دوستی ایک پیارا رشتہ کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں وہ لوگ بدنصیب ہوتے ہیں جن کا کوئی دوست نہیں ہوتا لیکن میرا تجربہ مختلف ہے۔ میں کہوں گی کہ دوستی سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ ایک دوست بنائی تھی جس نے مجھے ناگن بن کر ڈس لیا۔ آج بھی اس ناگن کا زہر میری روح میں درد کے الائو دہکاتا رہتا ہے۔ وہ میری اسکول میں دوست بنی۔ اس کا نام فائزہ تھا۔ بڑی چرب زبان اور ہر دم جھوٹی محبت جتلانے والی۔ اس کو خط لکھنے کا شوق تھا۔ وہ روز میرے نام ایک خط لکھ کر دیتی۔ کہتی گھر جاکر پڑھ لینا۔ ان خطوط میں میری تعریفیں اور اشعار درج ہوتے تھے اور میں انہیں اس کی محبت کے اظہار کا ذریعہ سمجھ کر خوش ہوتی تھی۔ ان دنوں ہم نویں میں پڑھتے تھے۔ فائزہ کا گھر ہمارے ہی محلے میں تھا۔ اکٹھے اسکول آتے جاتے، غرض ہماری دوستی کلاس روم تک محدود نہ تھی، ایک دوسرے کے گھروں میں بھی آنا جانا تھا۔
میرے والدین وفات پا چکے تھے۔ باجی ہمارے پاس رہتی تھیں۔ میری خاطر وہ اور ان کے شوہر ہمارے گھر پر رہائش پذیر تھے۔ میرا ایک بڑا بھائی تھا، وہ ملازمت کرتے تھے۔ بھائی جان کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائوں لیکن باجی نے ان کو سمجھایا کہ کوثر کو زیادہ پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم لوگوں کی خاطر میں نے اپنا گھر چھوڑ کر یہاں سکونت اختیار کی ہے۔ تمہاری اور کوثر کی شادی ہوجائے تو میں سسرال جاکر رہوں۔ ساس بوڑھی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ہم ان کے پاس رہیں۔ غرض کہہ سن کر باجی نے بھائی جان کو رضامند کرلیا۔
جب میں نے نویں کا امتحان دیا تو انہوں نے میری منگنی اپنے دیور سے کردی۔ باجی کا ارادہ تھا کہ میٹرک کے بعد وہ میری شادی کردیں گی اور ہم دونوں بہنیں آئندہ ساتھ رہیں گی۔ میرے منگیتر اپنے والدین کے ساتھ ساہیوال میں رہتے تھے جبکہ باجی اور بہنوئی ہمارے پاس لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ چونکہ سلیم بھائی کی ملازمت لاہور میں تھی تبھی باجی کا ہمارے پاس رہنا ممکن ہوا تھا۔
باجی مجھے فائزہ کے گھر جانے سے روکتی تھیں۔ کہتی تھیں۔ اس کے بھائی جوان ہیں، آئے دن وہاں جانا درست نہیں۔ تمہاری منگنی ہوچکی ہے۔ ساس کو پتا چلا تو وہ اعتراض کریں گی۔ فائزہ تقریباً روز ہمارے گھر آجاتی۔ باجی اسے آنے سے منع نہیں کرتی تھیں لیکن جب وہ مجھ کو لے جانے پر اصرار کرتی تب ضرور روکتیں۔ فائزہ سے بھی کہتیں۔ تم آکر مل لیا کرو، اسے میرے شوہر کہیں جانے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ کوثر کی منگنی ان کے چھوٹے بھائی سے ہوگئی ہے، یہ اب ان کے گھر کی بہو بننے جارہی ہے۔ یہ بات فائزہ کو بری لگتی لیکن خاموش رہتی البتہ مجھے ضرور بھڑکاتی کہ آج تم اپنے باپ کے گھر ہو تو تمہارا بہنوئی روک ٹوک کرتا ہے۔ کل جب ان کے گھر کی بہو بن جائو گی تو نجانے یہ لوگ کتنی پابندیاں لگائیں گے۔
میں اپنے منگیتر کو دل سے پسند کرتی تھی، اس لئے فائزہ کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتی تھی۔ بے شک مجھے اس کی دوستی عزیز تھی لیکن اپنے منگیتر سے زیادہ نہیں تاہم اسے خوش کرنے کے لیے میں اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتی۔ ایک روز فائزہ نے مذاق مذاق میں مجھ سے کہا کہ کوثر! تم مجھے اتنی اچھی لگتی ہو کہ جی چاہتا ہے کہ تم میرے بھائی سے شادی کرلو تاکہ میری بھابی بن جائو اور ہمیشہ میرے ساتھ رہو۔ جب بھابی بن جائو گی پھر کوئی تمہیں جدا نہ کرسکے گا۔
فائزہ! پلیز ایسا مذاق مت کرو جو ہماری دوستی پر شعلہ بن کر گرے۔ جانتی ہو کہ میری منگنی ہوچکی ہے پھر ایسی بات کیا معنی! مجھے سنجیدہ دیکھ کر وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتی۔ کچھ دن گزرے، فائزہ نے ایک بار پھر وہی بات دہرائی۔ بولی۔ کاش! تم کسی کے دل میں جھانک سکتیں۔ کاش تمہیں علم ہوجائے کوئی تم پر کتنا مرتا ہے۔ کیسی فضول باتیں کرنے لگی ہو فائزہ! سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ مجھے نہیں میرے بھائی جان کو کچھ ہوا ہے۔ وہ تمہارے لیے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ انہیں تم سے عشق ہوگیا ہے۔
ہوگیا ہے تو ہو، میں کیا کروں؟ تم جانتی ہو کہ میری منگنی ہوچکی ہے۔ جانتی ہوں لیکن وہ میرا سگا بھائی ہے۔ مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی اور منگنی ہی تو ہوئی ہے، ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ کان کھول کر سن لو، یہ منگنی میری پسند اور رضا سے ہوئی ہے۔ آئندہ ایسی بات مت کرنا ورنہ دوستی ختم کردوں گی۔ یہ سن کر وہ روٹھ کر چلی گئی۔ جانتی تھی وہ بری نہیں ہے، مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ دل بے چین رہنے لگا۔ میں بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ میٹرک کے امتحان قریب تھے۔ امتحان کی تیاری بھی نہ ہو پا رہی تھی۔ ہمیشہ ساتھ بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرتے تھے۔ اب مجھے اسے ہر حال میں منانا تھا۔ میں نے ایک رقعہ لکھ کر اس کے گھر بھجوا دیا کہ فائزہ ناراضی چھوڑو اور آجائو، میں تمہارے لیے بہت اداس ہوں۔
جواب میں میرا بھائی رقعہ لے آیا جو اسے فائزہ نے دیا تھا۔ میں سمجھی کہ فائزہ نے میرے خط کا جواب دیا ہے۔ بے قراری سے کھول کر پڑھا۔ تحریر فائزہ کی نہ تھی۔ خط پڑھ کر حیران ہوگئی۔ یہ تحریر اس کے بھائی کی تھی اور مجھ سے شادی کی درخواست کی تھی۔ سخت غصہ آیا۔ میں نے کچن میں جاکر خط جلتے چولہے پر رکھ دیا۔ شام کو وہ خود آگئی۔ میرا موڈ خراب دیکھا۔ گلے میں بانہیں ڈال دیں، معافی مانگنے لگی۔ کوثر! مجھ سے ناراض مت ہونا۔ وہ خط میرے بھائی نے بھیج دیا۔ مجھے نہیں بتایا ورنہ میں یہ تحریر تم تک آنے نہ دیتی۔ یقین جانو میرا کوئی قصور نہیں۔ بھائی جان کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ وہ بڑے ہیں، ان سے کیسے مقابلہ کروں؟ منع کیا ہے اگر آئندہ انہوں نے ایسا کچھ کیا تو امی سے ان کی شکایت کردوں گی۔ خدارا معاف کردو۔
فائزہ کی منت سماجت سے میرا دل پسیج گیا۔ میں نے اسے معاف کردیا اور میں اس کے گھر چلی گئی۔ باتوں باتوں میں اس کی امی نے پوچھا۔ کیا واقعی منگنی تمہاری مرضی سے ہوئی ہے؟ آنٹی سے حجاب آتا تھا لہٰذا خاموش رہی۔ وہ گویا ہوئیں۔ تمہاری والدہ وفات پا چکی ہیں، آج وہ ہوتیں تو میں ان سے تمہارے لیے رشتے کی بات ضرور کرتی۔ مجھے آنٹی کا اس طرح کہنا برا لگا جبکہ وہ میری منگنی کے بارے میں اچھی طرح جانتی تھیں۔ کیسے ڈھیٹ لوگ ہیں، ایک بار منع کردیا، باربار پھر وہی بات دہرا رہے ہیں۔ میں آنٹی کا لحاظ کرتی تھی جی تو چاہا کھری کھری سنا دوں لیکن پھر ان کی بزرگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خاموش ہوگئی۔
میری خاموشی سے جانے انہوں نے کیا مطلب اخذ کیا۔ ایک روز بعد ہمارے گھر آکر باجی سے پھر وہی معاملہ چھیڑ دیا۔ باجی نے کہا۔ آنٹی جی! میرے دیور سے کوثر کی منگنی ہوچکی ہے اور یہ میری سسرال کا معاملہ ہے۔ منگنی نہیں ٹوٹ سکتی، آپ کوثر کا خیال دل سے نکال دیں۔ جانتی ہوں بیٹی! منع بھی کیا ہے راشد کو مگر اس کی سمجھ میں ہماری کوئی بات نہیں آتی۔ اسی نے اصرار کرکے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ ایک بار اور بات کرکے دیکھوں کیا کروں۔ میں ممتا سے مجبور ہوں، تم اس بات کا ہرگز برا مت ماننا۔ یہ لوگ ہمارے برسوں کے پڑوسی تھے۔ باجی نے درگزر کرتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں خالہ جی! میں نے برا نہیں مانا۔ ہماری مجبوری ہے، رشتہ طے ہوچکا ہے ورنہ آپ سے زیادہ کون ہمارے لیے اچھا تھا۔ بس یہ قسمت کے معاملات ہیں، مان لیں۔
باجی نے چائے وغیرہ سے تواضع کرکے آنٹی کو عزت و احترام سے رخصت کیا لیکن کچھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی۔ ہمارا خیال تھا کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی ہوگی مگر کہاں…! ان کی ڈھٹائی تو جیسے ضرب المثل بنتی جارہی تھی۔ ایک روز بھائی جان اپنے آفس میں تھے کہ فائزہ کا بھائی وہاں پہنچ گیا اور بولا۔ آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔ بھائی نے احترام سے بٹھایا اور چائے وغیرہ پیش کی۔ دوچار اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد فائزہ کا بھائی اپنے مطلب پر آگیا۔ کہنے لگا۔ آپ کے والدین حیات نہیں ورنہ انہی سے بات ہوتی۔ خیر آپ بھی بڑے بھائی ہیں، مناسب سمجھا آپ سے بات کرلوں۔ میں کوثر کو بچپن سے پسند کرتا ہوں اور آپ کی بہن سے شادی کا خواہاں ہوں۔
میری بہن کی منگنی ہوچکی ہے لہٰذا معذرت خواہ ہوں۔ انہوں نے درشتی اور رکھائی سے کہا۔ دوبارہ یہاں آنے کی زحمت نہ کرنا۔ بھائی نے گھر آکر باجی کو احوال بتایا تو باجی نے کہا کہ عجب لوگ ہیں، کئی بار ان کو سمجھایا ہے مگر یہ باز نہیں آرہے، اب ان کا کچھ بندوبست کرنا پڑے گا ورنہ یہ ایسے پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ کوثر میٹرک کا امتحان دے لے اسے فوراً اس کے گھر کا کرتے ہیں۔ یہی بہتر طریقہ ہے ان لوگوں سے جان چھڑانے کا۔ میں میٹرک کا آخری پرچہ دے کر آئی تو پتا چلا کہ فائزہ کی امی اور بھائی ہمارے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں اور بھائی جان کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ بہنوئی نے بہت ٹالنے کی کوشش کی، پَر وہ نہ ٹلے۔ یہاں تک کہ بھائی جان آگئے۔ انہوں نے اس بار ماں، بیٹے کی اچھی طرح بے عزتی کی اور گھر سے نکل جانے کا کہا۔ ارشد کو بہت غصہ آیا۔ وہ بولا۔ شادی تو میں کوثر سے کرکے رہوں گا۔ دیکھتا ہوں کیسے کرتے ہیں آپ کسی اور سے اس کی شادی…!
اس پر میرے بھائی کو بھی غصہ آگیا۔ انہوں نے طیش میں آکر اسے نہ صرف تھپڑ رسید کیا بلکہ دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ وہ جاتے ہوئے بولا۔ بدلہ نہ لیا تو ارشد نام نہیں۔ میٹرک کے پرچے دے چکی تھی۔ باجی اور بھائی نے فوراً میری شادی کی تاریخ رکھ دی۔ میرا بیاہ کرنے سبھی ساہیوال آگئے۔ ساہیوال میں ہی میری شادی ہوئی۔ مجھے رخصت کیا اور خود وہ واپس گھر لوٹ گئے۔ جب فائزہ کے گھر والوں کو پتا چلا کہ کوثر کی شادی ہوگئی ہے تو وہ لوگ سکتے میں آگئے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ اب ان سے پیچھا چھوٹ جائے گا مگر وہ تو عجب جنونی لوگ تھے۔ ارشد نے میرے شوہر کے نام خط لکھنے شروع کردیئے کہ تم نے کوثر سے شادی کرکے اچھا نہیں کیا۔ میری محبوبہ کو طلاق دے دو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا چین سے زندگی بسر نہ کرنے دوں گا۔
پہلے تو اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا اور ان خطوط کو کسی بدخواہ کی حرکت سمجھا مگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ایک روز انہوں نے مجھ سے کہا۔ تمہارے محلے کا کوئی آدمی مجھے یہ خطوط لکھتا ہے۔ ذرا دیکھو۔ میں نے خط پڑھے تو پریشان ہوگئی۔ ان کو یقین دلایا کہ خدا گواہ ہے میرا کوئی قصور نہیں، میں بے گناہ ہوں۔ پھر ساری حقیقت ان کے گوش گزار کردی۔ انہوں نے مجھ سے کچھ نہ کہا۔ تمام خطوط جو خرافات سے بھرے تھے، لے کر میرے بھائی کے پاس چلے
گئے اور ان کو تھما کر بولے ان کو پڑھیے اور جو مناسب لگے، اس مسئلہ کا حل نکالیے۔ بھائی نے خط پڑھے تو ان کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ وہ غصے میں آپے سے باہر ہوگئے اور گھر سے باہر نکل گئے۔ کوئی نہ سمجھ پایا کہ کیوں گئے ہیں اور کہاں گئے ہیں۔ میرے شوہر نے قیاس کیا غالباً وہ ارشد سے بازپرس کرنے گئے ہیں تو وہ بھی ان کے پیچھے باہر چلے گئے۔
سامنے میدان تھا جہاں ارشد ورزش کیا کرتا تھا۔ اس وقت بھی وہ ورزش کررہا تھا کہ بھائی اس کے سر پر پہنچ گئے اور اسے للکارا۔ بے غیرت یہ سب کیا ہے؟ کیا تو پاگل ہے جو ایسی حرکتوں پر اتر آیا ہے؟ میں پاگل نہیں بلکہ تیری بہن کا عاشق ہوں اور بے غیرت میں نہیں، تو ہے جو میری محبوبہ کسی اور کو سونپ دی ہے۔ میں اسے حاصل کرکے رہوں گا۔ اتنا سننا بھائی کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ وہ ارشد کی طرف بڑھے۔ اس سے پہلے کہ میرے شوہر نزدیک پہنچ کر ان کے درمیان آجاتے، ارشد نے جیب سے چھرا نکال لیا اور وہ میرے بھائی کے پہلو میں گھونپنے ہی والا تھا کہ میرے سرتاج نے لات مار کر اسے زمین پر گرا دیا۔ اس اثنا میں میرے بھائی کو اس کے ہاتھ سے چھرا چھیننے کا موقع مل گیا۔ چھینا جھپٹی میں چھرے کی نوک ارشد کے پہلو میں جا لگی۔ خون کا فوارہ اس کے بدن سے پھوٹ پڑا، زمین سرخ ہوگئی۔ جو نوجوان میدان میں کرکٹ کھیل رہے تھے، وہ دوڑے آئے اور پھر لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ انہوں نے بھائی کو پکڑ لیا اور پولیس اسٹیشن لے گئے۔ اس ناگہانی آفت کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ پھر وہ ہوگیا جو ہم نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ بھائی کے ہاتھ میں خون آلود چھرا ہونے کی وجہ سے لوگ عینی شاہدین بن گئے۔ جو خطوط زمین پر پڑے تھے، وہ بھی لوگوں نے اکٹھے کرکے پولیس کے حوالے کردیئے۔ میرے بھائی پر ارشد کے قتل کا کیس چلا، انہیں عمر قید ہوگئی۔ اگر یہ خطوط پولیس کے ہاتھوں تک نہ پہنچتے تو شاید عمر قید کی بجائے سزائے موت ہوجاتی۔ وقت برا ہو کہ بھلا، گزر ہی جاتا ہے۔ جس دن بھائی کی سزائے عمر قید ختم ہوئی، وہ چھوٹ کر آئے تھے، ستّر برس کے بوڑھے بابا لگ رہے تھے۔ اس دن میں اور باجی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں کہ جس بھائی کے سر پر سہرا سجانے کی آرزو تھی، ان کو حالات نے قاتل بنا کر بڑھاپے کی دہلیز کی طرف دھکیل دیا تھا اور ایسا فائزہ کی دوستی کے کارن ہوا تھا۔ اے کاش! میں اسے دوست نہ بناتی۔ (ک… لاہور)