خالہ بی جب بھی سالن بناتیں اس میں مٹھی بھر کے زیرہ ڈال دیتی تھیں ۔ اس زیرے کا سواد بڑا ہی نرالہ تھا۔ لیکن سبزیوں کو زیرے کا بگھار دے کر اس میں شوربا بنانا ان کی ایک عجیب عادت تھی۔ اس علاقے میں ایسا کھانا کوئی نہ بناتا تھا۔ سب گھروں میں مرغن غذائیں پکتئیں اور مسالے کے نام پر سرخ مرچوں کی بجری انڈیل دی جاتی ۔ سبزیوں کو پکا پکا کر ان کی ایسی حالت بنائی جاتی کہ کھانے والے کو بوجھنا کسی پہیلی کی طرح مشکل لگتا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بینگن پکے ہیں ۔ گوبھی ہے یا کدو ۔ سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوتے تھے۔ اور جب خالہ بی پکا تیں تو ترکاری بھی پہچان جاتی اور پکانے والا بھی معلوم ہو جا تا۔ ایک دن وہ باغ میں ساگ پات چن رہی تھیں کہ میرا ان سے سامنا ہو گیا۔ میرا نفس مجھے اکسانے لگا کہ ان کے پکانے کے اس عجیب انداز کی کھوج لگاؤں۔ روایتوں میں رہ کر روایت سے ہٹنا کوئی معمولی بات تو نھی۔ پھر ایسی کیا عادت بنی کہ پختہ ہی ہوگئی۔ میں خالہ جی سے پوچھنے لگی کہ۔ آپ نے ایسا کھانا کب پکانا شروع کیا اور آپ کی زبان کو یہ ذائقہ کب سے لگا ہے؟“ بس پھر کیا تھا اک داستان کرب تھی ان کا ضبط توڑ دیا تھا اور اب تھامنا مشکل ہورہا تھا۔ میں بہت چھوٹی سی تھی کہ دوسرے گاؤں سے چند لوگ مجھے دیکھنے آئے ۔ میں انہیں پہلی ہی ملاقات میں بھا گئی۔اور چند روز بعد نکاح کر کے وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے ۔اس وقت میں عقد نکاح کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جانتی تھی ۔ بس یہی معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن لڑکیوں کو دوسرے گھر جانا پڑتا ہے۔ میں خوش تھی ۔ نہ خفا نہ مطمئن اور نہ ہی بے قرار تھی۔ بس وقت کے دھارے کے ساتھ خود کو ملانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ میرا شوہر اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ میری ساس بہت خوش تھیں اور بہت مان سے مجھے بیاہ کے لیے جارہی تھیں ۔ منزل مقصود پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ شوہر کو چھٹی نہیں ملی ،اس لیے اسے جانا پڑا ہے۔ رات تک شاید لوٹ آۓ گا۔اس زمانے میں قریبی شہروں کے سفر بھی بے اعتبار ہوتے تھے۔ مسافتوں کی مدت تو یوں بھی کوئی نہیں جانتا۔ وہ رات گزری، پھر دوسری رات، پھر تیسری رات اور پھر کئی راتیں گزرتی گئیں۔ اجنبی مسافر کے لوٹنے کی امید ختم ہوتی گئی۔ مجھے ایک غم تھا اور ماں کو دوغم ۔ بیٹا بھی گھر نہیں لوٹا اور پرائی بیٹی کو بھی لا کر گھر بٹھا لیا۔ لیکن غم کھانے سے غم کا مداوا کہاں ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ گزرا تو کہیں سے اطلاع ملی کہ شادی والے دن جب وہ دفتر گیا تو اس کی وہاں کسی سے تکرار ہوئی۔ اسے چھٹی نہیں مل رہی تھی اور دفتر کا خاکروب اس کا مذاق اڑارہا تھا۔ انگریز صاحبوں کا دور تھا۔اور خاکروب ان کے ہم مذہب تھے۔ مسلمان ملازمین کی دفتروں میں حیثیت بہت پتلی ہوا کرتی تھی۔ جب غصہ حد سے بڑھ گیا تو خاکروب پر نکلا۔ اس سے لڑ کر وہ خان صاحب بھاگ نکلے تا کہ تھانہ کچہری سے بچ جائیں۔ عمر کے وہ بھی کچے تھے۔ فرار میں کچھ زیادہ ہی غائب ہو گئے ۔ اس کہانی کے معلوم ہونے کے بعد گھر میں انتظار اور بے قراری اور بڑھ گئی۔انتظار کی آگ بھوک کی آگ میں بدل گئی نہ رہا کہ کب بی آگ گھر کا واحد کمانے والا تو نہ جانے کہاں بھٹکتا پھر رہا تھا۔ اسے تلاش کرنے سے بہتر تھا کہ اپنے لیے رزق تلاش کریں۔ دو وقت کی روٹی کے لیے میں نے اور ماں نے محنت مزدوری شروع کر دی۔ کھیتوں میں کام کیا۔ چرخا کا تا۔شالیں بنتے رہے۔اپلے تھاپے۔ تندور پر روٹیاں لگائیں۔غرض اپنی ساری حیثیت بھلا کر اس ایک چیز کو یادرکھا کہ ابھی ہم ضرورت مند ہیں لیکن محتاج نہیں ہیں ۔ ضرورت مند ہو نا کوئی عیب نہیں ہوتا ۔ لیکن اپنے لیے کچھ نہ کر سکنا کمزوری ہوتی ہے۔ اب میں عمر کے ایسے حصے میں داخل ہورہی تھی ۔ جہاں مجھے شعور بہت کچھ سکھارہا تھا۔ اور تجر بے مجھے پختہ کر رہے تھے۔ میں ایک مضبوط عورت کے روپ میں ابھرنا چاہتی تھی ۔ تاکہ کوئی مجھے ترس کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ مجھے سہارا دے کر کھڑا کرنے والی ماں اب ڈھے رہی تھی۔اس کے اعصاب اور بدن میں اب وہ توانائی تھی۔ نہ احساس غم نہ محرومی اور نہ ہی میرے حوالے سے کوئی احساس جرم۔ ماں نے بڑھاپے میں قدم رکھا تو تقدیر کا لکھا سمجھ کر سب قبول کر لیا۔ اب اس تقدس کی ماری کی بیساکھی مجھے بنا تھا۔ میرے سامنے اگر اس بوڑھی ماں کی مثال موجود نہ ہوتی تو شاید میں ہار جاتی ۔لیکن وہ زندہ مثال مجھے ہار نے نہ دیتی تھی۔ یوں ہی دن جاتے گئے ا ور زندگی کی بائیس بہاریں بے قراری اور انتظار کی نذر ہوگئیں۔ اب تو کسی کے لوٹ آنے کی نہ امید تھی اور نہ ہی چاہ باقی رہی تھی ۔ جس شخص کو بھی دیکھا نہ ہو۔ بھی ہم کلامی نہ ہوئی ہو۔ صرف تین بولوں میں بندھ کر تقدیر کا بدلتا رخ دیکھا ہواس کے ساتھ کا سوچ کر کوئی خوشی ذہن میں نہ آتی تھی۔ اک روشن صبح میں تلاوت کر کے صحن میں نکلی کہ آج کے دانہ پانی کا کوئی بندوبست کرسکوں کواڑکھلنے کی آواز آئی ۔ ایک بزرگ جو کہ رشتے میں میرے شوہر کے چچا تھے سینہ چوڑا کیے بڑی خوشی سے اندر آتے دکھائی دیے۔ آتے ہی کہنے لگے کہ ”بھابھی کو بلا ؤ خوش خبری ہے۔ میں نے دل میں سوچا کہ خوش خبری کا ہماری زندگی سے کیا تعلق لیکن کام کرتے رہنے کی عادت بن گئی تھی۔ کام سمجھ کر اندر چلی گئی اور ساس کو بلا کے لے آئی۔ چاچا کہنے لگے کہ بیٹی وہ آۓ گا۔ وہ ضرور آئے گا۔ میں نے خواب دیکھا ہے۔“ ”اے لو جی! بزرگوں کو مذاق کی سوجھی ہے ۔ خواب کی باتیں کب حقیقت ہوتی ہیں۔“ میرا دماغ غصے سے کھولنے لگا کہ اس قسم کی باتیں کر کے ہمارا مذاق اڑارہے ہیں۔ یا ہماری بے بسی کا تماشاد یکھنے آئے ہیں۔ میں پاؤں مارتی کمرے میں چلی گئی۔ لیکن ماں بہت دیر تک ان کے ساتھ بیٹھی رہیں ۔ان کے چہرے پر بھی خوشی چھلک رہی تھی ۔ ان کی آنکھیں بار بار چمکنے لگتیں۔ چاچا اپنی ترنگ میں بہت کچھ بولے جا رہے تھے۔اور میں اس انتظار میں تھی کہ یہ بزرگواراٹھیں اور میں جا کے ماں کی امید توڑوں۔ بھلا خواب پر اعتبار کر کے بائیس سال کیسے بھلاۓ جاسکتے ہیں۔ ہماری تو تقدیر میں تنہائی لکھی ہے۔ ہم نے اسی تنہائی میں جینا تھا اور اس میں مرنا۔ چا چا اٹھ کر گئے تو میں نے جلدی سے دروازے پر زنجیر چھائی اور ماں کے پاس آ بیٹھی اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی وہ بول اٹھیں ۔ ” مایوسی کی باتیں مت کرنا۔ یہ بہت اللہ والا ہے۔ دیو بندہے قرآن وحدیث پڑھ کر آیا ہے۔اس کا خواب نظر کا دھوکا نہیں ہوسکتا ہے۔ میں ان کے لیے کا یقین بھانپ کر حیران رہ گئی۔ ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ میری بے یقینی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ پھر اپنے ایمان کو مضبوط کیا اور اللہ کو یاد کیا تو دل میں اطمینان سا اتر آیا۔ وہ اللہ والا ہے اس کا خواب جھوٹا نہیں ہوسکتا یہ بات ذہن میں گردش کرنے لگی۔ میں تو ابھی اسی کیفیت میں تھی لیکن ماں کو اور اور خیالات آنے لگے انہیں میں پہلے دن کی دلہن نظر آنے لگی۔ انہوں نے میری حالت زار کو دیکھا تو پشیماں ہونے لگیں۔ میرے ہاتھ پیر کام کر کر کے پھٹ چکے تھے۔ چہرہ بے رونق اور زرد۔ بال الجھے ہوۓ اور کپڑے انتہائی بوسیدہ ۔ اس سے پہلے تو بھی ہمارا دھیان اس طرف کو گیا ہی نہیں تھا۔ مجھ میں تو آرائش وزیبائش کی بی حس پیدا ہونے سے پہلے ہی دفن ہو گئی تھی۔ بالوں میں چاندی چمک رہی تھی جیسے میں کوئی نازک خاتون نہیں ہوں بلکہ کوئی گھبرو جوان ہوں۔ جو پل میں کسی کو بھی پچھاڑ کے رکھ دے۔ اک عجیب ملغوبہ سی ظاہری صورت تھی میری۔ ماں نے کہا کہ آج کام کاج کی تلاش میں نہ تھکوں بلکہ خود پر توجہ دوں۔ میں نے ان کی اس فرمائش کو تمسخر میں اڑا دیا۔ بھلا مجھے سنگھار سے کیا غرض ہوسکتی تھی۔ میں کام کے لیے ہولی۔ شام کو تھکی ہاری آئی اور بستر پر پڑتے ہی گہری نیند میں چلی گئی۔ صبح جب آنکھ کھلی تو گھر میں غیر معمولی سا کچھ تھا۔ سناٹا ٹوٹا ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ چہل پہل ہے۔ میں صحن میں آئی۔ ماں نے مجھے سرتا پا دیکھا اور صحن میں پڑی اکلوتی چار پائی کی طرف اشارہ کیا کہ اس پر لیٹ جاؤ۔ میں نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا لیکن وہ جواب دیے بغیر صندوق سے رضائی نکال لائیں اور مجھ پر ڈال دی۔ چار پائی کے ایک طرف راکھ گزاری اور کہنے لگیں۔ وہ ابھی آجاۓ گا۔ تمہارے کپڑے پھٹے پرانے ہیں اور بال الجھے ہوۓ۔ ہاتھ پیر کھردرے اور رنگ زرد ، بس تم ایسی حالت میں اس کے سامنے مت آنا۔ میں کہہ دوں گی بیمار ہے۔ابھی الٹیاں کر کر کے نڈھال پڑی ہے۔ چار پائی کے ایک طرف راکھ تبھی ڈالی ہے کہ بدبو کا احساس نہ ہو۔ میں ان کے یقین پر حیران تھی۔ لیکن پھر ایک معجزہ ہوا جیسے کہ میری بے چینی ہار گئی۔ ان کا یقین جیت گیا۔ میں ان کی فتح اور اپنی ہار پر خوش ہورہی تھی۔ میرے دل میں جشن کا سال تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اندر ہی اندر شادیانے بج رہے ہیں۔ صبح وہ آ گئے سارا دن ملاقاتیوں کا ہجوم لگا رہا۔ اور میں بستر میں دبکی رہی۔ زندگی میں پہلی بار اتنا آرام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ لیکن یہ آرام مجھے اپنادشمن لگ رہا تھا ۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اٹھ کر ناچنے لگوں اور چیخ کر کہوں کہ میرا انتظار ختم ہو گیا۔ میری بے بسی مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ میرے سکوت میں ہل چل بر پا ہورہی ہے۔ میں جو بحیرہ مردار کی طرح ہر احساس خود سے ٹکراتے ہی لوٹا دیتی تھی ۔ آج ہر احساس کو اپنے اندر سمونا چاہتی ہوں ۔ میں بچپنے میں اپنے گھر سے نکلی تھی اور آج شعور کی منزلیں طے کرنے کے بعد دوبارہ اپنے گھر کی زمین مجھے قبول کر رہی ہے ۔ میں نے کئی سال مسافت میں گزارے ہیں ۔ میں آبلہ پا ہوں۔لیکن اب مجھ پر ٹھنڈی پھوار پڑ رہی ہے ۔ جیسے ہی لوگوں کا ہجوم کم ہوا میں پھرتی سے اٹھی اور رگڑ رگڑ کر اپنے ہاتھ پیر اور چہرہ دھونے لگی۔ نسبتا کم بوسیدہ کپڑے زیب تن کیے اور بال سلجھانے لگی۔ کئی سالوں کی گر ہیں تھیں ان بالوں میں ۔ بڑی مشکل سے کچھ سنورے۔ سنورے وجود کے ساتھ میں بڑی ہلکی پھلکی سی ہوگئی۔ ذہن پر چھایا غبار بھی کچھ اتر گیا۔ خاموشی تو ہمارے درمیان شاید قلعہ بنا چکی تھی ۔ بس اک نظر اسے دیکھ لیا۔ یہی کافی تھا۔ یوں آیا تک دن سنور جائیں گے مجھے اندازہ نہ تھا۔ میں تو اک سراب سے بندھی تھی ۔ یہ نہ نا معلوم تھا کہ صحراؤں میں چشمے بھی پھوٹ پڑتے ہیں۔ قدرت نے مجھے صحرا کے بیچوں بیچ ابلتے ہوئے چشمے سے ہمکنار کر دیا۔ اس نے بتایا کہ خاکروب سے جھگڑے کے بعد اس نے ٹھنڈے پہاڑوں کا رخ کرلیا۔ وہ ہمالیہ کے برف زاروں میں بھٹکتا رہا۔ اس کے ذہن سے پیچھے کے نقش مٹتے گئے ۔ وہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ پھر وہ ہمالیہ کے پار جا پہنچا۔ وہاں ایک اور ہی دنیا آباد تھی۔ خلق خدا کا اک سمندر تھا جو تھمتا نہ تھا۔ وہ سنکیانگ کے باغوں میں جا پہنچا۔ خدا کی قدرت تھی جو ہر چیز میں عیاں تھی۔ اس مٹی کی زرخیزی ایسی کہ قسم قسم کےمیوے ایک ہی جگہ پر آ گئے تھے۔ اللہ نے رزق کے دروازے اس بستی میں کھول رکھے تھے۔ برکت ایسی کہ جس کام میں ہاتھ ڈالو نفع ملے۔ بس وہاں کا موسم بڑا شدید تھا۔ گرمی میں گرمی بہت پڑتی تھی اور سردی میں سردی بہت بڑی تھی۔ لیکن اس شدت موسم سے مقابلہ کرتے ہوۓ وہ لوگ مسجدوں کو آباد رکھتے تھے۔ اس لیے اس شہر میں برکت ہی برکت تھی ۔ وہ وہاں سے کشتیاں جلا کر نہیں لوٹا تھا۔ بلکہ اتنے سالوں بعد اسے بوڑھی اور کی نویلی دلہن کی یاد ستائی تھی۔ اس کی بے چینی کو جب تھوڑا قرار آیا تو بے قراری کے لیے اسے گھر کی چاہت نے گھیر لیا تھا۔ اور اب تو انگریز سرکار کا زمانہ بھی چلا گیا تھا۔اپنا پیارا پاکستان جو بن گیا تھا۔ وہ مجھے ہمسفر بنا کر پھر سے سنکیانگ کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں اس کا مال وزر تھا۔ اس کا کاور بار اور اس کی تو جوانی کی یادیں ۔ وہ ان گلیوں کو کیسے بھلا سکتا تھا جنہوں نے اسے پناہ دی تھی۔ اسے کاشغر کے اونچے ٹیلے پر بنی مسجد کے مؤذن کی آوااپنی طرف بلاتی تھی ۔ الغرض ہم نے سامان سفر کیا اور چل پڑے۔ کسی مرد کے ساتھ اتنی معتبر حیثیت سے گاؤں سے باہر قدم رکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا ۔ لیکن زندگی کے تلخ تجربوں نے میری دلچسپیوں کو محدود کر دیا تھا۔ مجھے ان دیکھی چیزیں بھی دیکھی بھالی معلوم ہوتی تھیں۔ یوں محسوس ہی نہیں ہورہاتھا کہ میں کسی نئے سفر پر روانہ ہوں ۔ میری تو ساری زندگی سفر میں گزری تھی۔ پیار ،محبت، احترام اور ہمدردی کا ہر احساس میرےلیے نیا تھا لیکن یوں لگتا تھا کہ میں ان کی احساسات کی بھی عادی ہوں۔ اور محبت جتانے اور احترام نبھانے سے اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے وجود میں اک خاموشی اور ٹھنڈ اتر گئی تھی کوئی آگ نہیں جس کو بجھانے کی فکر ہوتی مجھے۔ ہر آگ بجھ چکی تھی۔ کوئی انگارہ بھی نہ بچا تھا کہ چنگاری سے سلگتا ۔ سب راکھ کا ڈھیر ہو گیا تھا – ہمالیہ کے بل زارراستے میرے قدموں سے ایسے گزرے جیسے کوئی پرندہ رات میں اپنے گھونسلے کی سمت جاتا ہے۔ نہ اس کے قدم زمین کو چھوتے ہیں۔ اورنہ ہی اس کی آنکھیں اس حسن کو دیکھ پاتی ہیں۔ ایک سیاہ پردہ ہوتا ہے جو نگاہوں کے سامنے مائل ہوتا ہے۔ میں اس حقیقت کا اعتراف لفظوں میں کرنا چاہتی تھی۔ کہ میری زندگی بدل گئی ہے ۔ لیکن الفاظ میرا ساتھ نہیں دیتے تھے۔ خوشی نے مجھے گونگا کر دیا تھا۔ میں ہونقوں کی طرح زندگی کی رنگینی کا تماشار دیکھ رہی تھی ۔ میری یہ کیفیت میرے سوا کوئی نہیں جان پایا تھا ۔ سب مجھے وہاں بھی اک مضبوط عورت ہی سمجھتے رہے۔ کسی نے میرے اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ آسائشیں میرے لیے بہت نئی تھیں۔ میں انھیں آسانی سے پاتی تو یقینا مغرور ہو جاتی ۔ پر ایک ہی خیال میرے اردگردمنڈلاتا تھا کہ جو سختیاں مجھ پر گزریں وہ بھی میرے لیے بلکل نئی تھیں۔ جیسےتقدیر نے بائیس سال پہلے پلٹا کھایا تھاویسے ہی کھایا تھا – اب میرا گھر میرا مسکن تھا۔اور ہرسہولت بھی موجود تھی ۔ ہر کام جلدی اور صفائی سے ہو جا تا تھا ۔ اس نے مجھے رسموں رواجوں سے بڑھ کر احترام دیا۔ وہ باورچی خانے میں میرے ساتھ کھانا پکواتا اور غسل خانے میں میرے ساتھ کپڑے دھلواتا تھا۔ فرش چمکانے میں دو مجھ سے زیادہ ماہر تھا۔ اس کا کاروبار پھیلا ہوا تھا وہ ملازمہ بھی رکھ سکتا تھا لیکن وہ میرا بوجھ بانٹنا چاہتا تھا – میں جب سودا خرید نے بازار جاتی تو بازاروں میں بکنے والےخانے مجھے بڑا مرعوب کرتے – آج سے پہلے تو کبھی لذت پر دھیان نہ گیا تھا میں بھوک مٹانے کے لیے جو رو کا سوکھا ہوتا کھا یا کرتیتھی ۔ وہاں کے کھانوں میں میں نے زیرہ ،تماشہ جائفل اور دار چینی دیکھے۔ وہیں پر میں نے شوق سے کھانا پکانا سیکھا۔ رب کی نوازشیں ہر بندش کا توڑ ہوتی ہیںالله پاک نے مجھے چمکتے بالوں کے ساتھ اولاد عطا کی۔ پہلے میرے گھر بیٹی رحمت بن کر آئی اور چند سالوں بعد چاند سا بیٹا۔ بچوں کی پیدا ئش کے بعد میں پھر سے بہت مصروف ہوگئی ۔ میں اپنے بچوں کو برمحرومی سے دور کھنا چاہتی تھی ۔ لیکن میں خود کو بدل نہ سکی ۔ خاموشی کا وہ حصار جو ہمارے درمیان تھا جوں کا توں قائم رہا۔ متمول گھرانے کے جوڑے شام کو چائے کی پیالیاں اٹھائے کھلکھلایا کرتے تھے۔ میری مسکراہٹ بھی خلا میں گم ہو جاتی ۔ میں کوشش کر کے بات شروع کرتی لیکن مجھ سے جملہ ادا نا ہوتا تھا۔ میرے تھے ادھورے رہ جاتے۔ میرے پاس محبت کا اظہار یہ تھا کہ خوشبودار سالن اور ترکاریاں پکاؤں – میری بنائی ہوئی چائے سفید چنمبیلی سے مہکے میرے پراٹھوں میں عقاب کیسرخی چھلکے – پرانے گملوں سے پودینے کی بھینی بھینی ٹھنڈی خوشبو اٹھتی رہے۔ اور گلاب کی سرخ کلیاں پانی کے جگ میں تیرا کی کر یں اور گھونٹ گھونٹ میں میری محبت کا احساس اترتا جائے ۔ میں اپنی محبت کو پانی دیتی رہی بس اسے دھوپ میں بچایا اور چھاؤں میں دھوپ نہ دےسکی ۔ میں اک ایسا برف زارتھی کہ جس پر ہر آنے والے سال برف کی ایک کی تہ جم جاتی ہے۔ اور چاندنی رات کا کوڑا اسے سخت سے سخت تر کر دیتا ۔ وہ تلافی کی میعاد پوری کر چکا تھا ۔ اسے اب ساتھ چاہیے تھا ۔ وہ نباہ نیاہ کے تھک چکا تھا۔ اب اسے چاہے جانے کی چاہ تھی ۔ وہ مجھے زندگی لوٹانے میں ناکام ہو گیا تھا۔ اس نے وہاں سے کاروبار سمیٹا اور ہم واپس اپنے وطن آگئے ۔ یہاں اس نے نئے سرے سے کام شروع کیا۔ وہ اک مہمان تاجر تھا۔ مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو سونا بن جاتی۔ وہ کاروباری سفر کرتے کرتے مشرقی پاکستان جا پہنچا۔ مشرقی پاکستان اسے بھا گیا۔ اس کے سفر تواتر اختیار کر گئے۔ اور ایک دن مال تجارت کے ساتھ رضیہ کو بھی لے آیا۔ رضیہ بہت خوب صورت تھی۔ عمر کی پکی تھی لیکن لہجے میں کھنک ۔ بولتی تو باتوں سے پھول جھڑے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی چمک بھی سننے والے کو نظریں ہٹانے نہ دیتی۔ وہ جمال وجلال کا مرکب تھی۔ جب حسن بھی ہو اور جلال بھی تو اس دنیا میں اور کیا چاہیے ہوتا ہے؟ میں اس کے جلال تلے تو آنے والی نہیں تھی لیکن اس کے جمال تلے دب کر مجھے اپنا آپ کہانی کا پس منظر لگنے لگا۔ اس کے سیاہ گھنے بال اماوس کی رات کی طرح پراسرار تھے۔ وہ جب انہیں کھولے آنگن میں چلتی تو اس کے سحر سے نکلنا مشکل ہو جاتا۔اس کی پٹ سن کے سنہری ریشوں جیسی رنگت ۔ سردی کی دھوپ جیسی تمازت دیتی تھی۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ اس نے مجھے نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ اسی طرح میر احترام کرتی جیسے کہ میرا شوہر میرا احترام کرتا تھا۔ بس اسی لیے مجھے بھی اس سے انسیت ہوگئی۔ رضیہ پڑھی لکھی خاتون تھی ۔ شہر کے کالج میں پڑھانے گئی۔ میرے بچے بھی اس کے زیر نگرانی تھے۔ان کی تعلیم تربیت بھی بہت اچھے سے ہونے لگی۔ زندگی میں اک متوازن کی روانی آگئی۔ چہروں پر اطمینان جھلکنے لگا۔ میری زبان کی گرہیں بھی کھلنے لگیں۔ ہم نے مل کر اپنی بچی کی دھوم دھام سے شادی کی ۔ رضیہ نے اسے بازار سے جدید طرز کے ملبوس دلاۓ ۔اب ہم کوئی چاند کا ٹکرا بہو کے روپ میں گھر لانے کی سوچنے لگے۔ بس ان ہی دنوں ہمیں پیچھے دھکیلنے کو مرگ آپڑی۔ میرے تندرست شوہر نے مجھے سے اور رضیہ سے کنارہ کشی کر لی اور اپنے خالق حقیقی سے جاملا ۔ رزق کے وسیلے تو رب کے فضل سے بہت تھے لیکن اس کے جانے کے بعد مجھے اس کرب نے آگھیرا کہ شاید اسے میری بے اعتنائی کا غم کھا گیا ہے۔ اسے رضیہ سے محبت نہیں تھی۔ اسے تو وہ میری زبان کی گرہیں کھولنے کو لایا تھا۔ اسے اماوس کی رات سے لگاؤ نہیں تھا وہ تو چاندنی کا شیدائی تھا۔ اسے قلم تھامنے والے نرم و نازک ہاتھ سرور نہیں دیتے تھے۔ اسے تو بائیس سال تک گارا گوندھ کر اس کے کچے گھر کی دیواروں کو کھڑارکھنے والے کھردرے ہاتھوں کی تمنا تھی لیکن بہت دیر ہوگئی ۔ خالہ بی کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ شاید وہ اپنی ساری زندگی میں افسردہ آخری حصے میں جاکر ہوئیں۔ ان کا بیٹا۔ پوتے پوتیاں، بہو اور رضیہ سب ان کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ اور وہ اپنی محبت کو پانی دینے کے لیے سنکیا تنگ کی گلیوں کے کھانے اب بھی پکاتی ہیں۔