* اچھا، برکت کسے کہتے ہیں؟
برکہ عربی میں زیادہ کو کہتے ہیں، تھوڑا زیادہ ہوجائے تو اِسے برکت کہتے ہیں۔ ﷲ برکت دینے والا ہے اور کبائر سے برکت اُٹھ جاتی ہے۔
* اچھی صحبت اور فرائض کی تکمیل کے علاوہ کیا چاہیئے ہوتا ہے؟
تقویٰ ۔۔۔۔۔ تقویٰ آدمی کو اندر سے مانجھ دیتا ہے اور جب ذہانت کے ساتھ تقویٰ ملتا ہے تو ﷲ اِلہام کرتا ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ جو کام کرے یہ سمجھے کہ ﷲ دیکھ رہا ہے اور ﷲ کے لیے ہی کرے ۔
* میرا بیرونِ ملک سفر رہتا ہے اور سفر میں عموماً نامحرم پر نظر پڑ ہی جاتی ہے، کیا کروں؟
کوشش کریں جتنا بچاؤ ممکن ہے وہ کریں اور جو دن میں کئی بار نظر اپنے آپ پر پڑتی ہے آئینے میں اس کا کیا؟ جو اپنے آپ سے کہتا ہے کہ واہ کیا لگ رہے ہو، کیا بات ہے؟ اُس کا بھی تو سوچے۔ کئی ایک ایسے گناہ ہیں جن کو ہم گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ یہ جو نفس روز انسان سے باتیں کرتا ہے نا یہ جو پٹیاں پڑھاتا ہے یہ بہت خطرناک ہیں۔ با یزید بسطامیؒ کے پاس ایک لڑکا آیا اور روئے جارہا تھا کہ حضرت بات سن لیں، گناہ کر آیا ہوں۔ اکیلے میں پوچھا تو کہنے لگا حضرت شراب پی آیا ہوں۔ تو انہوں نے جواب دیا او ہو، ہم سمجھےغیبت کر آئے ہو، اب شراب پینا تو بُری بات ہے پر مگر غیبت تو اس سے بھی بُری ہوئی نا۔
* مفتی صاحب کبھی کبھی نماز پڑھتے ہوئے گھبراتا ہوں کہ ﷲ کا سامنا کیسے کروں؟ اتنے گناہ ہیں۔
گناہوں کے ایسے تجزیے کرنا کہ بندہ ﷲ کی رحمت سے ہی مایوس ہوجائے شیطان کی بڑی چال ہے۔ گناہ سے اس وقت تک پریشان رہو جب تک سر زد نہ ہوجائے، بعد میں ﷲ سے معافی مانگو، نماز پڑھا کرو، اتنا نہ سوچا کرو، ﷲ رحم کرے گا۔
* یہ جو ہم روزانہ میرے ’’پیارے‘‘ نبی صلّی علیہ وآل وسلّم بولتے ہیں تو پیارے پہ جھوٹ کا گناہ تو ملتا ہوگا کہ زندگی میں تو پیارے ہوتے نہیں ہیں، نہ بولیں ایسا۔
ضرور پیارے بولا کریں، عقیدت کا ثواب ہوگا اور یہ بولنا اور یہ سوچ ایک دن ضرور راہ پہ لے آئی گی۔
* مٹے ہوئے لوگ کون ہوتے ہیں؟ جن کی انانیت ختم ہوگئی ہو؟
حضرت حارث محاسبیؒ ایک دن مسجد میں بیٹھے تھے۔ ایک شخص آیا اور ان کوحلیے سے مسجد کا خادم سمجھا تو کہنے لگا مسجد اتنی گندی ہے صاف کردو، وہ اُٹھ کے باہر چلے گئے۔ شخص بڑا غصے میں آیا کہ میں نے کام کہا اور یہ باہر چلے گئے۔ باہر جا کے پوچھا تو کہنے لگے، میں نے نظر دوڑائی تو مسجد میں سب سے زیادہ ناپاک چیز اپنی ہی ذات نظر آئی تو آپ نے کہا تھا صفائی کر دو تو میں باہر آکے بیٹھ گیا۔
ایک اور بزرگ تھے بغداد میں، ایک شخص نے سوچا کہ انہیں آزماتے ہیں، ان کے پاس جا کر کہنے لگا کہ حضرت کل شام کھانے پہ تشریف لے آئیے مغرب کے بعد اور مغرب پاس والی مسجد میں ہی پڑھ لیں۔ وہ نماز پڑھ کے پہنچ گئے۔ دروازے پہ دستک دی کسی نے نہ کھولا، وہیں سائیڈ پر بیٹھ گئے، عشاء ہوگئی دروازہ نہ کھلا تو عشاء پڑھنے چلے گئے پھر واپس آ کے بیٹھ گئے۔
پوری رات گزرگئی۔ تہجد کے وقت وہ میزبان باہر نکلا اور حیرت سے پوچھا آپ یہاں کیسے؟
اُس سے کہا کہ آپ نے دعوت پر بلایا تھا تو کہنے لگا، میرے تو ذہن میں نہیں ہے۔ اچھا آپ بیٹھیں تو میں کھانا لے کے آتا ہوں۔ پھرغائب، فجر ہوگئی اشراق ہوگئی دن چڑھے نکلا اور کہا گھر میں عورتیں سوئی ہوئی ہیں، یہ لیں ایک سکہ اور بازار سے کھالیں، انہوں نے شکریہ ادا کیا سکہ لیا اور واپس آ گئے۔
شام کو وہ شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ میں تو آزما رہا تھا تو کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں بغداد کے کتے بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ جہاں سے ملنے کی اُمید ہو وہاں پڑے رہتے ہیں۔
عبدﷲ یہ تھے وہ لوگ جو مِٹے ہوئے تھے۔
* عبدﷲ نے روتی آنکھوں سے پوچھا، اِخلاص کسے کہتے ہیں؟
جنید بغدادیؒ کہتے تھے کہ میں نے اخلاص ایک حجام سے سیکھا۔ ایک دن میرے استاد نے کہا کہ تمھارے بال بہت بڑھ گئے ہیں اب کٹوا کے آنا۔ پیسے کوئی تھے نہیں پاس میں، حجام کی دکان کے سامنے پہنچے تو وہ گاہک کے بال کاٹ رہا تھا، انہوں نےعرض کی چاچا! ﷲ کے نام پر بال کاٹ دو گے؟ یہ سنتے ہی حجام نے گاہک کو سائیڈ پر کیا اور کہنے لگا پیسوں کے لئے تو روز کاٹتا ہوں، ﷲ کے لئے آج کوئی آیا ہے۔
اب ان کا سر چوم کے کرسی پہ بٹھایا۔ روتے جاتے اور بال کاٹتے جاتے، حضرت جنید بغدادی نے سوچا زندگی میں جب کبھی پیسے ہوئے تو، انکو ضرور کچھ دوں گا، عرصہ گذر گیا، یہ بڑے صوفی بزرگ بن گئے۔ ایک دن ملنے کے لئے گئے، واقعہ یاد دلایا اور کچھ رقم پیش کی تو حجام کہنے لگا، جنید تو اتنا بڑا صوفی ہوگیا تجھے اتنا نہیں پتہ چلا کہ جو کام ﷲ کے لئے کیا جائے، اس کا بدلہ مخلوق سے نہیں لیتے۔
* بچوں کی تربیت کیسے کروں؟
اولاد کو صرف رزقِ حلال کھلاؤ۔ رزقِ حلال میں بڑی برکت ہے یہ ایک دن اپنا اثر دکھائے گا۔ صدقہ اولاد کے سامنے کیا کرو تاکہ اُن کی عادت بنے۔ نماز کے لئے کہتے رہو۔ بڑوں کا ادب اور تمیز سکھاؤ۔
* اچھا، آخری سوال، اگر کسی بندے سے لڑائی ہوجائے تو کیا کروں؟
صرف اتنا دیکھ لیں کہ اُس کا ﷲ کے ساتھ کیا معاملہ ہے، اگر تو اچھا ہے تو چپ رہیں۔ ﷲ آپ کے نقصان کا مداوا کہیں اور سے کردے گا مگر اپنے دوست کو آپ کے حوالے نہیں کرے گا اور اگر معاملہ درست نہیں ہے تو بھی چپ رہیں کہ جب ﷲ کا عذاب آئے گا تو آپ کا بدلہ بھی پورا ہو جائے گا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
امریکہ نے نئی کمپنیوں کے لئے ایک start up مقابلے کا انعقاد کیا، ملک بھر سے 400 کمپنیوں نے مرحلہ وار پروگرام میں شرکت کی۔ عبدﷲ کی کمپنی بھی جیتتے جیتتے فائنل میں پہنچ گئی۔ آج شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں فائنل رزلٹ کی اناؤنسمنٹ تھی۔ عبدﷲ تیار ہوکر گیا۔ بلّو کو، بچوں کو، مفتی صاحب کو، کمپنی کے تمام لوگوں کو لے کر گیا۔ آج اُس کا دِل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا، پروگرام میں اُس کی فیلڈ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے تمام چوٹی کے لوگ موجود تھے، تمام کمپنیاں اور عبدﷲ سوچ رہا تھا کہ اگر آج اُسے پہلا انعام مل جائے تو کمال ہوجائے۔
اِس ملک میں لوگ اس کی ڈگریاں اس کے منہ پر مار کے نکال دیتے تھے اور کہتے تھے کہ عبدﷲ کا پڑھ جانا ایسے ہی ہے، جیسے سورج مغرب سے نکلے۔ عبدﷲ مفتی صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور دِل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ اے ﷲ! تُو نے کہا، مجھے بھی دکھا اپنی شان، آج نکال ہی دے سورج کو مغرب سے۔
آج جِتا ہی دے، آج دکھا ہی دے، اپنی قدرت کا مظہر بنادے، اتنے میں پہلی پوزیشن کا اعلان ہوا اور عبدﷲ کی کمپنی اوّل آئی، عبدﷲ کے مُنہ سے صرف اتنا نکل سکا۔
’’کیا بات ہے میرے ﷲ‘‘ جب وہ اسٹیج کی طرف جارہا تھا تو دل میں کہتا جارہا تھا۔ ملک کے تمام دانشور جو میری فیلڈ میں ہیں آج میرے پاؤں کے نیچے اور یہ ہے ﷲ کا فضل جو کسی وجہ کا محتاج نہیں ہے۔
عبدﷲ آج پھولا نہیں سما رہا تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ آج سے روز ایک تسبیح اس جملے کی پڑھے گا۔ کیا بات ہے میرے ﷲ! تا کہ ربّ کا شکرادا ہوسکے۔ ٹی وی والوں، اخبار والوں اور فنکشن سے فراغت کے بعد عبدﷲ گھر کو روانہ ہوا۔ بلّو اور عبدالرحمن کے ساتھ مغرب کا وقت ہو چلا تھا۔ اس نے گاڑی مسجد میں روکی، نماز ادا کی، شکرانے کے نفل پڑھے اور پھر چل پڑا، تھوڑا سا آگے پہنچا تو روڈ بلاک تھا اور آگے پتھر رکھے ہوئے تھے۔ عبدﷲ اور اس کا ڈرائیور گاڑی سے اتر کر پتھر اٹھانے لگے تو آس پاس سے 6 مسلح ڈاکوؤں نے گھیر لیا۔
انعام کی رقم، لیپ ٹاپ، بلّوکے زیور، بٹوہ، موبائل فونز سب ہی کچھ تو لے لیا۔ جب وہ جانے لگے تو عبدﷲ نے کہا، بھائی! بات سنو، میرا سامان واپس کردو، تو وہ ہنسنے لگے اور کہنے لگے بکواس بند کرو۔ ہم سانس بعد میں لیتے ہیں گولی پہلے مارتے ہیں۔ عبدﷲ نے کہا، ﷲ پوچھے گا۔
اس پر ایک ڈاکو بہت غصہ ہوا، کہنے لگا دھمکی دیتے ہو۔ عبدﷲ نے سوچا اور کہا کہ ہاں غریب آدمی دھمکی تو دے ہی سکتا ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ وہ سب عبدﷲ پر پل پڑے، لاتیں، گھونسیں مشین گن کے بٹ، 3 دانت توڑے، ایک پسلی اور چہرے پہ مار مار کے بھرتا بنا دیا، بِلّو کو بھی مار پڑی اور بیٹے کو بھی، اور عبدﷲ ٹوٹی ہوئی ٹرافی کے ساتھ گھر واپس۔
سب نے کہا پولیس کو فون کرو۔ کچھ کرو مگر عبدﷲ سیدھا کمرے میں گیا۔ دروازہ بند کیا۔ خون رکنے کے بعد وضو کیا اور دو رکعت ’’نماز دوستی‘‘ کی نیتّ کرکے جانماز پر کھڑا ہوگیا۔ پتہ نہیں کیسی نماز پڑھی کہ قرآن کم اور آنسو زیادہ تھے، رکوع میں گیا تو جیسے اُٹھنا ہی بھول گیا ہو اور سجدے میں گیا تو جیسے جسم اُٹھ جانے کے باوجود دل سجدے میں ہی چھوڑ آیا ہو تمام عمر کے لئے۔
پتہ نہیں نماز تو گھر پر پڑھ رہا تھا مگر سجدے کی ضرب کہاں لگ رہی تھی۔ اِتنی لمبی دو رکعتیں اس نے زندگی میں کبھی نہ پڑھی تھیں۔ غم بھی ﷲ تعالیٰ کی نعمت ہوتے ہیں کہ بندہ رجوع کرتا ہے۔
عبدﷲ نے دعا کو ہاتھ اُٹھائے، بِلّو بھی پیچھے آکے جا نماز سے لگ کے بیٹھ گئی،
’’اے میرے ﷲ! میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے، میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے، کوئی بھی تو نہیں ہے۔ اے ﷲ تیری حمد بیان کرتا ہوں۔ یا ﷲ تیرا حق بنتا ہے کہ تیری عبادت کی جائے، میرے مالک تیرا حق بنتا ہے کہ تیری تعریف کی جائے۔ میرے ربّا تیرا حق بنتا ہے کہ تجھ سے دُعا کی جائے، جو کچھ بھی ہوا بے شک میری گناہوں کی نحوست تھا۔ مجھ میں اور میرے گناہوں میں زمین و آسمان کا فاصلہ کردے۔ مشرق و مغرب کا فاصلہ کردے، دھودے میرے گناہ میرے ﷲ۔
میرے ﷲ! پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے تیری قسم کھا کے کہا تھا کہ جو خرچ کرے گا تُو اس کا مال بڑھا دے گا اور جو معاف کرے گا تُو اِس کی عزّت بڑھا دے گا۔
اے ﷲ میں نے تجھے خوشی میں یاد رکھا تھا، تُو خوب جانتا ہے، تُو مجھے غم میں نہ بُھلانا، تو یقین کیوں نہیں کرتا کہ میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے۔ اے ﷲ تیرے سِوا کوئی بچانے والا نہیں ہے۔ کوئی مارنے والا بھی نہیں ہے۔ موت سے بندے کو صرف موت ہی تو بچاتی ہے۔ او، میرے ﷲ، میری سن، ساڈی وی سن لے میرے مالک، اے شہنشاہ یہ دو رکعت نفل ہے تیرے دربار میں تیرے بندے کی طرف سے، اے ﷲ، مقدر اتنی بار بدلتا ہے جتنی بار بندہ تجھ سے رجوع کرتا ہے، اے ﷲ میری سُن، دیکھ یہ بِلّو بھی ساتھ بیٹھی ہے، اِسکی بالیاں نوچ لیں، کان سے خون بہہ رہا ہے۔
ﷲ! میری سُن، میری سن، او ترس کھانے والے ﷲ، اے ﷲ میں آج زیر و زبر
ہوگیا، تیرے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ اے ﷲ حسد کی آنکھ لگ گئی، فضل کی آنکھ بھی لگا۔ اے ﷲ میں اِقرار کر رہا ہوں کہ میں گنا ہگار ہوں، اب تو معاف کر دے
یا ذُوالجلا ل والاکرام تکلیف پہنچی ہے
یا ذُوالجلا ل والاکرام دانت ٹوٹ گئے۔ یا ذُوالجلا ل والاکرام لاتوں سے مارا ہے۔
یا ذُوالجلا ل والاکرام خوشی نہ دیکھی گئی اِس ملک سے میری، یا ذُوالجلا ل والاکرام عین خوشی کے وقت پر مارا ہے۔ اے ﷲ! تجھ سے مدد ما نگتا ہوں، نماز کے ذریعے اور دعا کے ذریعے، اے بغیر موسم کے پھل دینے والے ﷲ میری سُن۔ کبھی بھی کسی ایسے بندے کو تنگ نہیں کرنا چاہیئے جِس کا ﷲ کے سِوا کوئی نہ ہو، میرا تو تیرے سوا کوئی نہیں ہے، تُو تو جانتا ہے، میرے تو ماں باپ بھی مرگئے۔ دوست بھی کوئی نہیں۔ ہمراز بھی کوئی نہیں، ہم پیالہ بھی کوئی نہیں۔ سمجھنے والا بھی کوئی نہیں۔ پکّا یتیم ہوں میرے ﷲ ۔
ﷲ زمین پر ظلم ہوتا ہے تو شاید اس کا دل دھڑکتا ہے اور زلزلے آجاتے ہیں اور جب اِنسان اِنسانوں کے لیے نہیں روتا تو پہاڑ روتے ہیں اور سیلاب آجاتے ہیں۔ اے ﷲ تو پاک ہے۔ تیرے جیسا کوئی نہیں ہے تو سب کچھ ہے میں کچھ نہیں۔ اے ﷲ میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں بوسیلہ اِس کے کہ تُو ﷲ ہے۔ اے ﷲ! اے میرے مالک میں چاہتا ہوں کہ تیری ایسی تعریف کروں جیسا کہ تُو خود ہے۔ جیسی کہ تیری سلطنت، جیسا کہ تیرا چہرہ، میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جِس سے میں تجھے استعارہ دے سکوں، بس جیسا تُو ہے ویسی ہی تیری تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ اے ﷲ! شُکر ادا کرنا بندگی کا ثبوت ہے میں تیرا ہی شکر ادا کرتا ہوں۔
ﷲ! تو چھوڑنا نہیں ڈاکوؤں کو، یہ دنیا کیا کہے گی؟ میری دوستی کی لاج رکھ لے اے لاج رکھنے والے، تُو نے ہی تو کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنا خاص فضل کریں اِن بندوں پر جو ہماری زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اور ہم اِ نکو سربراہ بنائیں اور انہی کو زمین کا وارث بنائیں، میرے ﷲ دیکھ میں کمزور ہوں، اب تُو فضل کر۔
ﷲ تو چھوڑنا نہیں، تُو میرا بدلہ پورا لینا۔ آج جس نے بھی حسد کیا ہو، اس سے بھی لینا۔ جس جس نے دکھ پہنچایا ہو اس سے بھی لینا۔ جس نے مارا اس سے بھی لینا۔ جس نے مارنے دیا اس سے بھی لینا۔ جس نے نہ روکا اس سے بھی لینا۔ اِن ڈاکوؤں کو ضرور پکڑوا دینا۔ میرا کیمرہ مجھے بہت عزیز ہے وہ بھی واپس دلوا دینا۔ میرا سامان بھی میرے پیسے بھی۔
ﷲ مجھے دے ناں، دیکھ میں دونوں ہاتھ پھیلا کے، جھولی پھیلا کے مانگ رہا ہوں۔ تُو تو مضطرِب کی سنتا ہے نا۔ تو میری بھی سن اور یقیناً تُو میری ضرور سُنے گا، تو اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑنا۔ کاش میں اڑ سکتا تو آج غلافِ کعبہ پکڑ کر روتا۔ اے میرے ﷲ! آج اکیلا نہ چھوڑنا، آج دلوں پر خوف طاری ہے، تیرے بندے ڈر گئے ہیں، لُٹ گئے ہیں، پِٹ گئے ہیں۔ افسردہ ہیں، غمگین ہیں۔ اے ذُوالجلا ل والاکرام تجھے تیری اُس محبت کا واسطہ جو تُو مجھ سے کرتا ہے۔ آج نہ چھوڑیو، آج میرے آنسو ضرور خشک کروانے آ۔ اے ﷲ! آپ تو ضامن ہیں ہر چیز کے، تجھ سے ہی مانگنے آیا ہوں، آج تو نے مدد نہ کی تو دوستی کی لاج لٹ جائے گی میرے ربّ۔ تُو مجھے کن لوگوں کے حوالے کر دیتا ہے میرے ﷲ۔
میری سن میرے مالک!
میری سن میرے رب!
میری سن میرے ﷲ
اے شہہ رگ سے قریب ﷲ میری سُن!
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ کی کچھ طبیعت سنبھلی تو پولیس کو کال کرکے بلوایا۔ انھوں نے بڑا تعاون کیا۔ ایک ہی دن میں FIR بھی کٹ گئی۔ عبدﷲ نے خود ان کا بڑا ساتھ دیا اور سیل فون ڈیٹا کی مدد سے Fencing۔ Geo کرکے ڈاکوؤں کے ٹھکانے تک پہنچا دیا۔ 18 روز میں ڈاکو پکڑے گئے سامان سارا واپس مل گیا، پیسے نہ ملنے تھے نہ مِلے۔ کورٹ میں پیشی، مقدمہ، جیل میں شناخت پریڈ اور عدالت کی بار بار کی پیشیوں سے عبدﷲ بے زار آگیا۔
جج نے عبدﷲ کو اپنا ہی سامان واپسی لینے کے لیے مچلکے جمع کروانے کا کہہ دیا۔ عبدﷲ نے شور مچایا تو انہوں نے شخصی ضمانت پر سامان تو واپس کردیا مگر اِن تمام چکروں اور جیلوں میں شناخت پریڈ اور تھانوں کے چکّروں سے اسکی روح تک مجروح ہوتی گئی۔ جاری ہے