چند برس قبل کی بات ہے، مجھے اپنے دفتر سے ایک دور دراز کے گاؤں ریسرچ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ میں اپنے معاونین کے ہمراہ ملک مہربان کی حویلی پہنچی۔ یہ گاؤں شہر سے کافی دور تھا، جہاں کچھ دور تک ہی گاڑی جا سکتی تھی، آگے راستہ نہ ہونے کی وجہ سے پیدل چلنا پڑتا تھا۔ چند ہی دنوں میں مجھے معلوم ہو گیا کہ یہاں کے لوگ انتہائی محنتی اور سادہ ہیں، جب کہ ملک بہت چالاک قسم کا جاگیردار تھا۔ایک بات جو سب سے زیادہ عجیب تھی، وہ یہ کہ مجھے دیکھ کر گاؤں کے لوگ ادھر اُدھر ہو جاتے۔ ملک صاحب بھی مجھے اُن لوگوں سے ملنے نہیں دے رہے تھے اور میرے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے۔ میں نے جان لیا کہ وہ اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ اس کے خلاف کوئی خبر اخبارات تک پہنچے، ورنہ اس کے سارے راز فاش ہو جاتے اور بدنامی علیحدہ ہوتی۔میں نے حویلی میں ایک خوبصورت اور معصوم سی لڑکی کو دیکھا، جو نہ کسی سے بات کرتی تھی اور نہ کچھ مانگتی تھی۔ کانچ کی گڑیا جیسی، صاف لگتا تھا کہ اس میں کوئی راز پوشیدہ ہے۔ اس کے سرخ گال اور گلابی ہونٹ، گلاب کے پھول کی طرح خوبصورت تھے۔ وہ صورت اور سیرت دونوں سے اچھی تھی۔ بنانے والے نے نہ جانے اس کے نصیب کیسے بنا دیے تھے۔ حویلی کے ملازمین اسے جھڑکتے، تو وہ رو پڑتی، تب میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔مجھے اس سے ہمدردی اور محبت ہو گئی تھی۔ میں نے اسے درد و تکلیف میں دیکھا، تو تڑپ اٹھی۔ وہ رہتی تو ملک صاحب کی حویلی میں تھی، لیکن اس کی حیثیت ایک بے زبان جانور جیسی تھی۔ جانے وہ کون تھی اور کہاں سے آئی تھی؟ وہاں کوئی بھی مجھے اس بارے میں نہیں بتاتا تھا۔ اگر کوئی اسے روٹی پانی دے دیتا، تو کھا پی لیتی، ورنہ دو دو دن بھوکی رہتی تھی، مگر کچھ نہ مانگتی تھی، ہاں اس کے آنسو روانی سے بہتے تھے۔ اسے اتنا دکھی اور گم صم دیکھ کر میرا جی چاہتا کہ اس کے آنسو اپنے اندر جذب کر لوں، اس کے تمام دکھ درد سمیٹ لوں، مگر میں ملک صاحب سے ڈرتی تھی کہ وہ مجھے کام کے لیے گاڑی اور دوسری سہولیات دے رہے تھے، لیکن میں اس لڑکی کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین تھی۔ جی چاہتا کہ اس سے پوچھوں چندا تجھے کیا دکھ ہے؟گاؤں کی عورتوں نے بھی اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہ بتایا، بس اتنا کہا کہ اس کا نام صابرہ ہے۔ واقعی وہ اپنے نام کی طرح صابر و شاکر تھی، جب ہی تو تمام دکھ درد اپنے سینے میں جذب کر رکھے تھے اور اپنے آپ کو فنا کر دیا تھا۔کئی بار جب میں اپنے کام کے لیے گاؤں کی طرف نکلی تو اسے کچی سڑک کے کنارے انگلیوں سے مٹی کریدتے ہوئے پایا۔ اس کے پاس سے گزرتے وقت بارہا اسے متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی، مگر وہ خود سے بے گانہ، مٹی کریدنے میں مصروف رہتی، تب ہی میں ایک نظر اسے دیکھتی گزر جاتی۔ایک دن جب میں اس کے پاس سے گزرتے ہوئے آگے بڑھ گئی، تب اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا تو وہ نظریں جھکائے، دوپٹے کے پلو کو انگلیوں پر لپیٹتی، میرے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ بال بکھرے ہوئے اور کپڑے اس طرح پھٹے ہوئے جیسے کسی بھیڑیے نے اسے بھنبھوڑ دیا ہو۔ اس کی دونوں کلائیاں زخمی تھیں۔ میں نے فوراً فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا اور اس کے زخموں کو صاف کر کے دوا لگائی۔اب میں اس کی کہانی بن سنے جان گئی تھی۔ اس کے زخمی وجود کی طرح اس کی روح بھی زخمی تھی۔ آج موقع تھا، میں اس سے کچھ نہ کچھ اگلو ا سکتی تھی۔ میں اس کی بربادی کی داستان پوچھتی رہی، اُسے جھنجھوڑتی رہی، مگر وہ کچھ بول ہی نہ رہی تھی۔بولو، میری جان! چپ کیوں ہو؟ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور میرا تعلق ایک این جی او سے ہے، جو عورتوں کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہے۔ تم مجھ سے اپنا کوئی دکھ، کوئی زخم نہ چھپاؤ۔مگر وہ کچھ نہ بولی، لیکن آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔چندا، کچھ تو بتا! آخر تجھے کس ظالم نے اس حال پر پہنچایا ہے؟ کیوں تیری زبان پر تالا لگا ہے؟ کس نے تیری روح کو زخمی کیا ہے؟ تو بولتی کیوں نہیں؟یہ کیسے بولے گی، بی بی صاحب!حویلی کی ملازمہ جانے کس وقت وہاں آ کھڑی ہوئی تھی۔تم کون ہو؟ میں نے پوچھا۔میں مہرالنساء، بی بی جی۔مہرو! یہ گونگی بہری نہیں ہے۔ میری آواز سن کر آگے پیچھے دیکھتی ہے، پھر تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ یہ گونگی بہری ہے؟آپ بھی بھولی ہیں بی بی! لگتا ہے آپ کسی گاؤں میں پہلی دفعہ آئی ہیں۔ہاں، میں پہلی دفعہ کسی گاؤں میں آئی ہوں۔تو سنیے بی بی! یہ کبھی نہ بولے گی۔ یہ ایک کھلونا ہے، جس سے ملک صاحب کا دل خوش رہتا ہے۔ یہ کانچ کی گڑیا ہے اور انہوں نے ہی اسے خاموش گڑیا بنا دیا ہے، تاکہ راز، راز ہی رہیں۔ اس کی زبان نہیں ہے۔مہرو نے اشارے سے اس کا منہ کھلوانا چاہا، مگر وہ اس قدر ڈری ہوئی تھی کہ اس نے منہ نہ کھولا، تب مہرو نے اشارے سے بتایا کہ اس کی زبان کٹی ہوئی ہے۔ میں یہ سن کر کانپ گئی۔مگر کیسے؟ہم زبان نہیں کھول سکتے، بی بی، ورنہ ہمارا بھی ایسا ہی حال ہو جائے گا۔یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی اور ساتھ ہی صابرہ بھی چلی گئی، مگر میرے قدم نہ اٹھتے تھے، جیسے زمین نے پکڑ لیے ہوں۔ شام کو میں اپنا کام ختم کر کے واپس آئی تو مہرو میرے کمرے میں چائے لے آئی۔ تب ہی میں نے صابرہ کا ذکر دوبارہ چھیڑا، تو وہ بولی، بی بی، اس بات کو یہیں رہنے دو۔ آپ کو اس کی کہانی سن کر کیا ملے گا؟ اور کوئی یہاں آپ کو کچھ بتائے گا بھی نہیں۔ بھلا شیر کے منہ میں کون ہاتھ ڈالتا ہے؟ آپ اپنے کام سے آئی ہو، چلی جاؤ گی، مگر ہمیں تو یہیں رہنا ہے۔مہرو، مجھ پر اعتبار کرو۔ میں یقین دلاتی ہوں کہ کبھی تمہارا نام میرے ہونٹوں پر نہیں آئے گا۔ میں گاؤں والوں کے حالاتِ زندگی جاننے آئی ہوں۔ تم میری مدد نہ کرو گی، تو میں اپنا کام کیسے مکمل کر پاؤں گی؟اس نے ڈرتے ڈرتے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اپنی رپورٹ میں صابرہ کا ذکر نہیں کروں گی۔ میں نے وعدہ کر لیا، تب وہ یوں گویا ہوئی۔آج سے اٹھارہ، بیس برس پہلے کی بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں اللہ وسایا نامی ایک کسان اور اس کی بیوی جنتو رہا کرتے تھے۔ شادی کو عرصہ بیت گیا، مگر ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی۔ وہ خدا کی ذات سے شاکی نہ تھے، لیکن لوگوں کی زبانیں کون بند کر سکتا ہے؟ سب ہی نے اللہ وسایا کو دوسری شادی کا مشورہ دینا شروع کر دیا، مگر وہ جنتو کو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا، اس لیے اس نے دوسری شادی نہ کی۔aایک دن وہ شہر گیا، تو وہاں سے ایک ننھی منی گڑیا لے آیا۔ یہ چند دن کی بچی اس کے رشتہ دار کی تھی۔ بچی کی ماں اسے جنم دیتے ہوئے فوت ہو گئی، اور کوئی اس کی پرورش کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ بچی کے باپ نے اسے اللہ وسایا کے حوالے کر دیا اور کہا، تمہیں اولاد کی آرزو ہے، تم میری اس بچی کو اپنی اولاد کی طرح پال لو۔یوں وہ بچی کو گھر لایا اور بیوی کی خالی جھولی میں ڈال کر کہا، نیک بخت! اسے خدا کا تحفہ سمجھ۔ نہ جانے اس بدنصیب کی ماں کو کیوں خدا نے مہلت نہیں دی کہ وہ اس معصوم کی پرورش کر سکتی۔ تم بہت پیار سے اس کی پرورش کرنا اور اسے محسوس نہ ہونے دینا کہ اس کے ماں باپ نہیں ہیں۔انہوں نے اس کا نام صابرہ رکھا اور بے حد محبت سے اس کی پرورش کرنے لگے۔ تب ہی پتہ چلا کہ بچی کے حقیقی والد بھی کچھ عرصے بعد انتقال کر گئے۔ اللہ وسایا اور جنتو کی زندگی پُرسکون تھی۔ ان کے اپنے کھیت تھے، مگر ملک کی نظریں ان کی ہر چیز پر تھیں، یہاں تک کہ اس کانچ کی گڑیا پر بھی۔ کیونکہ وہ چاند کا ٹکڑا تھی، اور ہر کوئی اندازہ کر سکتا تھا کہ جوان ہو کر یہ کتنی خوبصورت ہو جائے گی۔ایک دن اچانک اللہ وسایا کے گھر آگ لگ گئی۔ ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔ لوگ جلدی جلدی آگ بجھانے کی کوشش کر رہے تھے، مگر ملک اطمینان سے اپنے گھر میں بیٹھا تھا۔ جنہیں زندہ رہنا تھا، وہ تو جل کر مر گئے، اور صابرہ کرموں جلی بچ گئی۔ اب اس کا کوئی وارث نہیں تھا۔رواج کے مطابق ہر لاوارث لڑکی ملک صاحب کی ملکیت ہوتی تھی، اور وہی اس کا وارث بنتا تھا۔ یوں ملک، صابرہ کا بھی وارث بن گیا۔ ان دنوں وہ صرف چھ برس کی تھی۔وقت گزرنے میں دیر نہیں لگتی۔ پلک جھپکتے دس برس بیت گئے، اور یہ چاند کا ٹکڑا ملک کی حویلی میں پورا چاند بن گیا۔ ملک کی وٹے سٹے کی شادی تھی۔ وہ ایک بیوی پر دوسری نہیں لا سکتا تھا، ورنہ اس کی بہن کو بھی سوکن کا منہ دیکھنا پڑتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا، تو شاید خوبصورتی اور کم سِنی کی وجہ سے وہ صابرہ سے شادی کر لیتا۔ملکانی کے خوف سے، کہ کہیں یہ معصوم اس کے سامنے زبان نہ کھول دے، ملک نے اس کی زبان کاٹ دی۔ پھر اس بے بس لڑکی کو میرے سپرد کر دیا۔ تب سے اب تک یہ میرے پاس رہتی ہے۔ جب ملک صاحب کا دل کرتا ہے، اس معصوم کو ساتھ لے جاتے ہیں۔ پھر یہ بے زبان زخمی چڑیا کی مانند کانپتی ہوئی میرے پاس آ جاتی ہے اور کبھی کبھی میرے کندھے پر سر رکھ کر روتی رہتی ہے۔ میں اس کے آنسو پونچھتی ہوں، اور کچھ نہیں کر سکتی، بی بی! کیونکہ شیر کی کچھار میں کون ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ مجھے اپنی زندگی بھی تو پیاری ہے۔
میں یہ کہانی سن کر دم بخود رہ گئی۔ سوچا کہ اس کی خصوصی رپورٹ تیار کروں گی، لیکن مہرو ہاتھ جوڑنے لگی، بی بی، تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم اس کا ذکر نہیں کرو گی۔ تم مجھے ضرور مروا دو گی۔ ملک صاحب کے ڈیرے پر سیاست دان اور بڑے بڑے افسر مہمان ہوتے ہیں۔ آپ ان کو نقصان پہنچانے کے خیال میں خود کو نقصان پہنچا بیٹھیں گی۔ میں اور صابرہ بھی جان سے جائیں گی۔مہرو، اگر تم میرا ساتھ دو، تو میں اس ملک صاحب کو بے نقاب کر دوں گی۔نہیں بی بی، ملک پکڑا نہیں جا سکتا۔ جب تک یہ آسمان قائم ہے، ایسے ملک یوں ہی ہم غریبوں کا لہو پیتے رہیں گے۔ اس پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں۔کاش میں ایسے ظالموں کا خاتمہ کر سکوں، میں نے جوش سے سوچا تھا۔ امید رکھو، ایک نہ ایک دن تم جیسے غریبوں کو بھی انصاف ملے گا، کیونکہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اس کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔ابھی میں یہ رپورٹ تیار کر رہی تھی کہ میری نوکری جاتی رہی۔ مجھے اس بات کا بے حد صدمہ ہوا۔ اپنے کام سے محبت تھی اور جانے کس وجہ سے ہمارے آفیسر کو پروجیکٹ ختم کرنا پڑا۔ میری محنت رائیگاں گئی اور مجھے ملازمت سے بھی ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ان دنوں میں بہت دل برداشتہ تھی۔ والدین نے شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن والدین کی نافرمانی بھی نہیں کر سکتی تھی، جنہوں نے مجھے پالا، پوسا، پڑھایا، لکھایا اور آج میں اس قابل تھی کہ ڈاکٹر بن چکی تھی۔ یوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی، مگر ایسے گھرانے میں بیاہی گئی جہاں ساس ایک تو ان پڑھ اور پھر سوتیلی تھی۔ نندیں اور شوہر ایم اے، بی اے تھے، لیکن ان پڑھے لکھوں نے ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی قدر نہ کی۔اس گھر میں سوائے شوہر کے، سب نے جتنی میری اہانت کی، کوئی اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ شادی کے چوتھے دن شوہر نے کہا، کسی بھی نند کے منہ نہیں لگنا۔ پھر چھوٹی نند نے کہا، ہم میں سے تو کوئی بھی بھائی کی شادی تم سے کرنے پر راضی نہ تھا، صرف بھائی کی ضد کی وجہ سے آئی ہو۔یہ پہلی ذلت تھی جو اس گھر میں مجھے ملی، اور اس کے بعد تو سلسلہ شروع ہو گیا کہ یہ شادی سے پہلے آزاد رہ چکی ہے، گاؤں گاؤں جانے کیا کیا ریسرچ کرتی پھرتی تھی اور اسی ریسرچ ورک کے نتیجے میں نوکری سے بھی گئی۔ اچھی بھلی ملازمت کرتی تھی، اب اپنا کلینک کھولے گی، تو سرمایہ لگے گا، پھر یہ اور ہم پر حاوی ہو جائے گی۔ اس کی کمائی اس کے کام آئے گی، لیکن رعب دبدبہ ہم مفت میں جھیلیں گے۔ ہمیں ایسی کماؤ بہو نہیں چاہیے۔ساس نے بھی کہا کہ ہمیں تو ایسی بہو چاہیے جو گھر سنبھالے، کماؤ بہو کی ضرورت نہیں ہے۔سسر، میرے سگے ماموں تھے، مگر انہوں نے یہ نہ سوچا کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں، میرا ایک مقدس پیشہ ہے۔ گھر والوں کی باتوں میں آ کر انہوں نے مجھ پر پابندی لگا دی کہ نہ نوکری کرو گی اور نہ کلینک کھولو گی، بس گھر پر رہو۔ ہمیں تمہاری کمائی کی ضرورت نہیں ہے۔جب بھی کوئی بات کرتی، ساس کہتیں، تم تو بہت عالم فاضل ہو۔ نندیں کہتیں، تمہیں تو سب پتا ہے، اتنا پڑھی لکھی جو ہو۔ حالانکہ میں اپنی تعلیم سے متعلق ان سے کبھی کوئی بات نہ کرتی، مبادا وہ یہ سمجھیں کہ مجھے غرور ہے۔صبح فجر سے اٹھ کر جو میں کام میں لگتی، تو رات دس بجے فارغ ہوتی۔ ساس سسر ناشتہ کرتے، پھر شوہر آفس اور نندیں اسکول جاتیں۔ میں سب کے لیے ناشتہ بناتی، خاور کے لیے لنچ بھی بنا کر دیتی کہ وہ دوپہر کو گھر نہیں آ سکتے تھے۔ ناشتے سے دس بجے فارغ ہوتی، تو دوپہر کا کھانا بناتی، وہ بھی ساس سسر کی پسند کا، اور ان سے پوچھ کر بناتی تھی۔ کبھی شوہر کا دل کچھ اور کھانے کو چاہتا، تو ساس سسر کا حکم آتا کہ ہم نہ کھائیں گے، ہمارے لیے کچھ اور بناؤ۔پھر برتن، کپڑے، صفائی، غرض ہر کام میں کرتی۔ مہمان آتے، تو کام مزید بڑھ جاتا۔ اس پر نندیں اور ساس اپنے اپنے کمروں سے باہر نہ نکلتیں۔ جب کھانا ٹیبل پر لگا لیتی، تو سب کو ان کے کمروں سے بلا لاتی کہ آ کر کھانا کھا لو۔ دروازہ کھولنے میں دیر ہو جاتی، تو کہتیں، بہری بنی بیٹھی ہے۔بڑی نند کا شوہر راہ چلتے مجھ پر غلط نظر ڈالتا اور خاص طور پر اس وقت کال کرتا جب میں گھر میں اکیلی ہوتی۔ بعد میں میرے شوہر کے کان بھرتا کہ یہ دوسرے مردوں سے فون پر بات کرتی ہے۔ حالانکہ مجھے معلوم بھی نہیں تھا، کیونکہ میں فون پر ان کی آواز پہچان بھی نہیں پاتی تھی اور بات بھی صرف اتنی کرتی کہ آپ نے غلط نمبر ڈائل کیا ہے۔ساس نے شوہر کے کان بھرے، اور آہستہ آہستہ انہوں نے میرے خلاف ایسا ذہن بنا لیا کہ مجھ سے بات کرنا بھی چھوڑ دیا۔ ان چار سالوں میں تین سال تو میں نے ایسے گزارے کہ سارا وقت نوکرانیوں کی مانند کام کرتی اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا۔ رفتہ رفتہ میری حالت پاگلوں جیسی ہو گئی۔والدین نے جب میرا حال دیکھا، تو اپنے ساتھ لے گئے اور ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ یہ سیریس ڈپریشن کا کیس ہے، اس کا علاج کروائیں، ورنہ بہت خطرناک صورتحال ہو جائے گی۔ چار ماہ تک میرا علاج ہوا۔جب کچھ بہتر ہوئی، تو شوہر مجھے لینے آ گئے، لیکن باقی دوائیں سسرال والوں نے کھانے نہ دیں کہ یہ عادی ہو جائے گی۔ لیکن اتنا فرق ضرور پڑا کہ میرے شوہر کو اندازہ ہو گیا کہ اس سلوک کے ساتھ میں اس گھر میں مزید نہیں رہ سکوں گی اور خودکشی کر لوں گی۔کیونکہ میرے شوہر کو ڈاکٹر نے بتا دیا تھا کہ یہ ماں نہیں بن سکی، تو اس کی وجہ ڈپریشن ہے۔ تب ہی خاور نے علیحدہ گھر کا انتظام کیا، جس سے مجھے ذہنی سکون ملا۔ پھر انہوں نے میری ملازمت کے لیے کوشش کی اور مجھے دوبارہ نوکری مل گئی۔جب ذہنی سکون ملا، تو اللہ کے کرم سے ماں بننے کی خوشی بھی اگلے ہی ماہ مل گئی۔
وقت آسانی سے گزرنے لگا اور پھر بیٹے کو پاکر تو نہال ہو گئی، تاہم میں وہ چار سال نہیں بھلا سکتی جو سسرال میں گزرے تھے ، کیونکہ شادی سے پہلے اپنی ستائیس سالہ زندگی میں اتنا نہیں روئی تھی، جتنا ان چار سالوں میں روئی ہوں۔ اللہ نے میرے صبر کا پھل دیا، لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ قسمت کی بات ہوتی ہے، کوئی عورت تعلیم یافت ہو یا معمولی مقام رکھنے والی، اگر قسمت اچھی ہے تو شادی کے بعد آرام کی زندگی گزارے گی ، ورنہ اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتوں کو بھی سرال اور گھر سے بہت دکھ مل جاتے ہیں۔ کافی دن ایک سرکاری اسپتال میں کام کرنے کے بعد اچانک میرا تبادلہ ملک صاحب کے گائوں میں ہو گیا۔ ایک دن میں اسپتال میں اپنے فرائض انجام دے رہی تھی کہ گائوں والے ایک مریضہ کو لائے۔ جب میں نے اسے دیکھا تو خوشی کی انتہانہ رہی ، وہ مہر النساء تھی۔ میں نے اسے دیکھا اور دواvوغیرہ لکھ دی، کافی کمزور نظر آرہی تھی۔ صابرہ کے بارے پوچھا تو اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھیں ، وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ کیا کہا؟ میں نے حیرت زدہ ہو کر کہا، کیا ہوا تھا اسے ؟ کچھ نہیں ڈاکٹر بی بی ! وہی جو ہونا تھا۔ بس ایک دن گائوں والوں نے سنا کہ صابرہ بد چلن ہے ، اس لیے بدنامی سے بچنے کے لیے کنویں میں کود گئی۔ کچھ نے کہا۔ وہ پاگل سی تھی نا ، ، اس اس لیے کود گئی ہوگی۔ ہوگی۔ تو تو کیا واقعی اس نے کنویں میں کود کر خود کشی کی تھی ؟ اللہ جانتا ہے بی بی، لیکن وہ مرنا نہیں چاہتی تھی، زندگی ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے، خواہ کتنے برے حالات کیوں نہ ہوں، لیکن ایک بات کہوں گی۔ بدنامی صرف عورت کی ہی نہیں، مرد کی بھی ہوتی ہے۔ آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔ مرد بد نامی سے بچنے کے لیے کسی مظلوم کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے، جبکہ وہ طاقت ور بھی ہو۔ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں ایک لیڈی ڈاکٹر ہوتے ہوئے اپنے حقوق کا تحفظ نہ کر سکتی، جب تک میرے شوہر نے ساتھ نہ دیا۔ وہ بے چاری تو پھر مظلوم اور بے آسرا لڑکی تھی، جس کا کوئی والی وارث نہیں تھا۔ وہ اگر جان سے گزر گئی یا کسی نے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا تو اس کا پرسان حال کون ہو گا؟ آج بھی جب صابرہ کا معصوم چہرہ یاد آتا ہے تو آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور میں دعا کرتی ہوں کہ رتی ہوں کہ کوئی عورت تعلیم یافتہ ہو ، وارثوں والی ہو یا لاوارث بر ویالا داری ، بس اس کی قسمت اچھی ہونا چاہیے، کیونکہ نہ صورت کام آتی ہے اور نہ تعلیم ، صرف اچھی قسمت ہی کام آتی ہے۔