میری ماں چھوٹے سے شہر میں رہتی تھیں۔ زیادہ پڑھی لکھی بھی نہ تھیں۔ والد لاہور میں پڑھنے گئے تھے اور آمی، گائوں میں تھیں۔ ابو بیمار ہو کر اسپتال داخل ہوئے تو ایک نرس نے خوب خدمت کی۔ ابو اس سے متاثر ہو گئے۔ وہ اس کی ظاہری چمک دمک پر مر مٹے اور نرس کے گھر والوں نے ابو کو دوسری شادی کے لئے آمادہ کر لیا۔ ان دنوں میں ڈیڑھ سال کی اور میری چھوٹی بہن عابدہ صرف دوماہ کی تھی۔ نرس کے گھر والوں نے اس شرط پر رشتہ دینا منظور کیا تھا کہ پہلی بیوی کو طلاق دینی ہو گی۔ ابو پر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔ انہوں نے کوئی چارہ نہ دیکھ کر محبوبہ کو اپنانے کے لئے اپنے جذبوں کے سامنے گٹھنے ٹیک دیئے۔ میری ماں بیچاری اپنے سہاگ کے لئے دعائیں مانگتی رہ گئی کہ بیمار تھے اور اسپتال میں تھے اور ان کے سہاگ نے طلاق لکھ کر میری ماں پر ہمیشہ کے لئے خوشیوں کے دروازے بند کر دیئے۔ ابولاہور میں تعلیم مکمل کرنے گئے تھے اور گھر بسا کر بیٹھ گئے۔ میری ماں کو شادی کے محض ڈھائی سال بعد طلاق ہو گئی۔ دادا، دادی کے گھر میں طلاق یافتہ بہو کے لئے جگہ کہاں تھی۔ والد کے اس عمل سے کتنے لوگ تباہ ہوئے اور کتنی زندگیاں عمر بھر کے لئے دُکھوں کے کنویں میں گر گئیں۔ میری ماں اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے پیارے رشتے ، میرا پورا ننھیال اور سب سے بڑھ کر ہم دونوں بہنیں، جو اس وقت بہت کم سن اور معصوم تھیں، جن کو دنیا کا پتا نہ تھا۔ ماں کو ماموں آ کر لے گئے۔ ہم دونوں بہنیں اتنی چھوٹی تھیں کہ ماں کے بغیر رہنا مشکل تھا لہذا ہم بھی ماں کے ہمراہ تھے۔ دوسال تک ہمارے والد محترم کو نئی دلہن کا نشہ رہا اور انہوں نے پلٹ کر ہماری خبر نہ لی۔ اس دوران میرے چاچا لاہور گئے اور آبا کے گھر قیام کیا۔ ان کو دادی نے والد کی خیریت معلوم کرنے کو وہاں بھیجا تھا۔ بھابھی نرس نے چاچا کو دیکھتے ہی فورا اپنی سترہ برس کی بہن کو گھر بلوالیا جو میٹرک پاس اور خوبصورت بھی تھی۔ اس تیز طرار لڑکی نے ایسا چاچا کا من اپنی من موہنی باتوں سے گھیرا کہ یہ معرکہ شادی کے خوش گوار انجام کو پہنچا۔ اب دونوں بہنیں دونوں بھائیوں کے گھر تھیں۔ ان دنوں میں دادی سے ملنے ددھیال آئی ہوئی تھی۔ باپ کی جب مجھ پر نظر پڑ تو ان کو خیال آیا کہ دو بچیاں بھی ان کی پہلی شادی کی بد نصیب نشانیاں ہیں۔ دادی سے انہوں نے مشورہ کیا اور میری ماں کو کہلوا بھیجا کہ ہماری لڑکیاں واپس کر دو۔ ہم خود ان کی پرورش کر لیں گے۔ ماموں میری ماں کی دوسری شادی کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھی ہم سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے کیونکہ ہم دو معصوم جی ، ماں کی شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ انہوں نے امی کو مجبور کر دیا کہ جب تم کو بے قصور طلاق دی ہے، تو بچیاں بھی خود پالیں۔ ہم کیوں ان کی ذمہ داری لیں۔ ماں تو بھائیوں کے رحم و کرم پر تھیں ، ان کے پاس رہنے کا اور کون سا ٹھکانہ تھا؟ گرچہ یہ دُکھوں کی ماری اپنی معصوم کلیوں کو کب ممتا کی آغوش سے جدا کرنا چاہتی تھی مگر ظلم سے مجبور ہو کر مجھے دادی کو دے دیا تا ہم میری چھوٹی بہن نے تو ابھی چلنا اور بولنا بھی نہ سیکھا تھا، لہذا رو پیٹ اور منت سماجت کر کے امی نے اس کو ددھیال کے سپرد نہ کیا۔ یوں ایک بیٹی ماں کے حصے میں آئی دوسری باپ کے حصے میں۔ میں اپنی ماں سے چھوٹی عمر میں جدا ہوئی تھی، اس وقت کا دُکھ ایسا تھا کہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ میرے تیسرے چاچا کی بھی شادی ہو چکی تھی۔ دو چاچا اور ان کی بیگمات دادی جان کے پاس رہ گئے۔ ابو کو لاہور میں ملازمت مل گئی اور وہ نرس بیوی کے ہمراہ لاہور میں ہی قیام پذیر ہو گئے۔ میں اب پھپھیوں اور چاچیوں کے رحم وکرم پر تھی۔ جب چھوٹی سی تھی ، دادی، ماں کی محبت دیتی تھیں۔ اس محبت کے سہارے بچپن کاٹ دیا کبھی ایک چاچی کے باورچی خانے اور ان کے بچوں کے ساتھ جا بیٹھتی، وہ دھتکارتے تو دوسری کے پاس اور اور جب سبھی لاوارثوں جیسا سلوک کرتے تو روتی ہوئی دادی سے جا چمٹتی۔ شروع میں تو دادی نے بڑا پیار دیا اور خصوصی توجہ دی مگر جوں جوں بڑی ہوتی گئی، پیار میں کمی آتی گئی۔ گھر میں سبھی بچے ماں باپ والے تھے ، اس لئے ان کو مجھ پر فوقیت تھی۔ میں گھر میں سب سے زیادہ فالتو بچہ بن کر رہ گئی تھی۔ روتے دھوتے بچپن بیتا۔ بڑی ہوئی ، چچیوں، پھپھیوں کو مفت کی نوکرانی ہاتھ آگئی۔ سارے گھر کا کام میرے ہی ذمے تھا۔ چاچازاد بھائی بہنیں اسکول چلے جاتے اور میں گھر کا کام کرنے کو اکیلی رہ جاتی۔ پہلے میں بھی اسکول جاتی تھی۔ پڑھنے میں بڑی ہوشیار تھی۔ ہر سال کلاس میں اول آتی پھر مجھے ذہین طالبہ ہونے کی وجہ سے اسکول کی طرف سے وظیفہ ملنے لگا۔ آٹھویں میں تھی جب آبا اور ان کی بیوی دادی سے ملنے گائوں آئے۔ سوتیلی ماں نے دادی اور آبا کے کان بھرے کہ لڑکی کو پڑھا کر کیا کرنا ہے گھر رہ کر خانہ داری سیکھ لے یہی اچھا ہے۔ چاچی نے بھی سوتیلی ماں کی ہاں میں ہاں ملائی۔ دادی نے بہوئوں کے دبائو میں آکر مجھ کو اسکول سے اُٹھا لیا۔ مجھے دوسری بار شدید صدمہ ہوا۔ پہلے ماں سے جُدائی کا دُکھ ،دوسرا یہ صدمہ کہ میں شدید بیمار پڑ گئی- ہمارے پڑوس میں میری ہم جماعت عافیہ رہتی تھی۔ وہ میری قابل اعتبار سہیلی تھی۔ جب میں اسکول نہ گئی تو وہ میرے پاس آئی۔ مجھے سمجھایا کہ تمہاری چچیاں دراصل دن رات تم سے اپنے کام کرانا چاہتی ہیں۔ تبھی ان کو تمہارا اسکول جانا کھل رہا ہے۔ تمہاری منجھلی چاچی چونکہ تمہاری سوتیلی ماں کی بہن ہے لہذا یہ تم کو اسکول سے ہٹا رہے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔ تم ان سے کہو کہ میں سارا کام کروں گی مگر مجھے گھر پر میٹرک کی تیاری کرنے دیں۔ میں تم کو اسکول سے آکر پڑھا دیا کروں گی۔ تم میٹرک پرائیویٹ پاس کر لینا۔ میں نے سوچا، عافیہ ٹھیک کہتی ہے ، میرے اسکول جانے سے ان کا کام پڑا رہتا ہے۔ میں نے رونا دھونا ختم کیا اور عافیہ میرے لئے کتابیں لے آئی۔ خود ہی دل لگا کر گھر پر پڑھنا شروع کر دیا۔ سال گزر گیا۔ جب امتحان میں دو ماہ رہ گئے تو لامحالہ مجھے اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی- چاچیوں نے شور مچادیا کہ یہ ہڈ حرام ہو گئی ہے ، گھر کا کام نہیں کرتی۔ کام سے بچنے کے لئے جھوٹ موٹ کتابوں کا سہارا لیتی ہے۔ میں دن کو کام کرتی اور رات کو پڑھنے بیٹھتی تو کہتیں ، بجلی دیر تک جلتی ہے زیادہ خرچہ آتا ہے۔ آ کر بجلی بند کر جاتیں۔ آخر ایک روز انہوں نے میری کتابیں اُٹھا کر پھاڑ ڈالیں اور میرا تعلیم حاصل کرنے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ میٹرک کا امتحان تو نہ دے سکی مگر اس غم میں نیم پاگل ضرور ہو گئی۔ رنگ جل کر سیاہ ہو گیا، حالانکہ میری صورت اچھی بھلی تھی۔ چارپائی پر پڑ گئی۔ زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کا خیال کیا اور ان کو اپنے دُکھوں کا چارہ گر سمجھ کر خط لکھا کہ اب ظلم کی انتہا ہو چکی ہے آبا جان آپ مجھے لے جائو۔ میں اب آپ کے پاس رہوں گی۔ آبا جان کو بھی میر اخیال آہی گیا۔ خط ملتے ہی وہ چلے آئے۔ مجھے اپنے پاس لاہور لے گئے ، ان دنوں میں والد کے گھر آ کر بہت خوش تھی۔ اب تک ماں کے پیار کو ترستی تھی تو باپ نے بھی اپنی شفقت سے محروم ہی رکھا تھا۔ یہاں آکر یہ احساس تو ہوا کہ میں اپنے آبا کے گھر میں ہوں۔ کسی کی نوکرانی نہیں کہ اگر کام نہ کیا تو کھانا نہ ملے گا۔ ابو نے چند دن بہت پیار دیا، کپڑے لائے ، نئے جوتے خرید کر دیئے۔ جب دفتر سے آتے سیدھے میرے پاس آجاتے۔ سوتیلی ماں جو بلا شرکت غیرے مالک تھی اب یہ محبت کی تقسیم کیسے برداشت کرتی۔ اس نے اپنی بہن یعنی میری چچی کو لاہور آنے کا سندیسہ بھیجا۔ ایک ماہ بھی خوشی کا نہ گزرا تھا کہ چچی آگئیں پھر تو سوتیلی ماں نے خوب جھگڑا کیا کہ باپ کیوں بیٹی کو اس قدر چاہت ہے۔ ان کے یہی لچھن رہے میرا گھر ٹوٹ جائے گا۔ میں خود اس گھر کو چھوڑ کر چلی جائوں گی۔ ابو اس جھگڑے سے بوکھلا گئے اور بیوی کو مارنے پیٹنے پر تل گئے۔ تب چچی نے اُن کو روکا اور مجھے علیحد گی میں سمجھایا کہ کیوں باپ کا سکون خراب کرتی ہے ؟ واپس چل میرے ساتھ اور ان کو سکون سے رہنے بسنے دے، ورنہ تیری وجہ سے تیرے باپ کا گھر اجڑ جائے گا اور تیری یہ دو چھوٹی بہنیں بھی تیری طرح دُکھوں کے کنویں میں گر جائیں گی۔ میں نے اپنی دونوں معصوم چھوٹی بہنوں کو دیکھا جو سوتیلی ماں سے تھیں ان کے پیارے سے چہروں پر مجھے ترس آگیا، خود میں ایسا دُکھ جھیل چکی تھی کہ جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ چچی کی بات مان لی۔ آبا نے بہت روکا مگر میں ان کے گھر سے سکون کی خاطر واپس چچی کے ساتھ گائوں لوٹ آئی۔ یوں دونوں بہنوں کی چال کامیاب رہی۔ دادی کے گھر پہنچی میرے لئے ”وہی ، ہل وہی پنجابی“ مگر نفرتیں دو چند ہو چکی تھیں۔ ہر کوئی یہی طعنہ دے رہا تھا کہ ہو آئی باپ کے پاس، جو سگے باپ کے گھر نہ رہ سکی وہ یہاں کیا رہے گی ؟ میں خاموشی سے ہر ایک کا طعنہ سُنتی اور غلاموں کی طرح سر جھکا لیتی۔ کبھی اُف نہ کی۔ میرا ایک چچازاد بھائی ، میری حالت پر کڑھتا تھا۔ اس کو مجھ سے ہمدردی تھی، مگر وہ گھر والوں کے ڈر کی وجہ سے اظہار نہ کرتا تھا۔ ایک روز اس نے مجھے کہا۔ چند دن ان کے ظلم کو سہ لو ، آخر تو اس شب کا سویرا ضرور ہو گا۔ زندگی میں صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی ، روشنی بھی ہوتی ہے۔ میں اس بات کا مطلب نہ سمجھ پائی، تو ہی اپنے ہمدرد کزن کو کوئی جواب نہ دیا مگر وہ میری خاطر اپنا مستقبل بنانے میں کوشاں ہو گیا۔ منیر خوب دل لگا کر پڑھ رہا تھا۔ جلد ہی وہ برسر روزگار ہو گیا۔ اس کی لیاقت و قابلیت دیکھ ، چھوٹے چچا نے اس کو داماد بنانے کا ارادہ کر لیا۔ وہ مگر مجھ سے شادی کر کے زندگی کے سب سکھ میری جھولی میں ڈالنا چاہتا تھا۔ اس نے بھر پور مخالفت کی مگر کسی نے اس کی نہ سنی۔ سب نے اس کو کہا کہ تم بے وقوف ہو کہ نگہت کے ساتھ بیاہ رچانے چلے ہو جو منحوس اور ان پڑھ ہے۔ چھوٹے چچا کی لڑکیاں سب کی سب بڑے شہر جا کر کالجوں کی پڑھائی کر کے آئیں تھیں۔ غرض بزرگوں نے ایسا گھیرا منیر کے گرد ڈالا کہ اس کو ان کی مانتے ہی بنی اور چھوٹے چاچا کی منجھلی لڑکی شکیلہ سے اس کا بیاہ کر دیا گیا۔ وہ مجھے روشنی کے انتظار کی تلقین کرنے والا خود کسی اور کے ساتھ روشنیوں کے سفر پر روانہ ہو گیا تو میں نے بھی اس کو ہمیشہ خوش اور آباد رہنے کی دعا دی اور اس کی طرف پر نم نگاہوں سے بھی نہ دیکھا، مبادا میری نظر نہ لگ جائے۔ ادھر جب میری ماں مجھ سے جُدا کر دی گئی تو ان پر بھی قیامت ٹوٹ پڑی۔ انہوں نے اتنے آنسو میری یاد میں بہائے جتنے آسمان پر تارے ہوں گے۔ عابدہ میری چھوٹی بہن جو شیرخوار تھی جب وہ پانچ سال کی ہو گئی تو ماموں نے میری ماں کا عقدِ ثانی کرا دیا۔ وہ اپنی پانچ سال کی بچی کو بھی ضد کر کے ساتھ لے گئیں کیونکہ ممانیاں بھی میری بہن کو رکھنے پر آمادہ نہ تھیں۔ یہاں سوتیلے باپ نے میری بہن کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کیا۔ وہ دروازے سے باہر دالان میں بیٹھی روتی رہتی اور ماں اندر باپ کے پاس سسکتی رہتیں۔ بیٹی کو کمرے میں نہ سُلا سکتیں کہ اس کی موجودگی شوہر کی عیش پسندی میں حائل ہوتی تھی، تبھی میری بہن ہر وقت سوتیلے باپ کی نفرت کا نشانہ بنتی وہ ایک ایسا کانٹا تھی کہ جو نکالا نہ جاسکتا تھا۔ ماموئوں نے جب آمی، کا دوسرا بیاہ کیا تھا تو امی کے حصے کی جائیداد بھی انہوں نے اپنے نام کر والی تھی۔ انہیں یہ گوارا نہ تھا کہ اس جائیداد کے مالک ان کے بہنوئی یا اس کے بچے ہوں۔ امی اب یہاں سے بھی طلاق نہ لے سکتی تھیں کیونکہ جائیداد کا آسرا ختم ہو گیا تھا۔ ان کو اس شخص سے ہر صورت میں سمجھوتہ کرناہی تھا۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد امی کو پھر سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ جونہی ہمارا سوتیلا باپ صاحب اولاد ہوا اللہ تعالی نے اس کے دل میں رحم ڈال دیا۔ اس نے اس کے بعد میری بہن عابدہ کو کوئی تکلیف نہ دی اور نہ کبھی مارا پیٹا بلکہ اپنی بیٹی سے بھی بڑھ کر جانا۔ امی کو اپنے دوسرے شوہر سے دو لڑکیاں اور دو بیٹے ہو گئے اور وہ جوں توں کر کے زندگی کے دن بسر کرنے لگیں مگر میرے اس سوتیلے باپ کی عمر بہت کم تھی۔ جلد ہی آمی بیوہ ہو کر پھر سے بھائیوں کے در پر آگئیں۔ اس بار وہ پانچ بچوں کا بوجھ ساتھ لائی تھیں۔ ممانیوں کے لئے یہ ناقابل برداشت تھا۔ انہوں نے امی پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ ماں کو دن رات رونے سے کام تھا۔ ان کا کوئی سہارا نہ تھا، وہ بھائی بھابھیوں کے ہاتھوں میں کھلونا تھیں۔ میرے ایک ماموں کے ذہن میں بہن سے چھٹکارا پانے کی ترکیب آئی۔ انہوں نے دیہات کے رواج کے مطابق ماں کو بدلے میں دے کر نئی دلہن لانے کا پروگرام بنالیا کیونکہ ان کی بیوی ان سے پانچ برس بڑی تھی اور ان کو نو عمر لڑکی سے عقد کرنے کا ارمان تھا۔ جب ماں کو علم ہوا، وہ بہت پریشان ہوئیں۔ بھائی سے فریاد کی کہ پہلے ہی میری ایک بچی مجھ سے جدا ہے ، اب تو پانچ کا سوال ہے۔ میں ہر گز شادی نہ کروں گی، تم بھی اپنی اتنی اچھی اور وفادار بیوی پر سوکن نہ لائو اور نہ اپنے بچوں کو سوتیلی ماں کا منہ دکھائو۔ جب ماموں کسی صورت نہ مانے اور امی کو زبردستی تیسری شادی پر مجبور کرنے لگے تو وہ ان کے گھر سے چلی گئیں اور ایک رشتہ دار کے گھر پناہ لے لی۔ جاتے ہوئے صرف دو چھوٹے لڑکے ہمراہ لے گئیں۔ باقی تین بیٹیاں ماموں کے گھر ہی چھوڑ گئیں ، یوں ہم سب بہن بھائی مالا کے دانوں کی طرح بکھر گئے۔ کاش میرے باپ نے عشق نہ کیا ہوتا تو دکھوں کے یہ پہاڑ ہم پر نہ ٹوٹتے۔ میں پڑھائی سے محروم ہو کر مردہ رُوح ہو گئی تھی۔ عافیہ نے ہر طرح سے میری مدد کی اور مشورہ دیا کہ تم انڈسٹریل ہوم میں داخلہ لے لو۔ گرچہ گھر والوں نے اس امر کو نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا مگر میں نے پہلی بار ان کی پروانہ کی۔ ان کا سلوک میرے ساتھ کون سا اچھا تھا۔ جب میں نے اپنا فیصلہ نہ بدلا گھر والوں نے میرا کھانا پینا بند کر دیا۔ عافیہ نے کہا۔ جب تک خود کو اپنے پیروں پر کھڑا نہ کرو گی، غلامی کی زندگی سے نجات نہ ملے گی۔ انڈسٹریل ہوم میں جو کام آتا ہے وہ اُجرت پر لے لیا کرو۔ اپنا خرچہ خود برداشت کرنا سیکھو اور رشتہ داروں کی غلامی کا طوق گلے سے نکال پھینکو۔ چھ ماہ تک عافیہ کے گھر سے کھانا کھا کر انڈسٹریل ہوم جاتی۔ یہ سرکاری ادارہ گھر سے چند قدم پر تھا۔ غرض، عافیہ نے ہر طرح ساتھ دیا۔ دراصل وہ میری نانی کے چاچازاد کی بیٹی بھی تھی اس کو میرے حال کی سب خبر تھی۔ اب میں اس قابل ہو چکی تھی کہ انڈسٹریل ہوم میں جو کپڑے سلائی کے لئے آتے ، میں ان کو اجرت پر لے لیتی۔ ددھیالی رشتہ دار میرے اس قدم سے اتنے ناراض ہوئے کہ مجھ سے کوئی تعلق نہ رکھا، تب میں عافیہ اور دادی کے گھر کے درمیان ایک بیوہ کے گھر کرایے پر رہنے لگی۔ یہ میری دادی کی بہن کا گھر تھا، جس میں ان کی بیوہ بہو بھی اکیلی رہتی تھی۔ شوہر اور ساس مر چکے تھے اور یہ بے اولاد تھی۔ میرے رشتہ دار جو میرے وارث کہلاتے تھے ، صرف ایک دیوار ادھر رہتے تھے مگر دل سے بہت دُور تھے کہ انہوں نے نافرمانی کا الزام دے کر مجھ کو اکیلا چھوڑ دیا، یہاں تک کہ والد نے بھی خبر نہ لی۔ ماں کی صورت دیکھے برسوں گزر گئے البتہ چھوٹی بہن عابدہ کبھی کبھی ملنے آجاتی ، جو ماموں کی بہو تھی۔ اسی نے ماں کی دو بیٹیوں کا بوجھ اٹھایا تو میں اپنا بوجھ اس پر کیوں کر ڈالتی۔ تنہا زندگی کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے کبھی تو ہمت جواب دے جاتی تھی۔ دن رات لوگوں کے آرڈر لیتی، خود کو سلائی کڑھائی میں مشغول رکھتی کہ دُکھ یاد نہ آئیں مگر دُکھ پھر بھی یاد آتے اور ہمت جواب دے جاتی، تب اتنا روتی کہ ایسا آنسو بن جاتی جس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا۔ ایک دن میں ایسے ہی تنہا بیٹھی رو رہی تھی کہ ایک شناسا آواز پر چونک اٹھی۔ میں نے سر اُٹھا کر دیکھا، منیر سامنے کھڑا تھا۔ اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ منیر ! یہ تم ہو ؟ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ میری بیوی کے انتقال کو ایک برس ہو چکا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے ہوتے ہیں۔ ڈیوٹی پر جانا ہوتا ہے، ان کو اکیلے گھر میں نہیں چھوڑ سکتا۔ تم ایک احسان کرو، مجھ سے نکاح کر لو۔ میں حیرت سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ اب اس عمر میں ؟ مجھے تمہاری ضرورت ہے ، دیکھو انکار مت کرو۔ تب مجھ پر بزرگوں کا دبائو تھا۔ میں کم عمر تھا، ان کے دبائو سے نکل نہیں سکا لیکن اب میں آزاد اور خود مختار ہوں۔ میں تم سے دُور کر دیا گیا مگر تم میرے دل سے کبھی دور نہ رہیں۔ منیر، چاچا اور ابو کی رضا سے میرے پاس آیا تھا۔ ان دونوں کو میری نہیں، منیر کے بچوں کی فکر تھی۔ وہ آفیسر پوسٹ پر تھا۔ اس کی بچیاں جوان تھیں اور ان کو میرے جیسی ماں کی ضرورت تھی۔ بے شک وہ میرے چچا زاد کی بیٹیاں تھیں اور ان کی ماں بھی میرے چاچا کی بیٹی تھی۔ سو میں نے منیر سے کہا۔ ٹھیک ہے منیر ،اگر میری اندھیری شب کا یہی سویرا ہے، تو یہ سویرا مجھے قبول ہے۔ آپ جا کر چچا جان اور آبا جان سے کہہ دیجئے کہ میں لاکھ بد نصیب سہی، مگر نافرمان نہیں ہوں۔