یہ کہانی رحیم یار خان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ہے، جہاں آج بھی زمیندار بے تاج بادشاہ ہیں۔ میں اکثر چھٹیاں گزارنے وہاں جایا کرتی تھی کیونکہ ہمارا آبائی گھر وہیں تھا۔ بچپن وہیں گزرا تھا۔ وہیں عبید کا گھرانہ بھی آباد تھا۔ یہ غریب لوگ تھے۔ عبید نے بڑی دقتوں سے میٹرک پاس کیا تھا اور ان دنوں روزگار کی تلاش میں تھا۔ جلد ہی اسے ایک زمیندار کی حویلی میں جانوروں کو سنبھالنے کا کام مل گیا اور وہ سرور خان کا نوکر بن گیا۔ تھوڑا سا پڑھ لکھ کر ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارے۔ عبید نے بھی ایسے ہی خواب دیکھے تھے، لیکن غربت انسان کو ہر کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی اور یہ بات اسے دکھ دیتی تھی، تبھی اس نے خان کا ملازم ہونا منظور کر لیا۔ سوچا، تھوڑے پیسے اکٹھے کرلوں تو پھر شہر جا کر ملازمت کرلوں گا۔ اسے زندگی سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ وہ اگر زندہ رہنا چاہتا تھا تو صرف اپنی ماں کے لیے، کیونکہ اس نے بچپن سے ہی اپنی ماں کو ظلم سہتے دیکھا تھا۔ اسے کیا خبر تھی کہ خان کی حویلی میں قدم رکھنا اس کے لیے قیامت بن جائے گا۔ خان کی بیٹی فریال بہت خوبصورت، لاڈلی اور ذرا خودسر سی تھی۔ پہلے دن جب اس نے عبید کو دیکھا، تو اسے یہ صاف ستھرا اور سلجھا ہوا نوجوان پسند آگیا اور وہ اس کے ساتھ عزت، شفقت اور ہمدردی سے پیش آنے لگی۔ اس کا رویہ مالکوں والا نہیں تھا۔
وہ عبید کے ساتھ عزت و احترام سے بات کرتی تھی، جس کی وجہ سے وہ بھی دل سے اس کی عزت کرتا تھا۔ فریال نے گاؤں سے میٹرک پاس کیا تو کالج میں داخلے کی ضد کرنے لگی۔ بیٹی کی ضد سے مجبور ہو کر خان نے اسے شہر کے کالج میں بھیج دیا۔ وہ وہاں ہاسٹل میں قیام پذیر ہو گئی۔ اب وہ صرف چھٹیاں گزارنے اپنی حویلی میں آتی تھی۔ اس بار جب وہ چھٹیوں پر آئی تو اس نے عبید سے بات چیت شروع کر دی کیونکہ وہ گاؤں میں آ کر سخت بوریت محسوس کرتی تھی۔ اپنی بوریت کو دور کرنے کے لیے بہانے بہانے سے عبید کو بلاتی اور باتیں شروع کر دیتی۔ چند دنوں کے میل ملاپ نے ان دونوں کے درمیان ایک گہرا رشتہ قائم کر دیا، جس کو لوگ محبت کا نام دیتے ہیں۔ ایک نوکر کی مالک کی بیٹی سے محبت قیامت کی بات تھی، لیکن جوان دل ان باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر وہ عہد و پیمان کر لیتے ہیں۔ انہوں نے بھی ساتھ جینے مرنے کے وعدے کر لیے، جس میں عبید کا قصور کم اور فریال کا زیادہ تھا، کیونکہ وہ کافی خودسر، ضدی اور شہر جانے کے بعد تو بالکل نڈر ہو گئی تھی، جبکہ عبید ڈرتا تھا کہ اگر بات کھل گئی تو جان جانا لازم ہے۔ فریال نے وقت گزارنے کے لیے جس سلسلے کو شروع کیا تھا، وہ اس کی جان کا روگ بن گیا اور بہت جلد یہ بات گاؤں کے لوگوں میں پھیل گئی کہ وڈیرے کی لڑکی ایک معمولی نوکر کے ساتھ عشق کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔ ابھی تک خان کو اس معاملے کا علم نہیں تھا، مگر کب تک؟ آخرکار کسی نے ان کے کانوں تک بات پہنچا دی۔ پھر وہی ہوا، جو ہوتا آیا ہے۔ پہلے تو خان کو اس بات کا یقین نہ آیا، لہٰذا اس نے کھوج لگانے کے لیے اپنے طور پر لوگ مقرر کیے اور جب بات کی صداقت معلوم ہوئی، تو سوچ میں پڑ گیا کہ ایسا کیا کرنا چاہیے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے؟اس کی دشمنی دوسرے گاؤں کے چوہدری سے تھی اور گاؤں میں دو زمینداروں کی آپس کی دشمنی ایک معمول کا قصہ ہے۔ یہ لوگ کبھی کبھی تو دشمن کو زک پہنچانے کی خاطر اپنے جگر کے ٹکڑوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ماجرا ہے۔ وہ دوڑ کر خان کے پاؤں پر گر گئی اور خدا کے واسطے دینے لگی کہ میری بیٹی کو چھوڑ دو ، اس کی خطا بخش دو، مگر وہ ایسی فریاد کب سننے والا تھا ۔ اس کے کارندے اس کے دشمن زمیندار کے بیٹے سہیل کو اٹھا لائے تھے۔ انہوں نے پہلے اسے گولیاں ماریں اور پھر فریال کو گولیاں مار کر اس کی لاش پر ڈال دیا۔ چند سال پہلے ہی سہیل کے باپ کی بندوق سے فریال کا جواں سال بھائی مرا تھا۔ آج یہ انتقام اس طرح پورا ہوا۔ پولیس آئی، کیس بن گیا کہ فریال کو نازیبا حالت میں سہیل کے ساتھ دیکھ کر باپ کی غیرت کے مارے دونوں پر فائر کر کے ان کو بلاک کر دیا۔ ادھر عبید کا قصہ کسی اور طریقے سے تمام کرنا تھا پہلے اس کیس سے نمٹنا تھا۔
چھ ماہ لگے ، پھر یہ کیس داخل دفتر ہوا تو عبید کی باری آئی، جو خوف سے روپوش ہو گیا تھا۔وہ کمانے کے بہانے شہر چلا گیا تھا۔ خان کے آدمی شکاری کتوں کی مانند اس کی تلاش میں تھے کیونکہ اصل مجرم تو وہی تھا۔ جب تک اس کے خون سے دھرتی رنگین نہ ہو خان کے کلیجے میں کیسے ٹھنڈک پڑتی۔ وہ گاؤں کے ایک شخص کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا تھا۔ اس کی ماں بھی ساتھ رہتی تھی، جبکہ خان کے کارندے اس کے پیچھے تھے۔ ماں بیٹے کے غم میں گھل رہی تھی۔ وہ دن رات اس کی سلامتی کی دعائیں کرتی تھی۔ ایک دن عبید بس اسٹاپ پر کھڑا تھا کہ خان کے آدمی نے اسے دیکھ لیا۔ اس نے بس پر اس کا پیچھا کیا اور ٹھکانہ معلوم کر کے مالک کو خبر کر دی کہ وہ کہاں رہتا ہے اور پھر خان نے اپنے وفاداروں کو حکم دیا کہ اس کا قصہ پندرہ دن میں تمام ہو جانا چاہیے، لیکن ابھی پندرہ دن بھی نہ گزرے تھے کہ ایک روز جب عبید گھر سے نکلا تو اسے راستے میں جیپ میں سوار ہونے کا حکم دیا گیا۔ وہ ہچکچانے لگا تو انہوں نے کہا۔ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے ، آرام سے بیٹھ جاؤ۔ بس دو چار باتیں کرنی ہیں۔ اگر نہیں بیٹھو گے، تو بھاگ بھی نہیں سکتے۔ بھری ہوئی بندوقیں ہمارے کندھوں پر ہیں، ابھی بھون ڈالیں گے۔ مرتا کیا نہ کرتا، وہ جیپ میں بیٹھ گیا۔ انہوں نے راستے میں اس کی جیب میں زیورات ڈال دیئے اورتھانے لاکر کیس درج کرا دیا کہ یہ خان کے گھر ملازم تھا۔ ان کی بیگم کے زیورات چرا کر شہر بھاگ گیا تھا۔ کافی دن چھپا رہا۔ آج سنار کے پاس زیور فروخت کرنے جارہا تھا کہ صرافہ بازار میں ہم نے اسے پکڑ لیا۔ زیور بھی اس کی جیب سے پولیس نے ہی برآمد کئے ، پھر خان کے کارندوں نے اس کو کہا کہ اب بھا گو ۔ وہ بھاگ رہا تھا کہ اچانک بندوقیں بارود اگلنے لگیں اور وہ زخمی ہو کر گر پڑا۔ اسی وقت اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ الزام یہ تھا کہ وہ تھانے سے فرار ہونے کی کوشش میں مارا گیا تھا۔ یوں چوری اور پھر فرار ہونے کے جرم میں وہ جان سے چلا گیا۔جب یہ خبر اس کی ماں کو ملی ، وہ دو سانس بھی نہ لے سکی اور مر گئی کیونکہ ایک غریب بیوہ ماں کی روح تو ایسے اپنے بیٹے کے پیار میں قید تھی، جیسے دیو کی جان طوطے میں ہوتی ہے۔
جب یہ کہانی ہم نے سنی ہمیں بہت دکھ ہوا۔ اصل واقعہ تو گاؤں والے جانتے تھے ، مگر کس کی مجال جو اس بارے میں بات کرتا ! سب مهر به لب ، مگر دل میں افسوس کرتے رہ گئے۔ ایک نے کہا کہ خانہ خراب ہو اس عشق و محبت کا، جس کے کارن بھری جوانیاں برباد ہو جاتی ہیں اور موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ خدا ان لڑکے لڑکیوں کو عقل دے جو نتائج سے بے پروا ہو کر اس راہ پر خطر پر قدم دھر دیتے ہیں۔ خان کو سب داد دے رہے تھے کہ تھے کہ کیسا عقلمند آدمی ہے، جس نے ایک تیر سے دو شکار کئے اور اپنی غیرت پر حرف نہیں آنے دیا۔