مولوی صاحب اُسے آخر میں بالائی منزل پر لے گئے اور وہاں ایک طالبِ علم کو بلوایا گیا۔ اُسے سب کمپیوٹر بچہ کہتے تھے۔ بچے نے آکر قرآن پاک سنانا شروع کیا۔ اسے جو آیت سنائی جاتی وہ وہیں سے قرآن پاک پڑھ لیتا۔ اسے سب کچھ یاد تھا۔ سورت مکی ہے یا مدنی، کتنی آیات ہیں، کتنے رکوع ہیں سب کچھ ۔
عبداللہ کی طبیعت سخت مکدّر ہوئی۔ اسے یہ گیم بالکل پسند نہ تھے۔ اللہ حسین ہیں حسن کو پسند کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ذہین بچے کو ایک سورہ آتی، ترجمہ، تفسیر اور اُس کی رُوح کے ساتھ ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے جب کہا گیا کہ فلاں شخص اُلٹا قرآن پڑھ سکتا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اس کے دل کو بھی اُلٹ دیں گے۔ حضرت عمرفاروقؓ نے 21 سال میں صرف سورہ بقرہ یاد کی۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ جتنے حافظ ہمارے دور میں ہوتے ہیں شاید کبھی بھی نہ ہوتے ہوں، لیکن جتنا عمل ہم لوگ کرتے ہیں قرآن پر اتنا کم عمل بھی شاید کبھی نہ ہوا ہو۔ اسے حفظ کرنے یا نہ کرنے پر کوئی بحث نہیں تھی۔ قلق صرف اِس بات کا تھا کہ میرے محبوب اللہ کا کلام ہے۔ محبت سے پڑھنا چاہیئے ایسے کہ جیسے عبداللہ درخت کو دیکھتا تھا۔ تمام جزئیات، احساسات، تراکیب اور روشنیوں کے ساتھ ۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ قرآن پر تماشا کبھی نہیں لگانا چاہئے۔ اللہ کا کلام ہے۔ ادب ملحوظِ خاطر رہے۔ بے ادبی میں جب کوئی انسان اپنی زبان کھول دیتا ہے تو نماز چھن جاتی ہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ سوچنے لگا کہ علم کا آغاز خاموشی سے ہوتا ہے کہ بولے نہیں اُستاد کے سامنے یہ خاموشی بڑی چیز ہے۔ یہ ربّ کی توجہ حاصل کرلیتی ہے۔ یہ وہ خاموشی ہے جو غارِ حرا میں وحی کھینچ لائی۔ یہ وہ خاموشی ہے جو غارِ ثور میں رسالت پناہ اور صدیقِ اکبر کے درمیان تھی اور یہ وہ خاموشی ہے جو آنسو بن کر اس بے بس و کمزور شخص کی آنکھوں سے گرتی ہے جو کسی کم ظرف کے آگے دستِ سوال رکھتا ہے۔ وہ باتیں جو خاموشی میں کی جاتی ہیں، بولنے والے اُس کا پر تو بھی نہیں پا سکتے۔ بندہ خاموش ہوتا ہے تو قدرت بولتی ہے۔ یہ چرند پرند، یہ پھول بوٹے، یہ آبشار اور جھرنیں، یہ پہاڑ و ہوائیں سب بولتے ہیں، باتیں کرتے ہیں۔ بس بندہ خاموش رہے۔ علم کا دوسرا پڑاؤ سننا ہے، آرام سے، سکون سے، بات کیا ہے۔ پسِ منظر کیا ہے، کون بول رہا ہے۔ سننا اور سنتے رہنا، بے شک اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، جس کے اندر جنگ جاری ہو اسے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ باہر جنگ جیتنے سے پہلے اندرونی جنگ کا خاتمہ ضروری ہے۔ اپنے آپ میں گم ہوجانا، دُنیا میں گم ہونے سے کہیں بہتر ہے اور بے شک اللہ سے بہتر سننے والا کون ہے؟
علم کا تیسرا پڑاؤ حفظ ہے کہ جو کچھ سیکھے یاد کرے یا لکھ لے کہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔
علم کا چوتھا مرحلہ عمل ہے کہ جو کچھ سنا، جو کچھ لکھا اب اِس پر عمل کرکے اُسے بھٹی میں پکالے۔ علم کے اُوپر آزمائش کی بھٹی چلتی ہے تو علم دِل پر ثبت ہوجاتا ہے، پھر مٹائے نہیں مٹتا اور پانچواں اور آخری مرحلہ علم کو بیان کرنا ہے، شائع کرنا ہے۔ علم جمع کرتے رہنا چاہیئے اور خرچ بھی کرتے رہنا چاہیئے، جو شخص علم خرچ نہیں کرتا اُس کا علم جمع بھی نہیں ہوتا اور بد ترین ملاوٹ علم میں جھوٹ کی ہے۔
عبداللہ کو لگتا تھا کہ اس نے یہ سارے مراحل اوپر نیچے کردیئے ہیں۔ باتوں کا اُسے شوق تھا۔ سننے پر طبیعت کہاں مائل ہوتی ہے۔ تھوڑا بہت یاد کرلیا تو کرلیا، عمل کوئی تھا نہیں کہ نقوش ثبت ہوں اور تشریح و ترویج اُس سے کبھی ہوئی نہیں۔ آنسو ایسے ٹپ ٹپ گرنے لگے جیسے کہ بارش میں کسی کا جھونپڑا ٹپکے۔ اس نے دُعا کو ہاتھ اُٹھائے،
’’یا اللہ! اے میرے اللہ سائیں، تو بارش کی بوندوں پر مانگی جانے والی دُعائیں قبول کرتا ہے۔ آج میرے آنسوؤں کی بارش ہے۔ اے اللہ، میں نے ہر اِک سے یہی سنا ہے کہ تو معاف کردیتا ہے اور مجھے تجھ سے اچھے کی ہی اُمید ہے، مجھے بھی معاف کردے۔ اے اللہ، عبادت کی تو قضا بھی ہے مگر جو زندگی غفلت میں گزر جائے اُس کا کیا؟ بس معاف کردے۔
اے اللہ، میں ان تمام گناہوں سے معافی اور تیری بخشش چاہتا ہوں جو گناہ میں نے اب تک کی زندگی میں کرکے، توبہ کی تھی اور پھر اپنی شامتِ نفس سے دوبارہ انہی گناہوں میں مبتلا ہوگیا۔ اے اللہ میں اِن تمام گناہوں سے بھی معافی مانگتا ہوں جو اپنی ذات کے متعلق کوئی وعدے میں نے آپ سے کئے اور پھر وہ وعدے پورے کرنے کی بجائے، پھر انہی گناہوں کو دوبارہ کرلیا۔ اور اے اللہ! اِن تمام گناہوں سے بھی معافی مانگتا ہوں جو میں نے اِس لیے کئے کہ تو نے اپنی نعمتیں مجھے دیں لیکن میں نے اِن نعمتوں کو تیری نافرمانی کا ذریعہ بنالیا۔ اے اللہ وہ تمام گناہ بھی معاف فرما دے جو میں نے کوئی نیکی کا کام جو صرف تجھے راضی اور خوش کرنے کے لئے کرنا تھا لیکن میں نے اُس نیکی کے کام میں تیرے علاوہ کسی اور کو خوش کرنے کی نیت کرکے اپنی نیت اور نیکی کو کھوٹا کردیا۔
اے اللہ مجھے میرے گناہوں کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ذلیل نہ کر کہ تو تو میرے کرتوتوں کو خوب جانتا ہے اور اے اللہ! مجھے عذاب بھی نہ دے کہ تجھے تو مجھ پر ہر طرح کی قدرت حاصل ہے اور میں تیرے سامنے بالکل عاجز، بالکل بے اختیار اور بے بس ہوں۔‘‘
عبداللہ کو کچھ ہی روز میں امریکہ سے پھر کچھ کام مِل گیا اور وہ ایک بار پھر روانہ ہوا۔ پچھلے 4 ماہ میں یہ اُس کا چوتھا چکر تھا۔ 2 سال پہلے اسے ایک فیلو شپ کے درمیان ٹونی مِلا تھا۔ ٹونی خود بھی اسی فیلو شپ پہ جاچکا تھا۔ ٹونی ہر بار کوئی نہ کوئی کام عبداللہ کے لئے ڈھونڈ ہی لیتا۔ اِس بار وہ ٹونی کے بلاوے پر ہی امریکہ جا رہا تھا۔
ٹونی سلم اور اسمارٹ خوبصورت گورا تھا جس نے بڑی اچھی پوزیشن پر کوئی 20 سال دُنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کیا تھا۔ آج کل وہ اپنی بنائی ہوئی ایک کمپنی میں وائس پریزیڈنٹ تھا۔ ٹونی میں سوائے شہادت کے مسلمانوں والی ساری خصوصیات تھیں۔
ٹونی نے اِس بار عبداللہ کو اپنی دوست جو ایک بہت بڑی کمپنی میں سیلز کی ہیڈ تھی اِس سے ملوایا۔ مارتھا اِس کا نام تھا۔ مارتھا سے زیادہ ہارڈ ورکنگ عبداللہ نے آج تک کوئی عورت نہ دیکھی تھی۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ عبداللہ کے غیر روایتی مزاح اور نپے تلے گہرے جملوں کو سمجھ لیتی تھی۔ عبداللہ خوب جانتا تھا کہ گہرائی میں موجود پریشر کی خبر ساحل سے نہیں ملتی۔ کوئی نہ کوئی غم، کوئی بات مارتھا میں ایسی تھی جو عبداللہ کی فریکونسی سے ہر بار میچ کرجاتی۔
ٹونی اور مارتھا دونوں کوئی 40 کے پھیرے میں ہوں گے۔ ٹونی نے عبداللہ سے کہا کہ کیا وہ بتاسکتا ہے کہ جس کاؤنٹی میں وہ رہتا ہے اُس کا مستقبل کیا ہوگا؟ نوکریاں بڑھیں گی یا ختم ہوں گی؟ لوگ آئیں گے یا جائیں گے؟ آبادی کس تناسب سے بڑھے گی؟ کوالٹی آف لائف کیسے اِرتقا پذیر ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
عبداللہ نے سوچنے کے لیے وقت مانگا۔
ٹونی واپسی پر عبداللہ کو ہوٹل چھوڑنے جا رہا تھا تو عبداللہ نے سوال کیا،
’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں ٹونی ہوں۔‘‘ ٹونی نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ارے ٹونی، میں یہ پوچھ رہا ہوں تمہارا مذہب کیا ہے؟‘‘
’’اوہ! میں پلا بڑھا کیتھولک فرقے میں ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب؟ اب کیا ہو؟‘‘
’’پتہ نہیں۔ میں پادری و کلیسا سے اِتنا بے زار آچکا ہوں کہ اپنے آپ کو کیتھولک کہنے کا دل ہی نہیں کرتا اور سچ تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو کسی بھی مذہب سے چپکانے کا دِل نہیں کرتا۔ دراصل ہوا یہ کہ بندے اور ربّ کا ڈائریکٹ رابطہ ہونا چاہیئے مگر پادری و کلیسا بیچ میں آگئے۔ میں شاید کبھی بغیر فرقے کے چرچ میں چلا بھی جاؤں مگر اِس خواہش کو بھی سال بیتے کہ پوری نہ ہوئی۔ میں کوئی مذہبی آدمی ہوں ہی نہیں۔ مذہب کا مقصد تو بہتر اِنسان بنانا اور زندگی کے معیار کو بہتر بنانا ہوتا ہے اور مذہب یا آج کل کا مذہب ایسا کر ہی نہیں پاتا اور مجھے تو خود بھی اچھے انسان کی تعریف کرنا نہیں آتی۔ کسے کہتے ہیں اچھا انسان، کیا تمہیں پتہ ہے۔‘‘
عبداللہ نے دِل ہی دِل میں کچھ پڑھا اور اِنتہائی آرام و شائستگی سے کہنے لگا۔ ٹونی، اِنسان وہ ہوتا ہے جس سے کسی اور کو نقصان نہ پہنچے، جسے یہ پتہ ہو کہ ایک دن مرنا ہے، جسے پتہ ہو کہ اچھائی ہمیشہ اچھائی ہے۔ بھلے ظاہری نتیجہ کچھ بھی نکلے، جسے پتہ ہو کہ پڑوسی، ماں، باپ، بچوں اور اُس خدا کے کیا حقوق ہیں، جس نے اُسے بنایا۔ وہ جو اپنے لین دین اور وعدوں میں دیانت دار اور سچا ہو، جو وعدے نبھانا جانتا ہو، جو جھوٹ نہ بولے۔ جو دوسروں کا بھی اِتنا ہی خیال رکھے جیسے کہ اپنے اہل و عیال کا، اور ایک ایسا آدمی جو شہد کی مکھی یا درخت کی طرح دُنیا سے بہت تھوڑا لے اور زیادہ لوٹائے۔
’’Wow، تمہیں اِسلام کی بڑی معلومات ہیں۔‘‘
عبداللہ سوچتا رہا کہ کتنا عجیب ہے کہ میں اِنسان کی تعریف کر رہا تھا۔ نہ میں نے حدیث پڑھی نہ قرآن کا حوالہ دیا اور پھر بھی یہ سمجھا کہ میں اِسلام کی بات کر رہا ہوں۔ اِس نے سوچا کہ بندے تو ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں خواہ پاکستان ہو یا امریکہ۔ ایک پیدائشی تڑپ ہر شخص کی فطرت میں ہے کہ خالق تک پہنچے اور سب کے مسائل بھی ایک جیسے، کوئی مولوی صاحب کی عنایتوں کا شکار تو کوئی پادری کے ہاتھوں برباد۔
یہ قصور ہمارا ہی ہے کہ دینِ فطرت کو اِن کی زبان میں اِن تک نہیں پہنچا سکے، ورنہ کیا وجہ ہو کہ اِتنی با شعور، محنتی، عقل سے کام لینے والی اور مجبوریوں سے ماورا قوم اسلام کو نہ پہچانے، اگر ہم نے اپنا دین اُن کی زبان میں اُن تک نہ پہنچایا تو وہ کیوں کر مسلمان ہوں گے اگر انھوں نے حشر میں کہہ دیا کہ اللہ ہمیں تو پتہ ہی نہ لگا کہ اِسلام تھا کیا تو ہم کیا کریں۔ ہم نے کوشش کی مگر یہ لوگ خودکش حملوں، مارو مارو کافر مارو سے باہر نکلتے تو کچھ سمجھاتے نہ۔ ہر شخص کی اپنی زبان، اپنی تعریف، اپنے سلوک، اپنے احکام، ہم کون سے والے قِسم پہ اسلام لاتے تو ہم مسلمان کیا کریں گے۔
کیا پتہ ’’کوئی مذہب نہیں‘‘ کہنے والے لوگوں کا دِل کب کب دھڑکتا ہو۔ گواہی میں کہ اللہ ہے مگر حواسِ خمسہ اِس کے وکیل ڈھونڈتے رہ گئے ہوں۔ کیا معلوم کتنوں نے ذہن و دِل کی اِس لڑائی میں جان کھو دی ہو اور کیا پتہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کس کس کو کیسے کیسے ہدایت سے بہرہ مند فرما دیا ہو۔ طلب ہو تو اللہ کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے،
آخر وہ ربّ ہے، پالن ہار ہے، لجپال ہے، پروردگار ہے۔ اِس کو کب کھلتا ہے کہ بندے کو واپس بھیج دے۔
اے اللہ، سب کو ہدایت دے اور مجھے طاقت دے کہ آذر کدے میں اذان دے سکوں۔ تجھے مؤذّنِ حق بلالِ حبشی کا واسطہ، تجھے صاحب النِداء حضرت عبداللہ بن زید کا واسطہ، اے رونے والوں کے ربّ تجھے ان رونے والوں کا واسطہ مجھ سے کام لے لے۔ آمین!
عبداللہ، ہوٹل میں پہنچا اور رات بھر شہری پلاننگ کے سافٹ ویئر کے بارے میں سوچتا رہا۔
پچھلی صدی میں انسان کے اطراف میں بکھری ہوئی چیزوں، سامانِ آسائش و آرائش اور ماحول میں بڑی ترقی ہوئی۔ اُونٹوں کی جگہ ریل، کار اور جہاز آگئے۔ ایک سے بڑھ کر ایک کار، مکان، فون، بستر، کھانے، گھومنے کی جگہیں، کھیل و تفریح کا سامان، غرض ہر چیز پر کام ہوا، ایک چیز جو رہ گئی، جس پر کام نہیں ہوا وہ ہے انسان کی ذات۔ کاش اِس کا عشرِعشیر بھی اگر انسان بنانے میں لگا ہوتا تو شاید آج دُنیا ایک بڑی اچھی جگہ ہوتی۔
خدا جب شہروں کو دیکھتا ہوگا تو کیسے دیکھتا ہوگا۔ کسے تباہ کرنا ہے کسے بچانا ہے۔ وہ تو ہر ایک کی سنتا ہے۔ اس کی تو سب پر نظر ہے۔
کیا ہم ایسا سافٹ ویئر نہ بنالیں جس میں کاؤنٹی میں موجود ہر شخص کا ڈیجیٹل کلون موجود ہو جس کے پاس اس شخص کی ساری خصوصیات و معلومات ہوں، جو کہ ارتقاء کرے، وقت کے ساتھ ساتھ، نئی چیزیں سیکھے، بات چیت کرے، کیا ہم جذبات کی نمائندگی کرسکیں گے کمپیوٹر پروگرامز میں، کیا ہم شعور و لاشعور کو الگورتھم میں سما سکتے ہیں۔ کیا ایسی کوئی انفارمیشن ہے جس کے بغیر کام چل سکے؟
کیا ہم اِس ڈیجیٹل دُنیا کو چلا سکیں گے؟ کیا مستقبل میں جا سکیں گے؟ کیا ہم مستقبل میں جا کر ماضی کو یہ بتاسکیں گے کہ اس نے کیا کرنا ہے؟ پودوں اور انسانوں میں بہت سے جینز مشترک ہیں۔ پودوں کو روشنی نہ ملے تو مرجھا جاتے ہیں۔ انسان کی روشنی کیا ہو؟ اللہ کا ذِکر، اور نہ کرے تو؟ مرجھایا ہوا اِنسان کیسا لگتا ہے؟
جتنی تیزی سے عبداللہ کا دماغ چل رہا تھا۔ اس رفتار سے اس کے ہاتھ کی بورڈ پر پروگرام ٹائپ کر رہے تھے۔ صبح تک عبداللہ اپنے سافٹ ویئر کی پروٹو ٹائپ بنا چکا تھا۔
کچھ ہی روز میں عبداللہ کوئی ساڑھے 3 سو افراد کے سامنے اپنا سافٹ ویئر پیش کر رہا تھا۔ تعریف و خوشامد کا ایک سیلاب تھا جو تالیوں کی گونج میں اُمڈ آیا تھا۔ عبداللہ جلد ہی بے زار ہوگیا۔ اسے پتہ تھا کہ کِبر اور اُس کا اظہار بد ترین اخلاقی بیماریوں میں سے ایک ہے۔
عبداللہ نے سوچا کہ یہی کام کرتے رہنا چاہیئے۔ خوب پیسے ملیں گے۔ کفر ہو یا اِسلام جڑیں مضبوط کرنے کے لئے مال خرچ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہ جو لوگ اِسلام کے نام پر جھوٹے سچے دعوے کرتے ہیں۔ کل اگر سائبر وار یا نیوکلیئر وار چھڑگئی تو کیا مسجدوں سے اذانیں دیں گے؟ آپ کی گاڑی میں پیٹرول ختم ہوجائے تو آپ پیسے خرچ کرکے پیٹرول ڈلوا دیتے ہیں نا کہ یہ کہ پورا شہر مسجد میں اکٹھا ہو کر دُعائیں مانگیں کہ اے اللہ! گاڑی چلا دے۔
عبداللہ نے ٹونی اور مارتھا سے واپس آنے کا وعدہ کیا اور پاکستان روانہ ہوگیا۔ ٹونی نے امیگریشن، ویزہ سب کی ذمہ داری اُٹھالی، کمپنی کے لیے سرمائے کے بندوبست کی بھی۔ آج بھی عبداللہ پھر سربسجود تھا۔
’’اے اللہ! آپ میری حقیقت کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں اور اے اللہ لوگ جو میری تعریف کر رہے ہیں، میں اِن سے زیادہ اپنی حقیقت کو جانتا ہوں۔ اے اللہ مجھے یہ لوگ جتنا اچھا سمجھتے ہیں، مجھے اِس سے بھی بہتر بنا دے اور اے اللہ میری اِن خطاؤں سے درگزر فرما جن کا علم، اِن تعریف کرنے والوں کو نہیں ہے اور اے اللہ جو کچھ لوگ میری تعریف کر رہے ہیں۔ میرا اِن جملوں پر مواخذہ نہ فرما، اے اللہ! کمپنی کھولنے چلا ہوں تو کامیابی عنایت فرما۔ اے اللہ تو دُعا کا در کھولتا ہے تو قبولیت کا بھی کھول دے کہ یہی تیری شان ہے، آمین‘‘۔
عبداللہ پاکستان پہنچا تو اسے ایک شخص کی ای میل ملی جس میں اس نے کچھ ادھار کی درخواست کی تھی۔ عبداللہ نے کچھ ہی دیر میں اسے پیسے آن لائن ٹرانسفر کردیئے۔ جب بلّو کو پتہ لگا تو وہ حیران رہ گئی کیونکہ وہ مانگنے والے شخص کو جانتی تھی اور یہ بھی کہ اس نے سوائے عبداللہ کو نقصان پہنچانے اور حسد کرنے کے کچھ نہیں کیا۔
بِلّو نے عبداللہ سے کہا۔ عبداللہ کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ تم دُنیا میں کسی کو پیسے دے دیتے اسے کیوں دیئے کہ یہ تو ہمیشہ تمہیں نیچا دکھانے کی تگ و دو میں رہتا ہے اور سوائے دُکھ پہچانے کے اِس نے کیا بھی کیا ہے تمہارے ساتھ ۔
ٹھیک کہتی ہے بِلّو۔ اِسی وجہ سے تو دیئے ہیں۔ میں نے پہلے سوچا کہ جھڑک دوں مگر پھر میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا ایسا کرنے سے میرا نفس خوش ہوگا یا غمگین تو یقین ہو چلا کہ وہ تو خوش ہوگا۔ تو میں نے دے دیئے، بڑے فائدے ہوں گے اِس سے، ایک مسلمان بھائی کی مدد ہوگئی تو سوچ میرا اس سے جو تعلق ہے اِس کا تو اسے بھی پتہ ہے۔ اِس کے باوجود اگر وہ میرے دروازے پر آیا تو کوئی تو ایسی مجبوری ہوگی۔ بے بس اور مجبور دُشمنوں سے مقابلہ نہیں کرتے۔ انہیں گلے لگاتے ہیں کہ کدورت دُھل جائے۔ ایسا کرنے سے میرے دل میں اگر اِس شخص کے لئے کوئی بغض ہوا تو جاتا رہے گا اور ایک فائدہ یہ ہوا کہ شاید اب اس کی زبان بند ہوجائے تو جو میرا وقت فضول اور لغو الزامات سننے میں لگ جاتا تھا اور اُس کے بعد طبیعت پر جو بوجھ آتا تھا وہ اب اِنشاء اللہ نہیں آئے گا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک دن میں نے بھی کسی کے سامنے جانا ہے۔ اِس نے اگر حساب کتاب پوچھ لیا تو مارا جاؤں گا۔ اس نے پوچھ لیا کہ نمازیں کیوں چُھٹ گئیں، جھوٹ کیوں بولا؟ گناہ کیوں کرتے رہے تو کیا جواب دوں گا۔
جاری ہے