کہنے کو وہ ہماری نوکرانی تھی، مگر چہرے مہرے سے کسی اعلیٰ خاندان کی دختر لگتی تھی۔ پُر وقارسی ، ذرا اچھے کپڑے پہن لیتی، تو ہم بہن بھائیوں میں سے لگنے لگتی۔ یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا کہ وہ خان بہادر صاحب کی خادمہ ہے یا حویلی کے بچوں میں سے کوئی ہے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا وہ مجھے اپنے ہی آنگن میں ہنستی کھیلتی نظر آئی۔ اماں بھی اس کو اولاد جیسا چاہتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ سمی چھوٹی سی تھی کہ اس کے ماں باپ ہیضے سے ایک ساتھ اللہ کو پیارے ہو گئے- سمی کے والدین چونکہ ہمارے پرانے ملازم تھے لہذا بقول اماں انہوں نے ترس کھا کر اس بچی کو گھر میں رکھ لیا تھا۔ بابا تو لکھ پال تھے ہی اور بھی کئی ان کے در پرپل رہے تھے ، سو ایک یتیم بچی اور سہی۔ یہ کوئی چونکا دینے والی بات نہ تھی۔ سمی کے علاوہ اور بھی کئی ملازمائیں ہماری حویلی میں رہتی تھیں۔ کسی کے ذمہ جھاڑو تو کسی کا کام کپڑے دھو دھلا کے استری کر رکھنا۔ کوئی گندم صاف کرنے اور دھان پھٹکنے کے واسطے۔ تو کوئی اماں اور دادی کے پیر دبانے کو… زمیندار تو اپنے علاقے کا بادشاہ ہوتا ہے اور مزارع اس کی رعایا۔ بچپن دوڑتا بھاگتا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں اور سمی چھپن چھپائی کھیلتے بڑے ہو گئے۔ میری بہن ارجمند بانو، سمی اور بھائی شکیب بہادر ، ہم چاروں کی چوکڑی میں سے بھائی شکیب کو بابا جان نے میٹرک کے بعد پڑھنے کو شہر بھیج دیا توہماری ٹیم بھی ٹوٹ گئی۔ اب شکیب بھیا کے بغیر میرا کسی کھیل میں دل نہ لگتا اور یہی حال سمی کا بھی تھا۔ میں تو رنگ اور برش سے تصویریں بنا کر دل بہلا لیتی اور وہ گھر کے کام کاج میں مصروف ہو جاتی۔ شکیب بھیا تولاہور کی رونقوں میں گم ہو گئے۔ روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ پڑھائی تو مشغلہ تھا۔ سیر و تفریح کرتے، روپے اُڑاتے ، کم ہو جاتے اور منگوالیتے۔ آج کا غم نہ کل کی فکر۔ دوستوں کے ساتھ خوش تھے۔ تعلیم کے چار سال پلک جھپکتے گزر گئے۔ اب ان کا دل لاہور کا ہورہا تھا۔ بھلا اس چھوٹے سے گائوں میں کیا رکھا تھا- مگر بابا کی بڑی زمینداری تھی۔ سو بھیا کو واپس تو آنا ہی تھا کیونکہ زمینداری انہی کو سنبھالنی تھی۔ جس روز بھیا لاہور سے لوٹے، سمی بھی میری طرح خوش خوش پھر رہی تھی۔ وہ آج گھر کے کام میں خصوصی دلچسپی لے رہی تھی۔ اماں جان کے ساتھ شکیب کی پسند کے کھانے بنوانے میں مدد کر رہی تھی۔ اس وقت میں برآمدے میں سمی سے بات کر رہی تھی جب بھیا اچانک گھر کے اندر آئے۔ ان کو دیکھ کر سمی شرمائی اور پھر پیٹھ موڑ کر اماں کے پاس کچن میں چلی گئی۔ آج بھی مجھ کو وہ اس کا دھیرے دھیرے چلنا اور کاجل سے پاکیزہ دھلی دھلی آنکھوں سے پلکیں جھپکانا یاد ہے۔ اس کی بھیا کو دیکھنے کی فرشتوں جیسی معصوم چھب تو میرے دل میں کھب کر رہ گئی تھی۔ بھیا نے آتے ہی میرے سر پر پیار کیا اور اماں کا پوچھا۔ میں نے باورچی خانے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ سیدھا ادھر گیا اور ماں کے گلے لگ گیا۔ اچانک اس کی نگاہ اٹھی، سمی قریب کھڑی مسکرارہی تھی، تبھی بھیا نے اس کی خیریت پوچھی۔ وہ شرما گئی۔ بچپن میں ساتھ کھیلنے والی آج شرمائی تو اس کو اجنبی سی لگی۔ اس کے ساتھ ہی ایک نیا روپ اس کے چہرے پر تھا۔ شکیب کو تو وہ ایک غیر اہم شے کی مانند یاد نہ رہی تھی، لیکن سمی کے چہرے کی دمک بتارہی تھی کہ اس کو شکیب کا بہت انتظار تھا۔ شہر میں شکیب نے کتنے ہی حسین چہرے دیکھے تھے لیکن کسی چہرے نے بھی میرے بھائی کے دل کو نہیں لبھایا تھا لیکن آج ان کو احساس ہوا کہ گائوں میں رہنے والی لڑکیاں سادگی کے باوجود حسن کی تصویر ہوتی ہیں۔ میں نے محسوس کر لیا کہ سمی کی کشش رفتہ رفتہ میرے بھائی کی مسحور کرنے لگی ہے۔ وہ اوئل لڑکپن میں گیا تھا اور اب ما شاء اللہ اکیس یا بائیس برس کا ہو چکا تھا۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے کئی ایسے موقعے آئے جب ان کو تنہائی میسر آئی لیکن میرے بھائی کے دل میں اس لڑکی کا ایک خاص مقام اور احترام تھا۔ میں نے اسے سمی سے کبھی غلط انداز سے مخاطب ہوتے نہیں دیکھا تھا مگر اب وہ پہلے والا انداز بھی نہ رہا تھا۔ ان کے رویئے سے ان کا لگائو ظاہر ہوتا تھا۔ بچپن کی اس ساتھی کی طرف دل کے جانے کون سے رشتے استوار ہو گئے تھے کہ شکیب اس کو دکھ پہنچانے یا برباد کرنے کا تصور نہ کرسکتا تھا۔ وہ اس کو جائز طریقے سے اپنانا چاہتا تھا۔ شکیب بھول گیا کہ وہ ہماری نوکرانی کی بیٹی ہے۔ وہ سمی کو اپنانے کا سوچنے لگا اور اس نے اپنی اس سوچ کو سب سے پہلے مجھ پرآشکارکیا۔ کہنے لگا۔ درشہوار پلیز تم میری مدد کرو۔ دیکھو وہ میری ہی نہیں تمہاری بھی تو بچپن کی ساتھی ہے۔ شکیب کے جذبات کو میں سمجھتی تھی مگر جانتی تھی کہ وہ غلط نہج پر سوچنے لگا ہے، ایسا ممکن نہ تھا۔ ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والی نوکرانی کی بیٹی کو بھلا میرے والد کیونکربہو کا درجہ دیتے۔ اکلوتا ہونے کے ناتے والدین جلد ہی بیٹے کا سہرا دیکھنا چاہتے تھے لیکن وہ جہاں رشتہ لگاتے ، بھیا انکار کر دیتے۔ اپنوں کو چھوڑ کر میرے والدین نے بالآخرغیروں میں خوبصورت لڑکیوں کے نام لینے شروع کر دیئے۔ پہلے تو ہم میں سے کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ میرا بھائی اچھے اچھے گھرانے کی خوبصورت لڑکیوں کو کیوں ٹھکرآتا ہے۔ مگر غور کرنے پر جان لیا کہ اس کی وجہ سمی ہے اور وہ اسی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ تبھی بھائی سے پوچھا تو اس نے دل کی بات مجھ پرآشکارا کر دی۔ یہ بات میں نے اول کسی کو نہ بتائی البتہ ایک روز موقع ملتے ہی سمی کی بانہیں پکڑ لی۔ وہ گھبراگئی۔ میں نے کہا۔ گھبرائو نہیں مگر مجھے سچ بتادو، کیا بھائی نے تم سے شادی کے لئے کہا ہے ، یا تم نے اس سے کوئی بات کی ہے۔ اگر تم دونوں کے درمیان اس مسئلے پر باتیں ہو چکی ہیں تو مجھ کو ضرور آگاہ کرو۔ بالکل بھی مجھ سے کچھ نہ چھپانا تا کہ میں تمہاری زبان بنوں، تمہاری مدد کر سکوں۔ بابا جان میری بات نہیں ٹالتے۔ میں بس یہی کہوں گی کہ میں سمی کو پسند کرتی ہوں اور اس کو بھابی بنانا چاہتی ہوں امی کو بھی ہمنوا کر لوں گی۔ وہ کہنے لگی۔ شہوار آپی ، خدا کے لئے ایسی بات کسی سے نہ کہئے گا ورنہ خان بہادر صاحب مجھ کو زندہ نہ چھوڑیں گے۔ وہ سمجھیں گے میں نے ہی شکیب کو بھڑکایا ہے- حالانکہ میں نے ان سے کبھی ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے وہ کانپ رہی تھی۔ اس کو اس قدر خوف زدہ دیکھ کر میں تڑپ گئی۔ وہ رونے لگی تو میں نے حوصلہ دیا۔ سمی دیکھو۔ کبھی والد صاحب نے تم کو ڈانٹا ہے، کبھی سختی کی ہے؟ نہیں نا! تو پھر تم کیوں اتنا ڈر رہی ہو جبکہ تمہارا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ ٹھیک ہے تم راضی نہیں ہو تو میں کسی سے کچھ نہیں کہتی۔ آپ شکیب کو بھی سمجھائیں، نجانے وہ کیوں ایسا سوچنے لگے ہیں جو کہ ممکن نہیں ہے، میں تو ان کو بھائی کہتی ہوں۔ اچھا میں سمجھا دوں گی۔ اس وقت وہ بہت کرب میں تھی اور میں اس کو تکلیف پہنچا رہی تھی جبکہ میں اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی، آخر میں بھی تو اس سے محبت کرتی تھی۔ اس کا ڈرنا بھی بجا تھا۔ بابا جان کا رعب ہی اتنا تھا کہ سبھی ان سے کانپتے تھے۔ جب وہ گھر میں ہوتے، ایسا سناٹا طاری ہو جاتا۔ میری ماں تک کی مجال نہ تھی کہ ان کے سامنے اونچی آواز میں بولتیں۔ اگر کوئی ان سے لاڈ کر سکتا تھا تو وہ میں تھی اور میں بھی ایک حد تک اپنی بات پر اصرار جاری رکھ سکتی تھی۔ شکیب بھائی تو ان کی امیدوں کا مرکز تھے، بیٹے سے بہت محبت کرتے تھے تاہم وہ بعض معاملات میں اس اصول کے قائل تھے کہ اولاد کو کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے۔ ایک روز انہوں نے شکیب کو بلایا اور بولے بیٹے مجھ کو اپنے دل کی بات بتا دو۔ اگر تم کو شہر میں کوئی لڑکی پسند آگئی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے والدین سے ملوائو ، لوگ ٹھیک ٹھاک ہوئے تو میں تمہاری پسند سے تمہاری شادی کر دوں گا۔ مجھ کو پسند کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں مگر لڑکی نیک کردار اور نیک اطوار ہونا چاہئے اور جن ہاتھوں میں اس کی پرورش ہوئی ہو وہ بھی خاندانی لوگ ہونے چاہئیں۔ شہر میں تو نہیں ایسی لڑکی گائوں میں ہے بابا جان، جو مجھے پسند ہے اور میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ لڑکی نیک کردار اور نیک اطوار ہے اور جنہوں نے پرورش کی ہے وہ بھی خاندانی لوگ ہی ہیں۔ کون ہے وہ لڑکی؟ آپ اس کو جانتے ہیں، آپ کی دیکھی بھالی ہے ، آپ نے اور اماں جان نے ہی اس کی پرورش کی ہے۔ میں سمجھا نہیں ، کیا کہنا چاہتے ہو ؟ کھل کر کہو۔ بابا جان ! گھر میں ایک یتیم لڑکی کو آپ نے اور امی جان نے اولاد کی طرح پالا ہے، اسے یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا مگر اس کے مستقبل کا کیا سوچا ہے آپ نے ؟ اس بارے میں سوچنا تمہارا کام نہیں ہے ، یہ ہم نے سوچنا ہے اور ہم سوچیں گے ، تم اپنی بات کرو۔ میں اپنی ہی بات کر رہا ہوں۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ جس لڑکی کو اپنے بچوں کے ساتھ پالا ہے ، اس کو اپنی بیٹی کے جیسا سمجھا ہے اسے اپنی بہو بھی بنا لیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ ایسا خیال بھی کیسے آیا تمہارے دماغ میں ؟ ٹاٹ کو جس قدر بھی سنبھال کر رکھو ، وہ ٹاٹ ہی رہتا ہے ، مخمل نہیں ہو سکتا اور تم مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگانا چاہتے ہو ! لیکن باباجان ! بس اس سے آگے میں نہیں سن سکتا۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ سارا گائوں مجھ پر ہنسے یا انگلی اٹھائے کہ جس لڑکی کو پناہ دی، لاوارث جان کر پرورش کی اس کے ساتھ خان بہادر کے بیٹے نے مراسم بنالئے تو ان کو اس ملازمہ کی بیٹی کو بہو بنانا پڑ گیا۔ ہمارے رحم اور نیکی کو بھی لوگ غلط رنگ دیں گے اور بے پر کی اڑائیں گے۔ تمہاری شادی خاندانی لوگوں میں ہی ہو گی۔ نوکروں کی اولاد کو ہم بہو بنا کرسر پر نہیں بٹھا سکتے سمجھے ، اب چلے جائو میرے سامنے سے ، آئندہ اس قسم کا سوال لے کر میرے سامنے ہر گزمت آنا۔ صاحب بہادر کا غصہ بڑھتے دیکھ کر عافیت اسی میں تھی کہ شکیب مزید ان کے سامنے نہ ٹھہرے اوروہ ٹھہر بھی نہ سکا۔ بابا جان کے کمرے سے میرے پاس آگیا، ناراض اور پریشان۔ سنو گی تم کیا کہا ہے بابا جان نے۔ سن چکی ہوں، تم کو ان کے کمرے میں جاتے دیکھا تو برآمدے میں کان لگائے کھڑی ہوئی تھی۔ اب بتائو کیسے سیدھی انگلی سے گھی نکلے گا۔ دھیرج رکھو شکیب بھیا! تم مجھ سے دو سال بڑے ضرور ہو مگر عقل میں میرے برابر ہی ہو ۔ جلد بازی مت کرو اور صبر سے کام لو ورنہ بات اور بگڑ جائے گی۔ بات کیا بگڑ جائے گی بات تو بگڑ گئی ہے۔ بابا جان جو کہہ دیتے ہیں پھر اس سے ہٹتے نہیں۔ تم نے کوئی اوٹ پٹانگ قدم اٹھایا تو جان لو کہ تمہارا تو کچھ نہیں بگڑے گا۔ سمی بیچاری بے موت ماری جائے گی، جس کا ہمارے سوا اور کوئی ہے بھی نہیں اس دنیا میں۔ میں نے شکیب کو سمجھایا۔ چپ رہنے سے بھی تو مسئلہ حل نہیں ہو گا، وہ چپکے سے اس کی کسی اور سے شادی کر دیں گے۔ چپکے سے کیوں، بانگ دہل کریں تو پھر ان کو روکنے والا کون ہے۔ ان کو ہمارا ڈر تو نہیں پڑا ہے۔ لیکن در شہوار تم دیکھ لینا میں بھی چپکا نہیں بیٹھ جانے کا، میں سمی سے شادی کر کے رہوں گا۔ یا پھران کو بتا دینا کہ ہمیشہ کے لئے گھر چھوڑ کر چلا جائوں گا اور یہ ڈھونڈتے رہ جائیں گے اپنے اس وارث کو ۔ کیسی باتیں کر رہے ہو شکیب۔ مجھے ڈر ہے کہ تمہاری یہ جذباتی طبیعت ہم سب کی زندگی میں کوئی بھونچال نہ لے آئے۔ بہرحال میں نے بابا سے بات کرنے کا یقین دلا کر اس وقت اپنے بھائی کو تسلی دی۔ مگر میری ہمت جواب دے رہی تھی۔ اس واقعے کے دس روز بعد جب بابا شہر سے لوٹے مجھے لگا ، وہ اچھے موڈ میں ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب بہت عقل سے کام لینے کی ضرورت تھی۔ بھائی سے وعدہ کر چکی تھی، سو بابا جان کے پاس جا بیٹھی ، بات کرنے کو الفاظ ڈھونڈنے لگی۔ گلا سوکھ رہا تھا، تھوک بھی نہ نگلا جاتا تھا۔ سوچا آج اچھے موڈ میں ہیں، نجانے پھر میری بات سنیں نہ سنیں، میں نے بات شروع کی۔ باباخان مجھے آپ کی محبت اور فیاضی سے یہ امید ہے کہ آپ میری بات کو نہ ٹھکرائیں گے۔ میں جانتی ہوں آپ میری کسی بات کو ٹھکراتے نہیں ہیں۔ یہ کہہ کر میں چپ ہو گئی۔ ہاں ہاں، میری بیٹی رانی ! کیا کہنا ہے کہو ۔ وہ شفقت سے بولے۔ بابا جان ! دراصل میں سمی کے بارے کچھ کہنا چاہتی ہوں، پتا ہے آپ مالک ہیں اور وہ غریب کی بیٹی ہے مگر ہے تو اسی خدا کی بنائی ہوئی کہ جس نے ہم کو دولت مند بنایا ہے۔ ابھی میں ابتدایہ کو ذہن میں ترتیب دے رہی تھی کہ ان کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ بولے۔ بات مختصر کرکے مطلب کی کہو، کیا کہنا چاہ رہی ہو۔ حالانکہ جانتے تھے کہ کیا کہنا چاہ رہی ہوں پھر بھی موقع دیا۔ بابا جان ! وہ میری بچپن کی سہیلی ہے ، مجھے اس سے محبت ہے ، اس کی دوری کا سوچ کر پریشان ہو جاتی ہوں۔ اس لئے چاہتی ہوں کہ وہ ہی میری بھابی بنے اور ہمیشہ ہمارے ساتھ اس گھر میں رہے۔ کیا یہ سب اس نے تم کو سکھایا ہے ؟ نہیں باباجان ! مجھے اللہ پاک کی قسم ہے، اس نے کچھ نہیں کہا اور نہ بھائی شکیب نے ، یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہی ہوں۔ یہ میری خواہش ہے۔ تو پھر سن لو درشہوار بیٹی ، وہ لڑکی ہمارے خاندان سے نہیں ہے اور تمہاری خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ آج کے بعد ایسی فرمائش میرے پاس لے کر مت آنا۔ اب جائو۔ مجھے لگا کسی نے مجھ کو بلند عمارت سے دھکا دے دیا ہے۔ زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کا اتنا سرد اور کرخت لہجہ سنا تھا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھ کو سانپ سونگھ گیا۔ ذراسی دیر خود کو سنبھالنے کی خاطر چپ سی رہی۔ بت کی طرح جیسے اٹھنے کی ہمت نہ ہو ۔ تب وہ خود ہی اٹھ کر چلے گئے اور میں بیٹھی رہ گئی۔ بھائی میرا منتظر تھا۔ میں نے کہا۔ شکیب بابا تو چلے گئے مگر ہماری امیدوں کا چمن راکھ کر گئے ہیں۔ اب تم کو مزید کیا کہوں۔ مجھے پتا تھا، یہی ہو گا۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اب میرے لئے بھی زندگی میں کوئی دلکشی باقی نہیں ہے۔ بابا جان سنگدل ہیں اتنے ہی کہ وہ مجھ کو موت سے ہمکنار ہوتا تو دیکھ سکتے ہیں مگر اپنے کہے سے مڑ نہیں سکتے مگر میں بھی تو ان ہی کا بیٹا ہوں، میں نے بھی جو کہہ دیا ہے اس سے نہیں پھروں گا۔ ماں سمجھا سمجھا کر تھک گئیں، مگر شکیب کیونکر مانتا کہ اس کا دل ہی نہ مانتا تھا۔ ادھر باباجان نے کسی اور سے سمی کی شادی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ساتھ والے گائوں کے زمیندار کا کوئی رشتہ دار تھا جو اوسط درجہ کے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ والد نے سوچا کہ اس شخص کو بعد میں کوئی کاروبار کرادیں گے۔ ادھر میرا ہٹ دھرم بھائی اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ جونہی اس کو پتا چلا باباجان سمی کو برابر والے گائوں بیاہنے کی تیاریاں کر رہے ہیں… اس نے طوفان کھڑا کردیا۔ ماں سے قرآن پاک پر قسم کھائی کہ جس روز سمی کسی اور کی ڈولی میں بٹھائی گئی وہ اس روز کنویں میں چھلانگ لگا دے گا- یوں بابا ہار گئے۔ انہوں نے کسی اور شخص کے حوالے سمی کو نہ کیا مگر ڈولی میں بٹھانے کی بجائے، ایک قریبی رشتہ دار کے گھر بھجوا دیا- اور جب وہ واپس آئی ، زندہ نہیں بلکہ کفن میں لپٹی ہوئی۔ اس کو ہمارے آبائی قبرستان میں دفن کر دیا گیا اور یوں اس بے قصور اور فرشتوں جیسی معصوم لڑکی نے منوں مٹی تلے جا کر ہمارے گھرانے کو ایک بڑے انتشار سے بچا لیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی زبردستی کی شادی تو شکیب کو قبول نہ تھی لیکن موت کو تو قبول کرنا ہی تھا کیونکہ دنیا میں سب رکاوٹوں کا چارہ کیا جا سکتا ہے مگر موت کا نہیں کہ یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ عرصہ تک سب یہی سمجھتے رہے کہ سمی اپنی موت مری ہے۔ اس کو ملیریا ہوا اور بخار بگڑ گیا۔ وہ قضائے الہی سے جاں بحق ہو گئی ، مگر اس کی وفات کے آٹھ سال بعد ایک پرانی ملازمہ نے مجھے قسم دے کر بتایا تھا کہ جس گھر وہ ان دنوں تھی ، وہاں اس نے ہم لوگوں کو گھریلو جھگڑے سے بچانے کی خاطر کالا پتھر پی کر جان قربان کر دی تھی۔ وہ اپنی پرورش کے لئے بابا جان کی احسان مند تھی، سو ان کو مزید پریشان ہوتا نہ دیکھ سکتی تھی۔ اس نے شکیب بھائی کی خود کشی کی دھمکی سے ڈر کران کی جان بچانے کی خاطر ایسا کیا تھا۔ اس ملازمہ سے اس نے کالا پتھر منگوایا تھا۔ بس وہی اس کی رازداں بھی تھی۔ شکیب بھائی نے کچھ عرصہ دکھی رہنے کے بعد حقیقت سے سمجھوتا کر لیا اور والدین کی رضامندی سے گھر بسا لیا مگر میں سمی کے دکھ کو نہیں بھلا سکی۔ مجھے تو آج بھی سمی کا وہ زیر لب مسکرانا اور دھیرے دھیرے چلنا یاد آتا ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا آخر بابا نے سمی سے بیٹے کی شادی کیوں نہ کی ؟ حالانکہ اس لڑکی میں خوبیاں ہی خوبیاں تھیں، کوئی خامی نہیں تھی اور بابا ہمیشہ اس کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے ، کبھی ناراض ہوئے اور نہ اس سے نفرت کی۔ میں امی سے کہتی تھی۔ کاش ! بابا شکیب کی خوشی پوری کر دیتے تو سمی کی جان نہ جاتی اور وہ جواب دیتی تھیں۔ بیٹی ! وہ مجبور تھے۔ خدا جانے کیا مجبوری تھی ان کی ؟ یہ تو میں آج تک نہیں سمجھ سکی۔ امی وہ مجبوری مجھے بھی بتا دیتیں تو میرے دل پر پڑا منوں بوجھ ہلکا ہو جاتا۔