وہ تمام لوگ جو بڑے بڑے دفاعی اِداروں میں تھے، جن کے لیے عبدﷲ دِن رات کام کرتا رہا۔ اُن میں سے کسی نے کوئی مدد نہ کی، فون تک اُٹھانا چھوڑ دیا اور عبدﷲ سوچتا رہ گیا کہ اگر وہ اس دن مرجاتا تو کوئی جنازے پر بھی نہ آتا۔
اس نے اپنی وصیّت لکھ ڈالی کے مروں تو گھر کے گارڈن میں دفن کر دینا، بیٹے سے کہا وہ نماز پڑھا دے اور نوکروں سے کہا وہ پیچھے پڑلیں تا کہ اِس ملک میں دفنانے تک کے لئے کسی سے احسان نہ لینا پڑے۔ جب دینا ہی ہے اور وہ بھی ﷲ کے لئے تو واپسی کی اُمید کیا رکھّے اور کیوں رکھّے؟
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ کو امریکہ کی ایک مایہ ناز یونیورسٹی سے لیکچر کی دعوت آئی، وہ جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ایک غیر ہیں جو اپنے خرچے پر بلاتے ہیں۔ ہزاروں ڈالر دیتے ہیں۔ عزّت بھی دیتے ہیں اور ایک اپنے، جہاں مفت میں پڑھانے بھی جاؤ تو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ یا تو وہ بے وقوف ہوئے یا یہ، اُسے باہر جا کر ہمیشہ ایک خوشی کا احساس ہوتا کہ وہ نِت نئی چیزیں سیکھتا اور نئے نئے لوگوں سے ملتا، وہ ہمیشہ کہتا جو لوگ باہر جانا پسند نہیں کرتے، وہ ٹھیک نہیں سوچتے کہ آدمی سفر سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور کچھ غلطیاں آدمی کو کر بھی لینی چاہئیں۔ زندگی میں غلطی نہ کرنا بھی ایک غلطی ہی ہوتی ہے اور بے شک انِسان اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔
اسے یہاں کے لوگوں سے مل کر بھی حیرت ہوتی، ایک سے بڑا ایک پروفیسر مگر انتہائی تمیز سے بات کرتا ہے کوئی غرور و انا نہیں، ہمارے ملک میں بچے Ph.D نہیں کر پاتے کہ ایڈوائزر کو سال میں 4 بارملنے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ بے شک ﷲ جس قوم کو عاجز کرنا چاہیں اُس سے عاجزی چھین لیتے ہیں۔
عبدﷲ کو یہاں لہلہاتے درخت اور کثیر تعداد میں پودے اور پھول بھی بہت پسند تھے۔ وہ سوچا کرتا تھا کہ کائنات میں ذکر کا ایک Equilibrium بنا ہوا ہے، جس زمین پر ذکر کرنے والے زیادہ نہیں ہوتے وہاں پودے، پھول، جانور زیادہ ہوتے ہیں اور پہاڑ بھی تو ہیں۔ یہ سب اپنی زہانوں میں ﷲ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور جِس زمین میں ایسے لوگ زیادہ ہوتے ہیں وہاں شاید اول الذکر چیزیں کم ہوجاتی ہیں۔ ایک Threshold ہے جس کا سِوائے ﷲ کے کسی کو نہیں پتہ، کبھی سیلاب پودوں اور مویشیوں کو کھا جاتا ہے تو کبھی زلزلہ لوگوں کو نگل لیتا ہے، الغرض Equilibrium برابر رہتا ہے۔ ذکر کرتے رہنا چاہیے۔ ذکر کرنے والوں کے صدقے رزق مِلتا ہے اور دِل کرے بھی کیا گر ذکر نہ کرے؟
اُسے یہاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتے جوڑے بھی بہت بھاتے۔ وہ سوچا کرتا کہ محبت اور جنس کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔ وہ امریکہ کی رنگار نگی دیکھ کے سوچا کرتا کہ دنیا 3 نظام ڈھونڈ رہی ہے۔ حکومت کا، معاشیات کا، اور اِخلاقیات کا۔ ایک اِدارہ ایسا بنانا چاہیئے جو انسان بنائے، انسان سازی پر کام کرے۔
کیا ہی عجب بات ہے کہ ملک میں ہر چیز کا اِدارہ موجود ہو مگر اِنسان کیسے بننا ہے اُس کا نہ کوئی اِدارہ، نہ کوئی کتاب اور اب تو استاد بھی تھوڑے رہ گئے جو شاذ و نادر ہی برستے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اُمت میں نماز سکھانے کا کورس کوئی نہیں کراتا، دعا مانگنا کوئی نہیں سکھاتا، کوئی ٹریننگ اِنسان بنانے کی نہیں ہوتی، ہر ٹریننگ ’’میں‘‘ میں اِضافہ کرتی ہے، اِسے ختم نہیں کرتی۔
کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ میں نماز پڑھتے ہوئے خود کش حملے میں مرنے کا خوف نہیں ہوتا، اِسلام آباد میں دھڑکا لگا رہتا ہے۔ کیا ہی بدنصیب شہر ہے جِسے اپنے نام تک کا پاس نہیں رہا۔ ہمارے لوگ ایسے اکل کُھرے نکلے کہ یہ تک نہیں سوچتے کہ ایمان و کُفر کی بنیاد عقیدے پہ رکھنی ہے فِرقے پر نہیں۔
ﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو آزاد پیدا کیا ہے مگر یہاں ہر کوئی اپنا قیدی بنانا چاہتا ہے، کوئی معاشی تو کوئی عقلی، کوئی دلی تو کوئی نفسی، کوئی اعتقاد میں تو کوئی ایمان میں، بڑے کہتے تھے کہ مرید کی خواہش رکھنا کہ فلاں آدمی اثر و رسوخ والا میرے حلقے میں آئے، طریقت کا شِرک ہے اور شیخ کو مرید بنانے سے ایسا ڈرنا چاہیئے جیسا درندے کو دیکھ کے انسان ڈرتا ہے۔
عبدﷲ سوچنے پر آیا تو سوچتا ہی چلا گیا، یہ دماغ بھی جِسم کا مال روڈ ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم کی کار بھی یہاں سے گذرتی ہے اور میونسپلٹی کا کچرے کا ٹرک بھی۔ وہ سوچنے لگا کہ انسانیت کے حقوق کا پرچار کرنے والے ملک میں کوئی اِدارہ ایسا بھی ہے جو انِسانیت کے فرائض پر بھی بات کرے۔ ﷲ کے کیا حقوق ہیں وہ بھی بتائے۔
وہ سوچنے لگا کہ ہماری نفرتوں نے ہمیں غیر سے تعلیم لینے سے روک رکھا ہے، آخر قدرت کا کُلیّہ یہی ہے کہ جو محنت کرے گا وہ پھل پائے گا۔ دِل کی نفرتیں آدمی کو بچھو بنا دیتی ہیں اور نفرت کا ذہن ہدایت کو قبول نہیں کرتا۔
وہ سوچنے لگا کہ امریکہ بھی کتنا بدنصیب ہے، ہر ملک اِس سے کھاتا ہے اور گالیاں بھی اسے ہی دیتا ہے۔ حتیٰ کہ جو لوگ اپنے ممالک کو چھوڑ کے یہاں آ بسے ہیں۔ یہاں سے کما کر کھا رہے ہیں وہ بھی اِسی سے بغض رکھتے ہیں۔
وہ سوچنے لگا کہ ہمارے ملک میں بندے بنتے ہیں، یہاں اِدارے بنتے ہیں اور ایسا پیسوں کی غیرمنصفانہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ملکوں میں اور جو دولت ہمارے حکمران لوٹ کر اپنی اولادوں کو کھلا دیتے ہیں، ان سے سب سے پہلے اُن کا اِخلاق تباہ ہوجاتا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ جتنا فساد مسلمان متکبر مچاتا ہے اتنا کافر عبادت گذار نہیں مچاتا۔ وہ سوچنے لگا کہ ہم بحیثیت قوم بہت سے گناہ کرتے ہیں اور پھر بددعاؤں کے کوٹے میں سے اپنی اپنی اُجرت بھی لے لیتے ہیں۔
عبدﷲ اِس آزاد ماحول میں بہت خوش تھا جہاں کم از کم بولنے اور سوچنے کی تو آزادی تھی۔ جہاں ایک غریب آدمی سکون سے اپنی زندگی گزارنا چاہے تو گزار تو سکتا تھا۔ جہاں انصاف تو ملتا تھا اور عمر کا کوئی بھی حِصّہ ہو اگر بندہ ٹھان لے تو شیطان میں کبھی بھی اتنی طاقت نہیں کہ وہ اسے راہ سے ہٹا سکے۔ عبدﷲ آج بہت خوش تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ دعاؤں کو لکھ لینا چاہیئے، تاکہ پتا لگتا رہے کتنی قبول ہورہی ہیں۔ عبدﷲ اپنے پرانے خطوط نکال کے پڑھتا تو اُسے ہنسی آتی کہ وہ کن چیزوں پہ روتا رہا ہے اور کیا کیا مانگتا رہا ہے اپنے ربّ سے ۔
اِنسان کی یاداشت اپنے بارے میں بڑی کمزور ہوتی ہے، لکھنا بڑا کام دیتا ہے اور شاید قبر میں بھی ایسا ہو کہ اِنسان زندگی بھر کی خواہشوں اور رونے کو دیکھے اور اِس کو یہ سب گُڈے گڑیا کی خواہش ہی لگیں۔
دو دِن کو اے جوانی دے دے ادھار بچپن
عبدﷲ وطن واپس پہنچا تو سینٹر اِسکالر شپ نے اسے اِنٹر ویوز لینے کے لیے بلایا۔ اُسے بڑی خوشی ہوئی اور اس نے حتی الامکان کوششیں کی کہ بہترین طالب علموں کو چُنا جائے۔ ابھی یہاں سے فراغت ہوئی تھی کہ ایک یونیورسٹی نے لیکچر کی دعوت دی، جو عبدﷲ نے بخوشی قبول کرلی۔ عبدﷲ سوچا کرتا کہ وہ فوجی جو جنگ کے دن غیر حاضر ہوجائے اُسے گولی مار دینی چاہیئے بالکل اِسی طرح جِسے خدانے علم دِیا اور وہ لوگوں تک نہ پہنچائے اسے بھی گولی مار دینی چاہیئے۔
عبدﷲ کو جب کبھی کسی نے Mentor بننے کی درخواست کی وہ انہیں امین بھائی یا احمد بھائی کے پاس بھیج دیتا اور خود منع کردیتا، وہ کہتا Mentor کے لئے شرط ہے کہ اسکی نظروں میں عزت و ذلت، اور مال کا ہونا یا نہ ہونا سب برابر ہوجائے، تب ﷲ کی حکمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ورنہ ایسا آدمی کسی کو راہِ راست پر گائیڈ کیسے کرے گا جو خوشامد پر بِک جائے گا یا عزت پر۔ عبدﷲ خود تو اِس قابل تھا نہیں امین بھائی اور احمد بھائی بڑے لوگ تھے انہی کے پاس بھیج دیا کرتا تھا۔
خیرعبدﷲ نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا، موضوع تھا ’’پاکستان‘‘
حاضرینِ کرام میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں اِسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں اِسلام خود مقبوض ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں40 ہزار لوگ خود کش حملوں میں ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ لگ بھگ 5 ہزار ڈرونز کی نذر ہوگئے، جہاں 12 ہزار بندے سال میں بھوک سے مرجاتے ہیں، جہاں نماز پڑھنے جائیں تو چپلیں بھی باندھ کے رکھنی پڑتی ہیں۔ جہاں کے 40 فی صد بالغ سگریٹ پیتے ہیں، جہاں سال میں 42 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں، جہاں ہر 28 میں سے ایک بچہ اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے مرجاتا ہے، جو دنیا میں ٹی بی والے ملکوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔
جہاں 5 سال سے کم عمر 30 فی صد بچے خوراک کی کمی کا شِکار ہیں، جہاں 30 لاکھ آدمیوں کو ہر سال ہیپا ٹائیٹس B اور C ہوجاتا ہے، جہاں93 فیصد لوگوں کے دانت خراب ہیں، ایسا ملک جہاں 61 فیصد بچے بغیر کسی ٹرینڈ اِسٹاف کے پیدا ہوتے ہیں، جسکا نمبر بدعنوانی میں پچھلے سال تک پہلے نمبر پر تھا، جہاں قبائلی علاقوں میں شرحِ خواندگی %7 ہے، جہاں اِسکولوں کو بموں سے اڑا دیا جاتا ہو، جہاں جرائم 18 فیصد سالانہ کی اوسط سے بڑھ رہے ہوں، جہاں 2700 لوگوں کو سالانہ اغواء کرلیا جاتا ہو اور جہاں کے صرف ایک شہر کراچی میں روزانہ کے 15 قتل ہوتے ہوں، ایک ایسا ملک جہاں 13 ہزار بندے سالانہ قتل ہوتے ہوں، 12 ہزار خودکشی کر لیتے ہوں، 5 ہزار بچے نالیوں سے ملتے ہوں، اور 1500 سے زنا ہوجاتا ہو۔
میں آپ سب کو اس ملک میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستانی ہیں۔ ہم ٹھیک نہیں ہوتے، ہم ٹھیک نہیں کرتے۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ اِس یونیورسٹی میں بیٹھنے کے سبب آپ کتنے خوش نصیب ہیں؟
پاکستان میں پڑھا لکھا اسے کہتے ہیں جو اپنا نام لکھ سکتا ہو اور وہ بھی صرف U یعنی قریباً 80 ملین لوگ ایسے ہیں جو اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتے۔
پرائمری تک پہنچنے والے 13.07 فی صد
مڈل کلاس تک 8.26فی صد
میٹرک تک 7.66 فی صد
انٹرمیڈیٹ تک 3.39 فی صد
بیچلرز تک 0.3 فی صد
ماسٹر ز تک 0.124 فی صد
ایم فل تک 0.009 فی صد
اور
PHD تک 0.00048 فی صد
اور پھر یہ معدودے چند اِن یونیورسٹی میں لیکچرز دیتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں اور AC لگا کے سوجاتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں ہے، ہمیں تبدیل کرنا ہے اپنے آپکو، اپنے گھر خاندان کو اپنے معاشرے اور شہر کو اور اپنے ملک کو، ورنہ کہیں اور چلے جائیں۔
عبدﷲ نے سوچ لیا تھا کہ کام باہر کرے گا، پیسہ وہاں سے کمائے گا اور ٹیم پاکستان میں Develop کرے گا، نہ یہاں پیسے کا لین دین کرے گا نہ ہی جان کا جلاپا ہوگا۔ ہاں کسی نے پڑھانے کے لیے بلایا تو جا کے پڑھا آئے گا بھلے مفت میں ہی کیوں نہ پڑھانا پڑے۔
آج عبدﷲ ایک کام کے سلسلے میں کہیں گیا ہوا تھا۔ ایک جگہ
اِنتظار کرنا پڑا تو وہ سامنے چائے کے ریستوران میں بیٹھ گیا۔ اب مفتی صاحب کا بتایا ہوا ذکر اسکی سانس میں چلتا تھا اور اسے کافی پریکٹس ہوگئی تھی۔ یاد دِہانی کو وہ عموماََ ہاتھ میں ایک تسبیح بھی پہن لیتا تھا کہ Visual Reminder رہے۔ گناہ سے پہلے نظر پڑے تو رُک جائے کہ جس کی یاد میں کچھ لمحے بیتے ہیں اس سے کچھ حیا کرو اور نافرمانی نہ کرو۔
چائے کے ریستوران کے سامنے ایک رنگریز دوپٹے رنگ رہا تھا، اس نے سفید، جوگیا، نیل گوں، کتھئی اور پتہ نہیں کون کون سے رنگ کے دو پٹے رنگ دیئے اور عبدﷲ ٹکٹکی باندھے بس اُسے ہی دیکھتا رہا۔
وہ سوچنے لگا کہ زندگی میں بھی طرح طرح کے رنگ چڑھتے ہیں، کبھی جوانی کا تو کبھی وِژن کا، کبھی پیسوں کا تو کبھی گھر کا، کبھی بیوی کا تو کبھی بچوں کا، کبھی گناہ کا تو کبھی نیکیوں کا۔ کبھی انکار تو کبھی اقرار کا، کبھی توبہ کا تو کبھی ضد کا اور ایک رنگ ﷲ کا بھی تو ہے، صِبغتہ ﷲ، وہ جن پہ چڑھتا ہوگا وہ کیسے ہونگے؟
پہلی شرط تو دوپٹے کا سفید ہونا ہے۔ کپڑے کا بُنا جانا ہے۔ رنگ تو بعد میں چڑھے گا۔ اپنے آپکو آدمی باطنی برائیوں سے پاک نہیں کرے گا تو رنگ کیونکر چڑھے؟ اور کوئی اور رنگ چڑھا ہوا ہو تو بھی کیسے چڑھے۔
اِسلام ایک مزاج کا نام ہے ایک رنگ ہے جو شخصیت کا پورا پورا احاطہ کر لیتا ہے۔ اِسلام بہت حسّاس ہے۔ کسی اور رنگ کو برداشت ہی نہیں کرتا۔ صاف صاف بتا دیتا ہے یہ کرو یہ نہ کرو، یہ حلال یہ حرام، یہ جائز یہ ناجائز، یہ عبادت یہ شرک اور جن پر اِسلام کا رنگ چڑھ جائے انھیں نماز کی لت لگ جاتی ہے، قرآن کا سرور چڑھ جاتا ہے، دعاؤں کی عادت پڑجاتی ہے۔ رونے کی بیماری لگ جاتی ہے اور پھر وہ اگر کسی کو چھولیں تو اسے بھی لال کرکے چھوڑتے ہیں اور کچھ کو تو مرتے دم ہی پتہ لگتا ہے کہ وہ رنگے جاچکے ہیں۔ لال کو کب پتہ ہوتا ہے کہ وہ لال ہے۔
عبدﷲ کی آنکھ سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، وہ اٹھا رنگریز کے پاس گیا اسے بہت سارے پیسے دیئے اور اسے حیرت زدہ چھوڑ کے چلا آیا۔
آج عبداؤﷲ پھر مانگ رہا تھا،
’’اے ﷲ! اے رنگریز ﷲ، مجھے رنگ دے، مجھے رنگ دے، مرے مالک، مجھے رنگ دے، ﷲ مجھے اپنے رنگ کا ٹھپّا لگا دے، اے ﷲ، مجھے آزاد کر اِس دنیا سے کہ میں تیری قدرت دیکھوں۔ اپنے آپ سے کہ میں تجھے پہچانوں۔ یہ دنیا ایک بڑا پنجرہ ہے، سونے کا ہی سہی، ہے تو پنجرہ۔ میں کُھل کے اُڑ بھی نہیں سکتا۔ میری تخلیق کا دم گھٹتا ہے۔ تو نے ہی تو کہا ہے کہ اور جو لوگ ہمارے لئے کوشش کریں گے تو ہم انہیں اپنے راستوں کی رہنمائی ضرور کریں گے اور ﷲ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔
اے ﷲ! مجھے مل جا، مجھے لکھ دے، مجھے رنگ دے‘‘َ۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبدﷲ پھر اپنے سوالات کے ساتھ مفتی صاحب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، مفتی صاحب ملک سے باہر جارہا ہوں، چاہتا ہوں لوگوں کو اسلام کی طرف بلاؤں، کوئی مشورہ؟
جو شخص ﷲ کی طرف بلائے اُس پر فرض ہے کہ ﷲ کا ذکر کثرت سے کرے، یہ نہ کرے کہ تقریریں بہت کرے اور تنہائی میں ﷲ کو یاد نہ کرے۔ ﷲ سے نسبت قوی کرے، لوگوں پر اس کا اثر بھی پڑے گا، یادرکھنا! ﷲ کی معرفت حرام ہے اس شخص پر جس کی تنہائی پاک نہیں۔ خلوت میں عبادت کا شوق اخلاص کی نشانی ہے۔
یہ انسان بڑی عجیب چیز ہے، ماننے کو آئے تو اپنے جیسے کو خدا مان لے اور نہ ماننے پر آئے تو سیدھی سادھی بات نہ مانے۔
حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ تم جوانی میں کوئی کام ایسا نہ کرنا کہ جب بڑھاپے میں لوگوں کو ﷲ کے دین کی طرف بلاؤ تو وہ جوانی کے کارنامے گنوائیں۔ جوانی کو ہمشہ بے داغ رکھو، کسی سے اتنی محبت نہ کرو کہ ٹوک نہ سکو، نہ اتنی نفرت کہ ضرورت پڑنے پر شرم کے مارے جا نہ سکو۔
کس چیز سے بچوں؟
زندگی کی سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ شیطان دین کی گمراہی کے کام کو اچھا کرکے دکھاتا ہے، جب گمراہی دین کے رنگ میں آتی ہے، تواضع کِبر کے رنگ میں آتی ہے۔ غرور عاجزی سے پیدا ہوتا ہے اور فقر میں انا آجاتی ہے تو ﷲ سے پناہ مانگو۔ بے شک ﷲ کی پناہ بڑی چیز ہے۔
چوری کیا ہے؟
بد ترین چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرتا ہے، توحید ﷲ کی غیرت کا نام ہے۔ نماز میں ایک بار ﷲ کی طرف دھیان فرض ہے۔
ﷲ کے دوست کون ہوتے ہیں؟
ﷲ نے کہا ہے کہ میرے دوست جن پر رشک کیا جائے وہ ایسے ہیں کہ کم مال چھوڑتے ہیں۔ کم بیویاں چھوڑتے ہیں۔ شہر سے دور رہتے ہیں۔ محلے میں کوئی دعوتوں میں نہیں بلاتا اور میں اسے نماز میں بڑا حصہ دیتا ہوں اور ان کے دل ہدایت کے روشن چراغ ہوتے ہیں اور جب اِن کا وقت آتا ہے تو نقد چل پڑتے ہیں۔
جاری ہے