یہ سیلون اپنے قرب و جوار میں اس لیے اتنا مشہور تھا کہ یہاں آنے والے کسٹمرز کو انکار سننا نہیں پڑتا تھا۔ رابی اپنے ٹھنڈے اور میٹھے لہجے سے آنے والی خواتین اور لڑکیوں کو اپنا ہمنوا بنا ہی لیتی تھی۔ تارہ نے یہ بیوٹی پارلر تو شروع کر لیا تھا، لیکن یکے بعد دیگرے بچوں کی پیدائش کی وجہ سے وہ زیادہ وقت نہیں دے پاتی تھی۔ اگر دو دن سیلون کھلا ملتا تو چار دن بند رہتا۔ کبھی بچوں کے امتحانات، کبھی ان کی ناساز طبیعت بہانہ بن جاتے۔ اگر ان سب مصروفیات سے جان چھوٹ بھی جاتی، تو کوئی نہ کوئی مہمان آ جاتا تھا۔ تارہ اس صورتحال سے الجھن کا شکار ہو جاتی تھی کیونکہ وہ پیشہ ورانہ اصولوں کی قائل تھی۔ تارہ کے تین بہنیں اور دو بھائی تھے۔ اس نے اپنی بہنوں کی شادیوں اور بڑے بھائی کی تعلیم کے اخراجات اپنے کاروبار سے پورے کیے تھے۔ وہ خود بھی ایک ذمہ دار فرد تھی اور شادی کے بارے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن یہ تقریباً دس سال پہلے کی بات تھی، جب پرویز کا رشتہ آیا۔ یہ رشتہ ہر لحاظ سے اس کی اماں کو موزوں اور قابل قبول لگا۔ اماں بضد تھیں کہ لڑکا برسرِ روزگار ہے، خوشحال گھرانہ ہے، اور سب سے اہم بات یہ کہ اسے تیرے کام کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ یہ سب تو ٹھیک ہے اماں، مگر مجھے نائلہ اور زوہیب کی تعلیم کی طرف توجہ دینی ہے۔ یہ سارے فرائض میری پارلر کی کمائی سے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔ اور ویسے بھی، آغاز میں سب بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، لیکن شادی کے بعد وہ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ تارہ نے دھیمے لہجے میں اماں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تارہ ایسی ہی تھی دھیمے سروں میں بات کرنے والی، دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والی، اور ہر غم کی گھڑی میں لوگوں کو سہارا دینے والی۔ اس نے بیٹی ہو کر بھی بیٹوں سے بڑھ کر اپنا فرض نبھایا تھا اور اب اپنے سب سے چھوٹے بھائی کے فرائض سے بھی سبکدوش ہونا چاہتی تھی۔ تارہ نے اپنے چھوٹے بھائی کو تعلیم کے بعد بیرونِ ملک بھیجا تھا، لیکن اس نے پلٹ کر گھر کی کوئی خبر نہ لی۔ یہ بات اماں کو بہت گہری چوٹ دیتی تھی۔ تارہ کو بھی اس کا دکھ تھا، لیکن اس نے اس غم کو اپنے دل پر زیادہ دیر طاری نہیں رہنے دیا۔ زندگی میں غموں کی کمی نہیں تھی، اور تارہ نے ہر حال میں شکر کا کلمہ ادا کرنا سیکھ لیا تھا۔ دیکھ تارہ، تیرے بھائی سے اب مجھے کوئی توقع نہیں ہے۔ تیری عمر ڈھل رہی ہے۔ عائلہ اور رائلہ ایک ایک بچے کی ماں بن چکی ہیں اور نائلہ کا رشتہ بھی طے ہو چکا ہے۔ اگر تو ہاں کر دے تو نائلہ کے ساتھ تیرے ہاتھ بھی پیلے کر دوں۔ یوں میری جان کو قرار آ جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تیرے سسرال یہاں سے قریب ہیں۔ صرف دو گلیاں عبور کر کے جب چاہے مجھ سے ملنے آ جایا کرنا۔ اماں اسے لالچ دے رہی تھیں ۔ وہ بھی دام میں آ گئی یا اماں کی باتوں کو سن کر انکار کرنے کی جسارت نہ کر سکی۔ بہر حال اس کے نصیب میں پرویز کا ساتھ لکھا ہوا تھا اور اب پرویز سے شادی کے بعد اس نے مزید جدو جہد کرنے میں اپنی زیست کے ماہ و سال تمام کر دیے تھے۔
☆☆☆
پرویز درمیانی رنگت اور عام سے نقوش والا مرد تھا، جس کی قسمت میں غربت کی چکی میں پستی ہوئی تارہ لکھی گئی تھی۔ تارہ کی رنگت سنہری تھی اور نقوش اس قدر دلفریب تھے کہ نگاہ ٹھہر جاتی تھی۔ ان دونوں کا ساتھ مقدر میں لکھا جا چکا تھا۔ جیسے ہی نائلہ اپنی شادی کے بعد اپنے گھر گئی، ویسے ہی تارہ بھی بیاہ کر پرویز کے گھر آ گئی۔ پرویز کی دو بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا۔ بہنیں بیاہی ہوئی تھیں جبکہ بھائی ابھی زیرِ تعلیم تھا۔ سسر اور ساس دونوں حیات تھے، مگر سسر کسی کام کاج میں دلچسپی نہیں لیتے تھے اور سارا دن گھر بیٹھے سیاست میں مصروف رہتے تھے۔ ساس صاحبہ بھی اس عمر میں کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی تھیں۔ ہر بچے کی پیدائش کے وقت تارہ کے گھر سے اماں کھانا بنا بنا کر بھیجا کرتی تھیں، اور تارہ شکر گزار رہتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ پرویز ایک تنگدست انسان ہے، اس لیے وہ اپنی زچگی کے انتہائی قریب وقت تک پارلر کے کام میں لگی رہتی تھی۔ اسے علم تھا کہ چند ماہ تک وہ کام کے قابل نہ رہے گی اور یہی آمدنی اس کے اہلِ خانہ کی کفالت کا ذریعہ بنے گی۔ شروع میں پرویز نے تارہ کے کام پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد وہ کام پر معترض ہونے لگا۔ یہ پارلر کے چکر زیادہ ہی نہیں ہو رہے، ذرا کم کر دو، پرویز کہتا۔ مگر پرویز، آپ نے ہی تو کہا تھا کہ میرے کام کاج سے آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا، تارہ دبے دبے الفاظ میں اسے یاد دلاتی، لیکن اس کا یہ کہنا پرویز کو غصے سے بھر دیتا۔ حالات بدل چکے ہیں۔ کیا میں اپنی ماں کو یوں ہی کام کرتے دیکھتا رہوں؟ ان کی صحت اب ایسی نہیں رہی، اور میری بہنیں کب تک یہاں آ کر کام کرتی رہیں؟ وہ بھی اپنے گھروں کی ذمہ دار ہیں۔ پرویز کا لہجہ تلخ ہو چکا تھا۔ تارہ کا دل چاہا کہ صاف صاف پوچھے کہ اس کی بہنیں یہاں آ کر کون سا کام کرتی ہیں؟ فساد اور شکایت کے علاوہ کچھ نہیں۔ گھر کے تمام کام تو وہ خود کرتی تھی، اور پھر پارلر کے لیے بھی دوپہر کے وقت روانہ ہوتی تھی۔ اسے نہ صرف پرویز کی بہنوں کو ناشتہ کروانا ہوتا بلکہ گھر کی صفائی سے لے کر دوپہر کا کھانا تک اس کی ذمہ داری ہوتی۔ پرویز کی بہنیں اپنے ہی کھائے ہوئے برتنوں کا ڈھیر اکثر تارہ کے لیے چھوڑ جاتی تھیں۔ جب پرویز شام کو دفتر سے لوٹتا، تو اسے ایک نئی کہانی سننے کو ملتی۔ رقیہ بیگم اپنے شکوے شکایات کرتی تھیں، اور پرویز مؤدب انداز میں سر جھکائے سنتا رہتا۔ یہ تارہ تو بہت خودسر ہو گئی ہے۔ سارے کام تو میری بچیاں کر جاتی ہیں، اور وہ شام کو آ کر دو چار برتن دھو دیتی ہے۔ اسے یہ بھی خیال نہیں کہ میں کتنی تنہائی محسوس کرتی ہوں۔ اوپر سے اپنے بچے بھی میرے سر پر مسلط کر کے چلی جاتی ہے، رقیہ بیگم شکایتی لہجے میں کہتیں۔ اماں، آپ بچوں کو اس کے ساتھ ہی بھیج دیا کریں ناں، پرویز نے تھکے ہوئے انداز میں کہا۔ واہ بیٹے، یہ بھی خوب کہی۔ اپنے بچوں کو اس موئے سیلون میں بھیج دوں؟ وہاں بھانت بھانت کی عورتیں آتی ہیں، ادھر ادھر کی لگائی بجھائی کرتی ہیں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے بچے ان کے ساتھ رہ کر ویسے ہی بن جائیں؟ رقیہ بیگم نے ایک نیا اعتراض جڑ دیا۔ پرویز نے ماں کی بات پر سر جھکایا اور کہا، نہیں اماں، میرا مطلب یہ تھا کہ اگر بچے وہاں ہوں گے تو کم از کم وہ ان کا خیال رکھ لے گی۔ اس وقت تو بات آئی گئی ہو گئی، لیکن بعد میں پرویز نے اکیلے میں تارہ کی خوب سرزنش کی۔ تارہ پہلے ہی سے غموں کی آگ میں جل رہی تھی، اور اس وقت بھی اپنے شوہر کی تیز و تلخ باتوں کے نشتر سہنے پر مجبور تھی۔
☆☆☆
پھر ایک دن رابی آ گئی تھی۔ وہ محض یہاں سیکھنے کے ارادے سے آئی تھی، مگر اس کی لگن دیکھ کر تارہ ششدر رہ گئی تھی۔ صبح سویرے آکر رابی سیلون کی خود صفائی ستھرائی کرتی، ہر ایک شے کو ٹھکانے پر رکھتی، اور غیر محسوس طریقے سے تارہ کی ساری ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ تارہ کو قید سے سکون ملا تھا۔ اب وہ دوپہر کے بعد ہی سیلون کا چکر لگاتی تھی۔ رابی کی سب سے اچھی بات اس کی خوش اخلاقی اور خوش گفتاری تھی۔ تارہ کے سامنے وہ اس قدر مؤدب رہتی کہ تارہ اس کی اس ادا پر اتراتی۔ وہ تارہ، جسے گھر میں پرویز لفظوں کی مار مارتا اور ساس طعنوں کے ہار پہناتی تھی، یہاں آکر رابی کے میم کہنے سے روحانی سکون محسوس کرتی۔ تارہ نے رابی کو تقریباً سارے اختیارات سونپ دیے تھے۔ البتہ حساب کتاب شام کو آکر خود کیا کرتی تھی۔ بہر حال، آنکھیں تو تارہ نے بھی بند نہیں کی تھیں۔ اس نے اپنی ایک جاننے والی مخبر لڑکی چھوڑ رکھی تھی جو ہر دوسرے دن پارلر کا چکر لگاتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تارہ مطمئن ہو چکی تھی، اس لیے تمام کام رابی کے سپرد کرتی چلی گئی۔ لیکن اس نے آنکھیں اور کان کھلے رکھے تھے۔ رابی نے ہمیشہ ماتھے پر شکن لائے بغیر، دن بھر کے واجبات کی تفصیل بتائی اور تمام حسابات سامنے رکھے، جس سے تارہ مطمئن تھی۔ ساس نے ایک دن اعتراض اٹھایا کہ کیا سارے سیلون کا کام اس لڑکی کے نام کر دیا ہے۔ دراصل وہ اپنے بیٹے کے کان بھر کر ایک نئی شکایت میں مبتلا رہتی تھیں۔ بہو کے جاتے ہی میدان صاف ہوتا، اور ساس اور ان کی بیٹیاں جو چاہتیں، کھاتی پیتی تھیں۔ تارہ کے رہنے سے ان کے کئی منصوبے ناکام ہو رہے تھے۔ ساس اور اس کی بیٹیاں تارہ کی کمائی پر عیش کرتی تھیں۔ تارہ اپنی محنت کی کمائی کا ایک حصہ اپنی ماں کو بھیجتی اور باقی ساس کو دیتی تھی۔ لیکن اب وہ دیکھ رہی تھی کہ اس کی محنت کی کمائی کو بے دریغ لٹایا جا رہا تھا۔ ایک دن تارہ نے دیکھا کہ اس کی نند، جو دو دن سے گھر میں رہ رہی تھی، ہزار کے نوٹ دے کر پیزا منگوا رہی ہے۔ تارہ نے خاموشی اختیار کی، لیکن دل میں الجھن لیے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ کھانا تیار کرنے کے بعد وہ اپنی ساس کو مطلع کرنے گئی۔ ساس اور نند کچھ راز و نیاز میں مصروف تھیں۔ کھانا تیار ہے، آپ کہیں تو لگا دوں؟ ساس نے کہا کہ ابھی بھوک نہیں ہے اور شازی کو کہہ دے گی۔ تارہ نے بچوں کو کھانا دیا اور کچن کے کام نمٹا کر نکلنے والی تھی کہ اسے یاد آیا، ساس کو بتانا رہ گیا۔ جب وہ واپس کمرے میں گئی، تو ساس کی آواز سنائی دی کہ کھانا سارا پیک کر لینا، وہاں جا کر کچن میں خوار نہ ہونا۔ یہ سن کر تارہ کے قدم رک گئے۔ ساس اپنی بیٹی کے لیے کس قدر آسودگی کی خواہاں تھیں، مگر بہو کی محنت ان کو دکھائی نہ دیتی تھی۔ تارہ نے کھانے کا ایک حصہ اپنے کمرے میں چھپا دیا۔ ایسا قدم اس نے پہلی بار اٹھایا تھا، اور دل میں عجیب سی ہلچل تھی۔ شام کو گھر آ کر تارہ نے غیر معمولی خاموشی محسوس کی۔ پرویز غصے میں تھا کہ یہ کیا حرکت کی ہے آج تم نے۔ میری بہن بھوکی گئی، اور اماں صبح سے بھوکی ہیں۔ تارہ خاموش رہی اور سیدھا ساس کے کمرے میں گئی۔ اس نے ساس کی میز پر رکھی ٹرے سے کپڑا ہٹا دیا۔ اندازہ درست تھا۔ ٹرے میں چرغہ اور پیزا موجود تھا۔ چکن کے بڑے بڑے پیسز کے باقیات وہاں منہ چڑا رہے تھے۔ تارہ کے انداز اور اس ٹرے نے پرویز کو لاجواب کر دیا تھا۔ یہی نہیں، اس نے باسکٹ میں پڑا ہوا پیزا کا ڈبہ اٹھا کر عین پرویز کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
پرویز، میں نے آج تک لب نہیں کھولے، بند آنکھوں سے سب کچھ سہتی رہی۔ جو آپ نے دیکھا، وہی میں نے بھی سچ مان لیا۔ مگر آج میں چاہتی ہوں کہ آپ نہ میری آنکھوں سے دیکھیں، نہ کسی اور کی، لیکن ہاں، ایک منصف بن کر ضرور دیکھیں۔ یہ کیا ہے؟ کیا اماں بھوکی ہیں؟ کیا ان کی بیٹی واقعی بھوکی پیاسی ہے؟ ہرگز نہیں۔ پرویز کا چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا۔ اماں کے چہرے پر پہلے شرمندگی اور پھر غصہ واضح ہو رہا تھا۔ کل کی آئی ہوئی بہو کی یہ باتیں ان کو ان کی نظروں میں گرا رہی تھیں اور اشتعال بھی دلا رہی تھیں۔ امی، یہ تو بہت ہی ناانصافی والی بات ہے۔ آج آپ نے مجھے بھی شرمندہ کیا ہے۔ پرویز شرمندگی سے بولا۔ ہلکی سی مسکان تارہ کے لبوں پر ابھری اور وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ تارہ نے کھانا کچن تک منتقل کیا اور اسے گرم کرنے لگی۔ اتنے میں اس نے پیچھے پرویز کی آہٹ محسوس کی۔ پرویز نے کہا، یہ سب کیا ہے؟ تم نے کھانا کیوں چھپایا؟ تارہ نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا، میں نے کھانا اس لیے چھپایا کیونکہ ہم دونوں دن رات محنت کرتے ہیں، صرف اپنے بچوں کی خاطر۔ اور سارا کھانا شازی اٹھا کر لے جاتی ہے۔ اسی ماہ میں نے اماں کو پندرہ ہزار دیے ہیں، اور دو دن پہلے وہ مزید رقم کا تقاضا کر رہی تھیں۔ میں جانتی ہوں آپ خوددار انسان ہیں، مجھ سے کبھی رقم کا مطالبہ نہیں کرتے۔ مگر میں نے کبھی اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی نہیں کی۔ پرویز حیرت میں غوطہ زن تھا۔ اس نے آہستہ سے پوچھا، تارہ، تم نے یہ سب مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ تارہ نے مضبوط لہجے میں کہا، میں رشتوں میں مضبوطی اور خوبصورتی کی خواہش مند ہوں۔ پرویز کے دل میں تارہ کا مقام پہلے سے کئی گنا بڑھ چکا تھا۔ تارہ نے کھانے کی ٹرے سلیقے سے چنی اور سیدھا ساس کے کمرے کا رخ کیا۔ وہاں ساس کا مزاج برہم تھا۔ رقیہ بیگم نے ایک ترچھی نگاہ اپنی بہو پر ڈالی، مگر رخ موڑے بیٹھی رہیں۔تارہ نے نرم لہجے میں کہا، آپ ناراض ہیں، جانتی ہوں۔ مگر ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔ میں نے ہمیشہ آپ کا احترام کیا، برداشت کیا۔ آج بھی چپ رہ سکتی تھی، مگر اب خاموش رہنا ٹھیک نہیں۔ شازی نے کل مجھے راستے میں بتایا کہ اس کی عادتیں خراب کرنے والی اس کی ماں ہے۔ کیا آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے نام پر ہمارا گھر برباد ہو؟ تارہ کی بات نے رقیہ بیگم کو جھنجھوڑ دیا۔ وہ سخت رویے میں لچک لے آئیں، مگر بولیں، میرے بیٹے کے سامنے یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تارہ نے پرسکون لہجے میں کہا، امی، اگر میں نے یہ سب نہ کیا ہوتا تو شاید بات کبھی واضح نہ ہوتی یہ کوئی دکھاوا نہیں تھا، حقیقت تھی۔ تاکہ شازی کے سارے راستے مسدود ہو جائیں، وہ سارے چور راستے جو اس کا گھر برباد کر رہے ہیں۔ رقیہ بیگم نے اس بار کوئی جواب نہیں دیا، مگر ان کے تاثرات سے ظاہر تھا کہ تارہ کی بات ان کے دل پر اثر کر چکی تھی۔ چپ چاپ ٹرے کھسکائی اور کھانے میں مشغول ہو گئیں۔تارہ مسکرائی۔ اس نے محسوس کیا کہ خاموشی سے کتنے ہی محاذ ایک ساتھ فتح کر لیے ہیں۔