Saturday, December 14, 2024

Khamosh Khwahishain

ہم ایسے ہم سفر کی خواہش کرتے ہیں جو ہماری مرضی کے مطابق ہو، اس چناؤ میں ہم کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ دنیا عجیب و غریب لوگوں سے بھری پڑی ہے؛ کچھ کو پیسہ اور نام چاہیے، کچھ اختیارات کے متمنی ہیں، اور کچھ شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ کچھ کو سکون کی تلاش در بدر کیے رکھتی ہے، اور ایسے اللہ والے بھی موجود ہیں جنہیں یہ تک نہیں پتا کہ وہ دنیا میں کیا لینے آئے ہیں۔ اور میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں زندگی کی ساری بنیادی ضرورتیں مہیا ہیں: روپیہ پیسہ، مال و دولت، نام، عزت، شہرت، شاندار گھر۔ اس سب کے بعد، مجھے ایسا ہمسفر چاہیے جس کے پاس کرنے کو باتیں ہوں، جو مجھے زندگی کی ان بنیادی ضرورتوں سے نہیں بلکہ نت نئی باتوں سے جیتے۔ ایسا شخص جس کے پاس کوئی ٹیلنٹ ہو، جو میرے ساتھ وقت گزارے اور مجھے اہمیت دے۔ میں باتوں کی بھوکی ہوں، میں وقت کی بھوکی ہوں۔اگر یہ میری خواہش ہے تو کیا میں غلط ہوں؟ ہر انسان کی خواہشیں ہوتی ہیں۔ اگر میری خواہش روپے پیسے کے علاوہ کچھ اور ہے، تو کیا یہ خواہش فضول ہے؟
******

مہندی کی تقریب عروج پر تھی، فضا میں ابٹن اور مہندی کی خوشبو کے ساتھ ساتھ مرغ مسلم کی خوشبو نے عورتوں اور بچوں میں ہلچل مچائی ہوئی تھی۔ وہ پہلے دوپٹے کا گھونگھٹ نکالے، دونوں ہاتھوں پر پھیلے ہوئے پان کے پتے رکھے، ہتھیلی کو پھیلائے بیٹھی تھی۔ سہاگن عورتیں اس کے ہاتھوں پر مہندی لگا کر رسم ادا کر رہی تھیں۔ وہ دل میں ارمان لیے آنے والے وقت کو سوچ رہی تھی، بہت سے خواب بھی پلکوں پر جھلملا رہے تھے اور لا تعداد وسوسے دل کو بے چین کر رہے تھے۔ رات گئے مہندی کا فنکشن ختم ہوا تو اس کے ہاتھوں پر مہندی کے پھول بنائے گئے، بالوں کو تیل لگایا گیا، صبح بارات آنا تھی، اس نے تیار ہونا تھا، دلہن بننا تھا۔ وہ مہندی کی خوشبو کو محسوس کرتے کرتے آنکھیں موندے سونے کی کوشش کرنے لگی تھی، لیکن نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔فجر کی اذان کے ساتھ ہی وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی، مہندی لگے ہاتھ دھوئے، تیل لگے بالوں کو شیمپو کیا اور نماز ادا کی۔ اپنے لیے بہتر زندگی کی دعا مانگی۔ دن چڑھے بیوٹیشن نے آ کر کمال مہارت سے اس کے حسن کو نکھارا، ہر کوئی اس کی خوبصورتی کے گن گانے لگا تھا اور پھر بارات آئی۔ ساری رسمیں ادا ہوئیں اور وہ دلہن رخصت ہو کر ایک آنگن سے کسی اور آنگن میں چلی گئی۔
******

عدالت کے اس فیصلے کو جس جس نے بھی سنا تھا، اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ کمال ہے بھئی! کیا زمانہ آ گیا ہے!عجب کہانی ہے، اب ایسی صورت حال پر بھی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں گے۔ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔ جہاں باتیں ہو رہی تھیں، وہاں بڑی بوڑھی عورتوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر اس کیس کو قیامت کی نشانی قرار دے دیا تھا۔تین مہینے کی تاریخ کے بعد آج ایک بار پھر اسی کیس کی فائل عدالت کے سامنے موجود تھی اور عدالت میں موجود ہر ایک نفوس حیرت میں مبتلا تھا۔مجرم ایک مرد تھا، وہ مرد جس نے ایک ذمہ داری اٹھائی تھی اور کیس دائر کرنے والی عورت وہی عورت تھی جو ایک آنگن کو چھوڑ کر دوسرے آنگن میں زندگی گزارنے آئی تھی۔عجیب صورت حال تھی۔ وہ مرد مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی ایک سنگین جرم کے الزام میں سر جھکائے کٹہرے میں کھڑا تھا اور وہ عورت چہرے پر عجیب تاثرات لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
کیس، کی شنوائی شروع کرنے کا کہا گیا تو دونوں کے وکیلوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ دونوں عجیب شش و پنج کا شکار تھے۔ ہزاروں کیس اس عدالت میں آئے تھے۔ عورت کی مظلومیت کے، مرد کے تشدد کے، ساس اور نندوں کے مظالم کے، کہیں بہو کو آگ لگا کر مار دیا گیا تھا، لیکن اس ایک منفرد نوعیت کے کیس نے ہلچل مچا دی تھی۔فتح کس کے حصے میں آئے گی، مجرم کون قرار پائے گا؟ اس تجسس نے عدالت کو لوگوں سے بھر دیا تھا۔ محترمہ، آپ یہ بتائیں کہ آپ کے سامنے کٹہرے میں کھڑے اس شخص سے کیا رشتہ ہے؟ ساجد کے وکیل نے بالاخر جرح شروع کی۔یہ میرا خاوند ہے۔ ثمینہ پر اعتماد انداز میں بولی۔کتنا عرصہ ہوا ہے شادی کو؟ وکیل نے پوچھا۔ اٹھارہ ماہ۔ ثمینہ نے جواب دیا۔اٹھارہ ماہ۔  یقینا آپ کے موکل جو کہ آپ کے شوہر ہیں، نے بہت ظلم ڈھائے ہوں گے آپ پر؟ وکیل نے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔نہیں، وہ ابھی تک اسی اعتماد سے کھڑی تھی۔مار پیٹ کی ہوگی؟نہیں۔آپ سے کوئی قسم کا کاروبار کروانا چاہتا ہو گا؟نہیں۔آپ پر پابندی لگا رکھی ہوگی؟نہیں۔آپ کو آپ کے والدین سے ملنے سے روکتا ہوگا؟نہیں۔آپ کو اللہ کے احکامات کو پورا کرنے سے روکتا ہوگا؟نہیں۔ثمینہ کے ہر ہر نہیں کے بعد عدالت میں ہلچل مچ گئی، لیکن وہ اسی اطمینان اور اعتماد سے نہیں میں جواب دیتی رہی تھی۔عدالت میں کچھ وقت کے لیے خاموشی چھا گئی، پھر ساجد کے وکیل نے سوال کیا، تو پھر اس کیس کی اصل وجہ کیا ہے؟اب ساجد کا وکیل، بغیر کسی مزید سوال کے، ثمینہ کے وکیل کی طرف دیکھ کر بولا، تو عدالت میں ہونے والی کھسر پھسر پر بنچ نے وکیل سے پوچھا:ساجد صاحب، کیا آپ بتائیں گے کہ ایسے کیا حالات ہیں کہ بغیر کسی قسم کے تشدد کے آپ مجرم قرار دیے جا رہے ہیں؟اب پھر ثمینہ کا وکیل کھڑا ہوا، لیکن وہ خاموش ہی رہا۔ محترمہ، آپ بتائیں، آپ کیا چاہتی ہیں؟ وکیل نے اب ثمینہ کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔میں اس انسان کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزار سکتی۔ وہ اسی اعتماد کے ساتھ بولی۔لیکن کیوں؟ ایسے میں ہال میں چپ کا سماں تھا۔ میں ایک ایسے انسان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی جس کا ساتھ کسی بے جان مشین کے ساتھ میں کوئی فرق نہ ہو۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر بولی۔کیا مطلب؟ عدالت میں موجود ہر شخص کا سوال وکیل نے الفاظ دیے تھے۔میں ایسی زندگی نہیں گزار سکتی جہاں میرا ساتھی ہر قسم کے جذبات سے عاری ہو۔ ثمینہ قدرے شیریں انداز میں بولی۔کیا مطلب؟ وکیل اب بھی نہیں سمجھا تھا۔دیکھیں، وکیل صاحب، ہر انسان کی مرضی اور پسند ہوتی ہے، یہ نظام قدرت کا حصہ ہے کہ ہر انسان کو دوسروں کی باتوں سے اختلاف ہوتا ہے، غصہ آتا ہے، خوشی آتی ہے، ایسے ہی ہوتا ہے، نا؟ ثمینہ نے وکیل سے تائید چاہی۔ہاں، بالکل! وکیل کے ساتھ ساتھ عدالت میں موجود ہر شخص نے اثبات میں سر ہلایا۔لیکن یہ انسان ہر جذبے سے عاری ہے۔ میں ایک کٹھ پتلی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی۔ اس لیے مہربانی فرما کر میرے حق میں فیصلہ دلا دیں اور مجھے اس اذیت سے نجات دلائیں۔ ثمینہ نے انتہائی تلخ لہجے میں خلع کی وجہ بتائی تو عدالت میں موجود لوگوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ حج سمیت ہر انسان اس کیس پر حیران ہوا۔
******

کیازبردستی شادی ہوئی تھی آپ کی؟ وکیل نے پھر سوال کیا۔شادی میں زبردستی کی گئی تھی یا نہیں، میں نہیں جانتی۔ میں نے اپنے والدین کے فیصلے کو مقدم جان کر اس شخص کے ساتھ شادی کی تھی۔ ثمینہ نے کہا۔ ساجد صاحب، کیا آپ نے یہ شادی اپنی مرضی سے کی تھی؟ وکیل نے ساجد سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔آپ کو اپنی بیوی سے کوئی شکایت ہے؟ یا آپ کسی اور کو پسند کرتے ہیں؟ پھر سوال کیا گیا۔نہیں۔ آپ کی بیوی میں بہت سی برائیاں ہیں؟ کوئی انسان برائیوں سے پاک نہیں۔ ایک بار پھر نہیں، نہیں کی تکرار جاری ہوئی۔جج صاحب، آپ وقت ضائع کر رہے ہیں، مہربانی فرما کر اب فیصلہ سنا دیں۔ چہ میگوئیاں جاری تھیں، دونوں فریق بظاہر برائیوں سے مبرّا تھے، دونوں وکیل بھی شش و پنج میں مبتلا تھے اور جج صاحب کو بھی فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔میں ایک ایسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں، جج صاحب، جس میں مردانگی ہو، جو اپنا آپ منوائے، جو میری ناجائز باتوں سے اختلاف کرے، غصہ کرے۔ ثمینہ نے سب کو خاموش دیکھ کر ایک بار پھر کچھ نرم اور کچھ تلخ لہجے میں بولی۔بی بی، تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا شوہر غصہ نہیں کرتا، تمہیں نہیں لگتا تمہاری یہ منطق بہت عجیب ہے؟ جن عورتوں پر مرد ظلم کرتا ہے، ان کا حال بھی تو دیکھو۔ اس کے بولنے پر ساجد کے وکیل نے ثمینہ کی طرف دیکھا۔کمزور مرد عورت پر ظلم کر کے اپنی مردانگی دیکھاتا ہے، اس پر غصہ کر کے مار پیٹ سے عورت پر جتاتا ہے کہ وہ حاکم اور مرد ہے۔ جو مرد قلم کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ وہ کمزور ہے، وہ عورت پر اپنی کمزوری پوشیدہ رکھنے کے لیے ظلم کا سہارا لیتا ہے۔ ثمینہ غصے سے بولی۔تو آپ کیوں چاہتی ہیں کہ ساجد صاحب آپ پر ظلم کریں؟ کیوں چاہتی ہیں کہ یہ کمزور ہوں؟ ساجد کے وکیل نے اس کو لاجواب کرنا چاہا۔عورت کو کمزور مرد نہیں چاہیے، عورت بز دل مرد کا خواب بھی نہیں دیکھتی، عورت کو وہ مرد چاہیے جو اس کو عزت دے، اس پر حکومت کرے، اس سے محبت کرے، وہ گھر کا سربراہ ہو، بادشاہ ہو نہ کہ بھیگی بلی ۔ ثمینہ مضبوط لہجے میں بولی۔ میں گزارہ کر لیتی، جج صاحب، کہ یہ قدم آسان نہیں، غصہ نہ آنا یقیناً ان میں قوت برداشت بے انتہا ہے، لیکن ہمارے درمیان کوئی بات بھی تو نہیں ہوتی؟ جج صاحب ہم ساتھ ہوتے ہیں تو ایک خاموشی کا راج رہتا ہے، آوازیں ہوتی ہیں تو فقط ہواؤں کی، باہر سے گزرتی گاڑیوں کی، ٹیلی ویژن کی لیکن ان کے پاس کوئی بات نہیں ہوتی کرنے کو، کوئی ایکٹیویٹی نہیں۔ جج صاحب، محض اٹھارہ ماہ اور برسوں کی تھکان، کیا یہ رشتہ ایسا ہوتا ہے؟ ثمینہ کی بلند آواز نے کمرہ عدالت میں سکتہ طاری کر دیا تھا۔ یقینا نہیں۔ جج صاحب نے جواب دیا۔ساجد صاحب آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ جج نے براہ راست اس سے پوچھا۔کیا کہوں میں؟ ہمارے مزاج ہی نہیں ملتے۔ ساجد نے اعتراف کیا۔بہت سی عورتیں تعویذ گنڈوں جیسے ہتھکنڈے اپنا کر اپنے شوہر کو اپنے بس میں کرتی ہیں اور آپ کو تو ایسی کوئی محنت نہیں کرنی پڑی۔ ساجد کے وکیل نے اپنی ایک اور کوشش کی۔تو کیا میں ساری زندگی تعویذ گنڈوں کے سہارے گزار دوں؟ محبت اور عزت تعویزوں سے کمائی جاتی تو ہر عورت تعویذ لکھنا سیکھ لیتی، بہت سی عورتیں ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ شوہر ان کا غلام ہو، لیکن میں ایسی عورت نہیں ہوں، مجھے تعویذوں کے ذریعے کمائی گئی محبت نہیں چاہیے، مجھے غلام نہیں ایک بادشاہ چاہیے۔ ثمینہ نے غالباً سوچ لیا تھا کہ وہ اب اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور عورت جو سوچ لے وہ کر کے رہتی ہے۔ ساجد صاحب، آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ وکیل نے سرد آہ بھر کر ساجد سے پوچھا۔میں کیا کہوں؟ مجھے غصہ نہیں آتا، میں ایسا ہی ہوں، اگر یہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو جج صاحب جو بھی فیصلہ کریں مجھے منظور ہے۔ بالآخر ساجد نے زبان کھولی اور عدالت میں موجود ہر شخص پر سکتہ طاری ہو گیا۔آپ بھی سوچ لیں، یہ کوئی آسان بات نہیں ہے، اتنی معمولی سی بات پر اتنا بڑا فیصلہ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ ججصاحب نے سوچنے کا موقع دیا۔جج صاحب، یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔ ثمینہ تڑپ کر بولی۔میری یہ خواہش نہیں ہے، جج صاحب کہ یہ انسان سو فیصد میری مرضی کے مطابق ہو جائے، میں یہ قطعا نہیں چاہتی کیونکہ میں بھی تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوں، لیکن جج صاحب کچھ تو مطابقت ہونی چاہیے، آپ بتائیں جج صاحب میں اپنی باتیں کس سے کروں؟ میں اپنے مسئلے کسی سے کہوں؟ اگر میرے ساتھی کے پاس کوئی جواب نہیں، میری باتوں کی کوئی اہمیت نہیں تو مجھے ان کا کیا فائدہ؟ ثمینہ نے چیخ کر کہا۔دیکھیں بی بی، مرد ایسے ہی ہوتے ہیں، عورت کی ہر بات کو نہیں سنا جاتا۔ ساجد کے وکیل نے کہا۔نہیں ہونا چاہیے مرد کو ایسا، عورت کو صرف دو وقت کی روٹی اور چار دیواری اور روٹی کے نہیں چاہیے ہوتی، وکیل صاحب۔ ثمینہ بولی۔
******

مجھے صرف چار دیواری اور روٹی کے دو نوالے نہیں چاہیے، ایک زندہ انسان بھی چاہیے۔ میں ایسے بے جان اور بے حس انسان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی، جج صاحب، میں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔جج صاحب، ثمینہ کا گھر بسانا چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ اس کا گھر نیا جڑنے پر بنے، لیکن وہ طے کر چکی تھی۔ جج صاحب، کوئی عورت نہیں چاہتی کہ اس پر طلاق کا دھبہ لگے، کیا یہ میرا حق نہیں کہ میں اپنے لیے کوئی فیصلہ کر سکوں؟ ثمینہ مسلسل اپنا دفاع کر رہی تھی۔کیا اس معاملے کو سلجھانے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے؟ اس کیس میں جج صاحب بھی مکمل طور پر انوالو ہو چکے تھے۔دو ہی راستے ہیں، جج صاحب۔ ثمینہ بولی، تو سب نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔کون سے دو راستے؟ ساجد کے وکیل نے پوچھا۔ایک تو یہی جو میں نے اپنایا ہے، اور دوسرا یہ کہ میں خاموشی کی یہ زندگی گزارنے لگوں، اپنے راستے نکال لوں اور مصروف ہو جاؤں۔ بچوں کے ہونے کے بعد جب ذمہ داریوں کے انبار لگ جائیں گے، تو یہ احساس بھی نہ رہے گا کہ میری اپنی بھی کوئی ذات یا خواہشیں تھیں۔ ثمینہ نے سب کو دیکھ کر کہا۔کیا آپ کا یہ قدم دوسرے کے لیے ایک غلط مثال نہیں قائم کر رہا؟ وکیل نے ایک اور کوشش کی۔یہ فیصلہ ایک عبرت کا نشان بھی تو بن سکتا ہے، نا؟ عورت کا کام صرف کھانا پکانا اور بچے پیدا کرنا نہیں ہوتا، وکیل صاحب۔ اس کی اپنی بھی ایک ذات ہوتی ہے، ایک شخصیت ہوتی ہے، اور کسی مرد کے پاس یہ حق نہیں کہ وہ اس کی ذات کو مسل کر اس کی شخصیت کو مسخ کر دے۔ میں ننانوے فیصد عورتوں میں سے نہیں ہوں جو مرد کے بستر کی زینت بن کر اس کے بچے پالنے میں اپنی زندگی گزار دے۔ ثمینہ نے تلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔کیا آپ ساجد صاحب کو موقع نہیں دیں گی؟ ساجد کے وکیل کے پاس اس کو ڈیفینڈ کرنے کے لیے کوئی پوائنٹ نہیں تھے۔ ساجد سر جھکائے کھڑا تھا۔ خاموش و بے تعلق۔دونوں کے وکیل اب واپس اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھ چکے تھے اور جج نے ثمینہ کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا۔تو ساجد نے خلع کے کاغذات پر دستخط کیے اور عدالت سے باہر نکل گیا۔ ثمینہ کی آنکھوں میں افسوس نہیں، تشکر نمایاں تھا۔وہ بھی اب عدالت سے باہر قدم بڑھا رہی تھی۔ عدالت میں موجود ہر شخص پر گویا ایک سکتہ طاری تھا۔ ایک خاموشی ہر طرف پھیل چکی تھی اور اسی سکوت کے زیر اثر ہر شخص عدالت سے باہر نکل رہا تھا۔
******
میں وہ ہوں جس کو صرف دو نوالے روٹی اور سر چھپانے کو چھت نہیں چاہیے تھی، میں وہ ہوں جس کی خواہشیں زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے ہٹ کر تھیں۔ اگر میں نے اپنے لیے آواز اٹھائی تو کیا غلط کیا؟اگر مجھے ایک روایتی زندگی نہیں گزارنی تھی تو کیا اس میں میرا قصور تھا؟آج جب میں اپنے گھر میں تنہا بیٹھی ہوں تو یہ باتیں سوچ رہی ہوں۔ ہاں، میں غلط تھی، میں نے جذبات میں آ کر غلط فیصلہ لیا تھا۔ میں انتظار کر لیتی، سمجھوتا کر لیتی تو آج میری زندگی مختلف ہوتی۔ انسان کے جذبات میں کیسے فیصلے غلط ہوتے ہیں۔ کیا تھا جو ساجد مجھے وقت نہیں دے رہا تھا؟ میں انتظار کر لیتی، بچے ہو جاتے، ان کے ساتھ وقت گزار لیتی، اپنی محبت کی سمت بدل لیتی تو آج میں تنہا نہ ہوتی۔ ثمینہ نے افسردگی سے تکیہ پر سر رکھ دیا۔

Latest Posts

Related POSTS