Saturday, December 14, 2024

Khojh | Episode 2

خلافِ توقع صبح عبداللہ اُٹھا تو اُس کا موڈ کافی خوشگوار تھا، جسم پر چوٹوں کے نشان مگر چہرے پر وہی ازلی مسکراہٹ جو اس کی شخصیت کا حصہ تھی۔ ماں نے جلدی سے گرم گرم پراٹھا سامنے رکھ دیا اور باپ کی قمیص سے بنائی گئی قمیص بھی رکھ دی۔
عبداللہ ماں سے، اماں یہ روٹی کہاں سے آئی؟
تو کھالے چپ کرکے کل کا بھوکا ہے۔
سائیں کے ڈیرے سے آٹا لائی ہے نا؟
تو کھاتا ہے کہ نہیں؟ ماں نے بڑی مشکل سے آنسو روکتے ہوئے کہا۔
عبداللہ کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا مگر ماں کے غم کو دیکھتے ہوئے روٹی کھائی اور قمیص پہن کر باہر نکل گیا۔
عبداللہ جلد از جلد چاچا دینو کے پاس پہنچ کر اپنے دل کاغم ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ چاچا دینو نےعبداللہ کی شکل دیکھی تو مسکرانے لگا۔ عبداللہ کو تو جیسے آگ ہی لگ گئی۔ اوئے چاچا، کیسا دوست ہے تُو؟ مجھے پھینٹی پڑی اور تو ہنس رہا ہے؟ عبداللہ یہ تو سینک ہورہی ہے کُندن کی۔
چاچا یہ موٹی موٹی باتیں کرکے دل نہ جلا، مجھے کچھ پوچھنا ہے؟
چاچا میں کیا کروں گا؟ میری جندگی تو ختم ہوگئی، ڈیرے پہ جانے پر پابندی لگ گئی۔ تجھے پتہ ہے نا کل کیا ہوا ہے؟
ہاں، ہاں عبداللہ پورے گاؤں کوپتہ ہے۔
تو کیا اللہ کو بھی پتہ ہوگا؟
ہاں بیٹا !وہ تومالکِ کُل ہے سب دیکھتا، سب سنتا ہے۔
تو پھر وہ مجھے بچانے کیوں نہیں آیا؟
سائیں کے بندے آگئے تھے نا مارنے، تُو تو کہتا ہے میں اللہ کا بندہ ہوں تو وہ کیوں نہیں آیا بچانے؟
بیٹا ہر کام میں اللہ کی حکمت ہووے ہے، شاید تیرا ڈیرے پہ کام کرنا اسے منظور نہ ہو۔ چل تو چھوڑ اُسے، آ نماز پڑھ لیں مسجد جا کر، ظہر ہونے والی ہے۔ ظہر پڑھ کے چاچا دینو سبزی کی ریڑھی لے کر گاؤں کے بس اسٹینڈ پرکھڑا ہوگیا اور عبداللہ اس کے ساتھ ساتھ۔ چاچا ہم نماز کیوں پڑھتے ہیں؟
تاکہ اللہ پاک خوش ہوجاویں۔
اگر ہمیں نماز پڑھ کر خوشی نہ ہووے تو بھی اللہ پاک خوش ہوجاویں گے؟
چاچا دینو دیر تک عبداللہ کو دیکھتا رہا مگر جواب کچھ نہ دیا۔
اسی طرح باتوں باتوں میں دن ڈھل گیا، چاند سامنے آیا تو دونوں نے گھر کی راہ لی۔
چاچا نے جاتے ہوئے کہا، عبداللہ دیکھ چاند اور اس کی چاندنی کتنی پیاری ہے؟
چھوڑ چاچا ابھی تو بھوک لگی ہے، جب پیٹ خالی ہونا تو چاندنی واندنی کچھ اچھا نہ لگے ہے۔
چاندسے پیاری ہیں مجھ کوبھوک میں دو روٹیاں
جب کوئی بچہ مرے گا کیا کرے گی چاندنی؟
فضلو کئی ہفتوں سے سوچ رہا تھا کہ عبداللہ کا مستقبل کیا ہوگا؟ کئی بار خیال آیا کہ سائیں سے پھرمعافی مانگ کر عبداللہ کو ڈیرے پر لے آؤں کہ غریب لوگوں کا واحد آسرا یہ ڈیرہ ہی تو تھا، مگرسائیں کے غصے اور عبداللہ کی سوال کرنے کی مستقل عادت کے ڈر سے چپ رہا۔
آج برابر والے گاؤں سے ڈیرے پر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے، ان میں کچھ بچے بھی تھے جنہوں نے پیلی شلوار قمیص کا اسکول یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ یہ دیکھتے ہی فضلو کے دل میں بھی اُمید جاگی کہ وہ عبداللہ کو اسکول میں داخل کروا دے۔ اس طرح شاید اسے زندگی میں کوئی کام بھی مل سکے اور اُس کا وقت بھی برباد نہ ہو۔
اگلی صبح فضلو نے عبداللہ کو تیار کیا اورگاؤں کے واحد اسکول کی طرف چل پڑا، اسکول پہنچا تو دیکھا کہ تین میں سے دو کمروں میں گائے اور بھینس بندھی ہوئی تھیں، عبداللہ سے پھر نہ رہا گیا اور بول پڑا،
استادجی! کیا ڈھور ڈنگر بھی پڑھنے آتے ہیں؟
ابے نہیں! یہ وڈیرہ سائیں کے ہیں، پھر اُستاد جی فضلو سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ فضلو! وڈیرہ سائیں سے اجازت لے آ، ان کی اجازت کے بغیر یہاں کوئی داخلہ نہیں لے سکتا۔
’’مگراسکول تو سرکاری ہے‘‘
فضلو نے احتجاجاً کہا۔ ’’اور سرکار سائیں کی ہی تو ہے‘‘، استادجی نے لقمہ لگایا۔ عبداللہ نے پھر سے ٹانگ اڑائی، تو استاد جی! کتنے بچے پڑھ رہے ہیں اسکول میں؟ صرف دو، وہ دونوں میرے بیٹے ہیں، باقی سائیں نے کسی کو اجازت نہیں دی۔
توسائیں کے بچے؟
ابے پگلے! وہ تو شہر کے بڑے اسکولوں میں ہوں گے، وہ کوئی غریبوں کے اسکولوں میں تھوڑا ہی آئیں گے۔ کچھ دیر کی مزید بحثِ لاحاصل کے بعد فضلو اورعبداللہ واپس گھر کی طرف چلے گئے۔ فضلو نے عبداللہ کا دل بڑا کرتے ہوئے کہا، تو فکر نہ کر پاس والے گاؤں میں داخلہ کرادوں گا۔ روز گاڑی میں چلے جانا بس اڈے سے، ڈرائیور میرا جاننے والا ہے، وہ کرایہ نہیں لے گا میں شام کو اس کی گاڑی دھو دِیا کروں گا۔
کچھ دنوں کے بعد سائیں شہر گیا تو فضلو چپکے سے برابر والے گاؤں چلا گیا اسکول پتہ کرنے کو۔ عبداللہ پورا دن اسی کا انتظار کرتا رہا، فضلو آیا اور کہا کہ وہاں داخلہ نہیں ملا اور سوگیا، عبداللہ کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہوا مگر پوچھے تو پوچھے کیا؟
رات کے پچھلے پہر عبداللہ کی آنکھ کھلی تو ابا کو اماں سے کہتے سنا، ارے نیک بخت! وہاں اسکول میں بچوں سے کام کرواتے ہیں، ان سے غلط حرکت وغیرہ بھی کرتے ہیں، پورے گاؤں میں یہ بات مشہور ہے، ہمارا عبداللہ تو ویسے بھی بڑا کمزور ہے کہ شور بھی نہیں کر سکے گا۔ اس کے نصیب میں نہیں ہے اسکول ۔۔۔ تو پریشان نہ ہو، اللہ کوئی سبیل کرے تو کرے بظاہر تو کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔ پتہ نہیں کب کوئی آنسوعبداللہ کی آنکھ سے نکلا اور تہہ خاک ہوا۔
آج فضلو پھر مسجد میں انہی مولوی صاحب کی منت سماجت کررہا تھا کہ عبداللہ کو مسجد میں قرآن و نماز پڑھا دیں اور مدرسے میں داخلہ دے دیں۔ دیکھ فضلو! تیرے بچے کے کرتوت اور شہرت کوئی اچھی نہیں ہے، گاؤں بھر میں، اوپر سے وڈیرہ سائیں ناراض ہوگئے تو چندہ بھی نہیں ملے گا، تو اگر وعدہ کر کہ تیرا لال سوال نہیں پوچھے گا اور روز مسجد اور مدرسے کی جھاڑو پونچھا کرے گا تو کل سے بھیج دے۔
اور یوں کچھ گھنٹوں کی غلامی اور سوال نہ کرنے کی شرط پر عبداللہ کا داخلہ ہوگیا۔
عبداللہ مسجد میں پڑھائی کی منازل بہت تیزی سے طے کرتا چلا گیا۔ صبح فجر کے بعد ہی آجاتا اور مغرب کے بعد گھر جاتا جب کہ معمول کے اوقات صبح سورج نکلنے سے لیکر ظہر کی نماز تک تھے۔
کھانا بھی مدرسے میں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا، نورانی قاعدہ، یَسَّرناالقرآن، ناظرہ، تجوید سب کچھ عبداللہ نے 2 سال کے عرصے میں مکمل کرلیا، لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا، حافظہ اس کمال کا کہ سال سال پہلے کی باتیں یوں ازبر ہوتیں جیسے کل کی بات ہو۔
دوسال میں معمولی نوک جھونک کے علاوہ ابھی تک کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوا تھا۔
ایک دن مولوی صاحب نے عبداللہ کو ’’مولوی‘‘ بننے کامشورہ دیا۔
مولوی صاحب ’’مولوی‘‘ کسے کہتے ہیں؟
بھئی وہ شخص جوانسانوں کو اللہ کا راستہ دکھائے وہ مولوی ہوتا ہے۔
تو مولوی کو راستہ کون دکھاتا ہے؟
اسے دین کا علم راستہ دکھاتا ہے۔
تو لوگ دین کا علم حاصل کرلیں مولوی کی ضرورت کیا ہے؟
لوگوں میں اتنی عقل نہیں ہوتی۔
تومولوی کے پاس کہاں سے آئی؟
مولوی کوا للہ دیتا ہے۔
تو لوگوں کو کیوں نہیں دیتا؟
اور اس گفتگو کے بعد مولوی صاحب نے عبداللہ کو’’مولوی‘‘ بنانے اور عبداللہ نے ’’مولوی‘‘ بننے کاخیال دل سے نکال دیا۔ مدرسے وہ اب بھی جاتا تھا، ایک استاد سے حدیث اور فقہ پڑھنے، مگر اب اس کے سوالوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا تھا۔
[سورۃ الذاریٰت۱۵:۶۵]
’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔‘‘
آج کی کلاس مولوی صاحب نے اس جملے سے شروع کی، پوری جماعت نے اقرار میں سر ہلایا مگر عبداللہ کو بھلا ’’آسان باتیں‘‘ کب سمجھ آتی تھیں مولوی صاحب سمجھ نہیں آیا۔
مولوی صاحب نے غصے میں عبداللہ کو دیکھا اورعربی اور اردو میں آیت اور اس کا ترجمہ پھر بیان کردیا۔
مولوی صاحب بات نہیں بنی، عبداللہ پھر گویا ہوا۔
اب مولوی صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا، انہوں نے چیخ کے کہا بدبخت سب بچوں کوسمجھ آگیا، تیرادماغ ہے یا بھوسا؟ تجھے کیا مسئلہ ہے جو اتنی آسان بات پلے نہیں پڑتی۔
مولوی صاحب، فرشتے موجود ہیں نا، کوئی 24 گھنٹے رکوع میں تو کوئی سجدے میں، کوئی حمد و ثناء کے لیے تو کوئی طواف میں مگن، تو اللہ کو میری’’عبادت‘‘ کیوں چاہئے؟
آخر’’میری عبادت‘‘ فرشتوں کی عبادت سے کیسے مختلف ہوئی؟
چپ کر، بدبخت ہر بات پہ سوال نہ پوچھا کر! اللہ کا کلام ہے اور تو مسجد میں بیٹھا ہے۔ مگر اللہ سائیں نے یہ کلام ہمارے واسطے بھیجا ہے، اگر میں سمجھوں گا نہیں توعمل کیسے کروں گا؟ مجھے فرق سمجھادیں ورنہ میں تو نہیں پڑھتا نماز۔
کیا ضروری ہے کہ فتنۂ محشر بھی بنوں
وجہِ تخلیقِ جہاں ہوں یہ سزا کافی ہے
عبداللہ کے یہ الفاظ پوری کلاس میں بجلی بن کے گرے۔ مولوی صاحب نے اس ’’کفر‘‘ کی پاداش میں ارتداد کا فتویٰ لگایا اور خبر گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
فضلو بھاگتا ہوا آیا، ایک خلقت جمع ہوگئی، چاچا دینو کو بھی خبر کردی کسی نے، سمجھا بجھا کے عبداللہ سے کہا، معافی مانگ مگر عبداللہ نہ تو معافی مانگے نہ نما زپڑھے۔ خیر لوگوں کے سمجھانے پر مولوی صاحب نے عبداللہ کو کلمۂ توحید پڑھا کے پھر سے مسلمان کیا اور فضلو سے مٹھائی کا مطالبہ۔
’’مسلمان‘‘ ہونے کے بعد عبداللہ نے مولوی صاحب سے کہا، مولوی صاحب! وہ سوال کا جواب تو دے دیں۔
ابے عقل کے دشمن، اسی سوال کی وجہ سے تو سارا جھگڑا ہوا ہے۔ تجھے ایمان عزیز ہے کہ نہیں؟ پر وہ سوال تو وہیں کا وہیں رہا نہ؟
لے جا فضلو اسے، آجائیں وڈیرہ سائیں شہر سے واپس، اس گاؤں میں یہ ’’کافر‘‘ رہے گا یا میں۔
عبداللہ پہ تومولوی صاحب کی بات کا کچھ اثر نہ ہوا مگر فضلو کی جان نکلی جارہی تھی، عبداللہ بمشکل 11 سال کا ہوگا مگر اس کے مسئلے، پورے گاؤں کے برابر تھے گھر پہنچتے ہی فضلو نے کہا! عبداللہ، آج تو مولوی بھی تیرا دشمن ہوگیا، سائیں پہلے ہی تجھ سے خار کھاتا ہے، نہ دنیا سے یاری نہ دین سے، دونوں ہی دشمن ہوگئے، تیرا کیا ہوگا؟
ابا تو مجھے زہر لادے تیری بھی جان چھوٹے اور میری بھی۔ اتنے میں دروازے کے باہر کسی نے آواز لگائی، آنے والا چاچا دینو تھا۔ چاچا دینو نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے بات کا رخ موڑا۔
عبداللہ تجھے بلی پسند ہے؟ ہاں! چاچا بہت پسند ہے، اُچھلتی کودتی قلابازیاں کھاتی، قلقاریاں بھرتی، اپنی دنیا میں مگن۔
کیا وہ اپنے
کسی بھی کام میں اللہ کی نافرمانی کرتی ہے؟
نہیں چاچا، وہ کر ہی نہیں سکتی، اس کے پاس اتنا دماغ تھوڑی ہوتا ہے۔
اور فرشتے، کیا وہ گناہ کرسکتے ہیں؟
اُم م م م، نہیں چاچا ان کے پاس گناہ کا جذبہ نہیں ہوتا۔
توعبداللہ یہی تو وہ من مرضی ہے جس کی وجہ سے اِنسان ممتاز ٹھہرا اور اسی من مرضی کی وجہ سے پکڑ ہوگی۔
عبداللہ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا، مگر فضلو کی پریشانی تو کچھ اور تھی۔
آخر کار فضلو نےعبداللہ کی ماں کے ساتھ مل کر ایک فیصلہ کرہی لیا، اور وہ تھا عبداللہ کو اپنی بہن کے پاس پنجاب بھیجنے کا۔
فضلو کی بہن کی شادی پنجاب کے ایک دیہاتی گھرانے میں ہوئی تھی، امیر تو وہ بھی نہ تھے مگر کم از کم ہاری نہ تھے، زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، اس کے شوہر اِس پر کام کرتے تھے اور اولاد کوئی تھی نہیں، اور یوں صبح سویرے پَو پھٹنے سے پہلے عبداللہ دکھی دل اور روتی آنکھوں کے ساتھ اپنے ماں، باپ اور دینو چاچا کو خدا حافظ کہہ کر روانہ ہوگیا۔
عبداللہ اپنی پھوپھی سے مل کر بہت خوش ہوا، صرف دو بندے ہی تو تھے گھر میں، اور عبداللہ یوں بھی تنہائی پسند تھا۔
کچھ ہی دنوں میں پھوپھی نے عبداللہ کا ’’نئی روشنی‘‘ نامی سرکاری اسکول میں داخلہ کرادیا۔ پیلی یونیفارم عبداللہ کوبہت پسند آئی۔ عمر کے اعتبار سے یوں تو عبداللہ کو پانچویں کلاس میں ہونا تھا، مگر اسے A,B,C,D نہیں آتی تھی۔ لہٰذا 11 سال کی عمر میں اسے پہلی جماعت میں اپنی سے آدھی عمر کے بچوں کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔
پورے اسکول میں ہیڈ ماسٹر کوچھوڑ کے فقط تین استاد اور تھے، نہ مکمل فرنیچر، نہ بجلی اور پانی بھی وہ جو گھوڑے، گدھے سب ہی پیتے تھے۔
مگر عبداللہ کی پیاس تو علم سے ٹھیک ٹھاک بُجھ رہی تھی وہ جماعتیں 3، 3 ماہ میں پھلانگتا چلا گیا، اورصرف 14 سال کی عمر میں نویں تک پہنچ گیا، اب بورڈ کے امتحانات ہونے والے تھے لہٰذا پورا سال پڑھنا تھا۔
سال کے شروع کے ہفتے میں ایک استاد نے عبداللہ کو بلایا اورنصیحت کی،
’’بیٹا تو مجھے بڑا پسند ہے، تو ذہین ہے، اچھے سوال پوچھتا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم میں سے کسی کے پاس تیرے سارے سوالوں کے جواب بھی نہیں ہوتے، مگر دیکھ یہ بورڈ کے امتحان ہیں، یہاں پوزیشن کے لیے زبردست مقابلہ ہوتا ہے، تو کوشش کر اگر کوئی پوزیشن تو نے لے لی بورڈ میں، تو اس بہانے شاید ہمارے اسکول کے بھاگ کھل جائیں اور سرکار یہاں پر کوئی مناسب عمارت اور انتظامات کروا دے۔ ہمیں بڑی امیدیں ہیں تجھ سے، اللہ تیراحامی وناصرہو‘‘
عبداللہ ایک نئےعزم، ایک نئے جوش، ایک ولولے کے ساتھ اُٹھا اور اُس نے سوچ لیا کہ کوئی فائدہ نہیں زندگی کا اگر پوزیشن نہ آئی تو۔
گھر جا کے پھوپھی سے ذکر کیا تو وہ کچھ پریشان ہوگئیں، ایک تو اضافی کتابوں کا خرچ اور دوسرا وہ عبداللہ کی جذباتی طبیعت کو جانتی تھیں، انہیں لگا کہ اس لڑکے کی اگر پوزیشن نہ آئی تو کہیں کچھ کر نہ گذرے۔
اور یوں وہ بھی دن رات عبداللہ کے ساتھ لگ گئیں، اس کی تیاری میں۔
ان چار سالوں میں عبداللہ صرف ایک بار ہی گاؤں جاسکا، اپنے والدین سے ملنے، ماں ملاقات پہ اتنا روئی کہ آئندہ عبداللہ نے جانے کا ذکر ہی نہ کیا۔ وہ اکثر کہتا میں ایک دن ماں باپ کو اُس دلدل سے نکال لاؤں گا۔
پھوپھی کو شاعری اور اردو سے بڑا لگاؤ تھا، اُنہوں نے عبداللہ کی اُردو اور شاعری پر بڑی توجہ کی۔ اس کی پڑھائی کی رفتار بڑھانے کے لیے اسے روز کوئی نہ کوئی کتاب دے دیتی (جو اکثر وہ ردّی والے سے کوڑیوں کے مول خرید لیتی تھیں)۔ پروین شاکر، فیض احمد فیض، اکبر الہٰ آبادی، چودھری فضلِ حق، نسیم حِجازی سے لے کرعمران سِیریز، مظہرکلیم، ابوالاثر حفیظ جالندھری، علامہ اقبال، سعدی و رومی، کوئی مصنف بچا نہیں تھا، جس کی کتاب عبداللہ نے پڑھی نہ ہو، اور حافظے کا کمال یہ کہ 6 ہزار سے اوپر شعر یاد کرچکا تھا۔
اسی سال ڈویژن میں ہونے والے تقریری اور بیت بازی کے مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کی۔ پوزیشن کے بعد عبداللہ اور اُس کی پھوپھی کی خوشی دیدنی تھی۔
خیر پڑھتے پڑھتے عبداللہ کی نظر کمزور ہوگئی اورعینک لگ گئی مگر کتابوں کا جو شوق چڑھا وہ اُترنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ عبداللہ کے دوستوں کی تعداد صفر تھی کبھی کبھار چاچا دینو بہت یاد آتے تو اُداس ہوجاتا اور اُنہیں خط لکھ دیتا جس کا وہ باقاعدگی سے جواب دیتے تھے۔
خیر وقت اپنی مقررہ رفتار سے گزرتا چلا گیا۔ آج اخبار میں میٹرک کے امتحان کا رزلٹ تھا۔ عبداللہ نہ تو خود رات بھر سویا نہ کسی کو سونے دیا۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو پورے محلے میں جوعبداللہ کے لیے دعا نہ کررہا ہو۔ پھوپھی توسرتا پا دعا ہی بن گئی تھیں۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS