Friday, October 11, 2024

Khamoosh Muhabbat

میں ڈیوٹی سے واپس آرہی تھی کہ اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنائی دی۔ میں نے توجہ نہ دی لیکن جب قدموں کی چاپ مسلسل آتی رہی تو سمجھ گئی کہ کوئی ہے جو میرے پیچھے کچھ فاصلے سے چلا آرہا ہے ۔ اگلے دن بھی جب بس سے اتری تو وہ میرے پیچھے اتر پڑا اور آج بھی اس کے قدموں کی چاپ مسلسل میرا پیچھا کرتی رہی۔ صبح شام جب یہ یہی ہونے لگا تو میں گھبراگئی۔ میرے حالات ایسے تھے کہ ملازمت ناگزیر ہو گئی تھی، ورنہ میں گھر کی ٹھنڈی چھائوں سے کبھی باہر نہ نکلتی۔ بس کی کھڑکی سے سر ٹکا کر سوچتی کہ آخر کیونکر پیچھا کرنے والوں یا ان کی گھورنے والی نگاہوں سے بچ سکتی ہوں۔ اپنی منزل آ گئی دل خوش ہوا کہ اب اس لوفر سے جان چھوٹی۔ سڑک پر آئی اسے پیچھے آتے دیکھا تو میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ تب ہی تائو میں آکر میں نے دو چار سنا دیں۔ اسی وقت کچھ لوگ پاس سے گزر رہے تھے ، وہ سمجھے کہ شاید اس شخص نے مجھے چھیڑا ہے۔ وہ اس کی مرمت کی خاطر آگے بڑھے تبھی وہ نوجوان گھبر اگیا۔ اس نے کہا۔ بخدا میں نے کچھ نہیں کیا۔ میں تو اپنے رستے جار ہا تھا۔ جانے ان کو کیا غلط فہمی ہوئی ہے۔ ایک نے مجھ سے پوچھا۔ کیا اس نے آپ کو چھیڑا ہے ؟ نہیں چھیڑا تو نہیں لیکن یہ میرا پیچھا تو کرتا ہے۔ میں نے بتایا۔ میں ان کا پیچھا نہیں کر رہا، یہ میرے گھر کا رستہ ہے ، میں اپنے گھر جارہا ہوں ، کیا اپنے گھر جانا بھی کوئی جرم ہے۔ میں نے تو پھر مڑ کر نہیں دیکھا کہ لوگوں نے اس کی کیا درگت بنائی۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتی اپنی راہ ہوئی تھی، البتہ شور میرے کانوں میں تعاقب کرتا رہا۔ گھر پہنچی تو پریشان اور تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔ شام سے رات ہو گئی ، میں افسردگی کے گرداب سے نہ نکل سکی۔ اگلے دن ڈیوٹی پر جانے کے لئے بس اسٹاپ پر آئی تو وہ پھر ملا لیکن آج اس کے چہرے کی چمک بالکل ماند تھی۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں۔ میں سمجھ گئی کہ وہ واقعی ہمارے قرب و جوار میں رہتا ہے اور میں نے غلط فہمی میں یہ سمجھ لیا کہ وہ میرے تعاقب میں آتا ہے۔ اصل میں یہی بات صحیح تھی کہ وہ اپنے گھر جا کر رہا ہوتا تھا۔ اس وقت ، اس کے چہرے پر جو تاثرات تھے ، میں انہیں کوئی نام نہیں دے سکی۔ میں خود کو مجرم سمجھ رہی تھی۔ اس کی تصویر میری آنکھوں میں رہ گئی۔ اس کی آنکھوں میں شکوہ تھا، بے بسی تھی لیکن نفرت نہیں تھی۔ فیکٹری آکر میں ڈیوٹی صحیح طرح سے انجام نہ دے سکی اور ہزار کوشش کے باوجود اسے ذہن سے نہ نکال سکی۔ گرچہ اس کے لئے میں کوئی نرم گوشہ اپنے دل میں نہ رکھتی تھی لیکن اس کے بارے میں سوچتی ضرور تھی۔ کاش میں عجلت میں اس پر نہ برستی تو آج میرے دل میں اتنی کسک نہ ہوتی۔ اس کیفیت سے چھٹکارا پانے کا بس ایک ہی طریقہ تھا کہ میں اس سے معافی مانگ لوں۔ مجھے علم ہو چکا تھا کہ وہ لوگ اس علاقے میں نئے آئے تھے اور ان کا گھر بھی ہم سے زیادہ دور نہ تھا مگر کون سا گھر تھا؟ یہ معلوم نہ تھا۔ روز ارادہ کرتی تھی اس سے بات کروں گی مگر نہ کر پاتی۔ اسٹاپ پر کافی رش ہوتا تھا۔ سوال جواب تو در کنار اس کی طرف دیکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔دو ماہ گزر گئے۔ رفتہ رفتہ اس سے بات کرنے کی خواہش شدت اختیار کر گئی۔ میرے دل کا سکون اور راتوں کی نیند بر باد ہو گئی لیکن میں اس سے بات کرنے اور معافی مانگنے کی جرات نہ کر سکی۔ وہ روز ہی بس اسٹاپ پر نظر آ جاتا تھا ، پھر اسے کیسے فراموش کر سکتی تھی۔ ایک روز جب شدید گرمی تھی اور بس اسٹاپ پر رش کم تھا۔ اکاد کا لوگ تھے ، وہ بھی وہاں موسم کی شدت سے بے نیاز پسینے میں شرابور کھڑا تھا۔ اچانک آندھی چلی اور مٹی بھری ہوا سے میری آنکھیں بند ہو گئیں۔ تبھی میرے ہاتھ سے کچھ کاغذات نکل کر سڑک پر اڑنے لگے ۔ وہ بے اختیار ان کو پکڑنے کو دوڑا۔ اسے اس بات کی بھی پروا نہ تھی کہ سامنے سے بس آرہی ہے۔ کاغذ پکڑ کر وہ ہانپتا ہوا واپس آیا اور میرے سامنے کر دیئے۔ میں حیرت سے اسے تکنے لگی۔ اس کے خشک لبوں نے دو ایک بار جنبش کی لیکن کوئی آواز نہ نکلی۔ میں منتظر ہی رہی کہ وہ کوئی سوال کرے تو میں جواب دوں، تبھی بس آگئی۔ مجھے آج بس کا جلد آنا کھل رہا تھا۔ ہم بس میں چڑھے۔ جگہ نہ تھی صرف دو نشستوں والی ایک سیٹ خالی تھی۔ میں نشست پر بیٹھ گئی لیکن وہ کھڑارہا تب میں نے کہا۔ آپ بھی بیٹھ جائے، یہاں جگہ خالی ہے۔ اس کی حیرت دیدنی تھی، جیسے میں نے انہونی بات کہہ دی ہو ، تا ہم وہ میرے برابر والی نشست پر بیٹھ گیا۔ بس مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ کسی کی پروا کئے بغیر اس نے مجھے سے سوال کیا۔ آپ کا نام کیا ہے ؟ مجھے احساس ہوا کہ سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہو چکے ہیں تب ہی دل کی آواز کا گلا گھونٹ کر میں نے منافقت اختیار کر لی اور برامان کر کہا۔ میر انام جو بھی ہے۔ اس سے آپ کو کیا ؟ آپ کس لئے پوچھ رہے ہیں۔ میں آپ کی عزت کرتا ہوں ، اس لئے آپ کا نام جاننا چاہتا ہوں۔ اپنے کام سے کام رکھیئے۔ میں نے ذرا بلند آواز میں کہا تو لوگ ہماری طرف دیکھنے لگے تب ہی اس کا رنگ اُڑ گیا۔ احساس شرمندگی سے اس کے ماتھے پر نمی آگئی اور کچھ ہی دیر میں یہ نمی اس کی آنکھوں سے آنسو بن کر  ٹپک  پڑی۔ اسی وقت بس رکی اور وہ اتر گیا۔ میرا جی چاہا میں اس کے ساتھ ہی اتر جائوں ، اس کا بازو تھام کر معافی مانگ لوں لیکن لوگوں کے خوف سے ایسانہ کر سکی۔ راستہ کٹنا مشکل ہو گیا۔ دل پر منوں بوجھ پڑ گیا۔ سانس بھی لیناد شوار ہوا۔ ان دنوں میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہ تھا جب اس کا خیال میرے ساتھ نہ تھا۔ سوچ سوچ کر میں ہلکان ہو گئی تھی۔ میں اس کا نام نہ جانتی تھی لہذا اس کے متعلق کسی سے پوچھ بھی نہ سکتی تھی۔ کسی سے پوچھتی بھی تو کیا ؟ ایک اجنبی کے لئے میرا برا حال ہو گیا۔ وہ اجنبی اور اس کا قرب مجھے پہلے بر الگا اور اب اس کی غیر حاضری بھی مجھے بہت بری طرح کھل رہی تھی۔ ایک روز میں دفتر جانے کے لئے بس میں سوار ہوئی۔ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ مجھے نظر آگیا اپنے دوستوں کے ساتھ ، دل اسے دیکھ کر جی اٹھا۔ زور سے اُسے پکار کر اپنی طرف بلانا چاہا تو لوگوں کا سمندر بیچ میں آگیا۔ دوست باتیں کر رہے تھے اور وہ چپ تھا۔ اس کے ہونٹوں پر مہر لگی ہوئی تھی۔ بے دلی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جیسے اسے ان کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ تبھی جو نہی اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ الٹے قدموں بس سے اتر گیا۔ اتنے دن سے جن کا انتظار تھاوہ مجھے دیکھتے ہی پلٹ گیا تھا۔ اچانک ہی میرے ذہن نے سوچا کیوں نہ ان لڑکوں سے ہی اس کے بارے میں پوچھوں۔ تبھی میں نے ان میں سے ایک سے کہا کہ وہ میرا کزن تھا لیکن وہ کیوں اتر گیا ہے ؟ ایک نے بے اختیار کہا۔ کون ؟ وہ جو بھی اترا ہے، آفاق ؟ دوسرا بولا۔ ہاں وہی۔ میں نے سکون کا سانس لیا۔ مجھے اس کا نام معلوم ہو چکا تھا۔ میں نے کہا۔ آپ اس تک میرا میسج پہنچادیں گے ۔ مجھے اس سے ضروری بات کہنی ہے۔ بلکہ ایسا کریں مجھے اس کے گھر تک لے چلئے۔ میں ان کا گھر بھول گئی ہوں۔ کیوں نہیں باجی۔ ان میں سے ایک لڑکے نے کہا۔ جب میں اپنی منزل پر اتری تو ان میں سے ایک لڑکا جس کا نام رشید تھا، میرے ساتھ ہی اتر گیا اور میرے آگے آگے چلنے لگا۔ جب ہم اس کے گھر پہنچے تو اس کی بہن نے ہمارا استقبال کیا۔ سردیوں کا موسم تھا۔ وہ دھوپ میں چار پائی پر لیٹا تھا اور اس نے اپنا باز و منہ پر رکھا ہوا تھا۔ میں نے پاس جا کر اسے پکارا۔ آفاق ! اس نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے تکنے لگا۔ میں تم کو منانے آئی ہوں، تم سے معافی مانگنے آئی ہو اور یہ بتانے آئی ہوں کہ تم کو میری امی جان نے بلوایا ہے۔ اس کی حیرت زدہ آنکھوں میں بہت ویرانی بھری تھی۔ میں خود کو اس کی ذمہ داری سمجھنے لگی۔ میں نے کہا۔ آفاق، پہلے دن مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔ میں سمجھتی تھی کہ تم شاید غلط قسم کے لڑکے ہو۔ دوسری بار لوگوں سے ڈر کر میں نے ایسا کہہ دیا۔ لوگ ہمیں گھور رہے تھے اس لئے ، مجھے معاف کر دو۔ دراصل میں خود تم سے بات کرنا چاہتی تھی، معافی مانگنا چاہتی تھی لیکن جب لوگ متوجہ ہو گئے تو میں شرمسار ہو گئی۔ کوئی بات نہیں ، لوگوں نے تمہاری خاطر میری بے عزتی کی مگر میں نے اسے اپنی عزت افزائی سمجھا کیونکہ میں تم سے نفرت نہیں کرتا۔ میں تمہاری نگرانی ضرور کرتا رہا ہوں۔ جانتی ہو کیوں ؟ تمہارے محلے کے دو تین نوجوان جو آوارہ مزاج ہیں اور جانتے ہیں کہ تم ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہو، مجبورا گھر سے نکلتی ہو، وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں کیونکہ تمہارا کوئی بھائی بھی نہیں ہے کہ جس کا ان کو خوف ہوتا۔ ایک روز وہ محلے کی چوک میں کھڑے تمہیں ستانے اور تمہارا پیچھا کرنے کا پلان بنا رہے تھے ۔ میں نے ان کی باتیں سنیں تو ان کو ٹوکا۔ وہ خاموش ہو گئے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ میرے والد صاحب پولیس میں ہیں، تاہم وہ باز نہیں آسکتے تھے۔ ان میں سے ایک ہر روز باری باری تمہارا پیچھا کرتا تھا۔ میں بھی اسی بس میں جان بوجھ کر سوار ہو جاتا تھا، جس میں تم کو جانا ہوتا تھا۔ یہ بس بالکل میرے دفتر کے سامنے رکتی ہے لہذا میں بائیک پر جانے کی بجائے بس پر جانے لگا، صرف تمہاری خاطر ۔ تم نے ان ہی لوگوں کے سامنے میری اہانت کرائی مگر تم بھی سچی تھیں۔آفاق کی باتیں سن کر میں حیران رہ گئی۔ کیا واقعی اس نے مجھے غنڈوں سے بچانے کے لئے دکھ برداشت کیا ہے۔ میرے دل میں اس کی قدر و منزلت اور بڑھ گئی۔ انسان کی نیت کا عکس اس کے چہرے پر ہوتا ہے۔ میرا جی چاہا کہ اس کے قدموں میں بیٹھ جائوں۔ میری آنکھوں سے آنسو چھلک گئے۔ اس کی بہن ہمارے لئے چائے لے آئی تھی۔ اس نے اپنی بہن سے میر اتعارف اس طرح کرایا۔ ان کا نام فریدہ ہے۔ یہ میرے آفس میں کام کرتی ہیں۔ ان کی امی جان سے ملوائو پھر تم بھی تیار ہو جائو۔ ہم دونوں ان کو گھر چھوڑنے جائیں گے ۔ میں یہاں دو گھڑی کو آئی تھی۔ مگر مجھے یہاں اتنی عزت ملی کہ جی چاہا ہمیشہ کے لئے یہاں ہی رہ جائوں۔ آفاق اور نجمہ مجھے گھر چھوڑنے آئے ، امی سے ملے۔ امی کو آفاق بہت اچھا لگا۔ انہوں نے نجمہ سے کہا۔ میں تمہاری امی سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں ان کو بھی آپ کے پاس لے آئوں گی ۔ نجمہ نے جواب دیا۔ اس کے بعد میرے سر سے بوجھ اتر گیا۔ آفاق مجھ سے ناراض نہیں تھا۔ اس نے مجھے معاف کر دیا تھا۔ وہ مجھ سے نفرت نہیں کرتا تھا۔ دل ہی دل میں مجھے چاہتا تھا۔ اس واقعے کے بعد آفاق کی والدہ نے مجھے بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک روز وہ رشتہ طلب کرنے آئیں۔ وہ خوشحال لوگ تھے جبکہ میں ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی تھی پھر بھی انہوں نے اس فرق کو نہیں دیکھا۔ میں بہت خوش ہوئی اور میرے من کی مراد پوری ہو گئی۔ مکر ہے کہ میری قسمت میں ایک اچھے انسان کا انتخاب لکھا گیا تھا اور ایک نیک نوجوان نے مجھے پسند کیا تھا۔ میری والدہ نے بھی اچھی طرح تسلی کرنے کے بعد اس رشتے کو قبول کیا۔ میری امی جان سخت مزاج ضرور تھیں مگر نادان نہیں۔ وہ محلے کے لوگوں کو خوب اچھی طرح سے جانتی تھیں۔ ان میں فراست تھی۔ تبھی انہوں نے آفاق کو دیکھتے ہی پسند کر لیا تھا۔ یوں آفاق کی شادی مجھے سے ہو گئی۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ایک نیک انسان اور شریف گھرانے کی بہو بن کر ، خاندانی لوگوں میں آگئی۔ انہوں نے مجھے عزت دی ورنہ غلط انتخاب سے میری زندگی تباہ بھی ہو سکتی تھی۔

Latest Posts

Related POSTS