Sunday, September 15, 2024

Khojh | Episode 7

تو نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے
حشر میں حساب نہ کرنا میرے اللہ، ایسے ہی چھوڑدینا میرے اللہ، تو پوچھیو نہیں میرے اللہ، تو پوچھیو نہیں میرے اللہ، تو پوچھیو نہیں میرے اللہ۔
اور اس کے بعد عبداللہ کی آواز جیسے گنگ ہوگئی، بول تو کچھ رہا تھا، مگر الفاظ پلّے نہیں پڑ رہے تھے، رونے، سسکیوں، آہوں کی آواز میں سب کچھ دب چکا تھا، وہ ایسے ہوا میں ہاتھ مار رہا تھا جیسے کوئی ڈوبنے والا بچاؤ کے لیے ہاتھ پاؤں چلاتا ہے، بلّو جو یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی وہ دھڑام سے گر گئی اور نجانے کب عبداللہ کو بھی نیند آگئی۔
بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی
صبح جب بِلّو اُٹھی تو رات کے واقعہ کی وجہ سے اس کا چہرہ سیاہ پڑا ہوا تھا، فوراً نظر دوڑائی تو عبداللہ نظر نہ آیا، ابھی ڈھونڈنے جارہی تھی کہ وہ ہنستا مسکراتا کمرے میں داخل ہوا، آج بہت ہی بدلا بدلا اور سنبھلا ہوا لگ رہا تھا، آتے ہی ہمیشہ کی طرح بِلّو پہ پھبتی کَسی۔
کیا تیرا جسم تیرے حسن کی حدّت میں جلا
راکھ کس نے تیری سونے کی سی رنگت کردی؟
پہلے والاعبداللہ دیکھ کے بِلُو کی جان میں جان آئی ۔
اب عبداللہ کافی سنبھل گیا تھا، اس کے دل کو شاید کچھ چین مل گیا تھا، اس نے سمجھ لیا تھا کہ جو سوال 33 سالوں میں جمع ہوئے ہیں ان کاحل 33 دنوں میں نہیں ملے گا، وہ اب چلنا چاہتا تھا جستجو کے اس سفر میں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کچھ دنوں بعد آج عبداللہ اپنی فیملی کے ساتھ ملک کی مایۂ ناز یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسرکی جاب جوائن کرنے کے لیے جارہا تھا۔ یونیورسٹی میں دیکھتے ہی دیکھتے عبداللہ کے نام کا ڈنکا بجنے لگا، ساتھ ہی عبداللہ نے اپنے بیوی بچوں پر خصوصی توجہ دینا شروع کی، وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھتا۔
زندگی میں کچھ ٹھہراؤ سا آگیا تھا، عبداللہ آج بھی نماز پڑھتا تو اللہ سے گھنٹوں دعائیں مانگتا، عبداللہ آج بھی اپنے اللہ کو خط لکھا کرتا۔
عبداللہ کی زندگی میں آج بھی بہت سے سوال آتے ہیں۔ کچھ کا جواب مل جاتا ہے کچھ کا نہیں، مگر اسے اس بات کا احساس ہے کہ جس راہ پر وہ چل رہا ہے وہ اسے بھٹکنے نہیں دے گی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
آج یونیورسٹی میں کوئی اضافی سیمینار ہو رہا تھا Goals Settings پر کہ زندگی میں Goals کیسے بنائے جائیں اور پھر ان پر محنت کیسے کی جائے؟
تو عبداللہ جلدی گھر واپس آگیا، گھر آتے ہی عبداللہ کو خبر ملی کہ اس کا بچہ انگلش کے امتحان میں فیل ہوگیا ہے، اس نے اپنے بیٹے کو بلا کر پوچھا کہ تمہاری انگلش تو بہت بہتر ہے تو کیا معاملہ ہوا؟
بیٹے نے کہا پاپا، سراسر زیادتی ہوئی ہے انگلش کا پیپر تھا اس میں سوال آیا،
?When was Quaid-e-Azam born
میں نے جواب لکھا،
.He was born on 14 August 1947
ٹیچر نے نہ صرف میرے مارکس کاٹ دئیے بلکہ کلاس کے سامنے میرا مذاق بھی اُڑایا۔
پاپا مجھے پتہ ہے کہ ان کی تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1876 ہے، مگر یہ انگلش کا پیپر تھا نہ کہ مطالعۂ پاکستان کا، آپ مجھے بتائیے:
?How was my sentence grammatically wrong
عبداللہ نے ہنستے ہوئے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور بیٹے سے پوچھا تو پھر آپ نے ٹیچر کو کیا کہا؟
بیٹے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
’’اللہ پوچھے گا۔‘‘
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ اپنی بِلّو اور بچوں کے ساتھ بیٹھا ہوا کوئی گیم کھیل رہا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی۔ ہیلو! میں ڈاکٹر حیدر بول رہا ہوں، کیا عبداﷲ سے بات ہو سکتی ہے؟
جی سر، میں عبداﷲ بول رہا ہوں کیسے ہیں آپ؟
عبداﷲ واپسی مبارک ہو، کسی روز ملنے آجاؤ۔
جی کچھ ہی روز میں حاضر ہوتا ہوں۔
کچھ دنوں بعد عبداﷲ ڈاکٹر حیدر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
اور سر سنائیں۔ پچھلے 6 سال کیا ہوئے؟ کوئی نئی تازی یا زندگی ابھی تک اِسی ڈگر پر مصروف ہے؟
ویسے تو سب ٹھیک ہے عبداﷲ، بس راستے اور منزل بدل گئے ہیں، اندر کا موسم باہر کے موسم سے جُدا ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر حیدر کے منہ سے نکلنے والے یہ گہرے الفاظ عبداﷲ کے ذہن میں بھونچال پیدا کر رہے تھے۔ وہ کہنے لگا۔
سر، ایک خالی پن کا احساس مجھے بھی ہے مگر کوئی سِرا ملتا نہیں ہے۔ کمپیوٹر سائنس کا کوئی پرابلم ہوتا تو کب کا حل نکال چکا ہوتا۔
عبدﷲ نے ہنستے ہوئے کہا۔
ڈاکٹر حیدر، عبداﷲ کے مزاج شناس تھے کہنے لگے ایک کام کرو، یہاں سے قریب ہی ایک صاحب کا آفس ہے، میں فون کر دیتا ہوں تم اِن سے جا کر میرے حوالے سے مِل لو۔
مجھے اُمید ہے کوئی سبیل نکل آئے گی۔ احمد نام ہے اُن کا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبداﷲ اگلے ہی روز احمد صاحب کے چھوٹے سے آفس میں بیٹھا تھا۔ آفس میں داخل ہوتے ہی اُس کی نظر مشہور زمانہ ٹی وی پر وگرام کی CDs پر پڑیں جس میں ایک شعلہ بیان مقرر ملک عزیز کے ہر مسئلے کا تعلق امریکہ و اسرائیل کی خفیہ سازشوں سے جوڑ دیتے ہیں مگر حل کچھ نہیں بتاتے، عبداﷲ کو ایسے لوگوں سے شدید چڑ تھی۔ اِس کے اپنے مسائل ہی اتنے زیادہ تھے کہ وہ مزید مسائل سننے کے موڈ میں بالکل نہ تھا۔ عبداﷲ نے جلدی سے ایک طائرانہ نظر بُک شیلف میں رکھی کتابوں پر ڈالی، اِن میں سے زیادہ تر وہ پڑھ چکا تھا اور گفتگو شروع ہونے سے پہلے وہ احمد صاحب کے عقل و شعور کی اکاؤنٹنگ کرچکا تھا۔ احمد صاحب آرام سے اُس کے ’’فارغ‘‘ ہونے کا انتظار کرتے رہے، وہ کوئی 40 کے پھیرے میں ہونگے، دبلے پتلے نکلتا ہوا قد، آنکھوں میں بَلا کی چالاکی مگر چہرے پر دَرد، عبدﷲ زیادہ دیر آنکھیں نہ مِلا سکا۔
احمد صاحب گویا ہوئے،
کیسے ہیں آپ ڈاکٹر صاحب؟
جی ٹھیک ہوتا تو یہاں کیوں آتا۔ پریشان ہوں، سمجھ نہیں آتا زندگی میں کیا کروں؟
اتنا پڑھا لکھا، خوب جان ماری، مگر نتیجہ صفر
دل کا چین پتہ نہیں کہاں لُٹا بیٹھا ہوں۔ پتہ نہیں کس بات کی جستجو ہے؟
کون سی منزل ہے کہ دل کھنچتا ہے مگر نظر نہیں آتی ۔
کوئی ہوک ہے کوئی آس کوئی تڑپ۔ کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہے جو پوری نہیں ہوئی۔ میں ایک ایسا مریض ہوں جسے اپنی بیماری کا نہیں پتہ، علامات کا بھی نہیں پتہ، تو اب علاج ہو کیسے؟ عبداﷲ بولنے پر آیا تو بولتا ہی چلا گیا۔
دریں اثناء احمد صاحب کی آنکھوں کی چمک کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ وہ گویا ہوئے۔
ہم م م م م م۔ پہلے کہاں تھے آپ؟ ہم تو آپ کو ڈھونڈ رہے تھے۔
عبدﷲ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایک پھیکی سے ہنسی ہنس کر رہ گیا۔
احمد صاحب نے اپنی بات جاری رکھی۔
ڈاکٹر صاحب، تھوڑی دیر کے لیے judgement ترک کردیں۔ اندازے بعد میں لگائیے گا۔ آپ ایسا کریں کہ ہماری ایک ورکشاپ ہو رہی ہے کل سے، امین صاحب ہمارے انسٹرکٹر ہیں، وہ پڑھائیں گے، آپ یہ کرلیں۔
ارے نہیں احمد صاحب، میرے پاس دنیا کے 72 سر ٹیفکیٹس ہیں، میں ہر اس بندے سے مِلا ہوا ہوں یا پڑھ چکا ہوں جن کی کتابیں آپ یہاں سجائے بیٹھے ہیں، میرا مسئلہ اب کوئی نیا کورس کرکے حل نہیں ہوگا۔ انہی کورسز نے تو یہ دن دکھلایا ہے، میں اپنا رونا رو رہا ہوں آپ اپنی ٹریننگ بیچنے کے چکر میں پڑے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ یہ ورکشاپ کرلیں پھر بات ہوگی۔ احمد صاحب نے جیسے کہ فیصلہ سنا دیا۔
پتہ نہیں یہ ان صاحب کے لہجے کا اثر تھا یا طبیعت کا ٹھہراؤ کہ اگلی شام جمعہ کے روز عبدﷲ ٹریننگ سینٹر پہنچ گیا۔ کوئی 20 کے قریب مرد و خواتین موجود تھے اور احمد صاحب جیسے ایک اور صاحب، جنہیں سب امین بھائی کہہ رہے تھے وہ ٹریننگ شروع کرنے کے لیے بے تاب۔
عبدﷲ زندگی کی اتنی بدتمیزیوں کے بعد کسی سے تمیز سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ویسے بھی وہ اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ یہاں آیا کیوں؟ وہی اِسٹیفن کوی، وہی جیک ویلش، سیم والٹن، وارن بُوفے اور پیٹرسِنگر کے فرمودات، وہی بکواس ہوگی جِس میں عبدﷲ خُود چیمپئین تھا۔ لوگوں نے اپنا تعارف کرایا۔ عبدﷲ اس پورے عرصے میں سر بینچ پہ رکھے سوتا رہا، اُسے اب کسی کی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی کیا سوچے گا، جب اپنی باری آئی تو صرف نام بتایا اور پھر کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔
سوتے سوتے یا سونے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے امین بھائی کا ایک جُملہ کان میں پڑا۔
’’اگر آپ یہاں بیٹھے بیٹھے مرجائیں تو کیا آپ اپنی زندگی کو مڑ کے دیکھیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں! لگ گئی؟ یا یہ کہیں گے کہ ضائع ہوگئی؟ یا یہ کہ پتہ نہیں کیا ہوئی اور کہاں گئی؟‘‘
ہمیں نہ بتائیں اپنے آپ سے پوچھ لیں۔
اب عبداﷲ نے آنکھ کھولی مگر سر ویسے ہی جُھکا رکھا۔
اچھا، دوسرا سوال، امین بھائی نے اپنے ترکش سے ایک اور تیر نکالا، کچھ لوگ آپکے مرنے کے بعد آپکے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں وہ کیا کہیں گے؟
پتہ نہیں کون تھا جو مرگیا، یا اچھا ہوا مرگیا؟ یا ﷲ کا نیک بندہ تھا۔ بڑے اچھے کام کرگیا ہے جو سالوں زندہ رہیں گے۔
اب عبدﷲ سنبھل کے بیٹھ چکا تھا اور اسکی آنکھوں میں چمک سی آگئی تھی۔
امین صاحب نے ایک تیر اور نِکالا اور ہاتھ میں موجود مارکر کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ کیا ہے؟ کیا کرتا ہے؟
سامعین میں سے کسی نے جواب دیا، جناب مارکر ہے اور لکھنے کے کام آتا ہے۔
بہت خوب، اب آپ اپنے آس پاس دیکھیں اور چیزوں کی لسٹ بنالیں۔
عبدﷲ کا پین تیزی سے چلنے لگا
پنکھا
کرسی
میز
چپل/جوتا
درخت
کھڑکی
ملٹی میڈیا پروجیکٹر
لیپ ٹاپ
اِسپیکرز
ٹیوب لائٹ
جگ
گلاس
مارکر
گھڑی
صوفہ
واٹر کولر
’’چلیں اب اِن تمام چیزوں کے سامنے ان کا (purpose) مقصد لکھیں‘‘۔
پنکھا ہوا دیتا ہے، مارکر لکھتا ہے، گھڑی وقت بتاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
’’اوہ! ہم لسٹ میں ایک نام تو بھول ہی گئے، جی ہاں! آپ کا اپنا نام وہ بھی تو لکھیں‘‘۔
’’عبداﷲ‘‘ کی لِسٹ میں ایک نئے آئٹم کا اِضافہ ہوگیا ہے۔
جی اب اس کے سامنے اس کا مقصد purpose بھی لکھ لیں۔
تو عبدﷲ ہم ہیں ہی کیوں؟
?why do we exist
عبدﷲ ہونق بنا صرف تکے جارہا تھا۔
امین بھائی نے اپنی بات جاری رکھی۔ ایک سیدھا سا ذریعہ ہے معلوم کرنے کا، جس نے بنایا ہے اُس سے پوچھ لو۔ اب مارکر بنانے والی کمپنی نے مارکر کی تمام خصوصیات اور مقاصد بتادئیے ہیں، اور HP والوں نے اِس میز پر رکھے لیپ ٹاپ کی، اور ڈاؤ لینس نے اِس ائیر کنڈیشن کی، تو آپکی سمجھ کے حساب سے جو بھی آپ کا خالق ہے آپ اُس سے پوچھ لیں۔ بحیثیتِ مسلمان، ہمارا ماننا ہے کہ ﷲ سبحانہ و
تعالیٰ ہمارے رب ہیں۔ وہ قرآن میں فرماتے ہیں۔
’’ہم نے انِسانوں اور جنوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔‘‘
تو ہماری زندگی کا اولین مقصد تو ﷲ کی رضا ہوئی ناں!
ہماری (To Do List, TDL) میں سب سے اُوپر تو ’’ﷲ کو راضی کر نا‘‘ لکھا ہونا چاہیے نا، ہم ڈیزائن ہی ﷲ کو راضی کرنے کے لئے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے ﷲ کے۔
عبداﷲ کے دل پر یہ الفاظ بجلی کی طرح گر رہے تھے مگر امین بھائی نے تو جیسے چُپ نہ ہونے کی قسم کھا رکھی تھی۔ انھوں نے اپنی بات جاری رکھی ۔
کیا خیال ہے آپ کا اُس مارکر، کے بارے میں جو لکھتا نہ ہو؟ اُس گلاس کے بارے میں جس میں پانی نہ ڈالا جاسکے؟ یا اُس AC کے بارے میں جو ہوا ٹھنڈی نہ کرسکے؟ اِن تمام چیزوں نے اپنے ہونے کا حق ادا نہیں کیا ناں؟
کیا خیال ہے آپ کا اب اپنے بارے میں؟
ہم م م م م، ذرا سوچیئے۔ ﷲ تو ہماری TDL میں ہوتا ہی نہیں ہے۔
ہر وہ عمل جو ﷲ تعالیٰ سے قریب نہ کرے یا دُور لے جائے، ان کی ناراضگی کا سبب بنے وہ کبھی نہیں کرنا چاہیے۔
عبدﷲ کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا تھا۔ وہ لرزتے ہاتھوں کے ساتھ اٹھا اور کاپنتی ہوئی آواز میں انسٹرکٹر سے مخاطب ہوا، اِسکی آواز سُن کر سب ہی پریشان ہوگئے۔ خود انسٹرکٹر بیچارہ سوچ میں پڑگیا کہ آخر میں نے ایسا کہا ہی کیا ہے؟ عبدﷲ گرجا۔
’’امین صاحب خدارا خاموش ہوجائیں اور بند کریں یہ ڈرامہ‘‘۔
کہاں مرگئے تھے آپ آج سے 10 سال پہلے، پہلے کیوں نہ بتایا کسی نے یہ مجھے، نہیں ہے جواب آپکے سوالوں کا میرے پاس! ہوتا تو یہاں آتا ہی کیوں؟
اگر آپکو یہ خوش فہمی ہے کہ آپکے یہ چند گھنٹے میری زندگی کے 33 سال کھا جائیں گے تو منہ دھو رکھیں۔ وہ 33 سال جس میں محنت بھی پسینے اور خون میں فرق نہ کرسکی۔ میری 198 آئٹمز پر مبنی TDL ، میری تمام تر کامیابیاں، کیا سب ایک لیکچر سے ضائع کرنے کا اِرادہ ہے؟ ایک لفظ، امین صاحب ایک لفظ منہ سے اور نِکالا تو یہ گُلدان مار کے آپ کا سر پھوڑ دوں گا۔ بھاڑ میں گئے آپ، بھاڑ میں گئی آپکی ٹریننگ اور بھاڑ میں گئے شوخ آنکھوں والے آپکے احمد صاحب، میں جا رہا ہوں۔
یہ کہہ کر عبدﷲ ٹریننگ روم سے نکل کر چلا جاتا ہے۔ حاضرین میں سے کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ کچھ بول سکے مگر امین صاحب پیچھے بھاگے اور سیڑھیوں کے پاس عبدﷲ کو جالیا۔ ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر صاحب، آپ سُنیں تو سہی، عبدﷲ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو امین بھائی بھاگتے ہوئے آرہے تھے۔ قریب تھا کہ عبدﷲ انہیں دو چار تھپڑ جڑ دیتا، مگر وہ آگے بڑھے اور عبدﷲ کو سینے سے لگالیا۔ یکایک عبدﷲ کو اپنی آنکھیں تر ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔ وہ دل میں کہہ رہا تھا امین صاحب ہوسکتا ہے کہ آپ ٹھیک ہی کہتے ہوں، مگر میں غلط ہوں یہ کیسے مان لوں؟ میری حالت اُس ماں کی سی ہے جس کا جوان بیٹا مرگیا ہو اور وہ لاش کے سامنے بیٹھی کہہ رہی ہو کہہ نہیں نہیں، یہ مرا تھوڑا ہی ہے یہ تو سو رہا ہے۔
عبدﷲ کو سمجھ نہ آ رہا تھا کہ اپنے ارمانوں کی لاش کو کدھر دفنائے اور کدھر اس کی تدفین کرے۔
عبداﷲ نے امین بھائی کو خدا حافظ کہا اور گھر چلا گیا۔
ابھی وہ بِلّو کو آج کی روداد سنا ہی رہا تھا کہ اُس کا بیٹا عبدالرحمن آگیا اور کہنے لگا، پاپا ہمیں آج Green Environment پر اسائنمنٹ ملی ہے۔ Recycling پر پوسٹر بنانا ہے، میں نے سب سے پہلے کچرے (Trash) کی تعریف لکھی ہے۔
وہ چیز جو اپنے مقصدِ و جود کے قابل نہ رہے۔
.A thing that can’t fulfill it’s purpose anymore
ٹھیک ہے ناں پاپا؟ بتائیے ناں؟ ہاں ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہو بیٹا۔
آج کی رات پھر رت جگا ہوگا، عبدﷲ نے بھیگی آنکھوں سے بِلّو کو کہا جو مسکرا کر خاموش ہوگئی۔
رات عبدﷲ پھر جائے نماز پر تھا۔
’’یاﷲ! تو چاہتا ہی نہیں ہے کہ میں سو سکوں، روز کی کوئی نئی پریشانی، کوئی ذہنی اذیت تو نے میرے دل و دماغ کو اتنا حساس کیوں بنایا ہے؟ یہ امین بھائی کیا کہہ رہے تھے۔ یہ TDL پہلے کسی نے کیوں نہ بتائی۔ تجھے راضی کرنا ہے مگر کیسے؟ میں کیا کروں کہ تو راضی ہوجائے میرے ﷲ؟ ﷲ میں کچرا ہی تو ہوں جو اپنے مقصدِ حیات کے قابل نہ رہا، جس نے بُھلا دیا اپنے مقصد کو، مجھے معافی دے دے، بے شک تیرا فضل وجہ کا محتاج نہیں ایسے ہی بلا وجہ بخش دے۔ کون پوچھے گا تجھ سے۔ یاﷲ! میں کل واپس ٹریننگ میں جاؤں گا۔ صحیح بات سمجھا دے۔ امین بھائی پہ رحم کر، میری گستاخیاں معاف فرما۔ آج پھر سے اپنی TDL کو ری اِسٹارٹ کر رہا ہوں، اِس بار پچھتاوے سے بچانا۔ اس بار قبول کر لینا۔ آمین! ‘‘
تر اب کاسۂ دل پیش کردیا جائے
سنا ہے کوئی سخاوت میں حد نہیں رکھتا
ــــــاگلے دن صبح عبدﷲ پھر ٹریننگ روم میں تھا۔ رات والے واقعہ کا اثر سب لوگوں کے چہروں پر تھا۔ اُس نے باری باری سب کے پاس جاکر معافی مانگی۔ تھوڑی ہی دیر میں سیشن واپسی شروع ہوا۔ امین بھائی کے لب و لہجے میں بلا کی فراست اور چا بکدستی تھی۔ عبدﷲ سوچ رہا تھا کہ انہوں نے اس جیسے ہزاروں بھگتائے ہوں گے۔
ہاں! تو ہم کل بات کر رہے تھے زندگی کے مقصد کی، یہ تو ہم سب پر واضح ہوچکا ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد ﷲ کو راضی کرنا ہے، جب ہم اِس مسئلے کو حل کر لیتے ہیں تو اگلا سوال آتا ہے خواب کا، Vision کا، ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اس زندگی میں؟ بہت سے لوگوں نے کئی طرح سے اِسکو بیان کیا ہے، جو تعریف ہمیں پسند آئی ہے وہ ہے پیٹر سِنگر کی،
’’وژن سے مراد مستقبل کی وہ تصویر ہے جو آپ دیکھنا چاہیں‘‘ .The picture of future you to want see
مثال کے طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بڑا ہوکر ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا تو ہم اگر 10،20 سالوں میں (مستقبل میں اُسے ڈاکٹر یا انجینئر کے روپ میں دیکھ رہے ہوتے ہیں)۔
ہماری اس خواہش اِس چاہ کا نام vision ہے۔ مثال کے طور پرعلامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تو کوئی پاکستان سچ مچ میں انکے خوابوں میں تھوڑا ہی آیا تھا بلکہ ایک سوچ تھی کہ مسلمان کس طرح مِل جُل کے ایک آزاد ریاست میں رہیں گے، تو ہم سب کی زندگی میں کوئی نہ کوئی وژن ضرور ہونا چاہئیے اپنے بارے میں، اپنی اولاد کے بارے میں، ماں باپ کے بارے میں، اپنے ادارے کے بارے میں کوئی نہ کوئی منزل تو ہو یا کوئی ٹارگٹ تاکہ آدمی پھر اُس تک پہنچنے کی جستجو کرے، اور ہاں! ایک کوشش یہ بھی کرنی ہوگی کہ وژن اور purpose آپس میں ٹکرائیں نہیں۔ مثلاً مقصد تو ﷲ کو راضی کرنا ہے اور وژن میں سینما کا مالک لکھ دیں تو بات کچھ بنی نہیں۔ purpose ﷲ کو راضی کرنا ہو اور وژن میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر ہی پیسہ کمانا ہو تو بھی کوئی اچھی بات نہ ہوئی۔
عبداﷲ کو یہ ساری سیدھی سادھی باتیں بغیر کسی مفکرانہ بحث کے بڑی اچھی لگ رہیں تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی بڑا سوچتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں، ہم نے تو خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیئے ہیں۔ جب منزل ہی نہ ہوگی تو سفر کس سمت شروع کریں؟ اور بَفرضِ محال منزل نہ بھی ملی تو بھی اِس سفر کی وجہ سے اچھے انسان تو بن ہی جائیں گے۔
یہ وژن دراصل چھوٹے چھوٹے ننھے ننھے چراغ ہیں جو پورے ملک میں جل گئے تو ہر طرف روشنی ہوجائے گی۔ اگر سب لوگوں تک امین بھائی کی یہ ٹریننگ پہنچ جائے تو ملک بدل جائے گا، میرا بھی ایک وژن ہونا چاہیئے اور باقی ماندہ تمام عمر اُس میں لگا دوں گا، میں بھی بڑا خواب دیکھوں گا، ایک نئی TDL خود بخود عبدﷲ کے دل میں جنم لے رہی تھی، میں لوگوں کو پڑھاؤں گا۔ اچھا کمپیوٹر سائنٹسٹ بناؤں گا تاکہ ملک کے لیے زرِ مبادلہ لاسکیں وغیرہ وغیرہ، عبدﷲ اپنی دنیا میں ہی مگن تھا اور وقفے کا ٹائم ختم ہوگیا۔
امین بھائی نے موضوع بدلا، آپ لوگوں نے کبھی پونی کی کہانی سُنی ہے؟
سب کا جواب نفی میں تھا، تو بھائی ایک تھا پونی، ایک چھوٹا سا کتا اسے گاؤں دیکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ ایک دن دوستوں سے مشورہ کرکے وہ گاؤں چلا جاتا ہے۔ گاؤں میں کنویں پر پانی پینے کے لئے رکتا ہے مگر پھسل کر گر جاتا ہے اور ڈوب کر مرجاتا ہے۔ اب گاؤں والے مولوی صاحب کے پاس آتے ہیں اور ماجرا سناتے ہیں کہ پونی گرگیا کنویں میں اور پانی ناپاک ہوگیا۔
مولوی صاحب کہتے ہیں کوئی بات نہیں 40 بالٹی پانی نکال لو، پانی پاک ہو جائیگا۔ لوگ واپس آجاتے ہیں کہ 40 بالٹی پانی نکالا مگر بدبو ابھی بھی باقی ہے۔ مولوی صاحب 40 بالٹی اور نکالنے کا کہہ دیتے ہیں، لوگ پھر واپس آجاتے ہیں، مولوی صاحب کہتے ہیں بھائی! آپ لوگ بڑے شکی مزاج ہو 40 اور نکال دو، مگر لوگ پھر واپس کہ 120 بالٹیاں نکال چکے ہیں پانی جوں کا توں ہے، اب مولوی صاحب کی برداشت سے باہر ہوگیا اور وہ ایک جِمِّ غفِیر کے ساتھ کنویں پر پہنچ گئے۔ جھانک کے دیکھا تو پونی کی لاش تیر رہی تھی۔ بھائی اسکو کیوں نہیں نکالا؟ مولوی صاحب نے گاؤں والوں سے تعجب سے پوچھا۔ آپ نے پونی نکالنے کا کب کہا تھا؟ گاؤں والوں نے استفسار کیا۔
امین بھائی نے اپنی بات جاری رکھی، تو آپ بتایئے اگر ہم کنواں خالی کردیں اور پونی نہ نکالیں تو کیا کنواں پاک ہوجائے گا؟ عبدﷲ نے ہنستے ہوئے نفی میں جواب دیا۔ بالکل اسی طرح ہمارا معاشرہ، ہمارے لوگ، ہمارے دوست، ہمارے احباب، ہمارے کولیگز ہزاروں کی تعداد میں پونی ہمارے دماغ میں بھر دیتے ہیں، پھر اس کے بعد کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیا پڑھتے ہیں۔ کہاں سے تجربہ لیتے ہیں، کیا تعلیم حاصل کرتے ہیں نتیجہ وہی صفر۔
جب ہم وِژن کی بات کرتے ہیں تو کئی ایک پونی ہمارے وژن کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور ہمارے خوابوں کو گندے پانی کے کنویں سے باہر نہیں آنے دیتے۔ یہ کہہ کر سب لوگ لنچ کے وقفے پر چلے گئے مگر عبدﷲ بھاری دل کے ساتھ اپنی زندگی کے پونی گنتا رہا۔ اسکی گذشتہ TDL میں موجود ہر چیز اُسے ایک پونی ہی نظر آئی اور وہ خاموش بیٹھا آسمان کو تکتا رہا اور آنسو ٹپ ٹپ کرکے یکے بعد دیگر ے آنکھوں سے گرتے رہے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
امین بھائی نے سیشن کو پھر سے شروع کیا۔
چار پونی ہیں جو سب سے پہلے وژن پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
1۔ زندگی Life
2۔ خاندان Family
3۔ وقت Time
4۔ جگہ Space
ہم کوئی وژن سوچ لیں وہ ہماری اپنی زندگی، خاندان اور جگہ کے اِرد گرد گھومتا ہے اور ہم اسے کسی نہ کسی وقت کے ساتھ قید بھی کردیتے ہیں۔ مثلاََ میں چاہتا ہوں کہ میں کراچی کا سب سے بڑا تاجر بنوں، اب بذاتِ خود اِسی وژن میں
برائی نہیں مگر یہ کراچی کی حدود میں قید ہے۔ مثلاََ میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیوی بچوں کو تمام خوشیاں دوں، اس میں بھی کوئی بُرائی کوئی مضائقہ نہیں مگر یہ اپنے خاندان سے باہر نہیں آرہا۔ اگر بڑا کام کرنا ہو تو ان چاروں سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا، مثال کے طور پر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا وژن کہ لوگوں کو ﷲ کا پیغام پہنچانا ہے ان چاروں سے آزاد تھا۔
انہوں نے اپنے خاندان والوں پر بھی کام کیا اور غیر خاندان والوں پر بھی، مکّتہ المکرمہ میں بھی کام کیا اور دنیا بھر میں بھی صحابہ کرام رضی ﷲ عنہا کو بھیجا اور یہ کام انکی زندگی کے بعد بھی 14 سو سالوں سے چل رہا ہے۔ اس جیسی مثالوں اور حوالوں سے آج کا دن ختم ہوا اور عبدﷲ آج پھر جائےنماز پر اپنے اللہ سائیں سے دعا مانگ رہا تھا،
اپنی رحمت کے خزانوں سے عطا کر مالک
خواب اوقات میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے
’’ﷲ سائیں! آپس کی بات ہے، ابھی تک کی زندگی تو ضائع ہوئی، آگے کی کسی کام لگ جاوے یہی بِنتی ہے۔ آج تک صرف اور صرف اپنی ذات کا سوچا، کوئی کام کرنا چاہتا ہوں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ عمر بھر نفع خور رہا اب نفع بخش بننا چاہتا ہوں۔ امین بھائی کہتے ہیں کہ وژن چاہ کا نام ہے۔ پیشین گوئی نہیں، میری چاہ ہے کہ ایسے لوگ تیار کروں جنھیں کمپیوٹر سائنس میں مہارت ہو تاکہ وہ اپنے پروگرامز کے ذریعے انسانیت کی خدمت کرسکیں، میں چاہتا ہوں کہ کوئی بڑا ادارہ بناؤں اس کام کے لیے، نہ عقل ہے نہ پیسہ نہ تجربہ، تو مدد کر میرے مالک!
تیرے لیے کیا مُشکل، تجھے کوئی اسمبلی سے بل تھوڑا ہی پاس کرانا ہوتا ہے،
میری مدد کر میرے مالک! میرا ہاتھ پکڑ اور دیکھ پلیز اس بار صحیح لائن پر چلا دے، آمین‘‘
آج ٹریننگ کا آخری دن تھا اور امین بھائی کا جوشِ خطابت عروج پر تھا۔ انہوں نے ٹریننگ کو آگے بڑھایا، آدمی زندگی میں مختلف کردار نبھاتا ہے جنہیں ہم roles کہہ لیتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں لازمی یا mandated رولز اور اختیاری یا electives۔ لازمی کردار وہ ہیں جو آپ چاہتے ہوئے بھی نہ چھوڑ سکیں مثلاً باپ کا رول۔ اب آپ اپنے بیٹے سے جا کر اگر کہیں کہ آج کے بعد تم میرے بیٹے نہیں تو آپ کے صرف کہنے سے کچھ بھی نہ ہوگا، رشتے جوں کے توں قائم رہیں گے۔ اختیاری وہ رولز جو آپ کی صوابدید پر ہوں مثلاً دوست۔ آپ جب چاہیں جیسے چاہیں دوست بدل سکتے ہیں۔ مثلاً جاب، آپ چاہیں تو استعفیٰ دے دیں اور کسی اور جگہ نوکری کرلیں، تو آپ سب لوگ اپنے تمام رولز کی ایک فہرست بنائیں۔ عبدﷲ نے قلم نکالا اور کچھ ایسی فہرست تیار کر لی،
لازمی Mandated اختیاری Electives
باپ نوکر
بیٹا دوست
بھائی اُستاد
اپنی ذات شاگرد
داماد کھلاڑی
کفیل تیراک
امتی شوہر
عبداﷲ انٹرنیٹ سرفر
محلہ کمیٹی
مسجد کمیٹی
لائبریری ممبر
وغیرہ وغیرہ
امین بھائی پھر گویا ہوئے، تقریباً وہ تمام کام جو آپ 24 گھنٹوں میں کسی نہ کسی roles کے تحت کرتے ہیں وہ یہاں آئیں گے، اب لازمی کرداروں کو تو آپ کچھ کہہ نہیں سکتے تو اختیاری رولز میں سے ہر وہ رول جو آپکے وژن کا حصہ نہیں یا اُسے کسی نہ کسی طور support نہیں کر رہا، آپ اسے اُڑا دیں، ہر جنگ لڑنے والی نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر کسی کا وژن شاہد آفریدی بننا ہے تو اُسے 4 گھنٹے روز گانا گانے کی کیا ضرورت ہے وہ کرکٹ کھیلے۔
جاری ہے

Latest Posts

Related POSTS