عبداللہ روز فیس بک پر کچھ نہ کچھ ایسا لکھ دیتا کہ لوگ چڑ جاتے اور اُسے خوب سناتے۔ وہ اِن سب باتوں پہ خاموش رہتا۔ اُسے ٹھنڈا مزاج پسند تھا۔ وہ بِلّو سے کہتا کہ بے وقوف آدمی یا تو عقل سیکھنے کی کوشش کرتا رہے اور عقلمندوں کی مجلس میں بیٹھ کر ان کی گفتگو سنے اور اُن کے اعمال کی علت سمجھنے کی کوشش کرے، یا پھر اپنے آپ کو کسی عقلمند کے حوالے کر دے اور یا پھر خاموشی سے موت کا اِنتظار کرے۔
اُسے بہت تعجب ہوتا جب وہ فیس بک پر ایسی تصویریں دیکھتا کہ بیوی تو مکمل شرعی پردے اور حجاب میں ہیں اور شوہر صاحب نے گھٹنوں تک شارٹس اور بغیر آستینوں والی ٹی شرٹس پہنی ہوئی ہے جیسے کہ فیشن کا حق صرف مرد کو حاصل ہے۔
اسے نہ تو شارٹس اور ٹی شرٹس سے کوئی بیر تھا نہ بُرقعے سے۔ وہ محظوظ یہ سوچ کہ ہوتا کہ کاش کوئی ایسی بھی تصویر نظر آئے، جس میں بیوی ماڈرن لباس میں ہو اور شوہرعبا پہنے، پگڑی باندھے، ہاتھ میں تسبیح اور یہ لمبی داڑھی کے ساتھ کھڑا ہو۔
جو معاشرہ پہلی تصویر پر کچھ نہیں کہتا اُسے دوسری تصویر پر بھی کچھ کہنے کا حق نہیں ہے۔ عبداللہ سوچتا کہ پاکستان میں مرد عورتیں ہیں اور عورتیں مرد اگر پیمانہ صبروبرداشت ہو۔
فیس بک پر اسے اب تک منافقت کی اِتنی سندیں مِل چکی تھیں کہ اگر کریڈٹ ٹرانسفر کا کوئی اِدارہ ہوتا تو وہ پی ایچ ڈی کر چکا ہوتا۔
اور کچھ نہیں تو آئے روز کوئی نہ کوئی دوست میسج بھیج دیتا کہ آپ کے بچوں نے فرنگی لباس پہنے ہوئے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں گلاس تھا فلاں تصویر میں تو وہ لال رنگ کا مشروب کیا تھا؟ تو کبھی آپ کی اہلیہ بُرقع نہیں کرتیں؟ وہ بھی جہنمی اور آپ بھی کہ انہیں کہتے نہیں ہیں۔ ہمارے گھر میں یوں ہوجائے تو ہم کشتوں کے پُشتے لگا دیں۔
عبداللہ ایسی باتوں پہ بڑا حیران ہوتا کہ یہ لوگ آخر چاہتے کیا ہیں؟ یہی کہ کسی غریب کا گھر برباد ہوجائے؟ بلاوجہ اپنی پاکیزگی کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے والے کی عمر کیا ہے؟ کن مسائل سے گذر رہا ہے؟ کن سوچوں میں مگن ہے؟ کون سی جنگ ہے جو ہار کے لوٹا ہے؟ کون سا محاذ ہے جس پر جانا باقی ہے؟
آخر تنگ آکر اُس نے ایسے سارے نام نہاد ریڈی میڈ فتویٰ دینے والے ’’دوستوں‘‘ سے جان چھڑا لی، فتویٰ نہ ہوا ٹیپ ہوگئی جہاں چاہو چپکا دو۔
صحابہ کرامؓ کے دور میں کُل 142 مرد تھے جو فتویٰ دیتے تھے اور 20 عورتیں۔ اِتنے افراد تو صرف ہمارے محلے میں نکل آئیں گے۔
عورت کو پاؤں کی جوتی بنا کر رکھو۔ کیوں بھائی؟ لے کر ہی کیوں آتے ہو کسی غریب کو اگر ایسے ہی اِرادے ہیں؟
مرد پیسہ لاتا ہے، کماتا ہے، تو۔ کیا وہ مالک ہوگیا۔ جسم کا، سوچ کا، اِرادوں کا، رُوح کا، گماں کا، اِمکان کا؟
مرد پیسے لاتا ہے مگر بچے پیسے نہیں کھاتے۔
مرد پیسے لاتا ہے مگر بچے پیسوں پہ نہیں سوتے۔
مرد پیسے لاتا ہے مگر پیسوں سے راحت نہیں ملتی، نہ خوشی ملتی ہے، نہ اطمینان۔
اِن پیسوں کو کھانا عورت بناتی ہے، اِن پیسوں کو گھر، خوشی، اطمینان، سکون اور بستر عورت بناتی ہے۔
آپ کا نام نہاد ’’مرد‘‘ تو روز آفس سے گالیاں، غیبت، بہتان، جھوٹ، ظلم اور حسد کھا کے آتا ہے، یہ عورت ہی ہے جو اُسے تسکین دیتی ہے۔ کھانا کھلاتی ہے۔ دوبارہ سے جوڑتی ہے اور صبح مرد بنا کر بھیجتی ہے۔ جس اِسلام نے عورت کے اِستحصال کے درجنوں طریقے ختم کرکے اُسے نکاح کی حفاظت میں دیا۔ ہم مسلمان ایسے گئے گذرے کہ اسے جانور کے حقوق بھی نہ دیں۔ تف ہے ایسی مردانگی پر۔
عبداللہ کو بِلّو سے بہت محبت تھی۔ زندگی میں کچھ لوگ اعراب کی مانند ہوتے ہیں۔ کوئی کومہ، تو کوئی سیمی کولون، خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کے پاس کوئی فل اسٹاپ ہو کہ اِس کے آجانے سے زندگی رُک جائے، تھوڑی دیر کو ہی سہی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج کراچی سے عبداللہ کے دوست ماہر فاروقی آئے تھے۔ بڑے ہی بُردبار قسم کے معصوم سے آدمی تھے۔ ایم بی اے بھی کیا تھا اور مسجد کے اِمام بھی تھے۔ یعنی ایک تو شریف، اُوپر سے مولوی۔ بڑی مشکل سے ایسے لوگ ملتے ہیں۔
ماہر بھائی خاموش لاؤڈ اسپیکر ہیں، زبان خاموش رہتی ہے مگر پورا جسم بول رہا ہوتا ہے۔ آنکھیں تو چپ ہی نہیں ہوتیں۔ عبداللہ اِن کی موجودگی میں بہت لطف اُٹھاتا۔ وہ جتنے شرمیلی طبع کے تھے عبداللہ انھیں اِتنا ہی زِچ کرتا۔
ماہر بھائی سے عبداللہ نے کچھ حالات ڈِسکس کئے تو انھوں نے اسے سمجھایا کہ کراچی میں اُن کے شیخ ہیں کوئی مولانا صاحب، اُن سے ملاقات کرلو۔
عبداللہ نے سوچا لو جی ایک اور آیا، پھر مریدوں کا جمگھٹّا، پھر لائن میں اِنتظار اور پھر وعدے وعیدیں۔ عبداللہ نے ماہر بھائی کو صاف منع کردیا کہ وہ نہیں کرے گا بات۔ ماہربھائی بضد رہے۔ آخر پہلے فون پر بات کرنے کی حامی بھری۔ ماہر بھائی نے فون لگا کر عبداللہ کے ہاتھ میں دے دیا۔
’’السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ‘‘
عبداللہ کو ایک مدھم، ٹھہری ہوئی محبت بھری آواز سنائی دی۔
عبداللہ نے دِل میں سوچا یہ تو بڑے ماہر ہیں اب دام سے کون نکلے، اُس نے بے چارے مولوی صاحب کو خوب سنائی کہ اُس کی زندگی کا امچور ان کے بھائی بندوں کی وجہ سے بنا ہے۔ مولوی صاحب بارہا کہتے رہے کہ آپ غلطی سے ڈاکٹر سمجھ کر کمپاؤنڈر سے ملتے رہے ہو۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ بھئی آ کیوں نہیں جاتے ملنے اگر اِتنے ہی مسائل ہیں۔
یہ کاری وار تھا۔
عبداللہ نے پینترا بدلا کہ آپ حضرت ٹائم ہی نہیں دیں گے، اب میں 25 ہزار کا ٹکٹ آپ کے دیدار کے لیے تو خریدوں گا نہیں۔
مگر مولوی صاحب نے بالمشافہ ملاقات کا وعدہ کرلیا اور کہا جتنا ٹائم چاہیئے ملے گا اور فون بند۔
عبداللہ کو یہ بھلے لگے، مفتی صاحب کے ادب کی وجہ سے اور ان کی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے عبداللہ ان سے بے تکلفی سے بات نہیں کر پاتا تھا کہ مبادًا وہ ناراض ہوکر ملنا ہی نہ چھوڑ دیں۔ اُس نے ایک دو بار مفتی صاحب کو کسی سے سخت لہجے میں بات کرتے ہوئے سن لیا تھا اور وہ سوچتا تھا کہ اگر اس سے کبھی ایسے بات کرلی تو وہ تو مر ہی جائے گا۔
عبداللہ نے سوچا یہ نئے مولوی صاحب سے اگر بن گئی تو اچھا ہے کہ کوئی متبادل بھی ہاتھ آجائے گا اور شاید وہ اِن سے بے تکلفی سے بات کرسکے، انہوں نے اکیلے میں ٹائم دے کر عبداللہ کا دل آدھا تو جیت ہی لیا تھا۔
عبداللہ اگلے ہی روز مولوی صاحب کے پاس کراچی پہنچ گیا۔ وہ راستے بھر سوچتا رہا کہ ملک کا ہر شخص اُمت کے واسطے کام کرنا چاہتا ہے اور اِنفرادی لوگوں کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔ وہ کہاں جا کے رہے جو کہیں کا نہ رہے؟
مولوی صاحب بہت خوش مزاج، ہنستے بولتے شخص تھے۔ عبداللہ کو مسکرانے والے مولوی بہت پسند ہیں۔ یہ تو شکل سے بھی بچوں کی طرح معصوم تھے اور تھے بھی غریب عام سی 100 روپے والی چپل، 20 روپے گز والے کپڑے کا جوڑا اور عام سی ٹوپی۔ عبداللہ کو ماہر بھائی کی تمام باتیں اِن صاحب کے بارے میں مبالغہ آرائی لگی کہ عقیدت مند، مرید ایسے ہی بڑھا چڑھا کے بولتے ہیں کہ ہمارے حضرت کہ یہ پراجیکٹس اور فلاں فلاں۔
خیر مولوی صاحب نے عبداللہ کو دوپہر کا کھانا کھلایا جس میں بکرے کی کلیجی تھی۔ عبداللہ کو کلیجی بہت پسند ہے۔ اِس نے بلا تکلف پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور کہنے لگا، مولوی صاحب! آپ واحد مولوی ہیں جو کلیجہ کھلاتے ہیں، باقی سب تو کھاتے ہیں۔
مولوی صاحب نے عبداللہ کو ساتھ لیا اور ایک فیکٹری میں لیکچر دینے چل پڑے۔ لیکچر کے دوران عبداللہ سوچتا رہا کہ بڑی نپی تلی بات کرتے ہیں اور باتونی لوگوں سے بہت مختلف ہیں۔ بیان کے بعد کھانا لگا تو مولوی صاحب کھانا کھائے بغیر واپس آ گئے۔ فیکٹری کے مالک نے بمشکل تمام ہاتھ میں کوئی چھوٹا سا تھیلا پکڑا دیا۔
عبداللہ نے سوچا کھانا کھا لینا چاہئے تھا اور لیکچر دینے کے پیسے بھی لینے چاہیئے تھے۔ خیر گاڑی میں بیٹھتے ہی مولوی صاحب نے ملنے والا تحفہ عبداللہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ اُس میں ایک انتہائی قیمتی عطر تھا۔ عبداللہ نے کہا یہ توآپ کی مزدوری ہے ۔اِتنی محنت سے لیکچر دیا اور آپ نے ایک نظر دیکھا بھی نہیں ملنے والے تحفے کو؟
انھوں نے کچھ نہیں کہا اور کہا رکھ لو عبداللہ۔
عبداللہ خدا حافظ کہہ کر دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے چلا آیا، مگر سوچتا رہا کہ کچھ لوگ آج بھی موجود ہیں جو صرف اللہ کے لئے کام کرتے ہیں بغیر کسی غرض، بغیر کسی فائدے کے۔ عبداللہ نے اپنی تمام توجہ ایک نئے سافٹ ویئر بنانے پر لگا دی، نہ کوئی دوست آتا نہ ہی عبداللہ کہیں جاتا، ہفتوں ہفتوں اپنے کمرے میں بیٹھا کوڈ لکھتا رہتا۔
جب بھی کسی سے بات کرنے کا دِل چاہتا تو گھر کے قریب موجود پیپل کے گھنے درخت کے نیچے بیٹھ جاتا اور اسی سے بغض کرنے لگتا۔
اُسے یہ پیپل کا درخت بڑا پسند تھا۔ عبداللہ اُسے پیپل بھائی کہہ کر مخاطب کرتا، آج عبداللہ پچھلے دو گھنٹوں سے درخت کوگھُور رہا تھا۔ کبھی اس کی شاخوں پہ ہاتھ پھیرتا تو کبھی تنے سے گلے لگ جاتا۔ کبھی پتوں پر پڑی شبنم دیکھتا تو کبھی اس کے اُوپر بیٹھ جانے والے پرندوں سے محظوظ ہوتا۔ وہ درخت کو ایسے پیار کرتا جیسے کوئی اپنے بچوں کو پیار کر رہا ہو۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ اُس کی زندگی اِس پیپل کے درخت سے کتنی مشابہ ہے۔ عرصہ پہلے لوگوں نے زمین میں ایک بیج دبایا ہوگا اور بھول گئے ہوں گے۔ زمین، سورج، ہوا، پانی، حشرات الارض، سب نے مِل کے اُسے سینچا ہوگا۔ بیج میں سے زندگی نکلی ہوگی، کونپل آئی ہوگی اور پھر اس نازک سی کونپل نے زمین کا سینہ پھاڑ کے اپنے وجود کا اعلان کیا ہوگا، پھر وہ بڑھتی چلی گئی ہوگی۔ آس پاس کی ہواؤں کے زور اور تھپیڑے سہنے کے لئے اس کا تنا طاقتور ہوتا چلا گیا ہوگا اور پھر شاخیں، پھر پھول اور پھل۔ اسی کا نام تو زندگی ہے۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ اس کے ملک کے لوگوں نے اِسے بھی زمین میں دبا دیا۔ یہ تو اُن کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ بیج ہے، اللہ کی قدرت نے اِسے سینچا اور وہ زمین کا سینہ توڑ کر باہر نکل گیا۔ معترضین اور حاسدین کے حسد سے بچنے کے لئے اس کا بھی تنا موٹا ہوگیا، گر جانے کے خوف سے اس نے بھی اپنی جڑیں زمین سے چپکا لیں اور وہ بھی آج اِس پیپل کے درخت کی طرح کھڑا حالات کا مقابلہ کر رہا ہے۔
عبداللہ نے باٹنی میں پڑھا تھا کہ یہ درخت بھی دیکھتے ہیں۔ الٹرا وائلٹ لائٹ سے انہیں بھی پتہ
چلتا ہے کہ بندے نے کپڑے کس رنگ کے پہنے ہیں، اگر کوئی اور پودا اِن کی روشنی روک لے تو یہ مخالف سمت میں بڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ پانی کم ہو تو جڑیں دُور دُور تک پھیلا دیتے ہیں۔
عبداللہ کو لگتا کہ درختوں کی میموری بھی ضرور ہوتی ہوگی۔ بھلا پانی دینے والوں کو بھی کوئی بھولتا ہے؟ انہیں خوف بھی آتا ہوگا، جب ایک پودے پر وائرس حملہ کردیں تو آس پاس والے پودے خود بخود اس وائرس سے بچنے کے لئے کیمیکل بنانا شروع کردیتے ہیں۔
عبداللہ سوچتا یہ درخت بھی ذِکر کرتے ہوں گے اور دُعا مانگتے ہوں گے، مجھے اِن کی دُعاؤں میں ضرور شامِل ہونا چاہیئے۔ وہ سوچنے لگا کہ اِسے درختوں سے سیکھنا چاہیئے، باقی مخلوق کے برعکس یہ اپنے حالات اور ماحول تبدیل نہیں کرسکتے۔
حالات سازگار نہ ہوں تو پرندے کُوچ کرجاتے ہیں۔ انسان نقل مکانی کرجاتے ہیں، مگر درخت۔ یہ تو کہیں نہیں جاتے، انہیں تو ہمیشہ اُسی جگہ پر ثابت قدم رہنا ہوتا ہے اور مرتے دم تک حالات کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ انسان کو صبر درختوں سے سیکھنا چاہیئے۔
آہ! یہ درخت بھی اِنسانوں سے بازی لے گئے، عبداللہ نے بھیگی آنکھوں سے درخت کو بوسہ دیا جو اسے بھی سایہ دیتا ہے جو اِسے کاٹ رہا ہو اور گھر واپس روانہ ہوگیا۔
عبداللہ کی قوتِ مشاہدہ روز بروز تیز ہوتی جا رہی تھی، وہ ہر بات کے پیچھے ہونے والے سبب کو محسوس کرنے لگا تھا۔ اس کے سامنے چیزیں اپنی وقعت، اپنا رنگ، اپنا رُوپ سب کھو دیتی تھیں۔ وہ ٹوٹے ہوئے برتنوں سے لے کر شہد کی مکھی تک اور پانی کے مٹکوں سے لے کر بارش کی بوندوں تک سے علم کشید کرنے لگا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ غیر اللہ کی محبت بھی ایک جان لیوا مرض ہے جس کا علاج تصوّف کرتا ہے۔
پرندوں کے جھنڈ دیکھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا، جب پرندے جھنڈ کی صورت میں اُڑتے تو اسے قدرت کی سادگی اور کمال پہ تعجب ہوتا کہ کہاں تو اِتنی پیچیدہ پرواز اور کہاں اِتنے سادہ اصول جو نہ اسے دوسرے پرندوں سے ٹکرانے دیتے ہیں نہ سمت بھولنے دیتے ہیں اور اُڑان کا تو وہ ہمیشہ سے ہی شیدائی تھا۔ وہ سوچتا کہ پرندوں کو بھی روٹی روزی زمین پہ لاتی ہے۔ انسان کو بھی چاہیئے کہ تھوڑی دیر معاش کی فکر میں لگائے اور پھر اُڑ جائے خُدائے پاک و برتر کے جہاں میں اور چھوڑ دے آزاد اپنے تخیل کو کہ مشاہدہ ہو خدا کی صنّاعی کا۔ وہ سوچتا کہ پرندوں کی طرح انسانوں کے بھی پَر ہوتے ہیں، ایک ہمت کا اور دوسرا شوق کا۔ دونوں کے سائز برابر ہونے چاہئیں تاکہ اُڑا جا سکے۔ بے شک اللہ نے دُنیا اہلِ ہمت اور اہلِ صبر کے ہاتھ میں رکھی ہے۔
عبداللہ سوچتا کہ ایک چھوٹا سا بارٹیل گو ڈوٹ پرندہ براعظموں کا سفربلا تُکان، بلا رُکے کرلیتا ہے، دنوں کے سفر میں نہ اُسے نیند آتی ہے، نہ بھوک لگتی ہے۔ چھوٹی سی چڑیا ہزاروں میل اُڑ جاتی ہے اور کوئی طوفان، کوئی ہوا۔ کوئی بجلی، کوئی بارش اس کا راستہ نہیں روک پاتی۔ سائنسدانوں نے 9 دن اور 9 راتوں کی 11 ہزار کلو میٹر کی فلائٹ ریکارڈ کی ہے بغیر رُکے جو یہ پرندہ کرلیتا ہے۔
اُسے لگتا کہ وہ خود بھی ایک پرندہ ہے اور لا اِلٰہ الّا اللہ اُس کا ترانہ ہے۔ عبداللہ کو خاردار تاریں پسند نہیں تھیں۔ وہ کہتا کہ لگتا ہے اُڑنے والے پرندوں کو کسی نے لائن میں پرو دیا ہے۔ اِتنی بڑی دُنیا میں بھی عبداللہ کو اپنا دم گھٹتے محسوس ہوتا اور وہ چاہتا کہ آزاد ہوجائے۔
آج عبداللہ کی ملاقات پھر انہی کراچی والے مولوی صاحب سے ہوئی۔ وہ اپنی بڑی سی گاڑی میں اسے اپنا مدرسہ دکھانے لے گئے۔ گاڑی میں ان کے مسلح محافظ بھی تھے۔
عبداللہ انہیں یاجوج ماجوج کہتا۔ گاڑی میں عبداللہ سوچ رہا تھا کہ وہ تو بے کار آدمی ہے مگر کسی نے اگر مولوی صاحب پر حملہ کیا تو وہ گاڑی کی سیٹ کے نیچے چھپ جائے گا، پھر وہ اپنے خیال پر خود ہی ہنسنے لگا کہ اگر مرگیا تو مولوی صاحب کے مرید کہیں گے کہ واہ جی واہ کیا موت ہے۔ حضرت کے چرنوں میں موت آئی۔ تو وہ سوچنے لگا کہ حملے کی صورت میں مولوی صاحب کے سر پر چڑھ جائے گا، مگر پھر شاید ان کے مرید کہیں گے کہ واہ جی واہ، حضرت کی جان بچانے میں اپنی جان دے دی۔ بھاڑ میں گئے سب میں مروں ہی کیوں اِس کار میں، عبداللہ نے زیرِ لب دُعا مانگی۔
خیر اللہ اللہ کرکے مدرسہ آیا، کیا خوب عمارت تھی۔ یہاں انگریزی بھی پڑھاتے تھے۔ عبداللہ نے ایک کلاس میں جا کر انگریزی میں بات چیت کی اور مدرسے کے بچوں کی انگریزی سن کر بڑا خوش ہوا۔ کوئی وجہ نہیں کہ مدرسے کے بچے پڑھ لکھ نہ سکیں اگر ہم انہیں صحیح تعلیم دے دیں۔
جاری ہے