حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں ایک دفعہ لوگ رمضان المبارک کا چاند دیکھ رہے تھے۔ یکبارگی ایک شخص نے چلا کر کہا کہ اے عمر! دیکھو چاند وہ سامنے نظر آرہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے آسمان پر بہتیری نظر دوڑائی لیکن ان کو چاند نظر نہ آیا اور نہ اس شخص کے سوا دوسرا آدمی چاند دیکھنے میں کامیاب ہوا۔ حضرت عمر فاروق نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ بھائی میری نظر کافی تیز ہے لیکن مجھ کو تو چاند کہیں نظر نہیں آیا۔ تم ذرا اپنا ہاتھ تر کر کے آنکھوں اور بھنوؤں پر پھیرو اور پھر آسمان پر نظر دوڑاؤ۔ اس شخص نے آپ کے ارشاد کی تعمیل کی تو پھر اس کو چاند نظر نہ آیا۔ کہنے لگا: امیر المومنین! اب تو چاند غائب ہو گیا ہے۔ حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ یہ تیرے خیال کا ہلال تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ تیرے ابرو کا ایک بال ٹیڑھا ہو کر تیری آنکھوں کے سامنے آگیا تھا تو نے اس کو چاند سمجھ لیا ۔
اگر ایک ٹیڑھا بال آسمان کا پردہ بن سکتا ہے تو جب تیرے سارے حواس ٹیڑھے ہو جائیں پھر کیا ہو گا؟