Sunday, October 6, 2024

Khamoshi Ka Raaz

عادل کالج کے زمانے میں مجھے ملا تھا۔ امی سے ذکر کیا، تو انہوں نے مجھے کالج سے ہی ہٹالیا۔ اپنی دانست میں انہوں نے اپنی اکھڑ اور نادان بیٹی کو نوخیز عمر میں ایک بڑی غلطی سے بچا لیا تھا اور میں عرصہ تک سوچتی رہی کہ ممکن ہے وہی میری منزل ثابت ہوتا۔ بہر حال اب تو نہ منزل سامنے تھی اور نہ منزل کا نشان۔ وقت گزرتا رہا اور میں چپکے چپکے سرکتی عمر کے متعلق سوچتی اور کڑھتی رہی۔ اس سوچ نے روز بہ روز میری سنجیدگی میں اضافہ کر دیا، جبکہ چہرے پر شادابی اور لبوں پر مسکراہٹ ہی تو انسان کو پرکشش بناتی ہیں مگر میں کسی اور ہی فکر کا شکار تھی۔ وقت نے کروٹ لی اور ماں کا انتظار ختم ہوا۔ خدا خدا کر کے ہمارے مقبرے جیسے گھر میں بھی کوئی امیدوں کے چراغ جلانے والا داخل ہوا۔ مہروز خان نے میری سنجیدگی سے متاثر ہو کر میرا رشتہ بھجوایا۔ وہ ہمارے دور کے رشتہ دار ہوتے تھے۔ اس رشتے کو فوراً منظور کر لیا گیا کیونکہ مہروز میں بجز اس کے اور کیا کمی تھی کہ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ وہ نامی گرامی وکیل تھے، اچھی پریکٹس تھی۔ صاف ستھرا بنگلہ، دو کاریں اور زندگی کی ہر آسائش کا سامان موجود تھا۔ شکل واجبی تھی تو میں کون سی حسن کی پری تھی۔ شادی اتنی دھوم دھام سے ہوئی کہ لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ دلہن بن کر جب مہروز خان کے گھر آئی انہوں نے ان الفاظ میں میرا خیر مقدم کیا۔ رقیہ! میری کوشش رہے گی کہ تم کو کوئی تکلیف نہ ہو، مگر میری پہلی بیوی کے بارے میں بھی کوئی سوال مت کرنا۔ میرے دل کے زخم کو چھیڑنے کی کوشش نہ کرنا ، ورنہ یہ راز تمہارے لئے بھی غم کا باعث ہوگا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا، مگر خاموش ہو گئی تب وہ میرا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولے میری ہم سفر! زندگی تنہا نہیں گزرتی، ایک زخم کھا چکا ہوں دوسرا تم نہ لگانا ۔ میں سر جھکائے یہ سب سنتی رہی۔ مجھے لگا وہ مجھ سے شادی کر کے بہت خوش ہیں ۔ منہ دکھائی میں بہت قیمتی اور خوبصورت ہونے کا سیٹ دیا، جس میں ہیرے کی لگے ہوئے تھے۔ وقت خوش اسلوبی سے گزرنے لگا۔ میں ہر طرح سے خوش اور مطمئن تھی مگر ایک سوال کبھی کبھی ذہن میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ مہروز اتنے اچھے ہیں تو ان کی پہلی شادی ناکام کیوں ہوگئی ؟ آخر اس کے پیچھے ایسا کیا راز ہے؟ ایک روز ہم اپنے کسی رشتہ دار کی شادی میں گئے، وہاں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو بہت خوبصورت تھی۔ قریب بیٹھی تھی، لہذا بات چیت ہونے لگی۔ اُس نے بتایا کہ مہروز اس کے سابقہ بہنوئی ہیں۔ ان کی پہلی شادی اس کی باجی سے ہوئی تھی۔ دونوں میں بہت محبت تھی اور یہ بڑی کامیاب شادی تھی لیکن شادی کے دو سال بعد اچانک مہروز نے میری باجی کو طلاق دے دی۔ وجہ انہوں نے بتائی، نہ باجی نے ۔ ان دنوں میری بہن امید سے تھیں مگر اس سنگدل انسان نے کبھی اپنی بیٹی کی شکل بھی نہ دیکھی۔ میری بہن نے بیٹی کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔ وہ نوکری کرتی ہیں اور اپنی بیٹی کے لئے جی رہی ہیں۔ اس خاتون نے بات ختم کی اور چلی گئی۔

وہ راز جو میں جاننا چاہتی تھی ، آج اتفاق سے اس عورت نے بتادیا، جو میرے لئے اجنبی تھی لیکن راز پھر بھی راز ہی رہا۔ آخر مہروز نے بیوی کو کیوں طلاق دی اور دونوں نے اس کی وجہ کیوں کسی کو نہ بتائی۔ کسی نے بھی دنیا کے سامنے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا اور نہ عیب گنوائے ۔ اب میں زیادہ آپ سیٹ رہنے لگی۔ کچھ دن خود پر قابورکھا، پھر آخر بے چینی نے وہی سوال کرنے پر مجبور کر دیا ، جو میں نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھ کو اب مہروز پر اعتماد ہو گیا تھا کہ وہ ناراض ہوئے بھی تو وقتی طور پر ہوں تھے، لہذا ہمت کر کے ان سے پوچھ ہی لیا۔ آپ نے پہلی بیوی کو طلاق کیوں دی تھی ؟ ہم اب اتنے جھل مل گئے تھے کہ یہ پوچھنا معمولی بات لگتی تھی ، مگر وہ ایک لمحے کو تو ساکت ہو گئے اور ان کے چہرے پر کرب نمایاں ہو گیا۔ تھوڑی دیر دم سادھے رہنے کے بعد بالآخر وہ بولے۔ میں اس سے محبت کرتا تھا۔ مجھے اس سے کوئی شکایت نہ تھی۔ طلاق دیتے وقت بھی دلی تکلیف ہوئی تھی، لیکن یہ کہ کر چپ ہو گئے۔ میں بے چینی سے ان کا منہ تک رہی تھی۔ بتا بھی دیجئے ! کیا اس نے نے خود طلاق نہیں مانگی تھی ؟ اس کے تو وہم و گمان میں نہ تھا کہ میں اچانک اس کو ایسا مژدہ سناؤں گا۔ اس نے تو مجھے ایک خوش خبری سنائی تھی ، جس کے سبب میں نے اُسے طلاق دے دی۔ بہر حال، جو ہونا تھا ہو گیا۔ وجہ تم کو کبھی نہ کبھی معلوم ہو ہی جائے گی فکر مت کرو۔ یہ راز بھی کسی روز کھل جائے گا۔ میں نے جان لیا کہ مزید اصرار کرنا ان کے زخم کو اُدھیڑنا ہے کیونکہ ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ ناراض ہیں، لہذا اس وقت خاموشی میں ہی عافیت جانی تبھی انہوں نے کہا۔ اپنا دل چھوٹا مت کرو ایک نہ ایک دن تم جان لوگی میری کم نصیبی کوجاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے لگا۔ انہوں نے یہ بات کچھ اس طرح بے بسی سے کہی کہ میں شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ اتنی محبت کرنے والے شوہر کو میں کوئی اذیت دینا نہ چاہتی تھی۔ خود سے وعدہ کر لیا کہ کبھی بھول کر بھی ایسا سوال پوچھ کر انہیں آزمائش میں نہ ڈالوں گی۔

عرصے تک خاموش رہی ، شادی کو پانچ برس گزر گئے مگر میرے اندر کے فطری حس نے چین نہ لینے دیا۔ گھر میں پڑا پرانا سامان کھول کھول کر دیکھنا شروع کر دیا۔ جب وقت ملتا ، تو ان کی کتابوں کی الماریاں چھانتی۔ بالآخر مجھے ایک فائل سے ایک تصویر مل گئی جو ان کے شادی کے اول دن کی تھی۔ دلہن اتنی خوبصورت تھی کہ میں مبہوت رہ گئی ۔ یا اللہ ایسی حسین لڑکی ، جس کا حُسن حوروں کو شرمائے ، وہ اس سے محبت کرتے تھے، جس کے لئے اب بھی اُداس رہتے ہیں کیونکر اس کو طلاق دے دی ؟ غصے میں یا کسی شک کی بنا پرلیکن کبھی بھی اس پر کوئی الزام نہ لگایا ، نہ اس کی بے وفائی کے بارے میں زبان کھولی۔ میرے دل میں ہلچل مچ گئی اور میں سوچ سوچ کر بیمار ہو گئی ۔ ایک روز مہروز نے میرے چہرے کو بہت غور سے دیکھا، پھر بولے۔ تم روز بہ روز مرجھائی جاتی ہو۔ چلو میں تم کوکسی ڈاکٹر کو دکھا دوں۔ میں بیمار نہیں ہوں، گھر میں بہت تنہائی محسوس کرتی ہوں۔ آپ صبح کورٹ چلے جاتے ہیں اور تمام دن مصروف رہتے ہیں۔ شام کو بھی آرام نہیں کر پاتے۔ کبھی کیس کی تیاری تو بھی موکلوں سے سرکھپانا ، میں آپ کی منتظر رہتی ہوں ۔ آپ کے پاس وقت نہیں میں بات کس سے کروں؟ کہنے لگے۔ ایسا کرو، کچھ دن کے لئے میکے چلی جاؤ۔ وہاں تمہارے بہن بھائی ہیں، امی، بھانجے بھتیجے ہیں، تمہارا دل لگ جائے گا۔ جب تک جی چاہے رہنا، پھر گھر آجانا۔ میں نے تو تم کو کبھی میکے جانے سے منع نہیں کیا ہے۔ میرا دل نہیں کرتا اپنا گھر چھوڑ کر کہیں جاؤں۔ مجھے اپنے گھر سے محبت ہے، یہاں ہی سکون ملتا ہے۔ ٹھیک ہے۔ وہ بولے۔ لیکن انسان کو کبھی کبھی بھیڑ بھاڑ میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ ہے۔ تیار ہو جاؤ، میں خود تم کو اماں کے پاس چھوڑ آتا ہوں۔ مہروز کے اصرار پر میں میکے آگئی ۔ امی نے بھی کہا۔ تم بیمار نظر آرہی ہو۔ سچ بتاؤ کیا بات ہے؟ تم شوہر کے ساتھ خوش تو ہو۔ ہاں ہاں، میں ان کے ساتھ بہت خوش ہوں ۔ وہ بہت اچھے ہیں، لیکن مجھے اب تنہائی محسوس ہونے لگی ہے۔ میں نے تو تم سے پہلے بھی کئی بار کہا ہے کہ تم کسی اچھی ڈاکٹر سے علاج کراؤ۔ شادی کو چھے سال ہونے والے ہیں اور ابھی تک تمہاری گود ہری نہیں ہوئی ہے۔ تنہائی تو محسوس ہو گئی ہے۔ امی ! جب میرے شوہر کو اس بارے فکر نہیں، پھر مجھے کیوں ہو۔ انہوں نے تو ایک بار بھی نہیں کہا کہ ہمارے یہاں اولاد کی کمی ہے بلکہ میں نے ایک دو بار کہا تو بولے۔ اولاد اللہ کا مال ہوتی ہے وہ جب چاہے دے دے مایوس نہ رہا کرو، اللہ نے چاہا تو ہو جائےگی۔ امی خاموش ہو گئیں۔ مہروز ہر ہفتے آتے، صبح سے شام تک میرے ساتھ رہتے۔ کہتے سوچا مت کرو، خوش رہا کرو۔ دیکھو، یہاں آکر تمہاری صحت پہلے سے کہیں بہتر ہوگئی ہے۔ واقعی امی کی توجہ اور دیکھ بھال سے میں بہل گئی تھی اور اب میرا دل ان کے گھر میں لگنے لگا تھا۔ گھر آتی ، چند روز بعد جی چاہتا پھر سے ماں کے پاس چلی جاؤں۔ میرا دل واقعی ماں کے ٹوٹے پھوٹے مکان میں ہی بہلتا تھا۔ مجھے اب بنگلہ، کاریں، ملازمین سب بُرے لگتے ، کیوں کہ مہروز کی مصروفیت کھلتی اور تنہائی کلیجہ کھانے لگتی۔ یہ بات انہوں نے بھی محسوس کر لی تھی، اس لئے وہ خود مجھے امی کے پاس چھوڑ جاتے اور کبھی کوئی روک ٹوک نہ کرتے ، نہ بدظن ہوتے بلکہ ان کی محبت میں اضافہ ہی ہوتا جاتا تھا۔ میں بھی ان سے محبت کرتی تھی مگر اب میرا دل ان کے ساتھ خوش نہ ہوتا تھا، کیونکہ ان کی خاموشی نے مجھے ڈس لیا تھا۔ جن دنوں میں اس الجھن میں گرفتار تھی، امی مجھے ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ اس نے کچھ دوائیں دیں اور کہا کہ آپ شاید سوچتی بہت ہیں ۔ کسی بات کی ٹیشن نہ لیا کریں اور خوش رہا کریں۔ آپ صحت مند ہیں اور ان شاء اللہ اولاد بھی ضرور ہوگی۔ ایک ماہ بعد امی نے اصرار کیا کہ میں پھر سے ڈاکٹر کے پاس جاؤں اور علاج پورا کراؤں تا کہ کوئی کمی بیشی نہ رہے۔ جس روز ہم نے ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لیا تھا، اس دن امی کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ وہ بولیں۔ بہن کو فون کر کے بلوا لو اور اس کے ساتھ چلی جاؤ ۔ بہن کو فون کیا تو وہ بولیں۔ تمہارے بہنوئی کے مہمان آنے والے ہیں، میں نہیں آسکتی۔ تم یہیں آجاؤ، فارغ ہو کر ساتھ چلی جاؤں گی۔ میں ان کے گھر جا پہنچی اور دعوت کا کھانا بنوانے میں مدد کی اور بہن کے ساتھ کھانے کی میز لگادی۔ جب بہنوئی صاحب اور ان کے مہمان نے کھانا کھا لیا اور ڈرائنگ روم میں چلے گئے، جب میں نے بہن سے کہا کہ بھائی صاحب کے مہمان تو ابھی بیٹھے ہیں۔ جانے کب جائیں، ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت ہو چلا ہے۔ اس دن میں ڈاکٹر کی طرف جانا نہیں چاہتی تھی مگر اماں کے ڈر سے جانا تھا۔ بہن تیار ہونے لگی، اتنے میں بہنوئی اندر آئے تو انہیں ہم نے اسپتال جانے کا بتایا تو کہنے لگے۔ میرا دوست عادل اُدھر ہی جا رہا ہے، وہ تم کو کلینک پر ڈراپ کر دے گا ۔ بہن تیار ہوئیں انہوں نے برقعہ لیا اورمیں نے چادر اوڑھ لی۔

کار میں بیٹھتے ہوئے میری نظر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص پر پڑی اور میرے بدن میں برقی لہر دوڑ گئی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اتنے برسوں بعد اپنے کلاس فیلو عادل سے یوں اچانک ملاقات ہو جائے گی۔ اس نے بھی مجھے پہچان لیا مگر ہم دونوں ہی چپ رہے۔ اس نے ہمیں کلینک پر اتار دیا اوربولا۔ میری رہائش یہاں قریب ہی ہے۔ آپ کو سواری کی دقت ہو تو مجھے فون کر دیجے گا، میں آجاؤں گا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا کارڈ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ دراصل وہ مجھ کو رابطے کا ذریعہ دے گیا تھا۔ اگلے روز شام میں عادل میرے بہنوئی کے ساتھ گھر آگیا۔ امی کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ وہی میرا کلاس فیلو ہے، جس نے مجھ سے شادی کی خاطر میری والدہ سے ملنے کی خواہش کی تھی اور جب میں نے امی سے کہا تھا تو انہوں نے مجھے کالج سے ہٹا لیا تھا۔ امی کے ذہن سے اب تو اس کا نام تک محو ہو چکا تھا، لیکن وہ مجھے نہ بھولا تھا۔ جب اُسے پتا چلا کہ میں اس کے دوست ارشد کی سالی ہوں تو بہنوئی کے توسط سے اس نے میرے بھائی سبحان کو دوست بنالیا۔ ان دنوں بھائی نوکری کی تلاش میں تھے۔ نوکری نہ ملی تو دبئی جانے کا خیال ظاہر کیا۔ تب بہنوئی نے ان کو عادل سے ملوادیا کہ اس کا کام دبئی کے ویزے دلوانا تھا۔ یوں وہ امی کے گھر آنے جانے لگا اور ان کا منہ بولا بیٹا بن گیا۔ بھائی سبحان تو دبئی چلا گیا مگر عادل نے ہمارے گھر میں پنجے گاڑھ لیے۔ امی سے کہا کہ میں تو دبئی ہوتا ہوں وقتا فوقتا یہاں آنا جانا رہتا ہے تبھی کبھی ہوٹل میں اور کبھی کسی دوست کے پاس ٹھہر جاتا ہوں ۔ اس پر میری ماں نے کہا۔ بیٹا تم یہاں رہ لیا کرو، کہیں اور ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے۔ دراصل امی چھوٹے بیٹے کے لئے بھی دبئی کے ویزے کی توقع کر رہی تھیں اور سبحان بھائی کی وجہ سے بھی عادل کی احسان مند تھیں۔ مجھے اپنے شوہر مہروز خان سے محبت تھی۔ میں بے وفائی کو گناہ سمجھتی تھی اور عادل نے بھی ایسا کوئی اشارہ نہ دیا تھا جس سے مجھے گمان ہوتا کہ وہ ماضی کے رشتے کو پھر سے استوار کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے درمیان محبت کا کوئی کھیل تو چلا ہی نہیں تھا۔ جب اس نے محض پسندیدگی کا اظہار اور شادی کا عندیہ دیا تھا۔ میں نے امی کو بتایا تو انہوں نے تو اس بات کو کسی اور رنگ میں لیا اور خوفزدہ ہو کر مجھے کالج ہی نہ جانے دیا۔ بس اتنی سی کہانی تھی، جو ختم ہو گئی۔ وہ امی کے پاس آتا تو مجھ سے بھی باتیں کرتا۔ نہیں معلوم کہ اس کے دل میں کیا تھا۔ اس نے امی کو بتایا تھا کہ اس کی شادی دبئی میں ایک عربی کے بیٹی سے ہوئی تھی لیکن کچھ ماہ بعد طلاق ہوگئی ۔ میں اس کے سوا کوئی اور بات اس کے بارے نہ جان سکی اور نہ ہی جاننے کی سعی کی ، کیونکہ مجھے اس سے اب کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

اس بار زیادہ دن میکے رہنے سے امی کو فکر ہونے لگی۔ بولیں۔ اب تم اپنے گھر چلی جاؤ تو بہتر ہے۔ ان کے کہنے پر میں نے گھر جانے کی تیاری کرلی ۔ امی مجھے چھوڑنے جارہی تھیں۔ انہوں نے محلے کے ایک لڑکے سے رکشہ منگوایا ۔ اسی وقت عادل آگیا اور بولا ۔ ماں رکشہ کیوں؟ کیا آپ مجھے غیر سمجھتی ہیں؟ میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں، گاڑی ہے میرے پاس۔ میں نے منع کرنا چاہا تو بولا۔ رقیہ! آپ کی والدہ دل کی مریضہ ہیں ۔ رکشے میں ان کو تکلیف ہوگی ۔ میں آپ لوگوں کو پہنچا دوں گا، اس میں کیا قباحت ہے۔ اس نے کچھ اس طرح کہا کہ میں خاموش ہوگئی اور اس نے ہمیں، میرے گھر کے دروازے پر پہنچادیا۔ امی مجھے گیٹ پر چھوڑ کر عادل کے ہمراہ واپس لوٹ گئیں ۔ مہروز کورٹ گئے ہوئے تھے ۔ شام کو آئے تو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، بولے۔ میں کچھ دنوں سے ایک کیس کی پیروی میں الجھا ہوا ہوں۔ سوچا تھا کہ اتوار کو لینے چلا جاؤں گا، لیکن تم خود آگئیں، یہ بہت اچھا ہو گیا ہے۔ کیا رکشے پر آئی ہو؟ نہیں ، امی خود چھوڑ گئی ہیں۔ دراصل ان کی طبیعت ٹھیک نہ تھی ، اس لئے وہ رکی نہیں ۔ ہم رکشے پر نہیں آئے۔ ارشد بھائی کے ایک دوست امی کی طبیعت پوچھنے آگئے تھے، انہوں نے ہی ہمیں اپنی گاڑی میں ڈراپ کیا ہے۔ اس بات کا مہروز نے کوئی نوٹس نہ لیا بلکہ کہا کہ آنٹی کی طبیعت خراب تھی ، اچھا ہے کہ تم لوگ گاڑی میں آئے۔ مہروز میں یہ خوبی بہت بڑی تھی ۔ وہ بھی کسی کے بارے غلط نہیں سوچتے تھے۔ مجھ پر کبھی بھی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ وہ کافی عرصہ ہمارے محلے میں رہ چکے تھے اور امی پر بھی انہیں پورا بھروسہ تھا۔ مجھے گھر آئے ہفتہ ہوا ہوگا کہ اچانک عادل کا فون آگیا۔ رقیہ سبحان نے دبئی سے کچھ سامان بھیجوایا ہے۔ میرا دوست، جو پاکستان آرہا تھا، وہ سامان دینے آنٹی کے پاس گیا تھا۔ وہ سبحان کا خط اور اس کا بھیجا ہوا سامان دیکھ کر بہت خوش تھیں کہ اچانک ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور ان کو اسپتال داخل کرانا پڑا۔ میں صبح سے ان کے پاس ہوں اگر آنا چاہو تو ابھی آجاؤ۔ میں تم کو لینے آجاتا ہوں۔ میں نے فون بند کر کے مہروز کو کال کی۔ وہ بولے۔ میں کورٹ سے فارغ ہو کر تم کو فون کرتا ہوں ، تم چاہو تو ابھی اسپتال چلی جاؤ ممکن ہے تمہاری والدہ کو اس وقت تمہاری ضرورت ہو۔ میں نے فون رکھا تو پھر سے گھنٹی بجنے گئی ۔ یہ عادل کا فون تھا کہنے لگا۔ رقیہ، دیر نہ کرو۔ میں صاف بات بتا دوں تمہاری والدہ کو اٹیک ہوا ہے۔ تم فوراً آجاؤ۔ میں کیسے آؤں؟ مجھے نہیں پتا یہ اسپتال کہاں ہے۔ میں نے کہا نا کہ آکر لے جاتا ہوں۔ اس نے میرا گھر تو دیکھا ہوا تھا وہ پندرہ منٹ میں پہنچ گیا۔ امی اسپتال میں داخل تھیں لیکن ان کی حالت سنبھلی ہوئی تھی۔ ان کی حالت تشویش ناک نہیں تھی۔ جب انہوں نے مجھ سے اچھی طرح سے باتیں کیں تو مجھے اطمینان ہو گیا۔

مہروز کو فون کر کے بتایا کہ امی کی حالت اب اطمینان بخش ہے۔ آپ کام چھوڑ کر مت آئیے۔ شام کو گھر آئیں گے تو میں آپ کے ساتھ دوبارہ اسپتال آجاؤں گی۔ اب عروج آگئی ہے اور میں گھر واپس آرہی ہوں ۔ جیسی تمہاری مرضی ۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون کاٹ دیا۔ مجھے عادل نے گھر ڈراپ کیا اور اپنی رہائش گاہ چلا گیا۔ رات کو میں دوبارہ مہرروز کے ساتھ اسپتال آئی۔ تھوڑی دیر ٹھہرنے کے بعد وہ امی کے پاس چھوڑ کر چلے گئے ۔ رات میں نے ماں کے پاس جاگ کر گزار دی ۔ اگلی صبح مہروز کی اہم پیشی تھی ۔ انہیں لازماً عدالت جانا تھا لہذا وہ کورٹ چلے گئے اور مجھے وہاں سے فون کر دیا کہ تم گھر آجانا ، فی الحال میں مصروف ہوں ۔ اب میں گھر جانے کی سوچ رہی تھی کہ عادل آگیا۔ امی کی خیریت پوچھی، پھر مجھ سے کہا۔ اگر تم کو گھر جانا ہے تو تمہیں ڈراپ کرتا جاؤں گا۔ یوں میں اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ امی کے بارے میں سوچتی جا رہی تھی اور آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ نیند سے جھپکی آگئی تھی گاڑی رکی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا، یہ میرے گھر کا گیٹ نہیں تھا۔ عادل بولا ۔ رقیہ سوری، مجھے یہاں سے اپنا پاسپورٹ اٹھانا ہے۔ تمہیں زحمت تو ہوگی۔ میں اندر جا کر پاسپورٹ اُٹھالوں؟ کوئی بات نہیں، میں گاڑی میں بیٹھی ہوں ۔ تم دو منٹ کے لئے اُتر آؤ۔ دراصل یہ گاڑی میرے دوست کی ہے۔ گیراج میں دوسری گاڑی ہے۔ اس میں بیٹھو، میں تب تک پاسپورٹ لے لوں۔ میں بلا جھجک اس گاڑی سے اتر گئی تھی گیٹ کھلا اور ایک شخص باہر نکلا۔ عادل نے کہا۔ ڈرائیور! یہ گاڑی شفیع کو دے آؤ۔ گیٹ کھلا تھا، گیراج میں کھڑی گاڑی نظر آرہی تھی۔ عادل نے مجھ سے کہا کہ مجھے پاسپورٹ نہیں مل رہا، جب تک تم چائے پی لو۔ میں نے کمرے میں جھانکا، وہ الماری میں رکھی چیزیں ٹٹول رہا تھا اور میز پر گرم گرم چائے کی پیالی دھری تھی۔ میں تھکن اور نیند سے بے حال صوفے پر بیٹھ گئی اور پیالی اٹھا کر چائے پینے میں محو ہو گئی۔ عادل نے الماری سے کچھ کپڑے اور دوسری چیزیں نکال کر بیڈ پر پھینکیں ، پھر خوشی سے بولا ۔ مل گیا، یہ میں نے اپنے کپڑوں کے نیچے رکھ دیا تھا۔ تم یہ کپڑے الماری میں رکھ دو تب تک میں چائے پی لوں گا۔ میں نے بکھرے ہوئے کپڑے الماری میں رکھے کبھی کبھی بھروسے میں آدمی بڑی فاش غلطی کر جاتا ہے اور جب پلٹی تو عادل کمرے کا دروازہ بند کر چکا تھا۔

کبھی کبھی بھروسے میں آدمی بڑی فاش غلطی کر جاتا ہے اور اُسے خبر بھی نہیں ہوتی کہ اگلے کی نیت کیا ہے۔ میں لٹی ہوئی روتی دھوتی اپنے گھر کے گیٹ پر اُتار دی گئی۔ عادل مجھے میری منزل پر پہنچا کر چلا گیا ، وہ منزل جواب میری نہ رہی تھی، مگر فی الحال مجھے اس کا علم نہ تھا۔ میں نے رو دھو کر اور اپنے خدا سے معافی مانگ کر خود کو شام تک سنبھال لیا کیونکہ یہ میری غفلت کے باعث ایک ظالمانہ سانحہ ہوا تھا۔ اگلے دن عادل دبئی فلائی کر گیا۔ امی ابھی اسپتال میں تھیں۔ اب یہ بات کسی کو بتانے سے کیا حاصل تھا۔ دو ماہ گزر گئے ، دل کے اندر ایک سسکی دبی رہتی تھی، جس کی آواز میرے سوا کوئی دوسرا نہیں سن سکتا تھا۔ تیسرے ماہ میرے شوہر نے کہا۔ رقیہ میں اپنے بھائی کے پاس امریکہ جانا چاہتا ہوں۔ تم چاہو تو تمہارا بھی ویزا لے لوں؟ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، مجھے لگتا ہے کہ میں سفر نہ کر سکوں گی۔ کیا ہوا تمہیں ؟ میں انہیں کہنا چاہتی تھی کہ آپ کہتے تھے نا کہ اللہ چاہے گا تو ہم بھی صاحب اولاد ہو جائیں گے، تو اللہ نے ہماری سن لی ہے لیکن میں ان کو سرپرائز دینا چاہتی تھی لہذا میں نے کہا۔ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔ اگر وہ کہے گی کہ سفر پر چلی جاؤ تو میں آپ کے ساتھ چلوں گی ، ورنہ نہیں ۔ وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ میں سمجھ رہی تھی کہ جب خوش خبری کی تصدیق ہو جائے گی تو وہ بہت خوشی کا اظہار کریں گے کہ ہم صاحب اولاد ہونے جا رہے ہیں، مگر معلوم نہ تھا کہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہی میری منزل کھوٹی ہو جائے گی۔ جب وہ گھر لوٹے ان کے چہرے پر خوشی کا شائبہ تک نہ تھا۔ میں نے پوچھا۔ کیا ہوا ؟ کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی ؟ بہت ہوئی ہے۔ انہوں نے مردہ لہجے میں کہا۔ پھر آپ اتنے افسر وہ کیوں ہیں؟ یہ سوچ کر کہ اب تم میرے ساتھ نہیں جارہیں۔ مجھے انہوں نے گھر چھوڑ اور اپنے کچھ کاغذات لے کر چلے گئے۔ رات بھر گھر نہیں آئے۔ اگلے روز گیارہ بجے کے بعد آئے اور پنا سفری بیگ اٹھا کر کہنے لگے۔ آج میری فلائٹ ہے۔ اپنا خیال رکھنا۔ وہاں پہنچ کر خیریت کی اطلاع کردوں گا۔ اور ہاں، تم گھر میں اکیلی مت رہنا۔ جب تک میں واپس نہ آجاؤں، اپنے میکے میں رہنا۔ خدا حافظ ۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر چلے گئے۔ میں ان کے سرد لہجے سے تعجب میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد بے تحاشا روئی ۔ شام کو بیگ میں کچھ کپڑے ڈالے اور امی کے پاس چلی گئی۔ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ وہ ایسے مجھ سے ملے بغیر کیونکر چلے گئے، جبکہ ان کی فلائٹ تو رات کی تھی۔

امی کے گھر آئے ہفتہ ہوا ہوگا کہ گھر پر امریکا سے ایک رجسٹری آئی ۔ خوشی سے کمرے میں آکر کھولا تو کچھ کا غذات تھے اور ایک خط ، جو مہروز کی طرف سے تھا، لکھا تھا۔ ڈئیر رقیہ ! تم کو بہت چاہ تھی یہ راز جاننے کی کہ میں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق کیوں دی تھی ؟ اور میں نے تم کو کہا تھا کہ جلدی مت کرو ایک نہ ایک دن تم ضرور جان ہی لوگی ۔ تو تم نے جان لیا ہوگا کہ میں نے اُسے کیوں طلاق دی تھی، سوتم کو طلاق دینے کی بھی وہی وجہ ہے ۔ تم سمجھ دار ہو، امید ہے تم نے سمجھ لیا ہے کہ میں باپ بننے کے لائق نہیں ۔ یہ میرے راز کی بات ہی تیری وفا کا امتحان تھا۔ یہ خط پڑھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی سمجھ گئی کہ دینہ نے ان کے ساتھ بے وفائی کی تھی لیکن میں نے بے وفائی نہیں کی تھی، میرے ساتھ تو دھوکا ہوا تھا اور میں نے یہ سوچ کر اس کی پردہ پوشی کی تھی کہ خدا معاف کرنے والا ہے۔ آئندہ تو میں ایسا کچھ کرنے نہیں جارہی۔ جو ہوا ایک بد قسمت حادثہ ہی تھا۔ سو چپ میں عافیت جان کر میں نے جس بات کی پردہ پوشی کی ، وہی چپ میرا گھر بار اور زندگی کی سب خوشیاں بہالے گئی، کیونکہ میرے شوہر کی چپ میں بھی راز تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ صاحب اولاد نہیں ہو سکتے، لہذا اب میں انہیں اپنے بے قصور ہونے پر قائل نہیں کر سکتی تھی۔ عادل پھر کبھی نہ آیا اور شوہر کو کھو دینے کے بعد ہر خوشی مجھ سے روٹھ گئی۔ میں بیوہ ماں کے سینے کا ایسا بوجھ بن گئی کہ جس کو میری بیٹی کی پیدائش نے دگنا کر دیا اور مجھے بھی ویسے ہی چپ سادھ کر زندگی گزارنی تھی جیسے کہ مہروز کی پہلی بیوی دینہ نے گزاری ہوگی۔

Latest Posts

Related POSTS