Friday, October 11, 2024

Khameer Nahi Badalti | خمیر نہیں بدلتا

میرے والد ایک نہایت متمول اور بااثرگھرانے کے فرد تھے ۔ کسی وجہ سے اپنے والد سے جھگڑا ہوا تو گھر چھوڑ دیا۔ ضدی اتنے تھے کہ پھر رابطہ نہ کیا۔ میرے دادا نے انہیں بہت ڈھونڈ ا مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اس دوران میرے والد نے میری ماں سے شادی کر لی اور شادی کے ایک سال بعد میری پیدائش ہوئی۔ غالبا والد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ مگر میری وجہ سے میری ماں کو نہیں چھوڑ سکتے تھے اور میری ماں کی وجہ سے اپنے خاندان میں واپس نہیں جاسکتے تھے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ، اپنے والدین کو ایک دوسرے سے ناخوش پایا۔ بچپن کی باتیں اتنی یاد تونہیں تھوڑا بہت جو یاد ہے اس کے مطابق میری ماں ، میرے باپ سے لڑتی رہتی تھی ۔ میرے والد ایک پڑھے لکھے، خوبصورت اور نفیس انسان تھے۔ غالبا کسی کالج میں پروفیسر تھے جبکہ میری ماں ایک جاہل اور بدصورت سی عورت تھی۔ پھر بھی والد صاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح نباہ ہو جائے جبکہ میری ماں ہر وقت میکے کو یاد کرتی تھی کہ وہاں اس کو بہت آزادی تھی ۔ شاید یہی ان کی ناخوشی کی وجہ تھی کہ میرے والد جو وضع دار انسان تھے، اس پر پابندیاں لگاتے تھے۔ میری والدہ کبھی اپنے میکے نہیں گئی تھیں اور نہ ہی کوئی وہاں سے ان سے ملنے آتا تھا۔ جب میں تیرہ سال کی ہوگئی تو میری ماں نے میکے سے رابطہ کیا۔ ان کے کافی خطوط لکھنے پر ان کا ماموں زاد ملنے کے لئے آیا۔ اپنے ماموں کو دیکھ کر ایک دفعہ تو میں گھبرا گئی۔ وہ سیاہ رنگ کا ایک انتہائی موٹا اور بد ہیئت انسان تھا۔ چہرے پر ایک گہرے زخم کا نشان تھا اور بات چیت سے اجڈ پن نمایاں تھا۔ میری والدہ نے اس کا نام مجید بتایا۔ والد کو اس کا آنا بہت ناگوار گزرا۔ وہ ناراض ہوکر گھر سے چلے گئے اور جاتے جاتے والدہ کو کہہ گئے کہ جب میں واپس آؤں تو مجھے یہ یہاں نظر نہ آۓ ۔میری والدہ نے والد کے جاتے ہی اس کی آؤبھگت شروع کر دی۔ مجید بھی والدہ کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔ دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور پھر جیسے وہ شخص اچانک آیا تھا ویسے ہی گھر سے اچا نک چلا گیا۔ مجھے نہیں معلوم میری ماں اور اس میں کیا بات چیت ہوئی۔ مگر اگلے روز سے ہی اس نے میرے باپ سے شدید جھگڑا شروع کر دیا اور ہر وقت طلاق کا مطالبہ کرنے لگی۔ میری ماں اب میرے باپ کو کوسنے دیتی کہ اس نے میری آزادی سلب کر کے زندگی تباہ کر دی ہے اور اب وہ مزید اس جہنم میں نہیں رہ سکتی۔ والد نے والدہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ کسی صورت ماننے کو تیار نہ ہوئی۔اس پر ابو نے کہا کہ تمہیں طلاق اس صورت میں دوں گا کہ بچے اپنے پاس رکھوں گا۔ ماں کو میرے بھائی کی ذرہ بھر پروا نہیں تھی۔ وہ ویسے ہی ہروقت بیمار رہتا تھا اور ماں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے روتا رہتا تھا جبکہ ماں اسے دھتکارتی رہتی تھی ۔ لیکن میری ماں مجھے نہیں چھوڑ تا چاہتی تھی۔ میں اپنے باپ سے بہت پیار کرتی تھی اور وہ بھی مجھے بہت چاہتے تھے۔ ماں کو شاید اس بات کا اندازہ تھا کہ میں ہرگز ان کے ساتھ نہ جاؤں گی ۔اس لئے چوری چھے مجید کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا اور ایک رات سب کو نشہ آور دودھ پلا دیا۔ نیم مدہوشی میں مجھے جتنا یاد پڑتا ہے کہ رات کو ماں نے مجید کے ساتھ مل کر مجھے گاڑی میں بٹھایا اور نامعلوم مقام کی طرف روانہ ہوگئی۔ جب اگلی صبح مجھے ہوش آیا تو میں ماں کے میکے میں تھی۔ عجیب سی جگہ اور نہایت گندا سا گھر تھا جو ایک تنگ و تاریک گلی میں تھا۔ جس میں مجید کی طرح کے اور بہت سی عورتیں، مرد اور بچے موجود تھے۔ میں گھبرا کر رونے لگی۔ ابو بہت یاد آر ہے تھے۔ جب میں نے زیادہ چیخنا چلا نا شروع کیا تو مجید نے مجھے بری طرح مارا اور دھمکی دی کہ اب آواز نکالی تو میں تمہارے بھائی کا گلا گھونٹ دوں گا۔ یہی نہیں ، اس نے اس کمزور سے بچے کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا جس سے وہ معصوم بے ہوش ہو گیا۔ میں اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھی ، اس لئے اس کی خاطر چپ ہوگئی۔ مجھے سخت حیرت تھی کہ میری ماں دور بیھٹی تماشا دیکھ رہی تھی جیسے اس کا ہم سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ میری عمر اس وقت کوئی تیرہ چودہ سال ہوگی۔ بہرحال اندازہ ہوگیا کہ ماں کا تعلق کس قماش کے خاندان سے تھا۔ یہ لوگ اپنی بیٹیوں سے دھندا کرواتے اور ان کی کمائی پر عیش کرتے تھے۔ میں اپنے رنگ و روپ کی وجہ سے اس کے لئے ایک سونے کی چڑیا تھی۔ اس لئے میری سخت حفاظت کی جاتی تھی۔ ماں نے مجھے مجید کے حوالے کر دیا اور خود چرس کا نشہ کر کے پڑی رہتی تھی ۔ مجید مجھے ہر طرح کے لوگوں کے پاس لے جاتا اور میری کمائی پر عیش کرتا۔ میری کمزوری ، میرا بھائی اس کے پاس تھا جس کی وجہ سے مجھے بلیک میل کیا جا تا تھا۔ میں جانتی تھی کہ اگر میں بھاگی تو میرے بھائی کو وہ زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ویسے بھی اس کے پولیس اور دیگر با اثر افراد سے تعلقات تھے ۔ ایسے حالات میں مجھے کسی سے مدد کی کوئی امید نہیں تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ میرے والد نے میری کوئی مدد کیوں نہ کی ۔ وہ ہمیں ڈھونڈتے ہوۓ کیوں نہ آۓ؟ میں اس زندگی سے سخت نفرت کرتی تھی اور ہر وقت اللہ سے دعا کرتی تھی کہ مجھے اس زندگی سے نجات دے۔ اللہ نے میری دعا سن لی۔ ہوا یوں کہ ایک دن میری ماں نے مجھے صندوق سے کپڑے نکالنے کو کہا- میں نے صندوق کھولا تو اس میں پرانی البم پڑی تھی جس میں میرے باپ کی تصویر تھی۔ میں نے وہ تصویر نکال کر چھپا لی اور باتھ روم جا کر اس تصویر کو دیکھا۔ دیر تک روتی رہی۔ میرے آنسوؤں سے وہ تصویر بھیگ گئی۔ تصویر کے بھیگنے سے اس پر لکھا ہوا ایک ٹیلیفون نمبر واضح ہو گیا جس کی سیاہی مٹ چکی تھی۔ لیکن قلم کے دباؤ سے پڑنے والے نشان ابھی باقی تھے۔ میں نے وہ نمبر یاد کرلیا اور اپنے والد کی تصویر چھپا دی۔ اب میں اس انتظار میں رہنے لگی کہ اس نمبر پر کال کروں اور دیکھوں کہ کس کا نمبر ہے۔ ایک دن مجھے موقع مل گیا۔ مجید ایک بندے کو لے کر آیا۔ وہ شراب کے نشے میں دھت تھا۔ میرے پاس آتے ہی سو گیا۔ اس کا موبائل اس کے ہاتھ میں تھا۔ میں نے وہ نمبر ملایا تو دوسری طرف کسی بوڑھی خاتون نے کال ریسیو کی۔ میں نے اپنے باپ کا نام لے کر رونا شروع کر دیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ جس کا نام لے رہی ہیں، وہ آپ کے کون ہیں؟ میں نے بتایا کہ وہ میرے بابا ہیں ۔اتنے میں اس خاتون کی آواز بھرا گئی اور انہوں نے فون کسی آدمی کو دے دیا۔ اس آدمی نے بڑے پیار سے مجھ سے کہا کہ بیٹا آپ کس جگہ ہو؟ مجھے اس جگہ کے بارے میں جتنا پتا تھا، میں نے بتا دیا۔ اس نے ہدایت کی کہ یہ بات کسی کو پتا نہ چلے کہ آپ کی ہم لوگوں سے کوئی بات ہوئی ہے۔اس کے بعد ٹیلی فون بند ہوگیا۔ مجھے ڈر تھا اگر صبح میں بات مجید کو پتا چلی تو کیا ہوگا۔ صبح ہوتے ہی میرے کمرے کا دروازہ زور زور سے بجنے لگا۔ میں نے گھبرا کر دروازہ کھولا تو مجید اور میری ماں کی گھبرائی ہوئی صورتیں نظر آئیں ۔انہوں نے مجھے جلدی سے پیچھے دروازے سے نکلنے کو کہا۔ جیسے ہی ہم پچھلے دروازے پر پہنچے تو گلی میں پولیس کی گاڑیاں نظر آئیں ۔ ہم واپس پلٹے مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ پولیس کے سپاہی ہمارے سر پر پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے فورا مجید اور میری ماں کو گرفتار کر لیا۔ ہمیں تھانے لے جایا گیا۔ وہاں پر ایک بزرگ خاتون اور ایک انتہائی بارعب شخصیت کے مالک انسان موجود تھے۔ چہرے سے اپنے بابا کی شباہت نظر آئی۔ میں نے رونا شروع کر دیا۔ خاتون نے فورا اپنے سینے سے لگایا اور تسلی دی۔ تھانیدار اور دیگر سرکاری حکام ان سے کافی مرعوب نظر آر ہے تھے۔ ہمیں فورا ان کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ لوگ ہمیں ایک عالیشان حویلی میں لے آۓ۔ حویلی کی در و دیوار پر میرے بابا کی جوانی کی تصاویر آویزاں تھیں ۔ بہرحال ہم بہن بھائی کو اپنے دادا کے گھر امان مل گئی۔ دوران تفتیش مجید اور میری ماں نے دلخراش انکشاف کیا کہ اس رات جب مجھے اغوا کیا گیا تو دونوں نے مل کر میرے نیک صفت بابا کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ میرے دادا نے ان پر کیس کر دیا اور دونوں کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ اس واقعہ کو دس سال بیت گئے ہیں۔ میری شادی اپنے بابا کے خاندان میں ہوگئی اور میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ بہت خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں۔ میرے بھائی کو اعلی تعلیم کے لئے امریکہ بھجوا دیا گیا۔ مجھے اپنی زندگی سے کوئی شکایت نہیں اور ہر وقت رب کا شکر ادا کرتی ہوں ۔ مگر ایک خلش اب بھی باقی ہے کہ میری ماں نے یہ سب کیوں کیا۔ میرے باپ کی غلطی یہ تھی کہ وو ایک شریف آدمی تھے اور میری ماں کے چنگل میں پھنس کر اپنی ساری زندگی ہم دونوں بچوں کی وجہ سے تکلیف میں گزاری ۔ ایک اچھے پیار کرنے والے شوہر کو چھوڑ کر برائی کی دلدل میں پھنسنے کی اتنی کشش میری ماں و کیوں کیوں تھی؟ اپنی اولادکو بھی داؤ پر لگا دیا۔ شاید سچ ہے کہ انسان اپنی فطرت کو نہیں بدل سکتا اور جہاں کا خمیر ہوتا ہے، وہیں اسے سکون ملتا ہے اور برا کرنے کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے – کاش میرے ابّو نے اپنا گھر نہ چھوڑا ہوتا-

Latest Posts

Related POSTS