جب کوئی نئی روح اس دنیا میں آتی ہے، ماں کی گود کی گرمی اس کے لیے پہلی نعمت ہوتی ہے جو اسے طمانیت بخشتی ہے۔ میں نہیں جانتی میرا کیا قصور تھا کہ یہ انمول گود اور اس کی ممتا بھری طمانیت میرے نصیب میں کم عرصے کے لیے لکھی گئی تھی۔ میں چھ ماہ کی تھی کہ والدہ اس دنیا میں مجھ کو بلکتا چھوڑ کر چلی گئیں۔ مجھ ننھی سی جان کا بلکنا کسی سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ پہلے پڑوسن نے مجھے گود میں لیا، مگر میرا رونا بند نہ ہوا۔ شاید میرے ننھے سے شعور نے تبھی سے کام شروع کر دیا تھا کہ میں ماں کی خوشبو کو پہچانتی تھی۔ روروکر میں نے پڑوسن کا برا حال کر دیا۔ جب وہ مجھے سنبھالنے سے عاجز ہوئیں تو میرے والد سے کہا، بھائی صاحب، آپ کی لڑکی بڑی سیانی ہے۔ یہ گود پہچانتی ہے، مجھ سے دودھ نہیں پیتی، یہ تو بھوکی مر جائے گی۔ آپ اپنی بہن یا بچی کی خالہ کو بلوائیں۔ خالہ ابو سے کہہ چکی تھیں کہ بچی مجھے دے دو۔ لہذا والد انہیں گھر لے آئے۔ انہوں نے یہ ترکیب چلی کہ میری ماں کے کپڑے پہن لئے اور ان کی چادر اوڑھ کر مجھے گود میں اٹھایا تو میں چپ ہو گئی۔ خالہ شنو کو ماں سمجھ کر بہل گئی۔ چار برس شنو خالہ نے پرورش کی۔ اب والد کے جی میں آئی کہ اپنی بیٹی کو لے آنا چاہیے۔ جب وہ مجھے لینے آئے تو خالہ رونے بیٹھ گئیں۔ وہ مجھ سے محبت کرتی تھیں۔ والد سے کہا، بھیا جی، تم اکیلے رہتے ہو، مہرو کو کیسے رکھو گے؟ اس کو میرے پاس ہی رہنے دو۔ جب اس کی نئی ماں لاؤ گے تو لے جانا اور رکھ لینا اپنے پاس۔ آپ کی والدہ تو بہت بوڑھی ہیں، ان کو تو ٹھیک طرح سے نظر بھی نہیں آتا، کیسے اس ننھی سی جان کی پرورش کر پائیں گی۔ ابو پھوپی کے پاس گئے۔ انہوں نے ابو کی دوسری شادی کرادی۔ کہا کہ کب تک اکیلے جان گھلاتے رہو گے اور کب تک تمہاری نگری سونی رہے گی؟
گھر والی آئی تو گھر کا روپ بدل گیا۔ مدت بعد ابو کے سونے مکان میں پھر سے بہار آگئی تھی، مگر زندگی میں پھر بھی کچھ کمی تھی۔ دراصل یہ بہار میرے بغیر ادھوری تھی۔ والد مجھ کو بہت چاہتے تھے۔ مزید مجھ سے جدانہ رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے خالہ شنو سے جا کر کہا، میری امانت مجھے لوٹا دو، اس کی ماں آگئی ہے۔ یہ سن کر خالہ کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ انہوں نے مجھے بہت پیار سے پالا تھا۔ وہ میرے اداس ہو جانے سے بھی گھبرارہی تھیں کیونکہ میں تو انہی کو ماں سمجھتی تھی اور امی کہہ کر بلاتی تھی۔ چار برس کا میرا ذہن بھلا اس تبدیلی کو کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ میں خالہ شنو کو ماں پکارتے پکارتے اب ایک نئی عورت کو ماں کہنے لگوں۔ والد نے ان کی خدمات کا بھی خیال نہ کیا اور ایک روز وہ مجھے زبردستی گھر لے آئے اور اس نئی عورت کی گود میں دے کر کہا، ثریا، اب یہ تمہاری بیٹی ہے۔ اس کو ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دینا۔ میں نا سمجھ تھی۔ ماں باپ کے درمیان ان معاہدوں سے بے نیاز، ابو کے لائے کھلونوں سے کھیلنے لگی مگر خالہ میرے مسائل سے غافل نہیں تھیں۔ وہ اب روز صبح اپنے گھر سے آجاتیں اور رات تک رہتیں۔ وہ مجھے سلا کر گھر جاتیں تاکہ میں اپنے باپ کے گھر اور نئی ماں سے مانوس ہو جاؤں۔ یقینا سوتیلی ماں نے مجھے بہت توجہ اور پیار دیا ہو گا، تبھی تو میں ان سے مانوس ہو گئی تھی۔ جب میں پانچ برس کی ہو گئی تو ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے میری زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک بیکری تھی۔ ایک روز ماں نے کہا، مہرو، جا کر بیکری سے بسکٹ لے آؤ۔ انہوں نے مجھے پیسے دیئے۔ میں پہلے بھی کبھی کبھی اس دکان سے بسکٹ لے آیا کرتی تھی، مگر اس روز شاید میری قسمت کا ستارہ گردش میں تھا۔ نوٹ مٹھی میں دبائے بیکری گئی تو دکاندار اندر سے ڈبل روٹی کی ٹرے اٹھانے گیا ہوا تھا۔ تبھی ایک اجنبی وہاں آگیا۔ اس نے میرے منہ پر رومال رکھ دیا۔ اس کے بعد خبر نہیں میرے ساتھ کیا ہوا۔ یقیناً اس کے پاس گاڑی ہو گی اور اس کے ساتھی بھی ہمراہ ہوں گے جو مجھے گاڑی میں ڈال کر وہاں سے اٹھا لائے تھے۔ ہوش آیا تو ایک اجنبی گھر میں چار پائی پر پڑی تھی۔
اس گھر میں کافی سارے لوگ موجود تھے۔ ان لوگوں کو دیکھ کر مجھے ڈر لگنے لگا۔ انہی میں سے ایک بوڑھی عورت میرے پاس آکر بیٹھ گئی اور مجھے پیار کرنے لگی، مگر اس کے پیار نے اور غمزدہ کر دیا۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے رٹ لگارکھی تھی کہ مجھے گھر لے چلو، مجھے اپنے ابو اور امی کے پاس جانا ہے۔ اتنے میں وہی آدمی آگیا جو مجھے اٹھا کر لایا تھا۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ چیزیں تھیں، مجھ سے پیار سے بات کرنے لگا۔ کہنے لگا، بیٹی، مت رو لو، یہ کھالو۔ جب تم کھا لو گی تو میں تم کو تمہارے ماں باپ کے پاس لے جاؤں گا۔ مجھے تو اس آدمی پر غصہ تھا۔ میں نے روتے روتے اپنے فراک کی جیب میں کہا، میں تمہاری چیزیں نہیں کھاؤں گی، میرے پاس میرے اپنے بسکٹ ہیں۔ تب اس نے مجھے ڈانٹا، بہت ہوشیار بنتی ہو، کب تک کھاؤ گی اپنے یہ دو بسکٹ؟ وہ دن کیسے گزرا، کیا بتاؤں، اس کا ایک ایک پل یاد ہے جو آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہے۔ وہاں ایک عورت کافی خوش شکل تھی۔ اس نے مجھے بہت پیار کیا۔ گلے سے لگایا۔ اس کا چہرہ مہربان تھا تو میں اس کے بازوؤں میں چھپی رہی۔ اس کے ہاتھ سے کچھ کھایا پیا۔ اس نے مجھے سلا دیا۔ شاید وہ مجھے کھانے میں کچھ کھلاتے تھے تاکہ میں دیر تک سوتی رہوں، اپنا ماضی بھول جاؤں، حتی کہ اپنا گھر، اپنے گھر والوں کے نام، اپنا شہر اور گلی محلہ بھی۔ دن گزرتے گئے۔ یہاں زیادہ تر عورتیں تھیں جو نہ مجھے جھڑکتی اور نہ سختی کرتیں۔ پیار سے بات کرتیں، میرا خیال رکھتیں اور اچھے سے اچھا کھانے کو دیتیں۔ میرے لئے عمدہ لباس لاتی تھیں۔ ایک مجھے پڑھنا، لکھنا سکھاتی اور دوسری سپارہ پڑھاتی۔ ایک استاد صاحب آتے، وہ میری تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دے رہے تھے۔ وہی مجھے رقص اور گانا بھی سکھاتے تھے۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ کس لئے اور کیوں وہ سب مجھ پر محنت کر رہے تھے، لیکن اب سمجھ چکی ہوں کہ وہ ایسا پودا سینچ رہے تھے جس کو درخت بنانا تھا اور جس کا ان کو پھل کھانا تھا۔ میں صرف چھ ماہ وہاں رہی۔ ایک روز ایک شخص میرے لئے فرشتہ بن گیا۔ یہ کوڑا اٹھانے والا جمعدار تھا۔ اس نے ایک روز دروازے پر مجھے روتا دیکھا تو پوچھا، تم کس کی بیٹی ہو؟ کیا نور بائی کی بیٹی ہو؟ میں نے کہا، نہیں، یہ میری ماں نہیں ہیں۔ یہ لوگ میرے کچھ نہیں لگتے۔ انہوں نے میرا نام مہک رکھا ہے، مگر میرا نام مہک نہیں ہے۔ میرا نام تو مہر بانو ہے۔ یہ مجھے میری گلی سے اٹھا کر دوسرے شہر لے آئے ہیں، اس شہر میں میرا گھر نہیں ہے۔ میرا گھر کسی اور جگہ ہے، وہاں میرے امی ابو رہتے ہیں، میرے ابو کا نام قادر بخش ہے، مگر مجھے گھر کا پتہ معلوم نہیں ہے۔ پتہ میری ماں نے مجھے سکھایا ہی نہیں تھا۔ یہ کہہ کر میں رونے لگی تو اس نے کہا، آؤ، میری گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ جلدی کرو، کوئی دیکھ نہ لے۔ میں تم کو تمہارے گھر پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ میں جلدی سے اس کوڑے والے کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ گاڑی بڑی تھی، میں سیٹ پر بیٹھ کر بھی کھڑکی سے نظر نہیں آتی تھی۔ گاڑی میں با آسانی چھپ گئی تھی۔ وہ جلدی سے اس کوڑے کرکٹ جیسی گندی جگہ سے نکل گیا۔ وہ مجھے لے کر اپنے کمیٹی کے آفیسر کے پاس گیا۔ اس کے اور اس کی بیگم کے حوالے کیا۔ وہ اچھے لوگ تھے۔ انہوں نے کافی کوشش کی کہ مجھے اپنے شہر کا نام یاد آ جائے یا میں کم از کم محلہ ہی بتا سکوں، مگر میں اپنے باپ کے نام کے سوا اور کچھ نہیں جانتی تھی اور ماں کا نام شنو بتاتی تھی جو میری خالہ کا نام تھا۔ کچھ دن تک تو ان کے گھر رہی، ان کے کافی بچے تھے۔ انہیں میری ضرورت نہیں تھی۔ معلوم نہیں انہوں نے مجھ کو میرے والدین تک پہنچانے کی پر خلوص کتنی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اخبارات میں میری گمشدگی کے بارے میں کوئی اشتہار دیا تھا یا نہیں۔ بہرحال، ایک دن انہوں نے مجھے اپنے عزیزوں کے سپرد کر دیا۔ یہ ایسا جوڑا تھا جن کے کوئی اولاد نہیں تھی۔
نئے گھر آ کر قدرے سکون ملا۔ یہ دونوں میاں بیوی مجھے چاہنے لگے۔ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ بیوی تو مجھ سے بے حد پیار کرتی تھی۔ وہ بھول کر بھی میرے سامنے میرے گھر والوں کا ذکر نہ کرتی۔ چاہتی تھی کہ میں کلی طور پر اپنے ماضی کو بھلا دوں اور صرف انہی کی ہو کر رہوں۔ اب سوچتی ہوں کہ اگر ان کو کسی طور میرے والدین کا پتہ چل جاتا تو بھی یہ مجھے میرے بارے میں نہ بتاتے کیونکہ میں ان کی ضرورت تھی۔ انہیں اولاد چاہیے تھی اور پانچ برس کی ایک پلی پلائی لاوارث بچی ان کو مل گئی تھی۔ کچھ دن میرا بہت لاڈ پیار ہوا۔ پھر ممی نے اسکول داخل کرایا۔ اب میں روز اسکول جاتی تھی۔ ان کا ڈرائیور مجھے اسکول کے گیٹ پر اتار دیتا تھا۔ چھٹی کے وقت ممی خود لینے آتی تھیں۔ وہ مجھے چھوٹی چھوٹی باتیں سناتی تھیں۔ کہتیں، میریں جب تم پیدا ہوئی تھیں، میں نے پہلے دن تم کو گلابی رنگ کی فراک پہنائی تھی جو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے سی تھی۔ وہ اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔ اور جب تم گھٹنوں چلتی تھیں تو ایک دفعہ پھسل گئی تھیں، میں نے یوں دوڑ کر تم کو اٹھایا تھا۔ چوٹ نہیں لگنے دی تھی۔ مجھے یہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کرتی تھیں کہ میں نے انہی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ چاہتی تھیں کہ میں ان کی بتائی ہوئی باتیں یاد رکھوں اور سب کچھ بھول جاؤں۔ اپنا ماضی، خالہ شنو، جنہوں نے مجھ کو ماں بن کر پالا تھا، اور اپنے ابو کو جو کہ ایک پل کے لیے مجھ سے جدا نہیں ہونا چاہتے تھے اور جن کا نام قادر بخش تھا۔ اب جن کے گھر میں آ گئی تھی، میرے ان نئے والد کا نام ارمغان تھا۔ یہی نام اب مجھ کو بار بار رٹایا جاتا تھا۔ یہی نام میرے اسکول کے سرٹیفکیٹ پر لکھوایا گیا۔ میری کاپیوں اور کتابوں پر میرے نام کے ساتھ یہی نام تحریر کیا گیا۔ آپ سوچ نہیں سکتے، ایک کھوئی ہوئی بچی کا یہ المیہ ہوتا ہے۔ جب اس کے حقیقی والد کا نام بھی اس کو یاد ہو اور باپ کی صورت بھی ذہن پر نقش ہو، مگر وہ اس کی جگہ کسی دوسرے کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے پر مجبور ہو۔ کسی اور کو اپنا باپ سمجھنے پر مجبور ہو۔ مجھ کو خالہ شنو اور اپنے ابواب بھی بہت یاد آتے تھے۔ میں نے پرائمری کی تعلیم حاصل کر لی تو مڈل اسکول چلی گئی۔ نئے اسکول میں بھی، تمام وقت کلاس میں خاموش بیٹھی رہتی تھی۔ جب میری کلاس ٹیچر اپنا پیریڈ لینے آئیں تو مجھے بغور دیکھتیں۔ محسوس کرتیں کہ میں خوش نہیں ہوں۔ انہوں نے بار ہا سوال کیا۔ زارا، تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو؟ میں کوئی جواب نہ دیتی اور نظریں جھکا لیتی۔
جب آٹھویں کے امتحان قریب تھے، ایک روز ٹیسٹ کے بعد مس آسیہ نے مجھے روک لیا اور لڑکیوں کو جانے دیا۔ میں ڈر گئی کہ شاید مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ انہوں نے اکیلے میں پھر وہی سوال کیا۔ زارا، تم اتنی خاموش کیوں رہتی ہو؟ اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ۔ میں تمہاری مدد کروں گی۔ اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جہاں میں اب رہتی تھی، تقدیر نے مجھے پہنچا دیا تھا اور یہاں مجھ کو کوئی تکلیف بھی نہیں تھی۔ ایک یاد ماضی کے سوا اور میرا حافظہ تو صرف وہی چھین سکتا تھا جس نے دیا تھا۔ جب میری ٹیچر نے بہت اصرار کیا تو مجھے بتانا ہی پڑا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ایک منٹ کے لیے بھی نہ تھم رہی تھی۔ انہوں نے کرسی سے اٹھ کر میرے آنسو صاف کیے۔ مجھے گلے سے لگایا۔ تسلی دی۔ اس دن سے وہ میرے ساتھ بہت شفقت اور محبت سے پیش آنے لگیں۔ میرا جی تھوڑا سا بہل گیا۔ لڑکیوں کے ساتھ بننے بولنے لگی۔ جب موقع ملتا، وہ سمجھاتیں کہ ہر حال میں خدا کا شکر ادا کیا کرو اور خوش رہا کرو۔ ان کی باتوں کا مجھ پر بہت اثر ہوتا تھا۔ میں نے میٹرک اور پھر ایف اے پاس کر لیا۔ ممی کی ایک کزن تھیں۔ ان کی بیٹی ملیحہ اکثر ہمارے گھر آتی تھی۔ وہ میری دوست بن گئی۔ گھر میں بور ہوتی تھی۔ ملیحہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم بھی جاب کر لو۔ میں اپنے باس سے کہہ کر تم کو جاب دلوادوں گی۔ پاپا چاہتے تھے کہ میں گریجویشن کروں مگر میں نے ملیحہ کی باتوں میں آ کر جاب کر لی۔ پہلے دن منیجر صاحب کو دیکھا۔ اس کی صورت دل میں اتر گئی۔ انہوں نے مجھے تین ماہ کے آزمائشی وقفے کے لیے موقع دے دیا تھا۔ خدا جانے اس منیجر میں کیا بات تھی کہ میں ونڈو کے شیشے سے ان کا چہرہ ہی دیکھتی رہتی تھی جبکہ وہ میری جانب بالکل توجہ نہ کرتا تھا، مگر میں ایک عجب سی کشش عامر صاحب میں محسوس کرتی تھی۔ ایک دن میں بہانے سے اس کے کمرے میں گئی۔ اس نے پوچھا، مس زارا، کیا بات ہے؟ میں نے کہا، سر، مجھے ایک دن کی چھٹی چاہیے۔ اس نے بغیر دوسرے کوئی سوال کیے کہا، ٹھیک ہے۔ سوچا تھا، کچھ بات کرے گا کہ کیوں چھٹی چاہیے، لیکن میری امیدوں پر پانی پر گیا، اس نے کوئی بات ہی نہ کی۔ چھ ماہ اسی طرح گزر گئے۔ عید آگئی۔ جی چاہا کہ ان کو عید پر اپنے گھر بلاؤں، مگر کیسے؟ ہمت کر کے ان کے پاس پہنچی۔ کہا، سر… میرے ممی ڈیڈی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ عید پر آپ کو گھر آنے کی دعوت دی ہے۔ اس پر اس نے کہا، میں ضرور آپ کے گھر آتا مگر مجبوری یہ ہے کہ میری والدہ نے اپنی مرحومہ بہن کی بچی پائی تھی۔ جب وہ چار سال کی تھی تو عید سے دو دن پہلے کھو گئی تھی، جس کا میری والدہ کو بہت صدمہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عید پر ضرور والدہ کے پاس ہوتے ہیں۔ ہم اس موقع پر ان کو تنہا نہیں چھوڑتے ورنہ وہ صدمہ لیتی ہیں۔ ہم دو بھائی ہیں اور ہماری کوئی بہن نہیں ہے۔ وہی ایک بہن تھی جو کھو گئی ہے۔ ایک تازیانہ سا مجھے لگا۔ چونک گئی۔ جلدی سے پوچھا، سر، کیا نام تھا آپ کی بہن کا، جو کھو گئی تھی؟ اس کا نام مہر بانو تھا۔ اس نے کہا، اور اس کے والد کا نام قادر بخش تھا۔ میں نے جملے کو مزید آگے بڑھایا، میں وہی بد نصیب ہوں جس کا نام بدل کر انہوں نے زارا رکھ دیا ہے۔ تقدیر نے جس سے اس کا گھر، ماں، باپ چھین لیے اور نئے والدین دے دیے۔ کیا بتاؤں اس وقت عامر کی کیا حالت تھی۔ خوشی سے اس کی آواز نہ نکلتی تھی۔ اس نے اپنی ماں کو فون کیا۔ ماں، آپ کی کھوئی ہوئی بیٹی مل گئی ہے۔ وہ میرے سامنے ہے۔ اب عید پر جب ملتان سے آؤں گا تو یہی قیمتی تحفہ آپ کے لیے لاؤں گا ۔ خالہ شنو کب انتظار کرنے والی تھیں۔ بولیں، میں ابھی جا کر قادر بھائی کو خبر کرتی ہوں۔ ہم عید تک کیوں انتظار کریں؟ میں تمہارے ابا اور خالو کبھی آرہے ہیں، خود ملتان۔ ہم اس کے موجودہ والدین کے پاس جائیں گے اور اپنی مہر و کو ان سے لے آئیں گے۔ اگلے روز ابو، خالہ اور ان کے شوہر ملتان آگئے اور ممی پاپا کے پاس پہنچے۔ ان کو تمام واقعہ بتایا۔ وہ اداس ہو گئے۔ مجھ کو کسی صورت ان کے حوالے کرنے پر رضامند نہ تھے۔ تبھی میرے والد نے ان کو سمجھایا کہ مہر و آپ کی بیٹی سہی، لیکن بیٹی پر آتا دھن ہوتا ہے۔ کسی دن تو اسے بیاہنا ہوتا ہے، تو مہرو کو عامر سے کیوں نہ بیاہ دیں کہ یہ آپ کی بھی بیٹی رہے اور ہماری بھی۔ یہ بات پاپا نے مان لی اور میں ان کے گھر سے نہ گئی، البتہ شادی کی تاریخ عید کے بعد رکھ دی گئی۔ ممی پاپا نے میری شادی دھوم دھام سے کی۔ ان کے گھر سے رخصت ہو کر میں شنو خالہ کی بہو بن کر ان کے گھر آگئی۔ یوں خدا کی مہربانی سے مدت بعد اپنوں سے آن ملی۔ اس گھر لوٹ آئی جہاں میں نے ابتدائی سانس لیے تھے۔ جہاں مجھے ایک نئی زندگی ملی تھی۔ جہاں مجھ کو ماں کی گود کی طمانیت ملی تھی۔ وہ گھر جو پہلے بھی میرا تھا اور اب بھی میرا ہوا۔ خدا نے دوبارہ مجھے وہاں پہنچا دیا جو میری منزل تھی۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا۔ خدا کی اس سے بڑی رحمت کیا ہو سکتی ہے کہ پہلے اس نے ایک لاوارث بچی کو ایک گندی اور غلیظ دلدل میں گرنے سے بچایا اور پھر ایک شریف گھرانے تک پہنچایا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ انسان کو خدا کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ جنہوں نے بری نیت سے اغوا کیا، اللہ نے ان لوگوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ ایک نیک دل جمعدار کے دل میں رحم ڈال کر، جس کے توسط سے میں ایک شریف اور معزز گھرانے میں پہنچی۔ ان لوگوں نے مجھے نہ صرف ماں باپ کا پیار دیا بلکہ پڑھایا لکھایا اور ملازمت کرنے کی اجازت بھی دی کہ جہاں میرا خالہ زاد عامر ملا اور پھر میں اپنوں میں آ گئی۔
آج میرا میکہ، میری سسرال ہے۔ اور جب مجھے میکے کی کمی محسوس ہوتی ہے تو اپنے محسن پاپا ارمغان کے گھر چلی جاتی ہوں جن کی بیگم کو ممی کہتی ہوں۔ وہ اب بھی مجھے ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتی ہیں… کچھ دن نہ جاؤں تو فون کرتی ہیں، اپنا ڈرائیور اور گاڑی بھیجوا دیتی ہیں اور میرا انتظار کرتی ہیں۔ آج جب میرے بچے ان کو نانی اور ان کے شوہر یعنی پاپا کو نانا کہ کر بلاتے ہیں، تو ان کے چہروں پر ہزاروں گلاب کھل جاتے ہیں۔ نہیں جانتی کہ یہ رشتے کتنے پیارے ہوتے ہیں۔ دعا کرتی ہوں کہ خدا ان لوگوں کو سلامت رکھے، جن کی بدولت میں ایسے پیارے اور میٹھے رشتوں سے آشنا ہوئی۔