Saturday, December 14, 2024

Khawabon Ki Khidki

ہم لوگ شہر سے نزدیک رہتے تھے جہاں سے کھیتوں والا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ یہیں ریحان کا گھر تھا۔ گھر سے آگے باغ اور پھر کھیت تھے۔ پہلے یہاں ریحان نہیں رہتا تھا، نو کر اور کچھ رشتے دار رہتے تھے ، ریحان تو اب کچھ دنوں سے آکر رہنے لگا تھا۔میں نے ریحان کو کبھی نہیں دیکھا تھا، بس اتنا پتا تھا کہ ہمارے گھر کے پاس ملک صاحب کی زمین اور باغ ہیں جس میں ان کا بڑا سا پختہ مکان تھا مگر اس مکان میں وہ کبھی کبھی آتے تھے کیونکہ ملک صاحب گائوں میں رہتے تھے جہاں ان کی دو بیویاں تھیں۔ ریحان انہی ملک صاحب کا پہلوٹی کا بیٹا تھا۔ ریحان کی ماں اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ اس کو سوتیلی ماں نے پالا تھا جس کی کوئی اولاد نہ تھی، البتہ ریحان کی تیسری سوتیلی ماں اس سے جلتی تھی اور اس کے لئے طرح طرح کے مسائل پیدا کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے ریحان گھر سے باہر رہتا تھا۔ پہلے وہ شہر کے ہاسٹلوں میں رہا۔ جب تعلیم مکمل کر لی تو اس کے والدین نے اس کے حصے کی زمین اور جائداد اس کے سپرد کر دی۔ اس طرح ریحان مالی لحاظ سے ایک حد تک خود کفیل ہو گیا۔ریحان کے حصے میں جو زمین ، مکان، باغ اور کھیت آئے، یہ وہی تھے جو ہمارے گھر کے نزدیک تھے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے وہ خود بھی آکر رہنے لگا۔ ریحان اپنے بوڑھے نوکر کے ساتھ اکیلا ہی رہتا تھا لیکن مجھے اس بات کا پتا نہیں تھا نکھ میں نے یہاں اپنے پڑوس میں ریحان کو پہلے بھی دیکھا نہیں تھا، البتہ ملک صاحب کو ضرور دیکھا تھا۔ اس دن میں بھی گھر میں اکیلی تھی، صرف میرا چھوٹا بھائی فہد میرے ساتھ تھا۔ کچن میں کوئی کام کر رہی تھی کہ فہد نجانے کس وقت گھر سے باہر نکل گیا۔وہ گھر سے نکل کر سیدھا پڑوس میں چلا گیا کیونکہ باغ کا پھاٹک اکثر کھلا رہتا تھا۔ فہد پہلے بھی کنو اور مالٹے توڑنے کے شوق میں باغ میں گھس جایا کرتا تھا، اس وقت نوکر وغیرہ ہوتے جو فہد کو پڑوس کا بچہ سمجھ کر کچھ نہیں کہتے تھے لیکن آج نوکر کے بجائے مالک نے اس کو مالٹے کے درخت پر چڑھتے ہوئے پکڑ لیا۔

ہمارا کچن باغ کی دیوار کے ساتھ ہی تھا۔ اچانک مجھے اپنے بھائی کی چیخ سنائی دی۔ برتن جو میں دھو رہی تھی، میرے ہاتھ سے گر گیا۔ میں ننگے پائوں دوڑتی ہوئی اوپر چھت پر گئی۔ جاکر دیکھا کوئی شخص باغ میں میرے بھائی کو پکڑے کھڑا تھا۔ اس آدمی کی پیٹھ میری جانب تھی۔ میں سمجھی کہ ملک صاحب کا کوئی رشتہ دار یا مہمان ہے۔ میں نے چھت پر سے اونچی آواز میں کہا۔ بابا جی ! میرا بھائی ہے، اس کو چھوڑ دو۔ میں سمجھ رہی تھی کہ کوئی بوڑھا ہو گا۔ وہ بغیر میری طرف منہ کئے بولا۔ ذرا نیچے آکر اپنے بھائی کی چوری تو دیکھو، کتنے پھل اس نے اجاڑ ڈالے ہیں۔گھر میں کوئی نہ تھا اس لئے مجھے ہی فہد کو چھڑانے جانا پڑا۔ جب میں باغ کے اندر داخل ہوئی تو دیکھا سامنے ایک اجلا اجلا، خوبصورت نوجوان کھڑا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی فہد کو چھوڑ دیا۔ وہ دوڑ کر میرے پاس آگیا۔ میں اس کو لے کر واپس جانے لگی تو ریحان نے کہا کہ آپ ہمارے گھر پہلی مرتبہ آئی ہیں، ذرا بیٹھئے تو سہی، آیئے کمرے میں آجائیے۔میں فہد کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس کے مکان میں چلی گئی۔ اس کا ڈرائنگ روم بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ اس نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں بہت ڈری بیٹھی تھی۔ وہ بولا کہ آپ ڈر رہی ہیں کیا؟ میں نے کہا۔ جی نہیں، میں ڈر تو نہیں رہی۔ پھر آپ کی آواز کو کیا ہو گیا ہے ؟ تبھی اس کا نو کر آ گیا۔ ریحان نے اس کو کافی لانے کو کہا۔ وہ ٹرالی میں پھل، بسکٹ، مٹھائی اور کافی لے آیا۔میں اپنی اتنی خاطر مدارات دیکھ کر حیران ہو گئی کیونکہ میں سمجھ رہی تھی کہ وہ مجھ پر خفا ہو گا کیونکہ میرے بھائی نے اس کے باغ میں چوری کی تھی اور میں چور کی بہن تھی مگر ایسا نہیں تھا بلکہ میری بڑی عزت افزائی ہو رہی تھی۔ اس نے مجھے کافی بنا کر دی۔ کافی پی لینے کے بعد اس نے کہا۔ آپ جا سکتی ہیں۔ جب میں اس کے کمرے سے اٹھ کر جانے لگی تو میرا پائوں لڑکھڑایا اور میں کرنے لگی تو اس نے مجھے کرنے سے بچا لیا اور بولا۔ آپ کو کیا ہو گیا ہے ، بہت گھبرا رہی ہیں۔

اس رات مجھے نیند نہ آئی۔ میں واقعی گھبراہٹ کا شکار تھی۔ رہ رہ کر دل گھبراتا تھا۔ جی چاہتا تھا ایک بار پھر ریحان نظر آجائے ، اس سے سامنا ہو جائے تو دل کو سکون آئے۔دو چار دن گزرے کے بعد ریحان کا نو کر ایک بڑی سی ٹوکری میں بہت سے پھل لے آیا۔ یہ پھل ریحان نے ہمارے گھر تحفے کے طور پر بھیجے تھا۔ ابا جان کو نو کرنے پھل لا کر دیئے۔ اباجان نے شکریہ ادا کیا۔ اگلے دن وہ ریحان سے ملنے اس کے گھر گئے۔ اس طرح انہوں نے بھی پڑوسی سمجھ کر ریحان کو چائے پر بلا یا پھر ریحان کا ہمارے یہاں آنا جانا ہو گیا۔ ریحان کی اور میری ملاقاتیں مختصر ہوتی تھیں، وہ بھی اس وقت جب امی کہیں جاتیں اور فہد اسکول گیا ہوتا۔ میں چھت سے ریحان کے باغ میں جھانکتی تو وہ برآمدے میں بیٹھا ہوتا یا باغ میں گھوم پھر رہا ہوتا اور مجھے دیکھ لیتا تو اشارے سے کہتا۔ آجائو کافی پیتے ہیں۔ میں جاتی مگر بس پانچ دس منٹ بیٹھ کر آجاتی۔ اس طرح ہم محبت کرنے لگے۔ جلد ہی میرے والدین نے محسوس کر لیا کہ مجھے ریحان کا دھیان رہتا ہے۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتا، میں دوڑ کر اس کے لئے چائے بنانے لگتی۔ میں اپنے جذبات اور خوشی کو چھپانے سے قاصر تھی۔ اس کے پائوں کی چاپ پہچان کر ہی میں کھل اٹھتی تھی۔ امی نے ابو کو صلاح دی کہ ریحان اچھا لڑکا ہے، کیوں نہ ہم اپنی لڑکی کے لئے اس رشتے کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ میرے والدین کو کوئی کوشش نہ کرنی پڑی کیونکہ میں نے ریحان کو بتادیا کہ والدین اس رشتے پر راضی ہو جائیں گے، تم رشتہ مانگو۔ وہ کہنے لگا۔ میں تمہیں پسند کرتا ہوں اور میری آرزو ہے کہ میں تم سے شادی کروں لیکن میرے بزرگ نہ مانیں گے کیونکہ ہمارے یہاں جائداد کی وجہ سے خاندان سے باہر شادیاں نہیں ہو تیں۔ اگر تمہارے والدین اس امر پر راضی ہو جائیں کہ میرے بزرگوں کی شمولیت کے بغیر ہی تمہاری شادی مجھ سے کر دیں تو پھر یہ رشتہ ہو سکتا ہے۔ میں نے کہا۔ تم میرے والدین سے رشتہ مانگ کر تو دیکھو، تم خود مختار ہو، میرے والدین کیوں نہ راضی ہوں گے –

میرے کہنے سے ریحان نے میری امی سے میرا رشتہ مانگ لیا۔ امی نے کہا۔ گلناب کے ابو سے بات کروں گی۔ امی نے ابو سے کہا۔ وہ بغیر بزرگوں کی شمولیت کے میرا رشتہ ریحان سے طے کرنے پر راضی نہ ہوتے تھے لیکن امی جان نے ابو سے بات منوا لی۔ابو نے ریحان کو گھر بلایا اور تمام باتیں طے ہو گئیں۔ ریحان نے ابو کے سامنے یہ وعدہ اور اقرار کیا کہ جب تک میرے والدین اس شادی کو تسلیم نہ کر لیں ، آپ کی لڑکی کو میں گائوں لے کر نہ جائوں گا اور میں زندگی بھر دوسری شادی بھی نہ کروں گا۔ بس یہی دو باتیں ابو نے منوائیں جو ریحان نے بلا تامل مان لیں اور میری شادی ابو نے اپنے دوستوں کو بلا کر ریحان سے کر دی۔ریحان کی طرف سے اس شادی میں اس کے چند ایک دوستوں کے سوا کوئی شامل نہ ہوا۔ ایک طرح سے یہ شادی اس نے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے چھپ کر کی تھی۔ ریحان کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ کچھ عرصے تک تو وہ مجھے ساتھ لے کر مری، ایبٹ آباد اور دوسرے خوبصورت علاقوں کی سیر کراتا رہا، پھر ہم گھر آگئے۔ صبح امی کے گھر میں رہتی تھی کیونکہ گائوں سے اچانک ریحان کے رشتہ دار یا عزیز آ جاتے تھے اور ریحان بھی کچھ دن ان سے اس شادی کو پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا ، البتہ رات کو میں اپنے گھر چلی جاتی تھی۔ ریحان نے مجھ سے کہا کہ میں شہر کے ایک بہترین علاقے میں پلاٹ خرید کر جلد ہی تمہارے لئے ایک علیحدہ کوٹھی بنوائوں گا، پھر ہم سکون سے وہاں رہیں گے۔دوماه بعد شہر کا چکر لگانے جاتا تھا اور مجھے کہہ کر جاتا تھا کہ فلاں دن آجائوں گا اور پھر ریحان واقعی اس دن آجاتا تھا۔ مجھے اس پر پورا بھروسا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ دنیا میں اور سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ریحان کبھی مجھے دھوکا دے۔

ہماری شادی کو صرف ایک سال ہوا تھا کہ ایک دن ایسا آیا کہ ریحان مجھے کہہ کر گیا میں فلاں دن لوٹ آئوں گا اور وہ نہ آیا۔ میں بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔ وہ دن گزرا، اس کے بعد کے کئی دن گزرے، یہاں تک کہ ہفتے ، مہینوں میں تبدیل ہونے لگے اور ریحان نہ لوٹا۔ میں غم سے نڈھال ہو گئی۔ میں خوشحال گھرانے کی اکلوتی لڑکی تھی۔ یہ نہیں کہ مجھے ماں ، باپ کے گھر میں کسی شے کی کمی تھی لیکن ریحان کی محبت اور اس کی جدائی میرے دل میں گھائو ڈال رہی تھی۔ چھ ماہ گزر گئے۔ گرمیوں کے دن گزر چکے ،سردیاں آگئیں لیکن میں نے وہ کھڑ کی بند نہ کی جس میں سے جھانک کر میں ریحان کی راہ دیکھا کرتی تھی۔ ریحان جس راستے سے آتا تھا، یہ کھڑ کی اسی راستے پر کھلتی تھی۔ ہر روز یہی سوچتی کہ آج وہ ضرور آجائے گا کیونکہ آج تک ایسا نہ ہو ا تھا کہ جس دن کا وہ بتا کر گیا ہو ، اس وقت مقررہ پر لوٹ کر نہ آیا ہو مگر ہر روز امید کا سورج ڈوب جاتا، پھر مایوسی کا اندھیرارات کے اندھیرے میں گھل مل کر میری روح میں اتر نے لگتا۔ میں کھڑ کی پر سر کو لگائے تھک جاتی اور دور دور تک اس کا نام و نشان نہ ہوتا۔ ہر روز دل کو اس خیال سے بہلاتی تھی ، ہو سکتا ہے اس کو ضروری کام پڑ گیا ہو۔جاتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ تھام کر کہا تھا کہ میری جان ! پریشان نہ ہونا، اس بار میں اپنے والدین کو منانے کی کوشش کروں گا، ان کو تمہارے بارے میں بتائوں گا تا کہ وہ تمہاری حیثیت کو تسلیم کر لیں، پھر میں تم کو لو گھر لے جائوں گا کیونکہ میرے بھائی کی شادی ہونے والی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اس گھر میں بڑی بہو کی حیثیت سے شامل ہو سکو۔اس نے مجھ کو الوداع کہتے ہوئے کہا تھا کہ گلناب! میں تمہارا ہوں، صرف تمہاراہوں اور تمہارا ہی رہوں گا۔ میں نے دنیا میں صرف تم کو پیار کیا ہے اور شادی بھی تم سے ہی کی ہے ، تمہارے سوا کسی عورت کو کبھی اپنا نہ بنائوں گا۔

وقت گزرتا رہا، پھر پتا چلا کہ ریحان کے مکان میں ایک نیا مالک آ گیا ہے۔ باغ کا سارا عملہ بھی بدل گیا۔ ابا جان نے آکر بتایا۔ ریحان نے باغ مکان اور زمین کا سودا کر دیا ہے اور اب یہاں پر نیا مالک آگیا ہے۔ میں رونے لگی تو ابو نے مجھے تسلی دی اور میری والدہ کو برابھلا کہنے لگے کہ اسی لئے میں کہتا تھا کہ اکیلے لڑکے کو لڑ کی کارشتہ نہ دینا چاہیے کیونکہ پھر ان حالات میں لڑکی والے ہی بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں اور کوئی ذمہ داری نہیں اٹھاتا۔ اگر اس کے خاندان والے اس شادی میں شامل ہوتے تو آج ہم جا کر انہیں پکڑ سکتے تھے۔ ہمارے یہاں ایک لڑکی کی شادی ایک لڑکے سے نہیں ہوتی بلکہ ایک خاندان کی دوسرے خاندان سے ہوتی ہے۔امی سر جھکائے بیٹھی تھیں ، وہ اب کیا جواب دیتیں۔ انہوں نے میری خوشی کا خیال کیا تھا۔ وہ کیا جانتی تھیں کہ ریحان جوان کی بھی اتنی عزت کرتا تھا کہ اس طرح دھوکا دے جائے گا۔ بہر حال کسی نہ کسی طرح ابا جان نے اپنے آدمی کو ریحان کے گائوں بھیجا۔ اس نے آکر بتایا کہ ریحان کی حال ہی میں اس کے والد نے اپنی بھتیجی سے شادی کر دی ہے اور وہ اپنی دلہن کو لے کر امریکا چلا گیا ہے۔ یہ خبر سن کر میں بچھاڑ کھا کر گر پڑی۔ ایسا لگتا تھا کسی نے میرے کانوں میں گرم گرم سیسہ انڈیل دیا ہے ، میرا دل بند ہونے لگا۔ ماں نے سہارا دیا اور باپ نے سمجھایا مگر دل کسی کے سمجھانے کی چیز تو نہیں۔ عمر گزر گئی اس کو سمجھاتے سمجھاتے ، آج تک اپنی ہئیت کو نہیں بھلا سکا حالانکہ اس بات کو اب سولہ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی کھڑ کی کھلی ہے اور میں روز ہی اس میں سے جھانک کر اپنے من چاہے محبوب کا انتظار کرتی ہوں۔ شاید کبھی اس کو میرا خیال آجائے اور وہ لوٹ آئے …!

Latest Posts

Related POSTS