ہمارا گھر اپنے آبائی گاؤں سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ جب میں پیدا ہوئی، اس وقت ہم گاؤں میں رہتے تھے ، لیکن پھر میرے والدین کو گاؤں چھوڑنا پڑ گیا کیونکہ وہاں زمین کو پانی لگانے پر میرے ماموں اور چچاؤں کا پڑوسیوں سے جھگڑا ہو گیا تو ہمارا سارا کنبہ ہی اس علاقے سے نقل مکانی کر گیا، مگر ایک ماموں اور خالہ اپنے شوہر کے ساتھ وہاں رہ گئیں کیونکہ ان کا سسرال ہمارے ساتھ نہیں آیا تھا۔ میری ان حالہ کا نام مخدوم کلثوم تھا، مگر بچے ان کو مخدوم کی بجائے مظلوم خالہ بلاتے تھے۔ ان کی شادی پھو پھی زاد نصیر الدین سے ہوئی تھی اور وہ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔ خالہ کے گھر والے مطمئن تھے کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ سسرال میں خوش آبادرہتی ہیں، کیونکہ انہوں نے کبھی اپنے سسرال والوں کی برائی نہیں کی تھی۔ ایک روز جب کہ ممانی مغرب کی نماز پڑھ کر دعا مانگ رہی تھیں تو مسجد سے اعلان ہونے لگا کہ کلثوم زوجہ نصیر الدین نے کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی ہے۔ یہ اعلان سن کر ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ سب فورا گاؤں روانہ ہو گئے، جہاں خالہ رہا کرتی تھیں۔ جب ہم کنویں کے قریب پہنچے، تو وہ منظر دیکھا جو خدا، کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ گاؤں کے بھی مرد عورتیں اور بچے وہاں جمع تھے اور رو رہے تھے۔
چند مرد فوراً کنویں میں اترے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ مر چکی ہے، جس پر میرے ابو نے لاش کنویں میں ہی رہنے کا حکم دیا اور بھائی جان فوراہی پولیس اسٹیشن اطلاع دینے چلے گئے۔ دو گھنٹے بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچی اور خالہ کی لاش باہر نکلوائی گئی۔ کچھ نے خود کشی اور کچھ نے قتل کا خیال ظاہر کیا۔ اکثر کا خیال تھا کہ کلثوم نے خود کنویں میں چھلانگ نہیں لگائی اسے پھینکا گیا ہے۔ میرے ایک ماموں، خالہ کے گھر کے سامنے رہتے تھے، اس وقت دونوں میاں بیوی گھر میں موجود تھے۔ ممانی نے جب دیکھا تھا کہ خالو، خالہ کو گھسیٹ کر کنویں کی طرف لے جارہے ہیں تو انہوں نے اپنے شوہر کو بتایا۔ وہ دونوں تبھی باہر آئے، مگر ان کے پہنچنے سے پہلے وہ لوگ خالہ کو کنویں میں پھینک چکے تھے۔
رات کو ایک بجے پولیس کی کاروائی کے بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے سول اسپتال لے گئے ، جہاں سے دن کے بارہ بجے لاش گھر پہنچی اور شام چار بجے خاله مخدوم کلثوم کو دفن کر دیا گیا۔ ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق خالہ جان پر تشدد کیا گیا تھا، جسم پر ضربات تھیں۔ کسی سخت ہتھیار کی چوٹ سے جگر پھٹ جانے کی وجہ سے موت واقع ہوئی تھی۔ جس وقت خالہ جان کو قتل کر کے کنویں میں پھینکا گیا، یہ وہ وقت تھا، جب ہر کوئی گھر میں کھانا پکانے میں مصروف ہوتا ہے،مگر خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے اُن کے ظلم کا پردہ فاش کر دیا۔
مظلوم کا مطلب یوں تو ہر کوئی جانتا ہے، لیکن اس کی حقیقت وہی لوگ جان سکتے ہیں، جو اس ظلم سے دو چار ہوئے ہوں، جس طرح خالہ جان ہوئیں۔ پتا نہیں ، ان کے نام کی نسبت سے اُن پر یہ سب گزرا یا پھر لڑکپن سے ہی انہوں نے ظلم کو اپنا مقدر بنا لیا تھا۔ میری بد نصیب خالہ نے یوں تو ایک ہنستے بستے اور خوشحال گھر میں آنکھ کھولی تھی۔ امی کے علاوہ ان کے پانچ بھائی بھی تھے، لیکن چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب خالہ کلثوم سے بہت لاڈ پیار کرتے تھے اور ان کی ہر فرمائش پوری کی جاتی تھی۔ وہ جب سولہ برس کی تھیں، تو نانا وفات پا گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد نانی بھی کینسر سے چل بسیں۔ دونوں بڑوں کے چلے جانے سے گھر کا شیرازہ بکھر گیا اور خوشیاں اداسیوں میں بدل گئیں۔ ابھی اس صدمے کو چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے تایا نے ذمہ داری اپنے سر لے کر امی اور ان کے بہن بھائیوں کو اپنے پاس رکھ لیا اور اچھی طرح دیکھ بھال کرتے رہے، پھر خالہ جان کی شادی نصیر الدین سے کر دی۔ نصیر کی یہ دوسری شادی تھی۔ پہلی بیوی سے دو بچے بھی تھے، لیکن بقول اس کے ، پہلی بیگم کا کردار ٹھیک نہ تھا، تبھی اس کو طلاق دی تھی۔ اس طلاق کو بھی پچیس سال گزر چکے تھے۔ بچے بھی نصیر الدین نے اپنے پاس نہ رکھے ، وہ ننھیال میں تھے ۔ ہمارا یہ خالو ساٹھ برس کا، مگر خوبرو شخص تھا۔ صحت قابل رشک تھی اور نوجوانوں سے بہتر تھا۔ شروع دنوں میں خالو نے ہماری خالہ کا بہت خیال رکھا۔ نندوں کا رویہ بھی محبت بھرا تھا، مگر یہ صورت حال سال بھر رہی۔ اس مختصر عرصے میں ہماری خالہ بہت خوش رہیں۔ وہ جب آتیں، ساس اور نندوں کی اچھائی بتاتیں اور سسرال کی تعریفوں کے پل باندھتیں، لیکن یہ پل پل بھر میں ٹوٹ گیا۔ نصیر الدین عرصہ دراز تک مسقط میں ملازمت کرتے رہے تھے۔ شادی کے بعد سال بھر خالہ کے ساتھ رہے، پھر مسقط چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی خالہ کی خوشیاں غم میں بدل گئیں۔ خالو کی چھوٹی بہن ذکیہ، خالہ کے تایا زاد کی بیوی تھی۔ وہ بے اولاد تھی اور اس کا شوہر شوکت ذہنی طور پر آپ سیٹ رہا کرتا تھا۔ بعد میں اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور وہ اکثر گھر سے باہر رہنے لگا، لیکن جب گھر آتا اور اتفاق سے بیوی کو گھر میں نہ پاتا تو خوب مارتا تھا۔ شوہر کی مار کھا کھا کر ذکیہ آپے سے باہر ہو جاتی اور اس کا الزام خالہ کلثوم پر لگاتی کہ یہ میرے شوہر کو سکھاتی ہے، تبھی وہ مارتا ہے۔ خاله بچاری شوکت کو کیا سکھاتی، جب کہ وہ اس باؤلے سے بات بھی نہ کرتی تھی، لیکن یہ شک ذکیہ کے دماغ میں بیٹھ گیا تھا اور شک ایسی بیماری ہے، جس کا کوئی علاج نہیں۔ کچھ عرصہ بعد باؤلا شوکت ایک دن ایسا گیا کہ پھر نہ لوٹا۔ خدا جانے کدھر غائب ہو گیا تھا۔ اس کے غائب ہونے کے بعد ذکیہ اپنے بھائی نصیر الدین کے گھر آ گئی اور اپنی محرومیوں کا انتقام کلثوم سے لینے لگی۔ وہ خود با نمجھ تھی ، پھر بھی خالہ کو بے اولاد ہونے کے طعنے دیتی تھی جبکہ اس کا شوہر زیادہ وقت مسقط میں ہوتا تھا اور دو سال بعد چند روز کے لئے گھر آیا تھا۔خالہ اپنا گھر آباد رکھنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی نند کو اجڑی ہوئی دکھی عورت سمجھ کر اس کا ہر طعنہ، ہر بات برداشت کر لیتی تھی۔ یوں بھی وہ انہی کی طرح ماں باپ کی محبت سے محروم لڑکی تھی۔ ذکیہ کی دیکھا دیکھی، اس کی دوسری بہنیں بھی بھابھی سے ویسا ہی سلوک کرنے لگیں اور اپنی بہن کے اجڑنے کا ذمہ دار کلثوم کو ٹھہرانے لگیں۔ خالہ سارا دن گھر کا کام کرتیں۔ جب کھانا پک جاتا تو ذکیہ کھانا تقسیم کرنے بیٹھ جاتی۔ وہ خالہ کو اتنا کم کھانا دیتی کہ اُن کا پیٹ نہ بھرتا۔ آدھی روٹی، کبھی روٹی کے بچے ہوئے چند ٹکڑے دے کر کہتی کہ بس اتنا ہی کھایا کرو، ورنہ موٹی ہو جاؤ گی۔ وہ بیچاری سوکھے ٹکڑے ہی پانی سے نگل لیتیں اور خدا کا شکر بجالا تیں کبھی تو ہماری خالہ کو فاقے بھی کرنے پڑتے تھے ، تب بھی وہ کسی کو کچھ نہیں بتاتی تھیں۔ خدا کا شکر ادا کر کے خاموش ہو رہتی تھیں۔
ان کا میکہ گاؤں سے کچھ دور تھا، جب کہ شوہر مسقط میں تھے۔ کس سے کیا کہتیں ؟ جبکہ نصیر الدین کو بہنیں خط لکھ لکھ کر بیوی کے بارے میں بدظن کرتیں، یہاں تک لکھا کہ تمہاری بیوی کا چال چلن ٹھیک نہیں رہا ہے۔ یہ گھر میں رکھنے کے لائق نہیں ہے، اسے طلاق دے دو۔ پہلے تو خالو ایسی باتوں کا جواب نہ دیتے تھے، پھر ایک روز لکھا کہ جب تک کوئی ثبوت نہ ہو، میں بیوی کو کیسے طلاق دے سکتا ہوں۔ نندوں کی بد سلوکی نے خالہ کو دن بہ دن گھلانا شروع کر دیا۔ ان کو بخار رہنے لگا اور وہ کم خورا کی کے سبب کمزور ہوتی چلی گئیں۔ گھر بھر کی لاڈلی ، ماں باپ کی آنکھوں کا تارا، اب بجھنے کو بھتا۔ میکے والے ان کی یہ حالت دیکھ کر حیران تھے۔ بار بار پوچھتے، مگر اصرار پر بھی یہ اپنا احوال ان پر ظاہر نہ کرتیں کہ بہن بھائی پریشان ہوں گے۔ یوں ان کے صبر نے ان کا خاتمہ ہی کر دیا اور ظالموں کے ہاتھوں ان کا وقت موت کے قریب تر آ گیا۔ پھپھو کے گھر والوں نے فون پر نصیر الدین کے کان بھرے کہ انہوں نے بیوی سے فون پر بات بند کر دی اور منہ لگانا چھوڑ دیا۔
میری ممانی، جن کا گھر وہاں قریب میں تھا، ان کو خالہ کلثوم کے حالات کا کچھ نہ کچھ اندازہ تھا، تاہم جھگڑے کے ڈر سے انہوں نے چپ سادھ رکھی تھی۔ انہوں نے کسی کو کچھ نہ بتایا اور خالہ نے بھی ظلم سہہ کر بھی سسرال والوں کے عیبوں سے پردہ نہ اٹھایا کہ بن ماں باپ کے تھیں۔ ایک روز خالو کے دوست کی بیوی اُن کے گھر حالات معلوم کرنے آئی۔ اس کا شوہر بھی نصیر الدین کے ساتھ مسقط میں کام کرتا تھا۔ اس نے جب خالہ کی ایسی حالت دیکھی شوہر کو لکھ دیا کہ نصیر الدین بھائی کی بیوی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ وہ تو بے چاری لاغر اور قریب المرگ لگتی ہے۔ تم اپنے دوست کو کہو پاکستان آکر بیوی کی خیر خبر لے۔ نجانے کیا معاملہ ہے کہ بچاری حیرت و حسرت کی تصویر بن چکی ہے۔ دوست نے خالو کو کہا کہ تم فوراً گھر جاؤ اور جا کر بیوی کے احوال پتا کرو، اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔ وہ مسقط سے آگئے مگر گھر والوں نے ایسے ان کو گھیرا کہ وہ ان کی باتوں میں آ گئے اور بیوی کو ہی غلط سمجھا، تاہم انہوں نے بیوی سے کوئی باز پرس کی اور نہ سختی، وہ بغیر ثبوت ان کو سزا نہیں دینا چاہتے تھے۔ نندیں مگر باز نہ آئیں۔ کہتیں، کلثوم تم سبز قدم ہو۔ ایک تو بانجھ ہو اوپر سے شوہر کو برسر روزگار نہیں دیکھ سکیں۔ خدا جانے بھائی نصیر کے دوست کی بیوی کےذریعہ کیا پیغام بھیجا کہ ہمارے بھائی کو تمہاری وجہ سے اچھی بھلی نوکری چھوڑ کر آنا پڑ گیا۔ اب روپیہ نہ ہو گا تو اتنے بڑے کنبہ کا گزارا کیسے ہو گا ؟ اگر تمہارے اعمال اچھے ہوتے ، تو وہ ایسانہ کرتے۔ خالہ کلثوم کے ساس سر نہ تھے ، وہ نندوں میں گھری ہوئی تھیں۔ نصیر الدین پریشان تھے کہ گھر والے اس کی بیوی کو بد چلن لکھتے تھے ، جبکہ یہاں تو ایسی کوئی بات نظر نہ آئی تو سزا کس بات کی دوں ؟ اگر وہ بد چلن ہے، تو آخر کس کے ساتھ ؟ جبکہ وہ تو گھر سے قدم نہ نہیں نکالتی ہے۔ اس کی گواہی سارے محلے والے دیتے تھے کہ تمہاری بیوی جیسی نیک چلن، فرشتہ صفت کوئی اور عورت مشکل سے ہی ہم نے دیکھی ہے۔ یہ تو کبھی میکے بھی نہیں جاتی ہے۔ جب یہ وار نا کام ہوا تو نندوں نے ایک اور ترکیب سوچی۔ کسی طرح خالو کی الماری چابیاں چرا کر اور بنوا لیں۔ ذکیہ نے یہ کام اپنے بڑے بھائی کے بیٹے منور سے کروایا اور جب ایک رات کو سب سور ہے تھے تو انہوں نے الماری کی تجوری کھول کر تمام روپیہ اور سونا نکال لیا کر چابیاں کنویں میں پھینک دی۔ صبح جب وہ بیدار ہوئے اور اپنے سرہانے سے چابیوں کا کچھ نکالا اور تجوری کھولی، کیونکہ کاروبار کے لئے رقم دینی تھی، مگر رقم وہاں موجود نہیں تھی اور سونے کے بسکٹ بھی غائب تھے ، جو وہ مسقط سے لایا کرتےتھے۔ اُن کا دماغ چکرا گیا۔ سب سے پہلے بیوی سے پوچھا کیونکہ چابیوں کا ان کو معلوم تھا، کہاں رکھتے تھے۔ اُدھر نندوں نے مشہور کر دیا کہ کل شام بھابھی کے بھائی آئے تھے ۔ اتفاق سے ہم نے دیکھ لیا کہ بھابی اُن کے بریف کیس میں رقم رکھ رہی تھیں رقم انہوں نے ہی چرائی ہے۔ اتنے بڑے الزام پر خالہ چپ نہ رہ سکیں اور انہوں نے بالآخر زبان کھولی کہ میرے بھائی کل شام آئے ضرور تھے ، مگر وہ رقم لینے نہیں بلکہ مجھے کچھ رقم دینے آئے تھے تا کہ جب میری نندیں مجھے بھوکا ر کھیں ، تو میں خود کچھ خرید کر کھا سکوں، البتہ تجویری سے انہوں نے منور کے ذریعے رقم پار کی ہے، کیونکہ رات منور بھی یہاں آکر رہا تھا۔ آخر اس کا یہاں رہنے کا کیا مقصد تھا؟ شوہر نے پھر بھی یہی کہا۔ کلثوم دیکھو ! رقم واپس کر دو، ورنہ مار کر کنویں میں پھینک دوں گا ۔ صرف تمہیں ہی معلوم ہے کہ میں چابیاں کہاں رکھتا ہوں۔ میری بہنوں کو اس بارے میں پتا نہیں تھا، تو وہ کیسے رقم چرا سکتی ہیں ؟ تب خالہ کے خون نے جوش مارا۔ وہ کہنے لگیں۔ خبر دار ، جواب مجھے کسی نے دھونس دی یا ہاتھ اٹھایا۔ میں بھی سب کو بتا دوں گی کہ مجھ پر کتنا ظلم ہو تا رہا ہے۔ ایک وقت کا کھانا بھی پورا نہیں دیتے تھے ، خود رقم چرا کر مجھ پر الزام لگاتے ہیں۔ میں اتنی بھی لاوارث نہیں ہوں کہ میرے بھائی مجھے دو وقت کا کھانا بھی نہ دے سکیں۔ بس یہی الفاظ ہی ان کی موت کا سبب بنے۔
کلثوم خالہ کی زبانی یہ الفاظ سن کر نصیر الدین آپے سے باہر ہو گئے اور بیوی کو بے تحاشہ مارنے لگے کہ ایک تو میری عمر بھر کی کمائی چرا کر بھائی کو دے دی اوپر سے زبان چلاتی ہے۔ بجائے خالہ کلثوم کو چھڑانے کے، خالو کے بھائی اور بھتیجے منور بھی انہیں پیٹنے لگے۔ خدا جانے کس چیز سے مارتے رہے کہ ان کے جگر اور گردے پر شدید چوٹ آ گئی اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ جب ان کے لاغر بدن سے روح پرواز کر گئی، تو گھر ، تو گھبرائے کہ یہ کیا ہو گیا؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو اپنا جرم چھپانے کے لئے ، انہوں نے خالہ کے جسد خاکی کو کنویں میں پھینک دیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ کسی نے ان کو یہ کام کرتے نہیں دیکھا، لیکن خدا کی کرنی کہ لاش لے جاتے اور کنویں میں پھینکتے ہماری ممانی نے دیکھ لیا۔ نصیر الدین خالو کے بھائی نے مسجد میں یہ اعلان کروا دیا کہ کلثوم نے خود کشی کر لی ہے، لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہو گیا کہ ان کی موت کنویں میں ڈوبنے کی وجہ سے نہیں بلکہ شدید تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اب تو نصیر الدین اور ان کے بہن بھائیوں کے ہوش اڑ گئے۔ ہم سب دعا کر رہے تھے کہ خدا کرے، یہ سب اپنے کئے کی سزا بھگتیں اور اسی طرح ظلم کا مزہ چکھیں جیسے انہوں نے ہماری خالہ پر کیا تھا۔ آخر کار پولیس نے ان سب کو گرفتار کر لیا اور رقم و سونا بھی ان سے برآمد ہو گیا، جس کی وجہ سے خالہ کا قتل ہوا تھا۔ میں تو یہی کہوں گی کہ سسرال میں اگر لڑکیوں پر ظلم ہو تو وہ ہر گز اپنے والدین یا بہن بھائیوں سے نہ چھپائیں۔ ان کو بتا ئیں بلکہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں، ورنہ یہ نہ ہو کہ ظالم کا ظلم موت کی حد تک بڑھ جائے۔