لیڈی ڈاکٹر بننے کا مجھے کوئی شوق نہیں تھا، مجھے تو معالج کی اہمیت کا بھی تصّور نہ تھا لیکن ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے میرے دل و ذہن کی دنیا ہلا کر رکھ دی۔ والد صاحب میرے بچپن میں وفات پا گئے تھے، والدہ ہی کل کائنات، میری سرپرست تھیں۔ میں ان کی اکلوتی اولاد تھی۔ کوئی بہن، بھائی نہ ہونے کے سبب ماں کی ساری توجّہ مجھ پر مرکوز رہتی۔
والدہ معمولی پڑھی لکھی تھیں۔ ہم گائوں کے رہائشی تھے اور میں ان دنوں دسویں جماعت میں تھی جب اچانک امّی جان بیمار ہو گئیں۔ پہلے تو گھریلو ٹوٹکے آزمائے، حکیم سے دوا کی، وہ ٹھیک نہ ہوئیں تو ماموں کو فون کیا جو شہر میں رہتے تھے۔ فون پر میں نے رو رو کر التجا کی کہ ماموں جان کسی طرح جلد آ جایئے۔ امّی کا علاج کروایئے۔ ماں کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے تسلّی دی اور جلد آنے کا وعدہ کر لیا تاہم فوری طور پر نہ آ سکے۔ والدہ کی طبیعت ایک رات اچانک بگڑ گئی۔ ایک رشتہ دار جن کا گھر قریب ہی تھا، ان کے پاس گئی، وہ اور ان کی بیوی رات کو ہمارے گھر آگئے۔ امّی کو سنبھالا، جوں توں کر کے رات کٹ گئی۔
اگلے دن کرایے کی گاڑی لے کر وہ امّی جان کو اسپتال لے گئے لیکن ہمارا گائوں شہر سے تین سومیل دور تھا، امّی جان نے راستے میں دم توڑ دیا۔ اس دن میرے دل کو ایسا دھچکا لگا کہ میری پوری شخصیت ہل کر رہ گئی۔ قسم کھائی ڈاکٹر بنوں گی، اپنے گائوں میں اسپتال بنوائوں گی اور غریبوں کا مفت علاج کروں گی۔ میری ملکیت میں بس ایک ذاتی مکان تھا جو والد مرحوم کا ورثہ تھا اور کچھ نہ تھا۔
ماموں جان آئے مگر والدہ کی زندگی میں نہیں ان کی میّت پر پہنچے۔ مجھے بے تحاشہ روتے دیکھ کر ماموں اور ممانی نے تسلّی دی اور ڈھارس بندھاتے رہے مگر میرا رونا ختم ہوا اور نہ آنسو تھمے، تب ہی ماموں جان نے فیصلہ کیا کہ اب فیروزہ کو ساتھ شہر لے جانا ہے، یہ ہمارے ساتھ رہے گی اور وہاں پڑھے گی۔
سب ہی نے ماموں سے کہا کہ آپ نے صحیح فیصلہ کیا ہے۔ میرا کوئی تھا بھی نہیں سوائے ماموں کے، باقی رشتہ دار اتنے قریبی نہ تھے جتنے کہ ماموں، ممانی کے رشتے تھے۔ یوں قدرت نے مجھے گائوں سے شہر پہنچا دیا۔ عام حالات ہوتے تو کبھی اس طرح دل لگا کر محنت کرتی اور نہ پڑھ پاتی مگر والدین کی وفات کے بعد جو جذبہ روشن ہوا، اسے پھر کوئی آندھی یا طوفان بجھا نہ سکا۔
ماموں نے جو میری دیوانگی کی حد تک لگن دیکھی تو انہوں نے بھی خوب ہمت افزائی کی۔ میں بہترین نمبر لانے لگی اور انہوں نے مجھے شہر کے بہترین کالج میں داخل کرا دیا۔ لگن سچّی ہو تو کیا نہیں مل سکتا۔ ایف ایس سی میں میرٹ بن گیا اور بہ آسانی میڈیکل کالج میں پہنچ گئی۔ شاید میرے نصیب میں ڈاکٹر بننا لکھا تھا۔ جب تعلیم مکمل ہو گئی اور میں ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر کالج سے باہر آئی تو ماموں جان نے چاہا کہ میری شادی ان کے بیٹے فواد سے ہو جائے لیکن میں نے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے وجہ پوچھی، بتایا کہ میں نے قسم کھائی ہے ڈاکٹر بن کر اپنے گائوں میں رہوں گی اور غریبوں کا علاج کروں گی۔ ماموں نے کہا۔ بیٹی! جیسی تمہاری مرضی، گائوں میں رہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، تم اپنا شوق پورا کر لو، شادی کی بعد میں دیکھی جائے گی۔
ان دنوں ہمارے گائوں میں ایک چھوٹا سا سرکاری اسپتال بن گیا تھا۔جوں ہی ہائوس جاب مکمل کی میری پہلی تعیناتی اسی اسپتال میں ہو گئی۔ میری یہی خواہش تھی لہٰذا ماموں جان کی کوششوں سے میں اپنے گائوں میں ڈیوٹی سرانجام دینے لگی۔ سارے گائوں والے میری تعیناتی پر خوش تھے، کیوں نہ ہوتے میں ان ہی کے گائوں کی بیٹی تھی، بااخلاق بھی تھی، غریبوں کا احساس کرتی تھی۔ جب بھی کوئی مریض اسپتال آنے کے قابل نہ ہوتا، میں ان کے گھر چلی جاتی اور کوشش کر کے مریض کو شہر کے بڑے اسپتال بھجوا دیتی۔ اس بات سے سارا گائوں میری عزت کرتا اور بزرگ اپنی بیٹی کہتے تھے۔
ہمارے اسپتال کی عمارت نئی اور خوبصورت تھی، ڈاکٹرز کالونی کے چند گھر بھی احاطے کے اندر تعمیر ہو چکے تھے لیکن عملے میں دو نرسوں، وارڈ بوائے اور دیگر ملازمین کے علاوہ میں واحد لیڈی ڈاکٹر تھی۔ جلد ہی سینئر ڈاکٹر کی تعیناتی ہونے والی تھی۔
میں نے چند ماہ تنہا اسپتال سنبھالا پھر سینئر ڈاکٹر ایک بڑے شہر سے آ گئے۔ ان کے آنے سے پہلے میں بڑے اطمینان سے اپنا فرض ادا کر رہی تھی۔ جب نئے ڈاکٹر تعینات ہو کر آگئے تو سارا عملہ سہم گیا کیونکہ ان کی ایڈمنسٹریشن بڑی سخت تھی۔ عملہ تو خائف تھا ہی انہوں نے آتے ہی میری بھی کھنچائی کر دی اور معمولی سی بات پر ڈانٹ پلا دی۔
مجھے بہت دکھ ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اس قسم کی سختی کی عادی نہ تھی۔ رو پڑی اور اسپتال سے اپنے اس مکان میں چلی گئی جو دو کمروں، کچن اور برآمدے پر مشتمل تھا اور لیڈی ڈاکٹر کیلئے تعمیر کروایا گیا تھا۔ مجھے چونکہ رات، دن اسپتال کے احاطے میں موجود رہنا تھا لہٰذا دیگر عملے کی طرح میں بھی اپنے لئے مخصوص کردہ مکان میں قیام پذیر تھی۔ سینئر ڈاکٹر صاحب آئے تو وہ بھی اپنے لئے مختص گھر میں قیام پذیر ہو گئے۔
ان کا گھر میرے گھر سے تھوڑے سے فاصلے پر تھا۔ اتفاق کہ وہ بھی فیملی والے نہ تھے اور میں بھی اکیلی تھی۔ جب عملے نے ان کو بتایا کہ ان کی ڈانٹ سے دل برداشتہ ہو کر میں بہت روئی ہوں اور ڈیوٹی کے اوقات میں گھر جا بیٹھی ہوں تو کافی پشیمان ہو ئے۔ خود میرے گھر چلے آئے، مجھ سے معذرت کی اور سمجھایا۔ تم ابھی کم عمر ہو اور تجربہ بھی نہیں ہے۔ تمہیں علم نہیں کہ ایڈمنسٹریشن کا درست ہونا کسی ادارے کو چلانے کیلئے کس قدر ضروری ہوتا ہے۔ بہرحال اب رنج کو دل سے نکال پھینکو، آج سے تم میری چھوٹی بہن ہو اور مجھے اپنا بڑا بھائی سمجھ کر میری کسی بات کا برا نہ مانا کرو کہ ابھی تمہیں ایک سینئر اور تجربہ کار ڈاکٹر سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ انہوں نے عزت اور پیار سے بات کی، سمجھایا تو میں سمجھ گئی اور دل سے کدورت ختم ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک تجربہ کار اور قابل ڈاکٹر تھے، میں ان کی ماتحت تھی، نئی تھی، مجھے نوکری کرنی تھی اور ان کا کہا بھی ماننا تھا، ان سے سیکھنا بھی تھا، سر تسلیم تو خم کرنا ہی تھا۔
انسان کو شروع میں پتا نہیں ہوتا لیکن وقت گزرنے کے بعد پتا چلتا ہے، وہ بہ ظاہر رعب و داب رکھتے تھے مگر رحمدل اور اچھے انسان تھے۔ مجھ سے اب وہ عزت سے بات کرتے، کوئی مریض آتا تو اسے نہایت توجّہ سے دیکھتے اور مجھے بھی اس کی بیماری کے بارے میں بتاتے۔ اپنے اثر و رسوخ سے جان بچانے والی دوائیں، انجکشن نیز دو ایمبولینس بھی منگوا لی تھیں۔ اسپتال ان کے آنے سے بہت اچھا ہو گیا تھا۔ گائوں کے لوگ انہیں دعائیں دیتے تھے کہ یہ اسپتال ان کیلئے ایک نعمت سے کم نہ تھا۔
کچھ عرصےبعد ہی ماہ رمضان شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب روزہ رکھتےتھے مگر ان کا خانساماں کام کا نہ تھا، وہ اچھا کھانا نہ بناتا تھا تب میں نے ان سے کہا کہ آپ رمضان شریف کے مہینے میں اپنے ملازم سے کھانا مت بنوائیں، میری ملازمہ بہت اچھا کھانا بناتی ہے۔ روٹی تنور پر لگاتی اور پلائو بھی عمدہ بناتی تھی۔ یہ عورت ماموں جان نے میرے ساتھ لاہور سے کر دی تھی۔ مجھے کھانے کا بہت آرام تھا۔
میرے اصرار پر ڈاکٹر صاحب نے بات مان لی، اب وہ افطار کے وقت میرے گھر آ جاتے اور روزہ کھولتے، نماز پڑھتے، کھانا کھاتے اور چلے جاتے۔ سحری میں، میں ان کے ملازم کو بلوا لیتی جو ڈاکٹر صاحب کیلئے سحری لے جاتا۔ بس اس بات پر ہمارے عملے میں چہ
میگوئیاں اور سرگوشیاں شروع ہو گئیں، میں نے کسی کی پروا نہ کی، دل صاف تھا۔ چھٹی کے روز جی گھبراتا تو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ سیر کو بھی چلی جاتی۔ اس پر ہمارا نچلا عملہ کڑھتا اور باتیں بناتا۔ یہ لوگ سب ہی میرے اپنے گائوں کے تھے اس لئے مجھے ان پر اعتماد تھا لیکن ان کو مجھ پر اعتماد نہیں رہا تھا۔
عید پر یہ لوگ گھروں کو گئے تو سارے قصبے میں یہ بات پھیل گئی کہ ڈاکٹر فیروزہ اور ڈاکٹر طارق کے درمیان کچھ غلط معاملہ چل رہا ہے۔ دونوں ڈیوٹی کے بعد بھی ملتے ہیں، لان میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، کھانا اکٹھے کھاتے ہیں اور سیر کو اکٹھے جاتے ہیں۔ گویا یہ ایسے جرائم تھے جن کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا حالانکہ ڈاکٹر طارق کے آنے سے پہلے سارے گائوں والے مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میں ان کے ساتھ بااخلاق تھی، وہ میرے ساتھ مخلص تھے مگر مرد ڈاکٹر کے اسپتال میں تعینات ہوتے ہی گویا سب کچھ بدل گیا۔ جو مجھے بیٹی کہتے تھے اب وہی باتیں بنانے لگے تھے۔ گائوں کے معززین نے ہم دونوں کو علیحدہ علیحدہ منع کیا کہ اس طرح ملنا جلنا ان کی نظروں میں درست نہیں۔ انہوں نے کہا۔ ہم اپنی بہو، بیٹیاں بھی علاج کیلئے یہاں لاتے ہیں، آپ لوگوں کے طور طریقے ٹھیک نہ ہوں گے تو ان پر کیا اثر ہو گا۔ ہم نے سمجھایا کہ ہم پڑھے لکھے ہیں، ہم پیشہ ہیں، ایک ہی اسپتال میں تعینات ہیں، ایک ہی احاطے میں ہمارے گھر بھی اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ آپس میں معاونت رہے، بیگانگی کا ماحول نہ ہو، بدقسمتی سے ہم دونوں غیر شادی شدہ ہیں تو کیا کیا جائے، ہماری فیملی تو ہمارا عملہ ہے جو ہمارے ساتھ رہتا ہے۔
یہ بات گائوں والوں کی سمجھ میں نہ آئی۔ ایک دن گائوں کے کچھ لوگ اکٹھے اسپتال آئے اور ہم دونوں کے ساتھ سخت لب و لہجے سے پیش آئے تو ہمیں بہت رنج ہوا کہ دیکھو یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ ہم تو ان کی خدمت کا جذبہ لے کر آئے تھے اور بڑے شہروں کی سہولیات چھوڑ کر ان کی خاطر اس قصبے میں ٹھہرنا منظور کیا اور یہ ہیں کہ الٹے، سیدھے گمان کر کے ہمیں خود سے بدظن کرنے پرتل گئے ہیں۔ جب بات حد سے بڑھا دی گئی تومیں اپنے گائوں کے ایک بزرگ کے گھر گئی، ان سے بپتا کہی۔ وہ میرے ہم نوا ہونے کے بجائے الٹا مجھ پر برس پڑے کہ ہم نے اپنے گائوں کا ماحول خراب نہیں کروانا۔ علاج نہیں کروانا، اپنا اسپتال اٹھائو یہاں سے اور جائو، ہمیں کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بزرگ کی عقل پر ماتم کرتی رہ گئی۔
میں اسپتال واپس آئی تو آنسو نہ روک سکی۔ ڈاکٹر صاحب حیران تھے ۔پوچھا ۔کیا ہوا ہے؟ گائوں کے اس بزرگ کے الفاظ انہیں بتائے تو وہ بھی رنجیدہ ہو گئے۔ بولے۔ اچھا بہن جی! رو مت۔ مجھے تسلّی دی اور سمجھایا کہ یہ ایک چھوٹی جگہ ہے، یہاں لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں، ان کی سوچ بھی چھوٹی ہے اور فکر بھی، تم اس بات کا برا مت مانو۔ اپنے کام سے کام رکھو۔ میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب!بے شک میں پڑھی لکھی ہوں، ان کے ذہن کو سمجھ سکتی ہوں، یہ گائوں میری جنم بھومی ہے لیکن جو اتنی ساری بدنامی بغیر کسی قصور کے میرے ساتھ جڑ گئی ہے تو کیسے اب یہاں رہ سکتی ہوں۔ جن لوگوں سے محبت کی، جن کی خاطر خدمت کیلئے ڈاکٹری پڑھی اور خدمت کا سچّا جذبہ لے کر گائوں کی تعیناتی کو چنا، وہ لوگ اگر ایسا سوچیں گے تو یہاں رہنا کیا محال نہ ہو گا؟
تو تم کیا چاہتی ہو، کیا تبادلہ کرا لیں؟ میں بس یہ چاہتی ہوں کہ یہ لوگ ہمیں سکون سے کام کرنے دیں۔ خیر اس وقت تو انہوںنے اپنی باتوں سے میرا دکھ بانٹ لیا لیکن پھر ایک ایسی بات ہو گئی کہ میرا دل یہاں سے اچاٹ ہو گیا۔
اس واقعے کے بعد میں کافی محتاط ہو گئی۔ اب ڈاکٹر صاحب سے زیادہ بات نہ کرتی۔ وہ مرد مریضوں کو دیکھتے اور میں خواتین کو۔ اگر کسی کا مرض سمجھنے میں دقت ہوتی توکاغذ پر لکھ کر پوچھ لیتی، خود ان کے کمرے میں جاتی اور نہ انہیں بلواتی۔ وہ بھی سمجھ گئے کہ میں اب ان سے بات کرنے سے گریزاں ہوں اور ان سے کچھ سیکھنے کا جذبہ بھی میرے اندر سرد پڑ گیا ہے۔
جب کافی دن تک میرا یہی طرزعمل رہا تو وہ پریشان ہو گئے اور ایک روز شام کو میرے مکان پر ملنے آ گئے۔ میں نے کہا۔ آپ اپنے والدین کا نمبر دیں، میں ان سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ آپ کی شادی کر دیں تاکہ آپ کی فیملی آ جائے، تب تو یہاں کے لوگ ہم پر اعتراض کے تیر نہیں برسائیں گے۔ نہ جانے ان کو کیا سوجھی، اچانک ہی کہہ دیا۔ فیروزہ اگر میرا ایسا ہی خیال ہے تو تم ہی شادی کر لو مجھ سے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ میرا خون کھول اٹھا۔ دراصل میرا کوئی بھائی نہ تھا تو انہیں بھائی بنا کر مجھے سکون ملا تھا۔ منہ بولے بھائی کے منہ سے ایسی بات میں برداشت نہ کر سکی اور ان کو غصّے میں کہہ دیا کہ آپ نے بھی میرا اعتماد توڑ دیا۔ جایئے یہاں سے ورنہ میں چلی جائوں گی۔ انہوں نے میرے دکھ کو سمجھ لیا اور اسی وقت اٹھ کر چلے گئے۔ سوچنے لگی۔ نہ جانے انہیں کیا سوجھی، پہلے ہی لوگ طرح طرح کی باتوں سے ناک میں دم کئے ہوئے تھے، اوپر سے انہوں نے وہ بات کہہ دی جس کا میں تصوّر نہ کر سکتی تھی۔
ان دنوں میں اس حد تک پریشان تھی کہ جی چاہتا تھا اسی وقت نوکری چھوڑ کر ماموں کے پاس لاہور چلی جائوں پھر کبھی ادھر نہ آئوں۔ علاقے کے کچھ لوگوں نے بھی تو معمولی سی بات کو ایسا عزت کا مسئلہ بنا لیا کہ ہمارے خلاف انکوائری کرا دی۔
اگلے دن میرے تبادلے کے آرڈر آ گئے تو ڈاکٹر صاحب نے آرڈروصول کئے اور لفافہ لے کر میرے کمرے میں آبیٹھے۔ ان کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ میں نے کہا۔اب کیا کسر رہ گئی ہے ڈاکٹر صاحب! آپ اپنے ڈیوٹی روم سے اٹھ کر میرے روم میں آ بیٹھے ہیں جبکہ اس وقت آپ کی معاونت کی بھی طالب نہیں ہوں۔
میرا تبادلہ ہو گیا ہے، میں آپ کو بتانے آیا ہوں۔ٹھیک ہوا۔ جایئے، جہاں آپ کا تبادلہ ہوا ہے۔ کہا کہ اگر یہی معاملہ آپ کے ساتھ ہوا ہو؟ تو میں چلی جائوں گی، نوکری کرنی ہے، تبادلے ہوتے رہتے ہیں آخرکار۔ اچھا ہے ہو جائے، اب یہاں رہنا محال ہے۔
انہوں نے لفافہ میری طرف بڑھا دیا جس میں میرے تبادلے کے آرڈر تھے۔ لمحہ بھر کو سکتے میں رہ گئی، پھر ذہن نے قبول کیا مگر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ شام کو ماموں جان کو فون کیا۔ انہوں نے پوچھا۔ مزید وہاں تعینات رہنا چاہتی ہو تو میں تبادلہ منسوخ کروا دیتا ہوں۔
نہیں تبادلہ منسوخ نہ کروایئے۔ میں لاہور آنا چاہتی ہوں اسپیشلائزیشن کیلئے۔ میں نے جواب دیا۔ ٹھیک ہے ، آ جائو پھر پریشانی کس بات کی ہے؟ پریشانی یہ ہے کہ یہاں اس دور افتادہ قصبے میں شہر سے کون لیڈی ڈاکٹر آنا پسند کرے گی؟ کوئی نہ کوئی آہی جائے گی لیکن تم تو آ جائو اب … تمہاری ممانی اداس ہیں۔ انہوں نے سمجھایا۔ دیکھو تمہاری شادی بھی تو کرنی ہے۔ عمر نکل گئی تو پھر کوئی بڈھا ڈاکٹر ہی ملے گا۔ اس بات پر مجھے ہنسی آ گئی۔
میں لاہور آ گئی۔ اپنے گھر آئی تو سکون آ گیا۔ طارق صاحب کو سارا اسپتال سونپ آئی تھی لیکن ان کا جذبہ مجھ سے زیادہ سچا تھا۔ انہوں نے باوجود بدنام ہونے کے گائوں کا وہ اسپتال نہیں چھوڑا جس کو ان جیسے تجربہ کار، ماہر اور مخلص مسیحا کی اشد ضرورت تھی۔ لوگوں کی باتوں کی پروا نہ کی اور ان کا علاج جاری رکھا پھر ایک لیڈی ڈاکٹر سے شادی ہو گئی تو اس کا تبادلہ بھی اپنے ساتھ اسی اسپتال میں کروا لیا اور فیملی والے ہوگئے۔
اب گائوں والوں کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ یہ میاں، بیوی دونوں ہی قابل مسیحا تھے۔ گائوں والوں کا دل سے علاج کرتے تھے تاہم ایک بار جب وہ لاہور ملنے آئے تو کہا۔کیا ابھی تک مجھ سے ناراض ہو؟ میں تو تمہارے گائوں والوں کی خدمت کرنا چاہتا تھا
میرے دل میں تمہارے لئے کوئی طمع کوئی میل نہ تھا۔
میل تو میرے دل میں بھی نہ تھا مگر ایک مقدس رشتے سے ایک دوسرے کو پکارا تھا تو اس رشتے کی لاج بھی رکھنی ضروری تھی ورنہ لوگوں کی زبانیں اور زہریلی ہو جاتیں۔
کہنےلگے۔ ہاں…تم ٹھیک کہتی ہو۔ تمہیں اب بھی اسی مقدس رشتے سے بلاتا ہوں مگر مجھے اپنی شادی پر ضرور بلانا۔
کچھ دنوں بعد اپنے ماموں زاد فواد سے شادی ہو گئی۔ ماموں نے مجھے پڑھا لکھا کر ڈاکٹر بنایا تھا تو ان کے احسان کا قرض بھی اتارنا تھا۔
اپنی شادی پر ڈاکٹر طارق اور ان کی مسز کو مدعو کیا مگر بہ امر مجبوری وہ شریک نہ ہو سکے جس کا قلق ہے کہ ایک بھائی، اپنی بہن کی رخصتی کے وقت موجود نہ تھا۔ یہ خلش آج بھی ہے۔
(ف…لاہور)