افنان نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ خبر تھی یا بم دھما کا۔ وہ متاثرین کی فہرست میں سب سے اول نمبر پر تھی۔ اس کا قصور نہ تھا مگر وہ کسی مفرور ملزم کی طرح منہ چھپاتی پھر رہی تھی ۔ خوف اس کی پر چھائی بن کر اس کے وجود سے چپک گیا تھا اور وہ ہر آہٹ پر پتے کی طرح لرز جاتی تھی۔ ایسے میں صالحہ آپا کے آنے کی اطلاع اس کی سماعتوں میں سیسہ ڈالے جانے کے برابر تھی ۔ گو کہ نہ اسے عدالت کے لگائے جانے کا انتظار تھا، نہ سزا سنائے جانے کا۔ وہ تو بس رد کیے جانے کی اذیت سہنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہی تھی۔ وقت کی سوئیاں لمحہ بہ لحہ آگے بڑھتی اس کے وجود سے لہو کی بوند یں نچوڑے جارہی تھیں اور اس کی حالت زلزلے کے نتیجے میں زمین بوس ہو جانے والے اس شخص کی طرح تھی جس کی امداد کو پکارتی چیخیں اس کے وجود کے اندر ہی دم توڑ جاتی ہیں اور انہیں سننے والا کوئی نہیں ہوتا اور آخر کار وہ اس اذیت پسند موت سے سمجھوتا کر کے سانسیں رکنے کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ طے شدہ وقت کے مطابق صالحہ آپا دوپہر کے کھانے کے وقت آچکی تھیں ۔ کھانا وہ کھا کر آئی تھیں اور اب سب ابا کے کمرے میں موجود تھے۔ وہ اپنے کمرے میں جلے پیر کی بلی کی مانند گھوم رہی تھی کہ پرانی ملازمہ نذیرہ نے اسے ابا کے کمرے میں بلوائے جانے کا حکم سنایا۔ وہ خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹے دھڑکنوں کی رفتار گنتے ہوئے ابا کے کمرے میں داخل ہوئی – صالحہ آپا ، فرحین اور صارم کے ہمراہ کمرے میں موجود تھیں۔ ابا، امی، بڑے بھیا، ثمرہ آپی، بھا بھی سب کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں مگر وہ خود کسی سے نظریں نہیں ملا پا رہی تھی۔ وہ چپ چاپ کھڑی صور پھونکے جانے کی منتظر تھی۔ عنایا! بیٹھ جاؤ۔“ صالحہ آپا کی آواز بے تاثر تھی سو وہ ان کے مزاج کا اندازہ نہیں لگا سکی البتہ ثمرہ آپی کے اشارے پر روبورٹ کی مانند چلتی ہوئی ان کے پاس بیٹھ گئی اور سر جھکا لیا۔ ہم سب نے مل کر ایک فیصلہ لیا ہے کہ اب جبکہ افنان نے فرحین سے شادی سے انکار کر دیا ہے تو تمہاری اور صارم صالحہ آپا پانی کے گھونٹ لیتے ہوئے بات کر رہی تھیں ، اچانک انہیں اچھو لگ گیا۔ عنایا کا دل چاہا کہ وہ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر بھاگ جائے یا پھر ان سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ان سے پوچھے کہ اگر افنان بھائی نے شادی سے انکار کر دیا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ اور صارم تم تو مجھے سے محبت کے دعویدار تھے۔ افنان بھائی اور فرحین کا رشتہ تو پھر بھی ان کے بدلے طے پایا تھا۔ فرحین سے پوچھے فرحین تم بھی تو ایک لڑکی ہو ، خود کو میری جگہ رکھ کر سوچو کہ اگر افنان کی جگہ صارم نے ایسا کیا ہوتا تو کیا تم اس کے کیے کی سزا بھگتے ہوئے خون کے آنسو نہیں روتیں۔ مگر اس کے الفاظ قوت گویائی سے محروم تھے۔ سوچوں کی بڑھتی آواز میں اگر چہ اس کا دماغ پھاڑنے پر آمادہ تھیں اور قریب تھا کہ وہ سر پکڑ کر غش کھا کر گر جاتی۔ صالحہ آپا نے آکر اسے اپنی آغوش میں بھر لیا۔ ” کیا ہوا ہے میری بچی ! ۔ ارے یہ وقت تو سب پر آتا ہے۔ لڑکیاں ماں باپ کا گھر چھوڑ کر جاتی ہیں، ہاں البتہ یوں اچانک یہ خبر تمہیں ضرور حیران و پریشان کر گئی ہوگی۔ بس اصل میں، میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتی اور اچھا ہے ناں، تمہاری اور صارم کی شادی کے بہانے یہ جو وقتی اداسی ہم سب کے درمیان گھر کر گئی ہے، دور ہو جائے گی۔ صالحہ آپا جانے کیا کیا کیے جارہی تھیں اور وہ دم بخود ان کے چہرے کو کھوج رہی تھی گو یا اندازہ لگانا چاہ رہی ہو کیا آیا وہ اپنے ہوش و حواس میں ہیں ورنہ ان جیسی روایت پسند خاتون کا یہ فیصلہ اور ایسا قدم اس کے لیے تو کم از کم کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ صالحہ آیا ! ہم کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کریں۔ قسم لے لیں، ہمیں ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ افنان با ہر جا کر ایسی گری ہوئی حرکت کرے گا۔ گوری سے شادی رچا کر اس نے بہت پستی کاثبوت دیا ہے اور افسوس تویہ ہے کہ اگر ایا ارادہ تھا بھی تو وہ فرحین سے منگنی سے انکار ہی کر دیتا۔ آپ جیسے مہذب او رروایت پسند گھرانے سے جڑنا ہماری خوش نصیبی ہے ورنہ کس نے سوچا تھا کہ پڑوس سے ہمارا رشتہ سمدھیانے میں بدل جائے گا۔ مجھے تو اب تک یقین نہیں آرہا کہ آپ سب نے اتنا بڑا دل کیا اور ہماری عنایا کوٹھکرا کر جانے کی بجائے دل سے اپنالیا۔ ورنہ اکثر تو ایسے معاملات میں یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ایک طرف سے رشتہ ٹوٹے تو دوسری طرف سے بھی برابر کا بدلہ لیا جاتا ہے۔ آپ کے ظرف نے ہمیں جیت لیا۔” ثمرہ آپی نے گویا عنایا کے دل کی بات کہہ دی تھی ۔ خود اس کے دل میں بھی صالحہ آپا کی قدر و منزلت بے حد بڑھ چکی تھی۔ نہیں ثمرہ ایسے مت کہو۔ میں انسان ہوں فرشتہ نہیں۔ میں آج بھی روایت پسند ہوں مگر میں صرف ان روایتوں کی ترقی کی حامی ہوں جو مثبت ہوں۔ ادلے بدلے کی شادی اگر ہم پلہ اور بخوشی ہو تو کوئی حرج نہیں مگر کسی ایک کی غلطی کی سزا دوسرے کو دینا سراسر نا انصافی ہے اور میں ایسی روایات کی نا طرف دار ہوں، نہ حامی۔ چلو عنایا! اب ذرا جلدی سے اپنے ہاتھ کی چائے اور پکوڑے تو کھلا دو۔ دیکھو ذرا کیسی سہانی ہوا چل رہی ہے ۔ ” صالحہ آپا نے اس کا ماتھا چوم کر کہا تو وہ مسکرا کر صحن میں بنے کچن میں آگئی۔کڑھائی میں تیل ڈال کر چولہے پر چڑھایا اور سامنے لگی کیاریوں میں لگے نئے سر سبز پھولوں کی کونپلوں کو ہوا کی گدگدیوں سے جھومتا دیکھ کر مسکرا دی کیونکہ خزاں کے بعد آنے والی بہار کے جھونکے اسے گنگنانے پر مجبور کر رہے تھے۔
بہار آئی
تو جیسے ایک بار لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے