وہ اس واقعے کے بعد سے اسی لہجے میں یہی بات دُہرائے جا رہا تھا۔ اسے اُوپر والوں کی سرپرستی بھی حاصل ہو چکی تھی۔ ایف بی آئی کی تنظیم نو ہو رہی تھی۔ حتیٰ کہ بعض قوانین میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی تھیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنے کئی انٹرویوز اور بیانات میں یہ بات دُہرائی تھی۔ ’’ناجائز دھندے اور مجرموں کی گروہ بازی اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ قانون کی طاقتوں کو انڈرورلڈ کے مسلح جتھوں کو سختی سے کچلنا ہی پڑے گا۔ ملک اور معاشرے کو منظم بدمعاشوں کی طاقت سے خطرہ لاحق ہو چلا ہے۔ ہم اب حالت جنگ میں ہیں، اور یہ جنگ منظم بدمعاشوں کے خلاف ہے۔‘‘
لوگ اب معاشی بحران کو بھول گئے تھے اور ’’وار آن کرائم‘‘ کی طرف زیادہ متوجہ تھے۔ ایف بی آئی کی کوششیں جاری تھیں۔ سینٹ پال میں فریڈ بارکر نے جو گھر کرائے پر لیا تھا، ایف بی آئی اس تک پہنچ گئی تھی لیکن وہ انہیں خالی ملا تھا۔ ان کا اندازہ تھا کہ وہ گھر ولیم ہام کے اغوا برائے تاوان کے سلسلے میں استعمال ہوا تھا لیکن انہیں وہاں بیئر کی ایک خالی بوتل پر فرینک ناش کی انگلیوں کے نشانات بھی ملے۔ ان نشانات کی وجہ سے وہ الجھن میں پڑ گئے کہ کیا ولیم ہام کے اغوا برائے تاوان کے منصوبے میں فرینک ناش بھی شامل تھا؟ بہت بعد میں جا کر انہیں معلوم ہوا کہ ولیم ہام کے اغوا سے کافی دن پہلے فرینک ناش ویسے ہی وہاں فریڈ بارکر سے ملنے آیا تھا۔
ایف بی آئی، ورنی ملر کے مکان تک بھی پہنچ گئی لیکن وہ بھی انہیں خالی ملا۔ بہرحال مشتبہ لوگوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ جولائی میں ڈیفی فارمر اور اس کی بیوی نے چپکے سے اپنے فارم ہائوس پر واپس آنے کی کوشش کی تو وہ بھی پکڑے گئے۔ ایف بی آئی نے فرینک ناش کی بیوی کو بھی ڈھونڈ نکالا جو اِلی نوائے میں اپنے ایک عزیز کے ہاں چھپی ہوئی تھی۔ کئی ہفتوں کی پوچھ گچھ کے بعد آخر ان تینوں نے زبان کھول دی اور سب کچھ بتا دیا۔ قانون کو سب سے زیادہ مطلوب آدمی اب ورنی ملر تھا۔ ایف بی آئی کو اس وقت سب سے زیادہ دلچسپی یہ جاننے میں تھی کہ ورنی ملر اس وقت کہاں تھا اور اس کے ساتھی کون کون تھے؟
گس جونز نے کنساس سٹی ریلوے اسٹیشن کے سامنے فائرنگ کرنے والوں کی، اندازاً ایک فہرست بنائی تھی۔ اس فہرست میں پریٹی بوائے فلائیڈ، بونی اینڈ کلائیڈ، کارپس اور بارکر برادرز کے نام شامل تھے۔ تاہم گس جونز کا یہ بھی خیال تھا کہ ورنی ملر کے ساتھیوں میں وہ لوگ شامل تھے جنہیں فرینک ناش نے جیل سے فرار کرایا تھا۔ ان میں ہاروے بیلے کا نام بھی شامل تھا۔ یہ بات ہاروے بیلے تک بھی پہنچ چکی تھی۔ اس نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ایک حیرت انگیز قدم اُٹھایا۔
ایک روز گس جونز اپنے آفس پہنچا تو اسے ڈاک میں ایک خط ملا۔ اس نے لفافہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خط ہاروے بیلے اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ وہ ریلوے اسٹیشن پر خونریزی کے ذمّے دار نہیں ہو سکتے کیونکہ جس وقت یہ واقعہ رُونما ہوا، اس وقت وہ آرکنساس کے علاقے بلیک راک میں ایک بینک لوٹ رہے تھے۔ انہوں نے اس خط کے نیچے باقاعدہ اپنے اپنے دستخط کئے تھے اور اپنے فنگرپرنٹس بھی بھیجے تھے تاکہ تصدیق کرلی جائے کہ متذکرہ بینک میں ڈاکا ڈالنے والے وہی لوگ تھے۔ وہ لوگ ایک بہت زیادہ سنگین جرم میں ملوث ہونے سے بچنے کے لیے ایک کمتر جرم کا اعتراف کررہے تھے۔
گس جونز ابھی بیٹھا یہ خط پڑھ ہی رہا تھا کہ خبر آئی، گزشتہ رات شہر کے نواح میں زبردست پولیس مقابلہ ہوا تھا۔ یہ معاملہ بونی اور کلائیڈ کا تھا۔
٭…٭…٭
اٹھارہ جولائی کی رات بونی، کلائیڈ اور ان کے ساتھی کنساس سٹی کے شمال میں واقع ایک موٹیل میں پہنچے۔ وہ تین ہفتے پہلے فورٹ اسمتھ سے فرار ہوئے تھے جہاں ایک اسٹور کو لوٹتے وقت ان کے ساتھیوں بک اور ڈبلیو ڈی جونز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بہت گولیاں چلی تھیں۔ انہوں نے پناہ لینے کے لیے پریٹی بوائے فلائیڈ کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے البتہ اس کا بھائی بریڈلے انہیں مل گیا تھا۔ وہ ایک موٹیل میں چھپے رہے۔ اس دوران انہوں نے ایک بڑی واردات یہ کی کہ نیشنل گارڈز کے اسلحہ خانے سے پانچ آٹومیٹک رائفلیں، چھ ریوالور اور دس ہزار گولیاں لوٹ لیں۔ گاڑی کے پچھلے حصے میں اتنے ہتھیار جمع ہوگئے کہ بیٹھنے کو جگہ نہیں رہی تھی۔
موٹیل چھوڑنے کے بعد ان لوگوں کو ایک رات تو کھیت میں کیمپ لگا کر بھی گزارنی پڑی۔ دُوسری صبح ان کھیتوں کا مالک اپنی زمینوں پر کام کرنے کے لیے آیا تو وہاں کچھ خون آلود پٹیاں اور دوائوں وغیرہ سے لتھڑے ہوئے روئی کے پیڈ دیکھ کرحیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اسے معاملہ مشکوک سا لگا۔ چنانچہ اس نے پولیس کو اس بات کی اطلاع دے دی۔ پولیس چونکہ اس بات سے آگاہ تھی کہ بونی زخمی حالت میں اپنے گینگ کے ساتھ سفر کر رہی ہے، چنانچہ اس نے آس پاس کے علاقوں کی پولیس کو بھی اس رپورٹ سے مطلع کر دیا۔ شیرفوں کو بھی اطلاع دے دی گئی کہ وہ علاقے کے میڈیکل اسٹورز کے بارے میں خبر رکھیں کہ وہاں سے مرہم پٹی وغیرہ کا سامان زیادہ تعداد میں تو نہیں خریدا گیا۔
بونی، کلائیڈ اور ان کے ساتھی کنساس سٹی کے ایک قریبی شہر پلیٹ سٹی کے ایک موٹیل میں ٹھہرے۔ شام کو بک کی بیوی بلانشے گاڑی لے کر شہر گئی۔ اس نے میڈیکل اسٹور سے کافی تعداد میں سرنجیں، دوا اور پٹیاں خریدیں۔ میڈیکل اسٹور والے کو اس کی یہ خریداری کچھ مشکوک لگی۔ اس نے علاقے کے شیرف کوفی کو اطلاع دی۔ شیرف کو یاد آیا کہ اس سلسلے میں پولیس کو الرٹ کیا گیا تھا۔ وہ فوراً جا کر میڈیکل اسٹور والے سے ملا۔ اتفاق سے میڈیکل اسٹور والے کے سامنے بلانشے کے منہ سے نکل گیا تھا کہ وہ ریڈ کرائون موٹیل میں ٹھہری ہوئی ہے۔ یہ بات میڈیکل اسٹور والے کو یاد رہ گئی تھی۔
شیرف کوفی نے فوراً ریڈ کرائون موٹیل فون کیا تو تصدیق ہوگئی کہ دو جوڑوں نے وہاں آ کر قیام کیا ہے۔ شیرف کو اس کی چھٹی حس یقین دلانے لگی کہ ان میں سے ایک جوڑا بونی اور کلائیڈ ہوں گے۔ اس نے ہائی وے پولیس کو اطلاع دی۔ انہوں نے اس کی مدد کے لیے کنساس سٹی پولیس کے کچھ آدمیوں کو ایک بکتر بند گاڑی سمیت بھیج دیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ رات کو کارروائی کریں گے۔ رات تک شیرف نے اپنے تیرہ ماتحتوں کو بھی چھاپے میں حصہ لینے کے لیے جمع کر لیا۔
ان سب لوگوں کے پاس کارروائی میں حصہ لینے کے لیے ہلکی مشین گنیں، ڈھالیں، آنسو گیس اور ہنگاموں میں استعمال ہونے والی گنیں موجود تھیں۔ رات کے ایک بجے انہوں نے پیش قدمی کی اور دو کمروں کے سامنے پوزیشن سنبھال لی۔ دونوں کمروں میں اندھیرا تھا۔ ان کے درمیان ایک گیرج تھا جو دونوں کمروں سے جڑا ہوا تھا۔ قریب ہی ایک بار تھا۔ گشتی پولیس کے دو آدمی اس کی چھت پر چڑھ گئے اور انہوں نے اپنی گنوں کا رُخ دونوں کمروں کی طرف کر لیا۔ بکتربند گاڑی اس طرح آہستگی اور خاموشی سے آ کر گیرج کے سامنے کھڑی ہوگئی کہ گیرج سے نکل کر بھاگنے کی ممکنہ کوشش کرنے والوں کے لیے بھی راستہ بند ہوگیا۔
جب سب لوگ پوزیشن سنبھال چکے تو شیرف کوفی اس کمرے کے دروازے پر پہنچا جس میں اس کی اطلاع کے مطابق بک اور بلانشے ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’کون ہے؟‘‘ بلانشے کی آواز آئی۔ وہ اس وقت سنک پر بونی کی کوئی چیز دھو رہی تھی۔
’’مجھے ذرا لڑکوں سے بات کرنی ہے۔‘‘ شیرف کوفی نے گول مول انداز میں کہا۔
’’ایک منٹ ٹھہرو۔‘‘ بلانشے نے کہا۔
کلائیڈ اس وقت ملحقہ کمرے میں بونی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بھی یہ آوازیں سن رہا تھا۔ وہ فوراً اُٹھ کھڑا ہوا اور آٹومیٹک رائفل سنبھالتے ہوئے اس نے سرگوشی کے انداز میں ڈبلیو ڈی جونز سے کہا۔ ’’یہ کوئی پولیس والا معلوم ہوتا ہے۔ تم جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کرو۔‘‘
ڈی جونز درمیانی دروازے سے گیرج میں چلا گیا۔ کلائیڈ نے آگے بڑھ کر دروازہ تھوڑا سا کھولا اور باہر جھانکا۔ اس نے دیکھا کہ کسی گاڑی نے ان کے فرار کا راستہ روکا ہوا تھا۔ پھر اس نے ذرا اچھی طرح دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ بکتربند گاڑی تھی۔ وہ بھاگ کر درمیانی دروازے سے گیرج میں ڈی جونز کے پاس پہنچا۔ اس نے گاڑی کے بمپر پر چڑھ کر گیرج کے دروازے سے ذرا اُوپر بنے ہوئے روشندان سے باہر دیکھا۔ بائیں طرف والے کمرے کے دروازے پر شیرف کوفی کھڑا تھا۔
کلائیڈ نے رائفل اُونچی کی اور روشندان کے راستے فائر کیا۔ گولی شیرف کی گردن کو چھوتی ہوئی گزری۔ وہ گر پڑا لیکن فوراً ہی اُٹھا اور بار کی آڑ لینے کے لیے دوڑ پڑا۔ اس لمحے تمام آفیسرز نے فائر کھول دیا۔ گولیوں کی آوازوں سے فضا مرتعش ہوگئی۔ اینٹوں کے ٹکڑے ہوا میں اُڑنے لگے اور کھڑکیاں ٹوٹنے لگیں۔ کلائیڈ دیوانوں کی طرح کمرے کی طرف واپس بھاگا۔ وہ کبھی اس کھڑکی سے، کبھی اس کھڑکی سے آٹومیٹک رائفل سے فائرنگ کر رہا تھا۔ قانون کے محافظ چاروں طرف پھیل گئے تھے۔
شراب خانے میں اس وقت بھی کچھ لوگ موجود تھے۔ وہ سب کے سب میزوں کے نیچے گھس گئے۔ کلائیڈ نے رائفل دوبارہ لوڈ کی اور لات مار کر دروازہ کھولتے ہوئے ایک پورا کلپ بکتربند گاڑی پر خالی کر دیا۔ گولیاں گاڑی سے ٹکرا کر چنگاریاں اُڑاتی ہوئی اِدھر اُدھر بکھر گئیں۔ ایک گولی ڈرائیور کے بازو میں لگ گئی۔ دوسری گولی گاڑی کے ہارن میں کچھ اس طرح لگی کہ ہارن مسلسل بجنے لگا۔ بکتربند گاڑی کے ڈرائیور نے بدحواس ہو کر گاڑی ریورس گیئر میں ڈال دی اور وہ گیرج سے دُور ہونے لگی۔
بک اور بلانشے اپنے کمرے میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ ان کے کمرے سے گیرج میں جانے کے لیے دروازہ نہیں تھا۔ پولیس والوں کی فائرنگ سے گولیاں ان کے کمرے میں آ رہی تھیں۔ انہوں نے کمرے سے نکلنے کے لیے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بیڈ سے میٹریس اُٹھائی اور اسے پکڑ کر، ایک بڑی سی ڈھال کی طرح اس کی آڑ لیتے ہوئے باہر چل دیئے۔ یہ ڈھال صرف چند قدم تک ہی ان کے کام آ سکی۔ میٹریس کافی بھاری تھی۔ وہ ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔ انہوں نے پھر بھی گیرج کی طرف بڑھنے کی کوشش جاری رکھی۔
بک نے ابھی دُوسرا قدم ہی اُٹھایا تھا کہ ایک گولی اس کی کنپٹی میں لگی اور دُوسری طرف سے نکل گئی۔ وہ نیچے گرا تو اس کی اُنگلی سے آٹومیٹک رائفل کا ٹریگر دب گیا۔ رائفل سے مسلسل گولیاں نکلنے لگیں اور بے مقصد انداز میں اِدھر اُدھر بکھرنے لگیں۔ بلانشے نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بک کو اُٹھا کر کھڑا کرلیا۔ وہ ابھی زندہ تھا۔ بلانشے چیخ چیخ کر کلائیڈ کو گیرج کا دروازہ کھولنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ کلائیڈ نے گولیوں کی بارش کی پروا کیے بغیر دروازہ کھول دیا اور میاں بیوی کو گیرج کے اندر کھینچ لیا۔
انہوں نے بک کو گاڑی میں گھسا دیا۔ اس سے پہلے بونی گرتی پڑتی خود ہی کسی نہ کسی طرح آ کر گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔ کلائیڈ نے گاڑی ریورس کر کے گیرج سے نکالی اور تیزی سے گھمائی۔ چاروں طرف سے گولیوں کی بارش ہو رہی تھی۔ کسی چیز کا ٹکڑا بونی کی پیشانی سے ٹکرایا، پھر کسی شیشے کی کرچی اس کے بائیں آنکھ میں گھس گئی۔
’’اوہ… میرے خدا… میری آنکھ پھوٹ گئی…‘‘ وہ تکلیف زدہ انداز میں چلّائی۔
ڈبلیو ڈی جونز گاڑی کے پائیدان پر کھڑا ایک ہاتھ سے آٹومیٹک رائفل تھامے فائرنگ کر رہا تھا۔ گاڑی موٹیل کے احاطے سے گزرتے ہوئے ایک گڑھے میں جانے کی وجہ سے بہت زور سے اُچھلی لیکن کسی نہ کسی طرح ہائی وے تک پہنچ گئی۔ اس پر چاروں طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ گاڑی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی تو شیرف کے ڈپٹی اور ہائی وے گشتی پولیس کے آدمی ٹیلیفون کی تلاش میں دوڑے تاکہ اس کے تعاقب کے انتظامات کرسکیں۔ ان میں سے تین آدمیوں کو معمولی زخم آئے تھے۔
کلائیڈ گاڑی کو شمال کی طرف بھگائے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں بلانشے گلوگیر آواز میں بولی۔ ’’گاڑی کہیں روکو… بک کے لیے کچھ کرو… یہ مر رہا ہے…!‘‘
’’پاگلوں والی باتیں مت کرو۔ اس وقت ہم کہیں نہیں رُک سکتے۔‘‘ کلائیڈ وحشت زدہ اور پھٹی پھٹی سی آواز میں بولا۔
٭…٭…٭
جان ڈلنگر جلدی جلدی کچھ سیر و تفریح کر کے سات جولائی کو انڈیانا پولس واپس آیا۔ اس کا ارادہ اب تیزی سے کچھ وارداتیں کرنے کا تھا۔ پہلی بار اس نے اپنے نوعمر ساتھی ولیم شا کے ساتھ ایک مشکل منصوبے کے بارے میں بھی تبادلۂ خیال کیا۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کو جیل سے فرار کرانا چاہتا تھا۔ اسی دوران دونوں نے مل کر ایک تقریباً نئی شیورلے بھی خریدی۔ یہ گاڑی جان ڈلنگر کے لیے تھی لیکن اس کی خریداری کے لیے کچھ رقم ولیم شا نے بھی دی تھی۔ جان ڈلنگر کو ڈرائیونگ نہیں آتی تھی۔ وہ بھی اسے ولیم شا نے سکھائی۔
جان ڈلنگر جلد از جلد کوئی بڑی واردات کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک بڑا بینک بھی تاڑ لیا تھا۔ ابھی وہ اسے لوٹنے کی منصوبہ بندی ہی کررہا تھا کہ ولیم شا غائب ہوگیا۔ چند دن بعد جان ڈلنگر کو پیغام ملا کہ ولیم شا وہاں سے پچاس میل دُور، مشرق میں منسی نامی چھوٹے سے شہر میں چھپا ہوا تھا۔ اسے پتا چلا تھا کہ ایک ڈکیتی کے سلسلے میں پولیس اسے انڈیانا پولس میں تلاش کر رہی تھی، اس لیے وہ فوراً وہاں سے غائب ہوگیا تھا۔ وہ ڈکیتی ولیم شا نے اس وقت کی تھی جب جان ڈلنگر جیل میں تھا۔
جان ڈلنگر 14؍ جولائی کو منسی پہنچا۔ ولیم شا اسے وہاں کونسل اسٹریٹ کے ایک اپارٹمنٹ میں ملا۔ وہ چند دوستوں کے ساتھ وہاں مقیم تھا۔ ان میں اس کا سب سے قریبی دوست ہیری کوپ لینڈ نامی ایک نوجوان تھا جو بہت زیادہ پیتا تھا اور تھوڑا سا کوڑھ مغز تھا۔ آگے چل کر جان ڈلنگر نے بہت سی بینک ڈکیتیوں میں اسے اپنا ساتھی بنایا۔
دُوسرے روز جان ڈلنگر نے ہیری کوپ لینڈ اور ولیم شا کو ساتھ لے جا کر وہ بینک دکھایا جسے اس نے لوٹنے کے لیے تاڑ رکھا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ پیر کو اس بینک میں ڈاکا ڈالیں گے۔ مگر شاید ان کی جیبیں بالکل ہی خالی تھیں، اس لیے انہوں نے اسی رات منسی کی ایک مضافاتی سڑک پر واقع ایک ریسٹورنٹ کو لوٹنے کا پروگرام بنا لیا۔ اس ریسٹورنٹ میں شراب خانہ بھی موجود تھا۔
آدھی رات کے وقت جان ڈلنگر اور ہیری کوپ لینڈ اس ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے۔ ان کے آدھے چہرے رُومالوں سے ڈھکے ہوئے تھے اور ہاتھوں میں گنیں تھیں۔ چند منٹ بعد وہ ریسٹورنٹ سے 80 ڈالر لے کر نکل رہے تھے۔ وہ دروازے پر پہنچے تو ایک جوڑا اندر آ رہا تھا۔ عورت جوان، خوبصورت اور پُرکشش تھی۔ جان ڈلنگر کو مستی سوجھی تو اس نے اس عورت سے دراز دستی کر ڈالی۔ اس عورت کے ساتھی نے جان ڈلنگر کو گالی دی تو ڈلنگر نے اس کی کھوپڑی پر پستول کا دستہ رسید کر کے اسے بے ہوش کر دیا۔ اس کے بعد ڈلنگر اور ہیری کوپ لینڈ وہاں سے نکل بھاگے۔
بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ ریسٹورنٹ میں ڈاکا ڈال کر انہوں نے غلطی کی تھی۔ دوسرے روز سنیچر تھا۔ جان ڈلنگر اور ہیری کوپ لینڈ اپارٹمنٹ سے نکلے۔ ان کا ارادہ تھا کہ ڈلنگر کی کار کو سامنے والی گلی سے ہٹا کر پچھلی گلی میں بنے ہوئے گیرج میں کھڑی کر دیں۔ ولیم شا اس وقت پچھلی گلی میں ہی تھا۔ جان ڈلنگر اور ہیری کوپ لینڈ گاڑی میں بیٹھ کر پچھلی گلی کے سرے پر ہی پہنچے تھے کہ انہوں نے گلی میں کسی کی تحکمانہ آواز سنی۔ ’’ہینڈز اَپ!‘‘
انہوں نے دیکھا کہ گلی میں مقامی پولیس کے دو سراغرساں اور گشتی پولیس کے دو آفیسرز موجود تھے۔ وہ ولیم شا اور اس کے ساتھیوں کو ہاتھ اُوپر کرنے کا حکم دے رہے تھے۔ ان کی پشت ادھر تھی جدھر سے جان ڈلنگر اور ہیری کوپ لینڈ گلی میں داخل ہوتے ہوتے رُک گئے تھے۔ پولیس والوں نے ولیم شا اور اس کے ساتھیوں پر گنیں تان رکھی تھیں۔
ہوا دراصل یہ تھا کہ گزشتہ رات جب جان ڈلنگر اور کوپ لینڈ نے ریسٹورنٹ میں ڈکیتی کی تھی، اس وقت وہ کوپ لینڈ کی کار میں تھے۔ وہ سبز رنگ کی ایک بڑی کار تھی جس کے پہیے تاروں والے تھے اور یہ تاریں شوخ، چمکدار زرد رنگ کی تھیں۔ پولیس نے آسانی سے اس کار کا سراغ لگا لیا تھا۔ وہ اس وقت پچھلی گلی میں ہی کھڑی تھی۔
جان ڈلنگر نے جب یہ منظر دیکھا تو ایک لفظ بولے بغیر گاڑی ریورس کی اور وہاں سے فرار ہوگیا۔ پولیس کو علم ہی نہیں ہوسکا کہ اصل مجرم ان کے قریب آکر چلے بھی گئے تھے۔ ولیم شا اور اس کے دوست جیل پہنچ گئے۔ پوچھ گچھ کے دوران انہوں نے اپنے ساتھی کا نام ڈین ڈلنگر بتایا جو پولیس کے لیے قطعی غیر اہم تھا۔ تاہم ولیم شا نے کئی ڈکیتیوں کا اعتراف کرلیا۔ اسے دس سال کی سزا ہوئی جس کے لیے اسے اصلاحی جیل بھیجا گیا۔
پچیس سال بعد جان ڈلنگر کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ولیم شا بنا تھا۔ جان ڈلنگر کے بارے میں جتنی بھی کتابیں اور مضامین لکھے گئے، ان کے لیے تقریباً ہر صحافی نے سب سے پہلے ولیم شا کا انٹرویو لیا۔ 44سال کی عمر میں ولیم شا شکاگو کے ایک ہوٹل کے کمرے میں جل کر مر گیا تھا ۔ وہ بستر پر لیٹ کر سگریٹ پیتے پیتے سوگیا تھا۔ سلگتی سگریٹ اس کے ہاتھ میں تھی جس سے اس کے بیڈ میں آگ لگ گئی۔ اس آگ نے فوراً ہی پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کی جلی ہوئی لاش کئی دن تک اسپتال کے مردہ خانے میں رکھی رہی۔ کوئی اس لاش کو لینے نہیں آیا۔ آخرکار اُسے لاوارث قرار دے کر دفن کردیا گیا ۔
تاہم جس وقت ولیم شا گرفتار ہوا، جان ڈلنگر نے اس کی گرفتاری کو کوئی اہمیت نہیں دی اور بڑا بینک لوٹنے کے منصوبے پر عمل پیرا رہتے ہوئے پیر کو وہاں پہنچ گیا۔ بینک میں اس وقت صرف ایک خاتون کیشیئر مارگریٹ موجود تھی۔ جان ڈلنگر صاف ستھرے لباس میں وہاں پہنچا تھا اور ایک معزز آدمی نظر آنے کی پوری کوشش کررہا تھا۔ اس نے بینک کے منیجر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
’’وہ تو اس وقت موجود نہیں ہیں۔ کسی کام کے سلسلے میں بینک سے باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘ مارگریٹ نے جواب دیا۔
’’ ٹھیک ہے… تو پھر مجھے اس کی غیرموجودگی میں ہی اس بینک کو لوٹنا پڑے گا۔ ساری رقم میرے حوالے کردو ہنی!‘‘ جان ڈلنگر نے یہ کہتے ہوئے گن نکال کر آہنی جنگلے والی کھڑکی سے اندر کرکے مارگریٹ کا نشانہ لے لیا۔
پچھلے دو سالوں کے دوران مارگریٹ کی موجودگی میں دو مرتبہ بینک کو لوٹا جاچکا تھا۔ اس نے بینک کے ایک چھوٹے سے آہنی کمرے کی طرف اشارہ کیا جس کا دروازہ اس وقت کھلا ہوا تھا۔ پھر مارگریٹ نے ہاتھ اٹھا لیے۔ وہ خاصی خوفزدہ نظر آرہی تھی۔ ہیری کوپ لینڈ پستول لیے وہیں کھڑا رہا جبکہ جان ڈلنگر چھوٹی سی دیوار پھاند کر بینک کے اندرونی حصے میں چلا گیا۔ اس دوران تین کسٹمرز بھی بینک میں آگئے۔ ہیری کوپ لینڈ نے انہیں پستول دکھا کر، کالر سے پکڑا اور منہ دیوار کی طرف کرکے کھڑے ہونے کا حکم دیا۔
آہنی کمرے سے تقریباً ساڑھے چار ہزار ڈالر اور ہیروں کی چند انگوٹھیاں جان ڈلنگر کے ہاتھ لگیں۔ انگوٹھیاں غالباً عام شہریوں کی تھیں اور بینک میں رہن رکھوائی گئی تھیں۔ جان ڈلنگر نے مارگریٹ اور تینوں کسٹمرز کو آہنی کمرے میں جانے کا اشارہ کیا۔ جب وہ سب اس کمرے میں داخل ہوگئے تو اس نے دروازہ بند کردیا۔ دس منٹ سے بھی کم وقت میں وہ بینک لوٹ کر فرار ہوگئے۔ اپنی اس واردات میں جان ڈلنگر جتنی آسانی سے کامیاب ہوگیا، اس سے اس کی خود اعتمادی بڑھ گئی۔
٭…٭…٭
ایک ماہ کی تفتیش کے بعد بھی ولیم ہام کے اغواء برائے تاوان کے سلسلے میں حقائق سامنے نہیں آسکے تھے۔ ایف بی آئی نے سینٹ پال میں انڈرورلڈ کے بہت سے لوگوں سے پوچھ گچھ کی تھی لیکن وہ یہ نہیں جان سکے تھے کہ واردات کے ماسٹر مائنڈ کارپس اور بارکر برادرز تھے جو اس وقت شکاگو کے نواح میں جھیل کے کنارے کاٹجز کرائے پر لے کر اطمینان سے، تعطیلات کے انداز میں دن گزار رہے تھے۔ ماما بارکر بھی اسی طرح سکون سے شکاگو میں اپنے اپارٹمنٹ میں بیٹھی انعامی معمے حل کررہی تھی۔
19؍جولائی کو ایف بی آئی کے شکاگو آفس میں ایک کال آئی۔ کال شکاگو آفس کے انچارج میلون پروس کے لیے تھی۔ اس کی سیکرٹری نے کال اسے ملا دی۔ میلون پروس ایف بھی آئی اے کے ڈائریکٹر ایڈگرہوور کے پسندیدہ ترین ایجنٹوں میں سے ایک تھا۔ وہ ایک خوش شکل اور خوش لباس آدمی تھا۔ سلیقے سے رہتا تھا۔ عمدہ گاڑی میں سفر کرتا تھا جسے ڈرائیور چلاتا تھا۔ وہ ایف بی آئی ایجنٹ کے بجائے ہولی وڈ کا کوئی ایکٹر لگتا تھا۔ ایک آدھ مرتبہ تو خود ایڈگرہوور نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ ابھی تک ہولی وڈ والوں کی نظر میلون پروس پر کیوں نہیں پڑی تھی۔ وہ تو بنابنایا فلمی ہیرو تھا۔
اسے شکاگو آفس کا انچارج مقرر ہوئے ابھی صرف آٹھ ماہ ہوئے تھے اور ابھی وہ انڈر ورلڈ کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکا تھا۔ ان دنوں وہ انڈرورلڈ کے ایک خاص آدمی جیک فیکٹر کے اغواء کی واردات پر کام کر رہا تھا۔ آدمی خواہ انڈر ورلڈ کا ہوتا یا کوئی عام شہری، اگر وہ پُراسرار حالات میں غائب ہوجاتا یا اغواء کرلیا جاتا تو اس کے بارے میں تفتیش کرنا پولیس اور ایف بھی آئی کا فرض بن جاتا تھا۔
بعض لوگوں کا خیال یہ بھی تھا کہ جیک فیکٹر کو کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود ہی کہیں روپوش ہوگیا تھا کیونکہ برطانیہ میں اس پر کئی مقدمے چل رہے تھے جن کے سلسلےمیں اسے وہاں بلائے جانے کے لیے برطانیہ کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ میلون پروس کے لیے یہ ایک اہم کیس تھا۔ اس کی ذاتی رائے یہ تھی کہ میلون پروس سچ مچ اغوا ہوا تھا، یہ کوئی ڈراما نہیں تھا لیکن اس اغوا کا کوئی مقصد ابھی تک سامنے نہیں آیا تھا۔
اس روز اسے جو کال آئی، وہ گلبرٹ کی تھی۔ گلبرٹ، ریاست کے سرکاری وکیل یا اسٹیٹ پراسیکیوٹر کا تفتیشی افسر تھا۔ اس نے میلون پروس کو اطلاع دی کہ اس کی تفتیش سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ولیم ہام اور جیک فیکٹر کے اغواء کی وارداتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ دو ہفتے پہلے گلبرٹ نے پریس کو بیان دیا تھا کہ جیک فیکٹر کو شاید ایک آئرش گینگسٹر راجر ٹوئے نے اغواء کیا ہے۔ راجر ٹوئے ناجائز دھندوں کے معاملے میں الکپون کا حریف تھا۔ الکپون تو ٹیکس چوری کے الزام میں وفاقی جیل پہنچ گیا تھا لیکن اس کے ناجائز دھندوں کی ’’سلطنت‘‘ اس کے جیل جانے سے ختم نہیں ہوئی تھی۔ اب اس سلطنت کو فرینک نٹی چلارہا تھا۔
راجر ٹوئے کی رقابت اب فرینک نٹی کے ساتھ چل رہی تھی۔ ایک دوسرے کے علاقے میں اپنے دھندے پھیلانے کے لیے ان کے درمیان کشمکش چلتی رہتی تھی۔ مختلف کاروباروں اور صنعتوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مافیاؤں نے ایک اور راستہ تلاش کرلیا تھا۔ اب وہ یہ کرتے تھے کہ ان کاروباروں اور صنعتوں کی مزدور یونینوں میں اثررسوخ پیدا کرکے ان پر قبضہ جمالیتے تھے۔ راجر ٹوئے اور فرینک نٹی کے درمیان ایک دوسرے کی یونینوں پر قبضہ جمانے کے لیے رسا کشی ہوتی رہتی تھی۔
اب گلبرٹ دعویٰ کررہا تھا کہ راجر ٹوئے نے ہی ولیم ہام کو اغواء کرایا تھا۔ گلبرٹ کا کہنا تھا کہ اس کے پاس اس بات کا ثبوت بھی موجود ہے۔ تازہ ترین صورت حال تو یہ تھی کہ راجر ٹوئے اور اس کے گروہ کے تین آدمی قانون کے محافظوں سے کسی چھوٹی موٹی بات پر جھڑپ کی وجہ سے اس وقت پولیس کی حراست میں تھے۔ گلبرٹ نے بات چیت میں کسی نہ کسی طرح میلون پروس کو قائل کرلیا کہ راجر ٹوئے ہی ولیم ہام کے اغواء کا ذمے دار تھا۔ میلون پروس نے اپنے طور پر تحقیقات کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے لیے گلبرٹ کا کہنا ہی کافی تھا۔
راجر ٹوئے اور اس کے ساتھی کسی اور علاقے میں پکڑے گئے تھے۔ انہیں شکاگو لایا گیا۔ ایف بی آئی نے ان کے فنگر پرنٹس وغیرہ لیے۔ دوسرے روز ولیم ہام اور دیگر کئی گواہوں کو اس کے اغوا کاروں کی شناخت کے لیے شکاگو بلایا گیا۔ انہیں ایک شیشے کے دوسری طرف سے ملزموں کی شکلیں دکھائی گئیں۔ اس شیشے میں سے وہ تو ملزموں کو دیکھ سکتے تھے لیکن ملزم انہیں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ولیم ہام نے تو کہہ دیا کہ جن لوگوں کی شکلیں اسے دکھائی جارہی تھیں، اس کے خیال میں وہ اس کے اغواء کار نہیں ہوسکتے تھے۔
یہی بات اس نے اخباری رپورٹروں سے بھی کہہ دی لیکن ایک ٹیکسی ڈرائیور نے ان لوگوں کو ولیم ہام کے اغوا کاروں کی حیثیت سے پہچان لیا۔ اس نے اس سلسلے میں باقاعدہ گواہی دے دی۔ میلون پروس کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ اس نے پریس رپورٹرز
کے سامنے آکر اعلان کردیا کہ ان کے پاس راجر ٹوئے کے خلاف ولیم ہام کے اغواء کا مضبوط کیس موجود ہے۔ ہر طرف اس کی واہ واہ ہوگئی۔ ایڈگرہوور نے بھی فوراً میلون پروس کے نام تعریفی خط لکھ ڈالا۔
درحقیقت میلون پروس انڈرورلڈ کے لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل گیاتھا۔ وہ لاعلمی میں، اور غیرارادی طور پر ان کی آپس کی رقابتوں میں استعمال ہوگیا تھا۔ اس کے ہاتھوں راجر ٹوئے قربانی کا بکرا بن گیا تھا لیکن یہ حقیقت بیس سال بعد جاکر سامنے آئی، جب ایک وفاقی عدالت کی تحقیقات کے نتیجے میں ظاہر ہوا کہ راجر ٹوئے کو منظرعام سے ہٹانے کے لیے بڑے شاطرانہ انداز میں پھنسایا گیا تھا۔ انڈر ورلڈ کے بڑے بڑے گروہوں کی اپنی بھی ایک سیاست تھی۔ گلبرٹ اسی سیاسی شطرنج کا ایک مہرہ تھا۔ ایف بی آئی سے درحقیقت ایک سنگین غلطی ہوئی تھی لیکن اس نے اس پر اپنی کامیابی کا جشن منالیا تھا تاہم ان باتوں کا انکشاف بہت تاخیر سے ہوا۔ اس لیے اس سے ایف بی آئی کا کچھ نہیں بگڑا۔ ویسے بھی وہ اس دوران بہت مضبوط ہوچکی تھی ۔
٭…٭…٭
اوکلاہاما سے دو میل دور، مغرب کی سمت میں، مضافاتی علاقے کی ایک طویل و عریض اور شاندار حویلی کی ٹیرس پر دو جوڑے بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔ حویلی کی نچلی منزل پر زرد روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ بالائی منزل پر کہیں روشنی اور کہیں ملگجا اندھیرا تھا۔ تاش کھیلنے والے دو جوڑوں میں سے ایک جوڑا تو اسی حویلی کا مکین تھا۔ وہ میاں بیوی تھے۔ شوہر کا نام چارلس ارشل اور بیوی کا نام برنائس تھا۔ چارلس ارشل تقریباً 43سال کا ایک نہایت دولتمند آدمی تھا۔ اس نے یہ دولت تیل کی تجارت میں کمائی تھی۔
اس کی بیوی برنائس اس سے بھی زیادہ امیر تھی۔ اس کی یہ دوسری شادی تھی۔ اس سے پہلے وہ ٹام سلک کی بیوی ہوا کرتی تھی جو چارلس ارشل کا پارٹنر تھا۔ وہ چارلس ارشل سے بھی زیادہ امیر تھا۔ ایک روز ہارٹ اٹیک کے باعث اچانک ٹام سلک کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا کاروبار چارلس ارشل چلانے لگا۔ اس کاروبار کی مالک اب ٹام سلک کی بیوہ، یعنی برنائس بن چکی تھی۔ مزید کچھ عرصے بعد رنڈوے چارلس ارشل نے ٹام سلک کی بیوہ سے شادی بھی کرلی تو کسی کو اس پر کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔ اقتصادی بحران کے باعث وال اسٹریٹ کے بیٹھ جانے سے پہلے برنائس کے اثاثوں کا اندازہ پانچ سو ملین ڈالر لگایا گیا تھا۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ آج بھی اسے سن کر لوگوں کی آنکھیں پھیل جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً 90سال پہلے یہ رقم کیا معنی رکھتی ہوگی۔
دوسرا جوڑا ان میاں بیوی کا مہمان تھا۔ وہ والٹر جیرٹ اور اس کی بیوی تھی۔ والٹر جیرٹ کا کاروبار بھی تیل کا تھا۔ وہ ذرا بڑی عمر کا، گنجا سا آدمی تھا۔ وہ چاروں تاش کھیلنے میں مشغول تھے۔ اچانک ٹیرس کے دروازے کے دوسری طرف کچھ کھٹرپٹر سی ہوئی۔ چارلس ارشل نے اپنی کرسی پر ذرا گھومتے ہوئے دروازے کی طرف دیکھا۔
جالی دار دروازے کے دوسری طرف اندھیرا تھا۔ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ چارلس ارشل نے آنکھیں سکیڑ کر دوسری طرف دیکھنے کی کوشش کی لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا تو اس نے خودکلامی کے سے انداز میں پوچھا ’’یہ آواز کیسی تھی؟‘‘
کسی کو جواب دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جالی دار دروازے کے دوسری طرف، اندھیرے سے آواز ابھری ’’یہ میں ہوں… بیٹریس…‘‘
یہ چارلس ارشل اور برنائس کی سولہ سالہ بیٹی بیٹریس کی آواز تھی۔ درحقیقت وہ برنائس کے پہلے شوہر ٹام سلک سے تھی لیکن چارلس ارشل بھی اس کے ساتھ سگے باپ ہی کی طرح محبت اور شفقت سے پیش آتا تھا۔
والٹر جیرٹ نے اٹھ کر جالی دار دروازے کا بولٹ گرایا اور دروازہ کھول دیا۔ بیٹریس دروازے سے گزر کر ٹیرس پر آگئی۔ ٹیرس سے گولائی دار زینہ نیچے لان پر جارہا تھا۔ باہر سے آنے والے افراد اگر کسی کو ٹیرس پر بیٹھا دیکھ لیتے تو وہ گول زینے کے راستے سے بھی ٹیرس پر آسکتے تھے۔ انہیں حویلی کے اندر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ٹیرس سے سیڑھیاں حویلی کی نچلی منزل میں بھی جاتی تھیں اور بالائی منزل پر بھی۔ بیٹریس اپنی دوستوں کے ساتھ کسی پارٹی میں شرکت کرکے آرہی تھی۔ اس نے سب کو رسمی طور پر ہیلو کہا، ان کی خیروعافیت پوچھی، پھر سیڑھیوں کے دروازے کی طرف چلی گئی۔ چند سیکنڈ بعد وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔
مسز والٹر جیرٹ نے گھڑی دیکھی اور بولیں ’’ساڑھے گیارہ ہورہے ہیں۔ میرا خیال ہے، اب ہمیں چلنا چاہیے۔‘‘
’’ ہاں… میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔‘‘ جیرٹ نے اپنی کرسی پیچھے کھسکاتے ہوئے کہا۔
’’ابھی ٹھہرو۔ ابھی اتنی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ ایک بازی اور کھیل لیتے ہیں۔‘‘ برنائس نے ایک لمحے کے لیے اس کا بازو چھوتے ہوئے کہا۔
والٹر جیرٹ اور اس کی بیوی نے اٹھنے کا ارادہ کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا۔ ایک بار پھر تاش پھینٹے گئے اور بانٹے گئے۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ اس دوران ایک بڑی سی شیورلے ان کے گھر کے قریب آکر رکی تھی۔ گاڑی چلانے والے کا نام البرٹ تھا۔ وہ چوڑے چہرے اور چپٹے سے نقوش والا آدمی تھا۔ پولیس کے پاس اس کی ایک فٹ لمبی ہسٹری شیٹ تھی جس میں اس کے جرائم مختصراً درج تھے۔ اس نے اسٹیئرنگ وہیل اتنی سختی سے پکڑا ہوا تھا کہ اس کی انگلیوں کے جوڑ سفید نظر آرہے تھے۔ اس کے برابر والی سیٹ پر چھریرے، مگر ورزشی جسم کا ایک وجیہ نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے محسوس کرلیا تھا کہ البرٹ اس وقت اعصابی تناو کا شکار تھا۔
’’اطمینان رکھو البرٹ! یہ کام بہت آسان ہے۔ تم دیکھ لینا، ہمیں اس میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘ وجیہ نوجوان نے ڈرائیونگ کرنے والے کو تسلی دی۔
وجیہ نوجوان کے سر پر نفیس ہیٹ تھا۔ اس کا قد چھ فٹ سے ذرا ہی کم تھا۔ وہ خوش لباس بھی تھا اور اس کی آنکھیں خوابناک تھیں۔ وہ اپنی گود میں ہلکی مشین گن لیے بیٹھا تھا۔ مشین گن اس کا مخصوص ہتھیار تھا۔ اسی لیے اس کا نام ’’مشین گن کیلی‘‘ پڑ گیا تھا۔ یہ اس کا اصل نام نہیں تھا لیکن جرائم کی دنیا میں وہ اسی نام سے معروف تھا۔ پولیس بھی اسے اسی نام سے، زیادہ آسانی سے پہچانتی تھی۔ وہ اور البرٹ گاڑی سے اتر آئے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ دولت مندوں کے اس رہائشی علاقے میں اس وقت دوردور تک کوئی آتا جاتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
انہوں نے اطمینان سے گیرج کے قریب سے باونڈری وال پھلانگی اور کچھ فاصلہ طے کرکے ٹیرس کے قریب پہنچ گئے۔ اب وہ ٹیرس پر بیٹھے ہوئے دونوں جوڑوں کو دیکھ سکتے تھے۔ تاہم وہ صاف نظر نہیں آرہے تھے۔ البرٹ اور کیلی، دونوں اندھیرے میں تھے۔
’’ان میں سے چارلس ارشل کون ہے؟‘‘ البرٹ نے اندھیرے میں آنکھیں سکیڑ کر ٹیرس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم…‘‘ وجیہ نوجوان نے جواب دیا۔ ’’لیکن … بہرحال… آؤ تو سہی … سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔‘‘ دونوں ٹیرس کی گول سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔
٭…٭…٭
برنائس تاش کا پتا پھینکتے پھینکتے رک گئی۔ اس کی پیشانی پر شکنیں اُبھر آئی تھیں اور کان گویا کسی پر لگے ہوئے تھے۔ ایک منٹ کی خاموشی کے بعد اس نے دوسروں سے پوچھا ’’یہ کیسی آواز تھی؟‘‘
’’کون سی آواز؟‘‘ چارلس ارشل نے جاننا چاہا۔
’’مجھے ایسا لگا ہے جیسے کوئی ٹیرس پر آیا ہے۔‘‘ برنائس نے جواب دیا۔
چارلس ارشل نے اٹھ کر جالی دار دروازہ کھولا اور باہر اندھیرے میں جھانک کر اِدھر اُدھر دیکھا مگر اسے کوئی نظر نہ آیا۔ چند لمحے پہلے اس نے آس پاس کہیں کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنی تھی۔ وہ یہی سمجھا تھا کہ پاس پڑوس میں کوئی آیا ہوگا۔ وہ واپس اپنی کرسی پر آبیٹھا اور کھیل کا سلسلہ جہاں رکا تھا، وہیں سے دوبارہ شروع ہوگیا۔
ابھی بازی ختم ہی ہوئی تھی کہ اچانک جالی دار دروازہ کھلا اور دو آدمی گنیں لیے ہوئے ٹیرس پر آگئے۔ برنائس کے حلق سے ہلکی سی چیخ نکل گئی اور اس نے پتے پھینک کر فوراً ہاتھ اٹھا لیے۔
’’کوئی چیخ پکار نہ کرے ورنہ ہم تمہاری کھوپڑیاں اُڑا دیں گے۔‘‘ مشین گن کیلی نے تیزی سے کہا۔ ہھر اس نے ٹیرس پر موجود دونوں مردوں کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم دونوں میں سے چارلس ارشل کون ہے؟‘‘
دونوں خاموش رہے۔ وجیہ نوجوان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ ابھر ائی۔ وہ سر کو ہلکی سے جنبش دے کر بولا ’’اچھا… تو تم بتانا نہیں چاہتے؟ ٹھیک ہے… ہم، تم دونوں کو ہی لے جائیں گے۔‘‘
اس نے مشین گن سے ان دونوں کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔ ارشل اور جیرٹ آہستگی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’جلدی چلو۔‘‘ کیلی نے مشین گن سے اشارہ کیا۔ وہ دونوں دروازے کی طرف بڑھے۔
مشین گن کیلی نے دروازے پر رک کر دونوں عورتوں کی طرف دیکھ کر سخت لہجے میں کہا ’’تم میں سے کوئی بھی دس منٹ تک اپنی جگہ سے حرکت نہ کرے اور ٹیلیفون کے قریب جانے کی کوشش نہ کرے۔‘‘
دونوں نوجوان ارشل اور جیرٹ کو لے کر ٹیرس سے چلے گئے۔ برنائس اور مسز جیرٹ دم بہ خود بیٹھی تھیں۔ چند لمحے بعد انہوں نے گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی۔ یہ آواز دور ہوتی چلی گئی اور جلد ہی معدوم ہو گئی۔ آواز کے معدوم ہوتے ہی دونوں عورتیں تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’جلدی سے اوپر چلو۔‘‘ برنائس بولی۔
دونوں عورتیں سیڑھیوں کے راستے بالائی منزل کے ایک بیڈ روم میں آئیں۔ برنائس نے دروازہ اپنے عقب میں بند کرکے اسے مقفل بھی کر دیا۔ پھر اس نے فون اٹھا کر پولیس سے رابطہ کیا اور انہیں سارا واقعہ سنایا۔ اس سے بات کرنے والے پولیس آفیسر نے اسے تسلی دی اور کہا کہ وہ جلد از جلد شہر کی اہم سڑکوں کی ناکابندی کر دیں گے۔
فون بند کرنے کے بعد برنائس کو ایک بات یاد آئی۔ اس نے ’’ٹائم‘‘ میگزین میں اسی طرح کی کسی اور واردات کے بارے میں پڑھا تھا۔ اس رپورٹ کے ساتھ ہی کچھ معلومات بھی فراہم کی گئی تھیں اور اس قسم کی صورت حال میں شہریوں کے لیے کچھ ہدایات بھی درج تھیں۔ وہ شمارہ کمرے میں تپائی پر ہی پڑا ہوا تھا۔ برنائس نے جلدی جلدی صفحات پلٹ کر مطلوبہ رپورٹ تلاش کی۔ ایک صفحے پر ایک ہاٹ لائن فون نمبر بھی درج تھا۔ برنائس نے وہ نمبر ملایا تو ایک عجیب سے ہیجان کے باعث اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔
’’ایف بی آئی…‘‘ دوسری جانب سے ایک عورت کی آواز سنائی دی۔ وہ آپریٹر معلوم ہوتی تھی۔
’’مجھے اغوا کی ایک واردات کے بارے میں رپورٹ کرنی ہے۔‘‘ برنائس نے کہا۔
’’چند سیکنڈ ہولڈ کیجئے۔‘‘ آپریٹر نے مستعدی سے کہا۔
چند ہی لمحے بعد دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز ابھری ’’میں ایڈگرہوور بول رہا ہوں… ایف بی آئی کا ڈائریکٹر … اغوا کی واردات کے بارے میں جو کچھ بھی آپ کو معلوم ہے، جلدی سے مجھے بتایئے۔‘‘
٭…٭…٭
’’میں اس وقت بری طرح خوفزدہ ہو گئی تھی اور ان کے چہرے صحیح طرح نہیں دیکھ سکی تھی۔‘‘ برنائس کہہ رہی تھی ’’بہرحال مجھے یہ یاد ہے کہ ان کے چہرے کچھ گول سے تھے اور وہ غیرملکی معلوم ہوتے تھے۔‘‘
اس وقت رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔ یعنی برنائس کے شوہر چارلس ارشل اور اس کے دوست والٹر جیرٹ کو اغوا ہوئے ڈیڑھ گھنٹا گزر چکا تھا۔ برنائس اپنے سامنے بیٹھے جس شخص سے باتیں کر رہی تھی، اس کا نام رالف کولون تھا۔ وہ اوکلاہاما میں ایف بی آئی کا ایجنٹ اور مقامی آفس کا انچارج تھا۔
وہ جب اغوا کے واقعے کی ساری تفصیل سن چکا تو بولا ’’آپ یقین رکھیے، سب سے پہلے تو ہمارے سامنے یہ مقصد ہوگا کہ آپ کے شوہر خیریت سے واپس آجائیں۔ اوکلاہاما سٹی کے چاروں طرف سو میل کی حدود میں تمام ہائی ویز کی نگرانی شروع ہوچکی ہے۔ اب آپ کو ایک زحمت کرنا پڑے گی۔ آپ کو پولیس اسٹیشن چلنا پڑے گا۔ وہاں عادی اور پیشہ ور مجرموں کی تصویروں کا ریکارڈ موجود ہے۔ آپ کو ان تصویروں کا جائزہ لے کر یہ بتانا ہو گا کہ ان میں سے کوئی تصویر اغوا کاروں میں سے کسی کی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو دونوں اغوا کاروں کی تصویریں وہاں نظر آ جائیں۔ ‘‘
’’میں ابھی چلتی ہوں۔ بس ذرا کوٹ پہن لوں۔‘‘ برناٹس فوراً پُرجوش انداز میں اٹھتے ہوئے بولی۔
وہ کوٹ لینے کے لیے اندر جانے لگی۔ وہ لوگ اس وقت اسی ٹیرس پر بیٹھے تھے جہاں اغوا کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ برنائس اندر جاتے جاتے رک گئی اور فون کی طرف ہاتھ بڑھانے ہی لگی تھی کہ رالف کولون نے اسے روک دیا اور پوچھا ’’کیا اس فون کی ایکسٹنشن کہیں موجود ہے؟‘‘
’’ہاں، نیچے ہال میں ہے۔‘‘ برنائس نے بتایا۔
’’آپ وہاں جاکر فون سن لیں۔ میں یہاں سنتا ہوں۔‘‘ رالف کولون نے کہا۔ اس کے لہجے سے کسی قسم کی امید جھلک رہی تھی۔
فون والٹر جیرٹ کا تھا۔ وہ پولیس ہیڈکوارٹر سے بول رہا تھا۔ اغوا کاروں نے شہر سے باہر نکل کر اسے گاڑی سے اتار دیا تھا۔ دراصل انہوں نے اس کی تلاشی لی تھی اور اس کے بٹوے میں موجود کسی کارڈ وغیرہ سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ چارلس ارشل نہیں تھا۔
’’ارشل کو البتہ وہ لے گئے ہیں…‘‘ والٹر جیرٹ نے برنائس کو بتایا ’’کم از کم میرے سامنے انہوں نے ارشل کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ اغوا کار کہہ رہے تھے کہ وہ تم سے رابطہ کریں گے۔ مجھے ایک پک اپ والے نے لفٹ دے دی اور میں سیدھا پولیس ہیڈ کوارٹر آ گیا۔‘‘
کچھ دیر بعد برنائس پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچ گئی۔ مسز جیرٹ اس کے ساتھ تھیں۔ والٹر جیرٹ پولیس ہیڈکوارٹر میں موجود تھا۔ تینوں نے مل کر وہ البم دیکھے جن میں مجرموں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ چند تصویروں کے بارے میں انہیں بہت معمولی حد تک ایسا معلوم ہوا جیسے ان لوگوں کو انہوں نے کہیں دیکھا ہو لیکن وہ کسی بھی تصویر کے بارے میں یقین سے کچھ نہ کہہ سکے۔ مجروں کے فرار کا راستہ بھی صرف وہیں تک معلوم ہو سکا جہاں تک وہ جیرٹ کو ساتھ لے گئے تھے۔ اس کے بعد کچھ پتا نہیں چل سکا کہ وہ کس طرف گئے تھے۔ ارشل کے گھر کی ٹیرس سے ان کے فنگر پرنٹس وغیرہ بھی حاصل نہیں ہوسکے۔ (جاری ہے)