یونیورسٹی میں اس کی پہچان بہترین ٹیچر کے طور پر ہوتی جو طالب علموں کے تمام سوالات کے جواب دیتا۔ اب آہستہ آہستہ عبداللہ یونیورسٹی کی سینئر مینجمنٹ میں مقام بنانے لگا تھا۔ آج عبداللہ کو ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے فون کال آئی۔
جیِ آپ نے ہمارے Ms leading to Phd پروگرام میں اپلائی کیا ہے، مگر آپ کے 40 کریڈٹ ہاورز کم ہیں۔ گورنمنٹ نے کچھ عرصہ پہلے بیچلرز پروگرام 4 سال کا کردیا ہے جب کہ آپ نے 2 سال کا کیا ہے۔ تو آپ کے ماسٹرز کے کورسز ملانے کے باوجود آپ کی 40 کریڈٹ ہاورز کم ہیں، آپ انہیں مکمل کرکے اگلے سال پھر اپلائی کیجئے گا۔ ہماری یونیورسٹی کے انتخاب کا شکریہ۔
یااللہ! یہ کیا مصیبت ہے؟ 2 سال میں یہ حال ہوا تھا اگر 4 سال لگاتا تو جنازہ ہی نکل جاتا، اب یہ یونیورسٹی TDL لسٹ پر بھی تھی، چھوڑ تو سکتا نہیں تھا، تو عبداللہ نے اسی یونیورسٹی میں جہاں کام کرتا تھا ویک اینڈز پرایگزیکٹو پروگرام میں داخلہ لے لیا۔ ایک سال میں ایک ماسٹرز اور کر لیا، یہ بھی کمپیوٹرسائنس میں۔
اگلے سال پھر ایڈمیشن نہ ملا، 8 کریڈٹ ہاورز کا فرق رہ گیا، اب عبداللہ نے شہر کی ایک اور یونیورسٹی میں شام میں ماسٹرز پروگرام میں داخلہ لے لیا، کمپیوٹر سائنس پہ اتنا عبور تھا کہ کلاس لے یا نہ لے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ اس بات کو نئی یونیورسٹی کے وائس پریزیڈنٹ نے فوراً نوٹ کر لیا ان کا نام تھا ڈاکٹر حیدر۔
ایک دن عبداللہ کو اپنے آفس میں بلایا اور کہا کہ ’’میاں ،کیوں ٹائم ضائع کر رہے ہو؟ عبداللہ نے سارا ماجرا کہہ سنایا، کہنے لگے اس سال اپلائی کرو تو Recommendation لیٹر مجھ سے لکھوا لینا۔
پتہ نہیں انہوں نے ایسا کیا لکھا کہ بڑی یونیورسٹی میں داخلہ بھی ہوگیا اور 0 اسکالر شپ بھی مل گئی اور ساتھ میں Teaching Assistant کی جاب اور 15 ہزار تنخواہ بھی۔
اب ایک طرف TDL کا ایک ٹاسک تو دوسری طرف لگی لگائی جاب، بیوی، بچہ ، یہاں تنخواہ لگ بھگ کوئی 60 ہزار روپے ہوچکی تھی، مگر عبداللہ نے جو ٹھان لی سوٹھان لی۔ اپنی بلّو سے مشورہ کیا، اس نے کیا کہنا تھا، ہاں میں ہاں ملادی اور یوں عبداللہ نے استعفیٰ جمع کروا دیا۔ ڈر تھا تو صرف ایک کہ رفیع صاحب کا سامنا کیسے کرے گا کہ وہ احسان کرنے والے تھے، انہوں نے منع کردیا تو کیا ہوگا۔ آج عبداللہ جو کچھ بھی تھا وہ اوپر اللہ اور نیچے رفیع صاحب کی ہی بدولت تو تھا۔
آج وہ رفیع صاحب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا،
دیکھوعبداللہ تم جانتے ہو کہ تم مجھے کتنےعزیز ہو، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم جذباتی کوئی فیصلہ نہ لو، تمہاری عمر کیا ہے؟
سر 23 سال۔
اور تنخواہ؟
سر60 ہزار کے لگ بھگ۔
اللہ کے بندے، اس عمرمیں یہ تنخواہ، خوبصورت بیوی اور بچہ، لائف سیٹ ہے اور تم استعفیٰ دے کر پھر سے طالب علم بننے کاسوچ رہے ہو۔ This is Financial Suicide
جی سر بالکل، کسی سے شرط لگا بیٹھا ہوں جانا ہوگا۔ کس سے شرط لگائی ہے؟ میں بات کرتا ہوں اس سے۔ نہیں سر رہنے دیں، بس اجازت مرحمت فرمادیں، اللہ آپ کا بھلا کرے گا۔ چلو میں تمہیں ایک آفر دیتا ہوں، تم مجھ سے 5 سال کا کانٹریکٹ سائن کرلو، میں تمہاری تنخواہ بڑھا کے ایک لاکھ کر دیتا ہوں، مگر 5 سال تک پھر جانے کا نام نہیں لینا۔
عبداللہ کے سامنے اپنے باپ کے الفاظ گونج اٹھے۔
مگر اس نے دل پر پتھر رکھ کے کہا۔
سر ایک بات بتائیں۔
ایک آدمی کتنے فی صد بچت کرسکتا ہے؟ کیونکہ اکنامکس کا کلیہ ہے،
Expenses are raised to meet the Income.
آپ جتنا زیادہ کماتے ہیں آپ کے خرچے اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔
کم کمانے والے بسوں میں سفر کرتے ہیں اور ان کے بچے نئی روشنی میں جاتے ہیں، زیادہ کمانے والے جہازوں میں اڑتے ہیں اور ان کے بچے پرائیوٹ اسکولوں میں مہنگی تعلیم حاصل کرتے ہیں، بچتا کچھ نہیں ہے دونوں کے پاس۔
یورپ والے مشہور ہیں بچت کے لیے وہ بھی صرف 5 فی صد بچا پاتے ہیں۔
دیکھو اگر دھیان سے خرچ کرو تو شاید 50 فی صد تک بھی بچالو، رفیع صاحب نے کہا۔ سر یہ بتائیں، آپ کے پاس جو امپورٹڈ گاڑی ہے وہ کتنے کی ہے؟ 88 لاکھ۔
اچھا اور ڈیفنس کا گھر؟ 6 کروڑ، تو سر اگر میں یہ ’’شاندار‘‘ جاب پوری زندگی کرتا رہوں اور میری آنے والی سات نسلیں بھی کرتی رہیں تو میں نہ آپ کے جیسا گھر لے سکتا ہوں نہ کار۔ بھاڑ میں جائے ایسی جاب۔
میری منزل کچھ اور ہے سر مجھے جانا ہوگا، اور آخر کار ریکٹر صاحب نے استعفیٰ پہ دکھی دل کے ساتھ دستخط کر دیئے، وہ پودا جو اُنہوں نے 5 سال پہلے لگایا تھا آج ایک تناور درخت تھا۔
نئی یونیورسٹی، نئے لوگ، کم پیسے، عبداللہ ہر چیز کو انجوائے کررہا تھا، کچھ پیسے بینک میں پسِ پشت ڈال رکھے تھے، جن سے گذارہ بڑا اچھا ہورہا تھا، عبداللہ ہاسٹل میں رہتا تھا اور بیوی بچے ایک کمرے میں پاس ہی ایک گھرمیں پے انگ گیسٹ کے طور پر۔ عبداللہ کو جب بھی ٹائم ملتا وہ یا تو انہیں یونیورسٹی بلا لیتا یا ان کے پاس چلا جاتا۔ بیوی بچے والا وہ شاید ایک ہی طالب علم تھا اپنی کلاس میں۔
اخبار سے عبداللہ کا یارانہ بہت پرانا تھا۔ آج اخبارمیں اس کی نظر امریکہ کی مشہورِ زمانہ سنیٹر اسکالر شپ پر پڑی۔ Eligibility Criteria میں TOEFL اور GRE شرط تھے اور Subjective GRE کے اضافی مارکس۔ عبداللہ نے تمام اساتذہ اور دوستوں کے منع کرنے کے باوجود اپلائی کردیا اور TOEFL اور GRE کی تیاری میں لگ گیا۔ سب کا خیال تھا کہ اس اسکالر شپ کے حصول کے لیے بلا مبالغہ ہزاروں لوگ اپلائی کرتے ہیں اور سیٹیں صرف 4۔
عبداللہ نے بڑی محنت سے اسکالرشپ کے مضمون لکھے، ایپلی کیشن لکھی اور Recommendation لیٹرزجمع کروائے۔ ایک اس نئی یونیورسٹی سے، ایک رفیع صاحب سے اور ایک عبدالرحمن صاحب سے۔ نجانے ان لوگوں نے کیا لکھا، یا ایپلی کیشن کے مضامین کا کرشمہ یا کوئی دعا کا نتیجہ کہ عبداللہ شارٹ لسٹ ہوگیا۔ صرف 22 بندوں کوانٹرویو کال آئی پاکستان بھر میں سیٹوں کے لیے، اورعبداللہ ان میں سے ایک تھا،عبداللہ دن رات TOEFL اور GRE کی تیاری میں لگ گیا، ایک ہی دن میں دونوں پرچے شیڈول کروالئے مگر قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔ TOEFL سے 3 دن پہلے عبداللہ کی ماں کو ہارٹ اٹیک آگیا۔ عبداللہ بھاگ کے گاؤں پہنچا، جوجمع پونجی تھی وہ علاج پر لگ گئی، اور ماں کی کچھ حالت بہتر ہوئی توعبداللہ نے جیسے تیسے پیپرز دئیے۔
اس گہما گہمی اور پریشانی میں نہ تو یونیورسٹی کا رزلٹ کچھ بہتر آیا، یونیورسٹی نے Probation پر ڈال دیا، اور اسکالر شپ کینسل کردی تو دوسری طر ف TOEFL میں واجبی سے نمبر، ہاں GRE میں عبداللہ نے 90 فیصد مارکس حاصل کرلئے۔ آج عبداللہ اپنی بِلّو کے ساتھ ملک کے دارالحکومت کی طرف سینٹر اسکالر شِپ کے آفس کی طرف جارہا تھا، بس میں سفر کرتے ہوئے اپنی بیوی سے کہنے لگا،
دیکھ بِلُو، یہ توغلطی سے شاید انہوں نے مجھے کال کر لیا ہے، یہ اسکالر شپ وغیرہ میرے نصیب میں کہاں؟ اس بہانے ہم دونوں امریکن ایمبسی دیکھ لیں گے ورنہ ہمیں وہاں کون گھسنے دے۔
خیر جب تمام امیدوار اس بات کی مشق کررہے تھے کہ کیا پوچھیں گے، تو کیا بولیں گے اور اپنی ہی جمع کروائی ہوئی درخواستوں کو بار بار پڑھ رہے تھے۔ ایسے میں عبداللہ اور بلّو سارے آفس میں گھوم گھوم کر تصویریں دیکھ رہے تھے اور ہر گورے یا کالے امریکی سے ہاتھ ملا ملا کر فخر محسوس کررہے تھے کہ، انہوں نے اپنی زندگی میں اتنے سارے امریکی ایک ساتھ پہلے کبھی نہ دیکھے تھے، عبداللہ کی پروفائل سب سے کمزور تھی۔ سب لوگ بڑے شہروں کے تھے، انگلش میڈیم اسکولوں کے پڑھے ہوئے، ان کی انگریزی اور شاندار تلفظ دیکھ کے ہی عبداللہ کو یقین ہو چلا تھا کہ اس کی دال یہاں نہ گلے گی۔ خیر آخر اPس کا نمبر آہی گیا۔ کانپتے قدموں، لرزتے ہاتھوں، دھڑکتے دل، لڑکھڑاتی زبان مگر شوخ آنکھوں کے ساتھ دبلے پتلے عبداللہ نے آفس میں قدم رکھا۔
ابھی بمشکل کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ سوال ہوا،
تو آپ امریکہ جانا چاہتے ہیں؟
جیِ آپ کو کس نے کہا؟
اسی لیے تو آپ یہاں موجود ہیں؟
دیکھئے جناب، PhD کرنی ہے، کیونکہ وہ میری TDL پر ہے، پیسے میرے پاس ہیں نہیں، آپ جہاں چاہیں بھیج دیں بس فیس بھر دیں۔
امریکہ سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جیِ جنگوں کا شوق ہے یا بندے مارنے کا عراق ہو یا افغانستان ۔
کیا آپ کی باتوں سے میں یہ سمجھوں کہ آپ کو امریکہ سے نفرت ہے؟
جناب نفرت تو بڑا بھاری لفظ ہے، مگر مجھے محبت بھی کیسے ہو؟
آپ جانیں دیں، شاید دیکھوں تو محبت ہوجائے۔
نیشنل ایمرجنسی کی صورت حال میں کس کا ساتھ دو گے؟
جی پاکستان کا، ملک ماں ہوتا ہے اور ماں کا ساتھ کون چھوڑتا ہے۔
ہمیں نہیں لگتا کہ آپ امریکہ جا کر واپس آئیں گے؟
نہیں، ایسا نہیں ہے، مجھے واپس آنا ہے۔
ہم کیوں مان لیں کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں۔
کیونکہ میں جھوٹ نہیں بولتا۔
آپ جھوٹ کیوں نہیں بولتے؟
’’اللہ پوچھے گا‘‘۔
اور انٹرویو ختم، واپسی پر بلّو نے خوب صلواتیں سنائیں کہ یہ کیسا انٹرویو دے کر آئے ہو؟ جھوٹی موٹی تعریف نہیں کرسکتے تھے، عبداللہ نے کہا، میں سچ بولتا تھوڑا ہی ہوں، خود بخود زبان سے نکل جاتا ہے۔
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہہِ مصلحت بین سے وہ رندِبادہ خوار اچھا
کچھ ہفتوں بعد عبداللہ کی کمپیوٹر سائنس پر لکھی ہوئی پہلی کتاب منظرِعام پرآئی (اور یوں TDL سے ایک آئٹم اورکم ہوا)، اسی روز سینٹر اسکالر شپ میں Selection کا لیٹر ملا، عبداللہ کے پاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے تھے، مگر اسی شام اس کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ عبداللہ کئی روز روتا رہا، نہیں اللہ سائیں، یہ تو TDL میں تھا نہیں، یہ کیسے ہوگیا، یہ کیوں ہوا، مگر جذبات کا جوار بھاٹا چند ہی دنوں میں معدوم ہوگیا، اور یوں عبداللہ امریکہ روانہ ہوا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
امریکہ میں عبداللہ اپنے بیوی بچے کے ہمراہ بڑا خوش تھا، عجیب دنیا تھی وہ تمام برائیاں جو ملکی معاشرے میں اس کے لیے مصیبت بنی ہوئی تھیں وہ تمام خوبیاں بن گئیں۔ سوال پوچھنے پر استاد خوش ہوتے، سچ کو معاشرے میں سراہا جاتا، جھوٹ سے نفرت کی جاتی، ہر بندے کو اسکے حصے کی عزت ملتی، آپ لائن میں کھڑے ہیں تو ہر بندہ لائن میں کھڑا ہے بھلے معاشرے میں اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ عبداللہ کو احساس ہوا کہ ہم معاشرے میں کسی شخص کی عزتِ نفس کو اتنی بار مجروح کرتے ہیں کہ اس میں
خود اعتمادی ہی نہیں رہتی اور وہ پھر جو چاہے وہ کر گذرتا ہے۔ یہاں آ کر عبداللہ کی صحت بہت اچھی ہوگئی، اس نے ایک اور ماسٹرز کیا۔ کچھ عرصہ نوکری کی، پھر جزیرہ ہوائی میں ایک اسکالر شپ مل گئی وہاں چلا گیا، وہاں سے آیا تو سینٹر اسکالر شپ والوں نے اس کا شاندار اکیڈمک ریکارڈ دیکھتے ہوئے دوسری بار اسکالر شپ دے دی PhD کے لیے ۔
بالا آخر 5 سال کی دن رات محنت کے بعد عبداللہ کو PhD ڈگری مل گئی۔ اس نے آج پھر 4 میں سے 4 GPA لے کر یونیورسٹی کے بہترین طالب علم کا اعزاز پایا۔
اس عرصے میں عبداللہ متعدد ملکوں میں گھوما، درجن بھرسے زائد کتابیں لکھیں، مقالہ جات اور ریسرچ پیپرز کی تعداد 50 سے تجاوز کرگئی، اور ملنے والے ایوارڈز کی ایک لمبی لائن تھی جو عبداللہ کے C.V میں ہر اس شخص کا منہ چڑا رہی تھی جو اسے کوڑھ مغز کہتا تھا۔
عبداللہ کو اللہ سائیں نے دو اور بیٹوں سے نوازا۔ اسکالر شپ کی رو سے ابھی عبداللہ کے واپس جانے میں 4 ماہ تھے۔ اسے M.I.T سے ایک آفر آئی تو کام کرنے وہاں چلا گیا، اور وہاں سے اسے سافٹ وئیر ٹیسٹنگ کا ایک پراجیکٹ ناسا میں مل گیا، تنخواہ تھی 240 ڈالرز فی گھنٹہ۔ کام کرتے ہوئے اچانک ایک دن عبداللہ بھاگتا ہوا گھر پہنچا، اور اپنی TDL لسٹ نکالی جو اس نے ایک عرصے سے نہیں دیکھی تھی۔ عبداللہ جوں جوں لسٹ پڑھتا گیا، اس کے چہرے کا رنگ اڑتا چلا گیا، یاخدا! کوئی شے ایسی بچی ہی نہیں تھی، جو نشاندہی سے رہ گیا ہو، آخری چند آئٹم اس نے آج نشان زدہ کر دئیے۔
عبداللہ گھنٹوں بیٹھا خلاؤں میں گھورتا رہا، اور پھر اس کے رونے کی آواز نے اس کی بیوی بچوں کو گہری نیند سے جگا دیا۔ بیوی، جو گواہ تھی اس کے پچھلے 10 سالوں کی لگاتار اور انتھک محنت کی، بے قراری سے بولی، کیا ہوا، کیا ہوگیا ہے عبداللہ، سب خیریت تو ہے، تم کیوں رو رہے ہو؟ بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے؟ تم تو ایسے کبھی بھی نہ روئے۔ بِلّو وہ لسٹ تھی نہ TDL والی، ہاں ہاں کیا ہوا اس کو؟
بِلّووہ مکمل ہوگئی۔
Every Damn Thing got ticked off.
wow تو چلو جشن مناتے ہیں، تم کیا نا شکروں کی طرح رو رہے ہو، چلو اُٹھو باہر جا کے کھانا کھاتے ہیں۔
نہیں بِلّو، ہاتھ ہوگیا ہے، کیا مطلب؟
بِلّو آدمی کسی چیزکے پیچھے بھاگ رہا ہو اور بھاگتا ہی چلا جارہا ہو اور وہ چیز اسے مل جائے تو سکون آتا ہے، قرار ملتا ہے، دِل کا خلا بھر جاتا ہے۔
مگرمیرے ساتھ توایسا کچھ نہیں ہوا۔
وہ دل کا خلا تھا ناں وہ بڑھ کے گز بھر کا ہوگیا ہے۔ یااللہ! میں کیا کروں، میں شرط ہار گیا، اور اب مجھے وہ کرنا ہے جو تو کہے، مگر اللہ سائیں تیری TDL تو مجھے پتہ ہی نہیں ہے، میں نے کبھی اس پر دھیان ہی نہ دیا، اور اگر دنیا یہی چاہتی تھی مجھ سے تو میں نے وہ سب کچھ کر دکھایا جو دنیا نے، ماں باپ نے، رشتہ داروں نے،عزیز و اقارب نے، دوستوں اور دشمنوں نے مجھ سے چاہا، اب کیا کروں میرے ربا، میں اب مزید زندہ کیوں رہوں؟
آخر میں ہوں کیوں؟
تو نے مجھے پیدا کیوں کیا؟
میری زندگی کا مقصد ہے کیا؟
یارب! 10 سال ضائع ہوگئے، تو جانتا ہے 18 گھنٹے روز کام کیا ہے، عید، بقرعید، رمضان کچھ بھی ہو، بارش یا طوفان میں کام کرتا رہا، نہ ماں باپ پردھیان، نہ بیوی بچوں کو ٹائم، میں کام کرتا رہا، کتنے آلام و مصائب آئے میں لگا رہا، کتنی خوشیاں آئیں جو میں نے لمحہ بھر کو رُک کر نہیں دیکھیں، میں کام کرتا رہا۔
مگر آج، آج میں پھر خالی ہوں، سب کچھ ملنے کے باوجود میرے اللہ سائیں! میں پھر وہیں پہنچ گیا، جہاں سے شروع ہوا تھا۔
میں کیا کروں اب؟
میرے اللہ جواب دے۔
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا! کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں؟
اور یہ کہتے کہتے عبداللہ کو Anxiety کا دورہ پڑا، اور اسے اسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا۔ وہ تمام تر رعنائیاں، شوخیاں اور امارات کی چیزیں جو کبھی چاہی جاتی تھیں، آج عبداللہ کی نظروں میں بے معنی ہوگئیں۔ وہ تو شکر ہے کہ لسٹ 10 سالوں میں پوری ہوگئی وگر نہ شاید زندگی بھر اسی میں لگا رہتا، اور جب فرشتے قبر میں آ کے پوچھتے،
(سورۃ النساء۴:۷۹)
’’جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز و ناتواں تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ کیا اللہ کا ملک فراخ نہیں تھا کہ تم اس میں ہجرت کرجاتے؟ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بُری جگہ ہے۔ ‘‘
تو کیا جواب دیتا؟ عبداللہ کی حالت اس جُواری کی سی تھی جو اپنا سب کچھ ہار گیا ہو، ایسے شخص کی جِسے منزل پہ پہنچ کر پتہ لگا ہو کہ یہ منزل اس کی تھی ہی نہیں۔
وہ تمام لوگ جو عبداللہ سے پیار کرتے تھے، اس سے مخلص تھے، جن کی عبداللہ قدر کرتا تھا، ماں باپ، رشتہ دار، دوست و احباب، سب نے مل کے جھوٹ بولا اور اپنے ایجنڈے پہ لگا دیا۔ اب کس پہ یقین کرے، کس سے رجوع کرے، کس کی بات مانے، کس کو دُہائی دے، آج عبداللہ کا کوئی نہیں رہا تھا، وہ بالکل اکیلا ہو گیا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداللہ نے گھر پہنچ کر جاب سے استعفیٰ دیا اور سوالوں کی ایک لمبی لسٹ بنائی کہ جن لوگوں کو وہ عقلمند سمجھتا ہے ان سے جا کے پوچھے گا۔ اگر تو جواب مل گئے تو مسئلہ ختم ورنہ وہ بھی اپنی لسٹوں میں کہیں گم ہیں، اور پھر ان کا نام عقل مند لوگوں کی لسٹ سے خارج کردے گا۔
سوال کچھ اس طرح کے تھے۔
* میں کون ہوں؟
* انسان کسے کہتے ہیں؟
* بندہ کسے کہتے ہیں؟
* ہمارامقصدِ حیات کیاہے؟
* زندگی کا Vision کیا ہونا چاہئے؟
* ہر وہ چیز جس کی آپ خواہش کرسکیں وہ آپ کو مل جائے تو آپ کس کی خواہش کریں گے؟
* وہ زندگی جوایک خواہش سے دوسری خواہش کی طرف سفر کرتی ہو اسے کیا نام دیں گے؟
* جانور اور انسان میں کیا فرق ہے؟
* آپ کو کیسے معلوم ہو کہ اللہ کے پاس آپ کا کیا مقام ہے؟
* اللہ آپ سے کیا چاہتا ہے؟
* میری TDL میں سے کتنی چیزوں سے متعلق سوال ہوگا؟
* ہم پر اللہ کا کیا حق ہے؟
* ہم پر اللہ کے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حق ہے؟
* کیا ہمارا معاشرہ ہمیں اپنے رب سے دور کرتا ہے؟
* ترقی وعلم سے ملنے والے غرور کا خاتمہ کیونکر ممکن ہو؟
* زندگی کس چیز کا نام ہے؟
* اللہ کیسے راضی ہوتا ہے؟
* میں یہ کیسے مان لوں کہ جوکچھ بھی آپ کہہ رہے ہیں میرا اللہ مجھ سے یہی چاہتا ہے؟
* کیسے پتہ چلے کہ زندگی کا خواب زندگی کے مقصد سے جڑتا ہے؟
* یہ خوف کیسے نکلے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں وہ ٹھیک ہے یا کہ پھر 10 سال بعد اسی جگہ پر آجاؤں گا؟
* اللہ سے معافی کیسے مانگیں؟
* دعا مانگنے کا طریقہ کیا ہو؟
* کامیابی کسے کہتے ہیں؟
ان سوالوں کو لے کرعبداللہ شہر بہ شہر، کُو بہ کُو پھرتا رہا، دنیا کے 10 ممالک پھر لئے، امریکہ کی 48 ریاستوں کی خاک چھان ماری اور جب کچھ نہ بن پڑا تو واپس پاکستان چلا آیا، یہاں بھی کوئی 3 درجن سے اوپر شہر اور گاؤں گھوم ڈالے، جو کچھ کمایا اور بچایا تھا، وہ اس صحرا نوردی کی نذر ہوگیا، مگر دل کا اقرار ایسا اُجڑا کہ آنکھیں ویران اور دل بنجر ہوگیا۔
کتنے ہی لوگ تھے اس کے ذہن میں جنہیں وہ اپنا آئیڈیل اور رول ماڈل سمجھتا تھا، بڑی بڑی سافٹ وئیر کمپنیوں کے مالک، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بے تاج بادشاہ، مفکّر، اسکالرز، ریسرچرز، پروفیسرز، گاؤں کے بوڑھے سنیاسی، شہر کے بزنس مین، مفتی صاحبان، مولوی حضرات، الغرض کوئی عبداللہ کو مطمئن نہ کرسکا، اور ایک ایک کرکے تمام نام لسٹ سے خارج ہو گئے۔
ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن خوش وخُرم، کوئی پلاٹ خریدنے کا مشورہ دے تو کوئی گھر بنانے کا، کوئی ’’روحانی منزلیں‘‘ طے کرنے یا کروانے کی ’’گارنٹی‘‘ دے تو کوئی انسانیت کی خدمت میں سکون پانے کا مشورہ دے۔
مگر ایک عبداللہ تھا، جس کے دل کی ویرانی، روز بروز بڑھتی ہی جارہی تھی، وہ اکثر لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا،
اپنی خوشی کے ساتھ میرا غم بھی مِلا دو
اتنا ہنسو کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑیں
اس ادھیڑ بُن میں اچانک اسے خبر ملی کہ چاچا دینو کا انتقال ہوگیا ہے، یہ خبر بجلی بن کے گری پہلے سے بوسیدہ حال عبداللہ پر۔
چاچا دینو ہی تو ایک ٹمٹماتا ہوا روشنی کاچراغ تھا، اس کی اندھیری دنیامیں، وہ بھی گیا۔
یااللہ ! یہ تو سارے راستے ہی مسدود ہورہے ہیں، تو چاہتا کیا ہے؟
نجانے کس طرح عبداللہ نے چاچا دینو کا جنازہ پڑھا اور انہیں قبر میں اتارتے وقت وہ یہ شعر پڑھ رہا تھا:
رشک آزادی پہ ہے ایسے اسیروں کی مجھے
چُھٹ گئے جو جان دے کر پنجۂ صیّاد سے
عبداللہ کی حالت دن بدن گرتی جارہی تھی، داڑھی الجھ گئی تھی، کبھی بال بڑھ جاتے تو کبھی وہ گنجا ہوجاتا، گھر والے، سسرال والے سب پریشان تھے۔ آج عبداللہ نے سر عبدالرحمن سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ عبداللہ دل ہی دل میں سب سے ہی ناراض تھا کہ کسی نے بھی اس راستے پہ چلتے ہوئے خبردار نہ کیا۔ جیسے ہی عبدالرحمن صاحب نے عبداللہ کی حالت دیکھی ان کے منہ سے بے اختیار نکلا:
بتارہی ہے یہ آنکھوں کی منجمد لالی
کڑے دنوں، کٹھن رتجگوں سے گذرے ہو
خزاں خزاں سایہ چہرہ، دھواں دھواں آنکھیں
خوشی کی کھوج میں کتنے غموں سے گزرے ہو؟
عبداللہ سے آنسو ضبط نہ ہوسکے اور وہ ان سے گلے مل کر نجانے کتنی دیر روتا رہا۔
آخر جب عبدالرحمن صاحب نے اس کے سوالوں کی کھوج میں اس کی مدد کا فیصلہ کیا توعبداللہ کو کچھ قرار آیا۔ عبدالرحمن صاحب نے عبداللہ سے کہا کہ جوابات تو تمہیں بہت سے لوگ دے چکے ہیں، مسئلہ ہے تمہارے دل کے اطمینان کا، تمہارے دل کو کوئی بات لگتی ہی نہیں ہے، کوئی ایسا درد، ایسی چبھن، ایسا خلا ہے جو تمہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا ہے، اب تمہیں کتنے ہی جواب کیوں نہ مل جائیں تمہارا مسئلہ ایسے حل نہیں ہوگا۔ عبدالرحمن صاحب نے کچھ دوستوں سے مشورہ کرکے حل بتانے کا وعدہ کیا اور عبداللہ ایک موہوم سی اُمید کے ساتھ گھر روانہ ہوا۔
کافی دن گذر گئے، عبدالرحمن صاحب کا کوئی جواب نہیں آیا، عبداللہ پہلے تو یہ سوچ کر انتظار کرتا رہا کہ وہ دوستوں سے مشورہ کررہے ہوں گے، مگر آج کافی دنوں بعد اس نے ان کے گھر پر فون ملایا۔ بیٹے سے بات ہوئی، کہنے لگا، ابّو کو فالج اور لقوہ کا اٹیک ہوا ہے اور وہ اسپتال میں ہیں، عبداللہ کے ہاتھ سے رسیور گِرگیا۔
/>اسپتال جا کے عیادت کی، ڈاکٹرز نے بتایا کہ حالت بہتر ہوجائے گی مگر شاید دوبارہ بولنے اور چلنے پھرنے میں کئی سال لگ جائیں۔
عبداللہ سامنے جا کر بیٹھ گیا مگر عبدالرحمن صاحب کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک تک نہ تھی کہ بیماری سے ذہن متاثر ہوا تھا۔ عبداللہ نے آنکھ اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور ایک آنسو اس کی داڑھی بھگوتا ہوا زمین پہ آ گرا ۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج عبداللہ نے نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے، مسجد میں جا کر نماز پڑھی، بیوی بچوں کے ساتھ کھانا کھایا، سب ہی اس کایا پلٹ پر حیران تھے، بِلّو کو یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ لگ رہا تھا۔
جب علیحدگی نصیب ہوئی تو وہ عبداللہ سے کہنے لگی، عبداللہ! کیا ہوا، تم ٹھیک تو ہو؟ کہیں انٹرویو کے لیے جارہے ہو کیا؟
نہیں بِلّو، اب مجھ سے یہ درد نہیں سہا جاتا، آج فیصلہ ہو کر ہی رہے گا۔
کیا مطلب؟
آج میں ایک بار پھر آخری بار، اللہ سے مانگوں گا، اپنے سوالات کے جوابات، اور دل کا سکون، اگر مل گیا تو ٹھیک، ورنہ ۔۔۔
ورنہ کیا؟ بِلّو کے منہ سے چیخ نکلی۔ ورنہ میرے بچوں کا خیال رکھنا۔
بِلّو تو مصلّے پر ڈھیر ہوگئی کہ اُسے عبداللہ کے آہنی عزم کا بھرپور ادراک تھا، پتہ نہیں کب تک وہ کیا کیا مانگتی رہی اسے خبر تھی کہ آج فیصلے کی رات ہے۔
جب سارے گھر والے سو چکے تو عبداللہ چپکے سے اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا، بِلّو نے بھی چپکے سے پیروی کی۔
عبداللہ، برابر والے کمرے میں مصلّے پر تہجد پڑھ رہا تھا، نماز سے فراغت کے بعد اس نے ہاتھ اُٹھائے۔
اللہ سائیں!
تجھے تو پتہ ہے کیا ہوا؟ میں ہار گیا اللہ سائیں۔ وہ بد نصیب کہ جو سب جیت کے بھی ہار گیا اور تو ایسا بے نیاز کہ سب کچھ دے کے بھی پرواہ نہیں۔
میرے اللہ، دیکھ میری مدد کر، ورنہ میں مرجاؤں گا، میں نہیں رہ سکتا، زندہ اب بغیر TDL کے، تو مجھے دے نئی TDL، ایسی TDL کہ جس کے ہر آئیٹم کو ٹِک کر کے میں تجھ سے قریب ہوجاؤں، میں تجھ سے راضی تو مجھ سے راضی ہوجائے، اور سوال دینے والے اللہ، جواب بھی دے دے، میرا بھی مسئلہ Solve کردے، اللہ میرے لیے کافی ہو جا، کھول دے بند گرہیں، ڈال دے دماغ میں کچھ، ختم کر یہ کشمکش، کردے رحم، دے دے آگہی، سُجھادے کوئی راہ، کردے رہنمائی، تو کچھ لوگوں کوچھوڑ دیتا ہے بھٹکنے کو، کچھ کو راہ دکھاتا ہے، تو کسی کا ہاتھ پکڑ کر اسے چلاتا ہے، اے میرے شہہ رگ سے قریب اللہ! میرا ہاتھ پکڑ، مجھے راہ دکھا، میرے پاس آ، میری مدد کر، اے غار میں سکینہ اُتارنے والے اللہ، اے میرے مالک، اے میرے مولا، اے میرے پالن ہار، میڈا سائیں، میڈا یار، میرے مالک، آ جانا، ہاتھ پکڑ، راستہ دکھا، روشنی دے اپنے نور میں سے، میرے آگے روشنی کر میرے پیچھے کر، میری دائیں کر میرے بائیں کر، میرے اوپر کر میرے نیچے کر، میں کیا کہوں گا منکر نکیر کو اگر پوچھ بیٹھے فِیْمَ کُنْتُمْ؟
مارا جاؤں گا میرے اللہ، میری TDL انگارہ بنا کے نہ لگا دی جا وے۔ رحم کر میرے مولا، تو کر بھی لے، تجھے تیرے رحم کا واسطہ، تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا واسطہ، واسطہ اس صحابیؓ کا جس کا سر شگافتہ ہوگیا تھا تلوار سے اور وہ کہہ رہا تھا،
فُزْتُ وَرَبُّ الْکَعْبَۃ(۱)۔
واسطہ اس بات کا کہ تو میرا اللہ ہے اور میں تیرا بندہ۔
بچالے مجھے میرے مالک، میری سرکار، کر بھی دے مدد، سن بھی لے میرے مولا۔
میرے اللہ، سخی کی شان نہیں ہوتی کہ دے کر واپس لے، میرے مولا تو معاف کردے، دیکھ میں سجدے میں گرگیا، دیکھ میں نے ناک رگڑ لی، سجدے سے زیادہ Defenseless پوزیشن تو کوئی بھی نہیں ہے، میرے اللہ ۔۔۔۔ میں تیری توحید کا اقرار کرتا ہوں، میرے رب، شرک سے بچتا ہوں میرے اللہ، ان دونوں کے بیچ میں ہونے والے گناہوں کو معاف کردے۔
جاری ہے