Monday, March 17, 2025

Khamoshi Ka Zahar

میں اور شاہینہ ایک ہی اسکول میں پڑھایا کرتے تھے۔ شاہینہ میری کلاس فیلو ہی نہیں، بلکہ بہت پیاری دوست بھی تھی۔ ہم نے اکٹھے پی ٹی سی کا کورس کیا تھا اور اتفاق سے ایک ہی گاؤں کے اسکول میں ہم دونوں کو ملازمت ملی۔شاہینہ کا گھر ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ ہم ساتھ اسکول کے لیے نکلتی تھیں اور ایک ہی بس میں سوار ہو کر پڑھانے جایا کرتی تھیں۔ ہمارا اسکول شہر سے آٹھ میل دور تھا۔ روزانہ مجھے اور شاہینہ کو جانے اور آنے میں سولہ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔ ہم باتیں کرتی جاتیں، فاصلہ منٹوں میں طے ہو جاتا اور سفر کا پتا بھی نہ چلتا۔جن دنوں یہ واقعہ ہوا، شاہینہ کا پہلا بیٹا ڈیڑھ سال کا تھا اور وہ امید سے تھی۔ ہوا یہ کہ میں بیمار ہو گئی اور پندرہ روز تک اسکول نہ جا سکی۔ ہمارے اسکول میں صرف تین استانیاں تھیں۔ میری بیماری کے باعث دو باقی رہ گئیں۔ جب میں چھٹی پر تھی، تو ان کا حاضر ہونا ضروری تھا کیونکہ ایک وقت میں صرف ایک استانی ہی غیر حاضر ہو سکتی تھی۔ ہمارا اسکول پرائمری تک تھا، اور پانچ کلاسوں کو ہم تین استانیاں سنبھالتی تھیں۔

جب میں بیمار ہوئی تو شانو (میں شاہینہ کو آسانی کے لیے شانو ہی لکھوں گی کیونکہ میں اسے اسی نام سے بلایا کرتی تھی) کو میری کلاس بھی لینی پڑی۔ میری بیماری کے دوران وہ دو تین بار عیادت کو آئی، مگر بڑی پریشان تھی۔بولی کہ مصباح تو جلدی سے اچھی ہو جا، مجھے اکیلے گاؤں کے اسکول جاتے بڑا ڈر لگتا ہے۔میں نے کہا کہ اتنا عرصہ ہو گیا ہے تم کو گاؤں کے اسکول میں پڑھاتے ہوئے، ابھی تک تمہیں ڈر لگتا ہے؟ ضرور کوئی بات ہے۔بولی کہ تم ٹھیک ہو جاؤ تو بتاؤں گی۔پھر جب میں ٹھیک ہو گئی اور اس کے ساتھ اسکول جانے لگی، تو اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کا پیچھا کر رہا ہے، جو باقاعدگی سے اس کا تعاقب کرتا ہے۔وہ بولی کہ تم دیکھنا، وہ نظر آئے گا، تمہیں بھی دکھاؤں گی۔ جب میں اکیلی جاتی تھی تو وہ میرا راستہ روک کر بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک بار بس کے اڈے پر لاری بہت دیر سے آئی تو اس نے ٹھنڈے مشروب کی بوتل لا کر میرے ہاتھ میں تھما دی۔ میری حالت اتنی خراب ہو گئی کہ کیا بتاؤں، اگر لیتی ہوں تو روحانی عذاب، آخر کیوں لوں؟ نہیں لیتی تو اتنے لوگوں میں تماشا بن جاتی۔ میں نے یہ کیا کہ وہ بوتل وہاں کھڑی ایک بوڑھی بھکارن کو پکڑا دی۔ شکر ہے کہ بس آ گئی اور میں جلدی سے اس میں سوار ہو گئی، مگر اس روز بھی اس نے میرا گھر تک تعاقب کیا تھا۔میں نے پوچھا کہ یہ شخص ہے کون؟شانو نے بتایا کہ اب پتا چل گیا ہے، گاؤں کے نمبردار کا رشتہ دار ہے۔ کچھ دنوں سے ان کے گھر میں آ کر ٹھہرا ہوا ہے۔ اس لفنگے کا پتا میں نے اسکول کی چپڑاسن سے کروایا ہے۔ اللہ کرے وہ مائی اپنی زبان بند رکھے، کہیں اسی بات پر لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔اب ہم پھر سے دو ہو گئی تھیں، تو شانو کی پریشانی کچھ کم ہو گئی۔ اس کی ڈھارس بندھی۔ میں نے بھی تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں، وہ تمہارا بال بھی بیکا نہ کر سکے گا۔ دیکھنا تو سہی، کیسے مل کر اسے جوتے لگائیں گے ہم دونوں…شانو اس بات سے اتنی پریشان نہیں تھی کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے، بلکہ اس بات سے زیادہ پریشان تھی کہ کہیں اس کے شوہر کو اس بات کی خبر نہ ہو جائے، کیونکہ طارق بہت شکی مزاج تھا۔ یقیناً وہ اس سے باز پرس کرنے سے پہلے ہی کوئی انتہائی قدم اٹھا لیتا۔ بیچاری طارق سے بہت ڈرتی تھی۔

اس روز دوپہر کا ایک بجا تھا۔ ہم دونوں لاری اڈے پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھیں۔ بس روز پونے ایک پر آ جاتی تھی، مگر آج نہ جانے کیا وجہ تھی کہ بس آتی نظر نہ آ رہی تھی۔ وہ پندرہ منٹ بھی ہمیں بھاری لگ رہے تھے۔ شانو بے چینی سے گھڑی دیکھ رہی تھی، کیونکہ اس کی امی صبح اس کا بیٹا اپنے گھر لے جاتی تھیں اور پھر اس کے گھر آنے سے ذرا پہلے بچے کو لے کر شانو کے گھر آ جاتی تھیں۔شانو نے ادھر ادھر دیکھا، دراصل اسے اس نوجوان سے خطرہ تھا کہ کہیں وہ تنگ نہ کرے۔ میں یہاں اس نوجوان کا فرضی نام منور لکھ دیتی ہوں۔شانو کا اندیشہ درست نکلا۔ ایک چھوٹا سا لڑکا ہاتھ میں گنے کے رس کے دو گلاس لے کر آیا اور ہمیں دینے لگا۔ میں نے کہا کہ لڑکے تمہیں کس نے کہا تھا یہ لانے کو؟ ہم نے تو نہیں منگوائے…وہ بولا کہ بس کے کنڈکٹر نے کہا ہے۔ وہ سامنے ہوٹل میں بیٹھا ہے۔ وہ کہتا ہے، ان اسکول والیوں سے کہو آج بس تین بجے آئے گی کیونکہ آج ادھر کی ٹریفک بند ہو گئی ہے۔ ایک وزیر دورے پر جا رہا ہے، اس کی گاڑی گزرنے والی ہے۔اس کی بات سن کر ہم پریشان ہو گئیں۔ شانو نے پلٹ کر دیکھا تو وہی نوجوان مسکرا رہا تھا۔ وہ بولی، مصباح یہ گلاس منور نے بھجوائے ہیں، وہ دیکھ سامنے۔میں نے دیکھا، وہ واقعی مونچھوں پر تاؤ دے کر سینہ پھلائے فخریہ انداز سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے گلاس لڑکے کے ہاتھ سے لے کر ان میں بھرا ہوا رس زمین پر انڈیل دیا اور لڑکے سے کہا، جس نے یہ گلاس بھیجے ہیں اس کو کہنا، اگر اب ہمارا پیچھا کیا تو یاد رکھنا تمہاری بہت بے عزتی ہو گی۔ لڑکا چلا گیا۔شانو بولی، کم بخت! یہ تو نے کیا کیا؟ یہ بہت خراب لوگ ہیں۔ اسکول کی مائی بتا رہی تھی کہ یہ بڑے خطرناک ہیں، نہ جانے اب یہ شخص ہم سے اپنی توہین کا کیسا انتقام لے گا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے، روز روز کے مرنے سے ایک دن کا مر جانا اچھا ہے۔ نہ کسی سے اس کی شکایت کرنے دیتی ہو نہ تم اس سے خود کچھ کہتی ہو۔ ادھر یہ ہے کہ روز بروز اس کی ہمت بڑھتی جاتی ہے، آخر تمہاری کیا صلاح ہے؟اگلے روز مجھے اپنے تایا کے بیٹے کی شادی میں جانا پڑ گیا اور میں اسکول نہ جا سکی۔ شانو اکیلی ہی گئی۔

اس دن بدبخت اسے گھیرنے میں کامیاب ہو گیا۔ہوا یہ تھا کہ ہمارے اسکول کی چھت کا ایک شہتیر چِھج گیا تھا، جس سے چھت گرنے کا شدید خطرہ لاحق تھا۔ ہم نے اس کی اطلاع محکمہ کو بھجوائی تھی۔ اس دن چھت کا معائنہ کرنے گاؤں کا چیئرمین، ٹھیکیدار وغیرہ آئے، تو یہ بھی ساتھ تھا۔ یہ لوگ چھت دیکھ کر چلے گئے۔ استانیوں نے ان پر وہ کر لیا۔ مائی نے انہیں کمرہ لے جا کر دکھایا تھا۔ذرا دیر گزری کہ یہ پھر آگیا۔ کہنے لگا، یہاں معائنہ کی فائل رہ گئی ہے، وہ اٹھائی ہے۔ فائل وغیرہ کوئی نہیں تھی۔ بولا، استانی جی سے پوچھو، انہوں نے اٹھائی ہو گی۔شانو بیچاری سمجھی نہیں کہ کون شخص ہو گا۔ جب اس نے ڈیوڑھی پر آ کر بات کی تو یہ بولا، آپ شاہینہ بی بی ہیں؟ آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر اس نے مائی سے کہا، اماں تم چیئرمین کے گھر سے فائل لے آؤ۔ مائی چلی گئی۔اب اسے بات کرنے کا موقع ملا۔ کہنے لگا، شاہینہ، میں نے تمہاری ایک جھلک دیکھی تھی اور تمہارا دیوانہ ہو چکا ہوں۔ اگر مجھے ٹھکراؤ گی تو اچھا نہ ہو گا، میں بہت اثر و رسوخ والا آدمی ہوں۔شاہینہ نے کہا، تم جو بھی ہو، مجھے کیا؟ میں ایک شریف عورت ہوں، شادی شدہ ہوں، ایک بچے کی ماں ہوں۔ اللہ کے واسطے میرا پیچھا چھوڑ دو، نہیں تو میں نوکری چھوڑ دوں گی۔اس نے کہا، یاد رکھنا، تبادلہ تو میں تمہارا یہاں سے ہونے نہیں دوں گا، لیکن جس دن تم نے یہ نوکری چھوڑی، تو میں تمہارے گھر آ جاؤں گا۔ پھر پتا ہے کیا ہو گا؟کیا ہو گا؟اس نے لفافہ آگے بڑھا کر کہا، جو ہو گا، اس میں لکھ دیا ہے۔ یہ لو، پڑھ لینا۔شاہینہ نے بھی جرات سے کام لیا۔ اس نے لفافہ پھاڑ کر دروازے سے باہر پھینک دیا، جہاں وہ کھڑا تھا، اور بولی، جو ہو گا دیکھا جائے گا، مگر اب تم جاؤ یہاں سے۔اس کے بعد شاہینہ نے بیماری کا بہانہ کر کے چھٹی لے لی۔ وہ شوہر سے کہتی تھی، مجھے نوکری نہیں کرنی، مگر ڈر کے مارے یہ نہیں کہتی تھی کہ میں نے چھٹی کیوں لی ہے۔ میں نے شاہینہ سے بہت کہا، تم مجھے طارق بھائی سے بات کرنے دو، میں ان کو سمجھاؤں گی کہ تمہارا اس میں کوئی قصور نہیں، وہی کم بخت تمہارے پیچھے پڑا ہوا ہے، مگر وہ نہ مانی۔ کہتی تھی، مصباح تجھ کو نہیں معلوم طارق کیا ہے، یہ یا تو جان دے آئے گا یا کسی کی جان لے آئے گا اور پھانسی چڑھ جائے گا۔ میں اس کے مزاج سے ڈرتی ہوں۔ ہم نے اگر اسے یہ بات بتا دی تو جھگڑا لازمی ہے۔

پھر مجھے شانو نے بتایا کہ چھٹی ختم ہونے والی ہے اور اب وہ استعفیٰ دے دے گی، کیونکہ آگے چل کے یوں بھی دو بچوں کی ماں بن جائے گی تو پھر دو کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔ امی نے ایک بچہ پال دیا ہے، اب دوسرا نہیں پالیں گی۔یہ شام کا وقت تھا۔ طارق گھر پر نہ تھا۔ ایک لڑکا گھر آیا اور رقعہ دے کر چلا گیا۔رقعہ منور کا تھا۔ لکھا ہوا تھا، میں بھی دھن کا پکا آدمی ہوں، تمہیں بھولا نہیں ہوں۔ تم نے اسکول آنا چھوڑا ہے، تو میں تمہارے گھر کے نزدیک آ کر رہنے لگا ہوں۔ اب جب تمہارا شوہر گھر پر نہ ہو گا، تو کسی بہانے گھر آ کر دیدار کر لوں گا۔شانو نے رقعہ پڑھا تو ڈر گئی۔ اس نے مجھے رقعہ تو نہ دکھایا، کہتی تھی کہ آگ میں جھونک دیا ہے۔ مگر اب وہ گھر میں اکیلے رہنے سے ڈرتی تھی۔ طارق بھائی ذرا شام کے بعد گھر سے باہر جانے لگتے تو انہیں روکتی، منت کرنے لگتی کہ مت جائیے، مجھے اکیلے گھر میں ڈر لگتا ہے، منور روز گھر آتا ہے۔طارق آخر مرد تھا۔ مرد آزاد طبیعت ہوتا ہے۔ کب تک کوئی عورت اس کو اپنی مرضی سے روک سکتی ہے؟ طارق، شانو کی اس قسم کی روک ٹوک سے تنگ آ گیا تھا۔ پھر بھی وہ شانو کا کہا مان لیتا تھا اور شام کے بعد گھر سے باہر رہنا اس نے چھوڑ دیا تھا۔لیکن ایک دن اس نے بیوی سے کہا، شانو، کتنے دنوں سے میں تیرا کہنا مان کے گھر سے باہر نہیں گیا۔ قیدی بن گیا ہوں۔ آج تو مجھے مت روکنا، میں فلم دیکھنے ضرور جاؤں گا، میں نے دوستوں سے وعدہ کیا ہوا ہے۔شانو بولی، آج تم مت جاؤ، میرا دل گھبرا رہا ہے، کل چلے جانا۔طارق جانتا تھا کہ وہ روز ہی ایسا کہتی ہے۔ اس نے جان چھڑانے کو کہا، “اچھا، میں فلم دیکھنے کے لیے نہیں جا رہا، سامنے والی دکان پر جا رہا ہوں، اچھا، پانچ منٹ میں آ جاؤں گا، تو دروازہ بند مت کرنا، کھلا رکھنا…اس نے تو یہ اس لیے کہا تھا کہ شانو اس کی بات کا یقین کر لے اور اسے جانے سے نہ روکے، مگر شانو سمجھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے اور ابھی آ جائے گا۔ اس بیچاری نے دروازہ بند نہ کیا اور بچے کو سلانے کے لیے اس کے ساتھ جا کر لیٹ گئی۔ پھر بچے کو سلاتے سلاتے نہ جانے کیسے اس کی آنکھ لگ گئی۔منور کا ایک آدمی، جو طارق بھائی کا نیا نیا دوست بنا تھا، اسے دوستی کا چکر دے کر سنیما لے گیا۔ شانو گھر میں اکیلی تھی۔ منور کو موقع مل گیا۔ اس ضدی آدمی نے اپنی ضد پوری کرنے اور شانو کو نیچا دکھانے کے لیے یہ چال چلی تھی۔جب وہ شانو کے سرہانے پہنچا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ اپنے سرہانے منور کو کھڑا پایا تو اس کے منہ سے چیخ نکل گئی، مگر جلد ہی منور نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس کے بعد جانے کیا ہوا، وہ منظر تو کوئی نہ دیکھ سکا۔ البتہ جب فلم دیکھ کرطارق بھائی لوٹے تو شانو اس دنیا میں نہ تھی۔

شکر ہے کہ ظالم نے معصوم بچے کو زندہ رہنے دیا۔ بہرحال ڈاکٹروں نے یہی رپورٹ دی کہ شانو نے اپنی عزت بچانے کی خاطر جان دی ہے۔میں تو جو کچھ جانتی تھی، سب طارق بھائی کو بتا دیا تھا۔ انہوں نے منور کے خلاف رپورٹ بھی درج کروائی تھی۔ شانو کے جسم پر چاقو کے گہرے زخم تھے، اس نے بڑی بہادری سے لڑتے لڑتے جان دی تھی۔منور کچھ عرصہ حوالات میں رہا، پھر عدم ثبوت کی بنا پر سزا سے بچ گیا۔ اس دنیا میں اپنے جرم کی سزا سے چھوٹ گیا، مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اگلے جہاں میں نہیں چھوٹ پائے گا۔ کاش! میں اس کے خلاف گواہی دے سکتی تو شاید اس کو سزا ہو بھی جاتی، مگر میں اپنے گھر والوں کی وجہ سے مجبور تھی۔آج بھی شانو کا زخم دل میں ہرا ہے اور ہمیشہ ہرا ہی رہے گا۔

Latest Posts

Related POSTS