آج عبداللہ کو شدت سے اہلِ دل کی کمی محسوس ہورہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ہمارا المیہ یہ نہیں کہ ہم آلات و مصنوعات کے مُوجد نہ بناسکے، المیہ تو یہ ہے کہ ہم نیک اِرادوں کے، خالص نیت کے، اعلیٰ مقاصد کے اور اخلاص کے مُوجد بھی نہ بناسکے۔
آج عبداللہ پھر اپنی حالت پہ رو رہا تھا کہ زندگی عبث کاموں میں ضائع کردی۔ کاش اتنا وقت اپنے آپ پر لگایا ہوتا تو ملکوں پر بھاری ہوتا۔ جتنی ترقی اِنسان کے اِردگرد موجود ماحول نے کی ہے اتنی ہی اگر اِنسان خود کرجاتا تو کیا بات تھی اورعبداللہ خود بھی تو آلات بنانے کا ایک پُرزہ ہی تو تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدا للہ کی گنگناہٹ کو ساتھ بیٹھے مسافر نے توڑا وہ ایمسٹرڈیم سے پاکستان جا رہے تھے اور پاکستانی ہی تھے، کہنے لگے، مسٹر آپ نے داڑھی رکھی ہے۔ آپ پیدائشی مسلمان ہیں، اصل مزہ تو جب ہے جب آپ کھلے دل سے غیر مسلم ہوجائیں۔ ادیان اسلام کا مطالعہ کریں پھر سوچ سمجھ کے عقل کے مطابق کوئی دین کا انتخاب کریں۔ یہ جو اسلام آپ نے لیا ہوا ہے یہ تو تلواروں کے زور پر آیا تھا۔ عبد اللہ نے عقل کی شوخیاں پہلے ہی دیکھ رکھی تھیں، مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ کہاں ہے وہ تلوار، وہ لا دیں مجھے، میں اس کا منہ چوم لوں۔ اسی کے زور سے یہ بندہ مسلمان تو ہوا جہنم کی آگ سے تو بچا۔ ان صاحب سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو خاموش ہو رہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج جمعہ کا دن تھا۔ عبداللہ کو بچوں کے اسکول جانا تھا کسی کام سے ۔اس نے سوچا نماز وہیں قریب کی مسجد میں پڑھ لوں گا، اب شامت یہ آئی کہ عبداللہ نے youtube کی t-shirt پہن رکھی تھی جو وہ اپنے سابقہ دورۂ امریکہ میں بڑے شوق سے خرید کر لایا تھا اور آج مولوی صاحب کا بیان youtube کے ہی خلاف تھا۔ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جو ویڈیو وہاں اپ لوڈ کی گئی تھی پورے عالمِ اسلام میں ایک آگ برپا تھی۔ مولوی صاحب نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو کہا کہ یہ پڑھے لکھے لوگ دلیلیں مانگتے ہیں بحث کرتے ہیں۔ جس نے قرآن میں بحث کی یا دلیل مانگی وہ کافر، سب لوگ ہاتھ اٹھائیں اور کہیں کہ وہ کافر۔ عبداللہ نے ہاتھ اٹھانا تھا نہ اٹھایا۔ چپ چاپ نماز پڑھی اور فرض کے بعد نکل آیا۔ اسے بار بار سورۃ فرقان کی 73 ویں آیت یاد آرہی تھی۔
’’اور وہ کہ جب انکو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غور سے سنتے ہیں)‘‘۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ کچھ لوگوں کو دین کا ہیضہ ہوجاتا ہے اور اس کے بعد وہ پورے معاشرے کے لیے وبال بن جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ولی اللہ ہونے کی غلط فہمی ہوجاتی ہے اور وہ اسی غلط فہمی میں دو چار لوگوں کو مرید بنا لیتے ہیں اور پھر ان تمام لوگوں میں ایک میں بچ جاتا ہوں، سیاہ کار اور سوچ کا کافر۔
سلمان رُشدی کو Satanic Verses لکھے ہوئے 26 سال ہوگئے مگر 44 اسلامی ملکوں سے کوئی اس کا جواب اسکی زبان میں نہ لکھ سکا۔ ڈنمارک کے خلاف مظاہرے ہوئے تو بینرز پہ ڈنمارک کے اسپیلنگ تک غلط لکھے تھے۔ اسرائیل کو لعن طعن میں سب سے آگے مگر اس کے میزائل ڈیفنس سسٹم Iron dome کی الف ب بھی نہیں پتہ۔ دنیا اسباب کی دنیا ہے، ایسا ہو نہیں سکتا کہ تیراکی نہ سیکھیں اور سمندر میں کود پڑیں۔ ہم اسلام کو ہر اس جگہ استعمال کرتے ہیں جہاں کام نہ کرنا پڑے۔
اللہ کے نام پر تقریریں کرنا سب چاہتے ہیں۔ ہجوم کے دلوں کو گرمانے کا منکہ سب کے پاس ہے، لوگوں کو جنت و جہنم کے حقدار ثابت کرتے رہیں گے، اور صبح و شام فتویٰ بھی لگاتے رہیں گے، مگر اتنی شرم نہیں آتی کہ جس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نام درمیان میں لاتے ہیں اسی کی کوئی لاج رکھ لیں۔ بے شک اللہ کا نام بڑا ہے، ہر عیب سے پاک ہے، برکت والا ہے۔
مگر اللہ کے نام پہ کوئی کمپیوٹر سائنس نہیں پڑھتا انگریزی ہی پڑھ لو، فرنچ سیکھ لو، کتابیں ہی پڑھ ڈالو۔ ارے بھئی دعا مانگنا ہی سیکھ لو۔ اگر دعا مانگنا ہی آجائے تو آپ کسی دور جنگل میں بیٹھ جائیں ایک پگڈنڈی خود بخود چلتی ہوئی آپ کے گھر تک پہنچ جائے گی اور ایک مخلوق کا تانتا بندھ جائے گا۔ مگر من حیث القوم جب سب گذارہ کرنے لگ جائیں تو صلاحیتوں کو سستی کی دیمک تو چاٹ ہی لے گی ناں، ہوا کرتے تھے ایسے لوگ جو گذارہ نہیں کرتے تھے وہ حوالہ بن جاتے تھے۔ آج کل مسلمان تو حاشیوں میں بھی نہیں ملتے۔ عبد اللہ نے دکھی دل کے ساتھ آج پھر ہاتھ اُٹھائے۔
’’اے اللہ میری مثال ایسے اندھے کی سی ہے جو بیچ چوک پہ کھڑا ہوجائے کہیں جانے کے لئے، اب جو کوئی بھی اس کی منزل کی طرف آواز لگائے یہ اس کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ آگے جا کر پتہ لگتا ہے کہ یہ تو کھوٹی راہ ہے، پھر واپس آتا ہے، پھر چوراہے پہ کھڑا ہوجاتا ہے اور پھر کسی اور کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ اے میرے اللہ تو مجھے کن لوگوں کے حوالے کردیتا ہے۔ یہ ساری بے راہ رویاں، یہ ساری دربدری تیرے ہی ٹھکانے کے لیے ہے۔ تیری ہی جستجو ہے۔ میں جب راہ سے ہٹا تیرے لیے۔ جب راہ پہ آیا تیرے لیے۔ تو تو جانتا ہے۔ مجھے معاف کردے، مجھے اپنا لے، مجھے واپس نہ کر، میرے سارے راستے اپنی ہی جانب موڑ دے۔ تو تو بے نیاز ہے اس سے کہ منزل میں مقید ہو۔ اے میرے حاضر و ناظر اللہ مجھے مل جا‘‘۔
آج عبداللہ پھر مفتی صاحب کے پاس بیٹھا تھا، مفتی صاحب، قیامت کا ISO standard کیا ہے؟
ایمان، جو شخص ایمان سلامت لے کے آگیا اس کا بیڑہ پار ہے۔
اور زندگی کی TDL کیا ہونی چاہئیے؟
ہر کام سنت کے مطابق ہو، زندگی خود بخود ٹھیک ہوتی چلی جاتی ہے۔
نفس کو قابو میں کیسے کریں؟
ضرورت ہی کیا ہے۔ جب نفس برائی کا کہے تو نہ کرو۔ نیکی سے روکے تو کرلو۔ اتنی سی بات ہے۔ نفس کی کُشتی زندگی بھر چلتی ہے، اس کا بس چلے تو آدمی کو فرعون بنا کے چھوڑے۔ کبھی کبھی نفس ضد پہ آجاتا ہے برائی کی، پھر عمر بھر مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔
اللہ کے پاس پہنچنے کا شارٹ کٹ کیا ہے؟
پہلا پاؤں نفس کی گردن پہ دوسرا، اللہ کے صحن میں۔
یہ جو لوگ جادو ٹونے کی کاٹ کے لیے اُلٹے سیدھے عاملوں کے پاس جاتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟
اللہ پاک کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے جو دعائیں بتائی ہیں وہ مانگیں اور پھر بھی اگر افاقہ نہ ہو تو بھلے مرجائے یہ اچھا ہے مگرعامل کے پاس نہ جائے۔
ہمت کیا ہے؟
ہمت کنویں کا پانی ہے جو اندر سے نکلتا ہے، باہر سے فائر بریگیڈ نہیں ڈالتی۔ انسان دو ہی چیزوں کا تو نام ہے ہمت اور محبت۔ اللہ کی توفیق منتظر رہتی ہے اس بات کی کہ بندہ ہمت کرے۔ آدمی ہمت کرتا ہے تو اللہ توفیق دے دیتا ہے اور مدد بھی کرتا ہے۔
حضرت حسنؓ سے روایت ہے کہ اللہ پسند کرتا ہے بڑے کاموں کو اور خدا کو بُری لگتی ہے سستی ان بڑے کاموں میں۔
اور ہمت اور شوق کے پَر برابر ہونے چاہئیں ورنہ اُڑا نہیں جاسکتا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ کی مصروفیات روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں۔ کمپنی کا کام، انٹرنیشنل کنسلٹنگ اسائنمنٹس اور کتابوں کا مطالعہ جو اس کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے۔ کمپنی میں ملازموں کی تعداد بڑھ کر 21 ہوچکی تھی اور عبد اللہ کوششیں کرکے انہیں بہترین پروگرامر بنانے میں لگا ہوا تھا۔
تمام لوگوں کو وہ امین بھائی اور احمد بھائی کی ٹریننگز میں بھی بھیج چکا تھا۔ اسے ذاتی طور پر جو فائدہ یا نقصان ہوا وہ اپنی جگہ، اسے ان دونوں کے اخلاص پہ کوئی شک نہیں تھا اور ویسے بھی جو articulation وہ سکھاتے ہیں وہ آگے چل کے بڑے کام آتی ہے۔ مثلاً عبداللہ کو اپنے اندر موجود ’’میں‘‘ کا پتہ اسی وژن کی Articulation کے بعد لگا۔ کچھ بنیادی باتوں میں اختلاف کے علاوہ جو کچھ بھی وہ پڑھا رہے تھے۔ بنفسہ تو اس میں کوئی قباحت نہیں تھی۔
عبداللہ کی سوچ اپنے آپ سے شروع ہوتی تھی، وہ چاہتا تھا کہ پہلے خود وہ اس قابل ہوجائے کہ لوگوں کو نصیحت کرسکے اور وہ اپنے آپکو اس مقام سے ہزاروںِ میل دور پاتا تھا۔
ہمارے ملک میں اختلاف اور ادب جمع نہیں ہوتے۔ جب کسی سے محبت ہوتی ہے یا کسی کے معتقد ہوتے ہیں تو اسے نبوت سے بس ایک آدھ انچ ہی نیچے لے جا کے چھوڑتے ہیں اور کسی سے اختلاف ہوجائے تو کافر بنا کہے بھی چین نہیں آتا۔
ان تمام مصروفیات کے باوجود عبداللہ نے اپنے ذکر پر توجہ رکھی ہوئی تھی۔ کلمے کا جو ذکر مفتی صاحب نے تجویز کیا تھا وہ تھوڑی بہت قرآن شریف کی تلاوت، مُّلا علی قاری کی حزب الاعظم اور بہت ساری دعائیں اس کا روز کا معمول تھا۔ خصوصاً تہجد کے وقت، فجر کے بعد اور عصر کے بعد کے اوقات وہ فون تک نہ اٹھاتا تھا۔ وہ سجدے میں دیر تک پڑا دعائیں مانگتا رہتا۔ عبداللہ کو مسنون دعائیں بہت پسند تھیں، وہ کہتا تھا کہ ان دعاؤں نے قبولیت کے راستے دیکھے ہوتے ہیں۔ بندے کے دو ہی تو کام ہوتے ہیں، علم حاصل کرنا اور اللہ کی یاد ۔
عمرگزری ہے تیری یاد کا نشہ کرتے
اب تیرا ذکر نہ چھیڑیں تو بدن ٹوٹتا ہے
آج رات عبداللہ نے پھر دعا مانگی۔
’’اے اللہ! تو مکمل ہے، تیری ذات، تیری صفات، تیری قدرت، تیرا رحم، تیرا کرم، تیری عطا، تیرا فضل، تیری قدرت، تیری جنت، تیری محبت، تیری بادشاہت، تیرا عروج، تو مکمل ہے، میرے اللہ ایک چیز جو نامکمل رہ گئی ہے وہ ہے تیرا اور میرا تعلق۔ تیری طرف سے کرم کی عنایات، مجھ سے شکر ہی ادا نہیں ہوپاتا، تیرا فضل میرے گناہ، تیرا رحم میری سرکشی، تیری محبت میری لا پرواہی، یہ تعلق ون سائیڈڈ لگتا ہے۔ میرے اللہ اسے بھی مکمل کردے کہ میں بندگی کا حق ادا کر سکوں۔ میری تجھ سے جو بھی ٹوٹی پھوٹی محبت کا جھوٹا سچا دعویٰ ہے، اسے مکمل کردے میرے ربّا، او ربّ، او سننے والے، او کمزوروں پر اپنا خاص فضل کرنے والے، مجھے تکمیل دے، مجھے ادھورا نہ چھوڑیو، مجھے کامل کر دے‘‘۔
آمین!
عبداللہ نے پارٹ ٹائم ایک یونیورسٹی میں جاب کرلی تھی اور ہفتے دو ہفتے میں کچھ لیکچرز دے آتا تھا۔ اس طرح اسے طالب علموں سے بات کرنے کا موقع مل جاتا تھا اور جو کچھ وہ سیکھ رہا تھا اسے شیئر کرکے بھی دلی خوشی محسوس ہوتی۔ آج لیکچر سے واپسی پر مین روڈ پر اسے 3 مولوی حضرات نظر آئے جنہوں نے اپنا سامان اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے گاڑی کو لفٹ کا اشارہ دیا اور عبداللہ نے گاڑی روک لی، تینوں حضرات سلام و شکریہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ تعارف کے بعد عبداللہ نے منزل پوچھی تو وہ بھی اسی جگہ کے پاس جارہے تھے جہاں عبداللہ کو جانا تھا۔ سفر لمبا تھا، بات شروع
ہوئی۔ مسافر صاحب گویا ہوئے، ہم سب لوگ اللہ کی راہ میں نکلے ہیں تبلیغ کے لئے، زادِ راہ پنڈی پہنچ کر ختم ہوگیا تو اب مری کے لیے پیدل نکلے ہیں، آپ کی بڑی گاڑی دیکھی تو لفٹ مانگ لی۔
جی، مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں نیک لوگوں کے کچھ کام آسکا۔ عبداللہ نے کہا۔ مسافر صاحب نے بات جاری رکھی، جناب،
’’اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین پکا ہونا چاہئیے۔‘‘
عبداللہ اس جملے سے بہت دیر تک محظوظ ہوتا رہا، وہ صاحب آگے بھی بہت کچھ بولتے رہے مگر عبداللہ تو ابھی اسی جملے میں گُم تھا۔ کیا بات کی ہے، یہ جملہ تو توحید کی جان ہے۔ عبد اللہ نے دل میں سوچا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ روٹی کی طرح علم بھی رزق ہے جو پہنچ کر رہتا ہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ کس طرح رزق دینا ہے، بالکل اِسی طرح جیسے اسے پتہ ہے کہ کس طرح پیدا کرنا ہے۔
عبداللہ پھر مسافر کی طرف متوجہ ہوا۔ حضرت آپ لوگوں نے کچھ کھانا کھایا ہے؟ جی بس صبح سویرے ناشتہ کیا تھا۔ مسافر نے جواب دیا، عبد اللہ نے تھوڑی ہی دیر میں گاڑی ایک اچھے سے ہوٹل کے سامنے روک دی، سب کو اندر لے کر گیا اور پوچھا آپ کیا کھائیں گے؟
جی بس ایک دال اور دو روٹی، ہم تینوں کو کافی ہوجائے گا۔
مگر حضرت یہاں مرغ مسلم، بریانی، باربی کیو سب موجود ہے۔ کولڈ ڈرنکس بھی اور میٹھا بھی۔ نہیں جناب دنیا تو بس گزارہ ہے، آخرت میں کھائیں گے۔
ارے حضرت! جو ﷲ آخرت میں کھلائے گا وہ یہاں بھی کھلا رہا ہے، کیوں کفرانِ نعمت کرتے ہیں۔ عبداللہ نے ایک اچھا خاصا آردڑ لکھوا دیا۔
کھانے کے دوران مسافر صاحب پھر گویا ہوئے کہنے لگے کہ آپ نے وقت دیا، لفٹ دی اور اب کھانا بھی کھلا رہے ہیں، آپ تو ولی اللہ ہوئے۔
عبد اللہ کو یہ بات اتنی بُری لگی کہ اسکی آنکھ سے آنسو نکل پڑے، اُس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا کہ جس ملک کی حالت یہ ہو اس میں شاید میرے جیسے ہی لوگوں کو ولی اللہ کہتے ہوں گے۔
عبداللہ نے بات جاری رکھی، مولانا صاحب آپ کو ایک کہانی سناؤں، جی ضرور۔
ایک جنگل میں سب ہی جانور تھے سوائے گدھے کے، ایک دن ایک گدھا کہیں سے نکل آیا، سب جانور اسکے ارد گرد اکٹھے ہوگئے کہ اس کا تو جثیّٰ الگ ہے۔ آواز بھی بڑی منفرد ہے۔ اب گدھے نے جو اپنی اتنی آؤ بھگت دیکھی تو وہ بڑا اترایا، جب اس سے پوچھا گیا تو کون ہے تو اس نے کہا کہ وہ ’’انسان‘‘ ہے، اب روز جنگل میں اسکی خاطر مدارت ہونے لگی، لومڑی اور شیر مشورے کرنے لگے۔ کئی سال گذر گئے اور اہلِ جنگل کا اتفاق ہوگیا کہ یہ گدھا ہی انسان ہے۔
اب کچھ سالوں بعد وہاں ایک اصل انسان آنکلتا ہے، پھر گھیراؤ ہوتا ہے، اب جب انسان دعویٰ کرتا ہے تو اہلِ جنگل گدھے کو آگے کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں انسان تو ایسے ہوتے ہیں۔ جرگہ بیٹھتا ہے اور فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ گدھا ہی اصل میں انسان ہے اور انسان جھوٹ بول رہا ہے، اب یا تو وہ جھوٹ کا اقرار کرکے معافی مانگے یا سزائے موت۔
بالآخر انسان بے چارہ یہ کہتے کہتے مرجاتا ہے کہ یہ انسان نہیں گدھا ہے۔
اس کا مسئلہ بہت آسان تھا، جس نے ایک بار انسان دیکھ لیا ہو وہ کسی اور شے کو انسان مان نہیں سکتا۔ ہمارے ملک سے انسان ختم ہوگئے، ولی اللہ تو دور کی بات ہے۔ لہٰذا جب بھی میرے جیسے گدھے نظر آتے ہیں لوگ انسان کے نعرے مارنے لگتے ہیں۔ یہ میں کوئی کسرِ نفسی سے کام نہیں لے رہا، اصل واقعہ یہی ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
مسافر حضرات کچھ سمجھ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ہنسنے لگے، پھر مخاطب ہوئے کہ آپ اچھے آدمی ہیں، مگر یہ کافرانہ لباس (جینز اور ٹی شرٹ) نہ پہنا کریں، آپکے موبائل میں تصویر بھی جائز نہیں، اور اسطرح کھلم کھلا دین سے تعلق رکھنے والوں کا مذاق اڑانا تو کفر تک پہنچا دیتا ہے (وہ شاید پوری کہانی کو اپنے پہ چوٹ سمجھے تھے)۔ عبد للہ بڑا سٹپٹایا کہ اب آدمی بات بھی کرے تو کس سے، اس ملک میں آدمی اگر غلطی سے پڑھ لکھ جائے تو گونگا ہوجائے کہ کوئی بات سمجھنے والا مشکل سے ہی ملتا ہے۔
جاری ہے