Monday, March 17, 2025

khatarnak Mafia | Episode 13

اس مقصد کے لیے کلائیڈ کو بونی کے علاوہ بھی ایک ساتھی کی ضرورت تھی لیکن ان کے ساتھ جو واقعات پیش آ چکے تھے، ان کی وجہ سے اب ان کی اپنی لائن کے لوگ بھی ان کا ساتھ دیتے ہوئے گھبرانے لگے تھے۔ اسے کوئی ساتھی میسر نہ آیا تو اسے ایک آدمی کا خیال آیا جس پر وہ بھروسا کر سکتا تھا، لیکن وہ جیل میں تھا۔
کلائیڈ نے اسے جیل سے فرار کرانے کا منصوبہ بنایا اور اس میں کامیاب رہا۔ اپنے دوست کو آزاد کرانے کی کوشش میں وہ چند دُوسرے قیدیوں کو بھی فرار کرا لایا مگر اس مہم کے دوران اس کے ہاتھوں جیل کے محافظوں میں سے ایک آدمی، میجر کروسن ہلاک ہوگیا۔ وہ اس جیل کے انچارج سائمن کا دوست بھی تھا۔ سائمن کو معلوم ہو چکا تھا کہ قیدیوں کو جیل سے فرار کرانے والا دراصل کلائیڈ تھا۔ اس نے ہلاک ہو جانے والے اپنے دوست میجر کروسن کی لاش کے قریب کھڑے ہو کر زیرلب قسم کھائی کہ وہ کلائیڈ کو زندہ یا مُردہ قانون کی گرفت میں ضرور لائے گا، خواہ اس کے لیے اسے کتنی ہی جدوجہد کرنی پڑے۔
اس دوران کارپس اور بارکر برادرز وغیرہ کا گروہ آخرکار ایڈورڈ بریمر کے اغواء کا فیصلہ کرچکا تھا۔ اس روز ایڈورڈ بریمر اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے کے بعد آگے روانہ ہوا تو سڑک پر ٹریفک کم ہی تھا۔ وہ چوراہے پر پہنچ کر سگنل پر رُکا تو ایک طرف سے ایک کار آئی اور عین اس کی کار کے آگے آ کر رُک گئی۔ اس کار نے ایڈورڈ بریمر کی سیاہ لنکن کا راستہ روک لیا تھا۔ اس کار میں زگلر تھا۔ اسی دوران ایک دُوسری کار ایڈورڈ بریمر کی کار کے عقب میں، اس کے بالکل قریب آ کر رُکی۔ اس طرح ایڈورڈ بریمر کی کار دونوں کاروں کے درمیان بالکل پھنس کر رہ گئی۔
پیچھے آ کر رُکنے والی کار کو کارپس ڈرائیو کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ڈوک بارکر اور ایک دُوسرا ساتھی ڈیوس تھا۔ دونوں گاڑی سے باہر کودے۔ ڈوک نے ایڈورڈ بریمر کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور اس پر پستول تان کر کہا ’’اپنی جگہ سے حرکت نہ کرنا ورنہ گولی مار دوں گا۔‘‘
ایڈورڈ بریمر ہیجان زدہ ہوگیا۔ اس نے ڈوک کی ہدایت پر عمل کرنے کے بجائے گاڑی کو گیئر میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن ڈوک نے اس کی پیشانی پر پستول کا دستہ رسید کر دیا۔ گاڑی میں گیئر لگنے کے بجائے اس کا انجن بند ہوگیا۔ ایڈورڈ بریمر نے دُوسری طرف کا دروازہ کھول کر نکلنا چاہا لیکن اس سے پہلے ڈیوس نے وہ دروازہ کھول دیا۔ اس نے بھی ایڈورڈ بریمر کو پستول کے دستے سے ضرب لگائی اور دروازہ بھی دوبارہ زور سے بند کر دیا جو ایڈورڈ بریمر کے گھٹنے پر لگا۔ یہ کشمکش صرف تین چار سیکنڈ جاری رہی اور ایڈورڈ بریمر نے گویا ہتھیار ڈال دیئے۔ اس کے سر سے خون بہنے لگا تھا۔
کارپس نے پیچھے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے یہ کشمکش دیکھی تھی۔ وہ خودکلامی کے سے انداز میں بڑبڑا رہا تھا۔ ’’اگر گشت کرنے والی پولیس کی کوئی گاڑی اس طرف آنکلی تو مصیبت ہو جائے گی۔‘‘
ڈوک نے بہرحال ایڈورڈ بریمر کو گاڑی کے اگلے حصے میں فرش پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ڈیوس نے گاڑی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اسٹارٹ نہیں ہوئی۔
’’یہ کیا مصیبت ہے… چلو… گاڑی اسٹارٹ کرو۔‘‘ ڈوک نے ایڈورڈ بریمر کو حکم دیا۔
بریمر نے اپنی پیشانی سے خون پونچھتے ہوئے دُوسرا ہاتھ بڑھا کر ڈیش بورڈ پر ایک بٹن دبایا اور گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔ اس کے بعد بریمر کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ شاید سڑک پر کسی کو احساس بھی نہیں ہو سکا تھا کہ وہاں سے ایک آدمی کو اغواء کر لیا گیا تھا کیونکہ کوئی گاڑی ان کے تعاقب میں آتی دکھائی نہیں دی۔
کئی میل کا فاصلہ طے کر کے تینوں کاروں کا مختصر سا قافلہ مضافاتی علاقے میں جا پہنچا۔ ایک ویران سے مقام پر تینوں گاڑیاں سڑک کے کنارے رُک گئیں۔ جس طرح زگلر نے ولیم ہام کے اغواء کے سلسلے میں کیا تھا، اسی طرح اب بھی اس نے اغواء سے متعلق دو خط ایڈورڈ کے سامنے رکھ دیئے اور اسے حکم دیا کہ وہ ان پر دستخط کر دے۔
ایڈورڈ بریمر فریادی سے لہجے میں بولا۔ ’’میں سخت تکلیف میں ہوں۔ میرے سر کے زخم میں بہت درد ہو رہا ہے اور گھٹنے پر جہاں دروازہ لگا تھا، وہاں بھی سخت تکلیف ہے۔‘‘
’’یہ تمہاری اپنی حماقت کا نتیجہ ہے۔ تمہیں مزاحمت کا شوق چڑھا تھا۔‘‘ کارپس نے بے پروائی سے کہا۔
ایڈورڈ بریمر سے دونوں خطوں پر دستخط کرانے کے بعد کارپس اسے شکاگو کی طرف لے گیا جبکہ زگلر اور فریڈ بارکر وہ خطوط لے کر سینٹ پال واپس آ گئے۔ اغواء کے دو گھنٹے بعد بریمر فیملی کے ایک قریبی دوست اور ٹھیکیدار میکی کو ایک فون کال موصول ہوئی۔ فون کرنے والے نے اپنا نام مکّی بتایا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ ایک فرضی نام تھا۔
’’ہم نے تمہارے دوست ایڈورڈ بریمر کو اغوا کر لیا ہے۔‘‘ مکی نے کہا۔ ’’اگر تم اور اس کے گھر والے چاہتے ہیں کہ وہ خیریت سے واپس آ جائے تو ہم دو لاکھ ڈالر کے عوض اس کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ دُوسری صورت میں اس کی زندگی کی اُمید نہ رکھنا۔‘‘
مکی نے میکی کو یہ بھی بتا دیا کہ ایڈورڈ بریمر کی خالی کار کہاں کھڑی ملے گی۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بتایا کہ میکی کے آفس کے باہر سیڑھیوں کے نیچے اسے ایک خط رکھا ملے گا جس میں تاوان کی ادائیگی کے سلسلے میں ہدایات درج ہوں گی۔ میکی آفس سے باہر گیا تو اسے واقعی سیڑھیوں کے نیچے ایک خط رکھا ہوا مل گیا۔ اس میں لکھا تھا:
’’تم لوگوں کو ایک سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔ ہمارے ساتھ زیادہ ہوشیاری دکھانے یا ہمیں دھوکا دینے کی کوشش نہ کرنا ورنہ نقصان اُٹھائو گے۔ بریمر کی زندگی اس وقت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اس خط میں درج تمام ہدایات پر تمہیں عمل کرنا ہوگا۔ پولیس ان معاملات میں کچھ نہیں کر پاتی، اس لیے اس سے رجوع کرنا فضول ہوگا۔ پہلے ادائیگی کی فکر کر لو، اس کے بعد پولیس اپنی تفتیش اور سراغرسی کرتی رہے گی۔ تمہارا دوست چونکہ کچھ زیادہ خوشگوار حالات میں وقت نہیں گزار رہا ہوگا، اس لیے جلد از جلد رقم کا بندوبست کرنے کی کوشش کرنا۔
رقم پانچ اور دس ڈالر کے نوٹوں کی شکل میں ہونی چاہیے۔ نئے نوٹ نہ ہوں اور ان کے نمبر مسلسل، ترتیب وار نہ ہوں۔ رقم گتّے کے دو مضبوط ڈبّوں میں ہونی چاہیے اور یہ کارٹن مضبوط ڈوریوں سے بندھے ہوئے ہوں۔ اب ہم تم سے صرف اسی وقت رابطہ کریں گے جب ہمیں اشارہ مل جائے گا کہ تم لوگ رقم کی ادائیگی کے لیے تیار ہو۔ ہمیں اشارہ دینے کا طریقہ یہ ہوگا کہ رقم کا بندوبست کرنے کے بعد ’’منی پولس ٹریبیون‘‘ نامی اخبار میں ذاتی پیغامات کے کالم میں اشتہار دو گے جو صرف ان الفاظ پر مشتمل ہوگا ’’ایلس! ہم تیار ہیں۔‘‘ اس کے فوراً بعد تمہیں ہدایات موصول ہو جائیں گی کہ رقم کہاں اور کس طرح پہنچانی ہے۔ اشتہار چھپنے کے بعد تمہیں چند منٹ کے نوٹس پر بھی رقم پہنچانے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ٹال مٹول کرنے یا ہمیں کوئی چالاکی دکھانے کی کوشش نہ کرنا۔ سودے بازی کرنے یا تنگدستی کا بہانا بنانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمیں معلوم ہے بینکوں میں بریمر فیملی کی کتنی دولت موجود ہے۔ تمہیں ہم سے رابطے کی کوشش کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہم خود رابطہ کرتے رہیں گے اور ہدایات دیتے رہیں گے۔ ہمیں دھمکیاں وغیرہ دینے کی بھی کوشش نہ کرنا۔ بس تم اپنے حصّے کا کام کرتے رہو، ہم اپنے حصّے کا کام کر دیں گے۔‘‘
میکی نے ایڈورڈ بریمر کے آفس فون کرکے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ وہ کہیں بھی موجود نہیں تھا۔ تب میکی کو احساس ہوا کہ صورت حال واقعی سنگین تھی ورنہ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید کوئی اس کے ساتھ مذاق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب اس نے ایڈورڈ بریمر کے والد ایڈولف بریمر کو فون کیا اور انہیں ملاقات کے لیے ریان ہوٹل بلا لیا۔ سینٹ پال کے پولیس چیف کو بھی صورت حال کی اطلاع دے دی گئی۔ اس کے علاوہ میکی نے ایف بی آئی کے مقامی انچارج ایجنٹ کو بھی اطلاع دے دی۔ اس کا نام ورنر ہانی تھا۔
ورنر ہانی جب ریان ہوٹل پہنچا تو اس نے ایڈولف بریمر کو پولیس چیف کے ساتھ گفتگو میں مصروف پایا۔ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے سلسلے میں پولیس کے محکمے میں ایک الگ شعبہ قائم کیا گیا تھا۔ پولیس چیف اس شعبے کے سربراہ ٹام برائون کو بھی ساتھ لایا تھا۔ ٹام برائون ایک کرپٹ پولیس آفیسر تھا اور بارکر برادرز کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا جس کا مطلب، ظاہر ہے یہی تھا کہ ایڈورڈ بریمر کے اغواء کے سلسلے میں پولیس اب جو کچھ بھی کرے گی، اس کا بارکر برادرز کے گروہ کو علم ہوتا رہے گا۔
ریان ہوٹل میں ان لوگوں کی ملاقات کافی حد تک ایک کاروباری میٹنگ جیسی تھی۔ صبر و تحمل اور سکون سے بات چیت ہوتی رہی۔ ایڈولف بریمر مشکل حالات میں جلد گھبرانے والا آدمی نہیں تھا۔ میٹنگ ختم ہوئی تو اس نے میکی کو ایڈورڈ بریمر کی کار تلاش کرنے کے لیے بھیج دیا۔ اغواء کاروں نے اپنے خط میں جو جگہ بتائی تھی گاڑی وہیں کھڑی مل گئی۔ اس کی اگلی سیٹ پر خون کے دھبّے تھے۔ میکی نے سوچا کہ بریمر کے گھر والے خون دیکھ کر پریشان نہ ہوں، اس لیے وہ پہلے کار کو دُھلوانے کے لیے لے گیا۔ کار کی صفائی میں خون کے ساتھ ساتھ اغواء کاروں کی اُنگلیوں کے نشانات بھی صاف ہوگئے۔ اس دوران بریمر فیملی کے دوسرے لوگ ’’منی پولس ٹریبیون‘‘ میں اغواء کاروں کی ہدایت کے مطابق اشتہار شائع کرانے کے لیے چلے گئے تھے۔
دُوسری طرف رات گئے کارپس مغوی کو لے کر اسی پناہ گاہ پر واپس پہنچ گیا تھا جہاں سات ماہ پہلے اس نے ولیم ہام کو رکھا تھا۔ وہاں زگلر کا ایک دوست ہیرالڈ بھی موجود تھا۔ انہوں نے ایڈورڈ بریمر کو لے جا کر ایک بیڈروم میں بٹھا دیا جہاں اس کے سامنے ایک کھڑکی تھی مگر اس میں تختے لگا کر کیلیں ٹھونک دی گئی تھیں۔ وہ شفٹوں میں باری باری مغوی کے کمرے کی چوکیداری کرنے لگے۔
کافی دیر بعد کارپس نے کچن میں جھانکا جہاں ہیرالڈ موجود تھا اور ریڈیو سُن رہا تھا۔ کارپس نے اس سے پوچھا ’’کوئی خاص خبر سُنی؟‘‘
’’ہاں…‘‘ ہیرالڈ نے جواب دیا۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ اغواء کی یہ واردات ہمارے لیے کافی بڑا مسئلہ بننے والی ہے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ کارپس نے چونک کر پوچھا۔
’’مغوی کے گھر والوں کو اس کی گاڑی ملی تو اس کی سیٹوں پر کافی خون لگا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ رائے قائم کی ہے کہ مغوی کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ وہ زندہ نہیں ہے مگر اس کا تاوان وصول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کم از کم ریڈیو پر تو یہی بتایا گیا ہے۔‘‘ ہیرالڈ بولا۔
’’اوہ میرے خدا…!‘‘ کارپس کے لہجے میں تشویش جھلک آئی۔ ’’یہ تو واقعی بہت بُرا ہوا۔‘‘
٭…٭…٭
اغواء کے بعد دو دن بریمر فیملی کے افراد حویلی کے مختلف کمروں میں بے چینی سے ٹہلتے ہوئے گزار چکے تھے۔ انہیں اغواء کاروں کی طرف سے ہدایات کا انتظار تھا مگر انہوں نے رابطہ نہیں کیا تھا۔ ان کی ہدایت کے مطابق اخبار میں اشتہار دے دیا گیا تھا اور وہ جمعرات کو اخبار میں شائع ہو گیا تھا لیکن سنیچر تک اس کا کوئی ردّعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ اغواء کی خبر بہرحال اخبار والوں تک پہنچ گئی تھی اور جمعرات کی شام ایڈولف بریمر کو اخباری رپورٹرز سے بات کرنی پڑی تھی۔
اس نے یہی کہا تھا کہ انہیں ایڈورڈ بریمر کی زندگی اور سلامتی عزیز ہے، وہ پولیس کی کسی کارروائی میں تعاون نہیں کریں گے، وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایڈورڈ بریمر خیروعافیت سے گھر واپس آ جائے۔ ایڈورڈ بریمر باپ سے الگ گھر میں رہتا تھا۔ اس کے گھر اور باپ کی حویلی، دونوں جگہوں پر ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو تعینات کر دیا گیا تھا۔ بہت سے ٹیلیفون ٹیپ کیے جا رہے تھے۔ ایف بی آئی والوں پر براہ راست وائٹ ہائوس سے دبائو تھا۔
بریمر فیملی کے ہاں فون کالز، خطوط اور ٹیلیگرامز کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ بہت سے پیغامات تو خیرخواہوں، شناسائوں اور عام افراد کی طرف سے تھے لیکن کچھ پیغامات شریر لوگوں کی طرف سے بھی تھے جو انہیں مزید پریشان کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے ہی ایک خط میں انہیں اطلاع دی گئی تھی کہ ایڈورڈ بریمر کو واقعی قتل کر دیا گیا ہے اور اس کی لاش فلاں جگہ دفن ہے۔
پھر سنیچر کی صبح بریمر فیملی کے ڈاکٹر، پرٹ کے گھر میں تین خط پھینکے گئے۔ ان میں سے ایک، ڈاکٹر پرٹ کے نام تھا اور وہ ایڈورڈ بریمر کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ اس خط میں ڈاکٹر کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ باقی دونوں خطوط ایڈولف بریمر کو پہنچا دے۔ ڈاکٹر پرٹ نے فوراً اس ہدایت پر عمل کیا۔ ان خطوط میں ہدایت کی گئی تھی کہ جب دو لاکھ ڈالر کا بندوبست ہو جائے تو میکی کے آفس کی کھڑکی کے شیشے پر عقاب کی بڑی تصویر والے دو مخصوص اسٹیکر چسپاں کر دیئے جائیں جنہیں باہر سے گزرتا ہوا کوئی بھی آدمی دیکھ سکے۔ اس کے بعد رقم پہنچانے کے سلسلے میں ہدایات دی جائیں گی۔
ایڈولف بریمر کے لیے اصل میں تاوان کی رقم ہی مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ بریمر فیملی نے حال ہی میں کچھ بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔ ان کے پاس بہت کم نقد رقم رہ گئی تھی۔ دو لاکھ ڈالر کا مطالبہ پورا کرنے کے لیے شاید انہیں ہنگامی طور پر اونے پونے داموں اپنی خاندانی بریوری بیچنا پڑتی۔ ایڈورڈ بریمر اپنے جس خاندانی بینک کا منیجر تھا، اس میں بھی تیس چالیس ہزار ڈالر سے زیادہ کیش موجود نہیں تھا۔ ایڈولف کے کاروباری مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ عقاب کی تصویر والے اسٹیکر دو دو حصوں میں تقسیم کر کے کھڑکی کے شیشے پر چسپاں کئے جائیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ وہ آدھا تاوان ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایڈولف نے اس مشورے پر عمل کیا۔
ادھر ایڈورڈ بریمر اغواء کاروں کے ساتھ دوستی گانٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ انہیں بتا رہا تھا کہ اس کے تو خود انڈر ورلڈ والوں سے اچھے خاصے تعلقات تھے، وہ لوگ اگر اسے اغواء کرنے کے بجائے اس سے مشورہ کر لیتے تو وہ انہیں کچھ دُوسری ’’اسامیوں‘‘ کے بارے میں بتا سکتا تھا جو اس وقت زیادہ موٹی مرغیاں تھیں اور ان سے فوری طور پر زیادہ تاوان مل سکتا تھا۔ اس نے اغواء کاروں پر اپنی فیملی کی مالی پوزیشن بھی واضح کر دی تھی۔ اس نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ زیادہ نقد رقم کا انتظام کرنے کے سلسلے میں ان کی کیا مجبوریاں تھیں۔ وہ صرف اپنے خاندانی بینک کی اکلوتی شاخ سے چالیس پچاس ہزار ڈالر کا بندوبست کرسکتا تھا۔
اغواءکار خود بھی سخت اعصابی تنائو کا شکار ہونے لگے تھے۔ انہیں احساس ہونے لگا تھا کہ انہوں نے غلط آدمی پر ہاتھ ڈال دیا تھا۔ صدر روز ویلٹ تک ریڈیو پر، اغواء کی اس واردات کا تذکرہ کرچکے تھے اور کہہ چکے تھے کہ مجرم سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ بہت سے ٹیلیفون ٹیپ ہو رہے تھے اور ایف بی آئی والے ہر طرف ان کی بُو سونگھتے پھر رہے تھے۔ ان کے لیے تو اب مغوی کی فیملی تک اپنے پیغامات پہنچانا بھی مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
انہیں یہ بھی احساس ہو رہا تھا کہ اگر انہوں نے ایڈورڈ بریمر کو قتل کر دیا تو یہ ان کے حق میں اور بھی زیادہ بُرا ہوگا۔ ان کے لیے اعصابی تنائو ناقابل برداشت ہوتا جا رہا تھا۔ وہ تاوان کے طور پر چالیس پچاس ہزار ڈالر پر قناعت کرنے کے بارے میں بھی سوچنے لگے تھے۔
دُوسری طرف ایڈولف بریمر دیانتداری سے ہر بات ایف بی آئی کو بتائے جا رہا تھا۔ اسے اب تک اغواء کاروں کی طرف سے جو خطوط موصول ہوئے تھے، اس نے ایف بی آئی کے ایجنٹ، ناتھن کے حوالے کر دیئے تھے جس نے انہیں ایک سر بہ مہر لفافے میں واشنگٹن روانہ کر دیا۔ دُوسرے روز سینٹ پال کے مقامی اخبار ’’ڈیلی نیوز‘‘ میں اس بارے میں خبر آ گئی۔ ایف بی آئی والوں کو پہلے ہی شبہ ہو چکا تھا کہ پولیس میں کوئی ایسا آدمی موجود ہے جو اغواء کاروں کے لیے مخبر کا کام کر رہا ہے۔
ناتھن کی پوچھ گچھ پر پولیس چیف نے قوی شبہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہ آدمی سراغرساں ٹام برائون ہو سکتا ہے۔ پھر پولیس چیف ڈیبل نے اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے تو کافی حد تک یقین ہے کہ ولیم ہام اور ایڈورڈ بریمر، دونوں کے اغواء کی وارداتوں میں ہمارا یہ آفیسر برابر کا شریک رہا ہے، بلکہ شاید اغواء کاروں کو یہ دونوں شکار اسی نے منتخب کر کے دیئے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
ریاست ایریزونا کے شہر ٹسکن کی آبادی اس زمانے میں صرف تیس ہزار تھی۔ یہ ایک صحرائی سا شہر تھا لیکن یہاں خوبصورتی اور سکون کا احساس ہوتا تھا۔ اس شہر کے لوگ زندہ دل تھے اور یہاں بہت سی تفریح گاہیں موجود تھیں۔ سیّاحوں، سیر و تفریح کے لیے آنے والوں اور مقامی لوگوں میں سے بیشتر کی شامیں بڑے رنگین انداز میں گزرتی تھیں تاہم یہاں شکاگو جیسی ہنگامہ خیزی نہیں تھی۔
جان ڈلنگر اور اس کے ساتھی رسل کلارک اور چارلس میکلے یہاں پہنچ چکے تھے۔ ڈلنگر کی گرل فرینڈ ایولین عرف بلّی بھی اس کے ساتھ تھی۔ کلارک اور میکلے پہلے یہاں پہنچے تھے اور شہر کے سب سے اچھے ہوٹل ’’کانگریس‘‘ میں مقیم تھے۔ میکلے کی یہاں ایک مقامی گلوکارہ سے دوستی ہوگئی تھی اور وہ اس کے ساتھ نتھی ہوگئی تھی۔ تینوں کا وقت یہاں خوب مزے میں گزر رہا تھا۔ ڈلنگر اور ایولین بعد میں یہاں پہنچے۔ انہوں نے ایک موٹیل میں قیام کیا اور اپنے نام وہاں مسٹر اور مسز فرینک لکھوائے۔ ان کے بعد پرپونٹ اور اس کی دوست میری بھی آن پہنچے۔ سب کو ٹسکن بہت پسند آیا۔
پرپونٹ تو اپنے قیام کے دُوسرے روز ہی اتنی موج میں آیا کہ ایک سڑک کے کنارے گاڑی روک کر، وہاں کھڑے دو پولیس والوں سے گپ شپ کرنے لگا۔ اس نے پولیس والوں کو بتایا کہ وہ فلوریڈا سے سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا تھا۔ وہ میکسیکو کی شراب کے کئی پیگ چڑھائے ہوئے تھا اور خوب ترنگ میں تھا۔ وہ پولیس والوں کو اپنی گاڑی کی خوبیاں بھی بتانے لگا کہ اس میں پاور ونڈوز بھی تھیں اور پاور اسٹیئرنگ بھی تھا جو اس زمانے کے اعتبار سے انتہائی جدید اور حیرت انگیز ایجادات میں شمار ہوتی تھیں۔ پولیس والے خوش خلقی سے مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سُنتے رہے اور سر ہلاتے رہے۔ پرپونٹ روانی میں انہیں یہ بھی بتا گیا کہ وہ کہاں ٹھہرا ہوا تھا۔
بہرحال وہ سب وہاں مزے سے دن گزار رہے تھے کہ ایک روز حادثاتی انداز میں کانگریس ہوٹل میں آگ لگ گئی۔ میکلے اور کلارک اس وقت ہوٹل سے باہر تھے۔ انہوں نے فائربریگیڈ کے ایک آدمی کو پانچ ڈالر ٹپ دے کر اپنے کمرے سے خاص طور پر ایک صندوق بہ حفاظت نکال کر لانے کی ہدایت کی۔ فائر فائٹر نے یہ کام تو کر دیا لیکن یہ بات اسے یاد رہی۔ ایک تو اس لیے کہ اسے پانچ ڈالر ٹپ ملی تھی۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ غیرمعمولی ٹپ تھی۔ دُوسرے اس لیے کہ موٹے پکڑے میں لپٹا ہوا جو صندوق وہ نکال کر لے گیا تھا، وہ کافی بھاری تھا۔ اس بے چارے کو نہیں معلوم تھا کہ اس صندوق میں کلارک اور میکلے کی مشین گنیں تھیں۔
اس فائر فائٹر کا نام ولیم تھا۔ وہ حقیقی جرائم پر مبنی کہانیوں والے میگزین پڑھنے کا بڑا شوقین تھا۔ ہوٹل میں آتشزدگی کے واقعے کے تین روز بعد وہ فائر اسٹیشن پر بیٹھا ایسا ہی ایک رسالہ پڑھ رہا تھا کہ ایک صفحے پر اس کی نظر جم کر رہ گئی۔ اس صفحے پر میکلے کی تصویر ایک بدنام مجرم کی حیثیت سے چھپی ہوئی تھی۔ فائرفائٹر کو یاد آیا کہ یہ تو انہی دو آدمیوں میں سے ایک تھا جنہوں نے ہوٹل میں آتشزدگی کے دوران اپنے کمرے میں سے ایک بھاری صندوق اس کے ذریعے منگوایا تھا۔ اس آدمی نے ولیم کو اپنا نام ڈیوس بتایا تھا۔
اتفاق سے اسی وقت ایک ڈپٹی شیرف فائر اسٹیشن کے سامنے سے گزر رہا تھا جسے ولیم جانتا تھا۔ اس نے فوراً اسے پکارا اور رسالے میں تصویر دکھاتے ہوئے پوری بات بتائی۔ ایک اور صفحے پر انہیں کلارک کی تصویر بھی مل گئی۔ ڈپٹی شیرف وہ رسالہ اپنے ساتھ پولیس اسٹیشن لے گیا۔ وہاں بہت سے پولیس والوں کے درمیان اس موضوع پر بات ہوئی اور انہوں نے رسالہ بھی دیکھا۔ تب ایک اور پولیس والے کو یاد آیا کہ ایک روز وہ ڈیوٹی کے بعد سادہ لباس میں، ایک بار میں بیٹھا تھا تو اس نے ایک آدمی کو بڑی ترنگ میں چند آدمیوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے دیکھا تھا جس کی تصویر رسالے میں ایک بدنام مجرم کلارک کی حیثیت سے چھپی ہوئی تھی۔
اسے یاد تھا کہ اس آدمی نےخمارزدہ آواز میں بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ جس شخص کو مشین گن چلانا آتی ہو، اس کے لیے دولت حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ بات خاص طور پر پولیس آفیسر کو یاد رہ گئی اور یہ الفاظ سُننے کے بعد اس نے غور سے ان لوگوں کی طرف دیکھا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اس محفل میں بیٹھے ہوئے آدمیوں میں سے کم از کم دو نے بغلی ہولسٹر لگائے ہوئے تھے جوان کے لباسوں میں چھپے ہوئے تھے۔ پولیس اسٹیشن میں یہ سب باتیں ہوئیں تو پولیس آفیسر نے مطلوب اور مفرور مجرموں کی تصویروں والے پوسٹروں کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔
جلد ہی تصدیق ہوگئی کہ جس آدمی نے فائرفائٹر ولیم کو اپنا نام ڈیوس بتایا تھا، وہ دراصل چارلس میکلے تھا اور جس آدمی کو پولیس آفیسر نے بار میں بڑی ترنگ سے باتیں کرتے سُنا تھا، وہ رسل کلارک تھا۔ اس انکشاف سے پولیس اسٹیشن میں کھلبلی سی مچ گئی اور تمام آفیسرز پُرجوش ہوگئے۔ ایک آفسر نے کانگریس ہوٹل فون کر کے، کمرے کا نمبر بتا کر دریافت کیا کہ اس میں مقیم مسافر اس وقت کہاں تھے؟ اسے بتایا گیا کہ ان لوگوں کا سامان کرائے کے ایک مکان میں پہنچایا گیا تھا۔ خوش قسمتی سے اس مکان کا پورا حدود اربعہ معلوم ہوگیا۔ ہوٹل والوں نے اسے ایڈریس بتا دیا تھا۔
فوراً ہی تین پولیس آفیسر ایک اسکواڈ کار میں بیٹھ کر اس مکان تک جا پہنچے۔ وہ مکان سے ذرا دُور گاڑی کھڑی کر کے اس کی نگرانی کرنے لگے۔ جلد ہی انہوں نے میکلے کو مکان سے برآمد ہوتے دیکھا۔ اس کی گلوکارہ گرل فرینڈ اس کے ساتھ تھی۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ اسکواڈ کار ان کا تعاقب کرنے لگی۔ میکلے بجلی کے سامان کی ایک دکان پر جا رُکا اور اندر چلا گیا۔ پولیس والے بھی اس کے پیچھے پیچھے اندر چلے گئے۔ وہ چارلس میکلے کو حراست میں لینے میں کامیاب ہوگئے۔
اسے پولیس اسٹیشن لا کر حوالات میں ڈال دیا گیا۔ اس نے بہت چیخ پکار کی اور اپنے آپ کو سیر و تفریح کے لیے آیا ہوا ایک شریف شہری ظاہر کرنے کی بہت کوشش کی لیکن پولیس چیف وولر نے اس کی ایک نہ سُنی۔ پولیس والوں کو اب یقین ہو چکا تھا کہ جان ڈلنگر کا چار آدمیوں پر مشتمل گروہ ان کے شہر میں پہنچا ہوا تھا جن میں سے ابھی صرف ایک آدمی ان کے ہاتھ آیا تھا۔ تین کو تلاش کرنا اور قابو میں کرنا ابھی باقی تھا۔ مطلوب مجرموں کے پوسٹروں پر ان کی تصویریں اچھی طرح دیکھ لی گئی تھیں۔
پولیس چیف وولر نے ان لوگوں کی تلاش اور گرفتاری کے لیے اپنے تین بہترین آفیسرز کو منتخب کیا اور یہ ذمّے داری انہیں سونپ دی۔ ان کے نام آئی مین، فورڈ اور شرمن تھے۔ وہ تینوں جا کر اسی مکان کی نگرانی کرنے لگے جہاں سے چارلس میکلے ہاتھ آیا تھا۔ انہیں اُمید تھی کہ شاید گروہ کا کوئی دُوسرا آدمی ادھر کا رُخ کرے۔ انہیں جب مکان کی نگرانی کرتے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا تو وہ بے چین ہونے لگے۔ انہوں نے سوچا، کم از کم یہ تو دیکھ لینا چاہیے کہ اس وقت مکان میں کوئی موجود بھی ہے یا نہیں؟
سراغرساں شرمن گاڑی سے اُترا اور مکان کے دروازے پر پہنچا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک پرانے خط کا لفافہ نکال لیا اور کال بیل بجائی۔ چند لمحے بعد ایک عورت نے دروازہ تھوڑا سا کھول کر باہر دیکھا اور پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘
وہ کلارک کی گرل فرینڈ اوپل تھی۔
’’آپ کا یہ خط آیا ہے۔‘‘ شرمن نے لفافہ آگے بڑھایا۔
جب عورت نے لفافہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دروازہ ذرا زیادہ کھل گیا۔ شرمن نے خط دینے کے بجائے عورت کو پیچھے دھکیلا اور اندر جاپہنچا۔ اسے رسل کلارک سامنے ہی لائونج میں کھڑا نظر آیا۔ شرمن نے پھرتی سے اپنا سرکاری ریوالور نکالا اور کلارک کو ہاتھ اُوپر کرنے کا حکم دیا۔ کلارک اس حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے کارنس پر رکھا ہوا اپنا ریوالور اُٹھانے کے لیے لپکا۔ اس نے ریوالور کو نال سے پکڑ کر اُٹھا بھی لیا لیکن اس وقت تک شرمن اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے اس کا ریوالور والا ہاتھ پکڑ لیا۔ دونوں آدمی گتھم گتھا ہوگئے اور زورآزمائی کرتے ہوئے لائونج سے
بیڈروم میں جا پہنچے۔
باہر گاڑی میں موجود آئی مین اور فورڈ کو احساس ہوگیا کہ مکان کے اندر کسی قسم کی گڑبڑ شروع ہوگئی تھی۔ وہ گاڑی سے اُتر کر دوڑتے ہوئے مکان تک آئے۔ اوپل نے انہیں آتے دیکھا تو تیزی سے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔ فورڈ نے اسے اس کوشش سے باز رکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس کا ہاتھ دروازے میں آ گیا اور کچلا گیا۔ اس کے ہاتھ کی ہڈّی بھی ٹوٹ گئی لیکن اس نے پروا نہیں کی اور لات مار کر دروازہ کھول لیا۔ اس نے اوپل کو ایک طرف دھکیلا اور وہ دونوں بیڈروم میں جا پہنچے جہاں شرمن اور رسل کلارک میں اب بھی زورآزمائی جاری تھی۔ وہ دونوں بیڈ پر گر چکے تھے۔
شرمن نے وہ ریوالور تو کلارک کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیا تھا جو اس نے کارنس سے اُٹھایا تھا لیکن اب وہ اپنا ہاتھ مسلسل تکیے کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تکیے کے نیچے بھی کوئی گن موجود تھی۔ سراغرساں فورڈ نے کلارک کی کھوپڑی پر اپنے ریوالور کا دستہ رسید کیا اور آئی مین نے اس کا بازو کھینچ کر اسے بیڈ سے نیچے گرا دیا۔ جلد ہی اسے قابو میں کر لیا گیا اور ہتھکڑی پہنا دی گئی۔ تکیے کے نیچے سے ایک اور ریوالور برآمد ہوا۔ پھر جب مکان کی تلاشی لی گئی تو دو ہلکی مشین گنیں، ایک آٹومیٹک رائفل، دو پستول، دو بلٹ پروف جیکٹس اور تقریباً چھ ہزار ڈالر کی رقم برآمد ہوئی۔
تینوں پولیس آفیسرز نے کلارک اور اوپل کو ہتھیاروں اور رقم سمیت گاڑی میں بٹھایا اور پولیس ہیڈ کوارٹر لے گئے۔ ان میں سے کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ وہ مکان کی نگرانی کے لیے وہیں رُک جائے۔ بہرحال، اب گروہ کے دو آدمی پکڑے گئے تھے، دو باقی رہ گئے تھے۔ پولیس چیف وولر کو تشویش تھی کہ اگر ڈلنگر اور پرپونٹ کو اپنے ان ساتھیوں کے پکڑے جانے کا پتا چل گیا تو وہ چند منٹ کے اندر اندر اسی صحرائی شہر یا اس کے آس پاس کے ویرانوں میں کہیں غائب ہو جائیں گے۔
اس کا یہ خیال دُرست ہی تھا۔ جب وہ پولیس ہیڈکوارٹر میں بیٹھا یہ بات کر رہا تھا، تقریباً اسی وقت پرپونٹ اس مکان پر پہنچا جہاں میکلے اور کلارک مقیم تھے۔ وہ مکان کی بیرونی سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا کہ اس کی نظر چھوٹے چھوٹے چند دھبّوں پر گئی جو سیڑھیوں پر موجود تھے۔ اس نے ذرا توجہ سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ لہو کے چند قطرے تھے جو سیڑھیوں پر ٹپکنے کے بعد تقریباً خشک ہوچکے تھے۔ اس نے مکان کے اندر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور اُلٹے قدموں وہاں سے واپس ہولیا۔
گاڑی میں بیٹھ کر وہ سیدھا اس موٹیل میں پہنچا جہاں وہ مقیم تھا۔ اس نے میری کو فوراً سامان پیک کرنے کا حکم دیا۔ جب میری سامان پیک کر رہی تھی، عین اسی وقت پولیس ہیڈکوارٹر میں ایک آفیسر، پولیس چیف وولر کے کمرے میں پہنچا اور اسے بتانے لگا کہ چند روز پہلے وہ ڈیوٹی پر تھا تو ایک آدمی اپنی شاندار گاڑی میں اس کے پاس رُکا تھا اور اس سے گپ شپ کرنے لگا تھا۔ لگتا یہی تھا کہ وہ ترنگ میں تھا، وہ اسے اپنی گاڑی کی خوبیاں بھی بتانے لگا تھا۔ اب آفیسر کو، ایک پوسٹر دیکھنے کے بعد خیال آیا تھا کہ وہ پرپونٹ تھا۔ پرپونٹ اپنی ترنگ میں پولیس آفیسر کو یہ بھی بتا چکا تھا کہ وہ کس موٹیل میں ٹھہرا ہوا تھا۔
پولیس چیف وولر نے فوراً سارجنٹ آئی مین کو دو گشتی آفیسرز کے ساتھ موٹیل کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ تینوں جس وقت موٹیل پہنچے، پرپونٹ اپنی نئی بیوک میں موٹیل کی حدود سے نکل رہا تھا۔ تینوں پولیس آفیسر اس کے تعاقب میں روانہ ہوگئے لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے روکنے کے لیے کون سی تدبیر کریں جس میں گولیاں چلنے اور خون بہنے کی نوبت نہ آئے۔ آخر انہوں نے یہی ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا جیسے وہ پرپونٹ کو سرراہ، معمول کی، عام سی چیکنگ کے لیے روک رہے ہیں، پرپونٹ کو پہچان کر اسے پکڑنے کی نیت سے نہیں آ رہے ہیں۔ آئی مین نے گاڑی اس کے برابر لے جا کر ہارن دیا اور اسے گاڑی سڑک کے ایک طرف کر کے رُکنے کا اشارہ کیا۔
پرپونٹ نے گاڑی روک لی۔ آئی مین اپنی گاڑی سے اُتر کر اس کے قریب پہنچا اور انتہائی خوش خلقی سے بولا۔ ’’زحمت کی معذرت، سر! کیا میں آپ کا ڈرائیونگ لائسنس دیکھ سکتا ہوں؟‘‘
پرپونٹ نے فوراً اپنا ڈرائیونگ لائسنس اس کی طرف بڑھا دیا جو جعلی تھا۔
آئی مین نے اس کا سرسری جائزہ لیا پھر لائسنس واپس کرتے ہوئے کہا۔ ’’شکریہ سر! لیکن آپ کی گاڑی پر ’’وزیٹر‘‘ والا اسٹیکر لگا ہوا نہیں ہے۔ دُوسرے شہروں سے جو لوگ گھومنے پھرنے یہاں آتے ہیں، یہاں کے قانون کے مطابق ان کی گاڑی پر ’’وزیٹر‘‘ کا اسٹیکر چسپاں ہونا ضروری ہے لیکن بہرحال… یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ ذرا پولیس ہیڈکوارٹر تک میرے ساتھ چلیں۔ میں آپ کو ایک منٹ میں اسٹیکر دلوا دوں گا۔ اس کی کوئی فیس بھی نہیں ہے۔‘‘
پرپونٹ اب انکار نہیں کر سکتا تھا۔ اسے خاموش دیکھ کر آئی مین جلدی سے پچھلا دروازہ کھول کر اس کی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا ’’بلکہ… چلیے… میں آپ ہی کی گاڑی میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
پرپونٹ کے لیے اب گاڑی آگے بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ آئی مین نے ایک خوش اخلاق، شائستہ اور مہربان پولیس آفیسر ہونے کی اداکاری جاری رکھتے ہوئے ہلکی پھلکی گفتگو شروع کر دی۔ اس دوران اس نے نظر بچا کر اپنا ریوالور بھی ہولسٹر سے نکال کر جیب میں رکھ لیا تاکہ بوقت ضرورت اسے فوراً نکالا جاسکے۔ پرپونٹ غالباً زبردستی اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے بیٹھا تھا۔ دل ہی دل میں تو یقیناً اسے آئی مین پر سخت غصہ آ رہا ہوگا اور وہ اسے ایک ’’چِپکو‘‘ قسم کا پولیس آفیسر سمجھ رہا ہوگا۔ آئی مین نے مزید خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ اس کی طرف بڑھائی۔ پرپونٹ نے سگریٹ نہیں لی اور معذرت کرلی۔
پولیس ہیڈکوارٹر پہنچ کر آئی مین، پرپونٹ اور اس کی گرل فرینڈ میری کو پولیس چیف کے کمرے میں لے گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی پرپونٹ کو احساس ہوگیا کہ اس کے ساتھ ڈراما ہوا ہے کیونکہ پولیس چیف کی میز پر وہ اسلحہ رکھا تھا جو پرپونٹ کے ساتھیوں کے مکان سے برآمد ہوا تھا۔
پرپونٹ نے فوراً مشینی انداز میں بغلی ہولسٹر سے ریوالور نکالنے کی کوشش کی لیکن آئی مین نے اس سے زیادہ پھرتی سے اپنی گن نکال کر اس کی کمر پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’گن مت نکالنا۔‘‘
مگر پرپونٹ باز نہ آیا۔ اس کا ہاتھ ہولسٹر سے باہر آیا تو اس میں گن تھی۔ آئی مین نے اب بھی فائر نہیں کیا البتہ اس کا گن والا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی۔ دونوں ایک دُوسرے سے اُلجھ کر فرش پر گر پڑے۔
آخر آئی مین نے گن کی نال اس کی کھوپڑی پر رکھتے ہوئے انتہائی سخت لہجے میں کہا۔ ’’باز آ جائو… ورنہ میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔‘‘
اس کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ پرپونٹ کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ ایک اور پولیس آفیسر نے اس کا بازو مروڑ کر پیچھے کر دیا۔ دُوسرے نے ٹھوکر مار کر اس کے ہاتھ سے گن نکال دی اور اس کی تلاشی لینے لگا۔
’’تم لوگ میرے ساتھ بہت سختی کر رہے ہو۔‘‘ پرپونٹ نے کراہنے کے سے انداز میں کہا۔
’’فکر نہ کرو۔ کچھ دیر بعد ہم تمہارے ساتھ بہت پیار سے پیش آئیں گے۔‘‘ پولیس چیف وولر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
تین مجرم تو پولیس کے ہاتھ آ گئے تھے۔ اب انہیں جان ڈلنگر کی فکر تھی۔ انہیں یہ تو یقین تھا کہ وہ ٹسکن میں ہی کہیں موجود تھا لیکن کہاں تھا؟ اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ بہرحال موٹیل اور مکان، دونوں جگہوں کی نگرانی ہو رہی تھی کہ شاید ابھی ڈلنگر کو خطرے کا احساس نہ ہوا ہو اور وہ ان دونوں جگہوں میں سے کسی پر آ جائے۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS