکامی ایاز کا مقدر بن گئی تھی۔ کئی جگہ کام ڈھونڈنے کے باوجود ہر شام خالی ہاتھ اور مایوس لوٹنا بھی کسی سزا سے کم نہیں تھا۔ اوپر سے رشوت کا مقدمہ قائم تھا۔ ایک دن ایاز تھکا ہارا تلاش معاش کی مصیبت بھگت کر گھر لوٹا ہی تھا کہ گل جمال نصیحت کرنے بیٹھ گئی ، تو اس نے چڑ کر کہا۔ خدا کے لیے چپ ہو جائو۔ جب بھی میں تھکا ہارا آتا ہوں، تم نصیحتیں لے کر بیٹھ جاتی ہو۔ میر ادل چاہتا ہے کہ دریا میں کود جائوں۔ گل جمال تو اس کو حوصلہ دینا چاہتی تھی مگر حوصلہ ہارتے دیکھ کر رونے بیٹھ گئی۔ تبھی ایاز نے کہا۔ تم تو چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر رونے بیٹھ جاتی ہو۔ حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ کبھی تو مجھے روزگار ملے گا، چلو آئو کھانا کھاتے ہیں۔ وہ بولی مجھے بھوک نہیں ہے۔ اوہ اتنا بھی کیا غصہ،اچھا بتائو ، کیا کہنا چاہتی تھیں ؟ تب وہ کہنے لگی۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں کوئی کام کاج کرلوں۔ بیکار گھر بیٹھنے سے تو بہتر ہے کہ کوئی کام کر لیا جائے جس سے غربت کم ہو۔ مثلاً کون سا کام ؟ پڑوسن نے بتایا ہے کہ سردیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ گرم شالوں کی فیکٹریوں میں محنت کش عورتوں کی ضرورت ہے جو گھر بیٹھ کر گرم شالوں پر ہاتھ سے سلائی کڑھائی اور شیشے لگانے کا کام کرتی ہیں۔ ان عورتوں سے حسب منشا کڑھائی کرانے کے لیے ایسی خواتین درکار ہوتی ہیں جو پڑھی لکھی ہوں اور ڈیزائن کی سوجھ بوجھ رکھتی ہوں۔ یہ عورتیں ان کی نگرانی میں بہتر کام کر سکتی ہیں۔ اگر مجھے کوئی کام مل جائے تو آمدنی کا ذریعہ ہو سکے گا۔ آخر میں نے بھی تو ڈریس ڈیزائننگ پڑھی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے ؟ لوگ کہیں گے ایک مرد پناگھر چلانے میں اتنا کمزور ہے کہ عورت ماری ماری پھرتی ہے۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب میں یہ کام کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کر رہی تو لوگ جو کہیں، پروا نہیں کرنی چاہئے۔ ایاز نے کہا۔ جیسی تمہاری مرضی۔ ہاں میری یہی مرضی ہے کیونکہ میاں بیوی ایک گاڑی کے دو پہیئے ہوتے ہیں۔ ان پڑھ عورتیں بھی اپنے گھر چلانے کے لیے اپنے مردوں کی معاون ثابت ہوتی ہیں جبکہ میں تو ایک پڑھی لکھی عورت ہوں۔ گل جمال دوسرے روز پڑوسن کے پاس گئی جو ان کے حالات سے واقف تھی۔ اس کا شوہر ملبوسات کی فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا۔ وہ اس کے توسط سے فیکٹری کے مالک سے ملی۔ اس نے کہا۔ آپ کو اس کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ لہذا ایک ماہ آپ کو تجربے کے طور پر کام کرنا ہو گا اور تنخواہ کے بغیر ، البتہ آپ اگر ہمارے معیار پر پوری اتریں تو ہمآپ کو معقول معاوضہ دیں گے۔ یہ سن کر جمال کو بڑی مایوسی ہوئی ، تاہم اس نے ایک ماہ بغیر معاوضہ کام کی ہامی بھر لی کیونکہ تجربے کے بغیر زندگی میں آگے بڑھنا کوئی آسان بات نہیں۔ اب وہ روز صبح فیکٹری جاتی ، پہلے روز تو وہ اتنی عورتوں کو کام کرتے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ فیکٹری ورکرز سے ملاقات کی ، ان کو کام سمجھایا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ وہاں شالیں اور دھاگے وغیرہ عورتوں کو دیتی اور نمونے بتاتی۔ تھوڑا سا کام اپنے ہاتھ سے کر کے دکھاتی اور جب ان کے کام سے مطمئن ہو جاتی تو ان عورتوں کو کام گھر لے جانے کی اجازت مل جاتی۔ اس کی نگرانی میں پچاس عور تیں دے دی گئیں اور کڑھائی کے ڈیزائن بھی اسے دے دیئے گئے۔ بڑی سوجھ بوجھ سے اس نے عورتوں کو نمونے سمجھائے۔ کلر اسکیم بتائی چونکہ وہ فائن آرٹ کی طالبہ رہی تھی اور کڑھائی وغیرہ بھی جانتی تھی۔ پس اس کے نمونے پسند کئے گئے اور ایک ماہ بعد جب عورتیں مصنوعات تیار کر کے لائیں تو سب سے اچھا کام اس کی نگرانی میں ہوا تھا۔ اس ایک ماہ میں اس نے ان عورتوں کے گھروں پر و قتافوقتا جاکر کام کی نگرانی بھی کی تھی۔ اتنے خوبصورت نمونے دیکھ کر مالک فیکٹری عش عش کر اٹھا اور اس نے گل جمال کو معقول معاوضے پر رکھ لیا۔ یوں بہت جلد معاشی حالات سنبھلنے لگے۔ اس دوران کبھی اپنے والدین سے جاکر تنگدستی کا رونا نہیں رویا اور نہ ہی مدد کی درخواست کی کیونکہ یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا۔ والدین سے شوہر کے خلاف ایک حرف بھی سننا نہیں چاہتی -vایک روز گل جمال کو پتا چلا کہ فیکٹری میں کچھ مشینیں بند پڑی ہیں۔ مالک سے سوال کیا۔ سریہ کیوں بند پڑی ہیں ؟ شیخ صاحب نے کہا۔ بیٹی یہ مشینیں ہم نے باہر سے منگوائی تھیں، ان میں کچھ نقائص ہیں لیکن ٹھیک کرنے کے لیے ہم کو آدمی بھی باہر سے منگوانے پڑتے ہیں، اسی لیے بند پڑی ہیں۔ گھر آکر اس نے ایاز سے تذکرہ کیا۔ وہ کہنے لگا۔ شیخ صاحب سے کہو کہ مجھے اپنی خراب مشینیں دکھائیں۔ اگلے دن وہ ایاز کو لے کر گئی۔ ایاز وہ کیٹ لاگ بکس جو مشینوں کے ہمراہ آتی تھیں، اٹھا لایا اور ان کا اچھی طرح مطالعہ کیا۔ پتا چلا کہ ان میں معمولی نقائص ہیں جو تھوڑی سی توجہ سے درست ہو سکتے ہیں۔ اس نے یہ کام بھی سیکھا ہوا تھا۔ پس وہ ایک واقف کاریگر کو لے آیا جو اس کا استاد بھی تھا۔ دونوں نے بھر پور توجہ سے مشینوں کے نقائص دور کر دیئے اور وہ چلنا شروع ہو گئیں۔ خوش ہو کر شیخ صاحب نے گل جمال کو فیکٹری کا شعبہ خواتین سپرد کر دیا اور سب کا نگراں بنادیا، ساتھ معاوضے میں مزید اضافہ کر دیا۔ انسان لگن سے کام کرے تو ضرور کامیاب ہو جاتا ہے۔ اب وہ فیکٹری کی ایک اہم رکن تھی کیونکہ شیخ صاحب کو اس کی توجہ کے باعث زیادہ منافع مل رہا تھا۔ انہوں نے فیکٹری کی طرف سے اسے گاڑی دے دی تھی ۔ جب وہ کار پر فیکٹری جاتی تو اپنی کامیابی کو دل سے محسوس کرتی۔ اس نے اپنی پہلی تنخواہ ایاز کو لا کر دی تو وہ بولا ۔ تم اپنے پاس رکھو۔ تم نے یہ روپے بڑی محنت سے کمائے ہیں۔ وہ کہنے لگی ۔ جب تم کماتے تھے تو تنخواہ میرے ہاتھ پر رکھ دیا کرتے تھے۔ آج میں لائی ہوں تو تم کیوں لینے سے اعتراض کر رہے ہو ؟ خوشی سے لو ، جیسے میں لیتی تھی۔ تم پہلے بھی گھر چلاتی تھیں، اب بھی چلا تو اور یہ سمجھو کہ میری طرف سے ہیں ایک سال بعد انہوں نے پرانا محلہ چھوڑ دیا اور نئے گھر میں شفٹ ہو گئے جو اچھے علاقے میں تھا۔ یوں وقت گزرتا گیا اور جمالا کامیابیوں کی منزلیں طے کرتی چلی گئی۔ یہ فیکٹری دوسرے صوبوں میں بھی چل رہی تھی اور چاروں صوبوں میں اس کے کام کی تعریف تھی۔ مال بیرون ملک جانے لگا تھا جس سے گل جمال کی بیرون ملک بھی پہچان ہو گئی۔ وہ کئی بار فیکٹری کے طرف سے بیرون ملک گئی اور اس کا مال پاکستان کی پہچان بن گیا۔ اس دوران ایاز رشوت کے الزام سے بری ہو گیا۔ یہ دن بہت خوشگوار تھا۔ اس کو تین سال کی رکی ہوئی تنخواہ بھی مل گئی اور نوکری بھی بحال ہو گئی لیکن گل جمال نے اس کو نوکری چھوڑ کر اپنا کام کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس کے پاس انجینئر نگ کی ڈگری تھی۔ ایاز نے اپنا پرانا گھر فروخت کردیا اور جو تنخواہ دفتر سے ملی تھی، اس کو بینک میں جمع کرا دیا۔ گل جمال کا اثر ورسوخ کام آیا اور ایاز کو کاروبار کے لیے بینک لون مل گیا۔ انہوں نے شیخ صاحب کی فیکٹری کے دو صوبوں کے ٹینڈر بھرے اور تعمیر کی دنیا میں کامیاب ہو گئی۔ ان کا کار و بار حجم گیا۔ شیخ صاحب کی طبیعت کچھ نا ساز رہنے لگی تھی۔ اب سارا کام گل جمال ہی سنبھالتی تھی۔ انہوں نے ایاز کو نئی گاڑی کا تحفہ دیا۔ تب ایک صحافی نے سوال کیا آپ کی کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ کس کا ہے؟ تو ایاز نے بلا جھجک کہا۔ میری بیوی کا مگر گل جمال نے فوراً کہا کہ ہماری کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ ایاز کا ہے کیونکہ اگر میرے شوہر مجھے گھر سے باہر قدم نکالنے کی اجازت نہ دیتے تو میں آج اس مقام پر نہ ہوتی۔