ایک کمانے والا اور اتنے کھانے والے، اوپر سے بچوں کی پڑھائی کے اخراجات، کٹھن زندگی ، بمشکل روٹی روزی پوری ہو رہی تھی کہ بجٹ آگیا تو عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ ہمارا زیست کا لڑکھڑاتا ہوئے چھکڑا بھی الٹ گیا۔ بجلی کٹ گئی ، بچوں کی فیسیں کہاں سے بھری جاتیں۔ ابا اماں کی تو شروع ہی سے نہیں بنتی تھی۔ میرے خیال میں کم آمدنی کے بڑھتے مسائل نے ابا کو چڑچڑا بنا دیا تھا۔ وہ کچھ شکی مزاج بھی تھے کہ بیوی آمدن سے زیادہ خرچہ کر دیتی ہے ، حالانکہ ایسی بات نہ تھی۔ بے سکونی کی ایک بڑی وجہ اولاد کی زیادتی بھی ہو سکتی ہے۔ بہن بھائیوں میں میرا نمبر چوتھا تھا۔ جہاں اتنے بچے ہوں، والدین سے نظر انداز ہوتے ہی ہیں۔ ابا اماں پر غصہ ہوتے اور اماں ان کا غصہ ہم پر نکالتیں۔ ایسی مکدر فضا نے مجھے ضرورت سے زیادہ حساس بنادیا تھا۔ چاہتی تھی ہمارے ماں باپ بھی ہمارے لاڈ اسی طرح اٹھائیں جس طرح عالمہ کے اٹھائے جاتے تھے۔ عالمہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ، والدین اسے بہت چاہتے تھے۔ اس کا باپ دبئی میں کماتا تھا اور ماں اسکول ٹیچر تھی۔ ان کے گھر پیسے کی کمی نہ تھی۔ یہ لوگ اچھا کھاتے، اچھا پہنتے تھے جب کہ ہم ایک ایک چیز کو ترستے تھے۔ اس کے گھر فروٹ کی پیٹیاں آتی تھیں اور مجھے تو پھلوں کا ذائقہ بھی بھول چکا تھا۔
ماہ و سال یونہی گزرتے رہے اور گھر یلو حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے ۔ انہی حالات کے سبب میں احساس کمتری کا شکار ہو گئی۔ میں لوگوں سے ملتی جلتی نہیں تھی، کسی سے بات نہ کرتی تھی۔ یوں ہی اٹھتے سنبھلتے یونی ورسٹی پہنچ گئی۔ یہ وہ جنت تھی، جہاں میری دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں میری ملاقات عامر سے ہوئی۔ من موہنی صورت والا یہ لڑکا ، ہر دم ہنسنے ہنسانے والا، ہر دلعزیز تھا۔ جس دن وہ نہ آتا ، کلاس تو کیا پور اڈ پارٹمنٹ ویران لگتا۔ وہ بڑی سحر انگیز باتیں کرتا تھا۔ اس کے پاس بیٹھ کر وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ بولتا تو میں اس کی باتوں میں کھو جاتی۔ اتفاق سے میری دوستی اس کے گروپ کی لڑکیوں سے بھی ہو گئی۔ میں لڑکوں سے بات کرتے گھبراتی تھی، اس لئے زیادہ بات نہیں کرتی تھی، لیکن عامر نے مجھے توجہ دے کر آہستہ آہستہ گھبراہٹ کے اس احساس نکال دیا۔ جلد ہی گروپ کی لڑکیوں نے محسوس کر لیا کہ میں عامر کے لئے پسندیدگی کے جذبات رکھتی ہوں۔ جب میری ایک دو سہیلیوں نے ہمارے بارے میں ذو معنی باتیں کیں تو میں نے عامر سے دوری اختیار کر لی۔ اب میں اس سے زیادہ باتیں نہ کرتی۔ میرے اس رویئے کو اس نے ناراضی پر محمول کیا اور بے چین و پریشان رہنے لگا۔ ایک روز جب میں کوریڈور میں اکیلے کھڑی تھی ، وہ پاس آیا اور مصر ہو گیا کہ اگر ناراض ہو تو ناراضی کی وجہ بتادو۔ جب وہ کسی طور نہ ملا تو میں نے کہا۔ میری سہیلی فرزانہ سے معلوم کر لینا میں اسے بتادوں گی۔ فرزانہ کو میں نے بتادیا تھا کہ عامر سے کہہ دینا کہ ، گروپ کی لڑکیاں مجھے اس کے نام سے چھیڑنے لگی ہیں ، اسی لئے میں نے دوری اختیار کر لی ہے۔ نہیں چاہتی کہ ہماری بد نامی ہو۔ میرا اور اس کا نام ساتھ ساتھ لیا جانے لگا تھا۔ یہ بات سن کر عامر کو بہت حیرت ہوئی۔ اس نے فرزانہ سے کہا کہ میں بری نیت سے کلاس کی لڑکیوں سے بات نہیں کرتا اور نہ ہی برا لڑکا ہوں، پھر اس قسم کے خیالات میرے بارے میں کیوں ؟، میرے لئے سب کلاس فیلوز برابر ہیں۔ میں عارفہ سے بھی ایک کلاس فیلو کے طور پر بات کرتا ہوں کیونکہ وہ اچھی عادات والی لڑکی ہے۔ میرے دل میں ایسا ویسا خیال موجود نہیں ، پھر اس کو بد نامی والا خدشہ کیوں ؟ تمہارے دل میں کوئی بات نہ سہی ممکن ہے ، نا ہے عارفہ تم کو پسند کرنے لگی ہو ۔ فرزانہ نے جواب دیا۔ عامر نے کسی کو یہ بات نہیں بتائی، لیکن وہ مجھ سے بات کرنا چاہتا تھا اور میں اس سے دور بھاگتی تھی۔ وہ مجھ سے سوالات کرتا تو اس کی کسی بات کا جواب نہ دیتی۔ میں کسی سے ڈرتی تھی ؟ اپنے آپ سے یا حالات اور اپنی قسمت سے ؟ اپنے بخت پر مجھ کو اعتبار نہیں تھا۔ ڈر رہتا کہیں یہ خوشیاں میرے لئے عارضی ثابت نہ ہوں۔ میرے اندر ایک نا معلوم خوف تھا، کسی کے کھو دینے کا ، بد نامی کا خوف۔ یہ وہی خوف تھا جو بچپن سے میرے اندر پرورش پارہا تھا۔ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ میں اس کی پسند کرتی ہوں اور بدنامی کے خوف سے بات نہیں کرتی ، تب سے وہ میرا بہت خیال رکھنے لگا تھا۔ کوئی فنکشن ہوتا تو اس کی کوشش ہوتی کہ اس کے ساتھی کا کردار میں ادا کروں۔ مجھے محسوس ہو چکا تھا اس کے دل میں میرے لئے جگہ ہے ، تبھی ڈری سہمی رہتی تھی لیکن اس کے لبوں پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی اور یہ مسکراہٹ مجھ سے بہت کچھ کہتی تھی۔ اس مسکراہٹ نے مجھے اعتماد دیا، اپنائیت کا احساس دیا۔ اب جب وہ ساتھ ہوتا تو مجھے لگتا کہ مجھ کو ایک اچھا سا تھی مل گیا ہے ، جب کہ اس نے الفاظ میں کبھی اقرار نہیں کیا تھا، تاہم ہیں چاہتی تھی کہ وہ اب اقرار کر لے کہ مجھے چاہتا ہے۔
عامر نے مجھ سے کبھی اظہار محبت نہیں کیا بلکہ اس کارویہ کبھی تو بہت عجیب سا ہو جاتا تھا پھر ایک دن میرے اندر کے خوف نے حقیقت کی شکل اختیار کرلی۔ ہوا یہ کہ میں اور فرزانہ کینٹین میں بیٹھے تھے کہ عامر وہاں کر میرے برابر بیٹھ گیا اور فرزانہ سے باتیں کرنے لگا، لیکن اس کی توجہ میرے طرف تھی۔ جب دیکھا کہ میں نروس سی ہو گئی ہوں تب مجھ سے بولا۔ عارفہ ! تم ایک اچھی لڑکی ہو۔ میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن فیملی بیک گراؤنڈ کے لحاظ سے ہم دونوں میں کافی فرق ہے۔ تم ہمارے ماحول میں ایڈ جسٹ نہیں ہو سکتیں۔ اسی سبب میں چاہتا ہوں کہ تم یہیں سے واپس لوٹ جاؤ ، تا کہ تکلیف کم ہو ۔ اتنا کہہ کر وہ اٹھ کر چلا گیا۔ میری تو دنیا ہی اندھیر ہو گئی۔ اس نے ایک لمحے ہیں ہی میرے خوابوں کو نوچ کر پھینک دیا اور چلتا بنا۔ میں کتنار وئی، کتنا تڑپی، لیکن عامر پر میرے چہرے پر لکھی شکایتوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ مجھے اداس دیکھ کر فرزانہ سمجھاتی کہ دیکھو، عامر دھو کے باز نہیں ہے۔ وہ فیئر بندہ ہے تبھی جھوٹی امید میں نہیں دلاتا۔ دوٹوک بات کرتا ہے ، چاہے تکلیف دہ ہو، مگر بعد کے المیے بہت زیادہ دکھ دینے والے ہوتے ہیں۔ وہ حقیقت پسند ہے ، تم بھی حقیقت کو تسلیم کر لو اور اس کا خیال دل سے نکال دو۔ یہ میرے بس میں نہ تھا۔ اس کو بھلا دینے کا مطلب تو یہ تھا کہ میں سانس لینا چھوڑ دوں۔ میں نے سمجھ لیا کہ جس شے کو پانا ممکن نہ ہو اس کی آرزو اس شدت سے نہیں کرنا چاہئے، لیکن اس ضبط نے میری شخصیت ہی بدل کر رکھ دی۔ میں قنوطی اور خود سے لاپر واہو کر آخر کار بیمار پڑ گئی۔ کچھ دنوں سے امی نے محسوس کر لیا تھا کہ کوئی بات ضرور ہے جو مجھے بے چین رکھتی ہے۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے۔ ماں کی آنکھیں بچوں کے دلوں کے اندر بھی جھانک لیتی ہیں۔ ایک روز انہوں نے مجھ سے کہا۔ عارفہ ! تو بلا وجہ بیمار نہیں ہوئی ہے۔ اس بیماری کی تہہ میں کوئی بے نیل و مرام خواہش چھپی ہوئی ہے۔ مجھ کو سچ سچ بتا۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ جہاں تک میرے بس میں ہوا، تیری آرزو کو پورا کرنے کی کوشش کروں گی۔ میری ماں کا دلا ساوہ کندھا تھا، جس پر میں سر رکھ کر رو سکتی تھی۔ میں سسک پڑی اور دل کا حال ان سے بیان کر دیا۔ انہوں نے عامر کے خاندان کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتادیا۔ ماں کی آنکھیں چمک اٹھیں ، وہ بے اختیار بولیں۔ ارے وہ تو میری بہت عزیز سہیلی کا بیٹا ہے۔ اس سہیلی یعنی آنٹی سیم سے پچھڑے امی کو کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ اگر چہ اماں سب بچوں پر پوری توجہ نہ دے سکتی تھیں، مگر انہوں نے ہماری اچھی تربیت کی کوشش کی تھی۔ جب بھی ان کا کوئی بچہ کسی ذہنی کشمکش یا کسی مسئلے میں پڑا ، انہوں نے اپنی بھر پور محبت اور توجہ سے مسئلے کو حال کر دیا۔
میں خوش تھی کہ میری ماں بھر پور طریقے سے میری ذات کے دکھ کی طرف متوجہ تھیں۔ میری تین بہنوں اور ایک بھائی کی شادی ہو چکی تھی۔ جن دنوں میں بہت پریشان تھی ، ہماری بھا بھی کے ایک رشتہ دار کی بیٹی کی شادی ہوئی۔ دولہا والے بھی قریبی رشتہ دار تھے ، لہٰذا ہم نے ولیمے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ امی بھا بھی کے ساتھ شای ہیں گئیں اور جب واپس لوٹیں تو بتایا کہ دلہن کی ماں ان کی سہیلی نسیم ہے جو عامر کی امی ہے۔ یہ سن کر میں حیران رہ گئی کہ عامر سے بھابھی کے ذریعہ ہمارا رشتہ نکل آیا تھا۔ امی نے بتایا کہ دلہن کے لئے شام کا کھانا میں نے لے کر جانا ہے ، اس وجہ سے جلدی آگئی ہوں۔ تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد وہ بھابھی کے ہمراہ چار گھنٹے دعوت کے کام میں مصروف رہیں۔ امی نے آتے ہی بھائی کو گوشت لانے کے لئے بھیج دیا تھا، مگر شام کے چھ بج گئے اور وہ نہ لوٹے۔ وہ بار بار وقت دیکھیں اور کہتیں کہ عارفہ ، تیرا بھائی ابھی تک نہیں آیا۔ آٹھ بجے تک کھانا لے کر جانا ہے۔ کب گوشت گلے گا، کب قورمہ تیار ہو گا، پلاؤ بنے گا۔ کتنی دیر کر دی کمال نے ، معاملہ تو خراب ہو جائے گا۔ وہ مسلسل بولے جارہی تھیں۔ بھائی نے شاید اس کو معمولی بات سمجھا لیکن میری ماں کے لئے یہ معمولی بات نہیں تھی۔ واقعی دیر ہو چکی تھی، گوشت کا سالن بنانا اور پھر کھانا ان کے گھر پہنچانا۔ امی پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ بار بار گھڑی دیکھ رہی تھیں اور ان کے منہ سے یہی الفاظ ادا ہو ر ہے تھے کہ خدا خیر کرے۔ میں تو نسیم کو آٹھ بجے کا کہہ کر آئی تھی۔ وہ عامر کی ماں ہے ، اس وعدہ خلافی کے بعد کیسے تیرے رشتے کی بات کر پاؤں گی۔ تھوڑی دیر بعد کمال بھائی آگئے۔ امی دروازے کی طرف گئیں، بھائی کو ڈانٹا پھر گوشت لے کر کچن کو دوڑیں۔ وہ جلدی جلدی لفافے کھولتی جاتی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ ابھی سالن چڑھے گا تو کب تیار ہو گا اور کب وہاں پہنچے گا ؟ ان کو پسینے آرہے تھے۔ ابھی تو رشتے کی بات کرنی ہے۔ مجھے یقین ہے عامر کی ماں انکار نہیں کرے گی۔ مجھے لگا، ان پر ہیجانی کیفیت طاری ہو چکی ہے۔ مجھے اپنی ماں پر ترس آنے لگا۔ اتنے میں فون کی گھنٹی بھی۔ امی کے کان کھڑے ہو گئے۔ لو ، اسے بھی اب ہی بجنا تھا۔ پہلے ہی دیر ہو رہی ہے ، دس تو بچ جائیں گے۔ میں نے فون ریسیو کیا تو ادھر سے آواز آئی۔ ہم دلہن کے گھر سے بول رہے ہیں۔ مہمانوں کو جلدی جانا تھا، اس لئے ان کو بازار سے کھانا منگوا کر کھلا دیا ہے۔ آپ آنٹی سے کہہ دیں کہ کھانا بھجوانے کا تکلف نہ کریں ، اب ضرورت نہیں ہے۔ میں نے یہ بات امی کو بتائی تو میری ماں نے دل پکڑ لیا۔ مارے شرمندگی کے ان کا سانس رکنے لگا کہ بچپن کی سہیلی کی بیٹی کے گھر وعدہ کر کے کھانا نہ پہنچا سکیں۔
اماں شروع سے ہی بہت ٹینشن لے لیا کرتی تھیں۔ انہوں نے دل پر ہاتھ رکھا، میرے جانب حسرت سے دیکھا اور صحن سے کچن تک بمشکل پہنچیں تو گر گئیں۔ اتنے میں باجی کی آواز سنائی دی۔ ابا ! ہائے کمال ، بھائی امی چلی گئیں۔ سب امی کی طرف دوڑے۔ بھائی ان کو بازوؤں میں اٹھا کر باہر لے آئے۔ اسی وقت ابا موٹر سائیکل پر گئے اور ڈاکٹر کو لے آئے۔ انہوں نے امی کو چیک کیا اور کہا کہ یہ تو فوت ہو چکی ہیں۔ یوں ہمارا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ امی کی میت پر آنٹی نسیم ان کی بیٹی سوہا اور عامر بھی آئے۔ عامر نے مجھے دیکھا اور سر جھکا لیا۔ وہ افسردہ لگ رہا تھا۔ آنٹی نسیم رو رہی تھیں ۔ وہ امیر خاتون تھیں اور ہم سفید پوش۔ سچ ہے، دوستی تو ایک انمول جذبہ ہے اور وہ بھی بچپن کی دوستی۔ امی اور نسیم آنٹی نے پہلی جماعت سے میٹرک تک ساتھ پڑھا تھا۔ امی کہتی تھیں کہ کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جو رشتہ داروں سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے کبھی ہم کو آنٹی نسیم سے دوستی کے بارے میں نہیں بتایا، جب کہ دونوں میں اتنا انس تھا کہ آنٹی ہچکیاں لے کر رو رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ جس کو گھر بلانےکے لئے ترستی تھی ، وہ آیا بھی تو کس موقع پر۔ میری عامر کے ساتھ شادی کی خواہش تو پوری نہ ہو سکی لیکن ماں کھو گئی ، جس کی موت کا غم آج بھی میرے دل پر ایک نہ مٹنے والے داغ کی طرح موجود ہے۔ جب تک جیوں گی، یہ داغ نہیں مٹے گا۔ لمحے تو گزر جاتے ہیں، لیکن ذہن پر اپنے قدموں کے نشان ثبت کر جاتے ہیں۔