عبد اللہ نے معذرت کی، انہیں باقی ماندہ سفر کا خرچہ دیا اور خدا حافظ کہہ کر چلا آیا۔ مگر دل پورے دن بوجھل ہی رہا۔
وہ سوچنے لگا کہ داعی کو لوگوں پر لعن طعن نہیں کرنی چاہئے، انہیں چپ چاپ کام کرتے رہنا چاہیے۔ داعی کی نظر جتنی وسیع ہوگی اتنے ہی لوگوں پر اعتراضات کم ہوجائیں گے۔ وہ سوچنے لگا کہ داعی کے فرائض میں سے ایک فریضہ یہ بھی ہونا چاہئے کہ دعوت سننے والے کی انا (ego) کو نہ چھیڑے، جب کہ ہمارے یہاں دعوت کا کام ہی کسی کو ذلیل کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ آپ نے کپڑے کیسے پہنے ہوئے ہیں؟ یہاں آپ ٹی وی کیوں دیکھتے ہیں؟ آپ فلاں جگہ کیوں جاتے ہیں؟ فلاں سے کیوں ملتے ہیں؟ فلاں سے کیوں نہیں ملتے؟ پہلے دن ہی داعی صاحب ہر اس چیز کے دشمن ہوجاتے ہیں جو آپ کو محبوب ہو۔ ارے بھائی، اسے بہتر محبت کا بتاؤ، اسے بہتر ذکر سکھاؤ۔ دل خود بخود اچھی چیزوں پر مائل ہوجائے گا، پھر بتاتے رہنا چھوٹے موٹے مسائل۔ داعی ایسا بندہ ہوتا ہے جو بندے اور اللہ کے بیچ میں آجاتا ہے۔ اب اگر غلط راستہ بتاؤ گے تو پوچھ تو تمہاری بھی ہوگی ناں؟ اگر اجازت ملی تو میں صاف کہہ دوں گا کہ اللہ اس کے پاس آیا تھا تیرا پوچھنے اس نے ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا۔
پتہ نہیں ہر دینی آدمی کو، (مولانا کہنا تو ظلم ہوگا، ہر شخص جو داڑھی رکھ کے دین کی تبلیغ شروع کردیتا ہے وہ مولوی تھوڑا ہی ہوتا ہے، مولوی کے لئے تو بہت پڑھنا پڑتا ہے) ہاں باتونی کہہ سکتے ہیں، تو ہر باتونی آدمی کو میری جینز سے ہی دشمنی کیوں ہوتی ہے؟ اور ایسا ہی کیوں ہے کہ ظاہری شکل و صورت کو باطن پر ترجیح ہے۔ اللہ میاں ہمارے اندازوں سے کتنے مختلف ہیں۔ عبداللہ اپنی ذہنی رو میں بہتا ہی چلا گیا۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ قیامت کے روز بہت سے لوگوں کو سرپرائز ملے گا، بہت سی نیکیاں جنہیں وہ نیکیاں سمجھ رہے ہونگے وہاں سرے سے شاید ہوں ہی نہیں اور بہت سے گناہ شاید گناہ کے خانوں میں نہ ہوں اور بہت سی نیکیاں شاید گناہ میں لکھ دی جائیں (جو اللہ کے لئے نہیں ہوں) اور بہت سے گناہ شاید نیکیوں میں لکھ دئیے جائیں۔ اللہ کی مرضی ہے، وہ دلوں کے بھید جانتا ہے، اب اگر صحابہ کرام سے غلطیاں سرزد نہ ہوتیں تو سزائیں کسے ملتیں؟ اور اگر شرعی حدود اس وقت نہ لگتیں تو آج 1400 سال بعد کون لگاتا؟
حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز ایک بندہ آئے گا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسکے تمام گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیں گے تو وہ کہے کہ اللہ تعالیٰ آپ نے فلاں فلاں گناہ تو گنے ہی نہیں؟ بس آدمی کو اگر بُرائیاں ہی گننی ہوں تو کیا اپنا نفس کافی نہیں ہے؟ کسی دوسرے کے بارے میں ہمیشہ گمان رکھنا چاہیئے کہ بخشا جائے گا، کوئی ایسی نیکی کرجائے گا کہ اگلا پچھلا سب برابر ہوجائے گا اور اپنے نفس سے اِتنی بدگمانی ہونی چاہیے کہ یہ کافر کرکے چھوڑے گا، بس ﷲ ہی بچالے۔
عبدﷲ کا ذہن رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، اُس کے آنسو اُسکے ذہن کی رفتار کا ساتھ دے رہے تھے، وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کر رہا تھا کہ اُسے اِن نیک آدمیوں سے سخت بات نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ ساری نیکی بھی برباد ہوئی۔ کاش خاموش رہتا۔ جب بولتا ہے کوئی نہ کوئی فساد کا سامان ہوتا ہے۔ اپنی ذات سے بڑا فتنہ دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ آج عبدﷲ کو اِس بات کا مکمل یقین ہوگیا۔ عبدﷲ نے آج تمام لوگوں کو صدقِ دل سے معاف کردیا کہ دل صرف ﷲ کی یاد کے لئے ہوتا ہے نہ کہ اِس لیے کہ لوگوں کی باتیں اُس میں رکھی جائیں۔ عبدﷲ آج پھر سراپا دعا تھا،
’’اے دعاؤں کو قبولیت بخشنے والے ﷲ، اے ترس کھانے والوں میں سب سے زیادہ ترس کھانے والے ﷲ، اے آسوں کے آس والے ﷲ، اے عاصیوں کے آس والے ﷲ، اے وہ ﷲ کہ جس سے سب کو آس ہوتی ہے۔ چرند، پرند، انسان، ملائکہ اور جن سب کی نظریں، سب کی آس صرف تجھ پر ہی آکر رکتی ہیں۔ میری آس نہ توڑیو۔ اے عزت والے ﷲ، میری لاج رکھ لے۔‘‘
ﷲ سائیں، مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہ ہو وے ہے۔ اُمّتِ محمد صلّی ﷲ علیہ وآل وسلّم میں سے ہوں۔ یہ سارے مخمل لوگ ہیں۔ دین کا کام کرتے ہیں، میں اِک ٹاٹ رہ گیا۔ دنیا کیا کہے گی۔ تجھے اپنے نبی صلّی ﷲ علیہ وآل وسلّم سے محبت کا واسطہ مجھے بھی مخمل کردے۔ اے ﷲ تُو صمد ہے، کیا ہی خوبصورت نام ہے تیرا، خوف و اُمید دونوں اِس میں یکجا ہوگئے ہیں۔ جب تیری بے نیازی پر نظر پڑتی ہے تو ڈر جاتا ہوں کہ سارے اعمال سے بے نیاز ہوگیا کہ میرے لیے تھوڑا ہی کی تھیں تو مارا جاؤں گا، ہاں اگر رحمت کی نظر کی اور بے نیازی میں کوئی پرواہ نہ کی کہ کتنے گناہ لے کے آیا ہوں تو بیڑہ پا ر ہے۔
اے ﷲ! میں بار بار گناہ کرتا ہوں۔ گناہ دہرایا جائے تو غلطی نہیں مرضی بن جاتی ہے، اے ﷲ! معاف کر دے۔ مجھے تھوڑے لوگوں میں سے کردے جن کے بارے میں تو بشارتیں دیتا ہے قرآن میں کہ وہ جنّت میں جائیں گے، وہ جو تیرا شکر ادا کرتے ہیں، وہ جو تیرے حکم پر چلتے ہیں۔ اُن زیادہ میں سے نہ کرنا جو حکم عدولی کرتے ہیں جو جہنم میں جائیں گے، جو نافرمان ہیں۔
اے ﷲ، کوئی اگر ہوتا تیرے علاوہ تو میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ عبادت تیری کرتا اور نافرمانی اُس کی کرتا مگر کوئی ہے ہی نہیں، کوئی چوائس نہیں ہے۔ نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر نافرمانی بھی تیری ہی ہوجاتی ہے۔ تُو معاف کردے، درگزر فرما دے۔ آ ئندہ نہیں کروں گا اور آئندہ کرلوں تو پھر سے معاف کردینا۔ گناہ بھی تو ایک تعلق ہے نا میرے ﷲ، استغفار بھی تو ایک تعلق ہے نا میرے آقا، یہ روتا، پیٹتا، گرتا، پڑتا بندہ بھی تو تیرا ہے نا میرے ﷲ۔ خیال رکھنا میرے مالک، نا فرمان ہوں مگر ہوں تیرے در کا، تیری ہی نافرمانی ہوجاتی ہے کسی اور کی نہیں۔
اے ﷲ، میں دِن کے اجالے میں غرور کرتا ہوں اور رات کی تاریکیوں میں گناہ۔ میں تو کسی پل بھی تیرا فرمانبردارنہ رہا، میں تو مارا جاؤں گا۔
تو مجھے میرے گناہوں پر معاف فرما،
تو مجھے میرے نیکیوں پر بھی معاف کردے۔
آئندہ غلط بات نہیں کروں گا۔
من جا میرے ربّا، من جا میرے ربّا۔”
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ کی زندگی لشتم پشتم گزر رہی تھی۔ مجموعی طور پر وہ لکھنے پڑھنے درس و تدریس اور سوچنے میں ہی مصروف ہوتا اور اگر کچھ ٹائم بچ جاتا تو کوئی نہ کوئی واقعہ اُسے تمام دِن تک محو رکھتا۔
عبدﷲ کو ملک کی سب سے بڑی ڈیفنس یونیورسٹی سے ایک بہت اہم کورس کرنے کا دعوت نامہ مِلا، جِسے اُس نے بخوشی قبول کرلیا۔ کچھ ہی ہفتوں کے اس کورس میں عبدﷲ کو ملک کی تمام دفاعی تنصیبات دیکھنے کا موقع ملا، تمام دِفاعی اداروں اور سِول گورنمنٹ کے حکّام سے ملا، چاروں وزرائے اعلیٰ سے ملاقات ہوئی اور وطنِ عزیز کے تمام صوبوں اور قبائلی علاقہ جات میں رہنے کا موقعہ مِلا۔ عبدﷲ نے جتنا پاکستان کو اِن چند ہفتوں میں جانا اتنا کبھی نہ جانا تھا۔ اسے شدت سے اس بات کا احساس ہو ا کہ وطنِ عزیز میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔
بغیر اعلیٰ تعلیم کے، بغیر زندگی کی بنیادی سہولتوں کے بھی اگر یہ قوم یہ سب کچھ کرسکتی ہے۔ نیو کلئیر پاور بن سکتی ہے، ہر چھٹے روز ایک خود کش حملے اور ہر چھٹے روز ڈرون حملے میں مرنے کے باوجود زندہ رہ سکتی ہے تو وہ کیا چیز ہے جو یہ نہیں کر سکتی۔
اگر بندہ ہمت کرے اور محنت کرے تو نبوت کے علاوہ وہ کونساایسا مقام ہے جو حاصل نہ کیا جاسکے۔ سُپر پاور بننے سے خُدا کی ولایت اور دوستی تک سب ہمت و اُمید کے ہی تو مرہونِ منّت ہیں اور سب سے بڑا ظلم جو اِس قوم پر ہوا وہ اُمید کی غربت ہے، نا اُمیدی کا یقین ہے۔ اندھیرے کی نوید ہے جو ہمارے ٹی وی چینلز ہمارے جوانوں کی رگوں میں ہر روز نشے کی طرح اُتار رہے ہیں۔ پہلے کوئی سوچتا تھا کہ ایسے بولیں گے تو کوئی کیا کہے گا، جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے وہ کوئی بھی مرگئی۔ ہمارے ملک میں لوگ زندگی کے خواب دیکھتے ہیں، باہر والے خوابوں کی زندگی گذارتے ہیں، اور اب تو خواب دیکھنے والے بھی کم ہی رہ گئے ہیں۔ مہنگے خواب دیکھنے کے لئے آنکھیں بیچنا پڑتی ہیں، دن و رات ایک کرنے پڑتے ہیں، پّتہ ماری کی محنت ہوتی ہے، مگر جو لوگ ہمت نہیں کرتے وہ پھر کرامات/معجزات کا انتظار کرتے ہیں اور انتظار کرتے کرتے فنا ہوجاتے ہیں۔
عبدﷲ آج سوچنے لگا کہ ہمارے ملک، ہمارے معاشرے کا اگر کوئی تجزیہ کرے یا تاریخ لکھے تو وہ کیا لکھے گا، شاید وہ لکھے کہ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا،جِس میں تری باقی تھی، جس میں ایمان کی رمق موجود تھی، جس میں دین کی چنگاری پنہاں تھی۔ ایک ایسی قوم تھی جو روز مرتی تھی مگر جینا نہیں چھوڑتی تھی، جو لٹانے پر آئے تو سب کچھ لٹا دیتی تھی، جو جیتتی تھی تو بچوں کی طرح گلیوں میں آجاتی تھی۔ جو ناچتی تھی تو موسم بدل دیتی تھی اور جب روتی تھی تو آسمانوں کو رُلا دیتی تھی، مگر ایک قوم ایسی جس میں شدت تھی، محبت میں بھی اور نفرت میں بھی، جس کو کچھ دینے اور سب کچھ دینے کا فن آتا تھا، جس کے بچے کانے اور تختی سے پڑھ کے نکلے اور ایٹم بم بنا ڈالا، جو بغیر چھت کے سوجاتی تھی، جو بنا پیے بھی سیراب تھی، اور جو ایک بار ٹھان لے اس کو پورا کرنے میں پوری کائنات اس کا ساتھ دیتی تھی۔
مگر،
اس قوم کو اپنی قوت کا اندازہ ہی نہ ہوا، اسے معلوم ہی نہ ہوسکا کہ وہ کس خمیر کی مٹی سے بنی ہے، اس کو لوگوں نے، لیڈروں نے اپنی اپنی منشاء کے مطابق بانٹا اور تقسیم کیا۔ اس نے اپنے محسنوں کو بھلا دیا اور نجات دہندہ کو رد کر دیا۔ اس نے اپنے دین کو بھلا دیا، اپنے ایمان کو بیچ دیا اور اپنے اوپر پڑھنا لکھنا اور سچ بولنا حرام کر لیا۔
پاکستانی بھی عجیب قوم ہے یہ بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی ہے، ہر شخص اپنے پہ ہونے والے مظالم کی داستان سُناتا ہے، مگر جب جہاں موقع ملتا ہے اپنے سے کمزور کو پیس دیتا ہے اور کوئی رعایت نہیں چھوڑتا، پردے کے ہلنے سے ڈرنے والا مسلمان ﷲ سے نہیں ڈرتا اور اس ملک میں لوڈ شیڈنگ بھی بہت ہے۔ صرف بجلی کی ہی نہیں کہ بلب بجھ گئے ہیں، خانقاوں میں چراغ بھی بجھ گئے ہیں، مسجدوں کی رونق بھی بجھ گئی ہے، بچوں کے چہرے بھی بجھ گئے ہیں اُمیدوں کی شمع بھی گل ہوگئی ہے، ستاروں کی چمک بھی ماند پڑگئی ہے، چاند کا حُسن بھی زائل ہوگیا ہے۔ منبر و محراب بھی خاموش ہیں الغرض نصیبوں کی لوڈ شیڈنگ ہوگئی ہے۔
یہ قوم علم سے ایسے متنفر ہوئی، ایسی بے توفیق ہوئی کہ کوئی مہینے میں 5 ہزار صفحات بھی نہیں پڑھتا، صرف وہ علم
حاصل کرنا چاہتی ہے جس سے پیسہ کما سکے، معاشی حیوان بن جائے مگر کاش پیسہ ہی کمالیا ہوتا، وہ بھی کہاں کمایا؟
مؤرخ لکھے گا کہ جس قوم کو اپنے پیچھے ادارے، افراد، اور منصوبے چھوڑ کے جانے تھے وہ پلاٹس اور شاپنگ پلازے چھوڑ گئی۔ مؤرخ لکھے گا جس قوم نے روٹی اس لئے کھانی تھی کہ رزاق کا شکر ادا کرسکے، روٹی اُس قوم کو کھا گئی۔ مؤرخ لکھے گا ایک ایسی قوم تھی جو فطرت سے ٹکرا گئی اور پھر فطرت نے اُسے پچھاڑ دیا۔ مؤرخ لکھے گا کہ جتنا چھپا کے گناہ کرتی تھی اتنا چھپا کے نیکیاں کرگئی ہوتی تو سُرخرو ہوجاتی، اور شاید یہ بھی لکھے کہ جس اسلام کے نام پر ملک لیا، اسی اسلام کو اسی ملک میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا۔
ایک ایسی قوم جسے غلامی سے عشق تھا، جس نے پلاننگ کا سارا کام اپنے آقاؤں کے سپرد کر دیا تھا کہ غلام پلاننگ تھوڑا ہی کرتا ہے، جس کا ریشہ ریشہ غلام تھا، جسے غلامی اچھی لگنے لگی تھی، جسےغلامی سے محبت ہوگئی تھی، جسکی رگ و پے میں غلامی سرایت کر گئی تھی، جس کا مزاج غلامانہ بن گیا تھا۔ جہاں غلامی کے بغیر جینا مشکل تھا، جہاں آزاد بندوں کا سانس رک جاتا تھا یا روک دیا جاتا تھا۔ ایک ایسی قوم جو نادیدنی زنجیروں میں جکڑ دی گئی، جسے شک کی وادی میں ہانک دیا گیا، جس میں اعتماد نہ رہا اور جب اعتماد نہ رہے تو کیسے کوئی پہاڑوں کا سینہ چاک کرے اورکیسے کوئی کائنات کو مسخر کرے۔
مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ اس قوم نے خود محنت نہ کی بلکہ بیا کا گھر بھی توڑ دیا، جس نے کم ظرفوں کو دین کی تعلیم دے دی اور بدعقلوں کو دنیا کی، یہاں بھنورے میں پلے ہوئے لوگوں کو حکومت ملی جنہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ کسی اور کا سچ بھی سچ ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا ملک تھا جہاں غریب، کسمپرسی کی حالت میں کم ظرف کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہے، جہاں ہر کام کے لئے غریب کو دن میں ہزاروں سجدے کرنے پڑتے تھے، جہاں سچ بولنے کی زکوٰۃ تنہائی تھی، جہاں ٹھنڈے مزاج لوگوں کو بےغیرت کہا جاتا تھا، جہاں گناہ تکرار کے باعث عادت بن چکے تھے۔ جہاں علم بغیر تزکیے کے پھیلا اور جہاں ذکر بغیرعلم کے پروان چڑھا، ایک ایسی قوم جسے بے وقوفی اور حُسنِ ظن میں فرق ہی پتہ نہ چل سکا، اور ایک ایسی قوم جو سوا سو سالوں سے تصویر کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ ہی نہ کرسکی، ایک ایسی قوم جسے ﷲ 67 سالوں سے درگذر کرتا چلا آیا، جس کے ساتھ مالکِ کُل نِباہ کرتا چلا آیا مگر اس نے نباہ نہ کی۔
مورخ شاید یہ بھی لکھے کہ اس قوم نے ایک بچی کے سر میں گولی ماری تھی اور اس کا علاج تک نہ کرسکی اور جب اس نے ملک سے باہر جا کے کتاب لکھی تو پورے ملک نے کفر کے فتوے لگا دیئے مگر کسی ایک بچی کو تعلیم یا زندگی کی گارنٹی نہ دی۔ ایک ایسی قوم جو، اسکولوں کو بموں سے اُڑا دیا کرتی تھی اور جہاں عالم پڑھائی کو بےغیرتی کی وجہ بتاتے تھے، ایک ایسی قوم جہاں جھوٹ کی بیسیوں قسمیں تھیں، یہاں تک کہ جس شخص پہ تھوکنے کو دل نہ چاہے اس کی بھی خوشامد کریں۔
ایک قوم جس کو کہانیاں سنانے کا شوق تھا مگرعمل کا نہیں، جو سچی بات سے منہ پھیرلیتی تھی اور کِبر کرتی تھی، جہاں حق گوئی قابلِ تعزیر جرم تھا اور جھوٹ بولنے والوں کی جے جے کار، جہاں لوگوں نے بولنا اِس لئے سیکھا کہ باقی لوگوں کو بیوقوف بناسکیں اور حدیث کی روشنی میں ملعون ٹھہرے۔
ایک ایسا ملک جہاں 5 ہزار بچے سالانہ نالیوں اور کچرے کے ڈبّوں میں پھینک دیئے جاتے ہوں، 6 ہزار قتل ہوجاتے ہوں، 10 لاکھ FIR کٹتی ہوں، 1500 بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہو، 80 کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوجاتی ہو، لوگ بچے بیچ کے پیٹ بھرتے ہوں اور ایمبولینس میں انتظار کرتا بیمار، صاحب کے گذر جانے تک لاش بن جاتا ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبدﷲ پھر مفتی صاحب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، اپنے سوالات کی فہرست، ڈائری اور قلم لے کر،
* مفتی صاحب دنیا کسے کہتے ہیں؟
ہر وہ چیز جو ﷲ کی یاد کو بھلا دے وہ دنیا ہے۔
* ندامت کی انتہا کیا ہے؟
چھوڑ دے اس کام کو، ﷲ کی یاد بڑی چیز ہے، ﷲ بڑے ہیں، کیا منہ دکھائے گا؟ نہ کرے ایسا۔
* توبہ کی انتہا کیا ہے؟
آدمی اپنی نیکیوں پہ بھی توبہ کرے کہ ان کا حق ادا نہیں ہوا۔
* آپ لوگ کہتے ہیں کہ، ہم تو گناہ گار بندے ہیں، کچھ آتا جاتا نہیں، یہ کیا بات ہوئی؟
میں کمپیوٹر سائنس کا اُستاد ہوں اب اگر میں کلاس میں جا کر کہوں کہ مجھے تو کچھ آتا جاتا نہیں تو کلاس پڑھے گی کیوں؟ چلیں مان لیا کہ آپ پنڈی اور اسلام آباد کے سب سے گناہ گار آدمی ہیں تو بتائیے میں کیوں آؤں اِصلاح کے لئے آپکے پاس؟ یہ آپ نیک لوگ اتنی confusion کیوں مچاتے ہیں؟
ایسے ہی ہوتا ہے عبدﷲ، بالکل ایسے ہی ہوتا ہے۔ جو شخص جتنا پڑھے گا اتنا ہی جاہل رہ جائے گا۔ ہر شخص کی مجہولات اس کی معلومات سے زیادہ ہیں۔
رسالتِ پناہ حضرت محمد صلّی ﷲ علیہ وآل وسلّم دِن میں 70 بار استغفار کرتے تھے۔ وہ تو معصوم تھے تو پھر کس گناہ سے استغفار کرتے تھے۔ بندہ جب معرفت کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو اس کا ہر آنے والا دِن اسے وہ مقامات دکھاتا ہے کہ گذشتہ دن کو دیکھ کے اس پر استغفار ہی کرسکتا ہے، صرف ﷲ کو پتہ ہے، کون کتنا متقی ہے بندے کو تو اپنے بارے میں ڈرتے ہی رہنا چاہیئے۔ جوانی پہ خوف غالب ہو تو بڑھاپے میں اُمید قائم رہتی ہے۔ اِنہی دو کیفیات کے درمیان رہتے ہوئے زندگی گذارنی چاہیے۔
جاری ہے