میں ایک متوسط مگر تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ ہم چار بہنیں اور دو بھائی تھے۔ بڑا بھائی ذہنی طور پر کمزور تھا جبکہ چھوٹا ہوشیار تھا اور وہ کاروبار کرتا تھا۔ والد صاحب انجینئر تھے۔ پہلے پاکستان میں ملازمت کرتے تھے مگر تنخواہ کم تھی لہذا کمانے کو سعودی عربیہ چلے گئے۔ وہ وہاں کافی سال رہے اور کما کر پیسے وطن بھیجتے رہے، جس کی وجہ سے ہمیں آسودہ حالی نصیب ہوئی اور طرز زندگی بھی بہتر ہوا۔ پہلے وہ چھٹی پر آتے تھے اور تھوڑے دن رہ کر واپس چلے جاتے تھے۔ اب ہر سال ہمیں سعودیہ بلانے لگے۔ ہم اس دن کا انتظار کرتے تھے کیونکہ سعودیہ جا کر ہم لوگ بہت خوش ہوتے تھے۔ میری تینوں بہنوں کی شادیاں ہو گئیں اور والدہ بیمار پڑھیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کو کینسر ہے، تا ہم والد صاحب وطن نہیں آ پاتے تھے کہ بیماری میں میری امی اور بڑے بھائی کی دیکھ بھال کرتے ، ملازمت کرنا ان کی مجبوری تھی۔ وہ کمانے کی خاطر ہی پردیس گئے تھے۔ پردیس میں کمانا آسان نہیں ہوتا بلکہ وہاں گھر بار سے دوری کے باعث زیادہ پریشانیاں ہوتی ہیں۔ مسلسل ذہن دباؤ میں رہتا ہے، تبھی والد صاحب بھی پردیس کی سختیاں سہتے ہوئے ایک روز اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کو جدہ میں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ زندہ گھر نہ لوٹ سکے۔ اس صدمے کو امی جان نے دل پر لیا اور وہ بھی جلد اپنے خالق سے جاملیں۔ اب گھر میں، میں اور دو بھائی رہ گئے، ایک تو ذہنی معذور تھا اور دوسرا اپنے کام میں مصروف رہتا تھا۔ ان دنوں میں ایم اے سال اول میں تھی اور یونیورسٹی جاتی تھی جبکہ ہماری پرانی ملازمہ گھر سنبھالتی تھیں۔ یونیورسٹی جا کر میں خوش تھی کیونکہ یہاں دل بہل گیا تھا۔ تین لڑکیاں اچھی دوست بن گئی تھیں اور گھریلو پریشانیوں کوان کی باتیں کچھ دیر کے لئے بھلا دیتی ہیں۔ پہلا سال اچھا گزرا تھا اور ایم اے سال اول کا آج آخری پرچہ تھا۔ امتحان کے بعد پارٹی تھی اور میں بہت خوش تھی۔ پارٹی کے دن جب گھر لوٹ رہی تھی، اچانک عاطف سے ملاقات ہوگئی۔ وہ کسی کام سے یونیورسٹی آیا تھا۔ عاطف میری امی کی سہیلی کا بیٹا تھا اور ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ان کا بنگلہ تھا۔ ان کی امی اکثر میری والدہ کے پاس آتی تھیں اور عاطف بھی ساتھ آیا کرتا تھا۔ یوں میری اس کے ساتھ بچپن سے دوستی تھی بلکہ لگاؤ کہنا چاہئے۔ ہمارے درمیان اجنبیت بھی نہ تھی کیونکہ برسوں کا ایک دوسرے کے گھروں آنا جانا تھا۔ ہم ایک فیملی کے افراد جیسے تھے۔ یونیورسٹی میں وہ کسی دوست سے ملنے آیا تھا۔ مجھے دیکھ کر گاڑی روک لی اور کہا کہ چلو تم کو گھر پہنچا دیتا ہوں۔ میں بھی بلا تامل اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی کیونکہ بچپن کا ساتھ تھا، انکار کی کوئی وجہ نہ تھی بلکہ اس کو دیکھ کر میں خوش ہو گئی تھی۔ جتنی میں خوش تھی، عاطف اس سے بھی زیادہ خوش نظر آرہا تھا۔ گاڑی میں میوزک لگا ہوا تھا، جو ہمارے دلوں کی ترجمانی کر رہا تھا۔ عاطف نے مجھے گھر ڈراپ کیا تو میں نے کہا۔ عاطف ، گھر بھی آجایا کرو۔ وہ کہنے لگا۔ کسی دن ضرور آؤں گا، آج ایک دوست سے ملنا ہے۔ اگلے دن میرے سیل پر ایس ایم ایس تھا۔ اوپن کیا تو عاطف کا میسیج تھا۔ اس نے اچھی خواہشات کا اظہار کیا تھا جس پر میں مسکرا رہی تھی۔ بہر حال اس میسج سے مجھے دلی خوشی ہوئی، جیسے یہ بہار کا کوئی تازہ جھونکا ہو میری افسردہ زندگی میں اس میسج نے پیار کا ایک خوشبودار پھول کھلا دیا تھا۔کچھ دنوں بعد نشمیہ کا فون آیا کہ چلو چلتے ہیں یونیورسٹی رزلٹ کا پتہ کرتا ہے۔ دوسرے روز ہم یونیورسٹی گئے، وہاں مجھ کو بابر نے چونکا دیا کہ وہ بھی رزلٹ پتہ کرنے آیا ہوا تھا۔ مجھے لگا کہ یہ میری دوست نشمیہ کی ملی بھگت ہے ورنہ یہ کیوں آج آیا ہوا ہے؟ اس کے بارے میں بتا دوں کہ یہ لڑکا اکثر مجھ کو دیکھا کرتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ قریب آیا، جیسے بات کرنا چاہتا ہے مگر پھر بات نہ کر سکا بھی میں جان گئی کہ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے مگر بات اس لئے نہیں کرتا تھا کہ کہیں میں برا نہ مان جاؤں، بس دور دور سے دیکھا کرتا تھا۔ میں نے توجہ نشمیہ کی طرف دلائی تو اس نے کہا۔ غازیہ، اس سے بات کر کے دیکھو، آخر کیا چاہتا ہے؟ رہنے دو، مجھے بات نہیں کرنی تبھی وہ بولی۔ ارے بھئی یہ انسان ہے، کوئی جن بھوت تو نہیں، آخر بات کر لینے میں کیا حرج ہے۔ میں سوچ میں پڑگئی تو اس نے ایک نمبر مجھ کو دیا اور کہا۔ فون پر بات کر لینا لیکن پھر اسی وقت اس نے خود ہی اپنے سیل پر یہ نمبر ملا دیا۔ پہلے مجھے دیا۔ میں نے کہا کہ تم خود بات کرو۔ وہ ہیلو ہیلو کرتا رہا تو نشمیہ نے پوچھا۔ کیا حال ہے، اتنے دن کہاں تھے؟ بولا ۔ ملتان گیا ہوا تھا، کل ہی آیا ہوں اور یہاں ہاسٹل میں رہتا ہوں ۔ تبھی نشمیہ نے فون مجھے دیا کہ لو بات کر لو۔ میں نے پوچھا۔ آپ کا کیا نام ہے؟ بولا۔ بابر کیوں ہمیں گھورتے ہیں؟ اس سوال پر ہم دونوں پھر خود ہی ہسنے لگیں۔ وہ سمجھا کہ مذاق اُڑانے کو مجھے فون کیا ہے۔ اس نے فون بند کر دیا ۔ واپسی پر نشمیہ کے گھر چلی آئی تو وہاں پھر اس کی کال آگئی۔ میں نے ہیلو کہا۔ وہ سمجھا نشمیہ ہے۔ کہنے لگا۔ آپ کی سہیلی میرا مذاق اڑا رہی تھی ، کیا اسی لئے ان کو آپ نے فون ملا کر دیا تھا ؟ وہ ہنس کر کہنے لگی۔ مذاق نہیں اُڑا رہی تھی ، تم سے کچھ پوچھ رہی تھی ، جواب دے دو۔ یہ کہہ کر اس نے موبائل میری طرف بڑھا دیا ۔ اچھی صورت کو سبھی دیکھتے ہیں، میں نے دیکھا تو کیا گناہ کیا؟ وہ بولا۔ اچھا خیر معاف کیا ، آئندہ نہیں دیکھنا۔ اچھا آئندہ نہیں دیکھوں گا۔ آپ نظر آئیں گی تو آنکھیں بند کرلوں گا۔ وہ کافی بذلہ سنج تھا۔ مجھے اس کا جواب برا نہیں لگا، تاہم میں نے فون بند کر دیا۔ شام کو میں گھر میں بیٹھی تھی اور چائے پی رہی تھی کہ موبائل پر کال آگئی۔ میں نے پوچھا کون؟ جواب ملا۔ میں ہوں بابر میری کال پر آپ ناراض تو نہیں ہیں۔ نہیں کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ جب آنکھیں بند ہو جائیں گی تو وہ میری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ خوب میں نے کہا تم اپنی آنکھیں کھلی رکھو تو بہتر ہے۔ بہرحال اس کے بعد ہماری فون پر باتیں ہونے لگیں کیونکہ وہ گفتگو بہت خوبصورت کرتا تھا کہ اس کی باتیں سن کر دماغ معطر ہو جاتا تھا شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ : ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو-
اب یونیورسٹی کھل گئی تھی اور خالی پیریڈ میں اکثر میں نشمیہ اور بابر اکٹھے ہوتے۔ ہم چائے وغیرہ بھی اکٹھے پیتے تھے۔ ایک دن نشمیہ نہ آئی تو اس کی غیر موجودگی میں باہر کہنے لگا۔ غازیہ، میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا تھا اور کافی دنوں سے ارادہ کر کے رہ جاتا ہوں۔ جی کرتا ہے، آج کہہ دوں۔ کہہ دو۔ میں نے بھی شان بے نیازی سے کہا۔ غازیہ سنو تم میری زندگی میں بہت معنی رکھتی ہو اور میں تم کو اپنا جیون ساتھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ ایک جائز خواہش ہے۔ امید ہے تم اس اظہار پر برا نہ مانو گی۔ تم ایسا کیوں چاہتے ہو؟ . اس لئے کہ تم مجھ کو اچھی لگتی ہو اور میں تمہاری خوشی کے لئے سب کچھ کر سکتا ہوں۔ میں چپ رہی تو وہ کہنے لگا۔ غازیہ ! اپنا ہاتھ آگے کرو… میں نے جب ہاتھ آگے کیا، اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ بے اختیار میری زبان سے نکلا۔ بس … بابر میں اس سے آگے نہیں جاسکتی اور اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں چل دی تو اس نے آواز دی۔ غازیہ پلیز رک جاؤ ، ساتھ چلتے ہیں۔ میں ٹھہر گئی اور ہم ساتھ باہر آئے۔ وہ کہنے لگا۔ چلو میں اپنی گاڑی میں تم کو گھر چھوڑ دوں۔ جب میں گھر پہنچی تو پریشان اور سہمی ہوئی تھی کیونکہ بابر نے اظہار محبت کر دیا تھا۔ اب اس کے ساتھ رہنا معنی رکھتا تھا اور اس کو چھوڑ دینے سے وہ رنجیدہ ہوتا۔ سوچ رہی تھی کیا کروں؟ پریشان تھی اور اس پریشانی میں پھر عاطف یاد آیا۔ بار بار اس کی یاد ذہن کے افق پر منڈلانے لگی ۔ خدا کی کرنی اسی وقت عاطف کا فون آگیا۔ بولا۔ اتنے دن ہو گئے غازیہ تم ملی ہو اور نہ فون کیا ہے؟ میں پڑھائی میں مصروف تھی عاطف، میں نے کہا۔ جس روز چھٹی ہوگی تم گھر آجانا۔ بھیا بھی ہوں گے، ہمارے ساتھ کھانا کھانا۔ پھر میں نے زیادہ بات نہ کی ، فون بند کر دیا مگر دل بے چین رہا کہ کیوں فون جلدی بند کر دیا کیا بابر کی وجہ سے؟ تبھی سوچا کہ بابر کو تو میں جانتی نہیں جبکہ عاطف بچپن کا ساتھی ہے اور ان لوگوں کو ہمارے گھر والے نہ صرف جانتے ہیں بلکہ پسند بھی کرتے ہیں۔ میرے لئے یقیناً عاطف ہی بہتر رہے گا۔ مجھے بابر سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہئے کیونکہ وہ اب اپنا ارادہ ظاہر کر چکا ہے۔ اگلے روز یونیورسٹی آئی تو وہ منتظر تھا۔ عاطف کی وجہ سے میں اُس سے کنارہ کرنا چاہتی تھی مگر خیال آیا کہ ایک بار بابر سے بات کر کے اس کو اس کی غلطی کا احساس تو دلانا چاہئے ورنہ وہ کسی جھوٹی آس میں رہے گا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ بہت اچھا سلجھا ہوا، مہذب اور خوبصورت انسان تھا۔ اگر میرے دل میں پہلے سے عاطف کا خیال نہ ہوتا تو میں ضرور بابر کو اپنی زندگی کا حصہ تسلیم کر لیتی۔ اب مجھے کہنا ہی پڑا کہ بابر جو تم سوچ رہے ہو، ویسا نہیں ہو سکتا لہذا کیوں نہ ہم الگ رہیں۔ وہ بولا۔ جیسی تمہاری مرضی میں زبردستی تو تم سے بات نہیں کر سکتا ۔ اگر تم چاہتیں تو مجھ سے بات نہ کرتیں، یہ تمہاراحق تھا، میں تم کو کبھی مجبور نہیں کر سکتا تھا لیکن تم نے بات کی اور میری مراد برآئی، اب تم چاہو تو مجھ سے ملو، چاہونہ ملو، میرے دل میں جو مقام تمہارا ہے، وہ ہمیشہ رہے گا ، اس کو تم نہیں چھین سکتیں۔ یہ باتیں کچھ اس طرح دُکھ سے اس نے کہیں کہ میرا دل بھی موم ہو گیا اور میں نے فیصلہ کیا کہ بابر سے ملوں گی ، بات بھی کروں گی۔ جب سالانہ امتحان ہو جائیں گے، ہمارے ملنے جلنے اور بات کرنے کا سلسلہ از خود منقطع ہو جائے گا۔ وقت گزرنے لگا اور ہم اکٹھے ہوتے، بات کرتے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جگہ میرے دل میں بنتی گئی اور بابر مجھے کو اچھا لگنے لگا مگر میرے ذہن سے عاطف کا خیال بھی نہ گیا، گویا اب میں ذہنی طور پر دو کشتیوں میں سوار تھی اور اپنے انجام سے بے خبر تھی۔ ایک دن عاطف گھر آیا تو اس نے بھی یہی بات کہی کہ غازیہ تمہارے امتحان ہولیں پھرامی تمہارے بھائی سے رشتہ طلب کریں گی۔ اُمید ہے تمہاری بہنیں اور بھائی انکار نہ کریں گے۔ اس کی بات سن کر مجھے خوشی ہونی چاہئے تھی لیکن میں خوش ہونے کی بجائے پریشان ہوگئی۔ اس نے میری پریشانی کو بھانپ لیا اور پوچھا۔ سچ بتاؤ، کیا بات ہے کہ تم میری گفتگو سن کر خوش ہونے کی جگہ پریشان ہو گئی ہو؟ میں نے ٹالنا چاہا مگر وہ نہیں ٹلا بلکہ قسم دی کہ سچ بتا دو ورنہ میں بھی پریشان رہوں گا اور آئندہ تم سے بھی بات نہ کروں گا۔ اس پر مجھے بتانا ہی پڑا کہ یونیورسٹی میں ایک لڑکا ہے جس کا نام بابر ہے، وہ مجھ سے بات کرتا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اس سے بات نہ کروں۔ عاطف نے کہا۔ مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ کوئی ایسی بات ہے جو تم مجھے بتانا نہیں چاہتی ہو، تو پھر ایسا کرو اگر وہ تم کو اچھا لگتا ہے تو مجھے چھوڑ دو۔ میں نے کہا۔ عاطف اگر اس کے لئے میرے دل میں ایسی بات ہوتی تو میں اس کو اپنا لیتی اور تم سے بات نہ کرتی، وہ مجھے پسند نہیں ہے۔ اگر اس کو میں پسند ہوں تو یہ اس کا معاملہ ہے اور کسی کے دل پر اس کا اختیار ہوتا ہے، کسی دوسرے کا نہیں۔ اگر تم کو وہ پسند نہیں ہے تو بات کیوں کی ؟ مجھے خبر نہ تھی کہ اس کے دل میں کیا ہے، اس لئے بات کر لی تھی مگر اب نہ کروں گی، وعدہ رہا۔ وہ کہنے لگا۔ آج اچھی طرح فیصلہ کر لو کہ تم نے کس سے واسطہ رکھنا ہے اور کس سے نہیں رکھنا ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ اسی سے واسطہ رکھو اور مجھے چھوڑ دو کہ وہ تمہارا یونیورسٹی فیلو ہے۔ جب اس نے یہ کہا، مجھے یوں لگا جیسے میں نے عاطف کو نہیں کسی بڑے خزانے کو کھو دیا ہے۔ میں رونے لگی اور تبھی عاطف کو اس کی اہمیت کا احساس دلانے لگی۔ میں نے اس سے معافی بھی مانگی اور بابر سے نہ ملنے کا وعدہ کیا تو عاطف نرم پڑ گیا۔ کہا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ میں واقعی تم سے پیار کرتا ہوں اور میری ماں برسوں سے تم کو بہو بنانے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ یہی تمہاری مرحومہ ماں کی خواہش بھی تھی اور مجھ کو آنٹی مرحومہ کی آرزو کا پاس ہے کہ میری امی کی بیسٹ فرینڈ تھیں۔ میں ہفتہ بھر یونیورسٹی نہ گئی کہ جاؤں گی تو بابر سے سامنا ہوگا۔ وہ والہانہ میری جانب بڑھے گا اور مجھ سے بات کرے گا تو میں اچانک کیسے اس کو دھچکا لگاؤں کہ مجھ سے بات مت کرو۔ اسی سوچ میں تھی کہ بابر کا فون آگیا۔ کہا کہ کیوں نہیں آرہی ہو، خیر تو ہے، میرا تو ایک دن بھی تمہارے بغیر نہیں گزرتا، ہر طرف تم ہی تم نظر آتی ہو اب میں ایک روز بھی تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا تم نہیں آؤ گی تو میں خود تمہارے گھر چلا آؤں گا۔ اس کی باتیں سن کر میں سن ہو گئی۔ یا اللہ، یہ کیا کہ ایک طرف میں نے عاطف سے شادی کا وعدہ کر لیا ہے اور وہ بھی سنجیدہ ہے، اس کے اور میرے گھر والے ہماری شادی کرانا چاہتے ہیں اور ادھر اس دیوانے کا یہ حال ہے کہ وہ میرے گھر آنا چاہتا ہے۔ میں شدید ذہنی دباؤ اور کشمکش کا شکار ہو گئی تھی کہ میں اب دونوں ہی کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔
میں نے دونوں سے رابطہ نہ کیا تو عاطف میرے گھر آگیا اور شکوے کرنے لگا کہ میں کیوں اس سے بات نہیں کرتی، اس کو فون بھی نہیں کر رہی۔ یہ باتیں میرے بھائی نے سن لیں۔ اس کو بڑا لگا اور اس نے عاطف کی بہن کو فون کر کے کہا۔ شادی ایک الگ مسئلہ ہے مگر شادی سے پہلے اس طرح گھر آکر میری بہن سے تمہارا بھائی بے تکلف ہو، ہمیں پسند نہیں ہے۔ یہ اچھی بات نہیں ، تم اس کو سمجھاؤ ورنہ ہم اس کو اپنی بہن کا رشتہ نہ دیں گے۔ اس پر عاطف کی بہن بولی۔ بھیا، یہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، کیوں نہ ہم ان کی منگنی کر دیں، پھر جب غازیہ کے سالانہ امتحان ہو جائیں گے تو ہم شادی کی تاریخ رکھ لیں گے۔ میرے بھائی نے رقیہ کو کہا کہ تمہارا بھائی کچھ نہیں کرتا ، جب تک وہ کماتا نہیں ،شادی کیسے ہوگی؟ ٹھیک ہے، میں عاطف کو سمجھاؤں گی کہ وہ کچھ کام کرے۔ رقیہ نے جواب دیا۔ انہی دنوں باجی آئیں۔ میری بڑی بہن جن کا نام عاصمہ ہے، انہوں نے مجھے کہا کہ غازیہ بہتر ہے في الحال تم عاطف سے رابطہ نہ رکھو کیونکہ کوئی بھائی ایسے لڑکے سے اپنی بہن کا رشتہ نہ کرے گا کہ جس کا کوئی کیریر نہ ہو۔ رات کو میں نے فون کر کے عاطف کو یہ ساری باتیں کہیں۔ وہ بولا کہ کیا کمی ہے ہم میں، ہم خوشحال اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، جب وقت آئے گا، میں کمانے بھی لگوں گا۔ عاطف کو میری باتیں سن کر غصہ بھی آیا۔ کہا کہ کیا دشمنی ہے تمہارے بھائی کو مجھ سے، آخر وہ ایسا کیوں سوچتا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔ بہتر ہے کہ تم اپنی بہنوں سے بات کرو، اگر وہ راضی ہوں تو ہم منگنی کر لیتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے عاطف ، بھائی کی رضا کے بغیر ہماری منگنی نہیں ہو سکتی۔ وہ مایوس ہو کر بولا… غازیہ تم ہی بتاؤ پھر ہم کیا کریں، یہ دنیا ہمیں اکٹھے جینے دیتی ہے اور نہ اکٹھے مرنے دیتی ہے۔ میں نے کہا۔ یہی پیار کا دستور ہے، تم کچھ بن کر عزت سے میرا ہاتھ مانگو گے، تبھی ہم کو سچی خوشیاں مل سکیں گی لہذا اپنا وقت مت ضائع کرو اور کچھ کام کرنے کی سوچو۔ عاطف نے بی اے کیا تھا۔ اس کو اچھی نوکری نہیں ملی تو وہ خاموش رہا لیکن اب وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ ایک بار پھر وہ ملازمت کے لئے سرگرداں ہوا۔ جب کہیں بات نہ بنی تب اس نے باہر جانے کا سوچا کہ وہاں جا کر کچھ کما لوں۔ وہ سعودی عربیہ چلا گیا کیونکہ اس کے بڑے بھائی بھی وہاں تھے۔ اُس کے جانے کے بعد کچھ دن میں اُداس رہی، پھر اس کا خیال بھلا کر میں بابر سے پہلے کی طرح ملنے اور بات کرنے لگی۔ وہ کہتا تھا۔ غازیہ میں چاہتا ہوں کہ زندگی کا ہر پل تمہارے ساتھ گزاروں۔ وہ ایسی لچھے دار باتیں کرتا کہ میں اس کی باتوں کے سحر میں کھو جاتی تھی۔ میں بابر کے خاندان کے بارے میں تو نہیں جانتی تھی البتہ عاطف کی طرف سے دل مطمئن تھا، وہ اچھے خاندان سے تھا اور اس کے گھر والے سب ہم کو جانتے تھے ، وہ بھی اچھے لوگ تھے لیکن اب معاملہ صرف عاطف کی وجہ سے الجھ گیا تھا کہ وہ بیرون ملک چلا گیا تھا، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل تبھی میں ایک بار پھر بابر کے بارے میں سوچنے لگی تھی کہ شاید یہ ہی میرے حق میں بہتر ہو۔ ایک دن میں نے سوچ لیا کہ آج بابر سے کہوں گی۔ اگر تم واقعی مجھ سے شادی کیلئے سنجیدہ ہو تو اپنے گھر والوں کو ہمارے گھر بھیج دو۔ میں نے جب اس سے بات کی تو وہ بولا۔ آج تم مجھ سے یونیورسٹی سے باہر ملو، میں تم کو کچھ سرپرائز دینا چاہتا ہوں۔ میں اس کے ساتھ چھٹی کے بعد چلی گئی۔ وہ مجھ کو ایک ریسٹورنٹ لے گیا جہاں ہم نے کھانا کھایا اور پھر اس نے ایک خوبصورت ڈبہ نکالا جس میں زیورات تھے۔ اس نے انگوٹھی میری انگلی میں ڈال دی اور کہا کہ اب یہ نیکلس اور بریسلیٹ بھی پہنو۔ میں نے کہا۔ تم کیوں اتنے قیمتی تحفے لائے ہو؟ کہا کہ یہ میری خوشی ہے۔ پھر نیکلس پہننے پر بہت اصرار کیا تو میں نے پہن لیا اور کلائی پر اس نے بریسلیٹ بھی پہنایا۔ جب میں نے منع کیا تو کہا کہ اگر نہیں پہنوں گی تو میں ان کو پھینک دیتا ہوں۔ امتحان ختم ہو گئے تو ہم نے یونیورٹی کو خیر باد کہا اور پھر میرا کافی دنوں تک بابر سے ملنا نہ ہو سکا۔ انہی دنوں عاطف کی امی ہمارے گھر آئیں اور میرا رشتہ با قاعدہ طلب کیا کیونکہ اب عاطف سعودی عربیہ میں بہت اچھا کما رہا تھا۔ اس نے میرے بھائی کی شرط پوری کر دی تھی ۔ گھر والے میری عاطف سے جلد شادی کرنا چاہ رہے تھے اور میں ابھی تک گومگو میں تھی کہ کیا فیصلہ کروں۔ بابر کا فون آیا۔ کہا کہ فون کیوں نہیں کرتی ہو جبکہ میرا جی چاہتا ہے کہ سارا دن تم سے باتیں کروں اور ہماری باتیں بھی ختم نہ ہوں اور بتاؤ میرے گفٹ تم کو کیسے لگے؟ میں نے کہا کہ میں روز ان کو دیکھتی ہوں اور خوش ہوتی ہوں مگر بابرایک بات تمہیں بتانی ہے اور وہ یہ ہے کہ کہیں یہ گفٹ مجھ کو واپس نہ کرنے پڑیں۔ ابھی یہ بات میں کر رہی تھی کہ بھائی آگئے اور میں نے فون بند کر دیا۔ اگلے روز یونیورسٹی گئی۔ بابر بھی آیا تھا۔ کہنے لگا۔ چلو میرے ساتھ ، ہم ریسٹورنٹ چل کر کھانا کھاتے ہیں۔ اس پر میں پریشان ہوگئی اور میں نے اس کو کہا۔ بابر، میں نہیں جا سکتی کیونکہ مجھے کو گھر جلدی جانا ہے۔۔ وہ اصرار کرنے لگا کہ زیادہ دیر نہ بیٹھیں گے اور جلد آجائیں گے۔ تب میں نے کہا کہ مجھے اپنی دوستوں کو بتانے دو کیونکہ ہم نے ساتھ واپس جانا تھا اور اب وہ میرا انتظار کریں گی۔ میں نے نشمیہ سے کہا کہ میں بابر کے ساتھ جارہی ہوں، یہ مجھے کو میرے گھر ڈراپ کر دے گا، تم لوگ چلی جانا اور میرا انتظار مت کرنا۔ ہم ریسٹورنٹ گئے ۔ کھانا کھایا۔ اتنے میں میرے موبائل پر ایک میسج آیا، جو بابر کے نمبر سے ایک روز قبل بھیجا گیا تھا۔ میں نے اس کے سامنے پڑھا، لکھا تھا۔ بابر آپ کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہے، وہ بہت جلد آپ کو چھوڑ دے گا کیونکہ وہ شادی شدہ ہے اور آپ بعد میں بہت پچھتائیں گی۔ میں آپ کا خیر خواہ ہوں ۔ میں نے موبائل اس کی طرف بڑھا دیا اور جنب بابر نے یہ ایس ایم ایس پڑھا تو وہ سوچ میں ڈوب گیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ آپ کے موبائل سے آیا ہے، کس نے کیا ہے اور کیوں کیا ہے؟ وہ اس بات کا بھی جواب نہ دے سکا۔ میں نے کہا۔ میں یہ سوچ رہی ہوں کہ شاید آپ نے خود کیا ہے تا کہ میرا ردعمل دیکھ سکیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کسی نے شرارت کی ہو اور تیسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ سچ ہو۔ اس پر کہا کہ نہیں تمہاری تیسری بات ٹھیک نہیں ہے۔
اب وہ ایسے چپ تھا جیسے اس کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ اس کی ساری شوخی ہوا ہو چکی تھی تبھی میں حیران تھی کہ میں نے تو اس میسج کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا، بابر نے کیوں اس قدر اثر لیا ہے؟ اس ملاقات کے بعد دس روز تک بابر نے رابطہ نہ کیا۔ میں نے ہی فون کیا تو اس کے دوست نے ریسیو کیا اور بتایا کہ یہ موبائل میرا ہے، بابر نے مانگا ہوا تھا اور میں نے ہی آپ کو وہ میسیج کیا تھا۔ بابر ملتان چلا گیا ہے کیونکہ اس کی بیوی نے ایک فرزند کو جنم دیا ہے اور وہ اسپتال میں ہے، وہ میرا موبائل گھر نہ لے جاسکتا تھا لہذا مجھے واپس کر گیا ہے۔ تبھی میری آنکھوں سے بے تحاشا آنسو رواں ہو گئے۔ میں نے اللہ تعالٰی سے دعا کی ، اے اللہ میرا ایک بار اس سے رابطہ ہو جائے تا کہ میں اس کو یہ کہہ سکوں کہ بابر تم نے جو کیا، بہت برا کیا ، ایسا دھوکا کسی اور سے پھر مت کرنا ورنہ اپنے رب کو ناراض کر لو گے کیونکہ دھوکا دہی اللہ پاک کو پسند نہیں ہے۔ انہی دنوں عاطف سعودی عربیہ سے آگیا۔ اس کے بھائی بھی ساتھ آئے تھے۔ انہوں نے منگنی کی رسم کرنی تھی ، وہ ہو گئی۔ اس کے ہفتہ بعد ہماری شادی ہوگئی کیونکہ عاطف کو واپس جلد جانا تھا اور چھٹی کم تھی۔ وہ مجھ کو پا کر بہت خوش تھا۔ خوش تو میں بھی تھی لیکن دل میں شرمندہ تھی اور خدا کی شکر گزار بھی کہ اس نے مجھے گڑھے میں گرنے سے بال بال بچا لیا تھا۔ اگر بابر کا دوست بروقت مجھکو خبردار نہ کرتا تو یقینا میں عاطف کی بجائے بابر کے حق میں فیصلہ کر لیتی اور اس کے بعد عاطف کو کھو کر ایک شادی شدہ مرد کے چنگل میں پھنس جاتی تو ساری عمر پچھتاتی رہ جاتی۔ یوں شادی شدہ مرد لڑکیوں کی زندگیاں خراب کرتے ہیں۔ ان کا تو کچھ نہیں بگڑتا مگر لڑکی کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ عاطف مجھ سے مخلص تھا، اس لئے خدا نے اس کا اخلاص پسند کیا جس کا انعام مجھے بھی ملا اور آج میں اس کے ساتھ ایک خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں ۔ خدا ہر لڑکی کو ایسی غلطی سے بچائے جو مجھ سے سرزد ہونے والی تھی!