اس دوران جان ڈلنگر اپنا کام ختم کرچکا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ بینک میں پیچھے کی طرف کوئی دروازہ نہیں تھا تو اس نے اپنے ساتھیوں کو مطلع کیا ’’سامنے سے ہی جانا پڑے گا۔‘‘ اس نے بینک کے منیجر، وے لینڈ اور تین خواتین کیشیئرز کو آگے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ انہیں اپنے، اور اپنے ساتھیوں کے سامنے ڈھال بنا کر نکلنا چاہتا تھا کیونکہ باہر اچھا خاصا مجمع لگ چکا تھا۔ جب منیجر نے آگے آنے میں ذرا پس و پیش کیا تو پرپونٹ نے اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا جس سے اس کی عینک دور جاگری۔ وے لینڈ نے قہرآلود نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور نہایت جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’اگر تمہارے ہاتھ میں یہ گن نہ ہوتی تو پھر اس طرح تھپڑ مار کر دیکھتے۔‘‘ اسی دوران ایک اور پولیس والا اندر آگیا۔ اسے شاید صورت حال کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا۔ ڈلنگر اسے دیکھ کر چہکا ’’آئو… آئو… نئے پنچھی! تم بھی ہم سب میں شامل ہوجائو۔‘‘ آفیسر بائرڈ متاسفانہ انداز میں سر ہلا کر رہ گیا۔ پانچوں ڈاکوئوں نے اپنے آگے ایک آدمی یا عورت کو ڈھال بنالیا اور باہر فٹ پاتھ پر آگئے۔ انہیں ہجوم کو چیر کر اپنا راستہ بنانا پڑ رہا تھا۔ جمع ہونے والے لوگوں کا انداز کچھ ایسا تھا جیسے ان کے سامنے کوئی دلچسپ تماشا ہورہا ہو۔ بعض لوگ آفیسر بائرڈ اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہوگئے کہ شاید انہوں نے ڈاکوئوں کو پکڑ لیا ہے، جبکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یعنی ڈاکوئوں نے پولیس والوں کو پکڑا ہوا تھا۔ ہجوم نے ڈاکوئوں کو راستہ دے دیا۔ اسی دوران سڑک کے کونے پر دو پولس آفیسرز نمودار ہوئے۔ میکلے نے فوراً ان پر برسٹ مارا۔ وہ چھلانگ لگا کر پناہ لینے کے لیے ایک دکان میں گھس گئے۔ اس تمام افراتفری اور ہنگامے کے باوجود جان ڈلنگر اور اس کے ساتھی بینک کی عمارت کے گرد گھوم کر پچھلی گلی میں اپنی کار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے البتہ اس دوران میں یہ ضرور ہوا کہ ایک یرغمالی تبدیل ہوگیا۔ وہ آنکھ بچاکر، اپنے آپ کو چھڑا کر ہجوم میں شامل ہوگیا اور ڈاکوئوں نے اس کی جگہ کسی تماشائی کو یرغمال بنالیا۔ ڈلنگر کار کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے خوشگوار لہجے میں وے لینڈ سے مخاطب ہوا۔ ’’مسٹر منیجر! آپ کو ہمارے ساتھ چلنا پڑے گا۔‘‘ وے لینڈ کے علاوہ انہوں نے ایک خاتون کو بھی ساتھ لے لیا۔ انہوں نے ان دونوں کو گاڑی کے دونوں اگلے پائیدانوں پر کھڑا کردیا تاکہ پولیس گاڑی پر فائرنگ کرنے سے باز رہے۔ باقی لوگوں کو انہوں نے چھوڑ دیا۔ گاڑی تیزرفتاری سے وہاں سے روانہ ہوئی تو وے لینڈ پائیدان پر کھڑا ایک ہاتھ سے گاڑی کی چھت والی ریلنگ پکڑے دوسرا ہاتھ ہلا رہا تھا جیسے دوستوں کو، یا رخصت کرنے کے لیے آنے والوں کو خدا حافظ کہہ رہا ہو۔ دراصل وہ ہجوم کو اشارہ کررہا تھا کہ کوئی گاڑی پر فائر نہ کرے لیکن بظاہر ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ بے وقوفانہ انداز میں انہیں خدا حافظ کہہ رہا ہو۔ عجیب ہی صورتحال تھی۔ تمام تر سنگینی کے باوجود اس میں مضحکہ خیزی کا پہلو بھی تھا۔ محفوظ راستوں سے فرار ہوتے ہوئے ڈلنگر اور اس کے ساتھیوں نے راستے میں ایک جگہ گاڑی کی نمبر پلیٹس تبدیل کیں۔ اس سے پہلے انہوں نے راستے میں یرغمالیوں کو ایک ویران سی جگہ پر درخت سے باندھ دیا تھا۔ شام تک وہ واپس ملواکی، اپنے اپارٹمنٹ میں پہنچ چکے تھے۔ یہ بھی ان کی ایک کامیاب واردات رہی تھی۔ ایک ایک آدمی کے حصے میں پانچ پانچ ہزار ڈالر آگئے۔ رات بھر پولیس اور رضاکار ان کی تلاش میں مختلف علاقوں میں بھٹکتے رہے۔ اردگرد کے شہروں سے رپورٹر ریسن پہنچ گئے۔ پولیس آفیسر لیچ کا ایک آدمی بھی واردات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آیا۔ اس نے جلد ہی نتیجہ اخذ کرلیا کہ یہ ڈلنگر اور اس کے گروہ کا کام تھا۔ اس کی تصدیق وے لینڈ کی بتائی ہوئی دو چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی ہوئی۔ وے لینڈ نے بتایا کہ راستے میں گروہ کے ایک آدمی نے گالی دی تھی تو اس آدمی نے، جو گروہ کا سردار معلوم ہوتا تھا، اس نے اس آدمی کو منع کیا تھا کہ گاڑی کے پائیدان پر چونکہ ایک خاتون موجود ہے، اس لیے وہ گالی نہ دے۔ منع کرنے والے آدمی کا تفصیلی حلیہ معلوم کیا گیا تو تصدیق ہوگئی کہ وہ جان ڈلنگر ہی تھا۔ یرغمال بنائی جانے والی خاتون کو گاڑی کے پائیدان پر خوب ہوا لگ رہی تھی اور وہ سردی سے کانپ رہی تھی۔ جان ڈلنگر نے اپنے ایک ساتھی کا کوٹ اتروا کر اس خاتون کو دیا تھا۔ اس طرح کی نرم دلی، تہذیب اور شائستگی کے مظاہرے ڈلنگر کی پہچان تھے۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ فطری طور پر بہت اچھا، مہربان یا شائستہ آدمی تھا، بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اخباروں میں اپنے بارے میں خبریں بڑے ذوق و شوق سے پڑھتا تھا اور اسے کچھ کچھ امید ہو چلی تھی کہ ایسی باتوں کی وجہ سے شاید عوام کے دلوں میں اس کے بارے میں غم و غصہ کچھ کم رہے گا اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس کا امیج ایک ڈاکو کے بجائے ہیرو کا بن جائے۔ یہی معاملہ پریٹی بوائے فلائیڈ کا بھی تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ لوگ معاشی بحران کے ستائے ہوئے عوام کے دلوں میں جگہ بنانے لگے تھے۔ ڈلنگر کے بارے میں اخبارات کو اکّا دکّا خطوط بھی موصول ہونے لگے تھے جن کا مفہوم کچھ اس قسم کا ہوتا تھا ’’پولیس جان ڈلنگر یا پریٹی بوائے فلائیڈ کے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہے؟ یہ لوگ ان سیاستدانوں اور بدعنوان افسروں سے زیادہ برے تو نہیں ہیں جنہوں نے ان سے زیادہ بڑے پیمانے پر، اور زیادہ بے رحمی سے لوٹ کر ملک کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ ایک عام آدمی کی زندگی عذاب ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘ ڈلنگر کی نظر میں یہ ایک اچھا آغاز تھا۔ اسے امید نظر آنے لگی تھی کہ کچھ عرصے تک شاید وہ عوام کا ہیرو بن ہی جائے۔ ٭…٭…٭ بونی اور کلائیڈ ویران پارک میں پولیس سے مقابلے کے بعد غائب ہوئے تو اس کے بعد تین ماہ تک ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ قانون کے محافظ ان کی تلاش کے سلسلے میں ٹھنڈے پڑگئے لیکن چارلس نامی ایک ایف بی آئی ایجنٹ، شمڈ نامی ایک شیرف اور بوب نامی، اس کا ایک ڈپٹی مستقل مزاجی سے ان کی تلاش میں تھے لیکن پھر کچھ مصروفیات ایف بی آئی ایجنٹ چارلس کے آڑے آگئیں اور وہ ڈلنگر کی تلاش کے سلسلے میں کچھ ٹھنڈا پڑگیا۔ وہ بونی اور کلائیڈ کو ڈھونڈنے کے لیے خاطرخواہ وقت نہ نکال سکا۔ اس کے بعد یہ ذمے داری ازخود ہی شیرف شمڈ اور ڈپٹی شیرف بوب نے سنبھال لی۔ انہوں نے بونی اور کلائیڈ کی تلاش کو گویا اپنی اَنا کا مسئلہ بنالیا تھا۔ انہوں نے بہت بڑے علاقے کی خاک چھانی۔ بونی اور کلائیڈ کے رشتے داروں کی، دور دور رہ کر نگرانی کی۔ مخبروں سے بھی کام لیا۔ انہیں کچھ مبہم سے شواہد مل رہے تھے کہ بونی اور کلائیڈ نے تین ماہ کا یہ عرصہ مشرقی ٹیکساس کے دورافتادہ مقامات پر کہیں اپنے دور کے رشتے داروں کے فارمز پر گزارا تھا۔ ٹیڈ نامی ایک اور ڈپٹی بھی اس مہم میں ان کا ساتھ دینے لگا تھا۔ جس علاقے کے بارے میں انہیں شبہ تھا کہ وہاں کلائیڈ کی موجودگی کے امکانات ہوسکتے ہیں، اس سے گزرنے والی بڑی سڑک کے کنارے ٹیڈ گاڑی کھڑی کیے گھنٹوں اس میں بیٹھا رہتا اور آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھتا رہتا۔ ایک بار اسے ایک فورڈ کے بارے میں شبہ ہوا کہ اس میں کلائیڈ تھا۔ اس نے اس کا تعاقب کرنے کی بھی کوشش کی مگر اس کی گاڑی نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ فورڈ نہایت تیزرفتاری سے جارہی تھی۔ وہ جلد ہی اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ ٹیڈ نے دوسرے ہی روز ایک کمپنی سے ایک کار قسطوں پر حاصل کی جس کی تعریف میں سیلزمین نے زمین آسمان کے قلابے ملادیئے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس سے آگے تو کوئی گاڑی نکل ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کار کا نام ’’کورڈ‘‘ تھا۔ اب ٹیڈ اور بوب نے کورڈ میں بیٹھ کر ایک بار پھر سڑک کی نگرانی شروع کردی۔ چند دن بعد انہیں پھر وہی فورڈ گزرتی دکھائی دی۔ اس بار ٹیڈ یقین سے بول اٹھا ’’اس گاڑی میں کلائیڈ ہی ہے۔‘‘ اس نے جلدی سے کورڈ کو فورڈ کے تعاقب میں دوڑانے کی کوشش کی۔ اس میں شک نہیں تھا کہ گاڑی اچھی تھی لیکن اس کا گیئر کا نظام ذرا مختلف تھا۔ ٹیڈ جلد بازی میں گیئر لگانے میں غلطی کر بیٹھا۔ ’’کڑک‘‘ سے انجن میں کوئی پرزہ ٹوٹنے کی آواز آئی اور انجن وہیں بند ہوگیا۔ وہ دونوں اپنی قسمت کو کوستے رہ گئے اور فورڈ چند لمحوں کے اندر اندر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اگر وہ واقعی کلائیڈ تھا تو بلاشبہ وہ آندھی طوفان کی طرح آتا تھا اور بگولے کی طرح گزر جاتا تھا۔ دوسرے روز ٹیڈ نے کورڈ بھی واپس کردی اور اس کی جگہ ایک کیڈلک قسطوں پر خریدی جس کا انجن کافی طاقتور تھا۔ فورڈ انہیں ایک بار پھر نظر آئی لیکن وہ کیڈلک کو بھی پیچھے چھوڑ گئی۔ ٹیڈ اور بوب نے ایک بار پھر اپنی قسمت کو کوستے ہوئے کیڈلک بھی واپس کردی۔ انہوں نے اب ایک اور ترکیب سوچی۔ طے یہ پایا کہ بوب ایک مقام پر سڑک کے کنارے اپنی پرانی گاڑی میں ہی کھڑا رہے گا۔ اگر وہ فورڈ کو گزرتے ہوئے دیکھے گا تو آگے کچھ دور کھڑے ہوئے ٹیڈ کو ہیڈ لائٹ جلا بجھا کر سگنل دے گا۔ ٹیڈ ایک بھاری بھرکم، بلڈوزر ٹائپ ٹرک میں ہوگا۔ وہ جلدی سے ٹرک آگے لا کر فورڈ کو سائڈ مار کر یا اس کے راستے میں حائل ہو کر اسے روکنے کی کوشش کرے گا۔ یہ تدبیر کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اس روز ٹیڈ کے ساتھ گاڑی میں شیرف شمڈ بھی موجود تھا۔ انہوں نے بوب کو سگنل دیا۔ بوب نے جلدی سے ٹرک آگے بڑھا کر فورڈ کے راستے میں حائل ہونا چاہا مگر وہ ایک مصروف سڑک تھی۔ کئی دوسری گاڑیاں بھی بیچ میں آگئیں۔ بوب کو اندیشہ محسوس ہوا کہ وہ بیک وقت کئی دوسری گاڑیوں کے لیے حادثے کا سبب نہ بن جائے۔ اسے ٹرک روکنا پڑا اور پھر وہ فراٹے بھرتی فورڈ کو حسرت سے دیکھتا رہ گیا۔ مزید دو ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد وہ لوگ ایک مخبر کے ذریعے یہ اطلاع حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ جنگل کے درمیان ایک کھلی جگہ پر کلائیڈ اپنے کچھ رشتے داروں سے ملنے آئے گا جو وہاں پہنچ کر اس طرح بیٹھ جائیں گے جیسے پکنک منانے آئے ہیں۔ یہ کلائیڈ کا پرانا طریقہ کار تھا، اس لیے ان لوگوں کو یقین بھی آگیا کہ اطلاع درست تھی۔ ٹیڈ اور بوب کا خیال تھا کہ کلائیڈ کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ کلائیڈ نے چونکہ عہد کر رکھا تھا کہ وہ زندہ حالت میں قانون کے محافظوں کے ہاتھ نہیں آئے گا، اور یہ بات پولیس اور ایف بی آئی کے علم میں بھی آچکی تھی، اس لیے ٹیڈ اور بوب کا خیال تھا کہ اسے زندہ پکڑنے کی کوششیں ہی فضول تھیں۔ بہتر یہی تھا کہ موقع ملتے ہی اسے ہلاک کردیا جائے لیکن شیرف شمڈ شاید کچھ اور ہی خواب دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ تصور ہی تصور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ کلائیڈ کو ہتھکڑیاں لگائے اس کے برابر کھڑا ہے اور سیکڑوں رپورٹرز اس سے سوال جواب کررہے ہیں، سیکڑوں فوٹوگرافرز دھڑا دھڑ اس کی تصویر اتار رہے ہیں۔ کلائیڈ کو زندہ پکڑنے کے بعد تو شاید وہ گورنر کا الیکشن بھی لڑسکتا تھا۔ بہرحال وہ کلائیڈ کی اپنے رشتے داروں سے متوقع ملاقات کے وقت سے کافی پہلے جنگل میں جا کر مقررہ جگہ سے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں چھپ گئے۔ گاڑی وہ وہاں نہیں لاسکتے تھے۔ گاڑی دیکھ کر سب لوگ ہوشیار ہوجاتے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے واقعی یکے بعد دیگرے دو گاڑیوں میں کچھ لوگوں کو وہاں آتے دیکھا جو کھلی جگہ میں کمبل بچھا کر بیٹھ گئے۔ وہ بونی اور کلائیڈ کے رشتے دار ہی معلوم ہوتے تھے۔ شمڈ، ٹیڈ اور بوب جھاڑیوں میں چھپے صبر و تحمل سے انتظار کرتے رہے۔ آخرکار انہیں کلائیڈ کی فورڈ آتی نظر آئی۔ اسے کلائیڈ ہی ڈرائیو کررہا تھا۔ بونی اس کے ساتھ تھی۔ جب فورڈ پچاس ساٹھ فٹ دور رہ گئی تو شیرف شمڈ اچانک چھلانگ لگا کر جھاڑیوں سے نکل آیا اور چلاّیا ’’رک جائو…!‘‘ شمڈ اپنے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے کلائیڈ کو زندہ پکڑنے کے چکر میں تھا لیکن بوب اور ٹیڈ نے اپنے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے فائر کھول دیا۔ فورڈ پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوگئی۔ ٹیڈ کی مشین گن نے اسے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ڈرائیور کی سائیڈ کے دروازے پر متعدد گولیاں لگیں۔ کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ کلائیڈ نے جھک کر گولیوں سے بچتے ہوئے گاڑی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔ اس کے تین ٹائر گولیوں سے برسٹ ہوگئے۔ ونڈ اسکرین کے بھی ٹکڑے ہوگئے۔ اسٹیئرنگ وہیل کا بھی کچھ حصہ گولیوں سے ٹوٹ کر ہوا میں اُڑ گیا اور کار کی چھت سے کچھ چیزیں ٹوٹ کر کلائیڈ کے منہ پر لٹک آئیں لیکن وہ بھی ایک صاحبِ کمال تھا، وہ اس حالت میں بھی گاڑی کو دوڑائے لیے چلا گیا۔ مینڈک کی طرح اچھلتی کودتی، تباہ حال گاڑی ناہموار راستے پر دوڑتی ہوئی ایک ٹیلے پر چڑھی اور اس کے عقب میں غائب ہوگئی۔ اس دوران بونی اور کلائیڈ کے رشتے دار بھی گاڑیوں میں بیٹھ کر وہاں سے غائب ہوگئے۔ شیرف اور اس کے دونوں ماتحتوں کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ وہ کسی کا بھی تعاقب نہیں کرسکے۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد شیرف شمڈ بولا۔ ’’یہ میری غلطی ہے۔ میں نے تمہاری بات مان لی ہوتی تو اچھا رہتا۔‘‘ کلائیڈ کو معلوم تھا کہ تین ناکارہ ٹائروں کے ساتھ وہ گاڑی کو زیادہ دور نہیں لے جاسکتا۔ سڑک پر پہنچتے ہی اس نے شاٹ گن کے زور پر ایک گاڑی چھین لی۔ وہ اور بونی اس میں بیٹھ کر چند لمحوں میں وہاں سے غائب ہوگئے۔ ٭…٭…٭ ایف بی آئی کے لیے وہ بڑے خراب دن تھے۔ ولیم ہام کے اغواء کا کیس وہ لوگ کمزور شہادتوں کی بنِا پر ہار گئے اور جن لوگوں کو انہوں نے اس سلسلے میں پکڑا تھا، وہ اطمینان سے رہا ہوگئے۔ کنساس سٹی والی خونریزی کا ذمے دار ورنی ملر بدستور غائب تھا اور ایف بی آئی اسے تلاش کرنے میں ناکام تھی۔ اسی دوران ایک اطلاع انہیں یہ بھی ملی کہ ورنی ملر ان دنوں چشموں کے سفری سیلزمین کے طور پر نیوآرک اور نیوجرسی کی طرف سفر کررہا تھا۔ تاہم ایف بی آئی کو تب بھی اسے تلاش کرنے میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ ادھر ایف بی آئی والوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ نیوجرسی کے، انڈر ورلڈ والے ورنی ملر سے ناراض تھے کیونکہ اس کی وجہ سے انہیں پولیس اور دیگر اداروں کی طرف سے کافی پریشانی اٹھانی پڑ رہی تھی۔ انڈر ورلڈ کے لوگ بھی ورنی ملر کو تلاش کررہے تھے۔ اسے تلاش کرنے کے سلسلے میں اب گویا ایف بی آئی اور انڈر ورلڈ میں ایک غیراعلانیہ مقابلہ چل رہا تھا۔ پھر ایک روز کنکٹی کٹ شہر میں سلور نامی ایک شخص کی لاش ایک کھیت کے قریب پائی گئی۔ اس کے گلے میں نائیلون کی ڈوری کا پھندا تھا اور اس کا چہرہ ہتھوڑے سے کچل دیا گیا تھا۔ چہرے کی جگہ خون، ہڈیوں اور گوشت کا ملغوبہ رہ گیا تھا۔ بڑی مشکل سے اس کی شناخت ہوئی۔ تفتیش سے ایف بی آئی کو اندازہ ہوا کہ یہ انڈر ورلڈ کا کام تھا اور سلور کو اس ’’جرم‘‘ کی سزا دی گئی تھی کہ اس نے ورنی ملر کی مدد کی تھی۔ ایف بی آئی کو اندیشہ محسوس ہوا کہ شاید ورنی ملر کی تلاش کے سلسلے میں انڈر ورلڈ اسے مات دے دے… اور ایسا ہی ہوا۔ ایک روز ڈیٹرائٹ شہر کے مضافات میں ایک گڑھے میں ایک شخص کی لاش پائی گئی جس پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ اس کی گردن میں پھندا اتنی سختی سے ڈالا گیا تھا کہ اس کا نرخرہ کچلا گیا تھا۔ اس کے چہرے پر غالباً دو شاخہ ہتھوڑی سے وار کئے گئے تھے۔ گو کہ اسے کافی حد تک ناقابلِ شناخت بنا دیا گیا تھا لیکن پولیس نے بہرحال اسے ورنی ملر کی حیثیت سے شناخت کرلیا۔ ایف بی آئی کے ڈائرکٹر ایڈگر ہوور نے پولیس کی بات پر یقین نہ کرتے ہوئے اپنے آدمیوں کو بھی شناخت کے لیے بھیجا۔ وہ واقعی ورنی ملر ہی تھا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی کنساس سٹی والی خونریزی کے بارے میں حقائق منظرعام پر آنے اور اس کے دوسرے ذمے داروں کا صحیح پتا چلنے کی امید بھی دم توڑ گئی۔ ٭…٭…٭ بارکر گینگ، نویڈا میں چھٹیاں گزار کر، تازہ دم ہو کر واپس آگیا تھا اور اب اس بات پر غور کررہا تھا کہ آئندہ واردات کیا ہونی چاہئے؟ وہ شکاگو میں مختلف اپارٹمنٹس میں مقیم تھے لیکن آئندہ واردات کے بارے میں صلاح مشورہ کرنے کے لیے سینٹ پال چلے گئے۔ وہاں ’’گرین لینٹرن‘‘ نامی کلب کے مالک سائر نے تجویز پیش کی کہ انہیں اغواء برائے تاوان کی ایک اور واردات کرنی چاہیے۔ اس نے ایک اور بریوری کے کروڑ پتی مالک ایڈولف بریمر کے 37 سالہ بیٹے ایڈورڈ بریمر کا نام اغواء کے لیے تجویز بھی کردیا۔ ایڈولف بریمر وہ شخص تھا جس نے صدر روزویلٹ کی انتخابی مہم کے لیے سب سے زیادہ چندہ دیا تھا، جو ساڑھے تین لاکھ ڈالر تھا۔ اس زمانے میں یہ ایک خطیر رقم تھی۔ وہ صدر روزویلٹ کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا۔ صدر روزویلٹ نے اسے جرمنی میں سفیر بنا کر بھیجنا چاہا تھا لیکن وہ نہیں گیا تھا۔ یہ سب باتیں کارپس کے علم میں بھی تھیں۔ ’’تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا؟‘‘ کارپس بگڑ کر بولا ’’تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ اس شخص کے بیٹے کے اغواء سے کیسی کھلبلی مچے گی؟ معلوم نہیں کتنی پولیس ہمارے پیچھے لگ جائے گی۔‘‘ ’’پولیس تو 1931ء سے ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے۔‘‘ فریڈ بارکر بے پروائی سے بولا۔ ’’اگر ایسے ہی آدمی کو اغواء کرنا ہے تو پھر تاوان کم از کم پانچ لاکھ ڈالر تو ملنا چاہیے۔‘‘ کارپس کے لہجے میں نیم آمادگی جھلک آئی۔ ’’ہمیں معقولیت کے دائرے میں رہ کر بات کرنی چاہیے۔‘‘ سائر متانت سے بولا ’’دو لاکھ ڈالر کا مطالبہ مناسب رہے گا۔ کیا خیال ہے فریڈ؟‘‘ ’’ہاں، میرے خیال میں دو لاکھ ڈالر معقول رقم ہے۔‘‘ فریڈ بارکر بولا۔ ’’ٹھیک ہے۔ اگر تم لوگ اس کام کے لیے کمربستہ ہو ہی چکے ہو تو میں بھی تمہارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں لیکن ایک بار پھر میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ کام بہت خطرناک ہے۔‘‘ کارپس بولا۔ دو لاکھ ڈالر تاوان حاصل کرنے کے لیے ایڈورڈ بریمر کے اغواء کی تیاریوں شروع ہوگئیں۔ اس مقصد کے لیے سات آدمی گروہ کی صورت میں یکجا ہوگئے تھے۔ ان میں سے ایک تو کارپس تھا اور دوسرا زگلر۔ دو آدمی بارکر برادرز تھے۔ دو ان کے دوست بل اور ڈیوس تھے۔ ہیری نامی ایک نیا آدمی بھی انہوں نے اس مہم میں حصہ لینے کے لیے ’’بھرتی‘‘ کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سینٹ پال میں ایک اپارٹمنٹ بھی کرائے پر لے لیا تھا۔ پورا ایک ہفتہ کارپس اور فریڈ بارکر نے ایڈورڈ بریمر کا تعاقب کرکے اس کے معمولات کا جائزہ لیا۔ ایڈورڈ بریمر ایک بینک کا منیجر تھا۔ ایک ہفتے تک اس کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے کے بعد وہ لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسے اغواء کرنے کا بہترین وقت یا موقع وہ تھا جب وہ اپنی نو سالہ بیٹی کو اسکول چھوڑنے جاتا تھا۔ وہ اکیلا ہی بیٹی کے ساتھ جاتا تھا اور اسکول کے آس پاس کا علاقہ اس وقت کافی حد تک ویران ہی ہوتا تھا۔ بل نے الگ اپارٹمنٹ لے رکھا تھا اور وہ لوگ روزانہ منصوبے کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنے کے لیے وہاں جمع ہوتے۔ ایک رات کارپس اور فریڈبارکر وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی لکڑی کی ایک خالی پیٹی پر چڑھ کر ایک اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کے برابر والی بلڈنگ میں گرائونڈ فلور پر ہی بل کا اپارٹمنٹ تھا۔ کارپس اور فریڈبارکر کو آتے دیکھ کر وہ شخص جلدی سے لکڑی کی پیٹی سے اترا اور گلی کے کونے پر دوسری طرف غائب ہوگیا۔ فریڈ اور کارپس نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دونوں ہی اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ سادہ لباس میں پولیس کا کوئی آدمی تھا اور اپنی دانست میں بل کے اپارٹمنٹ میں جھانکنے کی کوشش کررہا تھا لیکن وہ غلطی سے برابر والی بلڈنگ پر پہنچ گیا تھا۔ انہوں نے بل کے اپارٹمنٹ میں پہنچ کر ساتھیوں کو یہ بات بتائی تو ڈوک بارکر بولا۔ ’’مجھے تو خطرے کی گھنٹی بجتی سنائی دے رہی ہے۔ میں باہر جا کر صورت حال کا جائزہ لے کر آتا ہوں۔‘‘ وہ گیا اور کچھ دیر بعد واپس آکر بولا ’’حیرت کی بات ہے کہ اتنی سردی میں بھی ایک آدمی بغیر اوورکوٹ کے، سڑک کے کونے پر کھڑا ہے۔ اس کے کھڑے ہونے کا کوئی مقصد بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘ کچھ دیر اس سلسلے میں غوروخوض کرنے کے بعد کارپس بولا ’’میں سائر سے بات کروں گا۔ اس کے پولیس میں تعلقات ہیں اور اسے، ضرورت پڑنے پر وہاں سے ہر خبر مل جاتی ہے۔ اگر ہماری نگرانی ہو رہی ہوگی تو وہ پولیس والوں سے تصدیق کرکے ہمیں بتادے گا۔‘‘ انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ اپارٹمنٹ سے رخصت ہوتے وقت وہ ایک ساتھ نہیں نکلیں گے۔ دو دو آدمی وقفے وقفے سے روانہ ہوں گے۔ اس سے پہلے ڈوک اکیلا ہی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے باہر گیا۔ وہ چند منٹ بعد واپس آیا تو کچھ پریشان نظر آرہا تھا۔ ’’پچھلی گلی میں ایک کار کھڑی ہے، جس میں دو پولیس والے موجود ہیں۔‘‘ اس نے ایک موٹی سی گالی دینے کے بعد اطلاع دی۔ ’’اوہ…! یہ تو خاصی بری صورت حال ہے۔‘‘ کارپس تشویش سے بولا۔ طے یہ پایا کہ ڈوک ایک بار پھر باہر جائے گا اور پچھلی گلی میں کھڑی ہوئی ان سب کی گاڑیاں باری باری وہاں سے لا کر سامنے سڑک پر کھڑی کردے گا۔ اس کے بعد وہ ایک ایک، دو دو کرکے وہاں سے رخصت ہوجائیں گے۔ ڈوک نے اس ہدایت پر عمل کیا اور واپس آکر اطلاع دی کہ پولیس والوں نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ اس کے خیال میں وہ برابر والی بلڈنگ کی نگرانی کررہے تھے۔ جب وہ لوگ باہر آئے تو انہیں پولیس والے کہیں نظر نہیں آئے۔ وہ لوگ اب فریڈ بارکر کے اپارٹمنٹ پر آگئے۔ راستے میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ فریڈ اب بھی مطمئن نہیں تھا۔ اس کا خیال تھا کہ پولیس کو اگر ان کے منصوبے کی بھنک پڑچکی تھی تو انہیں راتوں رات سینٹ پال سے نکل کر شکاگو واپس چلے جانا چاہیے تھا۔ انہیں زیادہ بے اطمینانی ہوئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک بار پھر بل کے اپارٹمنٹ کا چکر لگایا جائے۔ ’’اگر ہم دوبارہ وہاں جارہے ہیں تو بہتر ہے کہ کوئی زیادہ مناسب ہتھیار بھی ساتھ لے لیں۔ صرف پستولوں پر بھروسا نہ کریں۔‘‘ کارپس بولا۔ فریڈ بارکر نے الماری کھولی اور ایک وقت میں پچاس گولیاں چلانے والی ہلکی مشین گن نکال لی۔ وہ اور کارپس ایک بار پھر بل کے اپارٹمنٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ دونوں ڈوک کی شیورلے میں جارہے تھے۔ فریڈ گاڑی چلا رہا تھا۔ کارپس اس کے برابر مشین گن گود میں رکھے بیٹھا تھا۔ وہ جب اس بلڈنگ تک پہنچے جس میں بل کا اپارٹمنٹ تھا، تو آدھی رات ہوچکی تھی۔ انہوں نے پچھلی گلی کا چکر لگایا اور سامنے والی سڑک پر آگئے۔ ہر طرف سناٹا تھا لیکن جب وہ واپس جانے کے لیے سڑک کے کونے تک پہنچے تو انہوں نے عقب نما آئینے میں کسی گاڑی کی دو ہیڈ لائٹس روشن ہوتے دیکھیں جو دوسرے ہی لمحے حرکت میں آگئیں۔ کارپس نے سیٹ پر پہلو بدل کر پیچھے دیکھا اور بولا ’’کوئی ہمارے تعاقب میں روانہ ہوا ہے۔‘‘ ’’ہاں… میں نے دیکھ لیا ہے۔‘‘ فریڈ بولا۔ اس نے کم رفتار سے گاڑی چلائی اور دو تین موڑ مڑ گیا۔ گاڑی بدستور ان کے تعاقب میں رہی۔ کارپس سیٹ پر پیچھے کی طرف مڑکر، آنکھیں سکیڑ کر دیکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ ان کے پیچھے گاڑی میں دو آدمیوں کے ہیولے نظر آرہے تھے۔ اسے کچھ یوں لگ رہا تھا جیسے گاڑی چلانے والے کے سر پر چھجے دار ٹوپی تھی۔ وہ اسی نتیجے پر پہنچا کہ وہ باوردی پولیس والے تھے۔ شاید گشت پر مامور تھے لیکن ممکن تھا کہ انہیں خاص طور پر کچھ لوگوں پر نظر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہو۔ ’’یہ پولیس والے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ کارپس بولا۔ ’’انہیں روک دینا چاہیے۔‘‘ فریڈ نے جواب دیا۔ ’’کیسے؟‘‘ کارپس نے جاننا چاہا۔ ’’میں اگلا موڑ تیزی سے کاٹوں گا۔ تم گاڑی سے اُتر کر کھڑے ہو جانا۔ اگر یہ وہاں تک بھی تعاقب میں آتے دکھائی دیئے تو تم ان پر فائرنگ کر دینا۔‘‘ فریڈ بولا۔ اگلی گلی کا موڑ مڑنے کے بعد فریڈ نے گاڑی روک دی۔ کارپس مشین گن لیے گاڑی سے اُترا تو اس کے معدے میں گرہیں سی پڑ رہی تھیں۔ فریڈ بھی گاڑی سے اُتر آیا۔ اُس نے پستول نکال لیا۔ گاڑی نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ وہ اس گلی میں بھی مڑ آئی۔ فریڈ اور کارپس نے اس پر گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ رات کا سنّاٹا گولیوں کی آوازوں سے مجروح ہونے لگا۔ کارپس نے اپنی گن کا پورا پچاس گولیوں والا میگزین خالی کر
دیا۔ کار رک چکی تھی مگر گولیوں کے ٹکرانے کی وجہ سے ہولے ہولے ہل رہی تھی۔ فریڈ اور کارپس کو گاڑی کے اندر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ دونوں اپنی اپنی گنیں خالی کرنے کے بعد جلدی سے شیورلے میں بیٹھے اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔ فریڈ کے اپارٹمنٹ میں پہنچ کر انہوں نے ریڈیو کھولا اور ساری رات اس کے پاس بیٹھے رہے مگر فائرنگ کے اس واقعے کے بارے میں کہیں سے کوئی خبر نہیں سن سکے۔ صبح دن چڑھنے کے بعد ڈوک باہر گیا اور اخبار خرید کر لایا۔ تب انہیں پتا چلا کہ رات انہوں نے فائرنگ کرکے ایک ایئرلائن کے ملازم کو تقریباً مار ڈالا تھا۔ وہ یہ سمجھ کر ان کا تعاقب کر رہا تھا کہ وہ گھروں میں تاک جھانک کرنے والے لوگ ہیں۔ اس کا نام رائے میکارڈ تھا۔ وہ ایک وجہ کے تحت فریڈ اور کارپس کا تعاقب کر رہا تھا۔ قصّہ اصل میں یہ تھا کہ رائے میکارڈ پچھلی رات ایئرپورٹ سے اپنی ڈیوٹی سے واپس آیا تو اس کی بیوی نے اسے بتایا کہ کوئی آدمی کھڑکی سے ان کے اپارٹمنٹ میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ غالباً وہ وہی آدمی تھا جسے کارپس اور فریڈ بارکر نے لکڑی کی پیٹی پر چڑھ کر ایک اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ شاید وہ کوئی چور اُچکّا یا آوارہ گرد ہو۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ کوئی ایسا آدمی ہو جسے گھروں میں تاک جھانک کرنے کی عادت ہو۔ بہرحال، بیوی کی بات سُن کر رائے میکارڈ نے اپنی وردی اور ٹوپی بھی نہیں اُتاری تھی اور گھر کے آس پاس کا جائزہ لینے نکل کھڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ایک دوست کو بھی ساتھ لے لیا تھا۔ اسے فریڈ اور کارپس کی گاڑی مشکوک انداز میں جاتی نظر آئی تو وہ اس کے تعاقب میں روانہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں وہ موت کے منہ میں پہنچ گیا تھا۔ کارپس نے اس کی گاڑی پر اپنی مشین گن اور فریڈ نے اپنا پستول خالی کر دیا تھا، تاہم اسے تین ہی گولیاں لگی تھیں، البتہ اس کی گاڑی گولیوں سے چھلنی ہوگئی تھی۔ اس کا دوست معجزانہ طور پر زخمی ہونے سے بچ گیا تھا۔ اسے کوئی گولی نہیں لگی تھی۔ رائے میکارڈ کی بھی جان بچ گئی تھی۔ وہ اسپتال میں زیرعلاج تھا۔ دُوسرے روز دن بھر کارپس اور بارکر برادرز کا گروہ اس سوال پر غور کرتا رہا کہ کیا ایڈورڈ بریمر کے اغواء کا منصوبہ ترک کر دیا جائے؟ طے یہ پایا کہ فی الحال اس منصوبے پر عملدرآمد دو دن کے لیے ملتوی کر دیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس دوران حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں۔ جن دو دنوں کے دوران یہ گروہ غیرفعال ہو کر بیٹھا تھا، اس عرصے میں دُوسرے علاقوں میں بونی، کلائیڈ اور جان ڈلنگر وغیرہ اپنی وارداتوں میں مصروف تھے۔ جان ڈلنگر نے ایک بینک ڈکیتی کے دوران ایک پولیس آفیسر کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔ بونی کی جلی ہوئی ٹانگ ٹھیک ہوگئی تھی اور زخم بھر گئے تھے لیکن وہ بہت کمزور ہوگئی تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچا دکھائی دیتی تھی۔ اس کا وزن اب 80 پونڈ سے زیادہ نہیں تھا۔ بونی اور کلائیڈ نے چھ ماہ بہت بُرے حالات میں گزارے تھے۔ اس عرصے میں وہ زیادہ تر اپنی گاڑی میں رہے تھے۔ وہی ان کے لیے پناہ گاہ، خواب گاہ اور مکان کا کام دے رہی تھی۔ عزیز، رشتے دار وغیرہ اس دوران کسی طرح انہیں مختلف مقامات پر کھانا پہنچاتے رہے تھے۔ بونی کی حالت ٹھیک ہوئی تو کلائیڈ نے ایک بار پھر ’’کام‘‘ شروع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ ان جیسے لوگوں کے نزدیک لوٹ مار ہی ان کا کام یا پیشہ تھا۔ (جاری ہے)