Sunday, October 6, 2024

Khojh | Episode 11

جیکٹ پہننے والوں کو مذہبی طبقے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، وہ لڑکیوں وغیرہ کے چکر میں رہتے ہیں۔ جو بار بار امریکہ جائیں وہ شراب سے کہاں بچ پاتے ہیں؟
ارے حضرت تو زانی ہوگیا، شرابی ہوگیا، غدار اور امریکی ایجنٹ کیسے ہوا؟
جانے دو عبدﷲ بہت سی باتیں اگر نہ کہیں تو ’’اٹھالئے جائیں گے، تمھیں اِن باریکیوں کا نہیں پتہ، وطن کی محبت کے ثبوت کے طور پر غیروں کی بُرائی لازم ہوتی ہے‘‘۔
جی حضرت سچ کہا، اُٹھائے تو ایک دن سب ہی جائیں گے اور بڑا ہی سخت دن ہوگا وہ، ٹھیک ہے وہیں ملتے ہیں، اور عبدﷲ دِل پر ایک زخم اور سجائے واپس آگیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ اِس رمضان کو بھرپور طریقے سے منانا چاہتا تھا اور اُس نے اہتمام کی کوئی کسر اُٹھانہ رکھی تھی۔ روزے تراویح، ذکر اذکار، نمازیں، تلاوت و نوافل سب پورے جارہے تھے۔ زندگی میں پہلی بار ایسا رمضان میسر آیا تھا کہ اُس پر پڑھائی کا بوجھ نہیں تھا نہ ہی جاب کی جھنجھٹ۔ کمپنی کے سارے کام ایک ماہ کے لئے بِلّو کے حوالے کرکے عبدﷲ نیکیاں کرنے میں جُتا ہوا تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ رمضان کی طرح اعتکاف بھی پرفیکٹ ہوجائے تو مزہ آجائے، اعتکاف میں بیٹھنے سے 2 دن پہلے عبدﷲ کو ایک فون کال آئی۔
ہیلو، سر عبدﷲ؟
جی بول رہا ہوں۔
آپ کیسے ہیں؟ میں آپ کو مِس کرتی ہوں، میں آپ کے ساتھ یونیورسٹی میں تھی آپ کی اسٹوڈنٹ۔
جی ہاں، یاد آیا میں ٹھیک ہوں، میں بھی آپ کو یاد کرتا ہوں۔
اور عبدﷲ نے کوئی 10 منٹ بات کی۔
فون رکھا تو احساس ہوا کہ کئی جملے نا مناسب تھے اور اسے کسی بھی طرح اُس لڑکی کے جذبات کو سراہنا نہ چاہئیے تھا۔ پرفیکٹ رمضان کا بُت دھڑام سے زمیں پر آگرا، ایسی ندامت ہوئی کہ عبدﷲ کو بخار چڑھ گیا اور اگلے روز روزہ بھی نہ رکھ سکا، جس کا اُسے شدید افسوس رہا۔ آج اعتکاف کا دن تھا، عصر کے بعد مسجد پہنچنا تھا مگر عبدﷲ اسپتال میں 104 بخار میں تپ رہا تھا، ظہر کے بعد عبدﷲ نے بمشکل تمام اپنے ہاتھ اُٹھائے اور دعا مانگی۔
’’اے ﷲ! اے میرے مالک، غلطی ہوگئی میں کسی کام کا نہیں ہوں معاف کر دے۔ امریکہ میں Wedding Crashers بہت ہوتے ہیں۔ بن بلائے مہمان مجھے بھی Etkaf Crasher کے طور پر ہی بلا لے۔ میرا بخار اتار دے۔ جہاں اتنے سارے نیک لوگ آئیں گے وہاں اس بدکار کو بھی بلالے، مثال کے طور پر لوگ مجھ کو دیکھ کر کہہ سکیں گے کہ ایسے لوگوں کو ﷲ نہیں بلاتا۔ میرے مالک شادی میں لوگ فقیروں کو بھی کھانا کھلا دیتے ہیں، تو اس فقیر کو بھی بلا لے، معاف کردے میرے مولا! اب نہیں کروں گا‘‘۔
عصر سے کچھ پہلےعبدﷲ کا بخار ٹوٹ گیا اورعبدﷲ آخری منٹ پر مسجد پہنچ گیا۔
مسجد میں ناموں کا اندراج ہو رہا تھا کہ ایمرجنسی کی صورت میں کسی سے Contact کیا جاسکے۔ عبدﷲ نے ڈر کے مارے اپنا جعلی نام لکھوا دیا کہ کہیں نام کی وجہ سے اعتکاف سے ہی نہ نکالا جائے۔ ویسے بھی وہ اعتکاف کریشر ہی تو تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج رات بڑی بھاری گذری، گناہوں کی کسک بار بار ہچکولے لیتی اورعبدﷲ کو اپنی ذات سے نفرت ہورہی تھی۔ مفتی صاحب سے فجر کے بعد تنہائی میں بات کرنے کا موقع ملا تو عبدﷲ نے جا کے سب کچھ بیان کردیا کہ کیا کالے کرتوت کرکے یہاں چلا آیا ہے۔ اُسے ڈر تھا کہ کہیں اُس کے اعمال کی نحوست کی سزا میں ﷲ تعالیٰ اُس سے مفتی صاحب کا ساتھ بھی نہ چھین لیں۔ وہ ایک بار پھر کنویں سے پیاسا نہیں لوٹنا چاہتا تھا۔ مفتی صاحب نے تمام بات سنی اور کہا سو جاؤ عبدﷲ، کوئی بات نہیں، ہوتا ہے، چلتا ہے۔ ﷲ معاف کرنے والا ہے۔
عبدﷲ سونے لیٹ گیا مگر یہ دعا مانگتے مانگتے۔۔۔
’’اے میرے ﷲ! میں آج تیری حِس مزاح کا قائل ہوگیا ہوں، تو ہی نیکیاں کرواتا ہے۔ تو ہی گناہ کرواتا ہے۔ تا کہ شاید میں بندہ بن کے رہوں، تو مجھے آسانی والا راستہ دے۔ مجھ پہ کرم کر میرے مالک‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ سوکر اُٹھا تو کافی فریش تھا اور ایک عجیب سی خوشی کا احساس بھی۔ خوشی اِس بات کی تھی کہ اپنی ذات کا جو بت وہ پچھلے 35 سالوں سے اُٹھائے پھر رہا تھا وہ چکنا چُور ہوگیا تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ ’’میں‘‘ تو نکلتی نہیں زندگی ختم ہوجاتی ہے، مگر وہ آج اس بات کا قائل ہوگیا تھا کہ جو نیکی دعویٰ پیدا کرے اس سے وہ گناہ بہت بہتر ہے جو توڑ کر رکھ دے اور آج بِلّو کی بات بھی سمجھ میں آگئی کہ گناہ بھی ﷲ کی نعمت ہوتے ہیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
طبیعت سنبھلی تو وہ مفتی صاحب کے پاس جا کر بیٹھ گیا جو لوگوں سے باتیں کر رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ ’’گناہ کرنے سے زندگی کم ہوجاتی ہے اور وقت سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔ خصوصاً جس جگہ سے ﷲ رزق دیتا ہے وہاں گناہ کرے گا تو شاید روزی بڑھ جائے مگر برکت نہیں رہے گی‘‘۔ عبدﷲ کو وہ تمام فلمیں گانے یاد آئے جو اُس نے اپنے لیپ ٹاپ پر دیکھے تھے۔ وہ لیپ ٹاپ کی ہی مدد سے تو رزق کماتا ہے۔ اُس کا سرندامت سے جھک گیا۔ اُس نے جھٹ سوال کردیا۔
مفتی صاحب، ندامت کی انتہا کیا ہے؟
’’چھوڑ دے اُس کام کو جس سے ندامت ہورہی ہے۔ ایک دن مرنا ہے، ﷲ کا سامنا کرنا ہے کیا جواب دے گا؟ چاہئیے کہ بندہ بن کر رہے‘‘۔
مفتی صاحب، ایک بات اور، میں عمرے پرگیا، نہ مجھے رونا آیا نہ ہی کوئی کیفیت گزری تو کیا میرا دِل اِتنا سیاہ ہوگیا ہے؟ ’’ڈاکٹر صاحب، اصل عبادت ہے، کیفیت نہیں۔ ﷲ تک پہنچنے کی دو راہیں ہیں، ولایت کی اور نبوت والی، ولایت والی راہ بڑی متاثر کن ہے۔ کمالات، معجرات، منزلیں، سلوک مگر یہ خطرناک بھی بہت ہے، بڑی گھاٹیاں ہیں۔ دوسری نبوت کی ہے سیدھی سادھی۔ بندے کو بندہ بن کے رہنا چاہیے‘‘۔ مفتی صاحب نے اپنی بات جاری رکھی،
ایمان کے 4 stages ہیں۔
1۔ صحیح عقیدہ
2 ۔ صحیح علم
3۔ صحیح عمل
4۔ اخلاص
عبدﷲ کافی دیر تک اِن باتوں پر سوچتا رہا کہ نہ تو اُس کا عقیدہ ہی صحیح ہے،علم پاس ہے نہیں، عمل وہ کرتا نہیں اور اخلاص میں اپنی ذات کو ہی پوجتا ہے۔ وہ اٹھ کر نماز پڑھنے چلا گیا کہ کچھ دل ہلکا ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
نماز پڑھ کر عبدﷲ نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔
’’اے ﷲ! لوگ تجھ سے اپنی نیکیوں کا واسطہ دے کر معافی مانگتے ہیں۔ میرے پاس تو نیکیاں ہیں کوئی نہیں، میں تجھ سے اپنے گناہوں کے صدقے معافی مانگتا ہوں۔ اے ﷲ تو ہی تو وہ ذات ہے جو میرے اور میرے نفس کے درمیان حائل ہونے پر قادر ہے۔ اے میرے مالک تیری شان کی قسم میں تو آج تک کسی گناہ سے لطف تک نہ اُٹھا سکا۔ گناہ سے پہلے بھی تیرا خیال گناہ کے بیچ میں بھی تیرا ڈر اور گناہ کے بعد بھی تیرا خوف۔ اے میرے مالک تو کیا کرے گا مجھے عذاب دے کر، میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور صرف تجھی پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرے ٹوٹے ہوئے بے لطف گناہوں کے صدقے مجھے معاف کردے۔ اے میرے مالک صلاحیت اظہار کی طلبگار ہوتی ہے۔ تیری رحمت کی شان ہے تُو مجھ جیسے گناہ گارکو بخش دے میں تمام عُمر تجھے یاد رکھوں گا، اپنی بے قیمت نیکیوں میں، اپنے ادھورے گناہوں میں اور اپنی تڑپتی دعاؤں میں‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج اعتکاف کا دوسرا روز تھا اور عبدﷲ پہلے روز کی نسبت کافی بہتر محسوس کررہا تھا، کئی ایک سوال تھے جو اس کے دِل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔
یہ گناہوں کی عادت ختم کیوں نہیں ہوتیِ؟
کیا مال و دولت کمانا بُری بات ہے؟
اخلاقیات کا حل کیا ہے؟
کیا گارنٹی ہے اس بات کی کہ ﷲ دے گا؟
اِس تلخ معاشرے میں گذارہ کیسے ہو؟
بندہ ﷲ کی راہ میں محنت کرتا رہے وہ بے نیاز ہے اس نے پرواہ نہ کی اور ضائع کر دی تو؟
عبدﷲ مسجد میں بیٹھا لوگوں کو ذکر و اذ کار میں مصروف دیکھ کر، قرآن شریف پڑھتے دیکھ کر بڑا اُداس ہو رہا تھا کہ ایک یہ ہیں کہ مزے سے عبادت کر رہے ہیں۔ جنت خرید رہے ہیں اور ایک میں کہ سوالوں کی ایک فصل کاٹوں تو دوسری پکنے کے تیار۔ کچھ ہی دیر میں اسے مفتی صاحب ایک کونے میں بیٹھے نظر آگئے۔ وہ سیدھا ان کے پاس گیا اور ایک ہی سانس میں سارے سوالات کر ڈالے، مفتی صاحب ہمیشہ کی طرح عبدﷲ کو دیکھ کر مسکرائے اور گویا ہوئے۔
’’گناہوں کی خواہش کا ہونا بہت کام کی چیز ہے۔ یہ اُپلے ہوتے ہیں۔ گندگی ہوتی ہے، اُسے ﷲ کی خوف کی یاد میں جلاؤ اور ترقی کرو۔ گناہ سرکش گھوڑے ہوتے ہیں، انھیں رام کرو اور آگے بڑھو، جب خلا میں راکٹ جاتا ہے تو اضافی چیزیں پھینک دیتا ہے بندہ جب معرفتِ الٰہی کے سفر پر جاتا ہے تو اُسے بھی اضافی چیزیں پھینک دینی چاہئیں۔‘‘
آدمی کو استغفار کرتے رہنا چاہئے، استغفار بھی ﷲ تک پہنچنے کا ایک راستہ ہی تو ہے اور پیسہ کمانے میں کیا عیب ہے؟ اخلاقیات کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ بندہ جھوٹ نہ بولے۔ ﷲ کے نبی صلی ﷲ علیہ وآل وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی ﷲ عنہ ٗکو نصیحت کی تھی کہ زندگی بھر سچ بولو انتہائی غصے میں بھی اور شدید خوشی میں بھی۔ اور ﷲ کی طلب کا ہونا بذاتِ خود گارنٹی ہے کہ ﷲ نے ملنا ہے، نیکی کا اجر 10 گنا ہے کم از کم، اب طلب بھی تو نیکی ہوئی ناں۔ ﷲ اپنے بندوں کو ضرور رزق دیتے ہیں اور ﷲ اپنے نیک بندوں کی محنت ضائع نہیں کرتا۔ تین میں سے ایک کام ہوتا ہے۔
یا تو زندگی میں ہی ﷲ ان کے جانشین تیار کردیتے ہیں جیسے رسول پاک صلی ﷲ علیہ وآل وسلم کے ساتھ ہوا یا کوئی اور بندہ کہیں سے آجاتا ہے اس کے متبادل کے طور پر۔ وہ اِس عرصہ میں کہیں اور تیار ہورہا ہوتا ہے۔ یا ﷲ اس کے کام کو بچا کے رکھ لیتا ہے اور جب کوئی اہل آتا ہے تو وہ وراثت ٹرانسفر ہوجاتی ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم ؑ کی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآل وسلم کو۔
معاشرے کو نہ دیکھیں، یہ دیکھیں آپ کیا کر رہے ہیں، مثبت سوچ سے کام کریں، منفی سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ آدمی مثبت کی طرف پیش قدمی سے رُک جاتا ہے۔ شہد کی مکھی کی طرح کام کرنا چاہئیے جو کڑوا پی کر لوگوں کو میٹھا شہد دیتی ہے۔
عبدﷲ کو اِن جوابات سے بڑی تسکین ملی اور وہ سوچنے لگا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو نہ تو کوئی بڑا عہدہ رکھتے ہیں دنیاوی نظروں میں، نہ ہی مال، نہ ہی کوئی زیادہ لوگ انہیں جانتے ہیں، مگر دلوں کی بیماریوں کا کیسا شافی اور مکمل جواب ہوتا ہے اِن کے پاس۔
عبداﷲ کو اپنے آپ پر بھی حیرت ہوئی کہ ایسا کیا کیا ہے کہ اِن جیسے لوگوں کی صحبت نصیب ہوئی، نہ تو اس کے اعمال اس قابل ہیں نہ ہی کوئی مراقبہ، مجاہدہ یا رِیاضت۔ کوئی بھی تو میل نہیں۔ ہاں البتہ ایسے لوگوں کا ملنا اس کی پریشانیوں،
سوالات اور رونے پیٹنے کا نتیجہ ضرور ہوسکتا ہے۔ آج اسے ’’طلب‘‘ کی قدر وقیمت کا اندازہ ہوا اور معلوم ہوا کہ جب شاگرد تیار ہوتا ہے تو اُستاد خود بخود آجاتا ہے۔
اظہارِ تشکّر میں عبدﷲ کے ہاتھ پھر بلند ہوئے۔
’’اے میرے رب! دھو ڈال میرے گناہ بالکل اِسی طرح جیسے میں نے دھو ڈالا ہے یہ خیال کہ میں نے کبھی تیری عبادت کی ہے۔ معاف کردے نفس کے غلام کو میرے آقا۔ محبت کو رسوا کروا دینے والے رب کہ صرف تیری محبت باقی بچتی ہے اور سب فنا ہوجاتی ہیں، مجھ سے محبت کر۔ آ مجھے اپنا بنا لے کہ میں خود کا بھی نہ رہوں۔ مجھے لکھ دے میرے مالک، مجھے رنگ دے میرے مالک۔ میں تیرا منتظر رہوں گا۔ کمزور لوگوں کی محبت بہت مضبوط ہوتی ہے، میرے ﷲ کہ ان کو بچھڑ جانے کا، پٹ جانے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے، مَن جا میرے ربا۔۔۔ مَن جا میرے ربا‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اعتکاف یوں ہی گزرتا چلاگیا۔ عبدﷲ کے پاس روز سوالوں کی ایک لسٹ ہوتی اور مفتی صاحب روز جوابوں سے مطمئن کرتے رہے۔ سب لوگ عبداﷲ کی بحث و تکرار سے تنگ تھے سوائے ایک مفتی صاحب کے نہ کبھی ٹوکا، نہ کبھی جھٹکا، کتنا ہی واہیات اور چبھتا ہوا سوال ہو انہوں نے ہمیشہ کی طرح خندہ پیشانی سے جواب دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج 27 ویں شب تھی اور عبدﷲ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ پریشان تھا کہ کہیں طاق راتوں میں بھی وہ بغیر بخشے نہ رہ جائے۔ سوالات کی فصل پھر تیار کھڑی تھی۔ تراویح سے فارغ ہو کر اس نے ﷲ سے دعا مانگی،
’’اے ﷲ، اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے ﷲ، اے آسمانوں اور زمینوں کو بغیر مثال کے پیدا کرنے والے ﷲ، جن چیزوں میں لوگ بحث کرتے ہیں ان میں مجھے صحیح راہ پہ چلا‘‘۔
سب لوگ مفتی صاحب کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے۔ عبدﷲ سب کو پھلانگتا ہوا ان کے سامنے جا بیٹھا، ویسے تو ہمیشہ اُسے بیعت سے الجھن ہی رہی مگر آج نجانے کیوں اس کا دل بہت چاہ رہا تھا کہ وہ مفتی صاحب سے بیعت ہوجائے۔ تقریباََ 3 سال کا عرصہ ہوگیا تھا ان کے پاس آتے جاتے۔
جاری ہے

Latest Posts

Related POSTS