اپنی شادی پر ابا راضی تھے اور نہ اماں مگر ان کے والدین دونوں کو نکاح کے بندھن میں باندھنے کو مرے جاتے تھے، تبھی دیکھنے والے کہتے تھے کہ اس زبردستی کی شادی کا انجام برا ہوگا۔ انجام سے بے پروا … قدرت نے مجھے میری ماں اور باپ کے درمیان نانی کے سپنوں جیسے ، پل کی صورت پیدا کر دیا۔ نانی کا خیال تھا بچی ہو گئی ہے دیکھ لینا کہ اب یہ دو کنارے ایک دوسرے سے دُور ہوتے ہوئے بھی قریب آ جائیں گے۔ ان کے بیٹی ہو گئی ہے تو نباہ بھی ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہوا۔ ابھی میں صرف چھ ماہ کی تھی کہ اماں اور ابا میں طلاق ہو گئی۔ ابا کی زندگی سے حالات کی بادِ سموم سارے پھول پتے اُڑا لے گئی تھی۔ میں بهى ببول کا کانٹا بنی، کبھی ادھر کبھی ادھر ماں اور باپ دونوں کے دل میں چبھنے لگی۔ کبھی ماں کی محبت بھری گود کو ترستی اور کبھی باپ کے پیار بھرے بولوں کو تڑپتی۔ پہلے ابا نے مجھے ماں سے چھینا، پھر زمانے نے ماں کو مجھ سے چھین لیا۔
جن دنوں اماں کو طلاق ہوئی وہ سترہ برس کی تھیں۔ خوبصورت تھیں، کیسے گھر بٹھائی جا سکتی تھیں، ان کی دوبارہ شادی کر دی گئی اور میری ماں کا گھر آباد ہو گیا ۔ نانا نانی کو سکون ملا مگر میری دنیا تو پھر بھی برباد ہی رہی۔ جب دوسرے بچوں کو اپنی مائوں سے لپٹتے دیکھتی، دل میں اک ہوک سی أنهتى ادھر اُدھر گلیوں میں بھٹکا کرتی، وہ راستے تلاش کرتی جن پر چل کر میں ماں کے پاس پہنچ جائوں، مگر وہ رستے مجھے نہ ملے کہ وہ سب کھو چکے تھے۔ مل بھی جاتے تو میں ان پر چل نہ سکتی تھی کہ ابا کی تحویل میں تھی۔ ابا جلد میری ذمہ داری سے گھبرا گئے، ایک ننھی بچی کی پرورش، بن ماں کے آسان نہیں تھی۔ مرد کے لئے کمانا تو آسان ہوتا ہے بچے پالنا مشکل ہے۔ ابا نے میری نانی سے التجا کی کہ مجھے گود لے لیں۔ نانی ان کی قریبی رشتہ دار تھیں اور میں ان کے جگر کا ٹکڑا اور ان کی چہیتی بیٹی کی اولاد تھی۔ کیسے انکار کر سکتی تھیں۔ جھٹ ہامی بھر لی۔ میں باپ کے گھر سے نانی کے گھر آ گئی، اس شرط پر وہ مجھے میری ماں کے حوالے نہیں کریں گی۔ کیونکہ والد نہیں چاہتے تھے میں سوتیلے باپ کے ٹکڑوں پر پلوں۔ پہلے ماں کی جدائی کا دکھ سہا، پھر باپ سے دوری کا دکھ بھی سہہ لیا۔ والد نے میرے خرچہ کا ذمہ اٹھا لیا اور میں در در بھٹکنے سے بچ گئی۔ نانی کو میرے آ جانے سے سکون مل گیا اور میں تائی پھوپھیوں کے گھروں جا رہنے سے بچی۔ ماں بھی خوش ہوگئی کہ چلو اپنے پاس نہ رکھ سکوں گی بیٹی کی صورت تو دیکھ جائوں گی۔ ہمیشہ کی دوری سے کبھی کبھی کا ملاپ اچھا ہے۔ ایک دوجے کی شکلیں تو نہ بھولیں گے، مگر جو یہ کہتے ہیں کہ مر کر بچھڑ جائیں تو صبر آ جاتا ہے یہ کبھی کبھار کا ملنا … پیار کی پیاس کو اور بھڑکا دیتا ہے۔ یہی ہوا کہ جب ماں نانی کے گھر آئیں، مجھ سے ملتیں رونے لگتیں۔ میں بھی ان کو روتا دیکھ کر روتی اور ان سے لپٹ جاتی۔ امی نانی کو کہتیں۔ میری بیٹی مجھے دے دو، اس کے بغیر سکون نہیں ہے۔ نانی عذر کرتیں کہ اس کا باپ مجھ سے وعدہ لے گیا ہے، اس بڑھاپے میں مجھ کو جھوٹا نہ بنائو، میرے سفید بالوں کی لاج رہنے دو۔ وہ مجھے جی جان سے اوپر رکھتیں لیکن یہ قدرتی امر ہے کہ جب ماں آ کر روتی دھوتی تو میرا دل بھی ان کی طرف کھنچنے لگتا اور میں ان سے یوں لپٹ رہتی جیسے ایک بیل درخت سے لپٹ جاتی ہے۔ تب ماں کی جُدائی موت لگنے لگی۔ ہر دم یہی چاہتی کہ ماں کے ساتھ چلی جائوں مگر بوڑھی نانی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر انہی کے پاس رہنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھار میرے سوتیلے والد بھی امی کے ساتھ نانی گھر آجاتے تھے اور ہم ماں بیٹی کا یہ اداس ملاپ دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتے تھے۔ بالآخر یہ روز روز کا رونا دھونا رنگ لے آیا۔
ایک روز جبکہ نانی اسپتال گئی ہوئی تھیں سوتیلے باپ نے مجھے امی کی بیماری کا کہہ کر ورغلا لیا اور اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ میں ماں کے گھر آ کر خوش ہو گئی اور نانی کا سارا پیار بھول بیٹھی کہ ماں آخر ماں تھی اور اس کے پیار کی بو باس ہی سب سے جدا تھی۔ سوتیلا باپ بھی کچھ ایسا برا نہ تھا۔ محبت جتلاتا اور نرمی سے پکارتا تھا۔ ہر فرمائش پوری کرتا کسی چیز کی کمی نہ ہونے دیتا۔ یہاں آ کر روح کے کافی کرب دور ہوگئے تھے۔ وہ خلاء بھی بھر گیا جو ماں باپ کی جدائی سے دل میں پیدا ہوگیا تھا۔ میں خاصی آسوده ہو گئی۔ اب لگتا تھا جیسے کسی نے راستے کے پتھر کو اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیا ہو اور آنے جانے والوں کی ٹھوکروں سے بچا لیا ہو۔ تیره سال تک سوتیلے باپ نے مجھے باپ جیسی محبت دی۔ اور اس پیار میں ذره بهر بهی کمی نہ آنے دی لیکن جب میں سولہ برس کی ہوگئی تو اچانک اس کی محبت اور اُنسیت ایک نئے رنگ میں بدل گئی۔ اب اس کی نظروں میں باپ کا سا بے لوث جذبہ نہ رہا۔ جیسے وہ کسی دوسری سوچ میں غرق رہنے لگا ہو۔ اس کے چہرے پر کوئی اور ہی تاثر ابھر آیا تھا۔ اب مجھے اس شخص سے ڈر آنے لگا۔ اس کی طرف دیکھنے سے خوف محسوس ہوتا اور کبھی کبھی تو اس کی گہری آنکھوں سے جھرجھری آ جاتی۔ وہ گھر جو پہلے میرے لئے چمن جیسا تھا جہاں میں ایک کومل کلی کی طرح کھلی رہتی تھی اب وہی گھر مجھ کو ایک اندھیرا اور سنسان ویرانہ لگنے لگا تھا۔ ایک روز جب امی پڑوس میں گئی ہوئی تھیں، میں اکیلی بیٹھی سبزی بنا رہی تھی کہ میرا یہ نام نہاد باپ آ گیا، مجھ کو تنہا دیکھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے اس کی جانب دیکھا۔ اُس کا چہرہ مجھے ایسا نظر آیا کہ میرے منہ سے چیخ نکل گئی، اس کی نگاہوں میں بھیڑیئے جیسی جھپٹ تھی سوچا در کھول کر نکل بھاگوں کہ خدا کو مجھ پر ترس آ گیا۔ اُسی وقت میری ماں آ گئی۔
ماں نے مجھے ڈرا سہما دیکھا تو ان کی چھٹی حس بیدار ہوگئی۔ بولیں۔ ندا کے ابا پڑوسن نے ہماری بیٹی کے لئے ایک اچھا رشتہ بتایا ہے۔ اب میں اس کا بیاہ کرنے چلی ہوں۔ ہاں… میں بھی اسی فکر میں ہوں۔ ابا نے اماں کو جواب دیا۔ خدا کسی لڑکی سے اُس کے باپ کا سایہ نہ چھینے کہ اس کو باپ کی مضبوط پناہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس دن کے بعد سے ایک لمحہ بھی مجھ کو چین نصیب نہ ہوا اور میں ہر پل خوف کی بارش میں بھیگتی رہی۔ ماں بھی بخوبی جان چکی تھی کہ میں اس کے شوہر پر بوجھ ہوں اور کسی بھی وقت ہم ماں بیٹی کے سروں پر اعتماد کی چھت گر سکتی ہے۔ اب وہ اُٹھتے بیٹھتے کہتیں۔ ندا کے ابا اس کا بیاہ کر دو اب جوان بیٹی کا گھر بٹھائے رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ ميرا سوتیلا باپ، ماں کے اس روز روز کے تقاضے سے اوب گیا۔ اس نے سوچا جس لڑکی کا اتنے برس خرچہ اُٹھایا، اس پودے کو برسوں سینچا، اب اس کی چھائوں دوسرے گھر جائے گی تو پھر مفت میں کیوں، کچھ وصول تو ہونا چاہئے۔ اس نے میرے لئے رشتہ تلاش کر لیا۔ ماں خوش تھی کہ ندا بیاہی جا رہی ہے، اب سکھ کا سانس لیں گے مگر سوتیلے باپ نے یونہی میری شادی پر خرچہ نہیں کیا تھا، بلکہ سودا کیا تھا کہ نکاح کے بدلے اس بھلے مانس سے میرے بچپن سے اب تک کا خرچہ بھی وصولے گا۔ جس سوداگر نے سودا کیا، اس نے بھی سوچ سمجھ کر ایک موٹی رقم میرے بدلے میرے سوتیلے باپ کی جیب میں ڈالی تھی۔ اس شخص کا نام مراد تھا اور اس کا بھائی فلمی دنیا میں ایکسٹرا لڑکیاں سپلائی کرتا تھا، اس نے بھائی کو کہا۔ یہ کیسی رہے گی…؟ سونے کی کانہے بھیا۔ اس نے جواب دیا تو میں نے سمجھ لیا کہ اور بھی قیامتیں ابھی میری منتظر ہیں۔
میرے شوہر کی دراصل یہ دوسری شادی تھی۔ پہلی بیوی سے چھ بچے تھے۔ جس کو اس نے علیحدہ رکھا ہوا تھا۔ اس کو اب بیوی نہیں اس کے حالات سدھانے والی کوئی مددگار چاہئے تھی۔ شوہر اور دیور کے درمیان ایسی بات سنی تو فیصلہ کر لیا کہ ایک نئے جہنم میں گرنے کی بجائے یہاں سے نکل جانا ہی بہتر ہے، لہذا ایک روز موقع پا کر میں گھر سے فرار ہو گئی۔ اپنے تئیں تو بھاگی تھی مگر جس پنچھی کے پر کٹ چکے ہوں اس کی اُڑان کہاں تک ہوگی۔ رستے میں ہی دھر لی گئی… ایک پولیس والے نے بد حال پھرتے دیکھا تو قریب آیا اور بولا ۔ میں دیکھ رہا ہوں تم ادھر ادھر گھوم رہی ہو ، تمہارا گھر کہاں ہے؟ چلو میں تم کو تمہارے گھر پہنچا دوں۔ میں نے کہا کہ تم مجھے اپنے صاحب کے پاس پہنچا دو، میں ان کو ہی اپنے بارے میں بتائوں گی۔ وہ سپاہی بڑا حیران ہوا ہوا کہ یہ کیسی لڑکی ہے جو خود حوالات جانا چاہتی ہے۔ پہلے تو اس نے مجھے سمجھایا، اپنے گھر چلنے کی بھی پیشکش کی میں نہ مانی تو تھانے لے آیا۔ کرسی پر جو شخص نظر آیا وہ معقول نہ لگ رہا تھا۔ میں ایک طرف بیٹھ گئی۔ اس نے میرے بارے سوال کیا۔ اہلکار نے کہا یہ لڑکی اپنا پتا نہیں بتاتی۔ کافی دیر سے ادھر اُدھر گھوم رہی تھی، میں یہاں لے آیا۔ میں نے انسپکٹر سے کہا کہ آپ مجھ کو قابل اعتماد لگتے ہیں۔ میں آپ کو اپنی مشکل بتا دیتی ہوں۔ وہ بولا ۔ ابھی میرے پاس وقت نہیں، کسی جگہ جانا ہے۔ واپسی آ کر تمہاری بات سُن لوں گا۔ اہلکار سے کہا کہ ابھی اس کو حوالات میں بٹھا دو۔ آکر بات بھی سنوں گا اور فیصلہ بھی کروں گا۔ وہ چلا گیا۔ صبح سے شام ہو گئی، وہ شخص نہ آیا۔ لیکن وہاں ایک اور عمر رسیدہ اہلکار بھی تھا۔ جو چپ چاپ میری بے بسی کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ وہ نرم دل رکھتا تھا۔ میرے حال پر کڑھ رہا تھا، مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ اس نے موقع پاکر مجھے کہا۔ یہ میرے دوست کا موبائل فون ہے، اس میں ایس پی صاحب کا نمبر ہے، نام بھی بتایا کہ ان کو فون کر کے اپنا احوال مطلع کرو۔ اس سے پہلے کہ انسپکٹر آ جائے وہ جانے تمہارے ساتھ کیا برتائو کرے، جبکہ ایس پی صاحب ٹھیک آدمی ہیں ہر بات سچ سچ بتانا۔ میں نے واش روم میں جا کر آہستہ آواز میں اپنا احوال ایس پی صاحب کو بتا دیا۔ وہ اسی وقت وہاں آ گئے۔ پوچھا بیٹی اب تم کہاں جانا چاہتی ہو۔ اپنے کسی قابل اعتماد رشتہ دار کا گھر بتائو ؟ جہاں تم جانا چاہتی ہو۔ میں نے سوچا کس کا نام بتائوں۔ میرا اپنا ہے کون؟ باپ ہے تو مگر ان کو کیا پتا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کیا بیتی ہے وہ تو یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ نانی وفات پا گئی تو ماں لے گئی۔ ماں کے پاس ہی ہوگی۔ میں نے بھی ماں کی اوڑھنی میں چھپ کر اپنے سگے والد کے پاس جانا تو کیا ان سے . ملنا بھی گوارا نہ کیا تھا۔ انہوں نے ایک دو بار کوشش کی تو اس ڈر سے چھپ گئی کہ کہیں وہ مجھ کو ماں سے چھین کر نہ لے جائیں۔
پندره برس بعد تو یقیناً اب انہوں نے مجھے مرا ہوا ہی سمجھ لیا ہوگا۔ اس وقت میرے دل کی حالت تو وہی جان سکتا ہے کہ جس کے رشتہ دار موجود ہوں مگر پھر بھی جس کا کوئی نہ ہو۔ اچانک مجھے رجو خالہ کا خیال آ گیا۔ یہ میری نانی کی رشتے کی بھانجی تھیں اور اکثر ان سے ملنے آیا کرتی تھیں۔ وہ مجھ کو بچپن میں بہت پیار کرتی تھیں۔ میں نے ایس پی صاحب کو بتایا کہ میں اپنی رجو خالہ کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ انہوں نے نمبر پوچھا۔ مجھے ان کا نمبر معلوم نہ تھا مگر نانی کے گھر کی پچھلی گلی میں اُن کا گھر معلوم تھا۔ میں نے انہی کے گھر جانے کی خواہش کر دی۔ انہوں نے مجھ کو رجو خالہ کے گھر پہنچایا اور ان کے شوہر کو تھانے بلا کر بیان لے کر مجھے ان کے حوالے کر دیا۔ رجو خالہ مجھے دیکھتے ہی لپٹ گئیں۔ رونے لگیں تمام احوال ان کو بتایا، گرچہ ان کے مالی حالات بہت خراب تھے پھر بھی انہوں نے مجھے رکھ لیا۔ ان کے بھائی وکیل تھے، ان سے میرا کیس بتایا۔ انہوں نے خلع کروا دی اور پھر خالہ نے اپنے بیٹے ارجمند سے میرا نکاح پڑھوا دیا۔ میں نہ ماں سے ملی اور نہ باپ سے۔ ارجمند کا گھر ہی اب میرا گھر تھا۔ یہاں انسانیت، محبت، شرافت تو تھی مگر کھانے کے لالے پڑے تھے۔ ارجمند کی نوکری نہ تھی۔ ان کے والد کی قلیل پنشن پر گزارا چل رہا تھا۔ ایک روز خالہ بولیں، بیٹی اگر برا نہ مانے تو جہاں میں کام پر جاتی ہوں تو بھی چل۔ ایک سے دو بھلے ہوتے ہیں۔ جب تک ارجمند کو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ملتا، ہم اپنے گھر کی گاڑی کو خود کھینچیں گے۔ کیوں نہیں خالہ اگر آپ کام کر سکتی ہیں تو میں کیوں نہیں۔ اس طرح میں خالہ، رجو کے ساتھ گارمنٹ فیکٹری جانے لگی اور جلد ہی وہاں کام سیکھ لیا۔ میں بچوں کے کپڑوں کی مشین پر سلائی کرتی تھی۔ اس طرح ہماری آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا۔
خالہ کافی عرصہ سے اس فیکٹری میں سلائی کر رہی تھیں، ان کو سب فیکٹری والے جانتے تھے مگر بیٹے کی نوکری کے لئے مالک کو کہنے سے گھبراتی تھیں۔ ارجمند نے گریجویشن کیا ہوا تھا مگر ان کے لحاظ سے فیکٹری میں کام نہیں تھا۔ ایک روز میں نے مالک سے ارجمند کی نوکری کی بات کی۔ انہوں نے ان کو آفس میں ملازمت دے دی اور تنخواہ بھی معقول تھی۔ ارجمند نے نوکری ملتے ہی مجھے فیکٹری آنے سے منع کر دیا کیونکہ میں اُمید سے ہو گئی تھی۔ ہم دو عورتوں کی آمدنی سے بڑھ کر ارجمند کو تنخواہ مل جاتی تھی۔ اللہ نے برکت دی اور ان کی تنخواہ میں بیٹی کی پیدائش والے دن اضافہ ہوvگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میری بیٹی اچھا نصیب لے کر آئی ہے اور میں دعا کرتی کہ خدا کرے میرے جیسا میری بیٹی کا نصیب نہ ہو۔ اس بات کو عرصہ بیت چکا ہے۔ ارجمند اب فیکٹری میں منیجر ہیں اور ہم خوش حال زندگی گزار رہے ہیں مگر میں آج بھی جھگڑے اور طلاق سے ڈرتی ہوں۔ خدا کرے کسی کے بچے ماں باپ کی طلاق کا ایندھن اور دنیا کے لئے ترنوالہ نہ بنیں۔ میں نے شادی کے بعد کبھی اپنے شوہر سے جھگڑا نہیں کیا تاکہ میرے بچے باپ کی شفقت کے سایہ تلے پُرسکون ماحول میں پلیں۔