میرا نام سائرہ ہے۔ میں نے ایک متوسط گھرانے میں جنم لیا تھا۔ بہن کوئی نہ تھی اور بھائی تینوں مجھ سے چھوٹے تھے۔ والد صاحب معمولی درجے کے ملازم تھے لیکن ان کی تنخواہ میں بہ آسانی گزارہ ہو رہا تھا۔ میری ماں کی شادی سولہ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ وہ بہت اچھی تھیں۔ بس ایک مسئلہ ان کے ساتھ تھا کہ انہیں ٹی وی دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ جلدی جلدی تمام کام نمٹانے کے بعد ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتی تھیں تو پھر اٹھنے کا نام نہ لیتیں ۔ سارے ڈرامے دیکھتیں اور اگر موقع ملتا تو وی سی آر پر انڈین فلمیں دیکھ لیتیں۔ میں ان دنوں چھوٹی سی تھی اور مجھ کو زیادہ شعور نہیں تھا، پھر بھی میں ماں کے ساتھ ٹی وی دیکھتی تھی۔ رفته رفته شعور کی منزلیں طے کرنے لگی۔ انڈین فلموں میں جو کچھ دیکھتی ، سوچتی اے کاش یہ چیزیں ہمارے گھر میں بھی ہوتیں! جوں جوں عمر بڑھتی گئی ، شعور بڑھتا گیا۔ فلموں کی دنیا مجھ کو بہت حسین لگنے لگی۔ امی کا شوق برقرار رہا۔ انہیں دھیان نہ رہا کہ میں جوانی کے دور میں قدم رکھ رہی ہوں۔ اب ان کو احتیاط برتنی چاہئے۔ وہ اب بھی میرے ساتھ بیٹھی فارغ وقت میں انڈین رومانی فلمیں دیکھتی تھیں۔ ابو کام پر چلے جاتے اور بھائی اسکول ہوتے۔ یوں مجھ کو بچپن سے ہی نہ صرف یہ کہ فلموں کا چسکا پڑ گیا بلکہ شوق پیدا ہو گیا کہ میں بھی فلموں میں اور ڈراموں میں کام کروں۔ یہ شوق اندر اندر پلتا رہا۔ اسی وجہ سے دل پڑھائی میں نہ لگتا تھا۔ امی جان نے بھی تربیت میں کوتاہی کی کیونکہ ان کو ڈراموں سے فرصت نہ تھی۔ وہ مجھے قناعت سکھاتیں، کلام پاک کا ترجمہ سمجھاتیں۔ میں فیل ہونے کے ڈر سے اسکول سے غیر حاضر ہو جاتی۔ اگلے دن اساتذہ ڈانٹتے ٹیسٹ کیوں نہیں دیا۔ میٹرک میں سائنس لے رکھی تھی ، فیل ہونا یقینی تھا۔ امی کو پروا نہ تھی۔ ابو نے بھی ٹیوشن رکھ کر نہ دی۔ وہ ٹیوشن کے خلاف تھے، کہتے تھے خود پڑھو اور بچے بھی تو پڑھتے ہیں۔ پڑھائی میں کمزور ہونے کی وجہ سے ہمہ وقت پریشان رہنے لگی تھی۔ بتاتی چلوں کہ میں معمولی شکل و صورت کی تھی۔ رنگت سانولی اور جسم دبلا۔ لڑکیاں میرا مذاق اڑاتیں تو مجھے برا لگتا۔ سوچئے جو لڑکی ہر وقت تصورات کی دنیا میں رہے، خود کو خیالوں میں پرستان کی پری سمجھے اور ہمجولیاں اس کو کلو سائرہ کہیں تو دل پر کیا گزر جاتی ہوگی۔ بہر حال میں نے میٹرک معمولی نمبروں سے پاس کر لیا اور اب کالج میں داخلے کا مرحلہ آگیا۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد مجھے گورنمنٹ کالج میں داخلہ تو مل گیا مگر سائنس میں نہیں ، آرٹس میں کیونکہ نمبر کم تھے۔ میں نے یہی غنیمت جانا کہ چلو کالج لائف تو ملی جبکہ والدین ناراض تھے، کم نمبر کیوں لائی ہو، اچھے نمبر لیتیں ، ہم تم کو ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے اور تم نے آرٹس میں داخلہ لے لیا۔ کالج میں قدم رکھتے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ کر کے دکھاؤں گی تا کہ جو لوگ مجھے دھتکارتے ہیں، مذاق اڑاتے یا ڈانتے ہیں، وہ سب عزت کر سکیں میں کو ایجوکیشن والے اسکول سے گرلز کالج آئی تھی لیکن کالج کا اپنا ہی مزہ تھا۔ واقعی کالج لائف بے نظیر ہوتی ہے۔ ہوم ورک تھا اور نہ پابندی تھی۔ یہاں بڑی ماڈرن لڑکیاں پڑھتی تھیں جن کے پاس موبائل فونز تھے۔ وہ بڑی شاندار گاڑیوں میں آتیں ۔ باوردی ڈرائیور جب ان کی کار کا دروازہ کھولتے تو دل میں حسد ابھرتا۔ ٹھنڈی آہ بھر کر . سوچتی ایک دن میں سب کو بتا دوں گی کہ سائرہ کون ہے اور کیا ہے؟ یہ وہ دور تھا جب خود کو سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے تاہم مجھ میں یہ صلاحیت نہیں تھی۔ حقیقتوں کا ادراک کرنے کی بجائے مجھے باپ کی معمولی نوکری پر بڑا غصہ تھا۔ میں سوچتی کہ اگر کسی بڑے بزنس مین یا افسر کی بیٹی ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ آرام سے میں اپنے والدین سے اپنے شوق بیان کرتی اور وہ میری ہر آرزو پوری کرتے۔ میں ایک ترسی ہوئی لڑکی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ سرکاری اسکول کی بجائے شہر کے مہنگے اسکول جاؤں- مہنگے کالج میں پڑھوں, مہنگے پرفیوم اور کاسمیٹکس استعمال کروں, تا کہ خوبصورت نظر آؤں- فلموں والی راجکماریوں ایسی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ افسوس کہ کالج لائف اسکول سے بھی بری نکلی کیونکہ میں کالج میں پسندیدہ طالبہ نہ بن سکی- لیکچرار مجھ کو نظر انداز کرنے لگیں۔ لڑکیاں مجھ سے دوستی کی خواہشمند نہ تھیں۔ ایک بار ایک لڑکی نے میری شکایت لیکچرار سے کر دی جس نے مجھے اس قدر ذلیل کیا کہ اور زیادہ احساس کمتری کا شکار ہوگئی۔ اب میں نے خوب جھوٹ بولنے شروع کر دیے۔ کلاس کی چالاک لڑکیوں سے دوستیاں رکھتی اور باتوں میں خود کو بڑے خاندان کا کہا کرتی۔ فرسٹ ائیر کی چھٹیوں کے دوران میں نے کونسل سے کورس کیا۔ اس دوران وہاں ایک ڈرامہ بن رہا تھا۔ میں نے ڈائریکٹر سے بات کی۔ مجھے دیکھ کر ان کا موڈ تو نہ بنا مگر منت سماجت بھرے لہجے کی وجہ سے شاید ترس کھا کر کہا کہ تم کو ڈرامے میں چانس دوں گا لیکن اگلے دن انہوں نے میری جگہ ایک پیاری سی گوری لڑکی کو ڈرامے میں لے لیا جو بہت ماڈرن تھی۔ مجھے ڈائریکٹر پر غصہ آیا اور شکوہ کیا تو اس گوری لڑکی نے میرا مذاق اُڑا کر کہا کہ تم چوہے جیسی شکل والی کو ڈراموں میں کون لے گا، تمہیں تو کوئی نوکرانی کے رول میں بھی نہ لے اور تم ہیروئن بننے کے خواب دیکھ رہی ہو۔ اس دن مجھے بڑا دکھ ہوا۔ کئی دن تک دل میں ارمان دبائے سسکتی رہی کہ اگر مجھ کو چانس مل جاتا تو شاید زندگی بن جاتی ۔ شکل معمولی ہو لیکن اداکاری کے جوہر ہوں تو بڑے بڑے مقام خالی ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ میں کسی کو کیسے سمجھا سکتی تھی۔ ایف اے میں نے کر لیا۔ اب کسی اونچے کالج جانا چاہتی تھی جہاں آرٹ اور موسیقی کی کلاسز بھی ہوتی ہوں، جہاں گلوکار اور فنکار فن سیکھتے ہیں۔ ایسے کالج تک میری پہنچ نہ تھی۔ تمنا مگر شدید تھی۔ ہمارے شہر میں لاہور آرٹ کالج کی ایک ، برانچ کھلی۔ پتہ کرایا ایک لاکھ روپیہ فیس کا سن کر ، میں سن ہو کر رہ گئی۔ بھلا ایسی میری اوقات کہاں تھی۔ بہرحال اپنا کالج چھوڑا اور ایف اے کے بعد ایک دوسرے کالج میں داخلہ لے لیا۔ نئے کالج میں کچھ ماڈرن مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے۔ شروع میں تو میں خوش تھی مگر بی اے کی پڑھائی نے جینا حرام کر دیا تھا۔ اس کالج میں انگریزی زبان کا زور تھا اور یہ زبان مجھے آتی نہیں تھی۔ لڑکیاں فرفر بولتیں اور ان کے سامنے نکو بن جاتی۔ اب سوچتی خواہ مخواہ پرانا کالج چھوڑا، وہاں کم از کم آدھی لڑکیاں تو میرے جیسی اردو میڈیم تھیں، یہاں پر ساری انگلش میڈیم تھیں۔ وہ مجھے ذرا بھی منہ نہ لگاتیں۔ احساس کمتری کا ازدھا مجھے بری طرح نگلنے لگا۔ خواہشات دب ضرور جاتی ہیں، مرتی نہیں۔ مجھے بھی دبی ہوئی خواہشات کی ٹی بی دیمک کی طرح چاٹنے لگی۔ بار بار یہ سوچ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے کہ میرا باپ ایک معمولی سرکاری ملازم کیوں ہے، کوئی بڑا سیٹھ کوئی اعلیٰ سرکاری آفیسر یا سیاستدان کیوں نہیں کہ آج میں ان لڑکیوں کے سامنے کیڑے مکوڑے ایسی حیثیت رکھتی ہوں۔ خدا نے ان کو بنگلے ، گاڑیاں بھی دیں اور یہ انگلش میڈیم اسکول میں بھی پڑھیں۔ حالات نے مجھ کو نچوڑ دیا تھا کہ میرا تھوڑا بہت حسن بھی برباد کر دیا۔ اصل میں تو سوچوں کا پرتو چہرے کو تمازت و طمانیت عطا کرتا ہے۔ یہاں اب نہ تمازت رہی اور نہ طمانیت کی شادابی باقی رہی ۔ سوچ سوچ کر ، کڑھ کڑھ کر آنکھوں میں سیاہ حلقے پڑ گئے۔ لامحالہ پڑھائی پر بھی اثر پڑ رہا تھا۔ ایک لیکچرار سمجھدار ہمدرد دل تھی ۔ شاید وہ میرے پرابلم کو سمجھتی تھی۔ مجھے پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ جب کالج ٹیسٹ میں فیل ہوگئی اور میرا داخلہ نہ گیا تو اس ٹیچر نے میرا سفارشی داخلہ کالج کی طرف سے بھجوایا۔ میں اپنا آپ اچھا بنانے کی کوشش کرتی ، خود کو امیر, لائق کہتی مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح امیج خراب ہوتا۔ میں وین میں آتی جاتی تھی مگر کالج میں لڑکیوں سے کہتی کہ میرے گھر میں چار گاڑیاں ہیں۔ ایک امی کی ، ایک ابو کی ، ایک بھائی کی اور میری مگر مجھے گاڑی چلائی نہیں آئی اور ڈرائیور نہیں ہے لہذا وین میں آجاتی ہوں۔ اپنا گھر بھی ایک پوش علاقے میں بتاتی۔ میرا گھر پہلے ایک ایسے محلے میں تھا جہاں شرفا رہا کرتے تھے پھر امی اور میرے اصرار پر ابو نے بنگلہ ٹائپ مکان ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ امی کہتیں کہ اس کی سہیلیاں اونچے گھروں کی ہیں اور یہ ان کو شرم سے اس گھر میں نہیں بلاتی کہ وہ اچھے علاقوں میں رہتی ہیں۔ ہمارا علاقہ غریبوں کا ہے، بھلا یہاں وہ ان کو کیوں بلائے ۔ اگر اچھے لوگ نہیں آئیں گے تو امیر گھرانے میں سائرہ کا رشتہ کیسے ہوگا ؟ امی کی ان باتوں نے والد صاحب کو اپنا چھوٹا سا ذاتی مکان بیچنے پر مجبور کر دیا۔ اب انہوں نے ایک بنگلہ نما مکان ڈھونڈ تو لیا جو نسبتا کم قیمت پر مل رہا تھا لیکن اس کا پڑوس اچھا نہ تھا یعنی وہاں ایک ایسی عمر رسیدہ عورت رہتی تھی جو کسی زمانے میں طوائف رہ چکی تھی، غالبا اس وجہ سے مکان کی قیمت کم تھی کہ شرفا اس گھر کو خریدنے سے کتراتے تھے۔ والد صاحب نے کچھ قرضہ سود پر لیا اور یہ گھر خرید لیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ عورت کبھی طوائف تھی اور بعد میں کچھ عرصہ فلموں میں بھی کام کیا تھا- بہرحال اب یہ عورت نیک چلن سے زندگی بسر کر رہی بھی تب ہی آس پاس کے لوگ اس کو برداشت کئے ہوئے تھے۔ اس کا نام پروین تھا اور طنزآ یا ویسے ہی محلے والے اسے نیک پروین کہتے تھے۔ کافی خوبصورت تھی۔ امی کی اس کے ساتھ دوستی فلم بینی کے شوق مشترک کی وجہ سے ہوئی کیونکہ نیک پروین کے پاس بہت سی پرانی انڈین فلموں کی کیسٹیں تھیں جو وہ امی کو دیتی رہتی تھی۔ خود پروین کی زبانی پتہ چلا کہ کسی زمانے میں فلم اسٹار رہی تھی۔ فلم اسٹار تو میرا آئیڈیل تھے، پس پروین بھی میرا آئیڈیل بن گئی۔ وہ بڑی سلیقہ مند، شیریں زباں اور بنی سنوری رہنے والی عورت تھی۔ تب ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ ایک روز اس جیسی بنوں گی۔ نئی جگہ آنے سے کالج اور دور ہو گیا۔ آنے جانے میں تھک جاتی تھی۔ پڑھائی پر برا اثر پڑا اور بی اے میں چار مضامین میں فیل ہوگئی۔ گھر اور خاندان والوں کے طعنے ، بے عزتی اپنی جگہ تھے۔ میری دشمن کلاس فیلوز کی تو عید ہوگئی۔ کچھ شریر لڑکیوں نے میرا موبائل نمبر ایک لڑکے کو دے دیا جو مجھے گھٹیا پیغامات بھجوانے کے ساتھ ساتھ فیل ہونے پر مبارکباد دیتا اور خوب ہنستا۔ فیل ہو جانے کے بعد میرا جینا دوبھر ہوا تو دماغ کی کیفیت عجیب و غریب ہوگئی۔ تب ایک دن میں نے عجیب و غریب فیصلہ کر لیا۔ لاہور کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ سوچا جا کر قسمت آزمانا چاہیے، سو میں قسمت آزمانے گئی۔ روشنیوں کے شہر لاہور کے لئے ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھ گئی۔ بغیر یہ سوچے کہ کہاں جا کر رہوں گی۔ بس جذبات کی جولانیاں مد نظر تھیں۔ آف کس قدر بے وقوف تھی۔ ایسا تو صرف فلمی دنیا میں ہوتا ہے، اصل زندگی میں کب ایسا ہوتا ہے! جب بس اڈے پر رکی تو میں اتر کر رکشے میں جا بیٹھی۔ رکشے والے نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ کہا کہ قریب جانا ہے، سیدھا چلتے چلو، آگے بتا دوں گی۔ یوں میں کبھی ادھر کبھی ادھر اسے گھمانے لگی۔ تب اس نے تنگ آکر پوچھا۔ ارے بی بی صحیح طرح سے بتاؤ کہ جانا کہاں ہے؟ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا اتنا بولی جہاں فلم ایکٹریس رہتی ہیں وہاں لے چلو۔ کہنے لگا کیا بازار حسن؟ معاف کرو، میں ان جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتا کیونکہ میں ایک شریف آدمی ہوں ، تم اترو یہاں اور جہاں جانا ہے خود چلی جاؤ۔ اس نے مجھے ایک فاسٹ فوڈ ہوٹل کے قریب اُتار دیا۔ ہوٹل میں انگریزی گانے لگے تھے اور ماڈرن لڑکے لڑکیاں بیٹھے تھے۔ ابھی تک میری آنکھوں میں ایک بڑی اداکارہ بننے کے خواب سجے ہوئے تھے۔ یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن میں اخباروں کی زینت بنوں گی اور لوگ میری تصویریں دیکھ دیکھ کر نہ تھکیں گے۔ والد تب پنڈی میں ایک اعلیٰ طرز کا بنگلہ، پوش ایریا میں خرید لیں گے تو لوگ ان کو سلام کریں گے اور وہ خوب سر اونچا کر کے تن کر چلیں گے۔ رات گزرتی جاتی تھی۔ اچانک میں نے سامنے کے رخ پر چلنا شروع کر دیا، سوچا کہ کوئی سستا سا ہوٹل دیکھوں۔ رات گزار لوں صبح کسی طرح فلم اسٹوڈیو کا پتہ کروں گی- یہی سوچتی جارہی تھی کہ ایک قیمتی مرسیڈیز گاڑی پاس سے گزری، اس میں حسین نوجوان بیٹھا تھا۔ میں اس کی طرف دیکھ کر ٹھٹھک گئی تو اس نے گاڑی روک لی۔ یہ جگہ لارنس گارڈن کے قریب تھی۔ میں خوش تھی کہ چلو یہ امیر زادہ مل گیا۔ اس نے کھڑکی سے منہ نکال کر پوچھا۔ کہاں جانا ہے، اگر سواری نہیں مل رہی تو چھوڑ دوں . میں نے فوراً کہا کہ ہاں بڑی دیر سے سواری دیکھ رہی ہوں اس نے دروازہ کھول دیا اور میں جلدی سے یوں اس کی گاڑی میں گھسی جیسے ڈوبتے کو کوئی بڑا سہارا مل جائے کہاں جانا ہے؟ اس نے پہلا سوال کیا۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ میں نے بغیر توقف جواب دیا تو وہ حیران ہو گیا۔ تب ہی توجہ سے مجھے کو دیکھ کر بولا لگتی تو ایسی نہیں ہو، چکر کیا ہے؟ ملتان سے آ رہی ہوں ۔ سنا ہے لاہور میں فلمیں بنتی ہیں۔ مجھے اداکاری کا شوق ہے، اس لئے آئی ہوں۔ یہ سنتے ہی قہقہہ مار کر ہنسا، اتنا ہنسا کہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔ میری صورت دیکھ کر اس کو میری بات کا یقین آگیا تھا کیونکہ ایک چھوٹا سا سفری بیگ بھی ساتھ تھا۔ بہر حال وہ مجھے گھر لے آیا اور اپنی پیاری سی بیوی کو سارا احوال سنایا۔ وہ پہلے تو ہنسنے لگی پھر سنجیدہ ہو گئی اور مجھے سمجھانے لگی۔ تب مجھ کو غصہ آنے لگا کہ یہ کیوں مجھ پر ہنس رہے ہیں۔ میں نے ایسا کون سا لطیفہ سنا دیا ہے۔ میرا موڈ آف دیکھ کر وہ بولی ۔ شکر ہے کہ تم غلط ہاتھوں میں نہیں پڑیں ورنہ ابھی تک تمہارا جانے کیا حال ہوتا۔ دونوں میاں بیوی مجھے کافی دیر تک سمجھاتے رہے کہ اسں طرح فلم اسٹار نہیں بنتے، عزت ضرور مٹی میں مل جاتی ہے۔ یوں بھی فلم اسٹار بننا مشکل ہے، اگر بن جاؤ تو ٹھوکریں کھا کھا کر جینا پڑتا ہے۔ شرافت ہی عورت کا اصل زیور ہے۔ اداکارہ بن کر عورت کو بہت کچھ مل جاتا ہے مگر سکھ چین تو تقدیر سے ہی ملتا ہے۔ انہوں نے پیار سے باتیں کیں ، کھانا دیا اور ان کی باتوں نے میرے دل میں جگہ بنالی۔ ان کے گھر ایک نوکر تھا جو خاصا بوڑھا اور بدشکل تھا۔ بس نام کا چوکیدار تھا ورنہ چوکیداری کے لئے قطعی موزوں نہ تھا۔ نام اس کا خادم حسین تھا۔ مجھے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا تا ہم وہ مجھ کو بڑی توجہ سے کام کرتے دیکھتا۔ ایک دن سیٹھ ندیم اور ان کی بیوی ثناء بیٹھے تھے کہ مجھے بلا کر کہا۔ ہم تمہارا گھر آباد کرنا چاہتے ہیں، تمہیں اعتراض تو نہیں کیونکہ آخر کبھی نہ کبھی لڑکی کو شادی کر کے گھر آباد کرنا پڑتا ہے۔ میں چپ رہی تب ثناء باجی کہنے لگی کہ خادم حسین بڑا شریف آدمی ہے، تمہارا بھی کوئی نہیں ہے، وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ مجھے جھٹکا لگا مگر ثناء باجی نے اپنی میٹھی زبان سے مجھے کو رام کر لیا اور لاوارث ظاہر کرنے کی وجہ سے مجھے کو اس منحوس سے شادی کرنی پڑی۔ نکاح کے بعد خادم حسین مجھ کو گوجرانوالہ لے گیا، جب میں نے اس کا گندہ گھر دیکھا تو اس کے غربت زدہ ماحول سے گھن آنے لگی ۔ اس سے میرے والد کا گھر کہیں بڑا تھا جہاں میں نے اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے شہزادیوں کی مانند پرورش پائی تھی۔ یہاں آکر پتہ چلا کہ خادم حسین کی میں دوسری بیوی ہوں۔ اس کی پہلی بیوی موجود تھی جس کا نام رضیہ بیگم تھا اور وہ شکل سے چڑیل لگتی تھی- لیکن اب سوائے صبر کے چارہ کیا تھا۔ کئی دن تک میں نے برداشت کیا۔ اس کی بیوی اور بچوں کی تو لگتا تھا کہ میں ملازمہ ہوں۔ وہ سارے گھر کا کام مجھ سے کراتی۔ ایک دن جب میں برتن دھو رہی تھی ، خادم دو بدمعاش قسم کے آدمی لے آیا تب میں اس کی کم عقلی پر حیران رہ گئی کہ وہ پرائے آدمیوں کو اپنی بیوی دکھا رہا تھا۔ وہ دونوں میری طرف ایسے گھور رہے تھے جیسے قصائی بکری کو دیکھتے ہیں۔ ایک نے دوسرے کی طرف دیکھ کر آنکھ دبائی جس کا مطلب تھا، ٹھیک ہے لے لو اور ہزار روپے کے نوٹوں کی گڈیاں جیب سے نکال کر انہوں نے خادم حسین کو دیں۔ وہ خستہ حال ان نوٹوں سے جیب بھر رہا تھا اور مسکرا رہا تھا شاید کہ ان نوٹوں میں اس کی غربت کا علاج اور بچوں کا شاندار مستقبل چھیا ہوا تھا۔ رقم ادا کرتے ہی ان دونوں عفریتوں نے مجھے کانچ کی گڑیا کی طرح پکڑا اور اپنے ساتھ لے جانے لگے۔ اس وقت رضیہ کے چہرے پر فتح کی چمک تھی۔ شاید اسی لئے وہ خاموش رہی تھی کہ خادم حسین نے اس کو سمجھا دیا تھا، یہ سونے کی چڑیا ہے، یہ بکے گی تو دام کھرے ہوں گے۔ تب ان روپوں سے تجھے سونے کے زیور بنوا کر دوں گا۔ اس کے بعد میرے ساتھ بھی وہی ہوا جو مجھے ایسی خواب پرست، خود سر اور گھر سے بھٹکی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب میں زمانے کی ٹھوکروں میں تھی۔ اس دلدل میں کودنے کا خود شوق ہوا تھا مجھے مگر جانتی نی تھی کہ دلدل میں ڈوبنا کس قدر اذیت بھرا ہوتا ہے۔ بھٹک جانے کے بعد جب گھر بسانے کا ارادہ کر لیا تو تقدیر مجھے کہاں لا کر چھوڑ گئی ہے۔ آج میں بازار حسن کی زینت ہوں اور یہاں سے نکلنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ میں جن لوگوں کی ملکیت ہوں، ان کا نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے۔ ان کی رسائی دور دور تک ہے۔ جب اثر و رسوخ والوں کا من کرتا ہے، یہ ان کا دل بہلانے کا سامان لے جاتے ہیں۔ بھلا ان کے ہاتھ پھر کیوں نہ لمبے ہوں۔ مجھے اپنا گھر اور بچپن بہت یاد آتا سے مگر کچھ نہیں کر سکتی ۔ یہاں میرا کوئی ہمدرد و غمگسار نہیں ہے۔ میں لاہور میں جہاں جانا چاہتی تھی ، قسمت نے مجھے وہاں نہ پہنچایا۔ فلم اسٹوڈیو کی بجائے کہاں پہنچا دیا۔ یہاں کے باسیوں نے میرا نام، میری شناخت تک چھین لی ہے۔ وہ مجھے سوہا کے نام سے پکارتے ہیں۔ میں خود بھی اپنا نام اپنی ولدیت کو بھول جانا چاہتی ہوں۔ اکثر تنہائی میں خود سے پوچھتی ہوں کہ مجھے سائرہ سے سوہا کس نے بنایا تقدیر نے یا خود میری اپنی خواہشات نے میں ستم زدہ اور مظلوم ہوں یا خواہشات کی پجارن مجھے خود معلوم نہیں ہے-