وہی مشورہ دے دیتا ہے اور بندہ کام سے لگ جاتا ہے۔
3۔ تیسرا case بڑا interesting ہے بندہ بڑا کمزور ہوتا ہے۔ ﷲ کو پتہ ہوتا ہے کہ کسی کام میں ڈال دیا تو بہک جائے گا۔ اب یہ بندہ تمام عمر ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے اور کوئی بڑا کام نہیں کر پاتا مگر جب مرتا ہے تو فلاح پا جاتا ہے۔
اچھا ہے، یہ بتائیے ٹیچر، اُستاد کون ہوتا ہے؟
نلکا دیکھا ہے کبھی آپ نے، دھوپ میں گرمی کی شدت سے تپ رہا ہوتا ہے۔
اب کوئی آدمی آئے اور اس میں سے ٹھنڈا پانی نکلے تو بندہ کتنا خوش ہوگا۔
مگر اگر نلکے کی زبان ہوتی تو بندے کا شکریہ ادا کرتا کہ تو آیا تو میرے میں سے بھی پانی گذر گیا۔ اسی طرح ہر طالب علم اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ یہ اس کی طلب ہے جو پانی کھنچتی ہے، ٹنکی میں سے۔ نلکے کو اترانا نہیں چاہیے۔ اگر مانگنے والے ہاتھ نہ رہیں تو دینے والے کا مصرف نہیں بچتا۔ بس ﷲ سے مانگتا رہے۔ جیسے پیٹرول، پیسہ خرچ ہوجاتا ہے، اسی طرح روحانیت بھی خرچ ہوجایا کرتی ہے، پھر آپ لوگوں سے ملتے ہیں تو وہ آپکو consume کر لیتے ہیں۔ بندے کو چاہیے کہ رات کی تنہائی میں اپنے رب سے connect ہو کر چارج ہو جایا کرے۔
اچھا تو یہ بتائیں کہ راہبر mentor کا انتخاب کیسے کیا جائے؟
چند باتیں دیکھ لیں۔
1۔ تربیت کہاں سے ہوئی ہے؟ کس سے کہاں پڑھا ہے؟ تربیت کے لیے زندوں کے پاس جانا ہی پڑتا ہے۔
2۔ تقویٰ اور ذکر سے واسطہ ہو۔
3۔ کتابیں پڑھتا ہو، آس پاس موجود معاشرے کے اتار چڑھاؤ کا علم ہو۔
4۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ٹیچر ضرور ہو۔ خود سے اس فیلڈ میں پختگی نہیں آتی۔
عبدﷲ! مفتی صاحب نے بات جاری رکھی، صالح سے پہلے مصلح بننے کا شوق ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اُسے بیٹے سے پہلے باپ بننا ہے۔ ایسا آدمی ایک پورے حلقے کو برباد کر جاتا ہے۔ مفتی صاحب کیسے یقین آئے کہ بندہ جو کچھ کر رہا ہے بس ٹھیک ہے اور دل ایک طرف ہو جائے؟
’’یقین کا نہ آنا ہی بہترہے۔ یہ ڈر و خوف رہے کہ جو کچھ بھی کر رہا ہے پتہ نہیں قبول ہوگا بھی کہ نہیں بڑی اچھی چیز ہے۔ اسی امید و خوف کے بیچ زندگی گذر جائے، جوانی میں خوف غالب رہے تو بڑھاپے میں اُمید، یقین کا نہ ملنا ہی اچھی بات ہے‘‘۔
اچھا اب آخری سوال، جی فرمائیے (مفتی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا)
میں کوئی بڑا کام کرنا چاہتا ہوں، دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں میں کیا کروں؟ کمرہ بند کرکے کنڈی لگا کے بیٹھ جائیں۔ اپنے آپ پر کام کریں۔ جس فیلڈ میں آپ ہیں اُس میں کمال حاصل کریں اور فی الحال باقی ساری فکر یں چھوڑ دیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ کی زندگی میں اب کافی ٹھہراؤ، کافی دھیما پن آگیا تھا، اب اس نے گھر اور بچوں پر توجہ دینا شروع کردی تھی۔ کچھ دنوں میں بڑے بیٹے کا رزلٹ آگیا۔
انگریزی اور ریاضی میں 90 فیصد سے زائد مارکس جبکہ اُردو میں صرف @۔
بلّو نے عبدﷲ سے کہا کہ کوئی ٹیوٹر لا دو۔ عبدﷲ انگریزی اور ریاضی پڑھانے کے لیے ٹیوٹر لے آیا۔ بلو نے خوب سنائی کہ مارکس تو اردو میں کم ہیں۔ عبدﷲ نے جواب دیا کہ ہم عمومی طورپر ایک well-rounded پرسنیلٹی کا خواب دیکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ پڑھائی میں بھی ٹاپ کرے اور کھیل میں بھی۔ ڈرامہ بھی کرے اور بیت بازی بھی۔ بچوں پہ رحم کھانا چاہیئے۔ انسان کے بچے ہیں فیکٹری میں تھوڑا ہی بنے ہیں مجھے عبدالرحمن کو غالب یا اقبال نہیں بنانا۔ مگر انگلش میں شیکسپئر ضرور بنے، ریاضی میں پال آرڈش بن جائے۔ جو صلاحیت ہے اس پہ فوکس کرتے ہیں، کمزور پہلو کو فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔ بلّو کو اِس بار بھی عبدﷲ کی منطق سمجھ نہ آئی مگر وہ ہنس کے خاموش ہوگئی کہ چلو اِسی بہانے یہ بچوں میں دلچسپی تو لے رہا ہے۔
عبدﷲ نے اب تینوں بچوں کو گھر میں خود بھی پڑھانا شروع کردیا تھا اور وہ ساتھ ساتھ انہیں قرآن پاک کی تعلیم بھی دلوارہا تھا۔ مگر وہ اِسلامی تعلیم سے کچھ مطمئن نہ تھا۔ ایک دن اپنے ایک دوست سے ذکر کیا جو کسی یونیورسٹی میں بڑے پروفیسر تھے، عبدﷲ نے کہا، پروفیسر صاحب میں بچوں کی دنیاوی تعلیم سے تو مطمئن ہوں مگر دینی تعلیم سے نہیں۔ مولوی صاحب صحیح نہیں پڑھاتے، میں کیا کروں؟
عبدﷲ تم بچوں کی اسکول فیس بھرتے ہو؟
جی 50 ہزار فی بچہ تو ایڈمیشن کے دیئے ہیں، 9 ہزار ماہانہ الگ۔
تو 27 ہزار فیس ہے 3 بچوں کی، اسٹیشنری اور ٹرپ کا خرچہ الگ اور آنے جانے کی وین کا، کل کتنا ہوا؟ پروفیسر صاحب نے سوال کیا، عبداﷲ کچھ نہ سمجھتے ہوئے متعجب لہجے میں بولا، کوئی 35 سے 40 ہزارہو نگے۔
اچھا اور مولوی صاحب جو گھر پڑھانے آتے ہیں انہیں کیا دیتے ہو؟
جی 1500 روپے مہینہ تینوں بچوں کے، عبدﷲ نے شرمندگی سے جواب دیا۔
تو بھئی سیدھی سی بات ہے، کوئی ایسا مولوی ڈھونڈو جو ایڈمیشن کے ڈیڑھ لاکھ لے پھر کم از کم 15 ہزار مہینہ۔ پھر دیکھو دینی تعلیم کیسی جاتی ہے۔
عبدﷲ شرمندہ گھر لوٹا اور مولوی صاحب تبدیل کر دیئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبدﷲ بہت خوش تھا، اُسے آج آفس سے عمرے کی چھٹی مل گئی تھی۔ کچھ ہی روز بعد عبدﷲ، بلّو کے ساتھ عمرے پر جارہا تھا۔ عجیب سی کیفیت تھی شرمندگی بھی، یاسیت بھی، اُمید بھی اور ڈر بھی۔
راستے بھر سوچتا رہا کہ کیا دعائیں مانگے گا اور کعبتہ ﷲ پر نظر پڑتے ہی کیا کہے گا۔ سنا تھا لوگوں کو رونا آتا ہے، غشی طاری ہوجاتی ہے۔ مگر عبدﷲ کو ایسا کچھ نہ ہوا، ایک عجیب سا سرور تھا جو اُسے محسوس ہورہا تھا، اُس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔
’’ مَن جا میرے ربا، مَن جا میرے ر با،
ہاتھ جوڑ کے تجھ سے تجھی کو مانگنے آیا ہوں، نامراد نہ لوٹانا
سخی کی شان ہوتی ہے کہ پکڑ لے تو چھوڑ دیا کرتا ہے، پوچھیو نہیں میرے ﷲ، پوچھنا مت، حساب مت لینا ﷲ ایسے ہی چھوڑ دینا‘‘۔
طواف میں عبدﷲ طرح طرح کی دعائیں مانگتا رہا۔ ﷲ مجھے گھر دے دے، ﷲ مجھے گاڑی دے دے، ﷲعلم دے، ﷲ لکھنا سکھا، ﷲ بولنا سکھا، ﷲ تقویٰ دے، ﷲ ہاتھ پکڑ، ﷲ راستہ دکھا، ﷲ رسوا نہ کرنا، اور پتہ نہیں کیا کیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عمرے سے فارغ ہو کے عبدﷲ مدینۃ المنوّرہ گیا۔ وہاں روضۂ رسول صلی ﷲ علیہ و آل وسلّم پر دل کو بڑا سکون ملا، یوں بھی رمضان کی طاق راتیں تھیں۔ عبدﷲ نے پوری کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ عبادت ہوسکے۔
عبدﷲ نے اپنی پہلی نعت بھی یہیں کہی، اور دن رات زیارتِ رسول صلی ﷲ علیہ و آل وسلم کی دعا کرتا رہا مگر وہ نہ ہوئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عمرے سے واپس آ کر عبدﷲ نے اپنے آپ اور گھر والوں پر کام شروع کردیا اور دنیا سے تقریباً لاتعلق ہوگیا۔ دوست احباب کم ہوتے چلے گئے۔ امین بھائی اور احمد صاحب سے کبھی کبھار ملاقات ہوجاتی۔ ایک درد کا احساس تھا جوعبدﷲ کو ہوتا اور وہ اُن سے بھی دور ہوتا چلا گیا، بات یہ نہیں تھی کہ وہ جو کچھ پڑھا رہے تھے وہ غلط تھا۔ خود عبدﷲ کو اس نے بڑا فائدہ پہنچایا، سوگ اس بات کا تھا کے ایسے بڑے لوگوں سے سیکھ کر بھی عبدﷲ کورا رہ گیا، وہ کنویں سے بھی پیاسا آگیا۔ اس نی صحیح لوگوں سے بھی غلط چیز سیکھ لی اور جو علم اسے ملا وہ اُسے برتنا نہ آیا۔
جب بھی اِن کورسز کا خیال آتا، عبدﷲ کو اپنے اندر موجود ’’میں‘‘ یاد آجاتی اور وہ تکلیف سے آنکھیں بند کر لیتا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
جب کبھی جاب یا کوئی اور مسئلہ پیش آتا تو عبدﷲ مفتی صاحب کے پاس پہنچ جاتا اور وہ کوئی نہ کوئی تسلی بخش جواب دے دیتے۔ ایک دن عبدﷲ نے پوچھا کہ اُسے ہی کیوں اتنی پریشانیاں درپیش ہوتی ہیں؟ ایک دنیا ہے جو مست ہے، خوش و خرم ہے، اِسی کے دل کو چین کیوں نہیں آتا، یہ سر پھٹول قسم کے لوگ اس کے ہی نصیب میں کیوں؟ مفتی صاحب نے دھیمے سا جواب دیا کہ عبدﷲ ہم مریضوں کے معاشرے میں زندہ ہیں۔ حتی الامکان صبر کیا کرو، اس معاشرے میں سچ بولنے کی زکوٰۃ تنہائی ہے، کوئی جانور پال لو کہ کہنے سُننے کو کوئی تو ہو پاس میں۔
ابھی عبدﷲ کی زندگی میں کچھ ٹھہراؤ آ ہی رہا تھا کہ اُسے امریکہ سے ایک فیلو شپ اور مل گئی 2 ماہ کے لیے، وہ خوشی خوشی گیا اور درجنوں میٹنیگز کیں، اِس بار اُس نے امریکہ ایک نئے رنگ سے دیکھا۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ ورلڈ کلاس ادارے بنتے کیسے ہیں؟ وہ کون سی سوچ، کون سے لوگ ہوتے ہیں جو اِن کی بنیاد رکھتے ہیں۔ وہ درجنوں تھنک ٹینکس میں گیا۔ بڑی بڑی یونیورسٹی کے سربراہان سے مِلا اور ایک سے بڑھ کے ایک وژنری بندے سے مِلا، اسے احساس ہوا کہ اگر بڑا کام کرنا ہے تو دنیا سے اچھائی یا تعریف کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور سر جھکا کے کام کرنا چاہیئے
عبدﷲ فیلو شپ سے واپس آیا اور جاب سے استعفیٰ دے دیا۔ اب کی بار تو بلّو بھی پریشان ہوگئی کہ کیا ہوگا، یونیورسٹی وہ چھوڑ چکا تھا اور کار پوریٹ ورلڈ سے بھی دِل اُچاٹ ہوگیا۔ عبدﷲ اب کیا کروگے؟ بچوں کی پڑھائی کا کیا ہوگا؟ گاڑی بھی نہیں رہے گی، گھر بھی اور کوئی saving بھی نہیں ہیں۔ جتنا پیسہ کمایا تم نے سب لگا دیا پڑھائی، کتابوں اور صحرا نوردی (دنیا گھومنے) میں۔
بِلّو، یہ 9 سے 5 والی جاب خوابوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ ہم اپنی کمپنی کھولیں گے، اپنی مرضی کا کام کریں گے۔ اتنے تو پیسے مل ہی جائیں گے کہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ ہم دن رات کو مکس کردیں گے، تو تیاری پکڑ، آج رت جگا ہے۔
’’ﷲ سائیں، تھک گیا ہوں لوگوں کی غلامی کرتے کرتے، کسی اور کے وژن پہ کام کرتے کرتے، آج سے تو میرا CEO بن جا اور کوئی اچھا سا کام لے لے، کہ میری دین اور دنیا دونوں سنور جائیں، آمین!‘‘
عبدﷲ نے شہر میں کیلوریز کے مطابق برگرز کی دکان کھول لی۔ بِلّو نے بڑا سمجھایا کہ دنیا ہنسے گی کہ Phd کرکے برگر بیچ رہے ہو، مگر عبدﷲ نے ایک نہ سنی۔ کہنے لگا کہ بِلّو دل میں ایک بڑا قبرستان بنا کے کُل جہاں کو ایک بار ہی دفنا دو اور فاتحہ پڑھ لو تاکہ آج کے بعد کسی کی تعریف سے کوئی فرق نہ پڑے نہ بُرائی سے۔
دُکان تو کھل گئی مگر گیس نہ لگ سکی، رشوت کے بغیر اِس ملک میں کوئی کام مشکل سے ہی ہو تا ہے، کبھی سیلنڈر دستیاب تو کبھی نہیں، کچھ ہی مہینوں میں عبدﷲ کو دکان بند کرنی پڑی، نقصان الگ ہوا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اب کی بار بِلّو نے سوچا کہ کپڑوں کا بوتیک کا کام شروع کرتے ہیں۔ یہ کام اچھا چل نکلا مگر کچھ ہی ماہ میں منیجر پیسے لے کر بھاگ گیا، اور عبدﷲ اور بِلّو پھر روڈ پر ۔۔۔ بِلّو نے ہنستے ہوئے عبدﷲ سے کہا کہ آپ کے ابو ٹھیک ہی کہتے تھے،
پتہ نہیں کس فقیر کی بد دعا ہے۔ تمہارا کوئی کام نہیں چلتا، ایک مسلسل گرداب ہے جس میں پھنسے رہتے ہو۔ عبدﷲ نے ہنس کر جواب دیا کہ بلّو زندگی نام ہی ہمت اور محبت کا ہے۔ کم ہمت لوگوں کو مرجانا چاہیے تاکہ ہمت والے ریسورسز کا استعمال کرسکیں۔ تو غم نہ کر حالانکہ حالات اِس قدر خراب تھے کہ بچوں کا اسکول چُھٹ چکا تھا۔ گاڑی بِک چکی تھی اور کوئی راہ سُجھائی نہ دیتی تھی، آج عبدﷲ نے پھر رت جگا کرنا تھا۔
’’یا اﷲ! پھر سے ناکام ہوگیا۔ اب تو نیا کام کرنے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اب تک بلّو نے بڑا ساتھ دیا ہے۔ وہ بھی پریشان ہے۔ بچوں کی پڑھائی بھی چھوٹ چکی ہے۔ تو ہی ہے تیرے سوا کسی سے نہ مانگوں گا۔ تو ہی مدد کر‘‘۔
عبدﷲ نے اگلے ہفتے سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کی کمپنی کھول لی، اس کام میں اُس کا نام بھی تھا اور وہ ماہر بھی تھا تو کچھ کام ملنا شروع ہوگیا۔ عبدﷲ نے ایک بار پھر دن و رات کا فرق باقی نہ رکھا اور کمپنی دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کرتی چلی گئی۔
اُسے ایک سرمایہ کار سے Angel Funding بھی مل گئی اور صرف ایک سال کے عرصے میں عبدﷲ کا اپنا گھر اپنی گاڑی بھی ہوگئی اور بچوں کی پڑھائی کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ معاشی فراغت نصیب ہوئی تو عبدﷲ کی توجہ پھر ذکر و اذکار کی طرف آئی۔ وہ رمضان میں مفتی صاحب کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھنے کا ارادہ رکھتا تھا کہ خوب گذرے گی مل بیٹھیں گے جو دیوانے دو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبدﷲ کی ملاقات ملک کے ایک مایۂ ناز صحافی سے ہوئی۔ عبدﷲ نے اُن سے پوچھا کہ وہ لکھنا چاہتا ہے کوئی مدد کریں، انہوں نے جواب میں عبدﷲ کی عمر پوچھی، 35 سال، آپ یہ خیال چھوڑ دیں۔ صحافی نے فیصلہ سنایا۔ کیونکہ اگر آپ میں لکھنے کا ہنر ہوتا تو اب تک دنیا آپ کا نام جان چکی ہوتی۔ دیکھئے، میں دنیا کے 200 ممالک گھوما ہوں، میں نے آپ کا نام نہیں سنا، اس کا مطلب ہے کہ صحافت کیا آپ نے دنیا کی کسی فیلڈ میں بھی کامیابی حاصل نہیں کی اور نہ آئندہ کرسکتے ہیں۔ 35 سال ایک لمبی عمر ہوتی ہے کچھ کر دِکھانے کے لئے، آپ کیا کرتے رہے ہیں۔ آپ کا وِژن کیا ہے؟ اگر کوئی ہے تو؟ عبدﷲ نے جواباََ کہا، جی کوشش کر رہا ہوں کہ انسان بن جاؤں، بندہ بن جاؤں بس اور کچھ نہیں۔
اِتنے میں صحافی کے ساتھ موجود ایک پولیس اٖفسر نے سوال جھاڑ دیا۔ ارے! آپ وہی عبدﷲ تو نہیں جو سنیٹر اسکالر شپ پر امریکہ گئے تھے اور ابھی حال بھی میں ایک اور فیلو شپ کرکے آئے ہیں۔ جی ہاں! میں وہی ہوں؟
آپ تو غدار ہیں، امریکہ کے ایجنٹ ہیں۔ یہ قطعاً غیر متوقع وار تھا۔ عبدﷲ نے بمشکل تمام اپنے غصے کو سنبھالا اور دھیمی آواز سے کہا، ماشاء ﷲ! آپکی ان معلومات کا ماخذ کیا ہے؟ فلاں مولوی صاحب نے ایک مجلس میں یہ بات کہی تھی۔ بات آئی گئی ہوگی، عبدﷲ مولوی صاحب سے نہ صرف مل چکا تھا بلکہ انہیں جانتا بھی تھا۔ اگلے دن عبدﷲ اُن کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔
سلام دعا کے بعد عبدﷲ نے عرض کی، حضرت یہ واقعہ ہوا ہے، میں نے سوچا بجائے اس کے کوئی بد گمانی رکھوں، ڈائریکٹ آپ سے ہی پوچھ لوں۔ مولوی صاحب گویا ہوئے۔ ’’نہیں بھئی، ہم نے تو صرف یہ کہا تھا کہ ڈاکٹر عبدﷲ کی پرسنلٹی پر تشویش ہےِ‘‘۔ باقی باتیں دنیا نے خود ہی لگالیں۔ عمومی طور پر جینز
جاری ہے