بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ چار سال بعد ہونے والے انتخابات میں پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی۔ تاخیر کی وجہ ملک کے موسمیاتی حالات تھے۔ غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے دیہاتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے شہروں کے بیسیوں مکانات مکمل تباہ ہو گئے تھے۔ سینکڑوں گھر جزوی طور پر گر گئے تھے اور رہائش کے قابل نہ رہے تھے۔ چھوٹے بڑے شہروں کی گلیوں اور نشیبی علاقوں میں پانی ٹھہر جانے کے سبب جگہ جگہ بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ بڑے شہروں کے متعدد فلائی اوورز کی سڑکیں دراڑیں پڑ جانے اور انڈر پاس میں پانی رُک جانے کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بہت متاثر تھی۔ ڈرینج کے نظام کی خامیاں پہلے بھی ڈھکی چھپی نہ تھیں۔ اب کئی علاقوں میں گٹر ابل پڑے تھے۔ سڑکوں پر پھیلے غلاظت بھرے بد بو دار پانی سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ ہمارے پڑھے لکھے معزز شہری گھر کا کوڑا کرکٹ سڑکوں پر پھیلا دیا کرتے ہیں۔ پلاسٹک کی ناقابل استعمال تھیلیاں، تعمیراتی کاموں میں ہونے والے ملبے کو مناسب مقام پر ٹھکانے لگانے میں کو تاہیاں جیسی غلطیاں کرنے والے تھوڑے ہوں یا بہت عذاب سب ہی کو جھیلنا پڑتا ہے۔ ذمہ دار اداروں کے کام بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے افسران ، مالی وسائل کی کمی، گاڑیوں اور مشینوں کے ناکارہ ہونے کا بہانہ بنا کر اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔ مرمتی کام کرنے والے ورکشاپ اپنی کار کردگی دکھانے میں ناکامی کے دسیوں عذر پیش کر دیتے ہیں۔ آج کل دفاتر کے ملازمین ، اسکول کالج جانے والے طلبا اور طالبات بے حد مشکلات میں تھے۔ ان تمام مسائل کا حل کرنے ، شہر کے انتظام کو سنبھالنے والے ادارے اپنی من مانی کرنے میں آزاد تھے۔ ان کی نگرانی کرنے والے تمام ذمہ دار صاحبان اپنے اپنے افسروں کے احکامات پر اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ مرکزی نظام بغیر کنٹرول کے انتشار کا شکار تھا۔ میڈیا میں اُٹھتی آوازوں کا نوٹس اعلیٰ عدالتوں نے لیا اور ان کی مداخلت سے الیکشن کا انعقاد ممکن ہو گیا، لہذا چھے ہفتے بعد پولنگ کے لیے ایک دن مقرر کر دیا گیا۔ میں شہر کی ایک معروف بستی میں دس سال گزارنے کے بعد دو سال پہلے شہر سے دور نئی بسنے والی کالونی میں رہائش پذیر تھا۔ نئے صنعتی زون سے متصل رہائشی کالونیوں میں مکانات تیزی سے تعمیر ہو رہے تھے۔ ٹیکس کی چھوٹ اور کئی مراعات مل جانے کی وجہ سے ان کالونیوں میں بڑے بڑے بلڈرز نے فلیٹوں کے بڑے بڑے منصوبے شروع کر دیئے۔ ان کے کئی سلسلے تیزی سے آباد ہو رہے تھے۔ میں جس فیکٹری میں ملازم تھا، اس کے مالکان نے چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر ون یونٹ مکانات کی تعمیر پر توجہ دی اور قرعہ اندازی سے پلاٹوں کو الاٹ کیا گیا۔ مجھے بھی ایک موزوں پلاٹ مل گیا۔ کمپنی نے قرضے کی سہولت کے ساتھ ملازمین سے معاہدے کیے۔ ان قرضوں پر سود نہ تھا، بس معمولی سروس چار جز تھے۔ تیزی سے آباد ہونے والی بستی میں پانی کی پائپ لائنیں بچھا دی گئیں۔ بجلی اور گیس کی فراہمی بھی شروع ہو گئی۔ سیوریج کے منظم نظام سے شہر جیسی صورت حال نہ تھی۔ یہاں نہ گٹر ابلتے تھے ، نہ بارش سے سڑکیں زیر آب رہتی تھیں۔ اس بستی میں تعمیرات صرف منظور شدہ نقشے کے مطابق ہی کی جا سکتی تھیں۔ کمروں کے اندر زینت اور آرائش میں مالک مکان کو آزادی حاصل تھی۔ خوبصورت ٹائلوں کا فرش، دیواروں میں فکسڈ الماریاں ، ٹائلٹ کے فرش کو موزائک یا ٹائلوں کے فرش سے آراستہ کرنا اور دیگر کاموں میں اپنی مرضی چلائی جا سکتی تھی۔ فیکٹری کا منظور کیا ہو ابلڈ رہی مکان تعمیر کر سکتا تھا۔ اسی طرح کئی لوگ ٹھیکیداروں کے بکھیڑے سے نجات کے لیے بھروسے کے بلڈرز سے مکانات بنوا ر ہے تھے۔ نئی بستی کے مسائل بھی مختلف تھے۔ یہاں سے اسکول اور کالج بہت فاصلے پر تھے، اسپتالوں کی کمی تھی۔ مارکیٹوں اور بازاروں اور عام دکانوں کی سہولتیں نہ ہونے کا احساس شدید ہو جاتا تھا، اس کے لیے گھر کے افراد کو چھٹی کا دن ان کاموں کے لیے وقف کرنا پڑتا تھا۔ ان نئی بستیوں میں پہلے آباد ہونے والوں نے یقینا قربانیاں دیں۔ سڑکیں اچھی نہ تھیں۔ باورچی خانوں میں گیس سلنڈر استعمال کرنا پڑتا تھا۔ سیکورٹی کا نظام بھی اچھا نہ تھا۔ ان کے بعد بسنے والوں کو بھی بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن رفتہ رفتہ لوگوں کو سہولتیں ملنے لگیں۔ یہاں کے رہنے والوں نے اپنے مکانوں میں چھوٹی چھوٹی شاپ کھول لیں۔ ان کے کاروبار سے یہاں کے باشندوں کی ضرورتیں گھروں کے پاس سے ہی پوری ہونے لگیں۔ شہر کے مقابلے میں اشیاء مہنگی تھیں لیکن وقت پر ان کا حصول آسان ہو گیا تھا۔ دو برس پہلے مجھے شہر کی رہائش سے اپنی ملازمت کی جگہ فیکٹری میں آنے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولتیں حاصل ہونے کے باوجود تین اضافی گھنٹے لگ جاتے تھے یعنی گیارہ ساڑھے گیارہ گھنٹے روز صرف ہو جاتے تھے۔ کبھی موسم خراب ہو یا گاڑی راستے میں خراب ہو جائے تو مزید وقت درکار ہوتا تھا۔ نئے مکان میں جانے سے مجھے بڑے فائدے حاصل ہوئے۔ اپنی بائیک خریدنے سے آنے جانے کی سہولت ہو گئی۔ فیکٹری کی ٹرانسپورٹ استعمال نہ کرنے والوں کو ٹریولنگ الائونس بھی ملنے لگا۔ اس اضافی آمدنی سے مجھ پر پڑنے والا مالی بوجھ بھی کم ہو گیا۔ نئے مکان میں میری ماں، بیوی اور بچے چھے ماہ تک سیٹ نہ ہو سکے۔ دونوں خواتین کے تعلقات روایتی ساس بہو کے نہ تھے۔ دونوں نے اپنے اپنے کام بانٹ لیے تھے۔ ایثار کرنا اور ایک دوسرے سے تعاون ان کی ضرورت اور مجبوری تھی۔ گھر کی فضا بڑی پُر سکون بن گئی تھی لیکن ہم سب کو شہر میں ملنے والی آسانیاں یاد آتی رہیں۔ شہر میں ہم کرایے کے مکان میں رہتے تھے۔ مالک مکان اچھے آدمی تھے، ملنسار اور دُکھ درد میں شریک ہونے والے۔ ہم بھی ان کے مکان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔ میرے لیے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ مہینہ جیسے تیسے بسر کر لیا جاتا تھا لیکن کرایہ ادا کرنے کی تاریخ جلد سر پر آکر کھڑی ہو جاتی۔ تنخواہ کا آدھا حصہ کرایے اور یوٹیلیٹی بلوں کو ادا کرنے میں صرف ہو جاتا تھا۔ باقی رقم سے دوسری ضرورتیں پورا کرنا بہت مشکل ہو جاتا تھا۔ پرانے محلے کے ساتھی میرا بہت احترام کرتے تھے اور مسجد میں جماعت کا اہتمام کرنے والے احباب قاری ہونے کی وجہ سے زیادہ عزت کرتے تھے ، بہت سوچ کر اللہ کی ہدایت پا کر فجر کی نماز کے بعد دس منٹ کا مختصر وقت میں نے تلاوت اور ترجمہ بیان کرنے کا آغاز کر دیا۔ شہر کے محلے سے دور ، نئی بستی میں صاحب مکان ہونے کا تصور بہت خوش کن تھا۔ شہر اس قدر تیزی سے پھیل رہا تھا کہ وہ بستی جو مرکز سے سترہ اٹھارہ میل دور تھی، میری دلچسپی کا باعث بن گئی تھی۔ پرانے محلے میں زندگی کے گزارے ہوئے دس سال میری زندگی کے نہایت خوش گوار دن تھے۔ یہ دس سال میرے لیے بے حد قیمتی تھے۔ میں نے اس محلے کی ترقی اور بہبود کے لیے بڑا وقت نکالا۔ میں حیران ہوں کہ وہ کون سا جذبہ تھا جس نے مجھے اس طرف راغب کیا. میرے تین دوست میرے ہم نوا تھے۔ ہر روز کچھ نہ کچھ وقت محلے کی بہبود کے لیے دیئے بغیر ہمیں سکون نہ ملتا تھا۔ ان کاموں میں لطف بھی آنے لگا تھا محلے کے ساتھی خاص طور پر مسجد کے نمازی فجر کی نماز کے بعد ایک دوسرے کے اور محلے کے مسائل دریافت کر لیا کرتے تھے۔ یہ ہم سب کے لیے اطمینان قلب کا سامان ہو جاتا۔ بہبود کی باتیں سینے اور اس میں شریک ہونے کی عادت مجھے کالج کے زمانے سے ہی تھی۔ یہ تحمل مزاجی مجھے اپنے ایک اُستاد سے ملی تھی۔ یہ ایک اسکول ٹیچر تھے۔ میرے اُستاد، بے حد شفیق، بہت ایثار کرنے والے۔ میں آج بھی یاد کر کے حیران ہو تا ہوں کہ وہ ہماری باتیں اپنے صبر وضبط سے کیسے گن لیتے تھے۔ ہم ان سے بے تکلف دوستوں کی طرح اپنے مسائل بیان کر دیتے اور وہ تحمل سے ہماری باتیں سنتے۔ ہم اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے معاملات میں انہیں شریک کرتے۔ وہ ہماری بات سنتے اور درمیان میں بالکل نہیں ٹوکتے۔ اس آزادی سے فائدہ اُٹھا کر ہم گستاخیاں بھی کر بیٹھتے۔ میں اپنے بارے میں سوچتا ہوں۔ جب کوئی میرے متعلق کوئی غلط بات کہہ دیتا تو میں فوراً اس کی تردید کرنے کے لیے اپنے لب کھول دیتا۔ میں خود پر تنقید نہیں برداشت کر سکتا تھا۔ مجھے اصل بات بتانے کی اتنی جلدی ہوتی کہ معترض کی بات مجھ سے ہضم نہیں ہوتی تھی۔ میں درمیان سے ہی اس کورڈ کرنے کی کوشش کرتا۔ اس بے صبری کی عادت سے میرے کئی دوست مجھ سے ناراض رہتے تھے۔ ان سب کے ٹوکنے پر اپنی غلطی کا احساس ہو تا، ٹی وی پر مذاکروں میں بھی بعض شرکاء اس طرح جلد بازی کرتے نظر آتے۔ ان کے درمیان میں ٹوکنے کی عادت مجھے بھی بُری لگتی۔ میں سوچنے لگتا کیا اچھا ہوتا یہ صاحب تھوڑا ایثار کرتے اپنے مخالف کی بات پوری ہونے دیتے۔ اس طرح ٹی وی کے بعض چینلوں کے اینکر بھی مجھے بُرے لگتے کیونکہ وہ بات کاٹ کر اپنے نظریات نشر کر نازیادہ ضروری سمجھتے تھے۔ میرے ساتھ تین دوست ہر معاملے میں شامل ہوتے تھے۔ کبھی کوئی ساتھی ، اپنے کاموں میں مصروفیت کی بنا پر ہمارے ساتھ نماز میں نہ ہو تا تو لوگ اس کو نوٹ کرتے محلے کے اجتماعی کاموں میں ہم لوگوں کی دلچپسی اسٹوڈنٹ یونین کی طرف سے ملی۔ طلبہ یونینوں میں پابندی کی اپنی وجو ہات ہیں لیکن اس کی وجہ سے ملک کو نئے لیڈروں کی دستیابی میں بڑی رکاوٹیں آگئی ہیں۔ خالق کائنات کی طرف سے قوموں پر ہدایات نازل ہوتی رہی ہیں۔ جن قوموں میں نبیوں کا نزول ہوا ان کی تعلیمات وہاں کی مقامی زبان میں اُتاری جاتی رہی ہیں۔ ہماری مادری زبان اللہ کی آخری کتاب کی زبان سے مختلف ہے۔ اس لیے ہم براہ راست اس کے پیغام سے آگاہ نہ ہو سکے۔ ہمیں ترجموں اور تفسیروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارے زیادہ تر لوگ ثواب کی خاطر اللہ کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ثواب یقیناً ملتا ہے اور کثرت سے ملتا ہے لیکن بہت بڑی تعداد اللہ کی ہدایت سے محروم ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ خالق اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے۔ یہ بات اب ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ دین کی تکمیل ہو چکی ہے۔ اب کوئی نئی نصیحت اللہ کی طرف سے ” نہیں ہونی ہے۔ میں نے یہ سب سوچ کر فجر کی نماز کے فوراً بعد دس منٹ کا مختصر وقت اس مقصد کے لیے منتخب کیا۔ شروع شروع میں ہمارے ساتھیوں کی تعداد چھے سات سے زیادہ نہ تھی۔ بعد میں دھیرے دھیرے یہ تعداد تیس پینتیس تک پہنچ گئی۔ شرکاء میں سے کچھ نے اصرار کیا کہ دس منٹ کے وقت کو پندرہ منٹ تک بڑھا دیا جائے۔ میں نے اور چند دوسرے نمازیوں نے اسے پسند نہیں کیا۔ ساتھیوں کو گھریلو کام بھی ہوتے ہیں، دفاتر بھی جانا ہوتا ہے۔ میں نے ہفتے کے چھے دن قرآن کی آیات کے ترجمے اور مختصر تشریح کے لیے رکھے اور ایک دن درس حدیث کے لیے۔ سب نے اسے پسند کیا۔ لوگوں کو اب ادراک ہونے لگا کہ قرآن کو بغیر سمجھ کر پڑھنے سے اس کی تلاوت کا حق ادا نہیں ہو تا۔ درس و تدریس کے سلسلے کو تقریباً چارماہ ہو گئے۔ نمازیوں کی دلچسپی بڑھنے لگی۔ میں ہر روز آنے والے درس کی تیاری کر کے جاتا۔ اس سے مجھے بھی بڑا فائدہ ہوا۔ مجھے بھی لطف آنے لگا۔ دس منٹ کا دورانیہ بڑھایا نہ گیا۔ موبائل فون پر معروف مفسرین کی تفسیریں ایک ساتھ مل جاتی ہیں۔ میں اہم نکات نوٹ کر کے لے جاتا۔ میں نے مدرسے میں تجوید کے ساتھ قرآن پڑھا تھا۔ میرے لیے دو تین آیات کی بلند آواز سے تلاوت کرنا آسان تھا۔ مسجد کی انتظامیہ نے مجھے مسجد کے سائونڈ سسٹم استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اب درس قرآن کا یہ چھوٹا حلقہ زیادہ پُر اثر ہو گیا۔ مسجد کے وہ نمازی جو قرآن بغیر ترجمے کے پڑھتے تھے میرے حلقے میں شریک ہونے لگے۔ میں اپنے نام سے زیادہ قاری صاحب کے نام سے مشہور ہو گیا۔ دن گزرتے گئے۔ فجر کی نماز میں ایک دن ایک اجنبی کا اضافہ ہو گیا۔ اس خوش لباس، وجیہ اور دراز قد شخص نے ہم سب کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ دو دن علیک سلیک کے بعد اس نے نمازی نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا۔ ” میں اکرام فاروقی ہوں۔ مسجد کی پشت سے لگا ہوا چھے سو گز کا مکان میں نے خرید لیا ہے۔“ چھا۔ وہ مکان جو عرصے سے کو چنگ سینٹر بنا ہوا ہے ؟“ میں نے پوچھا۔ ہاں وہی مکان ۔ “ انکساری سے جواب ملا۔ ”کوچنگ سینٹر کا سلسلہ آگے چوتھے مکان میں شفٹ ہو جائے گا، کیونکہ مکان کی از سر نو مر مت کرنی پڑے گی۔ اس کے چند کمرے کو چنگ سینٹر کی ضرورتوں کے مطابق بُری طرح استعمال کیے گئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کیبنوں کی طرح کے کمرے اور غیر معیاری بیت الخلاء… سب کو از سر نو بنانا پڑے گا۔ پہلی منزل کی رینویشن خاص طور پر کرنی پڑے گی۔ ہو سکتا ہے میں فرسٹ فلور کو کرایے پر اُٹھا دوں۔ اس طرح اپنی آمدنی میں اچھا خاصا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ معاملہ ابھی فائنل نہیں ہے۔“ فاروقی صاحب سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ ان کی بے تکلفی اور بے لوث گفتگو نے ہم سب کے دل جیت لیے۔ ان کے چہرے پر سبھی مسکراہٹ ان کے دل کی کیفیت سے آگاہ کرتی رہی۔ ان کی آنکھوں میں احترام اور مروت کانور جھلکتا تھا۔ تین چار دن کے بعد ایک اتوار کو انہوں نے سب نمازیوں کو اپنے گھر مد عو کر لیا۔ اس پر خلوص دعوت کو کون ٹھکراتا… ہم سب تیار ہو گئے۔ مسجد کے خطیب، مؤذن اور انتظامیہ سب ہی شریک تھے۔ ان کی چھت پر صرف دو کمرے، ان کے ساتھ اٹیچڈ باتھ روم تھے۔ ایک اضافی باتھ روم مہمانوں کے لیے بھی موجود تھا۔ چھت پر سولر سسٹم کا وسیع نظام تھا۔ فاروقی صاحب نے مجھے دس پندرہ منٹ کے درس حدیث کے لیے ذمہ داری سونپ رکھی تھی۔ کئی ماہ ہو گئے تھے۔ مجھ میں اعتماد آ گیا تھا۔ اپنے حصے کا کام میں نے بغیر جھجک کے ادا کر دیا۔ کھانے کے بعد فاروقی صاحب نے مختصر تقریر کی۔ ان کا کپڑے کا کاروبار تھا۔ شہر میں ان کی تعین شاپ اچھے بازاروں میں تھیں۔ دو بڑے مکان کرایے پر بھی دیئے گئے تھے۔ شہر کے فلاحی کاموں میں ان کا اچھا حصہ تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ دس لاکھ روپے کے ابتدائی سرمائے سے بلا سودی قرضے اس محلے یا قریبی علاقوں کو دیئے جا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے دس لاکھ روپے کی رقم بڑھا بھی دی جائے۔ قرض داروں سے یہ رقم قسطوں میں وصول کی جائے گی۔ تمام حاضرین نے سبحان اللہ سبحان اللہ ماشاء اللہ کہہ کر فاروقی صاحب کی نیک خواہشات کو سراہا۔ سب شر کاء کے چہرے دمک رہے تھے۔ میں نے کہا۔ فاروقی صاحب ابلاشبہ بہت نیک ارادہ ہے لیکن اس کا حساب کتاب کرنا اور قسطوں کی رقم وصول کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ کیا یہ کام آسانی سے ہو جائے گا؟“ قاری صاحب آپ دُرست کہہ رہے ہیں۔ قرض لینے والے لوٹانے میں یقینا کو تاہی کرتے ہیں اس لیے ایسی شاپ والے قسط وصول کرنے کے لیے کیم تھیم افراد کو ملازم رکھتے ہیں۔ قسطوں کا کاروبار سود کی طرح ہی کا لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے قرض دار کسی مجبوری کی وجہ سے وقت پر قسط جمع نہ کروائیں لیکن ہمارے قرضے کی رقم بہت تھوڑی ہو گی۔ شاید ہم ضرورت مندوں کو زکوۃ کی رقم سے بھی امداد دیں گے۔ اس کام کو خفیہ رکھا جائے گا تاکہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو ۔ “ لاجواب .. میں نے کہا۔ ”اللہ آپ کو ہدایت سے نوازے، کاموں کو آسان کرے۔ ہمارے شہر میں ایک معروف ادارہ یہ کام کر رہا ہے۔ ان کا کام بڑے پیمانے پر ہے ، ہمارا بہت چھوٹا ہو گا۔ ہم ان سے رہنمائی لے سکتے ہیں ہاں قاری صاحب ! میرے ذہن میں بھی یہ بات ہے۔ آج کے دن اتنا ہی کافی ہے۔ ہاں سینے میری بیٹی دفتری کاموں کی نگرانی کرلے گی۔ اس کی اُنگلیاں کمپیوٹر کے کی بورڈ پر اس طرح چلتی ہیں کہ میں دیکھتا رہ جاتا ہوں۔ مکان کا ایک کمرہ آفس کے کاموں کے لیے وقف ہو گا۔ شاید ہم پارٹ ٹائم کلرک بھی رکھ لیں یا یہ کام اعزازی طور پر کوئی فرد کرے گا البتہ قاری صاحب، کچھ معاملات ہم دونوں پلان کر کے آسان کر لیں گے۔“ جی فاروقی صاحب !مجھے ان کاموں میں کچھ مشکلات، کچھ رکاوٹیں نظر آرہی ہیں۔“ مجھے بھی ان کا احساس ہے لیکن آپ فکر نہ کریں۔ فاروقی صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے درمیان میں بات کاٹنے سے روکا پھر سب کو متوجہ کرتے ہوئے بلند آواز سے اپنی بات جاری رکھیں۔ دیکھیے ہماری یہ بستی متوسط درجے کے افراد کی ہے ، مڈل کلاس بلکہ لوئر مڈل کلاس۔ ان کے کیا مسائل ہیں ۔ ؟ مجھے اس کا ادراک ہے۔ بچوں کی اسکول فیس دینی ہے ، کتابیں خریدنی ہیں، یونیفارم وغیر ہ لینا ہے، بجلی کا بل زیادہ آگیا ہے، گھر کی تعمیر میں کچھ اضافی اخراجات ہو گئے ہیں۔ گھر کا کوئی فرد بیمار ہے… ان تمام کے لیے مالی تعاون درکار ہے۔ ہم بلا سود قرضے دیں گے تو اس پر نظر بھی رکھیں گے۔ قاری صاحب اور دوسرے دوست یہاں موجود ہیں، سنیں ! بہبود کا کام آسان نہیں ہے۔ اللہ کی رضا پانے اُٹھے ہیں تو اللہ ضرور ہماری رہنمائی کرے گا۔ اچھا بھئی خاصی دیر ہو گئی ہے۔ محفل برخاست اللہ حافظ … فاروقی صاحب نے جس نیک کام کی ابتدا کی تھی، اس کے ثمرات ظاہر ہونے لگے۔ ایک ہفتے میں چھے ضرورت مندوں کو دس سے بیس ہزار تک امداد دی گئی۔ میں ملازمت کے سلسلے میں اتنا مصروف تھا کہ اس کام میں سر گرمی سے حصہ نہیں لے سکتا تھا لیکن فاروقی صاحب کے قریب ہونے کی وجہ سے لوگ میری وساطت سے معاملات حل کرنے کو ترجیح دیتے تھے ، یہاں تک کہ آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں محلے کے کئی لوگ کونسلر کی سیٹ پر مجھ سے اُمیدوار بننے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ میں نے معذرت کر لی۔ خاص خاص دوستوں کو معلوم تھا کہ میں اس محلے میں چند ماہ کا مہمان تھا۔ میر امکان اپنی ملازمت کی جگہ سے قریب کالونی میں زیر تعمیر تھا۔ مجھے یہاں سے شفٹ ہو کر اپنے مکان ہی جانا تھا۔ فاروقی صاحب بھی باخبر تھے۔ میں مسجد کے درس کے لیے اپنے دوست عثمان کو تیار کر رہا تھا۔ وہ پس و پیش کے بعد راضی ہو گئے تھے۔ اس دوران میں ہمارے بلاک میں ایک اندوہناک حادثہ پیش آگیا۔ ایک خالی لاوارث پلاٹ پر ایک غریب ہنر مند مز دور احمد علی نے اپنا کچا مکان تعمیر کر لیا تھا۔ پلاٹ کے برابر رہنے والے ہمسایوں نے اس کی اجازت دے دی۔ ایک گھرانے کا وہ رشتہ دار بھی تھا۔ مزدور اپنی بیوی ، ماں اور بیوہ بہن کے ساتھے اس گھر میں مقیم تھا۔ پڑوس میں رہنے والے دو خاندانوں نے اسے پانی، بجلی اور گیس کی سہولتیں فراہم کر دی تھیں جس کا مناسب معاوضہ وہ ادا کر دیتا تھا۔ ایک روز احمد علی اپنے کاموں کے لیے دوسرے محلے میں تھا کہ اس کے کچے مکان میں آگ لگ گئی۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے پہنچنے سے پہلے اس کے گھر کا سب سامان جل گیا۔ ایک پڑوسی کی ملی ہوئی دیوار بھی آگ کی لپیٹ میں آگئی۔ فاروقی صاحب نے مسجد کے احاطے میں ٹینٹ اور قناتیں لگا کر اس کے لئے ایک عارضی قیام گاہ فراہم کیا۔ ان کے مالی تعاون سے کچھ ضرورت کی چیزیں، چار پائیاں، بستر وغیرہ کا انتظام ہو گیا۔ خالی پلاٹ پر جھگی دوبارہ تعمیر کر دی گئی۔ اس طرح ایک بے گھر خاندان کو دوبارہ آباد کر دیا گیا۔ میرے دوستوں نے اس خاندان کی دوبارہ آبادکاری میں اچھا کردار ادا کیا۔ صوبے کے ایک سینئر وزیر نے خاندان سے ہمدردی جتانے کے لیے ملاقات کی اور مالی امداد کا وعدہ کر کے چلے گئے۔ امداد کا وعدہ فائل میں محفوظ ایک افسر سے دوسرے افسر کی میز پر گردش کر تا رہا۔ آگ لگنے کے واقعے کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کوئی شیطان صفت شخص پٹاخہ جیسی چیز جھگی پر پھینک کر چلا گیا، شاید کریکر یوں جھگی میں آگ لگ گئی۔ خالی پلاٹ پر قبضہ کرنے والے نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ انہی میں سے کسی کی حرکت ہو سکتی تھی۔ گزشتہ دو بلدیاتی انتخابات میں میری حمایت پانے والے دونوں امید وار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔ ہمارا اُمید وار ہمیشہ ایک عام شخص ہو تا تھا۔ انتخابی مہم کے لیے فنڈ بھی دستیاب نہ ہو تا۔ پینا فلیکس میں اشتہارات چھپوانا بھی ممکن نہ ہوتا۔ کاغذوں یا گتوں پر موٹے مارکر سے اشتہارات لکھے جاتے اور انہیں چوراہوں اور بڑی گلیوں میں آویزاں کر دیا جاتا۔ انتخابی مہم اور کنوینگ میں میرے کام کو سراہا جا تا مجھے اپنے نئے مکان میں شفٹ نہ ہونا ہو تا تو اس محلے کا اگلا کو نسلر بنے میں میرے لیے کوئی دشواری نہ تھی۔ اس محلے کو چھوڑے دو سال بیت گئے تھے۔ اس دوران میں مخلص اور بے لوث شخص فاروقی صاحب حرکت قلب بند ہونے وفات پاگئے تھے۔ ان کے فرمانبردار بیٹوں نے اپنے والد کے کام کو جاری رکھا تھا لیکن ان کے جیسا خلوص اور بے لوث خدمت ان کی اولاد میں نہ تھی۔ وہ جس طرح ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے، کسی کو خبر نہ ہوتی تھی لیکن ایسا ان کی اولاد میں نہ تھا۔ پھر بھی یہ فلاحی ادارہ زندہ تھا۔ لوگوں کی امداد کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ ایک مدت بعد نئے بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے تھے۔ اس بار کئی سال سے مسلسل ہارنے والے اُمید وار جان محمد مانا بڑے زور و شور سے میدان میں اترے تھے۔ جگہ جگہ پینا فلیکس کے بینر آویزاں تھے۔ ان کے انتخابی نشان تالا کے خوبصورت بورڈ محلے کی چار اہم سڑکوں پر مضبوط اسٹینڈ پر رکھے نظر آرہے تھے محلے میں دو مقامات پر لکڑی اور لوہے سے بنا تالا بھی ایک کچے چبوترے پر رکھا نظر آرہا تھا۔ ان تمام کاموں پر اچھے خاصے اخراجات ہوئے ہوں گے۔ خوب صورت کاغذوں پر رنگین پمفلٹ گھر گھر بانٹے گئے۔ محدود حلقے کی ایک چھوٹی نشست حاصل کرنے کے لیے اتنے زیادہ اخراجات سب کے لیے حیران کن تھے۔ جان محمد کے بارے میں مشہور تھا کہ دینی یا گلف کے کسی ملک سے اسمگلنگ کا دھندا چل رہا ہے۔ غیر قانونی درآمد کیے ہوئے قیمتی سگریٹ کا بہت بڑا کاروبار – ایکسائز ڈپارٹمنٹ اور پولیس کے محکموں سے ان کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ ان کے کارندے پکڑے بھی جاتے تو ضمانت پر رہا ہو جاتے ۔ ان پر مقدمات درج ہی نہ ہوتے تھے۔ جان محمد کے مقابلے میں محلے کے خیر خواہ لوگوں کا حامی سعید نامی شخص امیدوار کھڑ اہو اتھا۔ وہ ایک اسکول ٹیچر تھا، محلے کا جانا پہچانا پر خلوص آدمی . وہ جان محمد کی طرح پبلسٹی نہیں کر سکتا تھا لیکن لوگوں کو یقین تھا کہ سعید جیسا ایماندار فرد ضرور کامیاب ہو گا محلے کے مسائل زیادہ بہتر طریقے سے حل ہوں گے۔ سعید کے حامی اُمید وار زیادہ تر میرے دوست تھے۔ دو دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور پہلے کی طرح الیکشن مہم میں حصہ لینے کی درخواست کی۔ میں باوجود شدید خواہش کے آمادہ نہ ہو سکا۔ وجہ صرف ایک تھی ڈوری ! میں سترہ اٹھارہ میل دور سے یہاں آکر وقت نہیں دے سکتا تھا لیکن اپنے امیدوار کو ووٹ دینے کا پکا ارادہ تھا۔ چھٹی کا دن پولنگ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ حکومت کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کام میں شریک ہوں۔ شہری بھی کسی مخلص اُمید وار کو اپنا نمائندہ دیکھنا چاہتے تھے۔ لاکھوں روپے کے بجٹ کا نگران ایک موزوں فرد ہو، ان کے لیے وقت نکالے، محلے کو صاف ستھرا رکھ سکے محلے کی گلیاں پختہ ہوں، ڈرینج کا نظام اچھا ہو ۔ پانی مقررہ دنوں میں اچھی مقدار میں فراہم ہو۔ شناختی کارڈوں کا نظام، پیدائش اور موت کے سرٹیفکیٹ کا غذات پر تصدیقی کام بھی آسان ہو جائے محلے کے لوگوں کے اختلافی معاملات اور تنازعات اچھے عادل نمائندے کے ذریعے حل ہوں محلے کا کو نسلر سب کے دُکھ درد میں شریک ہونے والا ہو نا چاہیے۔ محلے کا سر کاری اسکول تباہ حال تھا۔ یہاں دو پارک تھے جو کچرا کنڈی بنتے جا رہے تھے۔ یہاں ایسے کو نسلر کی ضرورت تھی جو محلے کے باسیوں کو اچھے شہری بننے کا شعور عطا کرے۔ لوگ جان محمد کی کرسی حاصل کرنے کی خواہش سے واقف تھے ، وہ اس چھوٹے عہدے کو پانے کے لیے فراوانی سے سرمایہ کنا رہا تھا۔ لوگ یقینا بھولے نہ تھے۔ سب کو معلوم تھا جان محمد ، چار پانچ آوارہ لڑکوں کی سر پرستی کرتے تھے۔ ان کی دادا گیری سے محلے کے لوگ پریشان رہتے تھے ، سنجیدہ افراد خوف زدہ تھے کہ اگر جان محمد انا کو نسلر منتخب ہو جاتے ہیں تو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں میں زیادہ دلیر ہو جائیں گے۔ آخر وہ دن آگیا، مجھے پرانے محلے میں ووٹ ڈالنے جاتا تھا۔ اپنی بیوی اور ماں سے کئی بار ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ ان کا بھی دل چاہتا تھا کہ پرانے پڑوسیوں سے عرصے بعد ملاقات کریں لیکن بیوی نے کہا۔ چھوڑو بھی مجھے گھر کے بہت سارے کام کرنے ہیں۔ پردے چادریں دھونی ہیں، قالین پر ویکیوم کلینز چلانا ہے ، کھڑکیاں دروازے صاف کرنے ہیں۔“ ماں سے ساتھ چلنے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا۔ ”بہو جائے گی تو میں بھی جائوں گی۔“ لیجیے بات ہی ختم ہو گئی۔ ایک ذمہ دارانہ کام کرنا تھا وہ جاتارہا۔ میں اس کے باوجود ایک طویل فاصلہ طے کر کے پرانے دوستوں سے ملنے اور پولنگ میں حصہ لینے روانہ ہو گیا۔ یہاں پہنچنے کے لیے دو بسوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ تھا تو یہ اکتا دینے والا کام لیکن دوستوں کی کشش اور خوشگوار یادوں کے بلاوے نے سب کچھ آسان کر دیا۔ پبلک ہالی ڈے ہونے کی وجہ سے بسیں کم تھیں مگر ان میں رش نہ تھا، نہ عام دنوں کی ہر بونگ۔ خالی خالی بسیں بہت عجیب لگ رہی تھیں۔ تقریبا بارہ بجے پولنگ سینٹر پر پہنچ گیا۔ جو استقبالیہ ٹینٹ سب سے پہلے ملا، وہ جان محمد کا تھا۔ یہاں کے کئی کارکن بھی میرے شناسا تھے۔ ذاکر مانانے دُور سے ہی مجھے آتے دیکھ لیا۔ وہ میری طرف دوڑ کر لیکے اور گرم جوشی سے استقبال کیا پھر بولے۔ ” قاری صاحب ! مجھے یقین تھا آپ ضرور آئیں گے۔ آئے ٹینٹ میں تھوڑی دیر دم لے لیں۔ ووٹروں کی لائن لمبی ہے لیکن آپ کے لیے قطار میں کھڑا ہونا ضروری نہیں۔ آپ کو ووٹ ڈالنے کے لیے بوتھ میں بھیج دیں گے لیکن آئیے پہلے ہمارے لیڈر جان محمد مانا سے مل لیں۔ وہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔“ ذاکر مانانے میر ا ہاتھ اس مضبوطی سے تھاما ہوا تھا کہ میری کلائی میں درد محسوس ہونے لگا۔ وہ مجھے گھسیٹتے جان محمد صاحب کی طرف لے گئے۔ انہوں نے مجھ دیکھ کر خوشی کا نعرہ لگایا۔ ذاکر ! قاری صاحب کا آنا ہمارے لیے بڑا مبارک ہو گا۔ جذبہ ہو تو قاری صاحب جیسا آج تو ہماری جیت کی ہو گی۔ قاری صاحب جو آگئے ہیں۔“ ہاں جان محمد صاحب! اس بندے کو دیکھیے سترہ اٹھارہ میں دُور سے صرف ووٹ ڈالنے آیا ہے۔ قاری صاحب کو کھانا کھلائے بغیر نہیں بھیجیں گے۔ آج کی بریانی بڑے حاجی پکوان کی ہے ، وہ بھی بڑی اسپیشل ہے۔ شامی کباب بھی قاری صاحب کو کھلانے ہیں، اونٹ کے گوشت کے جو ہم نے خاص خاص مہمانوں کے لیے رکھتے ہیں۔“ ”ہاں ذاکر شامی کباب کھلانے بھی ہیں اور ایک ڈبے میں پیک کر کے دینے بھی ہیں قاری صاحب کے گھر والوں کے لیے۔“ جی سریہ بھی کریں گے۔“ ذاکر مانانے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا کہ کہیں ووٹر بھاگ نہ جائے۔ وہ مجھے کندھے سے پکڑ کر پولنگ بوتھ کی طرف چلے۔ میں کوشش کے باوجود ان سے ہاتھ چھڑانہ سکا۔ ان کے ساتھ ساتھ رہنا میرے لیے بڑی بے چینی کا باعث تھا۔ ذاکر مانا نے لائن میں بہت آگے کھڑے اپنے بھانجے کو دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف ہٹایا اور مجھے اس کی جگہ پر فٹ کر دیا۔ مجھ سے آگے قطار میں صرف دو ووٹر تھے ۔ ذاکر نے مجھے یاد دلایا تالے پر مہر لگانی ہے۔ میں نے اس کے جواب میں خاموشی اختیار کر لی۔ الیکشن بوتھ میں جاکر میں نے تالے پر مہر نہیں لگائی۔ مجھے جان محمد کو ووٹ نہیں دینا تھا۔ ووٹ ڈال کر میں نے ذاکر کو نظر انداز کر دیا۔ ایک دوسرے راستے سے اپنے پرانے دوستوں کے استقبالیہ ٹینٹ میں آگیا۔ یہ اُمید وار سعید کا ٹینٹ تھا۔ یہاں میرے کئی مخلص دوست موجود تھے۔ میرے انگوٹھے پر سیاہی کا نشان موجود تھا۔ میں نے اشارے سے کہہ دیا ووٹ سعید صاحب کو ڈالنے آیا ہوں۔ دوستوں نے بڑی گرمجوشی سے میرا استقبال کیا۔ عثمان تو لپٹ گیا۔ وہ میرے شروع کے درس قرآن کو کامیابی سے پر تین چار گھنٹے بعد واپس جانا ہے۔ ان کے آرام کا بھی خیال کیا جائے۔“ پھر اپنے ایک دوست کو ایک طرف لے گیا۔ مجھے بعد میں پتا لگا کہ اس نے ایک مشہور کیٹر نگ سروس سے بریانی کے آٹھ دس پیکٹ لے آنے کی ہدایت کی تھی۔ عثمان کے گھر پر کھانے کے بعد کچھ دیر تک دوستوں سے گپ شپ رہی۔ سب نے محسوس کیا کہ الیکشن میں میری کنویسنگ اور گھر گھر جاکر لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش اس سال نہ ہو سکی تھی، پھر بھی سب جان محمد مانا کے خلاف سعید صاحب کی کامیابی کے لیے پر امید تھے۔ میں اپنے گھر لوٹ گیا۔ تھک گیا تھا۔ گھر جا کر رات کا کھانا بھی ٹھیک سے کھانہ سکا اور سو گیا۔ دوسری صبح دفتر کے لیے جلد اٹھنا، بچوں کو اسکول روانہ کرنا، شام کو واپسی میں گھر کی ضروری چیزیں خریدنے کی اُلجھنوں میں یاد ہی نہیں رہا۔ شہر میں کسی نباہ رہا تھا۔ یہاں ٹھہر نا مناسب نہ تھا، ذاکر مانا یقیناً میری تلاش میں ہو گا۔ ابھی ظہر کی اذان نہیں ہوئی تھی میں چند ساتھیوں کے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑا۔ مسجد میں میرا استقبال جس طرح کیا گیا خود کو بہت بڑی شخصیت محسوس کرنے لگا۔ امام صاحب نے مجھ سے مصافحہ اکتفا نہیں کی معانقہ بھی کیا۔ پرانے لوگوں کے ساتھ نئے چہرے بھی دیکھنے کو ملے۔ کئی ایک نے اپنے گھر کھانے مدعو کر لیا لیکن میں نے عثمان کی دعوت قبول کی۔ عثمان نے بلند آواز میں مسجد کے ساتھیوں کو مخاطب کیا۔ ”جن احباب کو قاری صاحب سے ملنا ہو ، وہ میرے گھر آجائیں۔ دو پہر کا کھانا بھی میرے ساتھ کھا لیں۔ قاری صاحب کو پر دوست کو فون بھی نہ کر سکا۔ مجھے خبر بھی نہیں ہوئی کہ اپنے حلقے کا انتخاب کس نے جیتا .. دفتر سے آئے تین چار گھنٹے گزر گئے۔ رات کا کھانا کھا کر نماز سے فارغ ہوئے چند لمحے ہوئے تھے کہ گھر کے پاس ایک کار رکنے کی آواز آئی۔ مجھے کسی کے آنے کی کوئی توقع نہ تھی۔ سوچا پڑوسی کے گھر کوئی آیا ہو گا۔ اس بستی میں رات گئے کسی وزیٹر کے آنے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ میر اخیال غلط ثابت ہوا۔ ڈور بیل میرے گھر کی بجی اور میری زبان سے بے ساختہ نکلا۔ اللہ خیر ” دروازہ کھولنے گیا تو بھی یہ سوچ رہا تھا کوئی اجنبی مکان کی تلاش میں ہو گا اور مجھ سے رہنمائی مانگ رہا ہو گا۔ پیپ ہول سے احتیاطاً باہر دیکھا۔ سیکورٹی کا یہی اصول ہوتا ہے۔ مجھے سب سے پہلے ذاکر مانا کی شکل نظر آئی۔ کار کی ہیڈلائٹس میں دوسرے چہرے جن میں جان محمد مانا بھی تھے ، لو یہ تو میرے گھر ہی آئے ہیں۔ اتنالمبا سفر کر کے میرے مکان پر آنے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ دروازہ کھولا تو ذاکر مانا نے لیک کر مجھے باہر بھینچ لیا۔ ان کا انداز مصافحے سے زیادہ معانقے کا تھا۔ قاری صاحب! السلام و علیکم۔ “ انہوں نے زور سے مجھے اپنے سینے سے لپٹا لیا۔ میں معانقے کے لیے تیار نہ تھا۔ میری ہڈی پسلی چٹھنے لگی، پھر جان محمد مان کی پر جوش آواز سنائی دی۔ قاری صاحب! امیر اسلام بھی قبول کیجیے۔ کیا گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں دیے گے ؟“ میں نے کہا۔ ”بسم اللہ ۔ آیئے آیئے! اتنی دور سے آپ لوگ آئے ہیں۔ ایک منٹ انتظار فرمائیں۔ کمرے کو درست کر دوں۔“ چھوڑمیں قاری صاحب ! کمرہ ٹھیک ہی ہو گا۔ ہم کوئی اجنبی مہمان تو نہیں ہیں۔“ وہ میرے ساتھ ہی مکان میں داخل ہو گئے۔ ان کے پیچھے ان کے دو ملازم بھی تھے جن کے ہاتھ میں پھلوں کی سبھی ہوئی باسکٹ تھی ، کچھ سنہری پنی میں لیٹے ہوئے ڈبے۔ ذاکر مانانے بھی گاڑی کی کھلی ڈکی سے ایک تھیلی اٹھائی۔ میں حیران تھا کہ سب کیا کچھ ہو رہا ہے اور یہ کیوں آئے ہیں؟ سب لوگ صوفوں پر بیٹھے بھی نہ تھے کہ جان محمد نے ذاکر سے تھیلی لے لی اور پھولوں کا ایک بھاری قیمتی بار نکال کر میرے گلے میں تقریباً ڈال ہی دیا اور ذاکر نے فوراً اپنا قیمتی موبائل ہاتھ میں لے کر میری فوٹو اتارنے کی تیاری کرلی۔ میں ایک دم سے چیخ پڑا۔ نہیں نہیں، کوئی فوٹو نہیں ۔ یہ ہار میرے گلے سے نکالو۔ تم لوگ کیا کرنے جار ہے ہو میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ مجھے اچھا بھی نہیں لگ رہا۔ سب لوگ میرے پینے پر ٹھٹھک کر رک گئے۔ گھبرا کے اندرونی کمرے سے میرے دو بچے ڈرائنگ روم میں آگئے۔ اندر کمرے سے ماں اور بیوی کی خوف زدہ آوازیں اس کمرے میں بھی آگئیں۔ بیشتر اس کے کہ میں گھر کے لوگوں کو خاموش اور پر سکون رہنے کی ہدایت کرتا۔ ذاکر مانانے بلند آواز میں کہا۔ بھا بھی اماں جی ۔ خیر ہے سب، ہم قاری صاحب کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔ ہمارے ہر دلعزیز کو نسلر جان محمد مانا الیکٹ ہو گئے ، کامیاب ہو گئے۔“ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بغیر پھلائے غباروں کا بڑا پیکٹ بچوں کے حوالے کر دیا۔ میں بڑی کش مکش میں چلا گیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ میں صورت حال کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ پھلوں کی بڑی باسکٹ اور مٹھائی کے بڑے ڈبے ڈائننگ ٹیبل پر رکھ دیئے گئے۔ مٹھائی کا چھوٹا ڈبا کھول کر جان محمد مانانے ایک گلاب جامن نکالا اور میری طرف بڑھے گویا مجھے اپنے ہاتھ سے کھلانا چاہتے تھے۔ گو مگو کی اس کیفیت میں سب کچھ ہوتے دیکھ کر بھی کئی باتوں پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ جان محمد نے میرے نانا کہنے کے باوجود مٹھائی کا ایک ٹکڑا میرے منہ میں ڈال دیا۔ گلاب جامن کی مٹھاس کو زبان نے چکھ لیالیکن ذہن میں بھی گھنٹیوں نے مجھے چکر ادیا۔ میں صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔ جان محمد کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی سنائی دے رہی تھی۔ قاری صاحب !ما شاء اللہ آپ اتنی دور سے ہمارے پاس ووٹ ڈالنے آئے۔ میں جیت گیا، میر احق بھی بنتا تھا کہ آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے طویل سفر کروں اور آپ کا منہ مٹھائی سے بھر دوں۔“ شکریہ مانا صاحب ! مگر میر اتو ایک ووٹ تھا، آپ کے دوسرے سینکڑوں ووٹر بھی تھے۔ کیا آپ نے سب کا شکریہ ادا کیا ؟ سب کے لیے پھل، مٹھائی ؟“ ”بالکل نہیں قاری صاحب ! آپ تو میرے محسن ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہی نہیں کہ آپ نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے کار نامہ… اکیسا کارنامہ ؟ میرے منہ سے نکلی آواز مجھے خود عجیب لگی۔ ” بتاتا ہوں قاری صاحب بتا تا ہوں۔ آپ نے گلے میں ڈالا میر اہار اتار پھینکا۔ ذاکر تصویریں کھینچنے والا تھا، آپ نے سختی سے روک دیا۔ میرے ہاتھ سے مٹھائی بھی ٹھیک طرح کھائی نہیں۔ کیا کہوں قاری صاحب ! آپ جانتے ہیں۔ تین بلدیاتی الیکشنوں میں مسلسل لڑتا آیا ہوں لیکن بد قسمتی سے ہار رہا ہوں۔ اس سال جیت گیا ہوں۔ خوشی تو ہو گی نا ضرور ہونی چاہیے مانا صاحب ! آپ نے کامیاب مہم چلائی ہو گی، اس لئے لوگوں نے آپ کو ووٹ ڈالے۔ آپ الیکٹ ہو گئے۔ میرا کیا کارنامہ… میرا کیا مقام ؟ آپ نے ناحق یہ زحمت کی۔“ ھڑکیں قاری صاحب! اصل بات تو آپ کو معلوم ہی نہیں۔ ذاکر تم بتائو ، کیا ہوا۔“ جی، میں بتاتا ہوں۔ قاری صاحب ماشاء اللہ نیک آدمی ہیں۔ دین دار، فرض شناس۔ اچھے شہری، مسجد میں درس دینے والے۔ سب کے کام آنے والے اٹھارہ میں دُور سے ووٹ ڈالنے آئے اور یہ آپ کا قیمتی ووٹ “ اب جان محمد نے بات اچک لی۔ اب وہ گفتگو کرنے لگے۔ ” قاری صاحب میں آپ کے ووٹ سے تو جیتا ہوں یہ سیٹ میرے دوٹ میرے مخالفین کے ووٹوں سے زیادہ تھے۔ کتنے زیادہ ایک ووٹ، صرف ایک ووٹ زیادہ تھا میرا۔“ کیا۔ ایک ووٹ ؟ ” میری زبان سے حیرت بھری آواز نکلی۔ ہاں قاری صاحب! ایک ووٹ، ایک ووٹ سے جیتا ہوں اور وہ ووٹ آپ ہی کا ہو گا۔ ہارے ہوئے اُمید وار نے دوبارہ گنتی کروائی۔ آپ نے اتنی دور سے آکر ہمارے پولنگ بوتھ کو اعزاز بخشا۔ آپ کے مبارک قدم ہمارے لیے خوش خبری لے آئے۔“ میں صوفے میں دھنس گیا۔ جان محمد مانا کیا سمجھ رہے تھے اور حقیقت کیا تھی۔ میں نے تو ان کے حق میں پر چی ڈالی ہی نہیں تھی۔ جان محمد کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔ قاری صاحب ! آپ نے تو ہم پر احسان کیا ہے۔ ہم نے تو آپ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اب آپ کچھ فوٹو میرے ساتھ کھنچوالیں۔ یہ نہیں فیس بک پر ڈال دوں گا اور میر اکار ڈرکھ لیں۔ کوئی ضرورت ہو، کیسی ہی مشکل ہو ، آپ ہمیں یاد کریں۔ کسی بھی تھانے کا کام ہو ، کسی کی ضمانت کروانی ہو ، مجھے سب لوگ جانتے ہیں۔ پولیس ہیڈ کوارٹر میں میرے بھائی کی اپروچ ہے۔ آپ کبھی ہمیں خدمت کا موقع تو دیں۔“ جان محمد کی لچھے دار تکبر بھری گفتگو مجھے زہر لگنے لگی۔ وہ تو مسکرا مسکر اکر مجھ پر نثار ہو رہے تھے اور میں پریشان تھا کہ اس بلا سے کیسے جان چھڑائوں۔ تھوڑی دیر بعد وہ رُخصت ہوئے۔ پھلوں کی باسکٹ اور مٹھائی کا ڈبا اپنی تمام لذتوں کے باوجود مجھے کڑوا گھونٹ لگ رہا تھا۔ میں نے سوچا میری ماں اور میری بیوی میرے ساتھ ووٹ ڈالنے جاتے تو ان کے دو ووٹوں سے نتیجہ تبدیل ہو جاتا اور کو نسلر کی سیٹ پر ایک غیر موزوں شخص منتخب نہ ہو تا۔ دل میں اُٹھتی میں مجھے اس طرح بے چین نہ کر دیتی۔ کانٹوں کی فصل تو ہم نے خود کاشت کی ہے۔ تو پھول تو دیکھنے کو نہیں ملیں گے ۔ میں نے کمرے میں ہلکی روشنی کر کے اپنی آنکھوں کو دونوں ہتھیلیوں سے ڈھانپ لیا۔