والد صاحب گھومنے پھرنے کے بہت شوقین تھے۔ ایک روز اپنی خالہ سے ملنے لاہور گئے۔ خالہ کی بیٹی مینا ان کو اچھی لگی۔ سوچ لیا کہ شادی مینا سے کریں گے۔ ان دنوں ان کی والدہ ان کی دُلہن ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ ان کی شادی کسی امیر گھرانے میں کرنا چاہتی تھیں تاہم بیٹے کی خوشی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وہ بہن کے گھر چلی گئیں اور مینا کی ماں نے ہاں کہہ دی۔ ابو کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا کہ جس لڑکی کو ایک نظر میں پسند کر لیا تھا وہی مل گئی تھی۔ ان دنوں ابو کی تنخواہ تین سوروپے تھی۔ وہ ساری تنخواہ دادی ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتے تھے لیکن شادی کے بعد ان کے ذاتی اخراجات بڑھ گئے۔ وہ دادی سے رقم مانگتے ، بیٹے کا بار بار پیسے مانگنا ہماری دادی کو اچھانہ لگتا۔ اسی بات پر زندگی میں پہلی بار ابو اور دادی میں جھگڑا ہوا۔ دادی نے ذمہ دار بہو کو سمجھا اور خالہ کی بجائے ساس بن گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ نئی نویلی دلہن کا دیوانہ ہے، اس کے کہنے سے فضول خرچیاں کرنے لگا ہے۔ بہو حالانکہ ان کی سگی بھانجی تھیں، پھر بھی وہ ان کو بات بے بات ڈانٹ دیتیں۔ امی سارے گھر کا کام کرتیں اور دادی ان کو ہر وقت پھوہڑ اور بد سلیقہ کہہ کر رنجیدہ کرتیں۔ سال بعد میری بڑی بہن، آپا جیا پیدا ہو گئیں۔ اب چھوٹی چھوٹی چپقلشوں کے باوجود گھر کے حالات بہت اچھے تھے۔ پہلوٹی کی بیٹی ہوئی تو سب خوش تھے۔ گھر میں پہلی اولاد آئی تھی۔ ابو تو خاص طور پر مسرور تھے اور بیٹی کواللہ کی رحمت کہتے تھے کہ اس کی پیدائش کے فورا بعد ان کی تنخواہ میں تھوڑا سا اضافہ ہو گیا تھا۔ گھر میں بچے کا اضافہ ہو تو اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ میرے والدین کو بھی جیا کے لئے رقم در کار ہوئی۔ ابو تنخواہ تو ساری شروع سے ہی دادی کے حوالے کر دیا کرتے تھے اور اپنی ضرورت کے لئے بعد میں ان کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش کے بعد بیٹی کی چھوٹی چھوٹی ضروریات پوری کرنے کے لئے والد کو رقم کی ضرورت پڑنے لگی جبکہ دادی اس بات کو بہو کے چونچلے خیال کرتیں۔ گھر میں دوسری بار لڑائی اس بات پر ہوئی کہ وہ جیا کے لئے کھلو نالائے تھے۔ دادی نے کھلونا دیکھ کر پوچھا۔ بیٹا یہ کتنے کا ہے۔ والد نے جب قیمت بتائی دادی کی پیشانی پر شکن پڑ گئی، بولیں۔ عابد ! بچی پر ابھی سے اتنا خرچ کرنے کی بجائے اس کے مستقبل کے لئے بچاو۔ اس بات پر ابو کو غصہ آگیا۔ انہوں نے اونچی آواز میں کہا کہ آپ میری بیوی سے تو خار کھاتی تھیں ، اب میری بچی سے بھی جلنے لگی ہیں۔ بس اس دن کے بعد سے ہمارے گھر کا سکون ہی ختم ہو کر رہ گیا۔ جیا کے بعد حیا، پھر میں پیدا ہوئی۔ اب تین بچیاں ہو گئیں تو اخراجات اور بھی بڑھ گئے جبکہ آمدنی میں اضافہ نہ ہوا۔ مہنگائی بھی بڑھ گئی تھی، گھر کی سر براہ اب بھی دادی تھیں۔ وہ ساری تنخواہ ابو کی ہر ماہ کی دو تاریخ کو لے لیتیں اور اپنی سمجھ اور حساب سے گھر کا خرچہ چلا تیں۔ امی ابھی تک ان کی دست نگر تھیں اور ابو بھی۔ ایک روز والدہ نے کہا کہ یہ بڑی بی کب تک تمہاری تنخواہ پر ناگ بن کر رہیں گی، ان کو ریٹائر ڈ کرو اور تنخواہ مجھ کو دو میں تمہاری بیوی ہوں اور بچوں والی ہوں، گھر کا خرچہ میں چلاوں گی اور ان کو اتناجیب خرچ دے دیا کروں گی جتنی ان کو ضرورت ہو گی۔ یہ بات دادی نے بھی سُن لی اور رو کر بولیں۔ ہاں تم بھی اس رقم میں خرچہ چلا کر دیکھ لو۔ میں جس طرح کفایت شعاری سے اس رقم میں سارا مہینہ پورا کرتی ہوں، میرا دل جانتا ہے۔ میں تو اپنے اوپر روپیہ خرچ نہیں کرتی، مدت سے اپنا کوئی جوڑا بنا یا، نہ جوتا لیا۔ میرے کیا اخراجات ہیں ، سب اخراجات تو تم ہی لوگوں کے ہیں۔ امی بولیں۔اگر سارے اخراجات ہمارے ہیں تو ہم کو خرچ کرنے دیں۔ آپ کیوں میرے میاں کی کمائی کو ہر ماہ سنبھال لیتی ہیں ؟ دادی کے رونے پر میرے والد کو رنج ہوا۔ وہ ماں کے بہت فرمانبردار تھے اور دادی بھی ان سے بہت پیار کرتی تھیں۔ وہ ہماری بزرگ تھیں اور گھرانے کی بدخواہ بھی نہ تھیں۔ پس والد نے بیوی کو ماں کے سامنے بولتے دیکھا تو غصے میں ان پر ہاتھ اٹھادیا، بعد میں انہیں افسوس بھی ہو الیکن جو کچھ ہو نا تھا وہ ہو چکا تھا۔ جب انسان مشکل میں ہوتا ہے تو وہ ہر کام کر گزرتا ہے جس میں چھٹکارے کی ذراسی بھی امید ہو۔ میری ماں کو بھی کسی نے تعویذ گنڈوں کی راہ دکھائی، سو وہ ادھر کو چل پڑیں۔ وہ ابو کو پہلے جیسادیکھنا چاہتی تھیں، اس غرض سے انہوں نے کسی بابا سے تعویذ لئے اور گھر میں چھپادیئے۔ کسی طرح یہ تعویذ میری دادی کے ہاتھ لگ گئے۔ پھر تو جیسے طوفان آ گیا۔ دادی نے امی سے جھگڑا کیا۔ امی ہم کو لے کر میکے آگئیں۔ جب میرے والد گھر آئے ، دادی نے جانے ان سے کیا کہا کہ وہ ہمیں لینے نانی اماں کے گھر نہ آئے۔ کافی دنوں کے انتظار کے بعد بالآخر نانی نے خود ان کو فون کیا تب وہ آگئے اور خالہ کے سمجھانے پر ہم کو گھر لے گئے۔ وہ ہم کو بہت چاہتے تھے اور دادی بھی۔ دونوں ہی ہمارے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ دونوں پھوپھیاں بھی ہم پر فریفتہ تھیں۔ کچھ دنوں بعد جب میری چوتھی بہن شیا پیدا ہوئی تو امی اور ابو کے درمیان کشید گی اور بڑھ گئی۔ تنخواہ میں اضافہ نہ ہوا تھا۔ مسلسل ذہنی دبائو کی وجہ سے والد صاحب مزید چڑ چڑے ہو گئے۔ ایک دن کسی بات پر دادی اور ماں میں تلخ کلامی ہوئی تو ابو نے میری ماں کو بُری طرح پیٹ ڈالا اور گھر سے نکل گئے۔ امی نے سکون کی گولیاں کھا لیں ، وہ بے ہوش ہو گئیں۔ ہم چاروں امی سے لپٹ کر روتی رہیں۔ کافی دیر بعد امی کو ہوش آیا تو وہ ہم کو لے کر نانی کے گھر چل دیں۔ میری بڑی بہنیں ان حالات کی وجہ سے سہمی سہمی رہتی تھیں۔ نانی حیران تھیں کہ آخر میری بیٹی کے بنتے بستے گھر کو کیا ہو گیا ہے۔ تاہم ابو کے امی پر ہاتھ اُٹھانے کی وجہ سے ہمارے ننھیال والے ابو سے نفرت کرنے لگے۔ اپنا عضہ نکالنے کے لئے وہ ہمارے سامنے ہمارے والد کو بُرا بھلا کہتے۔ خالائیں تو ہمیں ہمارے سگے باپ سے ڈرا تیں۔ ایک دو بار ابو امی اور ہم کو لینے آئے تو ہم ڈر کی وجہ سے چُھپ گئے۔ ہماری خالائوں نے اپنا غصہ نکالنے کی وجہ سے ہمارے معصوم ذہنوں پر ظلم کیا کہ ہمیں ہمارے محبت کرنے والے باپ سے متنفر کر دیا۔ ہم ابو کو دیکھ کر رونے لگتے۔ ہمارے اس رویے نے میرے باپ کے ٹوٹے ہوئے دل اور بکھرے ہوئے دماغ پر اور بھی بُرا اثر ڈالا۔ حالات کچھ بھی سہی ، آخر ابو ، امی سے محبت تو کرتے تھے۔ ہمارے حالات بگاڑنے میں کچھ ہاتھ دادی کا بھی تھا۔ وہ بزرگانہ فراست اور حوصلے سے کام لینے کی بجائے بہو کو مورد الزام ٹھہرا دیتی تھیں۔ ابو بھی انسان تھے۔ وہ پریشانی کے سبب صحیح نہ سوچ پاتے اور ان کو بیوی میں عیب نظر آنے لگتے۔ اس طرح ہمارے گھر کا سکون تباہ ہو گیا۔ اس بار جو ابو ہم کو لینے نانی کے گھر آئے ، امی ان سے اس قدر خوفزدہ تھیں کہ انہوں نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ کوئی چارہ نہ دیکھ کر ابو نے عدالت میں ہمیں اپنی کفالت ہیں لینے کے لئے کیس کر دیا تو امی نے بھی طلاق مانگ لی۔ ابو نے شرط رکھ دی کہ جب تک میری بچیاں مجھ کو نہ دو گی ، میں تم کو طلاق نہ دوں گا۔ ماں کو اپنے جیون ساتھی پر جانے کیسا غصہ تھا کہ انہوں نے ہمیں ہمارے باپ کے حوالے کیا اور خود طلاق حاصل کرلی۔اس واقعہ کے بعد میرے والد کی ذہنی حالت اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ وہ کسی صورت اپنی شریک حیات کو طلاق نہ دینا چاہتے تھے جو ان کی چار بچیوں کی ماں تھی۔ بیوی کو طلاق دے دینے کے بعد وہ خود فراموشی کی کیفیت میں رہنے لگے تو رشتے داران کو پاگل کہنے لگے۔ تاہم اس پاگل پن میں بھی انہوں نے ہمیں فراموش نہ کیا۔ وہ ہمارا پہلے سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ پاگل نہیں ہیں بلکہ حالات نے ان کو خود سے بیگانہ کر دیا تھا، تاہم ننھیال والوں نے باپ کو خوفناک شخص بتا کر ہمارے معصوم ذہنوں کو جس طرح مضروب کیا تھا تو ہم اب بھی ان سے ڈرتے تھے ، تاہم ان کے سائے میں ہم کو خاص قسم کے تحفظ کا احساس بھی ہو تا تھا۔ اس احساس کی وجہ سے ہمارا خوف رفتہ رفتہ دور ہونے لگا اور ہم اپنے والد سے پھر سے پیار کرنے لگے۔ دادی ہم سے بہت محبت کرتی تھیں، پھوپھیاں بھی سارا دن ہماری ناز برداریوں میں گزار دیتی تھیں۔ ہم پھر بھی تنہائی محسوس کرتے کہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت سے محروم تھے۔ ہماری امی ہم سے بہت دُور تھیں۔ امی نے طلاق کے بعد پلٹ کر ہماری خبر لی اور نہ ہم کبھی ان کی طرف جا سکے۔ دونوں گھرانوں میں ایسی دُشمنی ہوئی کہ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو گئے۔ ہمارے رشتہ دار مشترک تھے، تبھی کبھی ننھیال والوں سے ملاقات ہو جاتی لیکن امی سے کبھی ملاقات نہ ہوئی اور نہ ہی ماں نے ہم سے کبھی ملنے کی کوشش کی ، جیسے وہ ہم سے بھی تنگ تھیں۔ لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ طلاق کے چار سال بعد امی کے گھر والوں نے ان کی شادی دوسرے شہر میں کر دی وہاں ان کے دو بچے ہیں۔ امی اپنی زندگی سے مطمئن ہیں لیکن ہماری زندگی اجیرن کر گئی تھیں۔ اگرچہ ددھیال میں ہم سے پیار کرنے والے بہت تھے لیکن ممتاکا کوئی نعم البدل نہیں۔ ماں کے پیار کی کمی نے میرے اندر ایک خلا پیدا کر دیا تھا۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لئے میں ہر میٹھے بول پر اعتبار کر لیتی ، ہر ہاتھ ملانے والے کو دوست سمجھتی اور کسی کی ذراسی بات میرے دل کا آئینہ چکنا چور کر دیتی۔ میری حساس طبیعت نے زندگی، میرے لئے مشکل بنادی جبکہ بڑی بہنیں اور چھوٹی بہن خوش باش زندگی گزار رہی تھیں۔ اب میں خوش رہنے کے لئے جھوٹے سہارے تلاش کرنے لگی۔ ان ہی دنوں میری ملاقات عفت سے ہو گئی۔ یہ لڑکی ہمارے محلے میں نئی نئی آئی تھی۔ اس نے ہمارے ہی اسکول میں داخلہ لے لیا اور میری ہم جماعت ہو گئی تو ہم ساتھ اسکول جانے لگے۔ بظاہر وہ اچھی لڑکی تھی۔ کہنے کو میری دوست بن گئی لیکن دل کے سمندر کی گہرائی کو ناپنا مشکل ہوتا ہے اس لئے میں بھی اس کی اصل کو نہ پہچان سکی۔ ہم نے ساتھ میٹرک کر لیا اور پھر ایک ہی کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ مجھ سے بہت محبت جتاتی تھی۔ میں اس کی باتوں کو خلوص سمجھ کر متاثر تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے میرے دل و ذہن اور سوچوں پر قبضہ کر لیا۔ میں ایک خاموش طبیعت لڑکی تھی جبکہ عفت اس کے برعکس تھی۔ وہ ہر ایک سے اچھے طریقے سے ملتی۔ لڑکوں سے بات کرنا اور راہ و رسم بڑھانا اس کا مشغلہ تھا۔ وہ راہ چلتے ہوئے لوگوں سے باتیں کرنے لگتی تھی ، اجنبیوں سے گھل مل جاتی۔ مجھے اس کے یہ طور طریقے پسند نہ تھے مگر گھر میں بھی کوئی ایسانہ تھا کہ جس کو دوست جان کر دل کی بات بتا سکتی۔ ایک روز کالج جاتے ہوئے دولڑ کے ملے۔ انہوں نے ہماری طرف توجہ نہ دی اور پاس سے گزر گئے، تبھی عفت نے ان کو بلالیا، جب وہ پلٹ کر ہماری طرف آئے تو ان سے اپنا تعارف کرایا، پھر ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی کہ ہم کالج میں پڑھتے ہیں فلاں کلاس میں ، معلوم نہیں داخلہ کب جائے گا۔ وہ ایک لڑکے سے باتیں کر رہی تھی تو دوسرا جس نے اپنا نام گل خان بتایا تھا، مسلسل مجھ کو دیکھے جاتا تھا۔ میں سخت نروس اور پسینہ پسینہ ہورہی تھی۔ بار بار عفت سے التجا کرنے لگی کہ چلو بھی اب ہم کو دیر ہو رہی ہے۔ وہ کسی طور وہاں سے ہٹ نہ رہی تھی اور میر اخوف سے بُرا حال تھا۔ بڑی مشکل سے میں نے کندھا کھینچ کر عفت کو وہاں سے چلنے پر راضی کیا، لیکن چلتے چلتے بھی اس نے تیر پھینک ہی دیا۔ ان لڑکوں سے کہا کہ تم ذرادا خلے بارے پتا کر کے کل بتادینا۔ حالانکہ یہ ایک فضول سی بات تھی۔ یہ معلومات ہم اپنے کالج سے لے سکتے تھے ، تاہم اس کو تو ان سے دوبارہ بات کرنے کا بہانہ چاہئے تھا۔ اگلے روز جب ہم اسی جگہ سے گزرے تو ان لڑکوں کو اپنے انتظار میں کھڑے پایا۔ عفت کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے حفیظ اور گل خان کو اپنے گھر چائے پر مدعو کر لیا اور مجھے بھی اپنے گھر سے بلا کر لے گئی۔ اس وقت اس کے گھر میں کوئی نہ تھا۔ اس روز حفیظ اور گل خان سے تفصیلی تعارف ہوا۔ وہ دونوں فورتھ ایئر کے طالب علم تھے۔ عفت نے ان سے میرا بھی تعارف کرایا۔ وہ اگلے محلے میں رہتے تھے جو ہمارے کالج کے رستے میں تھا۔ یوں اب ہماری روز ان سے ملاقات ہونے لگی۔ اب چائے پر مدعو کرنے کی باری اُن کی تھی۔ انہوں نے ہمیں ایک ہوٹل میں بلایا۔ میں جانانہ چاہتی تھی لیکن عفت نے جب ہاتھ جوڑے کہ بس ایک بار چلی چلو ، مجھے اکیلا نہ کرو تو مجھے اس کی بات ماننا پڑی۔ میں نے اندازہ کر لیا کہ گل خان جو بہت کم گو تھا، اچھالڑ کا ہے یا شاید مجھے اچھا لگا تھا۔ دونوں کھاتے پیتے گھرانے سے تھے، تبھی عفت نے ان سے فرمائشیں شروع کر دیں۔ ایک دو بار وہ کھانے پینے کی چیز یں لائے ، اس کے بعد وہ اُس سے بہانہ کر کے ٹالنے لگے۔ میں نے عفت کو منع کیا کہ سر راہ فرمائشیں کرنا کہاں کی تمیز ہے، تو وہ بولی۔ تمیز کو چھوڑو، میں جال بن رہی ہوں۔ بھئی ہمیں کسی سے شادی بھی تو کرنا ہے ، ان کی فیاضی بھی تو دیکھنی ہے۔ ماں باپ، اپنے خاندان کے جن لڑکوں کے نام لیتے ہیں، تم دیکھو ان کو تو منہ پھیر لو۔ میں اس کی دلیل سُن کر چپ ہو گئی۔حفیظ کچھ عفت کی سی فطرت کا مالک تھا۔ سو وہ اسی کو پسند کرنے لگی جبکہ گل خان جب ملتا کم بات کرتا اور ریزرو ہوتا۔ تاہم وہ میرا بہت خیال رکھتا۔ اگر میں عفت سے کہتی، دیر ہو رہی ہے بات مختصر کر و اور چلو۔ وہ کہتا، ہاں یار حفیظ ہمیں بھی دیر ہو رہی ہے ، کب تک فٹ پاتھ پر کھڑے باتیں کرتے رہو گے۔ وہ اس کو لے جانے میں کامیاب ہو جاتا۔ میں نے محسوس کر لیا کہ وہ میری اُلجھن کو محسوس کرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔ اب عفت میرے بغیر حفیظ سے ملنے لگی۔ ایک دن دونوں محویت سے بات کر رہے تھے ، موقع پاکر گل نے مجھ سے کہا کہ تم اس لڑکی سے دُور ہو جائو اور یوں سر راہ رُک کر کسی سے بات مت کیا کرو۔ حفیظ یوں بھی اچھالڑ کا نہیں ہے۔ یہ تمہاری سہیلی کے ساتھ ٹائم پاس کرنا چاہتا ہے اور آگے چل کر دھوکا دے گا۔ میں نے دبے لفظوں عفت کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اس نے میری باتوں پر کان نہ دھرے۔ بولی۔ تم اپنی فکر کرو، میں جان چکی ہوں کہ گل تمہارا بہت احساس کرتا ہے ، تم اس کی طرف توجہ دو۔ یہ بات میں نے گل کو بتائی۔ اس نے کہا۔ تمہاری سہیلی ٹھیک کہتی ہے، تم اجازت دو تو میں اپنی والدہ کو تمہارے گھر بھیجوں۔ اس بات کا ذکر مگر اپنی سہیلی سے مت کرنا۔ میں نے کہا کہ گھر کا پتا تو تم جان گئے ہو۔ والدہ کو بھیجنا چاہو تو بھیج دو، میری دادی بھی ان سے مل کر خوش ہوں گی۔ گل اس طرح گھر کا پتا پوچھ کر میری رضا مندی لے رہا تھا۔ اس نے اپنی والدہ اور بہنوں کو ہمارے گھر بھیجا اور جب وہ دوسری بار آئیں تو میرے رشتے کی بات کر دی۔ دادی نے کہا پہلے آپ کا لڑکا اور گھر دیکھ لوں پھر جواب دوں گی۔اب جب عفت حفیظ سے بات کرنے کو ٹھہرتی تو گل مجھ سے بات کرنے لگتا تو اس کا دھیان ہماری طرف ہو جاتا اور وہ پریشان ہو جاتی۔ اپنی پریشانی وہ حفیظ سے بیان کر دیتی تو ہمیں اس کے ارادوں کا علم ہو جاتا، یعنی کہ وہ دونوں لڑکوں کو گھیر رہی تھی۔ گل خان پٹھان تھا۔ گور اچٹا، خوبصورت لڑکا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ گل کی مجھ سے شادی ہو جائے۔ حفیظ نے جب اس کی فرمائشیں پوری نہ کیں یعنی تحفے دینے بند کر دیئے تو اس کی توجہ گل کی طرف ہو گئی اور وہ اس میں دلچسپی لینے لگی جس پر حفیظ نے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے لڑکوں سے تحفے وصول کرنے والی لڑکیاں پسند نہیں۔ یہ اچھے کردار کی نہیں ہو تیں۔ اس بات نے عفت کو بھڑ کا دیا اور وہ میری پھوپی کے پاس گئی۔ ان کے سامنے گل خان کی جتنی بُرائیاں کر سکتی تھی، کیں۔ وہ میری پیاری سہیلی تھی۔ پھوپی نے اس کی باتوں کو زیادہ اہمیت دی۔ میں اپنی پھوپی سے بہت محبت کرتی تھی کیونکہ امی جان کے جانے کے بعد انہوں نے ہی ہمیں پالا تھا۔ انہوں نے جب مجھ سے پوچھا تو میں نے ان کو سب کچھ سچ بتادیا۔ میں نے کہا کہ گل خان اچھا لڑکا ہے۔ اس نے مجھ سے کبھی کوئی غلط بات نہیں کی۔ سیدھے طریقے سے رشتہ بھجوایا ہے۔ پھوپی نے میری بات کا یقین کر لیا اور مجھ کو گلے لگالیا۔ بولیں۔ رومت ، میں تمہاری پسند سے ہی تمہاری شادی کراوں گی ، ذرا مجھ کو اس لڑکے بارے تسلی کر لینے دو۔ بد قسمتی سے میں نے عفت کے بارے میں پھوپھی کو کچھ نہ بتایا کہ وہ کیسی لڑکی ہے۔ میری اسی غلطی نے مجھے برباد کر دیا۔ پھوپی نے گل خان کے بارے میں چھان بین کا فیصلہ کیا تو عفت کے ذریعے، کیونکہ وہی گل خان والوں کو جانتی تھی اور وہی میری سہیلی تھی۔ انہوں نے میری اپنے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو عفت کے گوش گزار کر دی۔ عفت نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی والدہ کے ذریعے تمام معلومات اکٹھی کر کے ان تک پہنچادے گی۔ پھوپی مطمئن ہو گئیں۔ اس وقت تک میں نہیں جانتی تھی کہ حفیظ سے ٹھکرائے جانے کے بعد اب عفت گل خان کے ساتھ شادی کے خواب دیکھ رہی ہے، تبھی اس کی والدہ ان کے گھر آنے جانے لگی ہیں۔ اب عفت کو موقع مل گیا ہم دونوں کو جدا کرنے کا۔ اس نے اپنی ماں سے اس معاملے کا کوئی تذکرہ نہ کیا مگر اپنی دو سہیلیوں کو ساتھ ملالیا۔ انہوں نے گل خان کی طرف سے اپنے نام جعلی خطوط لکھے اور عفت کی معرفت یہ خطوط میری پھوپی کو پہنچے۔ سیدھی سادی پھوپی نے ان خطوط کو پڑھ کر پوچھا۔ یہ لڑکیاں کون ہیں عفت ؟ اُس نے بتایا۔ ہمارے محلے کی ہیں، آپ کہیں تو ان کو آپ کے پاس لے آئوں۔ وہ خود آپ کو بتادیں گی کہ گل خان کیسا لڑکا ہے۔ اپنی خوبصورتی کی آڑ میں لڑکیوں کو بے وقوف بناتا ہے۔ مزید اطمینان کرنا ہو تو میری امی کے ساتھ اس کا گھر بھی جا کر دیکھ لیں۔ چھوٹا سا مکان ہے ، آپ کو وہاں جا کر اندازہ ہو جائے گا کہ ان کے مالی حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ پھپھو بات بڑھانا نہ چاہتی تھیں کہ رشتوں کے معاملات میں واویلا اچھی بات نہ تھی۔ عفت کی کارستانی بتائے بغیر انہوں نے مجھ کو گل خان سے بات کرنے سے منع کر دیا اور جب اس کے گھر والے رشتہ لینے آئے تو دادی نے پھوپی رپورٹ کی روشنی میں ان لوگوں کو انکار کر دیا۔ کی اس بات کا گل خان کو بہت دُکھ ہوا وہ چاہتا تھا کم از کم ایک بار مجھ سے ملے لیکن عفت حائل تھی ،اس نے مجھ کو اس سے ملنے نہ دیا۔ دادی نے مجھ پر کڑی پابندی لگادی، یوں عفت کے جھوٹے بیان نے ہم دونوں کو جدا کر دیا۔ میں بہت افسردہ تھی مگر پھوپی نے میرے غم کا کوئی اثر نہ لیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ میں گل خان کا خیال دل سے نکال دوں مگر یہ ایسا صدمہ تھا جس کو میں عمر بھر نہ بھلا سکی۔ ایف اے کے امتحان کے بعد میری شادی دادی نے تایا کے بیٹے عمران سے کرادی۔ جو شخص نصیب میں تھا، اس کے ساتھ شادی ہو گئی اور زندگی گزار لی لیکن آج بھی سوچتی ہوں۔ کاش ! میری ماں ہم کو یوں چھوڑ کر نہ جاتیں تو میرا باپ بھی حواس نہ کھوتا اور جو میرے ساتھ ہوا، یہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ کیونکہ بیٹیوں کی خوشیاں اور دُکھ مائوں سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔