وہ بڑبڑا کر نیند سے جاگ اٹھی۔ اس کا سارا وجود پسینے میں شرابور تھا۔ اس نے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا اور ایک ہی سانس میں پی گئی۔ گہری سانس بھرنے کے بعد حواس قابو میں آئے تو وہ موبائل اٹھائے باہر نکل آئی ۔ کافی دیر سوچ بچار کے بعد اس نے میسج لکھا اور بھیج دیا۔ اب اسے جواب کا انتظار تھا۔
☆☆☆
رویحہ چار بھائیوں کی لاڈلی اور اکلوتی بہن ، ماں باپ کی نازک مزاج اور نازو نعم میں پلی اکلوتی بیٹی عقیقہ اس کی اکلوتی دوست تھی۔ دونوں اسکول کے زمانے کی سہیلیاں تھیں ، اب کالج میں بھی ساتھ تھیں۔ دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جاتا تھا۔ یوں دونوں گھرانے ایک دوسرے سے خوب واقف ہو گئے تھے۔ آج بھی رویحہ کمبائن اسٹڈی کے بہانے سے عقیقہ کے گھر آئی ہوئی تھی۔ عقیقہ سلش لینے کچن میں آئی تو وہاں رافع کو کھڑے پایا۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ میری سہیلی کی لائی ہوئی چیزوں پر نظر نہ رکھو۔ اسے فریج کا دروازہ کھول کر چیزوں کا جائزہ لیتے دیکھ کر بولی۔ میری تو صرف چیزوں پر ہی نہیں بلکہ تمہاری سہیلی پر بھی نظر ہے۔ منہ دھو رکھو۔ خبردار ایسی ویسی بات سوچی بھی تو ۔ میری سہیلی یوں ہی سی نہیں ہے۔ اور اگر میں سنجیدہ ہوں تب بھی۔ فی الحال تو سنجیدہ کے بجائے غیر حاضر دماغ لگ رہے ہو۔ یہاں سے رفو چکر ہو جاؤ۔ وہ شرارتی سے انداز میں کہتی کچن سے باہر نکل گئی جبکہ وہ پر سوچ نظروں سے اسے دور جاتا دیکھتا رہا۔
☆☆☆
رات کو بستر پر لیٹے لیٹے اس کے ذہن میں رافع کی بات آئی تو وہ چونک اٹھی۔ رافع اس کا خالہ زاد اور رضاعی بھائی تھا۔ رافع اسے بھائی جتنا عزیز تھا تو رویحہ نے اس کی بہن کی کمی پوری کر دی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوا گر رویحہ اور رافع ایک ہو جائیں۔ ایک خیال سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔ رافع کے اصرار پر وہ رویحہ کے سامنے ذکر چھیڑ بیٹھی ۔ رویحہ کے سپاٹ تاثرات نے عقیقہ کو نادم کر دیا تھا۔ مگر عقیقہ کی ثابت قدم کوششوں سے رویحہ رافع سے بات کرنے پر آمادہ ہوگئی تھی اور پہلی ہی ملاقات میں سرمستی، پر کشش آنکھوں والے رافع نے رویحہ کو اپنا اسیر کرلیا تھا۔ اس نے رافع کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی مگر وہ اسے جھڑک کر لاتعلقی بھی نہیں اپنا سکی تھی۔ جب رافع کے چکر بڑھنے لگے تو رویحہ نے صاف الفاظ میں عقیقہ کے ذریعے کہلا بھیجا کہ اپنی امی کو گھر بھیجے۔ رافع خود بھی یہی چاہ رہا تھا۔ چنانچہ ارادے پہ عمل کر ڈالا۔ مگر امی کا ردعمل دیکھ کر تو وہ حیران رہ گیا۔ وہ ایسی چراغ پا ہوئیں اور وہ واویلا مچایا کہ خدا کی پناہ۔ اس نے بھلا اپنی ماں کا یہ روپ کب دیکھا تھا۔ وہ بغیر بتاۓ لاہور چلا آیا اور سیدھا عقیقہ کے پاس آکردم لیا۔ وہ پریشان حال عقیقہ کو ہماری صورت حال سے آگاہ کر رہا تھا کہ رویحہ آ پہنچی۔ رافع کی آواز نے اس میں سرشاری کی لہر دوڑا دی تھی۔ اپنا نام سن کر بلا ارادہ ہی وہ رک گئی اور دروازے سےلگی ان کی باتیں سنے لگی ۔۔ مجھے لگتا ہے غلطی مجھ سے ہی ہوئی ہے۔ میں نے خود جا کر مما کو بول دیا کہ میں رویحہ کو پسند کرتا ہوں اور وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے مجھے کیا علم تھا کہ اندر سے مما ایسی سوچ رکھنے والی نکلیں گی۔ کیوں کیا ہوا ؟ یہ عقیقہ کی آواز گی۔ امی بہت غصہ ہوئیں اور پتا نہیں کیا کیا کہنے لگیں کہ وہ کردار کی اتنی ہلکی لڑکی سے میری شادی کبھی نہیں کروائیں گی، جو پڑھائی کے بہانے آکر دوست کے بھائی سے عشق کی پینگیں بڑھائے۔ کیا مطلب اس بکواس کا ؟ رافع تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نے کتنی مشکلوں سے رویحہ کو راضی کیا تھا تم سے بات کرنے کے لیے۔ عقیقہ پھٹ ہی تو پڑی اور باہر کھڑی رویحہ پر تو گویا آسمان الٹ پڑا۔ اس سے آگے کچھ نہ سنا گیا۔ اسے خود بھی خبر نہ تھی کہ وہ اپنے بے جان وجود کو گھسیٹتے گھر کیسے پہنچی۔
☆☆☆
رویحہ یار! کیا ہوا کہیں؟ آنٹی نے بتایا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟ عقیقہ اس کی طبیعت خرابی کا سن کر دوڑی چلی آئی۔عقیقہ ! میں کردار کی اتنی ہلکی کیسے ہو گئی کہ دوست کے بھائی سے عشق کی پینگیں بڑھانے لگی۔ رویحہ کا جواب سن کر عقیقہ کو یک دم ندامت نے آگھیرا اور وہ نظریں چرا گئی۔ اس دن کے بعد رویحہ کو اک چپ سی لگ گئی۔ عقیقہ کی تسلی ، دلاسا ، صفائی اور وضاحت کچھ بھی اس کی سنجیدگی توڑنے میں ناکام رہی۔ رافع کی منگنی کی خبر نے تو گویا تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ جو آس اور آخری امید تھی وہ بھی نہ رہی۔ عقیقہ کو رافع پر رہ رہ کے تاؤ آ رہا تھا اور اس نے فون پر اسے سنا کر خوب بھڑاس نکال کر اسے بلاک کر دیا تھا اور اس سب کے بعد رافع کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اس کا سامنا کر سکے سولاہور کا رخ تک نہ کیا۔ البتہ رویحہ کی دماغی حالت ابتر ہوتی گئی۔ اس کے ماں باپ اور بھائیوں کی جان پر بن آئی تھی کہ ہر وقت، چہکنے والی مینا نے ایسا چپ کا روزہ رکھا تھا کہ الفاظ بھی گن گن کر بولتی۔ اس کی ماں اسے دیکھ کر ہولتی تھیں کہ ان کی خوش پوشاک لاڈلی کو اپنے پہنے ہوئے دو روز کے میلے کپڑوں سے بھی کوئی الجھن نہیں ہوئی۔ طرح طرح کے کھانے اور چسکے کی چوکیں چند لقمے زہر مار کر کے ہاتھ کھینچ لیتی۔ وہ پوچھ پوچھ کر تھک گئیں مگر بے سو عقیقہ سے سوال جواب کیے تو وہ بھی خاموش کہ اب بتانے کو کچھ رہا ہی کب تھا۔ سائیکاٹرسٹ سے اس کے سیشن ہونے لگے۔ اس کے والد نے ایک کے بعد ایک ماہر نفسیات کو آزما چھوڑا مگر بیٹی کا روگ اور سوگ نہ ختم کر پائے۔ عقیقہ کو خود کسی پل سکون نہ ملتا۔ ہر روز رویحہ کے گھر کے چکر لگاتی ۔ ہاں اتنا ہوتا کہ عقیقہ کے آنے پر وہ کچھ پر سکون نظر آتی تھی اس سے حال دل کہہ سناتی، اس کے سامنے رو پڑتی کہ ایک وہی تو محرم راز تھی۔ اپنی بیٹی کے سکون کی خاطر انہوں نے عجیب فیصلہ کیا اور وہ عقیقہ کی امی کے ہاں سوالی بن کر آکھڑے ہوئے وہ تذبذب میں پڑگئیں اکلوتی بیٹی کی زندگی کا فیصلہ یوں کرنے کا تو نہ سوچا تھا کبھی، مگر بیٹی کے ہر روز کے چکر اور گھر پہ ہو کر بھی ہر صبح اور رات بستر پر پہنچنے تک رویحہ کی فکر، ہر فون کی گھنٹی پر کان لگائے رکھنا ان سے پوشیدہ تو نہیں تھا سو انہیں ہاں کہنی پڑی۔ یوں عقیقہ ان کے بڑے بیٹے سے نکاح کر کے رویحہ کی بھابھی بن کر اس گھر میں آگئی۔ اس کی آمد سے رویحہ کی چپ ٹوٹی تھی۔ عفیفہ نے آتے ہی رویحہ کو اپنی ذمہ داری میں لے لیا۔ اس کی ادویات ۔ سائیکاٹرسٹ کے سیشن ۔ اس کو مصروف رکھنے کے لیے نئے حربے، ہر دم پرجوش باتیں ۔ پارک اور تمام قریبی جگہوں کے دورے جو وہ کر سکتی تھی کر ڈالا۔ اس کا نکاح سادگی سے ہوا تھا اور نئی دلہن دعوت، ملبوسات جیسا کچھ بھی نہ تھا کہ وہ لائی ہی رویحہ کے لیے ، بلکہ وہ خود اس گھر میں رخصت ہو کر آئی تھی اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنے- ان تمام تر کوششوں کا خاطر خواہ اثر رویحہ پر نظر آنے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ سنبھل رہی تھی۔ اگرچہ ڈپریشن کے دورے اس پر ابھی بھی پڑتے تو سب کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے۔ سب کا سلوک عقیقہ کے ساتھ اچھا تھا۔ اس کے علاوہ اس پر کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔
☆☆☆
عقیقہ مجھے تمہاری سمجھ میں نہیں آرہی کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ خود کو دیکھو کہیں سے بھی دلہن نہیں لگتیں۔ لوگوں کے تو سال سال تک چاؤ بھی پورے نہیں ہوتے بس کہ رہی ہو تم اور معظّم ضرور شرکت کرو گے رافع کی شادی میں، تمہاری خالہ کا تو اصرار تھا کہ اپنے بھائی کی شادی پر ہفتہ پہلے تو آؤ اور تم ہو کہ ۔ میں بالکل نہیں جاؤں گی ۔ عقیقہ پھٹ پڑی۔ مگر کیوں ؟ کوئی وجہ بھی تو ہوانکار کی۔ تم ہی اسے سمجھاؤ بلکہ تم بھی چلو تم تینوں میں کتنی دوستی تھی۔ ماحول تبدیل ہو گا تو تم بھی اچھا محسوس کرو گی ۔ آخری جملے انہوں نے کمرے میں داخل ہوتی رویحہ سے کہے تھے۔ عقیقہ نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔ آپ بے فکر ہو جائیں انٹی ، میں اسے سمجھاؤں گی اور ہم شادی میں ضرور شرکت کریں گے۔ وہ خوشی سے کھل اٹھی تھیں۔ امی کے جاتے ہی ہی عقیقہ اس کے سر پر جا پہنچی۔ پاگل ہوگئی ہو کیا؟ ہوش میں تو ہوناں کیا کہا ہے تم نے امی سے۔ ہاں ہوش میں ہوں اور ایسا ہی ہوگا۔ رویحہ کے شادی میں جانے کے اعلان کو سب گھر والوں نے خوش آمد فیصلہ قرار دیا تھا مگر عقیقہ کا دل ہول رہا تھا۔ اس نے معظم کے سامنے بے چینی کا اظہار کیا تو جوابا وہ بھی اسے سمجھانے لگا۔ اچھا ہے رویحہ کا ماحول تبدیل ہو گا تو ذہن پر اچھا اثر پڑے گا۔ آخر میں اس رویحہ کے سامنے ہاتھ تک جوڑ دیے کہ وہ اپنی جان پر یہ ظلم نہ کرے مگر اس کے سمجھانے پر اس نے صرف اتنا ہی کہا۔ میں اپنے ضبط کو آزمانا چاہتی ہوں۔ عقیقہ بددلی سے اور رویحہ ظاہری جوش سے رافع کی شادی میں آئے تھے۔ رویحہ مما کا فون سننے کی خاطر باہر کی طرف چلی آئی کہ اپنے نام کے تذکرے نے اس کے قدم روک لیے۔ یہ رافع کی بہن تھی جو شاید اپنی دوست سے کہہ رہی تھی۔ یہ ہے رویحہ جس پر بھائی مرمٹے تھے۔ اتنی بھی خوب صورت نہیں ہے۔ اماں نے اس سے دوگنی خوب صورت بھابھی ڈھونڈ نکالی ہے مگر بھائی کا سوگ ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے کیا ہے اس میں شاید اماں ٹھیک ہی کہتی ہیں اپنے ناز و ادا سے اس نے بھائی کو دیوانہ بنا لیا ہوگا۔ وہ دونوں ہنستی ہوئی چلی گئیں۔ اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے عقیقہ اس کے پاس پہنچی تو اس کی زرد رنگت پر نظر پڑتے ہی معظم کو کال ملائی ۔ امی کو رویحہ کی طبیعت خرابی بتائی باہر کھینچ لائی۔ اسے کار میں بٹھایا۔ کیا ہوا تمہیں رویحہ ڈیئر ؟ رویحہ کیا جواب دیتی۔ اس کا وجود تو زلزلے کی زد میں تھا۔ ہرسمت سے جملوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ اتنے زیادہ لوگوں میں اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ کسی پرسکون جگہ لے چلیں۔ یونہی گھوم گھام کر وہ رات گئے لوٹ آئے تھے۔ ایک جامد چپ رویحہ پر اگلے چوبیس گھنٹے طاری رہی۔ عقیقہ کچن میں تھی کہ اس کے موبائل پر میسج موصول ہوا۔ رافع کی دلہن کے ہمراہ تصاویر دیکھ کر رویحہ کی طبیعت بگڑ گئی۔ فوراً اسپتال پہنچایا گیا۔ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا۔ وہ اس صدمے کو برداشت نہیں کر پائی تھی سو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی سے منہ موڑ گئی۔
☆☆☆
قیصر ولا پر تو گویا افتاد آن پڑی۔ بیگم قیصر پر غشی کے دورے پر رہے تھے تو قیصر صاحب کے کندھے ایک رات میں ڈھلک گئے تھے۔ عقیقہ کو سب کو دلاسا دیتے دیتے روتے ہوئے بھائیوں (دیور) کو چپ کراتے خود کو رونا تک نصیب نہ ہو سکا تھا۔ میت کی تجهیز و تدفین، تعزیت کرنے والوں کی آمد ، اس کے شب و روز یوں گزر رہے تھے کہ اسے نہ دن کا ہوش تھا نہ رات کا۔ اس کی امی بیٹی کو دیکھ کر کر تاسف میں مبتلا ہورہی تھیں، کہاں ان کی نازوں پہلی اپنا کھانا خود تک نہیں لیتی تھی اور کہاں یہ بیک وقت سات افراد کی ذمہ داری نبھارہی تھی۔ وہ بغیر جھنجلاہٹ اور الجھن کے ہر کام سیکھتی چلی گئی۔ وہ اس سب کا قصوروار خود کو سمجھتی تھی سو پہلے دن سے کفارہ سمجھ کر سب کچھ قبولتی چلی آئی۔ اس تگ و دو میں سال تمام ہو گیا۔ اب گھر میں کل وقتی ملازمہ کا بندوبست کر دیا گیا۔ مبشر اور مدثر ہوسٹل شفٹ ہو گئے تھے اور امی جان اٹھتے بیٹھتے اس کی تعریفیں کرتی نہ تھکتیں وہ اس کی ممنون تھیں ، بابا جان اکو مجسمہ شفقت کہتے کہ اللہ نے ایک بیٹی ہی تو دوسری عطا کر وہی۔ اور معظم اس کا سب سے بڑا شکر گزار ۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ اس کو اتنی راحت اور خوشیاں دے کہ گزشتہ تمام تکلیفوں کا ازالہ کر دے۔ اس کی ماں مطمئن تھیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا۔ اس کے پاس فرصت ہی فرصت تھی۔ ماضی کی دبی سوچیں اسے گھرتیں وہ پچھتاوؤں کی لپیٹ میں آجاتی ۔ کاش وہ رویحہ کو نہ اکساتی نہ یہ سب کچھ ہوتا ۔ نہ یہاں تک بات پہنچتی ۔ اس کو رویحہ کی باتیں یاد تھیں۔ وہ ارد گرد چلتی پھرتی محسوس ہوتی۔ دل پر اداسی چھاتی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی۔ سال بھر کے دبے آنسوؤں کو باہر نکلنے کا موقع ابھی تو میسر آیا تھا۔ اسے کسی پل چین نہ آتا۔ عجب کل سی تھی۔ اب تو خواب میں بھی رویحہ ہی دکھائی دینے لگی تھی۔ آج بھی یہی ہوا تھا۔ اس نے موبائل اٹھایا اور ایک سائیکاٹرسٹ (جس سے رویحہ کو علاج کے دوران اس کی اچھی دوستی ہوگئی تھی) کو صورت حال لکھ بھیجی تھی۔ موبائل کی اسکرین چمکی ، اس کی میل کا جواب آگیا تھا۔ ڈیر حقیقہ ! آپ نے لکھا ہے کہ جو ہوا اس کی قصو وار آپ تھیں مگر آپ کفارے کے طور پر اس کی بھابھی بنیں اور ساری مشکلات سہیں۔ اب جو آپ خود کو رویحہ کی موت کا ذمہ دار سمجھتی ہیں تو اس وہم سے خود کو آزاد کرائیں۔ اور آپ نے لکھا کہ آپ چاہتی ہیں کہ سب کچھ سچ بتا کر معافی مانگ لوں تو ڈیئر ، اگر اللہ تعالی نے آپ کا پردہ رکھا ہے تو یہ نعمت ہے اور یہ بھی تو سوچیے نا کہ آپ کی مرحوم دوست کا پردہ کھل جائے گا۔ یہ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ کی الجھن کا بہترین حل یہ ہے کہ تمام سوچوں کو جھٹک کر مصروفیت اختیار کریں۔ جتنا ہو سکے خود کو مصروف رکھیں اور اپنی دوست کی مدد کرنا چاہتی ہیں تو اس کا ایک طریقہ ہے ایصال ثواب، جتنا ہو سکے اس کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام کریں- عقیقہ کو اس کی الجھن کا سرا مل گیا تھا۔ اس نے اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع بڑھا دیا اور نوافل اور قرآن پاک کو پڑھ کر ایصال ثواب کرنے لگئی تھی۔ امی اور بھائیوں کو بھی یہی تلقین کرتی نظر آتی۔ اس کے دل کو قرار آ گیا تھا۔ وہ پر سکون رہنے لگی تھی۔ مزید روح اس میں معظم کے التفات نے پھونکی تھی۔ معظم اس کے نام کی مالا جبپتا تھا۔ وہ خوش تھی مگر کبھی کبھی یہ خلش اسے ستائی تھی ۔ اے کاش کہ ایسا نہ ہوتا !
☆☆