Sunday, October 6, 2024

Khawab Chikna Choor Huye | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میرے والد صاحب اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور تعلیم کی اہمیت سے خوب واقف تھے۔ بدقسمتی سے ہم دیہات میں رہتے تھے مجھے تعلیم کا بےحد شوق تھا۔ ہماری پھپھو لاہور جیسے پررونق شہر میں سکونت پذیر تھیں- تین سال میں دو بار ہمارے گھر کچھ دنوں کو ضرور آتی تھیں جب ان کے بچوں کو چھٹیاں ہوتیں۔ یہ وقت ہم اکٹھے گزارتے اور بہت مزہ آتا تھا۔ ہمارے پاس سال بھر کی باتیں جمع ہوتی تھیں لہذا خوب باتیں کرتے ۔ وہ سب مجھ سے گاؤں کی باتیں پوچھتے مختلف رشتہ داروں کے حالات معلوم کرتے اور میں ان سے شہر کے بارے میں سوالات کرتی کیونکہ مجھے شہر کی زندگی بہت پرکشش لگتی تھی اور وہاں کی رونق میرے دل کو بھاتی تھی۔ میں اکثر پھوپھو سے بھی شہر کی باتیں پوچھا کرتی اور وہ بڑے پیارے مجھے جواب دیا کرتی تھیں۔ میں حیرت سے ان کی باتیں سنتی کہ شہر گویا مجھے ایک جہان حیرت لگتا، میں سوچتی کہ کاش میں بھی کسی بڑے شہر میں رہ سکتی۔ پھوپھو مجھے پیار کرتی تھیں۔ وہ مجھے اپنی بہو بنانا چاہتی تھیں لیکن ان کا بیٹا فرحان جو انجینئرنگ کا طالب علم تھا، ہمیشہ کہتا اماں مجھے تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کرنی ہے جبکہ میں مڈل سے آگے نہ پڑھ سکی۔ پھوپھو جانتی تھیں کہ فرحان مجھے ناپسند نہیں کرتا لیکن جانتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں مڈل سے آگے اسکول نہیں ہے لہذا میں اس کی خواہش کے مطابق زیادہ تعلیم حاصل نہیں کر پاؤں گی ۔ انہوں نے اس مسئلہ کا یہ حل نکالا کہ ابو سے منوالیا کہ مڈل پاس کر لینے کے بعد خولہ کو میرے پاس لاہور بھیج دیں تا کہ وہ مجھے آگے پڑھا سکیں۔ جب میں نے آٹھویں جماعت پاس کر لی اور نمبر بھی اچھے آگئے پھوپھو مجھے اپنے گھر لاہور لے گئیں۔ میں بہت خوش تھی۔ شہر میں رہنے کی میری دلی مراد بر آئی تھی۔ ایک تو فرحان کو پسند کرتی تھی پھر لاہور جیسے شہر میں پڑھائی کا موقع ملا تھا جو کسی سنہری موقع سے کم نہیں تھا۔ پھوپھو نے مجھے ایک اچھے گرلز ہائی اسکول میں داخلہ دلوادیا اور میں شوق ولگن سے پڑھنے لگی ۔ جن دنوں میٹرک کے امتحان تھے میری ملاقات نادر سے ہوئی۔

پھوپھو کے پڑوس میں اصغر صاحب رہتے تھے، نادران کا بھتیجا تھا اور وہ بھی رحیم یارخان کے ایک گاؤں سے پڑھنے لاہور آیا تھا۔ اس کے چاچا یہاں پر ایک سرکاری محکمے میں ملازمت کرتے تھے۔ جب میں اسکول جاتی اور بھی اپنے کالج جاتا تھا۔ ہم دونوں کے تعلیمی ادارے گھر سے بہت زیادہ دورنہ تھے۔ نادر کبھی اپنی موٹر بائیک پراور کبھی پیدل جاتا۔ مجھے اکثر پھوپھا اسکول پہنچا دیا کرتے تھے۔ پھوپھا کا تبادلہ لاہور سے شیخوپورہ ہو گیا تو میں پیدل ہی اسکول جانے لگی۔ اب وہ مجھے روز اسکول پہنچانے نہیں جاسکتے تھے۔ ہمت کر کے اکیلی جانے لگی کیونکہ ایک سال گزر جانے کے بعد رستہ میرے لئے اجنبی نہ رہا تھا۔ روز رستے میں اپنے کالج جاتے ہوئے نادر دکھائی دے جاتا۔ وہ اجنبی نہ رہا میں جان چکی تھی کہ ہمارے پڑوس میں رہتا ہے۔ اس کی چچی سے پھوپھو کی اچھی سلام دعا تھی۔ اکثر یہ ایک دوسرے کے گھر آتی جاتی تھی ۔ لہذا نادر سے مجھے کوئی اجنبیت محسوس نہ ہوتی ۔ وہ بھی میری طرح تعلیم کا رسیا تھا۔ میری طرح گاؤں کا رہنے والا ، مگر حصول علم کی خاطر اپنے گھر سے دور رشتہ داروں کے گھر رہنے پر مجبور تھا- میرے اور اس کے مسائل تقریبا ایک جیسے تھے۔ ایک روز جبکہ میرا پیپر تھا اور پھوپھا گھر پر موجود نہ تھے پیدل اسکول جانے کو نکلی۔ اس دن بادل گھرے ہوئے تھے۔ ابھی آدھا رستہ طے کیا ہوگا کہ زور شور سے بادل گرجنے لگے۔ بجلی کوندنے لگی اور پھر آنا فانا موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ لاہور کا موسم ہی ایسا ہے۔ کبھی شدید حبس اور گرم پھر یکایک تیز بارش بھی ہو جاتی ہے۔ میں سر سے پاؤں تک بھیگ گئی اور ایک قدم چلنا دشوار ہو گیا۔ بارش چھاجوں برس رہی تھی۔ اب نہ میں آگے جا سکتی تھی اور نہ پیچھے کو پلٹ سکتی تھی۔ سالانہ پیپر تھا لہذا پرچہ دینا بھی ضروری تھا۔ گھبرائی ہوئی ادھر ادھر دیکھتی فٹ پاتھ پر چلتی رہی۔ جب پانی ٹخنوں کو چھونے لگا تو ایک جگہ دیوار کے سائے میں رک گئی۔ اتنے میں ایک موٹر سائیکل آکر میرے سامنے رکی، یہ نادر تھا۔ اس نے کہا۔ آجاؤ میں تم کو اسکول چھوڑ دیتا ہوں ۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ، اس وقت ایسی کسمپرسی کی حالت میں تھی کہ شاید کوئی اجنبی بھی یہ پیشکش کرتا تو قبول کر لیتی۔ یہ تو پھرنادر تھا جس کو میں ایک سال سے جانتی تھی۔ وہ ایک شریف اور بااعتبار پڑوسی تھا۔ میں اس کی موٹرسائیکل پر بیٹھ گئی اور کہا شکریہ۔ نادرا گر تم نہ آتے تو جانے میرا کیا حال ہوتا۔ اس نے سوال کیا۔ اب گھر واپس جانا ہے یا اسکول جانا ہے۔ اسکول جاتا ہے کیونکہ آج ہمار ا سالانہ پرچہ ہے۔ ممکن ہے کہ پرچہ ملتوی ہو گیا ہو؟ اگر ملتوی بھی ہو گیا ہو پھر بھی معلوم کرنا ضروری ہے- ایسا نہ ہو کہ میں پیپر دینے سے رہ جاؤں۔ میں نے جواب دیا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ تم اسکول کے اندر جا کر معلوم کر لینا۔ پیپرہورہا ہوتو بیٹھ جانا۔ میں باہر انتظار کرلوں گا۔ کیا خبر اور کتنی بارش ہو پھر تم واپس گھر کیسے جاؤ گی۔ اس نے کہا۔ ہاں ٹھیک ہے نادر کیونکہ پھوپھا تو ملتان گئے ہیں اور فرحان گھر ہوتا ہی نہیں ہے وہ پڑھائی کے سلسلے میں اسلام آباد میں رہتا ہے۔ گھر پر صرف پھوپھو ہوتی ہیں جو اس موسم میں مجھے لینے نہیں آسکتیں۔

وہ بھی یقینا ہمارے گھر آکر ابو سے یہی کہیں گی کہ گل بدن کو اسکول سے لانا ہے، پڑوس میں وہ سب سے زیادہ اعتماد ہمارے گھرانے پر ہی کرتی ہیں اور ہمارے گھر سے ان کے پرانے تعلقات ہیں۔ اس نے جواب دیا۔ سو بہتر ہے میں تم کو واپس گھر بھی پہنچا دوں۔ نادر نے ایک اچھا پڑوسی ہونے کے ناتے اپنی ذمہ داری کو خود ہی محسوس کر لیا۔ اسکول کے گیٹ کے پاس اتر کر میں نے اسے کہا۔ نادر بھائی۔ ایسا کرو کہ چند منٹ ٹھہر جاؤ، میں پتہ کرلوں اگر پر چہ ملتوی نہیں ہوا تو پھر ابھی آکر بتا جاتی ہوں ورنہ واپس گھر تو جاتا ہے۔ دوسری صورت میں بھی میں نے ہی تم کو گھر پہنچانا ہو گا وہ بولا ۔ جاؤ سکون سے معلوم کرو اور یہ بتاتی جاؤ کہ پرچہ کب ختم ہوگا کیونکہ اگر تم واپس نہیں آئیں تو میں سمجھ جاؤں گا تمہارا پرچہ ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں، میں یہیں تمہارا انتظار کروں گا۔ بارہ بجے میں نے جواب دیا۔ امتحان ہال میں پہنچی تو کافی طالبات آئی ہوئی تھیں اور پرچہ ملتوی نہیں ہوا تھا۔ ممتحن نے کہا۔ پرچہ وقت پر شروع ہوگا البتہ کچھ طالبات بارش کے باعث لیٹ ہوگئی ہیں لیکن وہ اگر لیٹ بھی آئیں تو امتحان میں شریک کر لیں گے ۔ اس وقت انہوں نے پیرز بانٹنے شروع کر دیئے اور میں دوبارہ گیٹ پر جا کرنا در کو یہ نہ بتا سکی کہ پر چہ ملتوی نہیں ہوا ہے۔ سوچا اگر وہ چاہے گا تو یہیں رک جائے گا ورنہ چلا جائے گا۔ بارہ بجے کا تو بتا چکی تھی۔ اس لئے دوبارہ لینے آجائے گا۔ میں نے بھیگے ہوئے کپڑوں کے ساتھ پر چہ دیا اور سکون سے سوالات حل کر لئے ۔ پیر ختم ہوا ہال سے نکل کر گیٹ پر آگئی اس وقت تک بارش تھم چکی تھی۔ گیٹ سے باہر نکلی اور نادر کواپنا منتظر پایا۔ خوشی ہوئی اور ایک گونہ سکون کا بھی احساس ہوا بلکہ تحفظ محسوس ہوا کہ کوئی تو اس وقت اپنوں جیسا ہے ورنہ سڑکوں پر ندی نالے کا سا عالم تھا۔ کیسے گھر پہنچتی ایسے میں کسی سواری کا ملنا محال تھا۔ بتاتی چلوں کہ ان دنوں سیل فون کا رواج نہ تھا۔ کسی کے پاس موبائل فون نہیں ہوتے تھے۔ بہرحال میں نادر کے موٹر بائیک پر بیٹھ گئی۔ تھوڑا سا آگے تک چلے تھے کہ پانی کا ریلا سٹرک پر بہتا نظر آیا۔ نادر نے کہا۔ دوسرے راستے سے جانا ہو گا رستہ تو لمبا ہے مگر سڑک صاف ہوگی اونچی اور نئی سڑک ہے مگر گڑھے وغیرہ بھی نہیں ہیں اسی راستے سے چلتے ہیں۔ اس نے موٹر بائیک موڑ لی اور پچھلی سڑک پر اپنی بائیک کو لے آیا۔ واقعی سڑک اچھی اور قدرے اونچی تھی۔ اس کے اطراف تو پانی جمع تھا مگر مین روڈ پر پانی نہیں تھا۔ یہ بائی پاس روڈ تھا جو نیا بنا ہوا تھا۔ ہم اسی روڈ پر جارہے تھے کہ اچانک نادر نے موٹر بائیک کو روک لیا۔ کہنے لگا۔ لگتا ہے پیٹرول ختم ہونے والا ہے۔ ایسا کرو کہ تم وہ سامنے پارک ہے وہاں بینچ پر بیٹھ کر میرا انتظار کرو۔ میں نزدیکی پیٹرول پمپ سے پیٹرول ڈال کر بھی آتا ہوں۔ ناچار میں پارک میں پہنچ پر بیٹھ گئی۔ میرے ہاتھ میں دو کتابیں اور ایک رجسٹر تھا جس میں نوٹس لکھے ہوئے تھے۔ مجھے یہاں بیٹھے پندرہ منٹ گزر گئے مگر نادر نہیں آیا۔ تب میں بہت پریشان ہوگئی۔ ایک تو پرس میں اتنے پیسے نہ تھے کہ ٹیکسی لے کر گھر جاتی پھر بائی پاس روڈ کے سامنے میں اس وقت پارک میں بیٹھی تھی جو گھر سے کافی دور تھا۔ ادھر کا رستہ مجھے نہیں آتا تھا۔ ڈرتھا کہ ابھی تو بارش تھمی ہوئی ہے۔ اگر دوبارہ برسنے لگی تو کیا کروں گی۔ خدا جانے نادر کیوں نہیں آیا۔ اسی پریشانی میں بیٹھی تھی کہ نادر آتا دکھائی دیا۔ میری جان میں جان آئی خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ آگیا تھا اگر نہ آتا تو کیا کرتی۔

موٹر بائیک اس نے قریب کھڑی کر دی اور میرے پاس بینچ پر بیٹھ گیا۔ بولا دومنٹ سانس لے لوں تو چلتے ہیں۔ پھر اس نے جیب سے گرم گرم مونگ پھلیوں کا پیکٹ نکالا اور بولا ۔ ایک پٹھان ریڑھی والا پیٹرول پمپ کے پاس مونگ پھلیاں بیچ رہا تھا جی چاہا کہ موسم کا لطف ان گرما گرم مونگ پھلیوں کو کھا کر اٹھاؤں تم بھی کھاؤ۔ اس نے پیکٹ میرے سامنے کر دیا۔ میں نے مٹھی بھر کر مونگ پھلی لے لی اور کھانے لگی۔ بھوک لگئی تھی۔ اتنی دیر میں ایک لڑکا ہمارے پاس آیا۔ اس نے سامنے کی طرف اشارہ کیا کہ ادھر سے آیا ہوں۔ چائے پیئیں گے صاحب۔ گرما گرم ہے۔ مجھے اور نادر کو کچھ سردی محسوس ہو رہی تھی ۔ ہمارے کپڑے ابھی تک بھیگے ہوئے تھے۔ نادر نے کہا۔ ہاں لے آؤ مگر جلدی سے۔ ابھی لایا صاحب ۔ اس نے پارک کے کونے میں بنی ٹک شاپ کی جانب دوڑ لگا دی۔ واقعی وہ چند منٹوں میں چائے کے دوگرما گرم چھوٹے سے ڈسپوزایبل گلاس لے آیا اور رقم لے کر چلتا بنا۔ ہم گھونٹ گھونٹ چائے پی رہے تھے اور ساتھ ساتھ مونگ پھلی بھی کھاتے جاتے تھے۔ موسم بہت خوشگوار ہو چکا تھا پودے پھول سب تر و تازہ اور بارش کے پانی سے نہائے ہوئے ہرے بھرے نکھرے عجب بہار دے رہے تھے۔ میرے دل میں نادر کے لئے بھائیوں جیسا احترام تھا اور اس کی نیت میں بھی کچھ میل نہ تھا۔ گھر سے کافی دور ایک ویران جگہ پر آبیٹھے تھے۔ یہاں آکر بیٹھنے کی ہماری کوئی پہلے سے پلاننگ نہ تھی بس اتفاق تھا اور ہم بے خوف تھے۔ سڑک کے دونوں طرف درختوں کے خوبصورت جھنڈ تھے۔ زمین پر سبزہ بچھا ہوا تھا یہ بڑا خوبصورت منظر تھا اور ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر تھے۔ چار سو موسم کا عجب نشہ پھیلا ہوا تھا۔ ہوش تو اس وقت آیا جب ایک پولیس والے نے ہماری پشت کی جانب سے ڈنڈا لوہے کی بینچ پر بجایا۔ ہم نے سر گھما کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ غضب ناک نگاہوں سے ہم کو گھور رہا تھا۔ تم لوگ کون ہو اور یہاں کس لئے بیٹے ہو؟ ہم کیا جواب دیتے ؟ گھبرا کر بینچ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بتاؤ کون ہو تم اور اتنی بارش میں اس سنسان پارک میں کیا کرنے آئے تھے۔ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ میرا سالانہ پرچہ تھا اسی سے آگے کچھ نہ بول سکی۔ اسی لئے یہاں موسم کا لطف لے رہی ہو۔ یہاں پر بیٹھ کر سالانہ پر چہ دے رہی ہو؟ چلو تھانے اور بھئی مسٹر تم کون ہو اس کے؟ یہ میری بہن ہے۔ بے اختیار نادر کے منہ سے نکلا۔ اچھا بہن ہے۔ تو بہن کے ساتھ اس موسم میں یہاں مونگ پھلیاں کھانے آئے ہو۔ اس نے سیٹی بجائی۔ فورا ہی اس کے دو تین بھائی بند جو کہیں نزدیک ہی تھے ہمارے سروں پر آپہنچے۔ انہوں نے ہم کو گھیر لیا۔ نادر نے کچھ کہنا چاہا تو بھی انہوں نے ہماری کوئی بات نہ سنی ۔ ہمیں دھکیلتے ہوئے پارک سے سڑک پر لے آئے اور پولیس وین میں بٹھا دیا۔ نادر سے اس کی موٹر بائیک کی چابی بھی چھین لی۔ یاخدا یہ کیا ہو گیا، کس جرم کی سزا مل رہی ہے۔ ہم نے تو کوئی گناہ نہ کیا تھا۔ سیر کرنے کو بھی گھر سے نہیں نکلے تھے بس بارش کی ناگہانی آمد کی وجہ سے ایسا اتفاق ہو گیا ۔ نادانی میں پارک میں بیٹھ گئے اور یہی ہمارا جرم تھا۔

تھانے میں موجود تھانے دار نے طرح طرح کے سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور تفتیش شروع ہوگئی ۔ ظاہر ہے ہم بہن بھائی نہ تھے، پڑوسی تھے۔ مزید جھوٹ بول کر خود کو زیادہ مصیبت میں پھنسانا تھا۔ سب کچھ سچ سچ من وعن بیان کر دیا ۔ تھانے دار نے اتنی مہربانی کی کہ میرے پھوپھا اور نادر کے چچا کو ہم سے نمبر لے کر فون کر دیا۔ نادر کے چچا گھر پر تھے ان کے پاس کار تھی وہ پہلے پہنچ گئے جبکہ پھوپھا دو گھنٹے بعد آئے۔ اس دوران چچا نے کافی تھانے دار کی منت سماجت کی کیونکہ وہ جانتے تھے میں اچھی لڑکی ہوں اور واقعی سالانہ پرچہ کے لئے گھر سے نکلی تھی۔ نادر کے پاس اپنے کالج کی کتابیں تھیں اور وہ بھی کالج جانے کو ہی گھر سے نکلا تھا۔ سب کچھ صاف عیاں تھا لیکن جن کا دن رات مجرموں سے سابقہ رہتا ہو۔ ان کے ذہن میں طرح طرح کی کہانیاں جنم لینے لگتی ہیں ۔ ہم یہ ثابت کیسے کرتے کہ ہم دونوں میں پہلے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور محض موسم کی خرابی کے سبب یہ واقعہ اتفاقا رونما ہوا ہے۔ پولیس انسپکٹر نے تو نادر کے چچا اور میرے پھوپھا کو بھی غلط خدشات سے روشناس کرا کہ ان کے دلوں میں شک وشبہ کا بیج بو دیا کہ بھئی آپ بزرگ کیا جانیں آج کل کی نسل اور ان کی چالاکیوں کو آپ نہیں سمجھ سکتے یہ بزرگوں کو بے وقوف بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ اس معاملے کو قطعی ہلکا پھلکا نہ لیں۔ یہ امکان قوی موجود ہے کہ ان دونوں میں دوستانہ مراسم ہوں جن کی اجازت شرفا اپنے بچوں کو ہر گز نہیں دیا کرتے۔ چچا اور پھوپھا انسپکڑ کی باتوں سے نادم تھے اور ان کے ذہنوں میں ہمارے لئے منفی سوچیں جنم لے رہی تھیں۔ تاہم گھرانے اور خاندان کی عزت کا سوال تھا۔ تھانے دار کی معقول مٹھی گرم کی اور معاملہ رفع دفع کر کے ہم کو گھر لے آئے۔ اب ہم ایسے شرمندہ و نادم کہ جیسے سچ مچ ہم نے جان بوجھ کر پلانگ سے سیرسپاٹے کا پروگرام بنایا ہو اور موسم کا لطف اٹھانے کے لئے بارش کو بہانہ بنا کر بائی پاس روڈ پر پارک میں تنہائی سے لطف لینے کو جا بیٹھے تھے۔ اس ایک گمان سے ان کے دلوں میں ہزاروں شکوک ابھرنے لگے کہ نجانے کب سے یہ سلسلے چل رہے تھے۔ ہم اپنی کیا صفائی دے سکتے تھے۔ نادر نے گردن جھکا رکھی تھی اور میری آنکھیں بس نیر بہاتی رہ گئی تھیں۔ میٹرک کے پرچے ہو چکے تھے۔ پھوپھونے مجھے یہ کہ کر واپس گاؤں بھجوا دیا کہ بیٹی اب تم کو مزید پڑھانا میرے بس میں نہیں رہا۔ تمہارے پھوپھا نے صاف کہہ دیا ہے کہ میں کسی کی جوان بیٹی کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ یوں اک ذرا سی غلطی سے میرا مستقبل تاریک اور تعلیم کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجھ پر بند ہو گئے ۔ جس کا آج تک دکھ ہے۔ فرحان کو پسند کرتی تھی اس کی نہ ہو سکی اور گاؤں کے ایک دور کے رشتے دار کے مڈل پاس بیٹے سے بیاہ دی گئی۔

Latest Posts

Related POSTS