Monday, April 21, 2025

Khail Yeh Muhabbat Ka

گھر میں کافی دن سے کشیدگی چل رہی تھی۔ صائمہ بارہا اپنی ماں کے گھر جانے کی دھمکی دی چکی تھی ۔ میاں بیوی کی روز روز کی تکرار سے بچے الگ پریشان اور سہمے ہوئے رہتے تھے اور محلے والے دونوں میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی کروانے کی کوشش کرتے کرتے تھک ہار کر اب تماشا دیکھنے کے لیے ایک طرف ہو گئے تھے۔ آج بھی ناشتے میں خالی چائے اور سادہ روٹی ؟ بندہ سارا دن محنت کر کر کے تھک جائے اور تم ہو کہ ایک پراٹھا تک نہیں بنا سکتیں شوہر کے لیے؟ شکیل کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔

شکیل ! آپ یہ غصہ کہیں اور جا کر نکالیں ، گھی ختم ہو گیا ہے اور انڈے بھی نہیں ہیں، بچے بھی اپنے من پسند ناشتے کے بغیر اسکول چلے گئے ہیں، اور میرا تو نہ ہی پوچھیں کیسے گزارا کر رہی ہوں آپ جیسے مرد کے ساتھ ؟ کیا مطلب تم جو میرے ساتھ محبت کے دعوے کرتی تھیں۔ جو کہتی تھیں کہ تم ہر اچھے برے وقت میں میرا ساتھ دو گی ۔ اس طرح سے بدل رہی ہو؟ کیا تم میں تھوڑی سی بھی انسانیت باقی رہ گئی ہے یا نہیں ہے، شکیل صائمہ کے طعنوں پر افسوس کرنے لگا۔ یہ انسانیت ہی تو ہے جو شادی کے دس سال تک یہیں ہوں اور آپ کے دو بچوں کی ماں بھی بن گئی ہوں آپ بھی جو میری خواہشات کے لیے اپنی ضروریات تک قربان کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔ آج میری خواہشات تو کیا ضروریات سے بھی منہ موڑ – کاش یہ محبت نہ کی ہوتی میں نے۔ مجھے کیا پتا تھا کہ محبت ایک کھیل ہی ثابت ہو گی؟ یہ تو میری ندگی کے لیے روگ بن گئی۔ صائمہ ہمیشہ کی طرح کے آنسو بہانے لگی۔ اونہہ ، میں نے تم سے گن پوائنٹ پر شادی نہیں کی ، ہم دونوں نے ایک دوسرے سے محبت کی، گھر سے بھاگے تو نہیں جواب پچھتا رہی ہو، تمہارے گھر والوں سے رشتہ مانگا اور تمہارے بھائیوں نے بھی ایسے ہی تمہیں رخصت نہیں کیا بلکہ میرے بارے میں خوب چھان پھٹک کی تم سب کا قصور وار مجھے مت ٹہرایا کرو- شکیل بھی غصے میں آ گیا۔ ہاں غلطی مجھ سے بھی ہوئی اور میرے گھر والوں سے بھی جو انہوں نے چمکتی چیز کو سونا سمجھ لیا۔ اب اس غلطی کو سدھارنا ہی ہوگا ۔ صائمہ بھی حتمی لہجے میں بولی- شکیل تنے ہوئے چہرے کے ساتھ ، بغیر ناشتے کے دفتر چلا گیا اور صائمہ بھی بےزار سی گھر کے کاموں سے نمٹ کر اپنی ماں کی طرف چلی آئی۔

ساجدہ بیگم پہلے تو بہت حیران ہوئیں کہ مہینوں نہ آنے والی بیٹی کو میکہ کی یاد کیسے ستائی لیکن ماں تھیں ان کے دل میں کھٹکا سا ہوا تو احوال پوچھا۔ اب جو ماں نے محبت دکھائی تو وہ زار و قطار رونے لگی۔ اماں شکیل نے تو جینا ہی حرام کر دیا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ لو میرج کا یہ انجام ہوتا ہے پر آپ سب نے بھی تو اسے قبول کیا تھا ، وہ پہلے تو ایسا نہ تھا۔ ہماری زندگی کتنی اچھی تھی- بس اب میں یہیں رہوں گی جاب کرلوں گی ، اپنے بچے پالوں گی بھائیوں پر بوجھ نہیں بنوں گی۔ صائمہ نے ماں کی تائید حاصل کرنا چاہی۔ ساجدہ بیگم سمجھ دار خاتون تھیں۔ انہوں نے بیٹی کی بات پر بھڑکنے کے بجائے اسے سمجھایا۔ بیٹا! پہلے تو تم یہ بھول جاؤ کہ تمہارے بھائی بھابھیاں تمہیں اس گھر میں برداشت کریں گے اور اس معاملے میں میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی بے شک یہ گھر اب بھی تمہارا ہے لیکن اصل پناہ گاہ شوہر کا گھر ہے۔ شادی شدہ زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آتے ہیں ۔ شکیل اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ آج کل مہنگائی بھی تو دیکھو۔ آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ دو دو نوکریاں وہ کر رہا ہے، اگر شادی سے پہلے وہ وعدے کرتا تھا تو وہ دس سال پہلے کی بات تھی ، اب حالات مختلف ہیں۔ آج تمھیں اس کی برائیاں نظر آرہی ہیں لیکن غور کرو اس میں کچھ خوبیاں بھی تو ہوں گی۔ ساجدہ بیگم نے صائمہ کی طرف دیکھا تو وہ چپ چاپ بت بنی ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ویسے اماں ! کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں۔ وہ مجھ سے اور بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن آج کل وہ چڑچڑے ہو رہے ہیں بہت۔ میں تنگ آگئی ہیں اماں تو اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ معاشی مسائل کو حل کرنے میں اس کا ساتھ دو۔ تم اس کے بغیر نوکری کرنے کو تیار ہو۔ بچوں کو باپ کی شفقت سے محروم کرنا چاہتی ہو تو اپنے گھر میں رہ کر ہی نوکری کیوں نہیں کر لیتیں ؟ ساجدہ بیگم کا لہجہ تیز ہو گیا۔ اماں! پلیز صائمہ کوئی پلیز ولیز نہیں اٹھو گھر جانے کی تیاری کروں میں شام کو شکیل کو کھانے پر بلا رہی ہوں۔ ساجدہ بیگم نے غصہ دکھایا جو اس وقت اور حالات کے مطابق ضروری تھا۔
☆☆☆

شکیل خاموش تھا۔ صائمہ نے بھی بات نہیں کی۔ اس دن شکیل نے دفتر جانے سے قبل صائمہ کو کمرے میں بلایا۔ صائمہ ! میں تم سے اپنے رویے کی معذرت کرنا چاہتا ہوں، میں مہنگائی کے ہاتھوں بہت مجبور ہو گیا ہوں بجلی ، گیس کے بل ، سودا سلف اور بچوں کی فیسیں وقت سے پہلے بوڑھا کر رہی ہیں مجھے لیکن پھر بھی میں نے غلط کیا، تمہیں ڈانٹتا رہا۔ مجھے معاف کر دو صائمہ میں اب بھی پہلے جیسی ہی محبت کرتا ہوں۔ بس ذمہ داریوں کا ایک پہاڑ میرے سر پر ہے۔ شکیل ندامت سے صائمہ کے آگے کہہ رہا تھا۔ شکیل ! آپ مجھے شرمندہ مت کریں۔ اگر آپ کا رویہ برا تھا تو میں نے بھی خوش گوار انداز میں بات نہیں کی، بلکہ ترکی بہ ترکی آپ کو جواب دیے۔ مجھے بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں بھی معافی کی طلب گار ہوں۔ آپ میرے شوہر میری عزت اور میری حقیقی پناہ گاہ ہیں۔ میں نے آس پڑوس میں کہ کر چھوٹی کلاسوں کے بچوں کو ٹیوشن کے لیے بلایا ہے۔ جو آج شام سے گھر آئیں گے اور گڑیا اور فہد کے اسکول میں پرائمری ٹیچر کی بھی ضرورت ہے اب وعدہ تو نہیں کرتی اگر سب کاموں کے ساتھ مینج کر سکی تو جوائن کر لوں گی۔ آپ کیا کہتے ہیں۔ نہیں اس کی ضرورت نہیں ، کمانا عورت کی ذمہ داری نہیں نان نفقہ پورا کرنا مرد کا کام ہے۔ تم گھر پر رہ کر میرا ہاتھ بٹا رہی ہو تو یہ تمہاری مہربانی احساس اور احسان ہے- شکیل صائمہ کا شکر گزار تھا اور اسی جذبے سے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اسے خود سے لگا لیا تھا اور صائمہ کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گویا تپتے ہوئے صحرا سے ایک نخلستان میں آگئی ہو۔

Latest Posts

Related POSTS