Sunday, October 6, 2024

Karab

رات کے اس پہر شدید پیاس سے اس کی انکھ کھل گئی- سائیڈ ٹیبل پر رکھا جگ خالی تھا- وہ جگ لے کر کچن کی جانب بڑھی کہ ایک آواز نے اس کے قدم جکڑ لیے- وہ شاید کسی کی ہچکیوں سے رونے کی آواز تھی وہ اگے بڑھی ،آواز واضح ہوتی چلی گئی- اس نے قدم اماں کے کمرے کی طرف بڑھا دیے- ذرا سا دروازہ دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا -کمرے کے وسط میں جائے نماز بچھائے اماں زار و قطار رو رہی تھی- ہاتھ دعائیہ انداز میں بلند تھے – آنکھیں بند اور کانپتے لبوں پر نہ جانے کون سی دعائیں مچل رہی تھیں- ابھی شام تک تو ٹھیک ہی تھی- اب ایک دم ان کا چہرہ جھریوں زدہ دکھائی دینے لگا تھا – اطمینان اور مسکراہٹ کی جگہ کرب نے لے لی تھی- وہ بے حد تکلیف میں تھی -اسے یہ منظر مانوس سا لگا -بالکل ایسا ہی منظر اماں جیسی ضعیف عورت ایک دم سے کرم زدہ سے کرب زدہ- قید خانے والا وجود – وہ ذہن پر زور دینے لگی -اور پھر منظر واضح ہونے لگا ابھی چند دنوں پہلے کی ہی بات تھی –

بے بےکا چہرہ خوشی سے کھلا جا رہا تھا -بار بار کچن میں آ کر اسے کھانے کے متعلق ہدایات دے رہی تھیں- تو کبھی خود بھی چھوٹے موٹے کام کروانا شروع کر دیتی – ثمرہ کو ان کی بے تابی دیکھ کر عجیب سی چڑ ہو رہی تھی – یہ نہیں کہ وہ کام چورتھی یاں مہمان نواز نہ تھی – گھر میں جتنے بھی مہمان آ جاتے وہ خندہ پیشانی سے استقبال کرتی- لیکن شکور اور شائستہ کے آنے کی خبر سن کر ہی اس کا موڈ آف ہونے لگتا – بے بے کے چھوٹے بیٹے اور چھوٹی بہو بے حد لاڈلے – ان کے آنے کی خبر سن کر سارا سال چہرے پر چھایا اداسی کا تاثر لمحوں میں زائل ہو جاتا – اور جتنی بھی خدمت کر لیتی یاد ان کو ہی کیا جاتا- وہ اس بات پر تپ جاتی خدمت میں کروں اور دعا وہ مفت میں وصولیں- سارا غصّہ شمس کے سامنے نکلتا – تمہیں دعا کے لیے کہنے کی ضرورت ہی نہیں پگلی – تمہیں تو خدمت کے بدلے میں بھی جزا مل جائے گی- اماں کو پتہ ہے کہ وہ نالائق ہیں انہیں دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہے – نرم مزاج شمس محبت سے اسے سمجھاتے- بہلائیے نہ مجھے، وہ اور روٹھ جاتی -اگر ان کو نالائق مانتی تو یوں ان کےآنے پر خوش نہ ہوتی- صاف ناراضی ظاہر کرتی، ایک اور منطق میں ضرور دیتی- وہ مسکرا دیتے – مائیں ناراض نہیں ہوا کرتی ، مجھ سے تو وہ ہر وقت ناراض رہتی ہیں -وہ منہ بناتی- جسے تم ناراضی کہتی ہو یہ مان ہے، وہ پیار بھرا مان، جو وہ تم پر کرتی ہیں- وہ کتاب ایک طرف رکھ دیتے – کیونکہ وہ جانتی ہیں شائستہ پر اس سب کا کچھ اثر نہیں ہوتا لیکن تم انہیں کبھی مایوس نہیں کرو گی – پتہ ہے مجھے کیا لگتا ہے تھک ہار کر وہ ان کے قریب آ جاتی – ہاں، کیا لگتا ہے ؟ وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے نرمی سے پوچھتے- کہ آپ یہ موٹی موٹی کتابیں صرف میری باتوں کا جواب دینے کے لیے پڑھتے ہیں- کبھی جو مجھے جیتنے ہی دیا ہو- وہ منہ بناتے ہوئے بولتی اور وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑتے-

بے بے بھابھی نے تو گھر بہت خوبصورت سیٹ کر لیا ہے – شائستہ نے حسب عادت تاک جھانک شروع کر دی- بے بے اس کی بات پر مسکرا دیں – محنت بھی تو اتنی کرتے ہیں میاں بیوی – ایک پل جوآ رام سے بیٹھتے ہوں – دن رات بچوں کے مستقبل سے جوڑ لیے ہیں دونوں نے- بے بے نے ان کے لیے اپنے ہاتھوں سے سیب چھیلتے ہوئے فخر سے بتایا- تو کیسا ہے ؟دکان کیسی جا رہی ہے ؟بے بے نے شکور کے بالوں میں شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا- طبیعت تو ان کی ٹھیک نہیں رہتی ، دکان کیا خاک چلتی- اوپر سے قرضہ چڑھ گیا ہے- شائستہ نے ایک مرتبہ پھر ناکامی کا رونا شروع کر دیا- یہ پہلا کاروبار نہیں تھا – وہ اس سے پہلے بھی کئی بار قسمت آ زما چکے تھے- لیکن دونوں کی فضول خرچی کی عادت کے باعث رقم بچنے کی بجائے ڈوب جاتی تھی – بے بے کے ہاتھ ایک دم رکے تھے دکان نہ چلی خیر ہے؟ قرض لینے کی کیا تک بنتی تھی- میں بھی ہر ماہ تمہیں کچھ نہ کچھ بھجوا دیتا ہوں – زمین کی رقم بھی آ جاتی ہے- جب ہمارا گزارا ہو سکتا ہے- تو تمہارا کیوں نہیں؟ شمس کو غصہ آنے لگا پر دبا گئے – تو ہم کون سا عیاشی کرتے ہیں، یہی بچوں کے روزمرہ کے اخراجات اور تعلیم- شائستہ تلخ لہجے میں بولی- بھابھی آپ کے دو بچے، ہمارے پانچ ، اخراجات بھی زیادہ ہیں – جب ہمارا گزارا ہو سکتا ہے تو اپ کا کیوں نہیں؟ شمس سے اب غصہ برداشت نہیں ہو رہا تھا- اب چپ کیوں بیٹھے ہو؟ شائستہ نے شکور کی طرف دیکھتے ہوئے تیز لہجے میں کہا – جو بات کرنے ائے ہیں صاف صاف کریں- وہ شکور کو اکسانے لگی ، باتیں بھی ہو جائیں گی پہلے کھانا تو کھا لو – بے بے کا دل نہ جانے کیوں بے طرح دھڑکنے لگا- جاؤ ثمرہ بیٹا کھانا لگا دو- انہوں نے کمزور لہجے میں ثمرہ کو ہدایات دیں – وہ سر ہلا کر اندر چلی گئی – نہ بے بے کھانے کا چھوڑ- میرا خیال ہے پہلے کام کی بات کر لیتے ہیں -شکور کا سر جھکا اور لہجہ عجیب بوج ل سا ہو گیا – صاف صاف بات کر شکور، اب کیا مسئلہ ہے تیرا – شمس نے اس بار قدر دھیمے لہجے میں پوچھا- لالا اب ہمارا گزارا نہیں ہوتا- بس اسی لیے ہم دونوں نے سوچا ہے کہ نہر والی زمین بیچ دیں – بے بے کا منہ کھل گیا، شمش تو اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ،تیرا دماغ خراب ہے؟ اب پرکھوں کی زمین بیچے گا؟ بے بے کو بھی غصہ آ گیا – پرکھوں سے زیادہ زندہ جی اہم ہیں بے بے – پھر ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ لالا اور بھابھی کی طرح ہمارا بھی اچھا گھر ہو اور بچے اعلی تعلیم حاصل کریں- شائستہ نے شکور کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے خود بات سنبھال لی – ہاں تو لالا اور بھابھی کی طرح محنت کرو نا- بچوں سے ان کا حق کیوں چھین رہے ہو؟ بے بے پہلی بار تلخ ہو گئیں – بے بے شائستہ سے اس طرح بات مت کریں – ورنہ شکور کا جھکا سر یکلخت ہی اٹھا تھا – شائستہ کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری، بےبے تو بیٹے کا چہرہ دیکھتی رہ گئیں – اور پھر میں بس آپ کو بتانے آیا تھا وہ اٹھ کھڑا ہوا – تم اب اس لہجے میں بات کرو گے ہم سے ؟ شمس غصے سے کانپنے لگے – میری اپنی زندگی ہے میں جس طرح گزاروں- آخرآپ لوگ کون ہوتے ہیں ؟مجھ پر یا میرے گھر والوں پر حکم چلانے والے ، شکور کا لہجہ تلخ تھا- شمس افسوس سے اسے دیکھتے رہے – شرم کر شکورے تیرے ابا کے بعد اس بھائی نے ہی تجھے اتنا بڑا کیا- اور سنبھالا کہ آج تو اپنے گھر والا ہونے پر فخر کر رہا ہے- بے بے نے اسے شرم دلائی – بے بے ساری عمر تو میرے ساتھ ایسے ہی زیادتی کی ہے- آپ نے دعا تو صرف لالا اور بھابھی کے لیے ، باہر سے آتی ثمرہ نے حیرت سے اس کے الفاظ سنے تھے – میں اور میری بیوی تو اول روز سے آپ سب کے لیے خار کی طرح تھے- میری ہی غلطی ہے کہ میں دیوانہ وار یہاں بھاگا چلا آتا ہوں- شکور نے غصے سے کہا تو شمس نے لب بھینچ لیے – چلو شائستہ اب اس گھر میں موت تک قدم نہیں رکھنا ہم نے- اس نے پل میں فیصلہ سنایا بیوی کا ہاتھ تھاما اور چل پڑا- شمس خاموش رہے بےبے دروازے تک اس کے پیچھے جاتی روکتی رہ گئی تھیں – وہ روز بے بے کے لیے پانی گرم کر کے ان کے کمرے میں رکھ آتی – آج نہ جانے وہ کیسے بھول گئی تھی– انہیں سردی میں گرم پانی پینے کی عادت تھی – رات کے جانے کس پہر نکھ کھلی تو یاد آیا – وہ اس وقت اٹھ گئی ، پانی گرم کر کے اماں کے کمرے میں آ ئی تو بے بی کو ٹھنڈے ٹھار فرش پر چٹائی پر بیٹھے دعا میں مصروف دیکھا -اسے ایک دم ہی ضعیف لگنے لگیں – چہرے پر جھریوں کے نشان عجیب درد سے لبریز لگے ،وہ پانی رکھ کر خاموشی سے واپس پلٹ گئی-یہ تو بہت برا ہوا – ہفتہ اتوار وہ اماں کی طرف گزارتی تھی- اس نے اتے ہی ماں کو ساری خبریں سنائی تھیں – برا کیوں ہوا امی- جان بچی سو لاکھوں پائے – اس نے شکر کے انداز میں ہاتھ اٹھائے – نا کام کےکاج کے – دشمن اناج کے – اماں نے مسکراتے ہوئے اسے سمجھایا – اس طرح نہیں کہتے بیٹا- ماں کا درد ابھی تم کہاں سمجھ سکتی ہو؟ پھر بھی اماں جس طرح کے بہو بیٹے ہیں بے بے ان کے بغیر ہی بھلی ہیں- ہر وقت مانگنے ہی آئیں گے – کبھی جو بے بے کا خیال آیا ہودونوں کو- وہ منہ بناتے ہوئے بولی- یہی تو مسئلہ ہے ،ماں کو بھلا اولاد سے کیا چاہیے ہوتا ہے،، ذرا سی توجہ ،وقت اور ان کا آپس کا سلوک – ورنہ زندگی موت بن جاتی ہے، اماں کے لہجے میں دکھ بھرا درد تھا – وہ اٹھ کر میز سے اپنی تسبیح اٹھاتے ہوئے بولی ، تم کوشش کرو دیور بھابھی کو منانے کی اور شمس کو بھی مناؤ – صلہ رحمی انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے- رشتے ناتے بنے رہیں تو ہی زندگی خوبصورت لگتی ہے- وہ اب نماز کے لیے جائے نماز بچھا رہی تھی- اتنے سال کٹ گئے ، جانے کتنی گھڑیاں باقی ہیں، اس بوڑھے وجود کی- تمہیں اللہ پاک نے یہ اختیار دیا ہے کہ اسے اس کرب سے نجات دلا دو – یقین کرو تمہاری بات شمس سمجھے گا ،اللہ تم دونوں کے لیے آسانیاں کرے آ مین – وہ نماز شروع کر چکی تھیں -ثمرہ خاموشی سے ان کی بات کو سوچتی باہر نکل آئی – بھابھی حمزہ لوگ نہیں آئے اس دفعہ، رات کے کھانے کے بعد اقرا سبز چائے لے کر آئی تو بے اختیار پوچھ بیٹھی – حمزہ اس کے چھوٹے بھائی تھے- الگ گھر میں رہتے مگر ہفتے یا اتوار کو ضرور اماں کے پاس آتے – اس بار وہ اس لیے بھی حیران تھی کہ گھر والوں سے ہمیشہ کی طرح حمزہ کے بارے میں کوئی بات نہیں سنی تھی – ورنہ تو سب ہی خوش ہوا کرتے تھے- امی نے آپ کو نہیں بتایا بھابھی نے حیرت سے پوچھا- وہ نفی میں سر ہلا گئی- حمزہ کچھ دن پہلے آیا تھا حمزہ اور علی کی کسی بات پر لڑائی ہو گئی – بس تب سے بات چیت بند ہے اماں کو بھی فون کرنے سے منع کر دیا ہے علی نے -خود حمزہ کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ اماں کا حال پوچھے وہ افسوس سے بتانے لگی- میں نے علی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی ہے لیکن اس کے لہجے میں ناکامی جھلک رہی تھی- لیکن بات کیا ہوئی؟ وہ حیران تھی -حمزہ کو اس گھر میں اپنے حصے کے پیسے چاہیے- وہ بھی فورا اور علی کے پاس اتنی رقم نہیں ہے- حمزہ چاہتا ہے وہ گھر بیچ دے اقرا کے لہجے میں دکھ تھا- وہ ویسے ہی نرم مزاج اور احساس سے لڑکی تھی – ثمرہ نے بد دلی سے چائے کا کپ میز پر رکھ دیا-اور رات کے اس پہر اماں کو یوں کرب زدہ دیکھ کر اسے بے اختیار بےبے کی یاد آ گئی -وہ واقعی اس وقت اسے قریب المرگ محسوس ہوئی تھی- جیسے اس کی اپنی امی -سب کچھ کس قدر صاف ہو گیا تھا -دل کی کدورتیں ایک انسان ہی ڈالتا ہے دوسرا انسان آسانی سے صاف کر سکتا ہے- اگر اللہ اسے توفیق دے اگر وہ کرنا چاہے تو- اقرا یہ ثمرکما رہی تھی- اللہ نے اسے یہ توفیق دی تھی وہ اس توفیق سے جزا پا رہی تھی اور وہ خود وہ بھی تو بے بے سے پیار کرتی تھی کیونکہ ان کے کرب میں لپٹی جھڑیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی- وہ دبے پاؤں وہاں سے پلٹ آئی – صبح صبح کیوں جا رہی ہو خیریت تو ہے نا ؟اگلے دن صبح اسے جانے کے لیے تیار دیکھ کر اماں کا دل ہول اٹھا- گھر جا رہی ہوں اماں – ساری رات بے بے کے پریشان چہرے نے سونے نہیں دیا- اب جا کر شمس کو راضی کرنے کی کوشش کروں گی- جو بھی ہو معاملہ مل جل کر حل کر لینا چاہیے – قطع تعلق کر لینا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ان دونوں کو تو بوڑھی بے بے کے کرب کا اندازہ ہی نہیں – میں انہیں کم از کم ایسے نہیں دیکھ سکتی – ان کے دل میں اطمینان بھرتی وہ گھر سے نکل آ ئی – اماں حمزہ کا فون آ یا ہے اقرا کی خوشی سے بھرپور آواز نے ان کی آنکھیں نم کر دی تھیں کرب ایک دم ہی سکون میں بدل گیا تھا-

Latest Posts

Related POSTS