ناصر صاحب کا گھر ہمارے برابر میں تھا۔ وہ قریب ترین پڑوسی تھے۔ مکان سے مکان کی چھتیں ملی ہوئی تھیں۔ یہ 2کنال کی رہائش گاہ جو ناصر چچا کے والد نے اس خیال سے بنوائی تھی کہ اس میں میرے دونوں بیٹے رہیں گے، والد کی وفات کے بعد بڑے بیٹے نے اپنا حصہ فروخت کردیا، جبکہ ناصر اپنے حصے پر قیام پذیر رہے۔ دوسرا حصہ جو ان کے بڑے بھائی کا تھا، اسے ہمارے دادا نے خریدا۔ ناصر اور ہمارے گھر کے درمیان دیوار اٹھادی گئی۔ اس طرح یہ وسیع رہائش گاہ دو الگ الگ مکانات میں تبدیل ہوگئی۔
ناصر کی دوستی والد سے ہوگئی تھی، ہم انہیں ناصر چچا پکارنے لگے، یوں دونوں گھرانوں کی خواتین کا آنا جانا بلا روک ٹوک رہنے لگا۔ چچا کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ بڑی بیٹی کا نام ماہ پارہ اور چھوٹی کا ماہ نور تھا۔ دونوں خوبصورت اور چونچال قسم کی تھیں۔ میری دوستی ماہ پارہ سے ہوگئی۔ میں اسے پارو کہتی تھی۔ وہ خوش ہوتی کیونکہ نک نیم پکارنے کی وجہ سے محبت کا اظہار ہوتاہے۔ ان دنوں میرے دونوں بھائی غیر شادی شدہ تھے۔ بڑے تعلیم مکمل کرچکے تھے جن کا نام جمشید تھا اور چھوٹے جنید یونیورسٹی جاتے تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد بھائی جان زیادہ تر گھر میں رہا کرتے۔ کبھی والد کے اصرار پر ان کے ساتھ چلے جاتے مگر انہیں ابو کے بزنس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ کسی اچھی ملازمت کے خواہاں تھے۔ وہ اخبارات میں اشتہار دیکھتے اور ملازمت کے درخواست بھیج دیتے۔ ان دنوں بھی اچھی ملازمت کے لئے سفارش چلتی تھی، آسانی سے جاب نہیں ملتی تھی۔ جمشید بھائی بیکاری کے دنوں میں شاید کسی مشغلے کی تلاش میں تھے کہ یہ مشغلہ مل گیا۔
میں تو اسے مشغلہ ہی کہوں گی کیونکہ انسان کو وقت پاس کرنے کے لئے دلچسپی کا کوئی سامان چاہئے ہوتا ہے۔ پارو اکثر مجھ سے ملنے آتی وہ اس میں دلچسپی لینے لگے۔ بہانے سے اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے، پھر دونوں نے چپکے چپکے دوستی کرلی۔ اس بات کا کسی کو علم نہ ہوسکا کہ یہ گھنٹوں چھت پر باتیں کرتے ہیں۔
ایک دن ناصر چچا کی نوکرانی صفائی کی غرض سے چھت پر گئی تو ان دونوں کو باتیں کرتے پایا۔ اس قدر باتوں میں محو تھے کہ ملازمہ کی آمد کا پتا نہ چلا۔ اس عورت نے خاموشی سے واپسی کی راہ لی۔ اس نے پارو کی امی کو کچھ نہ بتایا لیکن سارے محلے میں خبر پھیلادی کہ ناصر کی بیٹی اور جمشید کے درمیان محبت کی پینگیں چل رہی ہیں۔ یوں ماہ پارہ اتنی بدنام ہوگئی کہ اس کے والدین کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ ابا اور ناصر چچا کے کانوں میں بھنک پڑی، انہوں نے اپنی بیویوں سے صلاح مشورہ کیا۔ دونوں ہی جمشید اور ماہ پارہ کے بیاہ پر راضی تھے لیکن دادی جان نے رخنہ ڈال دیا۔ بولیں میں ہرگز اپنے پوتے کا بیاہ غیر برادری میں نہ کروں گی ۔ جمشید کی نسبت ساحرہ کی بیٹی کے ساتھ بچپن سے طے ہے۔ میری معصومہ ہی اب اس گھر میں بہو بن کر آئے گی۔
ساحرہ ہماری پھوپھی تھیں اور ابو میں جرأت نہ تھی کہ بہن کی بیٹی کا رشتہ ٹھکرا کر اپنی والدہ اور بہن کو ناراض کرلیتے۔ وہ خاموش ہو بیٹھے۔ جمشید کو سمجھادیا کہ بیٹا ماہ پارہ کا خیال ذہن سے نکال دو۔ ورنہ تمہاری دادی اور پھوپی خفا ہوجائیں گی اور اپنے جیتے جی والدہ کو میں ناراض نہیں کرسکتا۔ ادھر جمشید بھائی مصر کہ شادی ماہ پارہ سے ہی کرنی ہے، ورنہ میں کبھی شادی نہ کروں گا۔ بات مانی نہ گئی تو گھر چھوڑ کر چلا جائوں گا۔ سبھی نے سمجھا کہ لڑکپن ہے جوش جوانی میں ایسے دعوے کئے جاتے ہیں۔ یہ لڑکا بے روزگار ہے بھلا گھر چھوڑ کر کہاں جائے گا۔
کسی نے جمشید کی نہ سنی اور خطرے کی بو پاکر دادی نے نوکری ملنے کا بھی انتظار نہ کیا۔ اپنی نواسی سے جمشید کے ساتھ شادی کی تاریخ طے کر دی۔ جب جمشید بھائی کو بتایا گیا کہ تمہاری شادی معصومہ کے ساتھ طے کردی گئی ہے تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ باری باری اماں اور ابا سے بھی ہم کلام ہوئے کہ میری مرضی کے بغیر آپ نے کیونکر معصومہ کو میرے پلے باندھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ہرگز اس موٹی اور کلوٹی پھوپی زاد سے بیاہ نہ کروں گا۔ مجھے شادی ماہ پارہ سے کرنی ہے، ورنہ آپ سب کو یہ رشتے دار ،گھر مبارک، میں چلا جائوں گا۔ ادھر دادی ضد پر اڑی تھیں تو ادھر جمشید بھائی نہیں مان رہے تھے، بالآخر قدرت نے فیصلہ کردیا۔ بھائی نے ایک دوست کو بیرون ملک نوکری کے لئے کہہ رکھا تھا۔ اس نے فون کردیا اور ویزا بھی بھجوا دیا کہ پندرہ روز بعد آجائو، تمہارا انتظام ہوگیا ہے۔ وہ دوست سعودی عربیہ کی ایک بڑی کمپنی میں انجینئر تھا۔ بھائی صاحب کی لاٹری نکل آئی اور وہ ماہ پارہ کو لوٹ آنے کی تسلی دے کر اور اپنے گھر والوں کو واپس لوٹ کر نہ آنے کی دھمکی دے کر سعودیہ چلے گئے۔ معصومہ سے ان کی شادی کا معاملہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔
پانچ سال گزر گئے بھائی نہ لوٹے۔ چونکہ میں سارے معاملے سے واقف تھی وہ مجھے خط لکھا کرتے، موقع ملتا تو فون بھی کرلیتے۔ والدین، دادا دادی سے بطور اظہار ناراضگی قطع تعلق کئے رکھا۔ امی ابو مجبور تھے۔ اپنے والدین کے آگے بے بس تھے ۔ مجھ سے رابطے کی وجہ سے ان کو جمشید بھائی کی خیریت معلوم ہوجاتی تھی۔ کچھ پرسکون اور کچھ بے سکون وقت کٹتا جارہا تھا۔ میرے والدین بیٹے کے لوٹ آنے کے انتظار میں عمر رسیدہ ہو رہے تھے۔ وہ دن رات دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جمشید سے ملادے۔
اللہ تعالیٰ نے دعا سنی مگر ملاپ کی صورت، بری تھی۔ ایک روز جمشید بھائی کے دوست کا فون آگیا کہ ان کا ٹریفک کے حادثے میں انتقال ہوگیا ہے۔ میت کو جدہ سے آنا تھا اور والد صاحب نے ایئر پورٹ سے وصول کرنا تھا۔ وہ قیامت کا دن تھا جمشید بھائی لوٹ رہے تھے مگر اپنے پیروں پر چل کر نہیں دوسروں کے کندھوں پر آئے تھے۔ سبھی سوگوار تھے، دادی اس صدمے سے ایسی نڈھال ہوئیں کے بعد کو بس چند ماہ جی سکیں۔ دادا نے ان کے جانے کے بعد رخت سفر باندھنا شروع کردیا، آئے دن بیمار رہ کر وہ اس جہان فانی سے جلد کوچ کرگئے۔
والد اور والدہ کے لئے بڑا صدمہ تھا۔
ہم بہن بھائی بھی ایسے سوگوار تھے کہ ہر روز یہ زخم ہرا ہو جاتا تھا۔ موت کا وار کاری ہوتا ہے۔ اس زخم کا کوئی علاج ہے اور نہ مرہم۔ پیاروں کی دائمی جدائی کے گھائو کو سہنا ہی ہوتا ہے۔ یہ گھائو بھرتے بھرتے عمر بیت جاتی ہے۔ آخر گھائل قبر میں اتر جاتے ہیں، مگر گھائو پھر بھی نہیں بھرتا، مرنے والے کے ساتھ جاتا ہے۔ امی ابو کی تمام امیدیں چھوٹے بھائی سے وابستہ ہوگئیں، جنید نے تعلیم مکمل کرلی تو ابو کا بازو بن جانے کے خیال سے والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگے۔ ناصر چچا اور والد میں بھی دوری ہوچکی تھی، لہٰذا دونوں نے کاروبار علیحدہ کرلیا مگر پڑوس سے علیحدگی ممکن نہ تھی کہ گھر برابر برابر تھے۔ ساتھ ساتھ رہنا تھا۔ ماہ نور کی شادی ہوگئی مگر ماہ پارہ کا رشتہ طے نہ ہوسکا کیونکہ ملازمہ نے جس طرح بدنام کیا تھا محلے والے اور رشتے دار اس بات کو بھلا نہیں سکتے تھے۔ ہم سب کو اس کی بدنامی کا دکھ تھا۔ جمشید کے آنے کی امید تھی، والدین نے یہ آس باندھ لی تھی کہ اس بار آئے گا تو اس کی شادی ماہ پارہ سے کرکے بیٹے کی دلی مراد بر لائیں گے۔
اس کے نصیب میں زندہ لوٹ کر آنا اور سہرا باندھنا لکھا نہ تھا۔ یہ آس ٹوٹ گئی لیکن ماہ پارہ نے ہمارے گھر کا آنا نہ چھوڑا۔ وہ مجھے کہتی ہے کہ تمہارے گھر آکر عجب طرح کا سکون ملتا ہے۔ قسمت میں جو تھا وہ ہوا مگر تمہارے گھر آنا نہیں چھوڑ سکتی۔
امی بھی اس کے ساتھ پیار سے پیش آتیں، کہتی تھیں اس بچی کا کیا قصور۔ دادی ضد نہ کرتیں تو آج یہ ہمارے گھر کی بہو ہوتی۔ پھپھو تو ابو سے ملنے آتی رہتی تھیں۔ جمشید اس جہان میں رہا نہیں تو جھگڑا کیا۔ دادا دادی کا گھر ان کے والدین کا گھر تھا انہیں یہاں آنے سے کون روک سکتا تھا۔ معصومہ کی شادی انہوں نے اپنے دیور کے بیٹے سے کردی تھی۔ جھگڑا ختم ہوا۔ پھپھو کو ماہ پارہ کا ہمارے گھر آنا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا وہ اس کو دیکھ لیتیں تو تیوری پر بل ڈال کرکہتیں۔ یہ اب بھی آتی ہے۔ اس کو یہاں نہیں آنا چاہئے۔ ماہ پارہ کی صورت دیکھ کر گویا ان کے دل پر چھریاں چل جاتی تھیں۔ طعنے دیتیں اس منحوس کا سایہ پڑا اور میرا بھتیجا جہان سے چلا گیا، مگر پارو نے ہماری محبت اور جمشید بھائی سے لگائو کے سبب ہمارے گھر آنا نہ چھوڑا۔ اس کی میری دوستی پہلے کی طرح برقرار تھی، بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی تھی۔ جمشید بھیا کی دائمی جدائی کا درد، مشترک تھا۔ والد ماہ پارہ کے ہم سے لگائو اور گھر آنے کا نوٹس لیتے تھے، ان کو اپنے پڑوسی دوست ناصر کا بھی خیال رہتا تھا۔ جب جنید کے لئے لڑکی کی تلاش شروع ہوئی تو انہوں نے امی سے کہا کہ کیوں نہ ماہ پارہ کو لے لیں۔ یہ بچی لگتا ہے ہمارے بنا نہیں رہ سکتی۔ ماں باپ کے منع کرنے کے باوجود اس کے پائوں ہماری دہلیز کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
امی جان کو بھی ماہ پارہ کے دکھ کا اندازہ تھا۔ جانتی تھیں کہ یہ لڑکی جمشید کے حوالے سے ہمارے ساتھ ایک انمٹ انسیت رکھتی ہے۔ انہوں نے جنید بھائی سے ذکر کیا۔ ماں کے رجحان کو دیکھ کر بھائی نے کہا امی جان جیسی آپ کی مرضی ۔ میں آپ کی رضا پر راضی ہوں اگر اس لڑکی کو ہمارے گھر آکر سکھ اور خوشیاں مل سکتی ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہے۔ جنید بھائی دراصل دوران تعلیم دوسرے شہر کے ہوسٹل رہے تھے لہٰذا ان کو جمشید بھائی اور ماہ پارہ کے محبت کے سلسلے کا کچھ علم نہ تھا، وہ اتنا جانتے تھے کہ ماہ پارہ سے جمشید بھائی شادی کے خواہشمند تھے مگر نہ ہوسکی تھی اس کے علاوہ معاملات کی گہرائی سے ناواقف تھے۔
میں نے ماہ پارہ کے کانوں میں یہ بات ڈال دی کہ امی جان ہمیشہ کے لئے تم کو اپنے گھر میں دیکھنا چاہتی ہیں۔ جمشید بھائی کی زندگی نے وفا نہ کی ، جانے والوں کو کون واپس لاسکتا ہے، یہ انسان کی قدرت میں نہیں کہ وہ دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں… مگر زندہ انسانوں کی زندگی میں رنگ روپ بھرنے کے لئے کچھ مصلحت بھرے فیصلے کرنے پڑتے ہیں… تم جنید کے بارے سوچ سکتی ہو تو پھر ہم اس معاملے کو آگے بڑھائیں۔
ماہ پارہ نے اچھا سوچا ہوگا، تبھی نتیجہ مثبت نکلا اور وہ جنید بھائی کو پسندیدہ نظروں سے دیکھنے لگی، ان کی ذات میں دلچسپی لینے لگی۔ رفتہ رفتہ اس کی توجہ کو ہم گھر والوں نے بھی نوٹ کرلیا۔ جنید ابھی لئے دیئے والا رویہ اپنائے تھا لیکن ماہ پارہ کو جیسے اپنی بدنامی کی بھی پروا نہ رہی تھی، وہ میرے بھائی کی جانب دیوانہ وار جھکتی چلی گئی، یہاں تک کہ بات گھر سے نکل گئی اور ایک بار پھر محلے میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ یہ چہ میگوئیاں چچا ناصر کے کانوں تک بھی پہنچیں ، وہ صدمے سے بیمار ہوگئے ان کی بیوی نے آکر امی سے کہا۔ بہن ، تم ماہ پارہ کو اپنے گھر آنے سے روکو… ہمارے روکے تو رکتی نہیں اور محلے والے ایک بار پھر باتیں بنانے لگے ہیں۔
ہاں… بہن جہاں، جوان لڑکا ، لڑکی ہوں وہاں باتیں بنتی ہی ہیں۔ ماہ پارہ ہمارے لئے بیٹیوں جیسی ہے، وہ ہمارے گھر آنے سے نہیں رکتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہم لوگوں سے پیار ہے تو کیوں نہ ہم اس کے اس پیار کا مان رکھ لیں اور میں جنید کے لئے تم سے ماہ پارہ کا ہاتھ مانگ لوں۔ کیا یہ رشتہ اچھا نہ رہے گا، ہم دونوں گھرانے پہلے بھی ایک تھے پھر ایک ہو جائیں گے۔
ماہ پارہ… جنید سے ایک سال بڑی ہے۔ اس کی ماں نے خدشہ ظاہر کیا۔ ایک سال کی بڑائی چھٹائی سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آپ اسے معمولی بات سمجھئے۔ بس ’’ہاں‘‘ کہئے تاکہ شادی کی تیاریاں شروع کریں۔
یہ رشتہ، ابو شاید جنید کے لئے نہ لیتے مگر چچا ناصر کی حالت دیکھ کر وہ پریشان تھے۔ کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئے۔ ماہ پارہ بھی اچھی لڑکی تھی، اس میں کوئی برائی نہ تھی، گریجویٹ اور خوبصورت ، اس کا بس اتنا قصور تھا کہ اسے ہم لوگوں سے دلی لگائو تھا۔ ہم سب سے ایسی کھری محبت کرتی تھی کہ اس کی محبت پر شک نہیں کیا جاسکتا تھا۔
والد کو ہی نہیں ہم سب گھر والوں کے دلوں میں چچا ناصر کی بہت عزت تھی۔ جب والد کے نوٹس میں یہ بات آئی کہ ہماری وجہ سے چچا کو صدمہ ہے اور بیٹی کا معاملہ یوں بھی نازک ہوتا ہے پس انہوں نے ماہ پارہ کو یہ سوچ کر اپنی بہو بنالینے کا فیصلہ کرلیا کہ ان کے اس اقدام سے اللہ راضی ہوگا۔ دو ماہ بعد جنید بھائی سے ماہ پارہ کی شادی بہ بخیر و خوبی انجام پاگئی۔ میاں بیوی میں محبت اور اتفاق دیکھنے کو ملا۔ ہم خوش تھے کہ چلو یہ بیل منڈھے چڑھ گئی ہے۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی پلک جھپکتے چار سال بیت گئے ۔ ایک دن بھی جنید بھائی اور پارہ بھابی میں لڑائی یا بدمزگی نہیں ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے اور دونوں اپنے بچوں سے پیار کرتے تھے۔ چار سال میں ان کے دو بچے ہوگئے تھے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور یہ بچے ہم سب کی آنکھ کا تارا تھے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اچانک وقت کی ایسی آندھی چلے گی کہ خوشیوں کا باغ خس و خاشاک کی طرح ہوا میں بکھر جائے گا۔ ہمارا گھر کافی دنوں سے مرمت کا طلب گار ہورہا تھا۔ بھابی جان اور بچوں کو ایک کمرے کی رہائش تنگ ہوگئی تھی۔ والد نے سوچا کہ جمشید کا کمرہ کب تک بند رہے گا۔ بالآخر اسے آباد کرنا ہے۔ انہوں نے کمرے کا تالا کھلوایا اور جمشید کی اشیاء امی جان نے اپنے کمرے میں منتقل کرکے کمرہ خالی کردیا۔
جمشید بھائی جب دیار غیر گئے تھے تو اپنی الماری کو تالا لگا گئے تھے۔ والدہ نے سوچا کہ یہ الماری بھی خالی کردیتی ہوں۔ مرحوم بیٹے کے کپڑے وغیرہ خیرات کردوں گی اور اس کی جو اشیاء یادگار ہیں، علیحدہ کرلوں گی۔ انہوں نے تالا کھولنے والے کو بلوایا۔ وہ نہیں آیا تو جنید نے کہا، امی میں خود تالا کھول لیتا ہوں۔ انہوں نے ایک کیل سے اپنی تیکنیک استعمال کرکے تالا کھول دیا۔ امی نے الماری کو خالی کرکے جنید سے کہا کہ آپ لوگ اس کو استعمال کریں اور بچوں کے کپڑے وغیرہ اس میں رکھ لیں۔
جنید بھائی نے ماہ پارہ سے کہا کہ یہ الماری میرے استعمال میں رہے گی، میرے بھائی کی ہے اور اس کے ساتھ ان کی یادیں وابستہ ہیں۔ وہ خود اس کی صفائی کرنے لگے۔ اچانک ان کو الماری کے اندر ایک خفیہ خانہ دکھائی دیا۔ الماری دیوار کے اندر بنائی گئی تھی، اس لئے یہ خانہ بھی دیوار میں اندر کی جانب بنا ہوا تھا، کھولنے کی کوشش کی نہ کھلا۔ یہ ایک چھوٹی سی سیف تھی۔ بالآخر کارپینٹر کو بلا لائے اور اس نے اوزاروں کی مدد سے اس نصب شدہ سیف کو نکالا اور کھول کر دے دیا۔ جنید نے سیف کی تلاشی لی اس میں چند خطوط کے ساتھ کچھ گلاب کے پھولوں کی مرجھائی ہوئی پنکھڑیاں تھیں۔ ایک پرفیوم کی شیشی تھی جو بند تھی جیسے کسی پیارے کا دیا ہوا تحفہ ہو، انہوں نے کھولا نہ تھا، بلکہ سنبھال کر رکھا تھا۔
خطوط کھولے تو یہ محبت نامے تھے جو ماہ پارہ نے کبھی جمشید بھائی کو لکھے تھے۔ جن کے بارے میں ماہ پارہ کا خیال تھا کہ جمشید نے پھاڑ دیئے ہوں گے۔ ان میں ایک دو خطوط ایسے بھی تھے جن میں کچھ راز کی باتیں لکھی گئی تھیں۔ نجانے کیوں… جمشید بھائی نے اسی وقت ان خطوط کو تلف نہ کیا۔ بہرحال انہیں پڑھ کر جنید بھائی کی حالت غیر ہوگئی کیونکہ تحریروں سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ جو لڑکی ان کی بیوی بن گئی ہے دراصل وہ ان کی شریک حیات بننے کے لائق نہ تھی وہ ان کے بھائی کی پاکیزہ محبت نہ رہی تھی بلکہ محبت کے جوش میں آلودہ دامن ہو چکی تھی۔ اور اب یہ تصور ان کے لئے سوہان روح تھا کہ وہ ماہ پارہ کے ساتھ باقی زندگی ایک جبر کے طور پر بسر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر ماہ پارہ ان کے بڑے بھائی کے ساتھ محبت کے راستے پر اتنی دور جاچکی تھی تو پھر اس کو میرے ساتھ شادی سے انکار کردینا چاہئے تھا۔ اس نے ایک بھائی کھو کر دوسرے بھائی کو چن لیا تھا۔
حالات سے ہم انسان مجبور ہوجاتے ہیں مگر میرے جنید بھائی کی سوچ ہم سے مختلف تھی ۔ اب وہ اس کڑوے گھونٹ کو برداشت نہیں کر پارہے تھے۔ ثبوت کے طور پر بیوی کے خطوط ان کے ہاتھوں میں تھے۔ کاش جمشید بھائی ان خطوط کو تلف کرکے جاتے ۔ شاید یہ تحریریں ان کو بہت پیاری تھیں، تبھی ضائع کرنے کی بجائے سینت کر رکھ لیں، کیا جانتے تھے کہ گئے تو پھر کبھی لوٹنا نصیب نہ ہوگا، ورنہ وہ لازماً ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر جاتے۔ بہرحال اب یہ جنید بھیا کے ہاتھوں میں اپنی بیوی کی خطا کا زندہ ثبوت تھا۔
جنید بھائی اس تلخ حقیقت کو ہضم نہ کرسکے اور انہوں نے گھر والوں کو اکٹھا کرلیا۔ خطوط امی ابو کے سامنے رکھ کر بولے اگر میں اس حقیقت سے واقف نہ تھا آپ لوگ تو جانتے ہوں گے، پھر مجھے کیوں ماہ پارہ کو سہاگن بنانے کی خاطر قربانی کا بکرا بنادیا۔ مجھ کو دھوکے میں رکھ کر جو سازش ہوئی ہے اس کا خمیازہ آپ سبھی کو بھگتنا پڑے گا، میں ہرگز ماہ پارہ کو اب اپنی بیوی کے روپ میں نہیں دیکھ سکتا۔ میرے بس کی بات نہیں ہے، رہے بچے تو مجھے بچوں کی بھی پروا نہیں ہے، چاہے چھوڑ جائے چاہے اپنے ساتھ لے جائے، مگر میں اس کو طلاق دے رہا ہوں۔ ماہ پارہ کی ایسی حالت جیسے کوئی بے جان بت۔ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ رونا چاہے تو آنکھ سے ایک آنسو نہ ٹپکے، جیسے کسی نے اس کی آنکھوں سے آنسو تک کشید کرلئے ہوں۔ ماہ پارہ ایک لفظ نہ بول سکی،اپنی خطا کا انکار کرہی نہ سکتی تھی، جبکہ اس کا دفاع کرنے والا بھی کب کا منوں مٹی تلے سو چکا تھا۔
ایک عورت نے دو بھائیوں کو بے وقوف بنایا۔ اور اب اس گھر پر راج کررہی ہے میں ابھی اسی وقت اس کو طلاق دیتا ہوں۔ انہوں نے امی ابو کی التجائوں کی پروا نہ کی، جیسے ان پر وحشت سوار ہوگئی تھی، غصے میں طلاق کے الفاظ تین بار بول دیئے۔ اور سب گھر والے دم بخود دیکھتے رہ گئے۔ میرے بھائی نے کسی کا لحاظ نہ کیا۔ والدین کا اور نہ بچوں کا۔ میں نے پہلی بار ان کے اندر ایک ایسے وحشی مرد کاوہ روپ دیکھا جس کا کبھی تصور نہ کیا تھا۔
کیا کوئی ایسا ہوسکتا ہے اور وہ بھی جنید بھائی جیسا نرم خو اور رحمدل انسان … واقعی انسان کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اس حقیقت پر آج ایمان لانا پڑا۔ بھائی کے چہرے سے ایسی وحشت برس رہی تھی کہ ہم سب نے ماہ پارہ کا اس وقت گھر سے چلے جانا ہی بہتر سمجھا۔ وہ جاتے ہوئے اپنے بچوں کو ساتھ نہ لے گئی۔
اس واقعہ کو بہت برس گزر چکے ہیں، ماہ پارہ اپنے والدین کے گھر بیٹھی بوڑھی ہوگئی ہے۔ بچوں کی خاطر شادی نہ کی کیونکہ بچے باپ کے پاس اور کبھی ماں کے پاس ہوتے تھے۔ وہ دونوں کے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ یہ عجب سی بات ہے کہ طلاق دے کر جنید کو بھی چین نہ ملا۔ ماہ پارہ سے جدائی کے بعد انہوں نے بھی دوبارہ شادی نہ کی ۔ چچا ناصر پہلے صدمے سے تو بچ گئے تھے مگر ماہ پارہ کی طلاق کا صدمہ نہ سہہ سکے اور اس جہان سے رخصت ہوگئے۔ ماہ پارہ کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اس کی ماں کو تادیر زندہ رکھا یہاں تک کہ بچے بڑے ہوگئے۔ میں بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی اور شادی کے چودہ برس بعد بیوہ ہو کر پھر جنید بھائی کے پاس آگئی، تب تک امی ابو بھی اس جہان سے سدھار گئے تھے۔ بہنوں کی شادیاں ہوگئیں اور میں جنید اور ماہ پارہ کے بچوں کے لئے پل بن گئی ۔ میرے ذریعے ان بچوں نے اپنے والدین سے رابطہ قائم رکھا۔
آج مہ جبیں اور فہد دونوں جواں سال ہیں وہ ماں اور باپ دونوں کے پاس باری باری رہتے ہیں۔ دونوں سے پیار کرتے ہیں جنید اور ماہ پارہ بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، مگر مل نہیں سکتے، کیونکہ محبت کی اس ڈور کو طلاق کی قینچی نے کاٹ ڈالا ہے، جو انہیں ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھی، بچوں کے مسائل پر ایک دوسرے سے فون پر بات کرلیتے ہیں۔ ایک ان دیکھا رشتہ ابھی تک قائم ہے جس کا یہ اقرار نہیں کرسکتے۔ سوچتی ہوں جانے کیوں ہم اپنی پرانی یادیں جمع رکھتے ہیں، جبکہ وقت کا چلن ان کو مٹانے کا ہی ہے۔ پھر بھی خطوط کو سنبھال کر رکھتے ہیں، ہر شے فانی ہے تو ان چیزوں کو بھی فانی سمجھنا چاہئے، جن کے سنبھال کر رکھنے سے کسی کی زندگی میں آگ لگ جانے کا اندیشہ ہو۔ ایسے خطوط اور نشانیوں کو بلاشبہ تلف کردینا بہتر ہے۔ (ایس۔ ایم ۔ کراچی)