جب ماں بولیں کہ تمہاری منگنی ناظر سے ہونے جارہی ہے تو میں نے خاموشی اختیار رکھی۔ وہ میرے ماموں کا بیٹا تھا۔ اس میں کوئی خرابی نہ تھی سوائے اس کے کہ وہ جلد ہر کسی سے بے تکلف ہو جاتا تھا۔ وہ شوخ تھا، تاہم میرے مزاج کو سمجھتا تھا اور میرے ساتھ بہت جلد بے تکلف نہیں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ میں خود بھی لڑکوں سے فاصلہ رکھتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ والدین بچپن سے ہمیں شادی کے بندھن میں باندھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس لیے بھی وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرتا تھا جو مجھے ناگوار محسوس ہو، البتہ باقی سب کے ساتھ ہنسی مذاق اور شرارتیں اس کا وطیرہ تھا۔ میری گریجوایشن مکمل ہونے پر والدین نے منگنی کی رسم کا ارادہ کیا۔ امی نے مجھ سے پوچھا اور میری خاموشی کو رضا مندی جان کر منگنی کی تیاریاں کرنے لگیں۔ منگنی دھوم دھام سے ہو گئی اور میں نے اس بات کو نارمل انداز میں لیا۔ مجھے کوئی اعتراض ہوا اور نہ ہی میرے دل میں خوشی کے مارے پہلو سے باہر آنے لگا۔ یوں منگنی کی حد تک میں نے ناظر کے ساتھ اس رشتے کو سکون سے قبول کر لیا تھا۔ میں محبت کے جذبے سے نا آشنا تھی۔ ناظر سے بھی محبت کا جذبہ میرے دماغ میں اس وقت تک نہیں تھا جب تک ہماری منگنی نہیں ہو گئی۔ منگنی کے بعد ایک لحاظ سے دل میں عزت و احترام کے جذبات نے جنم لیا اور میں اس کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آنے لگی کہ یہ میرے مستقبل کا جیون ساتھی ہوگا۔ لوگ محبت کو سب کچھ سمجھتے ہوں گے، لیکن میں محبت سے پہلے عزت کو مقدم سمجھتی تھی۔ میرے نزدیک اگر کوئی آپ کی عزت کا خیال نہیں کرتا تو وہ محبت کے لائق بھی نہیں ہے۔ ہر انسان کا اپنا اپنا مزاج، اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ بس میرا مزاج ایسا ہی تھا۔ ناظر آتا تو اس کے سامنے بلا وجہ نہیں جاتی۔ کچن میں ہوتی تو وہیں رہتی، وہ خود وہاں آجاتا۔ سلام کرتا، جواب دیتی۔ پانی یا شربت مانگتا، دے دیتی۔ اس سے آگے بات بڑھانے دیتی، کیونکہ گھر میں میری چھوٹی بہنیں تھیں۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ ہم لگاؤ کا اظہار کر رہے ہوں اور وہ دیکھ لیں۔ ایسی باتوں سے ان پر برا اثر پڑتا۔ ناظر تو میرا منگیتر تھا، لیکن اگر بہنوں کے دل میں ایسے ویسے جذبات نے جنم لے لیا تو باہر کسی لڑکے سے لگاؤ کا رشتہ نہ قائم کر لیں۔ بس اتنی سی بات تھی، جس کو ناظر نہ سمجھ سکا اور منگنی سے قبل میری احتیاط پسند طبیعت کو بے رخی سمجھ لیا۔ وہ اب کھل کر مجھ سے بات کرتا اور جب موقع ملتا، رومانی فقرے کہہ دیتا۔ تب مجھے اس سے الجھن محسوس ہونے لگی۔ مجھے شرارتیں پسند تھیں، لیکن ایک منگیتر کی حیثیت سے گھر والوں کے سامنے ناظر کی شرارتیں سخت ناپسند تھیں اور وہ، اپنے جذبوں میں سرشار، اسے احساس نہ ہوتا کہ کیا حرکتیں اس سے سرزد ہو جاتی ہیں۔ مثلاً کبھی برقعہ اوڑھ کر میری چھوٹی بہن ندا سے کہتا کہ اپنی باجی سے کہو، خالدہ آئی ہے۔ خالدہ میری دوست اور خالہ کی بیٹی تھی۔ تب مجھے اس کی شرارت اوچھا پن محسوس ہوتی۔ میں نے اس سے کہا بھی کہ یہ باتیں مجھے پسند نہیں۔ تم الٹی سیدھی حرکتوں سے مجھ کو ناپسند کرتے ہو۔ پلیز، آئندہ ایسا نہیں کرنا، مگر وہ بات نہ سمجھتا اور اپنے دل کو خوش کرنے کے لیے طرح طرح سے لگاؤ کا اظہار کرتا رہتا۔
ایک روز وہ ایک ڈبا لے کر میری بہن سے کہا کہ یہ روبینہ کو دے دو۔ کہو کہ اس تحفے پر شکریہ کہے تا کہ مجھ کو علم ہو جائے کہ اس کو تحفہ پسند آیا ہے۔ میں نے ڈبا کھولا۔ وہ کانچ کی رنگ برنگی چوڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایسا تحفہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ نہ تو میری سالگرہ قریب تھی اور نہ عید، پھر یہ تحفہ کس خوشی میں؟ جبکہ میں کانچ کی چوڑیاں سرے سے پہنتی ہی نہیں تھی۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کروں کہ وہ ہنستا مسکراتا میرے کمرے میں آ گیا اور پوچھا۔ بتاؤ، تحفہ پسند آیا؟ میں اس کا منہ دیکھنے لگی اور بادل نخواستہ دھیمے سے اس کا شکریہ کہا۔ ایسے نہیں، ادھر لاؤ کلائی، میں ایک سیٹ اپنے ہاتھوں سے تمہاری کلائی میں پہنادوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے اس کی اس حرکت پر شدید غصہ آیا اور ہاتھ کھینچنے کی کشمکش میں ڈبا گر گیا۔ چوڑیاں فرش پر بکھر گئیں، جو بیشتر ٹوٹ بھی گئیں۔ تبھی وہ گویا ہوا۔ ٹوٹ گئی ہیں تو کوئی بات نہیں، میں اور لادوں گا۔ شاید تم ان کے ٹوٹنے پر غم کر رہی ہو کہ ان کو سہاگ کی نشانی کہتے ہیں۔ ان کا ٹوٹنا اچھا شگن نہیں ہے۔ یہ باتیں سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میرے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے۔ دفعہ ہو جاؤ، نہیں لینی مجھ کو تم سے کوئی چوڑیاں دوڑیاں۔ یہ جملہ میں نے اس قدر تلخی سے کہا کہ وہ بھونچکا رہ گیا اور اس وقت میرے کمرے سے نکل گیا۔ ہمارے پڑوس میں ایک لڑکی صنم رہتی تھی۔ وہ میٹرک تک میرے ساتھ اسکول میں پڑھتی رہی تھی۔ اتفاق سے اس وقت وہ آ گئی۔ مجھے روتے دیکھا تو پوچھا۔ ارے کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو؟ میرا دل دکھ سے بھرا ہوا تھا، لہذا ساری بات اس کے گوش گزار کر دی۔ وہ کہنے لگی۔ ارے پگلی، اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ وہ تمہارا منگیتر ہے۔ اس کو اتنا تو حق ہے کہ تم سے اپنی محبت کا اظہار کرے۔ سیدھا سادہ سچے دل کا لڑکا ہے، تبھی جو من میں آتا ہے کر گزرتا ہے۔ اس میں اس کی بری نیت نہیں اور نہ وہ بد معاشی کر رہا ہے۔ تم اس کی محبت اور سادگی کو غلط سمجھ رہی ہو۔ میں تمہاری جگہ ہوتی تو خود کو خوش نصیب خیال کرتی۔ خیر، اس نے مجھ کو سمجھا بجھا کر پُر سکون کر دیا۔ میں نے بس اتنا کہا کہ بے شک ناظر مجرم نہیں، مگر بیوقوف ہے اور مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ وہ سنجیدہ طور طریقے کیوں نہیں اپناتا۔ اس واقعے کے بعد ناظر نے مجھ سے پھر کوئی مذاق کیا اور نہ لگاؤ کا اظہار، تاہم ہمارے گھر آنا بھی نہ ترک کیا بلکہ اب وہ زیادہ آنے لگا۔ جب وہ آتا تو میں اپنے کمرے میں جا بیٹھتی اور اس وقت تک باہر نہ نکلتی جب تک وہ چلا نہ جاتا۔ وہ بدستور امی اور میرے بہن بھائیوں سے مذاق کرتا اور لطیفے سناکر ان کو ہنساتا، لیکن اب اس کی شرارتوں میں کمی آ گئی تھی۔ رفتہ رفتہ میں نے نوٹ کیا کہ جب بھی ناظر ہمارے گھر آتا، صنم بھی آ جاتی۔ وہ ہمارے صحن میں اس کی آواز سن لیا کرتی تھی۔ ناظر کی عادت تھی کہ زور سے بولتا اور ہنستا بھی کھل کر تھا۔ اس طرح اس کی آمد کا پڑوسیوں کو پتا چل جاتا تھا۔ ایک دن میں اپنے کمرے میں بیٹھی آنسو بہارہی تھی کہ صنم آ گئی۔ اسے دیکھتے ہی میں منہ دھونے کے بہانے واش روم میں گھس گئی۔ اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ میں آنسو صاف کرنے گئی ہوں، تبھی مجھے قسم دے کر پوچھا کہ کیا بات ہے، کیوں رو رہی ہو؟ میں تمہاری دوست ہوں۔ خدارا، مجھ سے مت چھپاؤ۔ جو بات تم کو پریشان کر رہی ہے بتادو۔ میں نے اسے میز پر رکھا ہوا گل دستہ دکھا کر کہا کہ دیکھ رہی ہو؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے ناظر آیا تھا اور یہ گل دستہ رکھ کر گیا ہے۔ جب اسے خبر ہے کہ میں ان باتوں سے چڑاتی ہوں تو وہ جان بوجھ کر کیوں یہ حرکتیں کرتا ہے؟ کیا وہ ذہنی طور پر بیمار ہے؟ روبینہ، دیکھو! مجھے لگتا ہے کہ ذہنی طور پر وہ نہیں، بلکہ بیمار تم ہو۔ وہ ایک نارمل انسان ہے۔ اب تم مانو نہ مانو۔ اچھا ایسا کرو، یہ گل دستہ تم مجھے دے دو۔ میں نے سدا بہار کے پھولوں کا وہ کچھا اسے تھمادیا اور کہا۔ لو، تم اس کو ہمیشہ کے لئے اپنے پاس رکھ لو، لیکن اس نے اگر دوبارہ یہ پھول مجھے بھیجے تو صنم نے میری بات مکمل ہونے سے پہلے کہا کہ تو تم اپنا دل جلانے کے بجائے یہ پھول مجھے دے دیا کرنا۔ مجھے لگتا ہے کہ تم لاشعوری طور پر اپنی منگنی سے خوش نہیں اور ناظر کو پسند نہیں کرتیں۔ مجھے سدا بہار کے پھولوں کی خوشبو پسند نہیں۔ میں پہلے ناظر کو ناپسند نہیں کرتی تھی لیکن اب ناپسند کرتی ہوں کیونکہ وہ ہمارے خاندان کے مردوں سے مختلف عادات کا مالک ہے جب کہ ہمارے مرد باوقار ہیں۔ مردوں اور لڑکوں میں عمروں کا فرق ہوتا ہے۔ ناظر میری نظر میں اچھا لڑکا ہے اور لڑکے اس طرح کی حرکتیں کرتے ہی ہیں۔ اس کے سوا، اس میں اور کوئی خرابی ہے تو بتا دو۔ اور کوئی خرابی نہیں ہے، بس مجھے یہ سب نہیں پسند ہے۔ ٹھیک ہے، تو اس کا ایک حل ہے۔ اگر تم اس کو پسند نہیں کرتیں تو انکار کر دو۔ شادی ہے۔ کیسے انکار کر دوں؟ میرے ابا تو طوفان کھڑا کر دیں گے۔ فکر نہ کرو، میں کوئی راستہ نکال لوں گی، مگر اس کے لائے ہوئے پھول اس کے منہ پر مت مارنا۔ اب اگر وہ پھول دیے تو رکھ لینا اور مجھے دے دیا کرنا۔ تم کیا کرو گی ان کا؟ سنبھال کر رکھ لوں گی۔ وہ مذاق میں بولی، مگر میں تو غصہ میں تھی تبھی کہا۔ تم ہی شادی کر لو ناظر سے، میری بلا سے، مگر اب وہ مجھے پھول نہ بھجوائے، کہہ دینا اس سے۔ جب ناظر گھر میں ہوتا اور صنم آجاتی تو وہ اس سے بات ضرور کرتی تھی، اس لیے میں نے ایسا کہا تھا۔
اگلے دن ناظر ہمارے گھر آیا۔ اس نے پھر میری چھوٹی بہن کے ہاتھ مجھے پھول بھیجوائے، تبھی صنم آ گئی۔ میں نے پھول اسے پکڑا دیے اور کہا کہ یہ لو اور جاؤ شادی کر لو اس سے، تم بہت اس کی وکالت کرتی ہو! عمر بھر سدا بہار کے پھولوں کی خوشبو سونگھتے رہنا۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ صنم نے غور سے مجھے دیکھا اور بولی، تم شور مچاؤ اور سب سے کہہ دو کہ تم کو ناظر پسند نہیں ہے، لہٰذا اس سے تمہارا زندگی بھر کا رشتہ نہ باندھا جائے۔ چپ رہو گی تو تم مر جاؤ گی۔ تم کیا سمجھتی ہو کہ تمہاری خاموشی میں چھپا احتجاج سب سمجھ پائیں گے؟ ایسا نہیں ہوگا۔ تمہارے اور ناظر کے مزاجوں میں بہت فرق ہے۔ یہ معاملہ آگے چل کر مصیبت بن سکتا ہے اور تم جس دقیانوسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہو، وہاں عورت کی خاموشی کو اس کا قرار سمجھا جاتا ہے۔ میں گھر والوں سے بات نہیں کر سکتی، میں نے کہا۔ ٹھیک ہے، اگر تم گھر والوں سے بات نہیں کر سکتیں تو ناظر سے خود بات کر لو کہ تم اسے پسند نہیں کرتیں۔ صنم نے اس دن خوب میرا برین واش کیا اور اس بات پر قائل کر لیا کہ اب ناظر آئے تو میں خود اس سے کہہ دوں کہ اسے ناپسند کرتی ہوں۔ یہ منگل کی رات تھی، ناظر ہمارے گھر آیا۔ دروازہ میں نے ہی کھولا۔ ارد گرد کوئی نہ تھا، میں نے موقع دیکھ کر ہمت کی اور ایک ہی سانس میں اسے کہہ دیا کہ میں تم کو اس لیے پسند نہیں کرتی کیونکہ ہماری عادتیں نہیں ملتیں اور ہمارے مزاج بھی مختلف ہیں۔ اس نے کہا، کوئی انسان بھی ایک جیسا نہیں ہوتا، سب کے مزاجوں میں ضرور فرق ہوتا ہے، لیکن جب ایک دوسرے سے محبت ہو جائے تو اس کی خاطر عادتوں اور مزاج کو بدلا جا سکتا ہے۔ تم جس طرح چاہو گی، میں شادی کے بعد خود کو بدل لوں گا۔ ہاں، اس کے علاوہ کوئی اور وجہ ہے تو بتا دو۔ میں تو جوش میں تھی، صنم نے مجھے سمجھا دیا تھا کہ ناظر پر اچھی طرح واضح کر دینا کہ اگر تمہاری اس سے شادی ہو گئی تو دونوں خوش نہ رہ سکیں گے، بلکہ دونوں کی زندگی برباد ہو جائے گی۔ تبھی اچانک میرے دماغ میں ایک جھوٹا بہانہ آگیا۔ میں نے کہا، ہاں، ایک وجہ ہے کہ میں صنم کے بھائی صباحت کو پسند کرتی ہوں۔ بس یہ تابوت میں آخری کیل تھی، جو میں نے ٹھونک دی۔ نجانے کیسے منہ سے یہ جملہ نکل گیا کہ ناظر کا رنگ فق ہو گیا اور وہ جیسے آیا تھا، ویسے ہی خاموشی سے واپس نکل گیا اور اس کے بعد پھر مجھ سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔ تین چار ماہ گزر گئے، صنم مجھ سے ملنے آئی نہ ناظر آیا۔ میں صنم کے گھر اس لیے نہ جا سکی کہ والد ہمیں اڑوس پڑوس میں جانے نہیں دیتے تھے، تبھی وہ آجاتی تھی، لیکن ہم کسی کے گھر نہیں جاتے تھے۔ صنم ہر دفعہ گرمیاں گزارنے اپنے چچا کے گھر جایا کرتی تھی۔ میں سمجھی کہ اس بار بھی وہ مری گئی ہوگی، تبھی نہیں آرہی۔ ناظر کا نہ آنا البتہ سمجھ میں آتا تھا۔ ظاہر ہے، میں نے بات ہی ایسی کہہ دی تھی۔ اس کا ناراض ہو جانا قدرتی امر تھا۔ اب دل میں عجیب سے خدشات ابھرتے کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ سیانے کہتے ہیں، خدشے ایسے ہی نہیں آجاتے۔ کچھ ہونے والا ہوتا ہے تو آتے ہیں۔ ایک دن امی سے سنا کہ ناظر ملازمت کی وجہ سے دوسرے شہر گیا ہوا ہے، تب مجھ کو اطمینان ہو گیا۔ کچھ دن گزرے تھے کہ صنم آ گئی۔ وہ اپنی شادی کی خبر بھی لائی تھی کہ اس نے کورٹ میرج کر لی تھی۔ کسی سے، کون ہے وہ؟ میں نے پوچھا۔ وہ بولی، ابھی تک والدین سے نہیں ملایا۔ وہ ناراض تھے، بڑی مشکل سے منایا ہے، تبھی تو آپائی ہوں۔ ابھی جلدی میں ہوں، دوبارہ آؤں گی تب بتادوں گی۔ دوسری بار وہ پندرہ دن بعد آئی تو قدرے خوش تھی کیونکہ والدین کو منا لیا تھا، مگر انہوں نے اس کے خاوند کو گھر آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس نے ہر بات مجھ سے چھپائی۔ اگر بتا دیتی تو شاید میں جنم جلی مزید جلنے سے بچ جاتی۔ والدین ناظر کو داماد بنانے کی ضد کرتے رہے کیونکہ بچپن سے اس سے میری نسبت طے تھی۔ انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ نہ میری سنیں گے اور نہ ناظر کی، بس جو بزرگوں کا فیصلہ ہوگا، وہی ہوگا۔ وہ ناظر کو منا کر لائے اور اسے بتایا کہ ہمارے پڑوس میں صباحت نام کا کوئی لڑکا ہے ہی نہیں، تم کسی صباحت کی بات کر رہے ہو؟ بلکہ صنم کا تو کوئی بھائی ہی نہیں ہے۔ یہ بات ناظر کو بھی معلوم تھی، لیکن وہ تو بہانے سے منہ بنائے ہوئے کہہ رہا تھا کہ کوئی اور لڑکا ہو سکتا ہے، لیکن یہ بات صریحاً غلط تھی کیونکہ مجھے سرے سے کوئی لڑکا پسند نہیں تھا، میں نہ کبھی کسی سے ملی تھی۔ خیر، پھر شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔ جس رات میں مایوں بیٹھی تھی، صنم آگئی۔ وہ بنی ٹھنی لیکن ذرا چپ چپ تھی۔ زیادہ بات نہیں کی، بس اس قدر بولی: مجھے افسوس ہے کہ جواب تم کو نہیں چاہتا اور تم بھی جس کو ناپسند کرتی ہو، اس سے تمہاری شادی ہو رہی ہے اور اس بزدل کا حال دیکھو، ماں باپ کو انکار نہیں کر سکتا۔ میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ اور لڑکیاں بھی وہاں موجود تھیں۔ حوصلہ دینے کے بجائے صنم گویا جلتی پر تیل چھڑک رہی تھی۔ میں سوچنے لگی، صنم ایسی تو نہ تھی؟ جانے اب یہ کیوں ایسی ہو رہی ہے کہ اس نے دوستی کے تقاضے ہی بھلا دیے ہیں۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ تقدیر مجھ سے ایسا مذاق کرنے والی ہے۔ سب جنس بول رہے تھے اور میں بے خبر تھی کہ جس دوست کی دوستی پر ناز تھا، وہی میری خوشیاں لوٹنے والی ہے۔ میں رونا چاہ رہی تھی لیکن آنسو نہیں بہہ رہے تھے۔ میری رخصتی ہو گئی اور میں کسی سے کچھ نہ کہہ سکی۔ غلطی اپنی تھی اور آنے والے دنوں میں سزا بھی خود بھگتنا تھی۔ یہ میری بھول تھی جو میں نے ناظر سے کہا تھا کہ مجھے تم پسند نہیں ہو ، حالانکہ جانتی تھی کہ ہمارے خاندان میں بچپن کی نسبت توڑی نہیں جاتی۔
اس قصور کی ناظر نے مجھے اتنی بڑی سزا دی کہ مجھے چھوڑا بھی نہیں اور اپنایا بھی نہیں۔ اتنے دنوں تک صنم اور ناظر غائب رہے اور میں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہ کی کہ وہ کہاں ہیں؟ صنم کو تو میں اپنی عزیز از جان سہیلی سمجھتی تھی مگر وہ ناگن نکلی۔ اس نے میری خوشیوں کو ڈس لیا۔ کاش میں اسے اپنے راز نہ بتاتی اور نہ اس سے مشورے لیتی، کہ وہ تو اپنا دماغ کسی اور سمت میں چلا رہی تھی۔ میں پھولوں کی سیج پر ناظر کا انتظار کرتی رہی، مگر وہ نہیں آیا۔ فجر کی اذان کے وقت آیا بھی تو مجھ سے کوئی بات نہیں کی، نہ میرا گھونگھٹ اٹھایا۔ میرا چہرہ تک دیکھنے کی زحمت نہ کی۔ دن یوں ہی دبے پاؤں گزرنے لگے۔ کسی سے کچھ کہنے کی ہمت نہ تھی کیونکہ یہ میرا اپنا ہی کیا دھرا تھا۔ وہ دن بھر باہر رہتا، رات کے آخری پہر گھر آتا اور چپ چاپ سو جاتا۔ ہم دونوں شادی کے اتنے دنوں بعد بھی ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے۔ کافی دن اس کے والدین مشورہ کرتے رہے، آخر انہوں نے خود ہی ناظر سے بات کی کہ تم اپنی بیوی سے بات کیوں نہیں کرتے؟ اسے کہیں لے کر بھی نہیں جاتے، رات کو بھی دیر سے گھر آتے ہو۔ یہ کیا طریقہ ہے؟” ناظر نے جواب دیا کہ اس سے پوچھ لو۔ اس نے کہا تھا کہ میں اس کو پسند نہیں۔ اب کوئی کسی کو پسند نہیں تو کوئی کیا کرے؟” زبردستی کے بندھن تو پھر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ قیامت تو اس دن گزری، جب اس نے گھر میں بتایا کہ اس نے پہلے سے شادی کر رکھی ہے اور ایک بچے کا باپ بھی ہے۔ ہمارے خاندان میں صنم کو کوئی قبول کرنے پر تیار نہ تھا، مگر ناظر کی خاطر کرنا ہی پڑا کہ وہ ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑنے کی دھمکی دے چکا تھا۔ صنم اس گھر کا وارث پیدا کر چکی تھی، جبکہ مجھے تو ابھی تک اس نے بیوی کا درجہ دیا ہی نہیں تھا۔ وہ صنم سے دل لگا چکا تھا۔ اس کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا اور میں بد نصیب اپنی مجبوریوں پر آنسو بہاتی، خود کو مجرم گردانتی تھی۔ میں نے خود اپنے نصیب کو آگ لگائی تھی، جس میں میری ساری خوشیاں جل کر راکھ ہو گئیں۔ وہ مجھ سے کلام نہ کرتا کیونکہ ایک تصوراتی رقیب صباحت کی صورت میں اس کے ذہن میں موجود تھا اور تا عمر موجود رہا۔ میں آج تک کسی صباحت سے ملی نہ کبھی کسی غیر کا منہ دیکھا، لیکن رقابت کی آگ تھی جو ناظر کو جلاتی رہتی۔ دراصل، اسے میری ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ صنم اور اپنے چار بچوں کے ساتھ بھرپور اور خوشیوں بھری زندگی گزار رہا تھا۔ جانے کیوں جو مجھے پہلے نا پسند تھا، اب میں اس سے محبت کرنے لگی تھی۔ اگر پتا ہوتا کہ صنم اسے مجھ سے چُھرا چکی ہے تو اس سے شادی پر آمادہ ہونے کے بجائے زہر کھا لیتی۔ اس کے لیے میرے دل میں شدید محبت نے نجانے کب اور کیسے جنم لیا؟ میں نہیں جانتی، لیکن یہ ایک طرفہ خاموش آگ تھی جسے بجھانے والا کوئی نہ تھا۔ جب کوئی طلاق کی بات کرتا، میں رونے لگتی۔ میں اس کی بیوی کہلاتی تھی، میرے لیے یہی بہت ہے۔ اپنا بویا خود کاٹ رہی ہوں۔ کسی کو الزام کیوں دوں؟ میں نے ہیرے کی قدر نہ کی، تو وہ بھی پتھر کا بن گیا۔ میں اس کی محبت کے قابل نہ تھی۔ صنم نے دامن پھیلایا اور محبت کے سارے پھول سمیٹ لیے اور میں خالی دامن ہو گئی۔ کانٹے ہی میرے حصے میں آئے۔ آج بھی اس میں جی رہی ہوں کہ شاید میرا محبوب مجھے معاف کر دے، کسی دن گلے لگا لے۔ آخر میں اس کے نکاح میں ہوں۔ شاید کبھی وہ پلٹ کر آئے۔