Monday, April 21, 2025

khatarnak Mafia | Episode 14

دو آفیسرز جو مکان کی نگرانی کر رہے تھے، انہوں نے سوچا کہ ڈلنگر ادھر آیا تو انہیں دیکھ کر کہیں اسے شک نہ ہو جائے۔ گو کہ اس وقت وہ سادہ لباس میں تھے اور انہوں نے اپنی گاڑی بھی پچھلی گلی میں کھڑی کی تھی لیکن انہیں معلوم تھا کہ ڈلنگر جیسے مجرم دُور سے پولیس کی بُو سونگھ لیتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مکان کے اندر چھپ کر انتظار کرنا چاہیے۔ اپنے تیسرے ساتھی کو البتہ انہوں نے مکان کے سامنے ہی ایک جھاڑی کی آڑ میں چھوڑ دیا۔ اس کا نام ہیرن تھا۔
ابھی وہ دونوں پولیس آفیسرز اندر جا کر چھپے ہی تھے کہ ایک نئی ہڈسن کار مکان کے قریب آ کر آئی۔ اس میں ایک مرد اور ایک عورت موجود تھی۔ مرد نے عورت کو گاڑی میں ہی چھوڑا اور مکان کی طرف بڑھا۔ وہ مکان کی سیڑھیاں چڑھنے ہی لگا تھا کہ سیڑھیوں پر کچھ دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گیا۔ سیڑھیاں چڑھنے والا جان ڈلنگر ہی تھا اور مکان کی سیڑھیوں پر اسے خون کے دھبّے نظر آئے تھے جن کی وجہ سے وہ ٹھٹھک گیا تھا۔ اس وقت تک سراغرساں ہیرن جھاڑیوں سے نکل کر اس کے عقب میں پہنچ چکا تھا۔ ڈلنگر واپس پلٹا تو دونوں یکدم ایک دُوسرے کے سامنے آ گئے۔ ان کے درمیان بہ مشکل چار فٹ کا فاصلہ تھا۔
سراغرساں ہیرن نے ماردھاڑ سے بھرپور ویسٹرن فلموں والے انداز میں پھرتی سے ریوالور نکالا اور چلّا کر کہا ’’ہاتھ اُوپر اُٹھا لو۔‘‘
ڈلنگر نے گویا اس کی آواز سُنی ہی نہیں تھی۔ وہ دَم بہ خود رہ گیا تھا اور ایک ٹک ہیرن کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ اسے شاید اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
سراغرساں ہیرن لمبا سا ڈگ بھر کر آگے آ گیا اور ریوالور کی نال اس کی پسلیوں پر رکھتے ہوئے پہلے سے زیادہ سخت لہجے میں بولا ’’ہاتھ اُٹھا لو ورنہ گولی مار دوں گا۔‘‘
ڈلنگر نے آہستگی سے ہاتھ اُوپر اُٹھا دیئے۔ اس دوران وہ دونوں سراغرساں بھی باہر آ گئے جو چھپنے کے لیے مکان کے اندر گئے تھے۔ ہیرن نے انہیں ہدایت کی ’’جا کر دیکھو، کار میں کون ہے۔‘‘
دونوں سراغرساں کار کی طرف بڑھے تو ہیرن نے ڈلنگر کے کوٹ کا کالر پکڑ کر جھٹکا دیا اور اسے بھی آگے دھکیلا۔ اس لمحے گویا ڈلنگر کو یقین آ گیا کہ وہ واقعی پکڑا گیا ہے اور اب اس کی کوئی بھی چال اسے پولیس کے شکنجے سے نہیں بچا سکے گی۔ تب اس نے ہولسٹر سے ریوالور نکالنے کی کوشش کی لیکن ہیرن نے اپنے ریوالور کی نال اور بھی زیادہ سختی سے اس کی پسلیوں میں چبھو دی اور دونوں سراغرسانوں نے بھی اپنی شاٹ گنوں کا رُخ اس کے چہرے کی طرف کر دیا۔ اس کے بعد ڈلنگر نے شکست خوردہ سے انداز میں اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔
٭…٭…٭
ڈلنگر اور اس کے ساتھیوں کی ٹسکن میں گرفتاری کی خبر پورے ملک کے اخباروں میں شہ سرخیوں میں چھپی۔ ہر شہر کے پولیس ہیڈ کوارٹر میں ٹیلیگرامز اور ٹیلیفون کالز کا تانتا بندھ گیا۔ سب سے زیادہ ٹیلیگرامز اور ٹیلیفون کالز ٹسکن کے پولیس ہیڈکوارٹر میں آ رہی تھیں۔ بڑے بڑے شہروں سے پریس رپورٹرز جہازوں میں بھر بھر کر ٹسکن آنے لگے۔ جیل میں جان ڈلنگر، ان کے ساتھیوں اور ان کی گرل فرینڈز کو دیکھنے کے لیے لوگ قطار در قطار اس طرح آنے لگے جیسے سرکس یا چڑیا گھر میں آ رہے ہوں۔
ڈلنگر کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ جان ڈلنگر نہیں ہے لیکن جج نے اسے ڈانٹ کر خاموش کرا دیا۔ انہیں عارضی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ ابھی کئی بڑے بڑے شہروں میں بہت سے مقدمات ان کے منتظر تھے۔ فی الحال ایک ایک لاکھ ڈالر فی کس نقد رقم جمع کرانے پر ان کی ضمانت ہو سکتی تھی لیکن وہ اتنی رقم کا بندوبست کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور پھر اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا۔ وہ ضمانت کرا کے عدالت سے نکل بھی نہ پاتے کہ انہیں دُوسرے مقدمات میں گرفتار کرلیا جاتا۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ ڈلنگر کی مجرمانہ زندگی کی کہانی ختم ہو رہی تھی لیکن وقت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب کس طرح کروٹ بدل لے۔
٭…٭…٭
چند دن بعد ڈلنگر پر مقدمات چلانے کے لیے اسے ہوئی جہاز کے ذریعے شکاگو لے جایا گیا۔ سب سے پہلے اس پر پولیس کے ایک سراغرساں اور ایک شیرف کے قتل کا مقدمہ چلنا تھا۔ ٹسکن سے اس کی روانگی آسان ثابت نہیں ہوئی تھی۔ پہلے تو اس نے خود بہت واویلا کیا اور اَڑ کر بیٹھ گیا کہ جب تک ٹسکن میں اس کی عدالتی کارروائی ختم نہ ہو جائے، اسے کہیں اور نہیں لے جایا جاسکتا لیکن پولیس والے بہرحال اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔
وہ پولیس کے گھیرے میں شکاگو ایئرپورٹ پر اُترا تو اخباری رپورٹرز کا ایک جم غفیر اس کا منتظر تھا اور 85 پولیس والے اسے لینے کے لیے آئے ہوئے تھے جن میں سے بیشتر کے پاس مشین گنیں تھیں اور وہ بلٹ پروف جیکٹس پہنے ہوئے تھے۔ شکاگو کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی مجرم کا اس طرح ’’استقبال‘‘ نہیں ہوا تھا۔ تیرہ پولیس کاروں اور کم و بیش درجن بھر موٹرسائیکلوں کا قافلہ اسے لے کر روانہ ہوا۔ اسے اسی شیرف کے آفس میں لے جایا گیا جسے وہ قتل کر چکا تھا۔ اب اس کی بیوی شیرف بن چکی تھی۔
ڈلنگر کے پیچھے پیچھے کم از کم تیس رپورٹرز بھی آندر آ گئے۔ اس پر سوالات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور وہ چیونگم چباتے ہوئے، مسکرا کر نہایت خوش خلقی اور سکون سے ان کے جواب دے رہا تھا۔ وہ ایک وجیہ نوجوان تھا۔ اس کی شخصیت اور انداز و اطوار دیکھ کر کم از کم اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک سفاک قاتل اور ڈاکو تھا۔ اس کے انداز گفتگو میں کئی رپورٹرز سے زیادہ شائستگی اور ذہانت تھی۔ وہ اچھی خاصی حس مزاح کا بھی مظاہرہ کر رہا تھا۔ چاروں طرف سے فلیش لائٹس کے جھماکے ہو رہے تھے اور وہ نہ جانے کتنے لوگوں کی توجہ کا مرکز تھا۔
وہ اس وقت قاتل اور ڈاکو کے بجائے کوئی سیاسی لیڈر یا فلمی ہیرو معلوم ہو رہا تھا۔ ایک بار تو وہ سرکاری وکیل کے کندھے پر کہنی رکھ کر بھی کھڑا ہوگیا۔ سرکاری وکیل اس وقت غیرارادی طور پر، یا پھر شاید عادت کے تحت مسکرا رہا تھا۔ ان دونوں کی، اس پوز میں تصویر بھی کھنچ گئی اور دُوسرے روز کئی اخبارات کے صفحۂ اوّل پر نمایاں انداز میں شائع ہوگئی۔ گو کہ اس وقت ڈلنگر کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں لیکن دونوں جس انداز میں کھڑے تھے اور جس طرح مسکرا رہے تھے، اس سے لگ رہا تھا کہ دونوں بچھڑے ہوئے دوست تھے اور مدتوں بعد ان کی ملاقات ہوئی تھی۔
اس تصویر پر خوب لے دے ہوئی۔ حتیٰ کہ ایف بی آئی کے ہیڈکوارٹر میں بیٹھے ہوئے ایڈگر جان ہوور نے بھی ناراضی کا اظہار کیا کہ ایک سرکاری وکیل جس ڈاکو اور قاتل پر مقدمہ چلانے جا رہا تھا، اس کے ساتھ اسے ایسے دوستانہ انداز میں تصویر کھنچوانے کی کیا ضرورت تھی؟
اس موقع پر ڈلنگر نے عوام اور پریس کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے اپنی داستانِ حیات بھی سنانا شروع کر دی تھی جس میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ مجرم نہیں تھا، اسے تو حالات اور اتفاقات نے مجرم بنا دیا تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود امکان یہی نظر آ رہا تھا کہ اسے بجلی کی کرسی پر بٹھانے کی سزا سنائی جائے گی۔ اس کے گروہ کا ایک رکن جان ہملٹن پولیس کے ہتھے نہیں چڑھا تھا۔ اس کے بارے میں افواہیں سننے میں آ رہی تھیں کہ وہ ڈلنگر کو قانون کے شکنجے سے چھڑانے کی کوشش کرے گا۔ تاہم مقدمہ شروع ہونے تک ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دیئے۔
مقدمہ لڑنے کے لیے ڈلنگر کو اپنے ہی جیسا ایک وکیل مل گیا۔ اس کا نام پکٹ تھا۔ وہ زیادہ تر بدنام یا سفیدپوش مجرموں اور سینڈیکیٹ کے لوگوں کے مقدمے ہی لڑتا تھا۔ اس نے خود ڈلنگر سے رابطہ کر کے اس کا مقدمہ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ ڈلنگر کا وکیل بن کر اسے بے پناہ شہرت ملے گی۔ اس نے ڈلنگر پر یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اس کے مقدمات کی پیروی پر بہت رقم خرچ ہوگی۔ ڈلنگر نے اس سے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ اس کے لیے کسی نہ کسی طرح رقم کا بندوبست کرتا رہے گا۔ ڈلنگر پر ایک نہیں، بہت سے مقدمات تھے اور وہ رپورٹرز یا عوام کے سامنے خواہ کتنا ہی بے پروا نظر آنے کی کوشش کرتا تھا لیکن اندر سے ڈرا ہوا تھا کہ کہیں بجلی کی کرسی ہی اس کا مقدر نہ ہو۔
اس کے وکیل پکٹ کا ایک نائب بھی تھا جو اس کے لیے بھاگ دوڑ اور بعض معاملات کی تفتیش کرتا تھا۔ اس کا نام لیری تھا۔ لیری اورپکٹ دونوں ہی گویا ڈلنگر کے ساتھی اور رازدار بن گئے۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو چالیس ڈپٹی شیرف مشین گنیں لیے عدالت میں موجود تھے۔ کم و بیش اتنے ہی رپورٹرز بھی موجود تھے جن میں دُوسرے شہروں سے آئے ہوئے رپورٹرز بھی شامل تھے۔ ڈلنگر کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔
جرائم پیشہ لوگوں کی وکالت کرنے والے گھاگ قسم کے وکیل عام طور پر ڈرامائی اور جذباتی مکالمے کافی متاثر کن انداز میں بولتے ہیں۔ پکٹ بھی اسی قسم کا وکیل تھا۔ اس نے ابتدا ہی میں خوب دُھواں دھار تقریر کی۔ دُوسری باتوں کے علاوہ اس نے کہا ’’جناب والا! کیا ہم اس مقدمے کی سماعت اس ملک اور قوم کے اسی نظام انصاف کے تحت شروع کررہے ہیں جس کی زمانے میں شہرت ہے اور جس پر ہمیں فخر ہے؟ اپنے مؤکل کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں دیکھ کر، ان کی جھنکار سن کر مجھے تو روس کے زاروں کا زمانہ یاد آ رہا ہے جن کے نادر شاہی حکم پر، زیرعتاب لوگوں کو اسی طرح ان کے درباروں میں پابۂ زنجیر پیش کیا جاتا تھا۔ آج مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی امریکی عدالت میں نہیں بلکہ زمانۂ قدیم کے کسی عقوبت خانے میں کھڑا ہوں۔‘‘
یہ سن کر جج صاحب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے فوراً حکم دیا ’’ملزم کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھول دی جائیں۔‘‘
ان کے حکم کی تعمیل ہونے لگی تو وکیل استغاثہ نے صدائے احتجاج بلند کی ’’سر! ملزم ایک نہایت خطرناک آدمی ہے۔‘‘
جج صاحب نے وکیل استغاثہ کے احتجاج پر کوئی توجہ نہیں دی۔ پکٹ کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے مزید کہا۔ ’’جنابِ والا! یہ ایک سول امریکی عدالت ہے۔ اس میں مشین گنوں کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
ایک ڈپٹی شیرف نے بہ آواز بلند کہا۔ ’’جناب والا! یہ انتظامات ملزم کی حفاظت کے لیے کئے گئے ہیں۔ میں ان انتظامات کا نگراں ہوں اور اس سلسلے میں افسران کو جوابدہ ہوں۔‘‘
پکٹ گرجدار آواز میں اس سے مخاطب ہوا۔ ’’تم کیا کوئی وکیل ہو؟ تمہیں جج صاحب کو مخاطب کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘
اس کا انداز ڈانٹنے کا سا تھا۔
جج صاحب نے فوراً ان تمام ڈپٹی شیرفوں کو عدالت سے باہر جانے کا حکم دے دیا جن کے پاس مشین گنیں تھیں۔ اس کے بعد پکٹ نے ایک اور مختصر سی تقریر کی، پھر کہا۔ ’’مجھے وکیل صفائی کی حیثیت سے اس کیس کی تیاری کرنے کے لیے چار ماہ درکار ہوں گے۔‘‘
اس پر وکیل استغاثہ نے اعتراض کیا اور کہا ’’زیادہ سے زیادہ دس دن میں یہ کیس لڑنے کی تیاری کی جاسکتی ہے۔‘‘ وکیل استغاثہ کا نام ایسٹل تھا۔
پکٹ نے جج صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے نہایت درد بھرے لہجے میں کہا۔ ’’جناب والا! دس دن میں اس کیس کی تیاری کرنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگا… اور انصاف کا خون کرنے کے سلسلے میں بھی ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں۔‘‘
’’کسی کو قتل کرنے کے سلسلے میں بھی ہمارے ہاں قوانین موجود ہیں۔‘‘ وکیل استغاثہ ایسٹل نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’تو پھر آپ لوگ اپنا کام آسان کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ وکیل صفائی، پکٹ اس سے بھی زیادہ طنزیہ لہجے میں بولا۔ ’’آپ ملزم کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے چھلنی کیوں نہیں کر دیتے؟ مقدمہ چلانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘
جج صاحب نے دونوں وکیلوں کو غیرضروری بحث و تمحیص سے باز رہنے کا حکم دیا اور پکٹ کو مقدمے کی تیاری کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔ اس موقع پر وکیل استغاثہ ایسٹل جج صاحب پر طنز کرنے سے باز نہ رہا ’’جناب والا! آپ ملزم کو وکیل صفائی کے ساتھ ہی ان کے گھر بھیج دیجیے۔ مقدمے کی تیاری کرنے کے بعد یہ ملزم کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے اپنے ساتھ ہی عدالت لے آئیں گے۔ جہاں آپ نے ان پر دُوسری نوازشات کی ہیں، وہاں ایک یہ بھی سہی۔‘‘
جج صاحب نے خاصے غصّے سے وکیل استغاثہ کی طرف دیکھا اور ڈلنگر کو دوبارہ ہتھکڑیاں لگا کر عدالت سے باہر لے جانے کا حکم دے دیا۔
٭…٭…٭
ایڈورڈ بریمر کے والد اور دیگر اہل خانہ نے کسی نہ کسی طرح اغواء کاروں سے معاملات طے کر لیے۔ کئی راتیں اور کئی دن بے چینی اور اضطراب میں بسر کرنے کے بعد انہیں اغواء کاروں کی جانب سے وہ خط موصول ہوگیا تھا جس میں تاوان کی ادائیگی کے سلسلے میں حتمی ہدایات دی گئی تھیں۔ بریمر فیملی نے چھوٹے نوٹوں کی صورت میں دو لاکھ ڈالر کا بندوبست کر لیا تھا۔ ان نوٹوں کے نمبر ایف بی آئی نے محفوظ کر لیے تھے۔
میگی اس رقم کے دو کارٹن اپنی گاڑی میں رکھ کر پچھلی گلیوں کے راستے تنہا اس مقام کی طرف روانہ ہوا جہاں اسے اغواء کنندگان نے پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔ تمام راستے اس اندیشے سے اس کا دل تیزی سے دھڑکتا رہا کہ کہیں کوئی اسے لوٹ نہ لے۔ اغواء کاروں کے بجائے رقم ڈاکو نہ لے جائیں۔
مطلوبہ مقام پر پہنچ کر اسے اغواء کاروں کے وعدے کے مطابق دو سیٹوں والی ایک چھوٹی شیورلے گاڑی کھڑی مل گئی۔ اس کے دونوں دروازوں پر ایک مشہور آئل کمپنی کا نام اور مونوگرام جلی انداز میں پینٹ کیا گیا تھا۔ وہ اس کمپنی ہی کی گاڑی معلوم ہو رہی تھی۔ میگی نے رقم کے کارٹن اس گاڑی میں منتقل کیے اور خود بھی اس میں جا بیٹھا۔ اس کی چابی اسے ڈرائیونگ سیٹ کے نیچے مل گئی۔ اس نے اپنی گاڑی وہیں چھوڑی اور حسب ہدایت چھوٹی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔
سینٹ پال سے بیس میل پہلے وہ جنوب میں واقع ایک بس اسٹیشن پر پہنچ کر گاڑی ایک طرف روک کر کھڑا ہوگیا۔ سوا نو بجے ایک بس روچیسٹر کی طرف روانہ ہوئی۔ میگی گاڑی میں اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ بس راستے میں کئی دیہات اور قصبوں کے قریب سواریاں اُتارنے اور بٹھانے کے لیے رُکی۔ میگی نے اس کا تعاقب جاری رکھا۔ پھر ایک مقام پر اسے ہائی وے کے بائیں جانب ایک ٹیلے پر چار سرخ روشنیاں نظر آئیں۔ وہ حسب ہدایت وہاں سے ایک کچی سڑک پر مڑ گیا۔
اس سڑک پر وہ آدھا میل آگے گیا ہوگا کہ اندھیرے میں نہ جانے کس طرف سے ایک کار اس کے تعاقب میں آنے لگی۔ اس کار والے نے اپنی ہیڈلائٹس پانچ مرتبہ آن آف کیں۔ میگی نے گاڑی روک لی اور اُترکر رقم کے کارٹن گاڑی سے نکال کر کچی سڑک کے کنارے اندھیرے میں رکھ دیئے اور پیچھے دیکھے بغیر دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔ وہ جس راستے سے آیا تھا، اسی سے واپس چل دیا اور آخرکار وہیں جا پہنچا جہاں اس نے اپنی گاڑی چھوڑی تھی۔ اس کی گاڑی وہیں موجود تھی۔ اس نے چھوٹی شیورلے وہاں چھوڑی اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔ وہ اپنے آپ کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ اس نے ایک اہم اور خطرناک ذمے داری انجام دی تھی۔
اس سے اگلے روز ایڈورڈ بریمر گرتا پڑتا اپنے والد کی حویلی پہنچ گیا۔ گوکہ اس کے جسم پر نیا سوٹ تھا اور بظاہر اسے کوئی گزند نہیں پہنچی تھی، اس کے باوجود وہ بہت مضمحل اور پریشان تھا۔ وہ بائیس دن اغواء کاروں کی تحویل میں رہا تھا۔ تاہم اس نے کسی بھی رپورٹر سے اس سلسلے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس تمام عرصے میں اس کی آنکھوں پر مستقل طور پر پٹّی بندھی رہی تھی اور وہ کچھ بھی بتانے سے قاصر تھا۔ دُوسری طرف شکاگو میں بارکر برادرز کا گروہ اپنے خفیہ ٹھکانے پر، تاوان کی وصولی کا جشن منا رہا تھا اور رقم کے حصے بخرے کر رہا تھا۔
دُوسری طرف بونی اور کلائیڈ نے بھی دو اور ساتھی ڈھونڈ لیے تھے۔ اب ان کا گروہ پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ درحقیقت انہوں نے تو صرف ایک ہی ساتھی ڈھونڈا تھا لیکن اس نے کچھ دنوں بعد ایک عورت کو بھی گروہ میں شامل کر لیا تھا جو اس کے کسی شناسا کی بیوی تھی مگر وہ شناسا جیل میں تھا۔ عورت کا نام میری ڈیر تھا۔ پہلی بار بونی کے علاوہ گروہ میں کوئی عورت شامل ہوئی تھی۔
جلد ہی وہ کلائیڈ کو بُری لگنے لگی۔ اس کی عمر صرف اکیس سال تھی لیکن وہ بے حد شاطر اور مکّار تھی۔ اسے دولت کا بہت لالچ تھا اور وہ دولت کی خاطر اپنے ساتھیوں کو بھی زہر دے سکتی تھی۔ تاہم کلائیڈ نے اسے سخت ناپسند کرنے کے باوجود اس سے جان چھڑانے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ابھی ان کے حالات اچھے نہیں تھے۔ وہ گروہ میں کسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
اُدھر ڈلنگر کے وکیل صفائی پکٹ نے مقدمے کی سماعت شروع ہونے کے لیے ایک ماہ کی جو مہلت لی تھی، وہ بہت اچھی طرح ڈلنگر کے کام آ گئی۔ یہ ایک ماہ ختم ہونے سے پہلے ہی وہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اپنے وکیل پکٹ کی مدد سے ہی اس کے کارپس اور بے بی فیس نیلسن سے رابطے ہوگئے جنہوں نے کسی نہ کسی طرح جیل میں ایک گن اس تک پہنچا دی اور وہ گارڈز کو یرغمال بناکر نہایت ڈرامائی انداز میں جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
جیل سے باہر بھی پکٹ نے اس کی مدد کی اور وہ اپنی گرل فرینڈ ایولین عرف بلّی سمیت غائب ہوگیا۔ اب وہ ایک ایسا آدمی تھا جو امریکا کی پولیس کو سب سے زیادہ مطلوب تھا۔ پکٹ کو ابھی تک اپنی ’’خدمات‘‘ کے عوض ڈلنگر سے کوئی بڑی رقم نہیں ملی تھی لیکن وہ مایوس نہیں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ڈلنگر جیسے جرائم پیشہ لوگ کسی کا احسان بھولتے نہیں تھے۔
جیل سے نکل کر ڈلنگر نے جلد ہی بے بی فیس نیلسن کے گروہ میں شمولیت اختیار کرلی کیونکہ اس کے اپنے ساتھی مختلف جیلوں میں تھے۔ ایک ساتھی پیٹ میں گولی لگنے کے بعد سے اب تک ٹھیک نہیں ہوا تھا اور روپوش رہتے ہوئے ’’ریٹائرمنٹ‘‘ کی زندگی گزار رہا تھا۔ چنانچہ ڈلنگر نے نیلسن گروہ میں شامل ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کی تھی۔ نیلسن کے لیے یہ فخر کی بات تھی کہ ڈلنگر جیسا آدمی اس کے گروہ میں شامل ہوا تھا جو ملک گیر ’’شہرت‘‘ کا حامل تھا۔
ان کی چند وارداتوں کے بعد جب پولیس کو اندازہ ہو گیا کہ اب ڈلنگر اور نیلسن یکجا ہوگئے ہیں تو انہوں نے پریس کے سامنے بھی اس کا اظہار کر دیا۔ اس کے بعد اخبارات میں ان کی وارداتوں کے سلسلے میں لکھا جانے لگا کہ ڈلنگر نے دوسرا گروہ بنا لیا ہے۔ اسے کوئی بھی نیلسن کا گروہ نہیں لکھتا تھا۔ یہ بات نیلسن کے لیے ذرا تکلیف دہ تھی۔ اس سے اس کی ’’اَنا‘‘ مجروح ہوتی تھی۔ ڈلنگر کو اندازہ نہیں تھا کہ نفسیات کے اعتبار سے نیلسن ذرا ٹیڑھا آدمی تھا، بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہیں تھا کہ وہ کافی حد تک ایک نفسیاتی مریض ہی تھا۔ وہ بہت جلد اشتعال میں بھی آ جاتا تھا۔ ڈلنگر کو ان باتوں کا اندازہ ایک واقعے کے بعد کسی حد تک ہونے لگا۔
اس روز وہ لوگ گاڑی میں ایک دیہی علاقے کی سڑک سے گزر رہے تھے۔ نیلسن گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ حسب عادت خاصی تیز رفتاری سے جا رہا تھا مگر اسی دوران پیچھے سے ایک اور گاڑی آئی جو اس سے آگے نکل گئی۔ پھر وہ گاڑی ان کی گاڑی کے آگے ہی آ گئی۔ اب دونوں گاڑیاں آگے پیچھے دوڑ رہی تھیں۔ دُوسری گاڑی ایک سیلزمین چلا رہا تھا جو اس وقت اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ ایک تقریب سے واپس آ رہا تھا۔ رات کافی ہوگئی تھی اور اسے گھر پہنچنے میں دیر ہوگئی تھی، اس لیے وہ ذرا تیزرفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا۔
اس نے نیلسن کے ساتھ ریس ہرگز نہیں لگائی تھی اور نہ ہی وہ جان بوجھ کر اپنی گاڑی نیلسن کی گاڑی کے آگے لایا تھا۔ وہ تو اپنی ماں اور بیوی سے باتیں کرتے ہوئے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور غیرارادی طور پر نیلسن کی گاڑی کے آگے آگے اپنی گاڑی لیے جا رہا تھا لیکن اس نے نیلسن یا اس کی گاڑی کی طرف توجہ نہیں دی تھی مگر ان چند لمحوں کے دوران نیلسن کی بیمار انا مجروح ہوگئی۔ اس نے فوراً فرض کر لیا کہ کسی نے اس کے ساتھ ریس لگا کر گویا اسے چیلنج کیا تھا اور اب اپنی گاڑی اس کی گاڑی کے آگے لا کر اسے چھیڑ رہا تھا۔
اس نے فوراً رفتار بڑھائی اور گاڑی دُوسری گاڑی سے آگے لے گیا۔ کیڈر نامی اس سیلزمین نے جب گاڑی نیلسن سے آگے نکالنا چاہی تو نیلسن نے اسے راستہ نہ دیا۔ وہ جس طرف بھی گاڑی موڑتا، نیلسن اپنی گاڑی اس کے آگے لے آتا۔ اس کی اس حرکت سے شاید کیڈر خوفزدہ ہوگیا۔ وہ ایک بار پھر کسی نہ کسی طرح گاڑی نیلسن سے آگے نکال لے گیا۔ اب شاید وہ اس سے جان چھڑا کر نکل جانا چاہتا تھا لیکن نیلسن نے اسے نکلنے نہ دیا۔ وہ ایک بار پھر گاڑی کیڈر کی گاڑی کے برابر لے گیا۔
اس نے گاڑی کیڈر کی گاڑی پر تقریباً چڑھا کر اسے سڑک سے اُتر کر رُکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن کیڈر نے ایسا نہیں کیا۔ وہ کسی نہ کسی طرح گاڑی نکال لے گیا۔ نیلسن یہ دیکھ کر دانت پیسنے لگا اور اس کی آنکھوں سے قہر برسنے لگا۔ وہ شاید یہ بھی بھول گیا کہ اس وقت وہ لوگ درحقیقت کہاں جا رہے تھے۔ اس نے گاڑی کیڈر کی گاڑی کے پیچھے لگا دی۔ اب کیڈر اور بھی زیادہ خوفزدہ ہوگیا۔ وہ گھر جانے کے بجائے اپنے قصبے کے مین بازار میں چلا گیا جہاں ایک ڈرگ اسٹور کھلا ہوا تھا۔
کیڈر نے اس کے سامنے گاڑی لے جا روکی تاکہ وہاں سے پولیس کو فون کر سکے لیکن جب تک وہ وہاں پہنچا، اس کے پیچھے پیچھے نیلسن کی گاڑی بھی وہاں پہنچ چکی تھی۔ ڈلنگر نے اس دوران تین مرتبہ نیلسن کو اس بچگانہ طرزعمل سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن نیلسن نے گویا اس کی آواز سنی ہی نہیں تھی۔ اس کے بعد ڈلنگر بھی نیلسن کے دوسرے ساتھیوں کی طرح خاموش ہو کر بیٹھ گیا تھا اور سپاٹ سی نظروں سے نیلسن کی حرکات و سکنات دیکھنے لگا تھا۔
نیلسن نے چیخ کر سیلزمین کیڈر کو چند گالیاں دیں، جو درحقیقت اس کے لیے ایک نامعلوم آدمی تھا۔ پھر رات کے سنّاٹے میں تین فائروں کی آواز گونجی، اور کیڈر جو اس دوران گاڑی سے اُتر آیا تھا، دُہرا ہوتے ہوئے سڑک پر ڈھیر ہوگیا۔ اس کی بیوی گاڑی سے اُتر کر اس تک پہنچی اور اسے ہلا جلا کر دیکھنے لگی۔
پھر وہ نیلسن کی گاڑی کی طرف دیکھتے ہوئے گلوگیر آواز میں بولی ’’بے رحم… تم نے کیوں میرے شوہر کو مار ڈالا؟ کیوں مار ڈالا…؟‘‘ پھر وہ شوہر کی لاش پر گر کر دھاڑیں مارنے لگی۔
نیلسن نے گاڑی موڑی اور تیز رفتاری سے وہاں سے روانہ ہوگیا۔ ڈلنگر پُرخیال انداز میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
٭…٭…٭
اس روز درجۂ حرارت نقطۂ انجماد کے قریب پہنچ چکا تھا جب سیوکس فالز نامی شہر کے مین بازار میں سبز رنگ کی ایک بڑی پیکارڈ کار سیکیورٹی نیشنل بینک کے سامنے آ کر رُکی۔ اس وقت دس بجنے والے تھے۔ چھ آدمی کار سے اُتر کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے فٹ پاتھ پر آن کھڑے ہوئے۔ وہ سب کے سب گہرے رنگ کے اوورکوٹ پہنے ہوئے تھے اور ان کے ہیٹ چہروں پر کچھ زیادہ جھکے ہوئے تھے۔ ان کی سانسیں بھاپ کی سی صورت میں ہونٹوں اور نتھنوں سے نکلتی نظر آ رہی تھیں۔ ان کے چہروں پر کرختگی تھی اور تقریباً سبھی کا شیو بڑھا ہوا تھا۔ ان پر نظر ڈالتے ہی احساس ہو رہا تھا کہ وہ کوئی اچھے آدمی نہیں تھے۔
بینک کے اندر بیٹھی ہوئی ایک اسٹینوگرافر نے کھڑکی کے شیشے سے انہیں دیکھا تو ایک خاتون کلرک سے کہا ’’لگتا ہے، ڈاکو آ رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔ لگ تو مجھے بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔‘‘ خاتون کلرک نے جواب دیا۔ دونوں کا انداز مذاق کرنے کا سا تھا لیکن درحقیقت دونوں کے دلوں میں ہی یہی خیال آیا تھا اور دونوں ہی ڈر گئی تھیں۔
یہ نیلسن کا گروہ تھا جس میں ڈلنگر بھی شامل تھا۔ ڈلنگر جیل سے فرار کے بعد چند دن کے اندر کئی بینک لوٹ چکا تھا اور سفر کرتے ہوئے تین ریاستوں سے گزر چکا تھا۔
گروہ کے آدمیوں میں سے ایک واپس گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا اور ٹامی کیرول نامی ایک آدمی نے بینک کے دروازے کے قریب پوزیشن سنبھال لی۔ اس کے اوورکوٹ کے نیچے ہلکی مشین گن موجود تھی۔ نیلسن اور اس کے ساتھی ڈلنگر کی سربراہی میں بینک میں داخل ہوئے۔ اندر پہنچتے ہی نیلسن نے ایک جھٹکے سے اوورکوٹ کا اگلا حصہ کھولا اور مشین گن باہر نکالتے ہوئے چلّایا۔ ’’سب لوگ فرش پر اوندھے لیٹ جائیں۔‘‘
سب نیلسن کے حکم کی تعمیل کرنے لگے لیکن اس سے پہلے ایک کلرک الارم کا بٹن دبا چکا تھا۔ کچھ لوگ دیوار سے چپک کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اس دوران بینک کے باہر تیز آواز میں الارم
ے لگا تھا۔ الارم کی آواز سن کر گویا نیلسن کے اعصاب تن کر رہ گئے تھے اور اس کے چہرے سے وحشت جھلکنے لگی تھی جبکہ ڈلنگر نے اطمینان سے کیشیئرز کے کائونٹرز سے نوٹوں کی گڈیاں سمیٹنی شروع کر دی تھیں۔ وہ پہلے بھی کئی بار الارم بجنے کے دوران بینک لوٹ چکا تھا۔ وان میٹر نامی ان کا ساتھی اس وقت گڈیاں سمیٹنے میں ڈلنگر کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ وہ دونوں بالکل پُرسکون تھے لیکن نیلسن الارم کی آواز سے اشتعال میں آ چکا تھا۔
اس نے مضطربانہ انداز میں لابی میں اِدھر اُدھر چلنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران وہ دیوار سے چپکے ہوئے لوگوں کے جسموں میں مشین گن کی نال چبھو رہا تھا اور بار بار چلّا رہا تھا۔ ’’الارم کا بٹن کس نے دبایا تھا؟ کس نے دبایا تھا؟ بولو نا … کون سؤر کا بچہ تھا وہ؟‘‘
ڈلنگر اور وان میٹر بینک کے منیجر کو دھکیلتے ہوئے اسٹرانگ روم کی طرف لے جا رہے تھے اور نیلسن کا اشتعال اس دوران مزید بڑھ چکا تھا۔ وہ بینک کے خوفزدہ ملازمین کو مشین گن کے ٹہوکے دے دے کر گویا کوئی حرکت کرنے کے لیے اُکسا رہا تھا اور بار بار کہے بھی جا رہا تھا۔ ’’ہمت ہے تو کچھ کرو، تاکہ میں تمہیں گولی مار سکوں۔‘‘
الارم کی آواز سن کر سب سے پہلے ٹریفک پولیس کا ایک آفیسر دوڑتا ہوا بینک تک پہنچا۔ ٹامی کیرول نے مشین گن دکھا کر اس کا استقبال کیا اور چند سیکنڈ بعد وہ ہاتھ اُٹھائے ایک طرف کھڑا تھا۔ پولیس چیف پارسن ایک سراغرساں کے ساتھ چند لمحوں بعد وہاں پہنچا۔ ان دونوں کو بھی ٹامی کیرول نے مشین گن کے زور پر قابو میں کرلیا۔ اس نے ان دونوں کے ریوالور لے لیے اور انہیں بھی ٹریفک پولیس والے کے ساتھ کھڑا کر دیا۔ ان کے ہاتھ بھی اوپر تھے۔ اب وہاں کافی لوگ جمع ہو چکے تھے۔ تینوں پولیس آفیسر مجمع کے سامنے ہاتھ اُٹھائے کھڑے تھے اور خاصے شرمندہ نظر آ رہے تھے۔ بعض عمارتوں کی چھتوں اور بالکونیوں سے بھی لوگ جھانکنے لگے تھے جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی۔
اس دوران کیتھ نامی ایک موٹرسائیکل سوار پولیس آفیسر وہاں آن پہنچا۔ اس نے موٹرسائیکل بینک کے قریب روکی تو اندر موجود نیلسن نے کھڑکی سے اسے دیکھ لیا۔ اس کا اشتعال اب اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس کی باچھوں سے کف بہہ رہا تھا۔ وہ ایک کائونٹر پر چڑھ گیا اور کھڑکی کے موٹے شیشے سے اس نے موٹرسائیکل سوار پولیس آفیسر کیتھ پر مشین گن سے برسٹ مارا۔ کیتھ وہیں گر پڑا۔ چار گولیاں اس کے پیٹ میں لگی تھیں۔ فائرنگ کی آواز اور موٹا شیشہ کرچی کرچی ہونے سے زبردست شور پیدا ہوا جس میں عورتوں کی خوفزدہ چیخیں بھی شامل ہوگئیں۔
’’میں نے ایک پولیس والے کو تو مار گرایا۔‘‘ نیلسن فاتحانہ انداز میں چیخا۔ اب وہ خوش نظر آ رہا تھا۔ اس کی حرکات و سکنات میں جنون کی جھلک تھی۔
ڈلنگر اور وان میٹر نے اسٹرانگ رُوم کا بھی صفایا کر دیا۔ اس دوران باہر ہجوم بڑھ چکا تھا۔ لوگ ڈرتے نہیں تھے اور الارم سُن کر عموماً بینک کے سامنے جمع ہو جاتے تھے۔ وہ اس اندیشے سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے تھے کہ کہیں فائرنگ کی زد میں نہ آ جائیں۔ جب اس بات کا امکان پیدا ہو جاتا تھا تو پھر سب پناہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگتے تھے۔ اس قسم کے مناظر بالکل فلمی لگتے تھے۔
اس وقت بھی اچھی خاصی تعداد میں لوگ بینک کے آس پاس جمع ہو چکے تھے اور یوں سب کچھ دیکھ رہے تھے جیسے کوئی تماشا ہو رہا ہو۔ فٹ پاتھ پر ٹامی کیرول تینوں پولیس والوں پر گن تانے اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔ ایک شیرف اور اس کے چند ڈپٹی ایک عمارت کی چھت پر چڑھ گئے تھے کہ شاید وہ ڈاکوئوں کے فرار ہوتے وقت ان میں سے کسی کو نشانہ بنا سکیں۔
اندر جان ڈلنگر اور وان میٹر اپنا کام ختم کر چکے، یعنی تمام رقم سمیٹ چکے تو انہوں نے کئی مرتبہ کے تجربے کے مطابق بینک کے منیجر اور چار کیشیئرز کو یرغمال بنایا اور انہیں اپنے آگے دھکیلتے ہوئے باہر لے چلے۔ باہر آ کر نیلسن نے خواہ مخواہ ہی ایک کھڑکی پر برسٹ مار کر اس کا شیشہ چکنا چور کر دیا۔ اس زمانے کی کاروں میں پائیدان بھی ہوتے تھے۔ ڈاکوئوں نے یرغمالیوں کو کار کے پائیدانوں پر کھڑا کر دیا اور خود اندر بیٹھ گئے۔ کار ابھی حرکت میں آئی ہی تھی کہ قریبی عمارت کی چھت پر کھڑے ہوئے کسی ڈپٹی نے گاڑی کے ریڈی ایٹر پر فائر کر دیا۔ کار کے انجن سے بھاپ نکلنے لگی لیکن کار رکی نہیں۔ چند سیکنڈ میں وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
ہائی وے پر پہنچنے تک کار جھٹکے لینے لگی تھی۔ ڈلنگر نے ساتھیوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے عقب میں سڑک پر خاصی بڑی کیلیں بکھیرتے چلیں جو وہ اس مقصد کے لیے ساتھ رکھتے تھے کہ تعاقب میں آنے والی گاڑیوں کے ٹائر پنکچر ہو جائیں۔ ان کی گاڑی کی رفتار خاصی کم ہوچکی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ اگر انہوں نے اس کار میں سفر جاری رکھا تو پولیس والے جلد ہی ان تک آ پہنچیں گے۔
چند میل آگے جا کر انہیں گاڑی سے اُترنا ہی پڑا۔ چند لمحے بعد ہی انہیں ایک ڈاج آتی دکھائی دی۔ انہوں نے ہاتھ ہلا ہلا کر اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ ڈاج کا مالک شاید انہیں دُور سے دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ وہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ وہ ان تک پہنچنے سے پہلے ہی گاڑی روک کر اُترا اور سڑک سے اُتر کر کھیتوں میں بھاگتا چلا گیا۔ انہوں نے جلدی جلدی اپنے فاضل پٹرول کے کین وغیرہ ڈاج میں منتقل کر لیے۔ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS