ان دنوں ہم انگریزی میڈیم ایلیمنٹری اسکول میں آٹھویں کلاس میں پڑھتے تھے۔ زوہیب میرا کزن اور ہم عمر تھا، اور ہماری آپس میں خوب بنتی تھی۔ ہماری دوستی بچپن سے تھی۔ ہم ساتھ پلے بڑھے، ایک ہی گھر میں رہے، اس لیے کوئی بات ایک دوسرے سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ وہ اپنی ہر بات، ہر مسئلہ مجھے بتاتا اور مجھ سے صلاح مشورہ کیا کرتا۔ اتنی اپنائیت کے باوجود، کبھی کبھار ہم میں لڑائی بھی ہو جاتی تھی۔ زوہیب چونکہ لائق طالب علم تھا، مجھے تعلیمی جدوجہد میں اس کی ضرورت پڑتی۔ وہ شروع سے مطالعے کا شوقین تھا، لہذا فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ تاہم، کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی تھی کہ وہ کھویا کھویا سا ہے۔ اس کا دھیان کہیں اور ہوتا اور بات کسی اور موضوع پر کر رہا ہوتا۔ تب ہی میں نے پوچھ لیا، بھائی، خیر تو ہے؟ یہ خیالات کے گھوڑے کون سے آسمان پر تمہیں لیے پھر رہے ہیں؟ زوہیب نے جھٹ سے ایسا جواب دیا جس کی مجھے بالکل توقع نہیں تھی۔ صبا، مجھے ایک لڑکی پسند آ گئی ہے اور میں اس کے خیال میں سرگرداں رہنے لگا ہوں۔ پڑھائی سے بھی توجہ ہٹ گئی ہے، کہیں پوزیشن لینے سے نہ رہ جاؤں۔ یہ سن کر میں سن رہ گئی۔ کسی لائق فائق طالب علم میں اگر عشق کے جراثیم سرایت کر جائیں تو یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہوتی۔ مجھے اپنے ہونہار کزن کے مستقبل کی فکر لگ گئی کہ کہیں اس کا تابناک مستقبل خراب نہ ہو جائے۔ میں دعا کرنے لگی، اے خدا! زوہیب کو اس خطرناک اور تباہ کن صورت حال سے بچا لے تاکہ اس کا روشن مستقبل محفوظ رہے۔ مجھے یکدم یہ سن کر دھچکا سا لگا۔ قدرے سنبھلتے ہوئے اس سے پوچھا، کون ہے وہ؟ کل کلاس میں پتا چل جائے گا، اس نے کہا۔ سارا دن الجھن رہی اور رات بھی جاگتے گزار دی۔ اگلے دن کلاس میں کچھ پتا نہ چلا اور میں اندازہ بھی نہ لگا سکی کہ وہ کس کی بات کر رہا تھا۔ خیر، شام کو پھر زوہیب سے بات ہوئی اور میں تجسس ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی، مگر اس نے کچھ بتا کر نہ دیا۔ میں نے پوچھا، کیا وہ فیملی میں سے ہے یا ہماری کلاس کی کوئی لڑکی ہے؟ بس اتنا بتایا کہ ہماری کلاس میں پڑھتی ہے۔تمام رات میں اس مسئلے پر سوچتی رہی اور جاگتی رہی۔ میں نے جماعت کی ہر لڑکی کو ذہن میں لا کر غور کیا، لیکن معمہ حل نہ ہوا۔ جب سے اسکول میں داخلہ لیا تھا، یہاں میری تین لڑکیوں سے دوستی ہوئی تھی، لیکن اسی سال ایک اور دوست کا اضافہ ہوا۔ نئی سہیلی کا نام شیما تھا، اور وہ اب میرے بے حد قریب ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ہر کسی سے میرا تعارف یہ کہہ کر کراتی تھی کہ میں اس کی بہترین دوست ہوں۔
شیما پڑھائی میں بہت اچھی تھی، اور اس کا زوہیب سے مقابلہ رہتا تھا کیونکہ وہ بھی پوزیشن ہولڈر طالبہ تھی، حالانکہ کلاس میں وہ سب سے چھوٹی تھی۔ اس کی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے پرنسپل نے اسے ساتویں سے آٹھویں میں پروموٹ کر دیا تھا۔ میں نے انہی دنوں نوٹ کیا کہ شیما آج کل بڑی خوش دکھائی دیتی ہے۔ وہ اکثر میرے کزن سے باتیں کرتی نظر آتی تھی۔ ایک دن وہ اچھے موڈ میں تھی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتا دیا کہ زوہیب نے اسے وہی کہا ہے جو ہر فلم میں ہیرو ہیروئن سے کہتا ہے۔ مجھے دھچکا لگا کہ یہ وہ لڑکی ہے جس کے بارے میں میں اتنے دنوں سے پوچھ رہی تھی اور زوہیب نہیں بتا رہا تھا۔ جب معاملہ مجھ پر کھل گیا تو زوہیب کا بھی حجاب مٹ گیا، اور وہ مجھ سے شیما کے بارے میں باتیں کرنے لگا۔ اب ہماری اکثر باتیں اسی موضوع پر ہونے لگیں، اور میں ان دونوں کے درمیان پیغام رسانی کے فرائض انجام دینے لگی۔ پتا نہیں کیا کیا باتیں وہ ایک دوسرے کو کہلواتے تھے۔ میں اپنے کزن سے کہتی تھی، دیکھو زوہیب، تم جو یہ شیما سے دل لگا رہے ہو، تو کیا اس بات کو انجام تک پہنچاؤ گے؟ کیونکہ ابھی ہم چھوٹے ہیں اور آگے زندگی پڑی ہے جس میں بہت سے مواقع آئیں گے۔ وہ کہتا، ہاں، دیکھ لینا، میں اپنی بات کو ضرور پورا کروں گا۔ اس طرح سے وقت گزرتا گیا۔ ہمارے امتحان ہو گئے، اور نتیجہ حیران کن تھا۔ جن چار بچوں میں مقابلہ رہتا تھا، ان میں زوہیب اول اور شیما چوتھے نمبر پر آ گئی تھی، حالانکہ وہ ہمیشہ فرسٹ یا سیکنڈ پوزیشن لیتی تھی۔ میں نے افسوس کا اظہار کیا تو بولی، مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ زوہیب نے پوزیشن لی ہے، بس اس بات کی خوشی ہے۔ میں نے اس کی وجہ سے جان بوجھ کر محنت نہیں کی تاکہ وہ فرسٹ پوزیشن لے سکے۔ آٹھویں کے بعد لڑکے دوسرے اسکولوں میں چلے گئے اور ہمارے اسکول میں لڑکیوں کے لیے سیکنڈری کلاسز کا آغاز ہو گیا۔ مجھے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ یہ میری سہیلیوں کا بھی خواب تھا، لہٰذا ہم نے شوق سے سائنس مضامین رکھے اور نئی کتابوں سے لطف اندوز ہونے لگے۔ شیما اسکول چھوڑ چکی تھی، لیکن میری وجہ سے وہ دوبارہ اسی اسکول میں آ گئی۔ تاہم اب زوہیب سے ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہو گیا تھا، البتہ ان کے درمیان خط و کتابت کے لیے میں “ڈاکیے” کے فرائض انجام دینے لگی۔ عید آنے والی تھی۔ زوہیب ہمارے لیے عید کے گفٹ لے آیا اور ایک خاص گفٹ وہ شیما کے لیے بھی لایا تھا۔ اس نے مجھ سے درخواست کی کہ اسے دے دوں۔ خط اور پیغامات تک تو ٹھیک تھا، لیکن اب یہ گفٹ میں کیسے دے سکتی تھی؟ اگر کسی کو علم ہو جاتا، تو اس کے گھر میں تماشا لگ جاتا۔ شیما کا فیملی بیک گراؤنڈ مضبوط نہیں تھا بلکہ حالات تیزی سے تنزلی کی طرف جا رہے تھے، جبکہ وہ تحفہ قیمتی اور محبت کے جذبات کا عکاس تھا، اس لیے میں نے اسے شیما کو پہنچانے سے منع کر دیا۔ اس پر زوہیب مجھ سے خفا ہو گیا اور ہماری بول چال بند ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد زوہیب نے امی سے کہا کہ صبا کو روکیے، یہ شیما کے ساتھ دوستی چھوڑ دے کیونکہ وہ اچھی لڑکی نہیں ہے۔ یہی نہیں، اس نے شیما کے بارے میں اور بھی کئی الٹی سیدھی باتیں کہیں، جو مجھے بہت ناگوار گزریں۔ زوہیب اب تیزی سے بدل رہا تھا، لیکن میں نے اپنی دوست کو یہ باتیں نہیں بتائیں۔ وہ ہر وقت اس کا پوچھتی رہتی، اور میں یہ کہہ کر اسے چپ کروا دیتی تھی کہ میں نے زوہیب سے بولنا چھوڑ دیا ہے۔
زوہیب کچھ دنوں بعد اپنے ماموں کے گھر رہنے چلا گیا اور مجھے بہانہ مل گیا۔ اب جب شیما اس کے بارے میں پوچھتی، میں کہہ دیتی کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ آج کل کیا کر رہا ہے۔ زوہیب کی دوری نے شیما کو اور زیادہ پریشان کر دیا تھا۔ محبت کا جادو اس پر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ وہ جب بھی ملتی، زوہیب کے بارے میں سوالات کرتی، فون کرتی تو بھی اسی کے بارے میں پوچھتی۔ اس صورت حال سے میں تنگ آ گئی۔ بالآخر میں نے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ اگر تمہیں مجھ سے دوستی رکھنی ہے تو رکھو، میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ یہ شرط بھی مان گئی، کیونکہ میں زوہیب کی کزن تھی، اسی وجہ سے شیما میرا ہاتھ تھامے رکھنا چاہتی تھی۔ اسے مجھ سے باتیں کر کے تسکین ملتی تھی، لیکن اس کا پھول جیسا کھلا ہوا چہرہ مرجھاتا جا رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے اسے کوئی روگ لگ چکا ہے، اور یہ ایسا روگ تھا جس کی دوا کسی طبیب کے پاس نہیں تھی۔ میٹرک کے امتحان ہونے لگے۔ سب نے خوب تیاری کی۔ زوہیب نے اچھے نمبروں کے حصول کے لیے جان لڑا دی، مگر شیما کا حال برا تھا۔ نتیجہ آیا تو وہ بمشکل پاس ہوئی، جبکہ زوہیب نے پوزیشن لی اور اس کا داخلہ لاہور کے بہترین کالج میں ہو گیا۔شیما کا تعلیمی معیار ہی نہیں گرا، اس کی صحت بھی بگڑتی جا رہی تھی۔ بہرحال، ہم نے بھی کالج میں داخلہ لے لیا۔ شیما کو ایک دوسرے کالج میں داخلہ ملا، کم نمبروں کی وجہ سے۔ مگر سال بعد اس نے کسی طرح دوبارہ ہمارے کالج میں تبادلہ کروا لیا۔ یوں میں اس سے ایک سال بعد ملی۔ شیما کو دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ اس کا رنگ سنولا گیا تھا اور صحت کا بھی برا حال تھا۔ جیسے کوئی روگ اسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔ اب اس نے پڑھنا بالکل چھوڑ دیا تھا۔ اس کی نظر کمزور ہو گئی تھی اور اسے چشمہ لگ گیا تھا۔ مستقل جاگتے رہنے سے اس کے سر میں درد رہنے لگا تھا۔ میں نے اور میری دوستوں نے اسے بہت سمجھایا کہ اپنا خیال رکھو، ورنہ تم صفحہ ہستی سے مٹ جاؤ گی۔ زندگی یوں نہیں گزرتی۔ لیکن وہ تو کچھ سننے کو تیار نہ تھی۔ میں نے کہا، شیما، دیکھو، زوہیب کو تمہیں چھوڑ کر کچھ فرق نہیں پڑا۔ وہ تمہیں بھلا کر دوبارہ اپنی پڑھائی میں لگ گیا ہے اور اپنا مستقبل شاندار بنا رہا ہے، اور تم ہو کہ ابھی تک اس کی یاد میں گھل رہی ہو۔ وہ محبت نہیں تھی، سمجھ لو بچپن کی بھول تھی، ایک مذاق تھا کیونکہ اس وقت ہم بہت کمسن اور نادان تھے۔ ہمیں عقل اور سمجھ نہ تھی۔ بچپن کے اس مذاق کو بھول جاؤ اور آگے بڑھو، اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ تمہارے گھر والوں کو تمہاری ضرورت ہے۔ لیکن اسے تو اس محبت کے سوا کچھ سجھائی ہی نہ دیتا تھا۔ جب وہ زوہیب کا ذکر کرتی، بہکی بہکی باتیں کرنے لگتی۔ اس کے دل سے وہ گیا ہی نہ تھا۔ اس کے دل و دماغ پر ابھی تک زوہیب کا قبضہ تھا۔ وقت گزرتا رہا، سال پلک جھپکتے گزر گیا، پرچے ہو گئے۔ نتیجہ آیا تو وہ سارے مضامین میں فیل ہو گئی۔ اب وہ گھر بیٹھ گئی اور دوبارہ پیپرز دینے کی تیاری کرنے لگی۔ ہم لوگوں نے بی اے میں داخلہ لے لیا۔ بس فون پر بات ہوتی، اور تب بھی اس کا وہی سوال ہوتا کہ وہ کیسا ہے؟ اس سے بات ہوئی؟ میں نے اسے ایک دن فلاں جگہ دیکھا تھا۔ یہ درست تھا، کبھی وہ چھٹیوں میں آتا تو ہمارے گھر اور اس کے ننھیال کے راستے میں شیما کا گھر پڑتا تھا۔ وہ دیکھ لیتی اور دن نوٹ کرتی۔ اسے تاریخیں اور وقت تک یاد ہوتا تھا کہ کب زوہیب کہاں سے گزرا تھا، اور اس نے اپنے گھر کی کھڑکی سے اس کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ شیما نے پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ پڑھنا کیا، اس نے تو ہر کام ہی چھوڑ دیا تھا، حتیٰ کہ نہانا دھونا، گھر کے دیگر کام، اور کھانا پینا واجبی سا رہ گیا تھا۔ گویا وہ ذہنی مریضہ بنتی جا رہی تھی، اور ادھر میرے کزن صاحب روز بروز صحت مند، خوبصورت، اور تازہ دم ہوتے جا رہے تھے۔
زوہیب جب سے ماموں کے گھر سے ہو کر آیا تھا، ان کی بیٹی مناہل سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔ وہ مناہل کو پڑھائی میں بھی کافی مدد دینے لگا تھا۔ دونوں کی اس بہانے قربت بڑھنے لگی۔ جب دونوں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لیے لاہور گئے تو ان کی دوستی کا چرچا ہر زبان پر ہونے لگا۔ رشتہ داروں میں تو ان کی شادی کے بارے میں چہ میگوئیاں بھی ہونے لگیں۔ انہی دنوں زوہیب کے ماموں کا انتقال ہو گیا، تبھی اس کی ہمدردیاں ماموں کی فیملی سے اور زیادہ ہو گئیں۔ مجھ تک یہ باتیں زوہیب کی بہنوں کے ذریعے پہنچتی تھیں، لیکن جب شیما کوئی سوال کرتی تو میں اپنی دوست کو کچھ نہ بتاتی تاکہ اس کا دل نہ دکھے۔ تاہم، میں شیما کی حالت جانتی تھی۔ شروع سے جو زوہیب نے شیما سے رابطے رکھے اور وعدے کیے تھے، وہ سبھی میرے توسط سے ہوئے تھے، لہٰذا اب جب میں اپنی سہیلی کو دکھی دیکھتی تو مجھے اپنے کزن پر غصہ آنے لگتا۔ دل چاہتا تھا کہ وہ میرے سامنے نہ آئے۔ میں نے زوہیب سے بات کرنا تو کیا، اس کے سامنے جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بزنس کی تعلیم کے لیے زوہیب اسلام آباد چلا گیا اور ہم بھی اللہ اللہ کر کے ایم اے تک پہنچ گئے۔ یوں مصروفیات بڑھ گئیں۔ اس بار میری شیما سے کافی دنوں بعد ملاقات ہوئی۔ ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ تمہارے کزن کا فون آیا تھا۔ زوہیب نے کہا کہ جو کچھ ہوا، وہ ماضی کی بھول تھی، لہذا اسے بھول جاؤ اور اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ اس طرح تم اپنا نقصان کر رہی ہو، لہذا اب میں نے دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ شیما کی بات سن کر مجھے خوشی ہوئی اور افسوس بھی۔ خوشی اس بات کی کہ چلو، کزن کو ہوش تو آیا کہ وہ زندگی کی دوڑ میں کسی کو روند کر آگے بڑھا ہے، اور افسوس اس بات کا تھا کہ وہ بے وقوف لڑکی اب تک اس کے انتظار میں بیٹھی ہے، اور ہمارے سمجھانے سے اسے کچھ فرق نہیں پڑا، جبکہ اس کے کہنے سے پڑھنے پر آمادہ ہوئی۔ اسی عرصے میں شیما کے گھریلو معاشی حالات مزید خراب ہو گئے اور انہیں محلہ چھوڑنا پڑا۔ ان دنوں وہ ایف اے کے پیپرز دے رہی تھی۔ حالات کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر اس نے ایک پرائیویٹ اسکول میں نوکری کی۔ پرائیویٹ طور پر امتحان کی تیاری کرتی رہی۔ اتنے سخت حالات کے باوجود بھی اس کے ذہن کو کوئی تبدیلی نہ آئی اور وہ زوہیب کو یاد کرکے روتی رہی۔ انہی دنوں اس کے لیے ایک اچھا رشتہ آیا۔ خوشحال لوگ تھے، لڑکا انجینئر تھا۔ سب نے شکر ادا کیا کہ چلو، اب اس کے دن بدلیں گے۔ اچھے گھر میں جائے گی، خوشیاں اور سکھ پائے گی تو شاید اس کا ذہن بھی بدل جائے۔ لیکن نہ ذہن بدلا اور نہ قسمت، کیونکہ بدقسمتی سے جس گلی میں اس کا سسرال تھا، وہاں ہمارا ایک پرانا کلاس فیلو بھی رہتا تھا۔ اس نے شیما کے ہونے والے شوہر کو اس کے اور زوہیب کے بارے میں بتا دیا، جس سے نہ صرف بدنامی ہوئی بلکہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا۔ بدنامی کا صدمہ وہ نہ سہہ سکی اور کچھ دن بیمار رہ کر خالق حقیقی سے جا ملی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شرمندگی کے باعث اس نے کچھ کھا لیا اور مر گئی۔ میں نے اس کی چھوٹی بہن سے بارہا پوچھا، مگر اس نے موت کا کوئی خاص سبب نہ بتایا، البتہ وہ روتی ہوئی کہتی تھی کہ میری بہن کو دراصل زوہیب کی محبت اور بے وفائی کا صدمہ لے ڈوبا۔ جب میں نے زوہیب کو بتایا کہ شیما وفات پا گئی ہے تو افسردہ ہونے کے بجائے وہ سنگدل مسکرا دیا۔ بولا، چلو اچھا ہوا، خس کم جہاں پاک، مجھے اس سے کبھی محبت نہ تھی۔ میں اسے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا تاکہ کلاس میں میری پوزیشن اول رہے اور میرا کوئی مقابلہ کرنے والا نہ ہو۔ واہ، کیا بات ہے! اپنے مطلب کے لیے کسی سے اتنا بڑا مذاق کر دیا۔ وہ لڑکی اتنی لائق اور ذہین تھی کہ میرٹ کی بنیاد پر بھی میڈیکل میں جا سکتی تھی، اور آج وہ منوں مٹی تلے جا سوئی ہے، ایک ذرا سی نادانی کی وجہ سے۔ افسوس کہ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت نہیں ہوتا کہ وہ دیکھ سکیں کہ ان کے بچے قیمتی وقت کہاں اور کیسے گزارتے ہیں۔ انہیں اتنی فرصت نہیں کہ وہ ان کے مسائل سن سکیں اور ان کے رویوں میں آنے والی تیزی سے تبدیلی کو محسوس کر سکیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں پر پابندی لگائیں کہ وہ عشق و محبت پر مبنی ڈرامے اور فلمیں نہ دیکھیں۔ آج لوگ روزگار کے حصول میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دیتے۔ اب تعلیم اسکول والوں کے ذمے ہے اور تربیت میڈیا کے حصے میں آ گئی ہے۔ خدا جانے ہر سال کتنے بچے اپنی تعلیمی زندگی کے قیمتی سال ان غیر ضروری سرگرمیوں میں گزارتے ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کو جو نقصان ہوتا ہے، اس کی تلافی کون کر سکتا ہے؟ کیا اس طرح کی سوچ رکھنے والی لڑکیاں مستقبل میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طرح نبھا سکتی ہیں؟ آج موبائل فون اور انٹرنیٹ کی وبا سے یہ بچے، جو قوم کا مستقبل ہیں، بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں