آنکھ کھولتے ہی گھر میں غربت دیکھی۔ ابھی پانچ سال کی تھی کہ والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ رشتے داروں نے منہ پھیرا۔ اپنے بیگانے بن گئے ۔ والدین کی اکلوتی اولاد تھی مگر ہوش سنبھالتے ہی مفلسی کے احساس نے مجھ کو کملا دیا۔ وقت سے پہلے بڑی لگنے لگی۔ سنجیدہ سوچوں نے بچپن کا لاابالی پن چھین لیا تھا۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ جمع پونجی ان کی بیماری پر خرچ ہو گئی تھی۔ امی نے مجھ ننھی سی جان کو پالنا تھا۔ وہ لوگوں کے کپڑے سی کر میری پرورش کرنے لگیں۔ والد صاحب ورثے میں صرف ایک مکان چھوڑ گئے تھے۔ جس میں ہم لوگ رہتے تھے۔ امی جان نے سخت محنت کی اور مجھ کو پروان چڑھایا۔ بی اے تک تعلیم دلوائی اور ہر ممکن خواہش پوری کی۔ جب میں نے بی اے پاس کر لیا تو امی جان سے کہا کہ اب آپ لوگوں کے کپڑے نہ سیا کریں ، میں سروس کروں گی، آپ اب آرام کریں۔ بیٹی میں نے تم کو تعلیم اس لئے نہیں دلوائی کہ تم نوکری کرو۔ میں چاہتی تھی کہ تم تعلیم یافتہ ہو جائو تا کہ تمہارے اچھے رشتے آئیں۔ میری اب ایک ہی خواہش ہے کہ تمہارے ہاتھ پیلے کر دوں۔ میں نے تیرے جہیز کے لئے کچھ رقم اکٹھی کر رکھی ہے۔ ایک مسہری دو چار برتن اور چند جوڑے کپڑے تو دے ہی سکتی ہوں۔ ماں کی بات سن کر دل ہی دل میں سمٹ کر رہ جاتی کہ میری بھولی امی کو یہ اندازہ نہیں ہے آج کل کس قدر مہنگائی ہے۔ جو رقم انہوں نے اکٹھی کر رکھی تھی، اس میں تو شادی کا ایک بنارسی جوڑا بھی مشکل سے خریدا جا سکتا تھا۔ ایک دن میری خالہ اپنے بیٹے احسن کا رشتہ لائیں۔ اماں نے ان کا منشا سنتے ہی صاف انکار کر دیا بلکہ ان کو بے بھائو کی سنا دیں کہ تمہارے پاس ہے کیا ؟ کرائے کے مکان میں رہتی ہو اور ابھی احسن کی نوکری بھی نہیں ملی۔ پھر تم کس منہ سے میری بیٹی کا رشتہ مانگنے آگئی ہو۔ خالہ بیچاری منہ بسورتی چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد میں نے امی جان سے کہا۔ ماں، آپ کی وہ سگی بہن ہیں۔ آپ نے ان کو یوں دھتکارا جیسے غربت کوڑھ کا مرض ہو۔ احسن بہت شریف اور اچھا لڑکا ہے، بس غربت ہے مگر یہ بھی تو سوچئے کہ جہیز کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور لوگ تو جہیز مانگتے ہیں۔ نہ مانگے جہیز مگر میں ان کو تمہارے قابل نہیں بجھتی۔ بیٹی یہ تیرے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں۔ میں تیری ماں ہوں ، تیرے لئے بہتر سوچ سکتی ہوں۔ تیری شادی کسی اونچے گھرانے میں کروں گی۔ تو فکر نہ کر جا میرے لئے چائے بنا کر لا، میرے سر میں درد ہے۔ امی نے بات ٹالی تو میں ان کے لئے چائے بنانے چلی گئی۔ بات یہ تھی کہ مجھے اپنے خالہ زاد سے لگا کو تھا، وہ بھی مجھ کو چاہتا تھا۔ ہمارے گھر آتا جاتا تھا اور ہم باتیں کیا کرتے تھے۔ امی بھی اپنے بھانجے کو چاہتی تھیں کیونکہ وہ ان کے سارے باہر کے کام کر دیتا تھا مگر رشتے کے معاملے میں کافی متعصب تھیں۔ دراصل وہ چاہتی تھیں، زندگی کی جو آسائشیں ان کو نہیں ملیں، وہ مجھ کو مل جائیں۔ والدین اگر خود کسی چیز کو ترسیں تو ان کی عمر بھر یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کو ان جیسی محرومیاں نہ سہنی پڑیں۔ لہذا امی ہر وقت ایک جملہ کہتی تھیں۔ میں تو اپنی کنول کو ایسے گھر دوں گی، جہاں اس کو کسی شے کے لئے ترسنا نہ پڑے، زندگی کی ہر آسائش ملے۔ ایک دن امی پڑوس میں عیادت کو گئی ہوئی تھیں کہ احسن آگیا۔ میری امی آئی تھیں۔ ان کو خالہ جان نے انکار کر دیا شاید وہ تم کو اونچے گھرانے میں بیاہنا چاہتی ہیں۔ ہاں احسن کچھ ایسی ہی بات ہے۔ میں نے دکھ سے کہا۔ کاش، میرے پاس بھی دولت کے انبار ہوتے تو تم کسی اور کے گھر کی رونق نہ بنتیں۔ کاش، میں خالہ جان کے خواب پورے کر سکتا۔ وہ جذباتی سا ہونے لگا۔ احسن تم دل چھوٹا نہ کرو دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتی ، میں مقدر پر یقین رکھتی ہوں، امی کے کہنے سے کیا ہوتا ہے ، جو میری قسمت میں ہو گا وہ مجھے مل جائے گا۔ یہ سن کر میرے خالہ زاد کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہ افسردگی سے کہنے لگا۔ کنول دعا کرو کہ قسمت ہم پر مہربان ہو جائے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی والدہ گھر میں داخل ہوئیں۔ میں کچن میں چائے بنارہی تھی۔ امی نے خوش ہو کر کہا۔ کنول، خالہ زینب ملی تھیں۔ تمہارے لئے بڑا اچھار شتہ بتایا ہے۔ لڑکا دبئی میں ہوتا ہے اور وہ لوگ شام کو تم کو دیکھنے آرہے ہیں۔ تم ذرا نہا دھو کر بال سنوار لینا اور اچھے کپڑے پہن کر سامنے آن اتا کہ اچھی لگو۔ اگر چاند سی ہوں تو پھر سجنے سنورنے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے ہی ہر حال میں اچھی لگوں گی۔ دل میں کہا مگر ماں کے سامنے زبان کھولنے کی جرات نہ ہوئی۔ امی خود گھر کی صفائی ستھرائی میں جت گئیں پھر پکوان بنانے لگیں کہ مہمانوں کے آنے سے قبل ہر شے تیار ہو۔ تھوڑی دیر بعد ہی مہمان آگئے۔ امی کی باچھیں کھل گئیں۔ بڑی خوش دلی سے خاطر تواضع کی اور گپ شپ کرنے لگیں۔ پھر مجھے اشارہ کیا سامنے آ جائو۔ میں نے امی کی ہدایت کے مطابق خود کو تیار کیا تھا، ان کی پسند کا گلابی رنگ کا جوڑا پہن لیا تھا۔ یوں بھی اچھی صورت پائی تھی، خود کو ائینے میں دیکھا۔ اچھی لگ رہی تھی مگر آنکھیں اداس تھیں کہ دل کی حالت کا پر تو آنکھوں میں جھلک رہا تھا۔ عورتوں نے گہری نظروں سے جائزہ لیا۔ والدہ کے حکم پر میں نے تینوں خواتین کو چائے بنا کر دی۔ اس دوران ان کی نگاہیں میرے چہرے پر مرکوزر ہیں۔ پھر انہوں نے کہا آپ کی بیٹی ہم کو بہت پسند آئی ہے۔ امی ہر صورت یہاں رشتہ کرنا چاہتی تھیں مگر جب لڑکے والے بات پکی کرنے آئے تو انہوں نے جہیز کی لسٹ پکڑا دی، جس میں رنگین ٹی وی، وی سی آر ، فریج اور دیگر بہت سی قیمتی اشیاء شامل تھیں۔ جہیز میں ان چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ ہم نے برداری میں عزت بھی رکھنی ہے، بغیر جہیز خو بصورت بہو کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ؟ یہ سن کر امی جان سکتے میں آگئیں۔ وہ روہانسی ہو کر بولیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ کنول کا باپ اور بھائی نہیں ہیں۔ سر پر ماموں چا کا بھی ہاتھ نہیں کہ وہ یہ مطالبات پورے کر دیں۔ میں بیوہ عورت اتنا جہیز کیسے دے سکتی ہوں۔ میری بیٹی خوبصورت اور تعلیم یافتہ تو ہے۔ لڑکے کی ماں کی تیوری پر بل پڑ گئے۔ بولیں، اگر آپ کو ہماری شرائط منظور نہیں ہیں تو ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں، ہمارے بیٹے کو لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں ہے یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا پرس اٹھایا اور خدا حافظ کہہ کر چلی گئیں۔ امی بس بت بنی ان کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔ کچھ دن سوگواری رہی۔ پھر خالہ زینب ایک روز آئیں۔ اس بار وہ ایک اچھا رشتہ لائی تھیں۔ امی خوش ہو گئیں چہک کر مجھ سے کہا۔ دیکھا بیٹی ، میں نہ کہتی تھی کہ اس دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں، خدا کے گھر دیر ہے مگر اند خیر نہیں۔ اس بار لڑکا اور اس کے گھر والے مجھ کو دیکھنے نہیں آئے بلکہ انہوں نے امی کو بلا لیا کہ آپ ہمارے گھر آکر لڑکا دیکھ جائے۔ وہ لڑکا کیا تھا پچاس سال کا بوڑھا تھا اور رنڈوا بھی تھا۔ امی نے اس کی صورت دیکھ کر ہی انکار کر دیا۔ اب پھر رشتوں کی تلاش ہوئی۔ غرض کچھ اور بھی رشتے دیکھے مگر سبھی آئے اور چلے گئے۔ تب کہیں جا کر امی جان کو سمجھ میں یہ بات آگئی کہ جہیز کے بغیر بیٹی کی شادی اچھے گھر میں ناممکن ہے۔ ایک دن بہت سوچ کے بعد گویا ہوئیں۔ بیٹی کنول .. اگر تم ملازمت کرنا چاہتی ہو تو کر لو، میری طرف سے اجازت ہے۔ میں نے اگلے دن سے بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ اپنی سہیلیوں اور ہم جماعتوں سے کہا، ان کے بھائی جہاں سروس کرتے تھے ، ان کے ذریعے درخواستیں جمع کرائیں۔ آخر معقول تنخواہ پر ایک دفتر میں ملازمت مل گئی۔ ماں میری تنخواہ کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتی تھی اور ہر تین ماہ بعد میرے جہیز کی کوئی نہ کوئی شے خرید لیتی تھی۔ مگر اتنی مہنگائی میں بھلا تین ہزار کی رقم کیا معنی رکھتی ہے۔ نوکری چلتی رہی اور یوں پورے سات برس بیت گئے۔ اب میرا جہیز مکمل تھا۔ ٹی وی، وی سی آر ، فریج، صوفے ، پر دے، ڈنرسیٹ ، واٹر سیٹ ، چکن کا تمام سامان، استری، غرض ہر شے ضرورت کی ماں نے خرید لی تھی۔ اب میں پورے تیس برس کی ہو چکی تھی۔ مسلسل نوکری کی تھکن سے میر ارنگ روپ اجڑ گیا تھا اور ایک مرجھائے ہوئے پھول کی طرح میں پینتیس سے کم کی نہیں لگتی تھی۔ خالہ زینب تو رشتے دکھاتے دکھاتے تھک چکی تھیں اور بیمار پڑی تھیں۔ ماں نے ایک دو اور رشتے والیوں سے بات کی۔ تبھی ایک بہت اچھار شتہ آگیا۔ لڑکا بینک منیجر تھا۔ ماں نے سب سے پہلے انہیں جہیز دکھایا۔ وہ راضی ہو گئے اب مجھے دیکھنا باقی تھا۔ جب انہوں نے مجھے دیکھا تو وہ عورتیں بجھ کر رہ گئیں۔ فورا جانے کو ہوئیں اور چلتے سے اتنا کہا کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہے۔ یہ بات سن کر مجھ کو ہنسی آگئی کہ جب عمر کم تھی تو جہیز نہیں تھا اور اب جہیز ہے تو عمر زیادہ ہے۔ عور تیں گئیں تو اماں رونے بیٹھ گئیں مگر میں روئی نہیں۔ سمجھانے لگی کہ ماں ان کی بات غلط نہیں تھی۔ آپ کیوں رو رہی ہیں۔ واقعی میری عمر زیادہ ہے۔ ابھی ماں کے آنسو خشک ہوئے تھے کہ خالہ زینب آگئیں۔ بیچاری بیماری کے باوجود کسی طرح آگئی تھیں کہ ایک اچھا رشتہ تھا۔ وہ لوگ بھی ساتھ آئے تھے۔ امی نے ان کو اندر بٹھایا اور مجھ کر چائے لانے کو کہا، جانے مجھ کو یک دم کیا ہوا کہ میر اسر گھوم گیا۔ کبھی ماں کے آگے نہ بولی تھی کبھی ان کی حکم عدولی نہیں کی تھی مگر اس بار پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور ان کے سامنے جانے سے صاف انکار کر دیا۔ میں نے امی جان کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ماں، میں شوکیس میں رکھا ہوا کھلونا نہیں ہوں کہ جب چاہا پسند کیا اور جب پرانا ہوا تو گلی میں پھینک دیا۔ میں ہر گزان ہوس پرست لوگوں کے سامنے نہ جائوں گی۔ یہ سارے لوگ ایک جیسے ہی ہیں۔ ماں نے نہایت بیچارگی سے مجھ کو دیکھ کر کہا۔ بیٹی آخری مرتبہ میری عزت رکھ لے، پھر کبھی کسی کے سامنے نہ جانا۔ یہاں میں پر امید ہوں، اب کی انکار نہ ہو گا۔ تبھی میں نے زہر خند لہجے میں کہا۔ ماں آپ تو آج سے سات برس پہلے بھی پر امید تھیں۔ خیر امی کی حالت غیر دیکھ کر میں نے اپنے حواس قابو میں کئے۔ بال سنوارے اور ان کے سامنے چائے کی ٹرے لے کر چلی گئی۔ تبھی لڑکے کی بہن نے لب کھولے۔ امی لڑکی تو پیاری ہے ۔ ہاں مگر عمر ذرا زیادہ ہے۔ اس کی ماں نے جواب دیا۔ یہ ہمارے منور سے بڑی ہو گی۔ یہ سننا تھا کہ میرے کان جھنجھنا اٹھے۔ مجھ پر جنونی کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ تو چلی گئیں مگر میر ا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ اپنے جہیز کی ایک ایک شے اٹھا اٹھا کر پھینکنی شروع کر دی۔ ساتھ ساتھ روتی چلاتی کہہ رہی تھی۔ یہ لو لوگو… خالی ہاتھ نہ جائو ، یہ سب کچھ بھی اپنے ساتھ لیتے جائو۔ میری عمر زیادہ ہے تو کیا ہوا۔ تم نے کب مجھ سے شادی کرنی ہے۔ تم نے تو میرے جہیز سے شادی کرنی ہے۔ تم ہی لوگوں کے مطالبے پر تو میں نے اپنی زندگی کے سات خوبصورت خوابوں بھرے قیمتی سال ضائع کئے۔ اب میری عمر زیادہ ہے تو کیا ہوا، میرا جہیز بھی تو زیادہ ہے ، تو اب میرے جہیز سے کرو شادی۔ میں اسی طرح ہذیان بک رہی تھی۔ رورہی تھی کہ خدا کی قدرت خالہ اور احسن آگئے۔ مجھ کو جو پاگلوں کی طرح روتے بلکتے دیکھا، حیرت کی تصویر بن گئے۔ آخر خالہ نے معاملہ سمجھ کر مجھ کو گلے سے لگایا اور بولیں۔ احسن دبئی چلا گیا تھا۔ بہت دولت کما لایا ہے ، اب ہم غریب نہیں رہے۔ اب تم کیوں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہو ؟ خالہ نے امی کو روتے دیکھ کر کہا۔ احسن نے آگے بڑھ کر ماں کو سنبھالا۔ بولا خالہ جان مت رویئے۔ میں آگیا ہوں نا، مجھ کو کام بتائیے۔ حکم کیجئے کیا کرنا ہے۔ میں نے کنول کی شادی کرنی ہے اور اس کا کوئی موزوں رشتہ نہیں مل رہا ہے۔ بیٹے اسی لئے رور ہی ہوں۔ کیا میں آپ کی آرزو پوری نہیں کر سکتا۔ خالہ جان اب تو میں نے روپیہ کمالیا ہے۔ کیا اب بھی آپ مجھ کو کنول کے قابل نہیں سمجھتیں۔ تبھی امی جان نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی اور کہا۔ بیٹے مجھے معاف کر دو میں نے تم پر اور کنول پر بڑا ظلم کیا ہے مگر جوڑے آسمان پر بنتے ہیں شاید کنول کی قسمت میں تم ہی تھے۔ یہ سن کر خالہ کا چہرہ کھل گیا۔ بیٹے سے مخاطب ہوئیں۔ احسن میں نہ کہتی تھی کہ جو قسمت میں لکھا ہو ، وہ ضرور ملتا ہے اور تمہاری قسمت میں کنول کا ساتھ لکھا تھا۔ تب میں سوچ رہی تھی کہ شاید میرا جذ بہ بھی احسن کی طرح سچا تھا کہ اتنی مدت گزر گئی مگر ہم ایک دوسرے کے لئے غیر شادی شدہ ہی رہے اور آج راستے کی تمام دیواریں گر گئی تھیں۔ میری روتی آنکھیں مسکرانے لگیں اور مجھ کو اپنی قسمت پر ناز ہوا۔ اچھا ہی ہوا کسی اور نے مجھ کو پسند نہیں کیا ور نہ میں اور احسن کب مل سکتے تھے۔