Sunday, December 15, 2024

Khamosh Azitain

میری سہیلی شازی کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کے والد، سلام صاحب، ایک اوسط درجے کے سرکاری ملازم تھے۔ تمام عمر کی محنت کے بعد وہ بمشکل ایک پانچ مرلے کا مکان بنا سکے، جو وہ ابھی تک اپنا نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ اوپر کی منزل انہوں نے قرض لے کر مکمل کروائی تھی۔ اس قرض کو ادا کرنے کے لیے انہیں بالائی منزل بھی کرائے پر دینی پڑی۔کرائے دار شریف ہوں تو سکون ہوتا ہے، لیکن اگر ان کی نیت ٹھیک نہ ہو تو وہ سراسر دردِ سر بن جاتے ہیں۔ مکان مالک عام طور پر کافی چھان بین کرتے ہیں، مگر شازی کے والد نے ایسی کوئی احتیاط نہ کی۔ پہلی پارٹی آئی تو فوراً انہیں چابیاں تھما دیں۔ کسی نے یہ نہ دیکھا کہ یہ لوگ کون ہیں، پہلے کہاں رہتے تھے، لین دین کے معاملے میں کیسے ہیں، اور سب سے اہم یہ کہ ان کا ذریعہ آمدنی کیا ہے۔ سلام صاحب بہت سیدھے سادے انسان تھے، جو ہر کسی پر اعتماد کر لیتے تھے۔

کرائے دار بظاہر خوش اخلاق تھے۔ کنبے کا سربراہ سجاد نامی اکلوتا بھائی تھا، جو اپنی ماں اور دو بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔ بڑی بہن نعیمہ اور چھوٹی حسینہ، دونوں کافی چالاک اور تیز طرار تھیں۔ یہ لڑکیاں اکثر شازی کی امی کے پاس آتی تھیں اور گھریلو کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ یوں انہوں نے شازی کی امی کے دل میں گھر کر لیا۔ ظاہر ہے جو آرام دے، وہی اچھا جانا جاتا ہے۔ آنٹی بھی ان لڑکیوں کی تعریف اپنے شوہر سے کرتی رہتیں۔نعیمہ اور حسینہ کی شادی کا ذکر اکثر ان کی ماں، سلام صاحب کی بیوی سے کرتی تھی، کیونکہ وہ اپنی بیٹیوں کے مستقبل کے بارے میں بہت فکرمند تھی۔ شازی یہ باتیں آکر مجھ سے بتایا کرتی تھی۔ شازی ان بہنوں سے کافی متاثر رہتی تھی کیونکہ وہ فیشن کی دلدادہ تھیں اور نت نئے ڈیزائن کے کپڑے پہنتی تھیں۔ یہ چیزیں نئی عمر کی لڑکیوں کو بہت پسند آتی ہیں۔شازی کے والد ایک شرمیلے مزاج کے انسان تھے، جبکہ نعیمہ اور حسینہ بے تکلف اور بے جھجک تھیں۔ وہ ان کے سامنے بلا دوپٹہ اور آزادی سے گھومتی پھرتی تھیں۔

ایک دن شازی اسکول آئی تو بہت اداس تھی۔ وہ کہنے لگی کہ ہمارے ابو اوپر والی آنٹی اور ان کی بیٹیوں کا ہر کام کر دیتے ہیں، لیکن امی اور ہمارا کام نہیں کرتے۔ ہمیں کہیں جانے یا کچھ منگوانے کے لیے بار بار کہنا پڑتا ہے، جبکہ وہ ایک بار بھی کچھ کہہ دیں تو فوراً اٹھ کر ان کا کام کر دیتے ہیں۔ یہ پہلی شکایت تھی جو میں نے اپنی سہیلی کے منہ سے ان کے بارے میں سنی۔کافی دن گزر گئے، اور شازی اسکول نہ آئی۔ پھر پتا چلا کہ اس کی امی سخت بیمار ہیں۔ میں اور میری امی ان کی عیادت کے لیے گئے۔ آنٹی بستر مرگ پر تھیں، ان کی حالت ایسی تھی کہ ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا۔ وہ چند دنوں کی مہمان لگتی تھیں۔اسی دن میں نے شازی کے گھر میں پہلی بار نعیمہ اور حسینہ کو دیکھا۔ وہ دوڑ دوڑ کر سلام صاحب کا کام کر رہی تھیں، چائے بنا کر لائیں، اور ہماری بھی خاطر مدارت کی۔ ان کی ماں، چارپائی کے ساتھ بیٹھی پان چبا رہی تھیں، اور وہ لڑکیاں یوں گھوم رہی تھیں جیسے یہ ان کا اپنا گھر ہو۔ان کی موجودگی اور گھر پر ان کا کنٹرول دیکھ کر میری امی حیران رہ گئیں۔ گھر آکر انہوں نے کہا کہ کمال ہے، شازی کی امی کے اپنے کوئی رشتہ دار نہیں ہیں جو ان کے پاس آکر رہیں۔ انہوں نے غیروں کا سہارا لیا ہوا ہے۔

کچھ دن بعد جب شازی اسکول آئی تو بہت افسردہ تھی۔ اس کی امی کا انتقال ہو چکا تھا۔ کچھ دنوں کے لیے رشتہ دار عورتیں آئیں، لیکن جلد ہی سب اپنے گھروں کو لوٹ گئیں، سوائے شازی کی خالہ کے، جو نوعمری میں بیوہ ہو گئی تھیں اور اب اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں۔خالہ چند دن ان کے پاس رہیں۔ جب وہ جانے لگیں تو شازی اور اس کی بہن فوزیہ ان سے لپٹ کر رونے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ خالہ، آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہی ہیں۔ آپ یہیں رہ جائیے۔ خالہ نے کہا کہ میرا یہاں رہنا مناسب نہیں، لوگ باتیں بنانے لگیں گے۔خالہ نے ٹھیک کہا تھا۔ جب سے وہ شازی کے گھر پر تھیں، بالائی منزل والوں نے نیچے آنا جانا بند کر دیا تھا۔ ان کو خالہ کا وہاں رہنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور خالہ کے خلاف محلے میں باتیں بنانے والوں میں پہلا نمبر انہی کا تھا۔ خالہ، شازی اور فوزیہ کو روتا اور سسکتا چھوڑ کر چلی گئیں۔خالہ کے جانے کے بعد نعیمہ، حسینہ اور ان کی ماں دوبارہ میدان میں آ گئیں۔ انہوں نے روتی ہوئی بچیوں کو گلے لگایا اور کہا کہ وہ ان کی خالہ ہیں، پھر کیوں روتی ہو؟ تم لوگ تنہا تو نہیں ہو، ہم جو تمہارے پاس ہیں۔

اب پھر سے اس گھر میں ان کا عمل دخل بڑھنے لگا۔ حسینہ کھانا پکا رہی تھی، نعیمہ سلام صاحب کے کپڑے استری کر رہی تھی، اور ان کی ماں گھر کا سودا سلف لا رہی تھی۔ یہ سب ایسے ہو رہا تھا کہ جیسے یہ ایک ہی گھرانہ ہو۔ سلام صاحب پہلے سے زیادہ خوش اور مطمئن نظر آنے لگے۔ سجاد کی ماں اور بہنوں نے ان کا گھر سنبھال لیا تھا، اور انہوں نے بیوی کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔شازی اور فوزیہ البتہ بے قرار تھیں۔ وہ اپنی ماں کو نہیں بھلا سکتی تھیں، اور ان کے لیے ماں کا بدل صرف سگی خالہ تھیں، جو ماں جیسا پیار دے سکتی تھیں۔ لیکن خالہ صرف چند روز ان کے پاس رہ کر چلی گئی تھیں۔محلے اور خاندان کے لوگ سمجھ چکے تھے کہ کرائے دارنی اپنی بڑی بیٹی نعیمہ کو سلام صاحب کے ساتھ بیاہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب سلام صاحب کی بہن کچھ دن کے لیے ان کے پاس آئیں تو انہوں نے فوراً معاملے کو بھانپ لیا اور اپنے بھائی سے کہا کہ بھائی جان، یہ غلطی کبھی مت کیجئے گا۔ مجھے یہ کنبہ ٹھیک نہیں لگتا۔ تمہاری کرائے دارنی بڑی شاطر معلوم ہوتی ہے۔ یہ دو چار روز میں تمہارے مکان پر قبضہ کر لے گی اور تمہاری بن ماں کی بچیوں کو نکال باہر کرے گی۔ نعیمہ سے نکاح کی غلطی کبھی نہ کرنا، بلکہ ہو سکے تو ان سے مکان خالی کرا کر کسی بھلے مانس کو کرایہ پر دے دو۔سلام صاحب کو بہن کی باتیں بری لگیں۔ انہوں نے کچھ نہ کہا، لیکن دل میں فیصلہ کر لیا کہ نعیمہ سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ وہ سوچتے تھے کہ یہ لڑکیاں سلیقہ مند ہیں اور ان کی ماں مخلص ہے۔ آڑے وقت میں یہ لوگ کام آتے ہیں اور شازیہ اور فوزیہ بھی ان سے مانوس ہیں۔جب یہ بات رشتہ داروں کو معلوم ہوئی کہ سلام صاحب نعیمہ سے نکاح کرنے جا رہے ہیں تو سب ان کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے۔ خاندان کے چند بزرگوں نے دباؤ ڈال کر سلام صاحب کا نکاح ان کی بیوہ سالی سے کروا دیا، کیونکہ وہ بچیوں کی خوشی کو مقدم سمجھتے تھے۔

شازیہ اور فوزیہ بے حد خوش تھیں کہ ان کی خالہ ہمیشہ کے لیے ان کے پاس آ گئی ہیں۔ ماں کے مرنے کے بعد پہلی بار ان کے چہروں پر سکون اور خوشی نظر آئی۔ خالہ نے ماں کی جگہ لے لی اور ان سے محبت اور شفقت سے پیش آنے لگیں۔مگر اوپر کی منزل پر رہنے والوں کو یہ سکون برداشت نہ ہوا۔ انہوں نے چپکے چپکے سلام صاحب کے کان بھرنے شروع کر دیے، کیونکہ پہلے وہ نیچے آتی تھیں، اور اب سلام صاحب اوپر جانے لگے تھے۔ ان باتوں کا اثر یہ ہوا کہ سلام صاحب نے اپنی بیوی سے بدسلوکی شروع کر دی، جو ان کے صلح پسند مزاج کے خلاف تھا۔کہتے ہیں کہ عشق کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ شاید سلام صاحب کو بھی بڑی بیٹی نعیمہ سے عشق ہو چکا تھا۔ انہوں نے اپنی دوسری بیوی اور اپنی بچیوں کی خالہ پر وہ ستم ڈھائے کہ وہ تنگ آ گئیں۔ ایک دن یہ خبر آئی کہ سلام صاحب کی دوسری بیوی نے خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر خودکشی کر لی ہے۔

جب شازی اور فوزیہ اسکول سے گھر پہنچیں تو خالہ وہاں نہ تھیں۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا تھا، جہاں وہ بری طرح جھلس گئی تھیں۔ وہ بیان دینے کے قابل بھی نہ تھیں اور اسی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ سب یہی کہہ رہے تھے کہ ان کا جلنا ایک معمہ ہے، مگر شازی کہتی تھی کہ خالہ کو اوپر والیوں نے جلایا ہے۔خالہ کے انتقال کے بعد، سلام صاحب نے تیسری شادی نعیمہ سے کر لی۔ اس کے بعد شازی اور فوزیہ کا اسکول جانا بند ہو گیا۔ جب میں ان کے گھر گئی تو شازی نے بتایا کہ نعیمہ نے ان کی پڑھائی چھڑوا دی ہے اور وہ ان سے اپنے اور ان کے دونوں گھروں کا کام کرواتی ہیں۔ شازی رونے لگی کہ وہ بڑی ظالم ہے۔کچھ عرصے بعد، میں نے سنا کہ شازی کی شادی ہو رہی ہے۔ یقین نہ آیا کیونکہ وہ صرف پندرہ یا سولہ سال کی تھی۔ میں ان کے گھر گئی تو شازی مجھے دیکھتے ہی گلے لگ کر رونے لگی اور کہا کہ فہمی، اس ظالم دنیا میں بن ماں کی بچیوں کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ انہیں تو ماں کے ساتھ ہی مر جانا چاہیے تھا۔میں نے پوچھا، شازی! یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے؟ہاں، وہ بولی۔لیکن مجھے تو کوئی مہمان نظر نہیں آ رہا؟ماں نے صرف اپنے چند رشتہ داروں کو ہی بلایا ہے۔تم نے مجھے نہیں بتایا؟کیسے بتاتی؟ ماں نے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔کس کے ساتھ شادی ہو رہی ہے؟نعیمہ کے ماموں کے ساتھ۔ماموں کے ساتھ؟ وہ تو خاصا بڑا ہوگا۔ہاں، خدا جانے ابو کو کیا ہو گیا ہے۔ جو یہ لوگ کہتے ہیں، وہ کرتے جاتے ہیں۔ کاش میری ماں زندہ ہوتی تو مجھ پر یہ ظلم نہ ہوتا۔تم بہادر بنو اور اس شادی سے انکار کر دو۔میں ایسا نہیں کر سکتی۔ یہ ناممکن ہے۔ تم سوچ بھی نہیں سکتیں فہمی، یہ لوگ کتنے ظالم ہیں۔ ابو کو تو انہوں نے بالکل اپنی مٹھی میں کر لیا ہے۔یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ کسی نے کہا، بارات آ گئی ہے۔ دولہا چند عورتوں اور مردوں کے ساتھ اندر آیا۔ اس کی عمر سلام صاحب سے بھی زیادہ لگ رہی تھی۔ مجھے دولہا کو دیکھ کر حیرت اور افسوس ہوا۔ اس قدر کہ میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکی اور رونے لگی۔

شازی رخصت ہو کر سسرال چلی گئی۔ دو ماہ بعد وہ ہمارے گھر آئی۔ کچھ پرسکون اور خوش نظر آتی تھی۔بولی، دولہا عمر رسیدہ ضرور ہے مگر رحم دل ہے۔ وہ میرا خیال رکھتے ہیں۔ کم از کم مجھے نعیمہ اور حسینہ کی ماں کے ظلم سے تو نجات مل گئی۔ پھر ٹھنڈی آہ بھر کر بولی، اب مجھے فوزیہ کی فکر ہے۔ خدا جانے وہ تینوں اس بیچاری کا کیا حال کرتی ہوں گی۔میں نے پوچھا، ان کا لڑکا سجاد کہاں ہے؟وہ ان کو چھوڑ گیا ہے اور کسی امیر آدمی کا گھر داماد بن گیا ہے، اب وہ آتا بھی نہیں۔خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ نعیمہ کے گھر بچی پیدا ہوئی، مگر وہ بچی عجیب الخلقت تھی۔ اس کے منہ کا اوپری حصہ غائب تھا اور اس کا نچلا دھڑ ناکارہ تھا۔ وہ دودھ اور پانی بھی نہ پی سکتی تھی۔ تین ماہ اسپتال میں رہ کر فوت ہو گئی۔ دوسرے اسپتالوں سے ڈاکٹر اسے دیکھنے آتے تھے۔ اس حادثے نے صرف چند دن نعیمہ کے دل پر اثر کیا۔ وہ اپنی ماں اور بہن کو منع کرتی تھی کہ فوزیہ پر رحم کیا کرو، اس کی بددعا سے مجھے ایسی اولاد ہوئی ہے۔نعیمہ سے زیادہ اس کی ماں تنگ دل تھی۔ وہ معصوم فوزیہ پر طرح طرح کے ظلم کرتی۔ خود اسے دکانوں پر سودا لینے بھیجتی اور پھر کہتی کہ یہ فلاں لڑکے سے ملنے گئی تھی یا فلاں محلے والے لڑکے سے باتیں کر رہی تھی۔ ایسی باتوں پر سلام صاحب اپنی بے گناہ بیٹی کو مارنے لگتے تھے، بغیر یہ سوچے کہ ممکن ہے یہ بات جھوٹ ہو۔ایک دن ایسے ہی کسی الزام سے خوف زدہ ہو کر فوزیہ گھر سے بھاگ نکلی۔ اس کی سوتیلی نانی نے کہا تھا کہ آج تیرا باپ آئے گا، میں ایسی بات کہوں گی کہ وہ تجھ کو رسی سے باندھ کر مارے گا۔ یہ سن کر خدا جانے فوزیہ کے دماغ پر کیا اثر ہوا کہ وہ دروازہ کھول کر بھاگی۔ بڑی بی نے دیکھا تو اس کے پیچھے بھاگی اور شور مچانے لگی کہ دوڑو، اسے پکڑو۔یہ سن کر کچھ لڑکے گلی میں فوزیہ کے پیچھے دوڑنے لگے۔ بدقسمتی سے اسی وقت سلام صاحب گھر آ رہے تھے۔ انہوں نے جو دیکھا کہ فوزیہ آگے بھاگ رہی ہے اور گلی کے لڑکے اس کے پیچھے ہیں، تو ان کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔ انہوں نے فوزیہ کو سڑک سے پکڑا اور کمرے میں بند کر دیا۔انہوں نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی کہ ان کی بیٹی آخر کیوں پاگلوں کی طرح بھاگ رہی تھی۔ بس جو ان کی ساس نے کہا، وہ مان لیا۔ پھر لڑکی کو بے دردی سے مارا اور دو دن بعد شازیہ کی طرح اس کا نکاح بھی خاموشی سے کر دیا۔ کہاں اور کس کے ساتھ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔

ان دونوں بہنوں کے ساتھ میں نے آٹھ سال پڑھا۔ میں جانتی تھی کہ وہ کتنی اچھی، ذہین اور ہونہار لڑکیاں تھیں، جو ماں کے مرنے اور باپ کی دوسری شادی کرنے سے تباہ ہو گئیں۔ اس لیے میں ہمیشہ دعا کرتی ہوں کہ خدا کسی لڑکی کی ماں کو نہ اٹھائے یا اگر باپ دوسری شادی کرے، تو یہ ضرور سوچے کہ سوتیلی ماں ان بچیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرے گی۔

Latest Posts

Related POSTS