آپ خود ہی منصف بن جائیں اپنے اختیاری رولز اور اپنے وژن کے بیچ۔ اس طرح کرنے سے آپکی زندگی میں Focus یکسانیت بھی آئے گی اور وقت بھی بچے گا۔
وقفے میں عبدﷲ معلومات کے اس طوفان کو ڈائی سیکٹ کر رہا تھا، ٹھیک ہی تو کہتے ہیں اتنی سی زندگی میں کیا کیا کروں۔ بیواؤں کی خدمت کروں، یتیموں کا خیال رکھوں، کتابیں لکھوں، پڑھاؤں، کمپنی کھولوں، ایدھی کے لیے ایمبولینس چلاؤں، پڑھوں یا ملکی سیاست میں حصہ لوں!
عبداﷲ نے کاغذ پر لکھنا شروع کردیا۔ پاکستان میں مرد کی اوسط عمر 62 سال اور عورت کی 65 سال، اب یہ کہتے ہیں کہ عمر پڑی ہے وہ ہے کہاں؟ شروع کے 12 سال تو بچپنے کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اب اگر کوئی 70 سال بھی جئے تو 58 باقی بچے، ہم دن میں کم از کم 8 گھنٹے سوتے ہیں۔ 24 گھنٹوں میں سے یہ ایک تہائی بنتا ہے تو کوئی 23 سال 4 ماہ ہم سو رہے ہیں۔ 8 ہی گھنٹے کم از کم آفس میں جاتے ہیں ہر روز، 23 سال 4 ماہ وہاں گئے۔ پاکستانی اوسطاََ 4 گھنٹے TV دیکھتے ہیں دن میں، یہ کوئی ساڑھے 11 سال بنتے ہیں، 4 گھنٹے ہم اوسطاََ انٹرنیٹ کو دیتے ہیں ساڑھے 11 سال اِدھر گئے، ایک سال زندگی میں ہم طبعی ضروریات میں باتھ روم میں گذارتے ہیں۔ 12 سال کی عمر میں اگر نماز فرض ہو اور ہم 5 وقت روزانہ نماز پڑھیں اور دن میں ایک گھنٹہ بھی لگا دیں تو 70 سال کی عمر میں کوئی ڈھائی سال ﷲ کو دینگے جس نے پیدا کیا اپنی عبادت کے لئے، 613,000 گھنٹوں کی زندگی میں سے صرف 20 ہزار گھنٹے؟ کوئی بات بنی نہیں۔ پوری زندگی جب تک عبادت کے مفہوم کے تحت نہیں آجاتی تب تک حق تو ادا نہ ہوسکے گا کیا آپ کوئی ایسا نوکر رکھو گے جو اپنے اصل کام کو صرف 3.5 فیصد وقت دے اور باقی بے کار بیٹھا رہے؟ اور یہ 3.5 فیصد وقت بھی ہم کب دیتے ہیں، مہینوں گذر جاتے ہیں مسجد کا منہ دیکھے ہوئے۔
جتنی تیزی سے عبدﷲ کا قلم چل رہا تھا اس سے کہیں زیادہ رفتار سے اُس کا دماغ اور دل۔
ٹھیک ہے امین بھائی! آج پھر رت جگا اور electives کا مذبح خانہ، وقفے سے آتے ہی امین بھائی نے ایک اور کاری وار کیا۔ آپ لوگوں کو مائیکرو سافٹ ایکسل تو آتی ہوگی؟ تو ایک بار چارٹ بنائیں اور نیچے لکھ دیں تمام رولز جو باقی بچ گئے ہیں۔
باپ بیٹا اُمتی عبدﷲ پڑوسی، ہمیں ان تمام رولز کو کسی نہ کسی، کم از کم معیار پر نبھانا چاہئیے، جیسا کہ اسکول میں 3 نمبروں پر پاس ہوتا ہے یا یونیورسٹی میں 2.2 GPA پر، اسی طرح ہر رول کا ایک (MPL Minimum Perfomance Level) ہوتا ہے۔ اگر اس سے نیچے آئے تو ظلم میں شمار ہوگا، اُوپر گئے تو احسان۔ ظلم کا مطلب ہے کسی چیز کو اسکی جگہ سے ہٹا دینا، مثلاً ماں باپ کے لیے MPL ہے کہ انہیں اُف بھی نہ کی جائے۔ اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ بار چارٹ میں آپ کہاں ہیں؟ احسان کا مطلب ہے وہ چیز جو موجودہ ریسورسز میں اُس سے بہتر ممکن نہ ہو۔ غرض آپ کی سب سے بہتر کاوش۔
کسی آدمی کے پاس 10 روپے ہیں اور وہ 10 روپے صدقہ کردیتا ہے تو اُس آدمی سے بہتر ہوگا جو لاکھ روپے دے 10 کروڑ میں سے، اب آپ کو تمام رولز کے MPL معلوم کرنے ہیں اور ان MPLs کو پورا کرتے ہوئے مرگئے تو کامیاب ورنہ ناکام۔ اس کے بعد امین بھائی نے مولانا تقی عثمانی صاحب کا شعر بھی سنا دیا۔
قدم ہوں راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
امین بھائی نے ٹریننگ کا اختتام کیا۔ تو آپ لوگ گھر جائیں۔ رولز لکھیں MPL ڈھونڈیں اور وژن بنائیں کہ 100 سال بعد آپ اپنے آپ کو کس رول میں کس جگہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی ذات کے رول میں تو بزنس مین بن جائیں مگر باپ، بھائی عبدﷲ کے سارے رولز متاثر ہوجائیں۔ پھر سوچیں کہ 50 سال والا وژن کیا ہوگا؟ 25 میں کہاں ہوں گے؟ اور 10،5 اور 1 سال کا پلان بنالیں حتی کہ مہینوں ہفتوں اور دنوں کی کوشش کریں، تاکہ آج آپ جو کام کر ہے ہیں وہ آپکے 100 سال والے وژن سے connect ہوسکے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس ٹریننگ سے عبدﷲ کو اپنے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے۔ وہ کسی حد تک مطمئن تھا کہ چلو زندہ رہنے کا کوئی بہانہ تو مِلا، کوئی راستہ تو نظر آیا، میرا کوئی مقصد حیات تو ہے۔ زندگی کے اندھیروں میں یہ چھوٹی سی کرن عبدﷲ کے لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند تھی۔ آج رات اس نے احمد صاحب کو فون کرکے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ انکی باقی ٹریننگز بھی کرنا چاہتا ہے، مگر فی الحال پیسے نہیں ہیں۔ احمد صاحب نے آفر دی کہ آپ کورسز کرلیں پیسے جب ہوں تب دے دینا۔ یوں عبدﷲ کی زندگی میں ایک باب اور شروع ہوا، ٹر یننگز اور وژن کا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عبدﷲ یونیورسٹی میں واپس آیا اور دن رات پڑھانے میں لگ گیا۔ بچوں کو پڑھانا اور اچھا کمپیوٹر اسائنٹسٹ بنانا اس کے وژن کا حصہ تھا۔ اس نے اپنی ریسرچ لیب بنائی اور ریسرچ پر بہت زور دینے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یونیورسٹی عبدﷲ کی گرویدہ ہوگئی۔ پروفیسر عبدﷲ کی کلاس میں پڑھنا طالب علموں کے لیے وجہِ افتخار سمجھا جانے لگا۔ بیچلرز کی ایک کلاس میں سے 13 انٹرنیشنل پبلی کیشنز آگئیں اور عبدﷲ کے اسٹوڈنٹ دنیا بھر میں اسکالر شپ پر جانے لگے۔ 4 طالب علموں کو وہی سینیٹر اسکالر شپ ملی جس پر عبدﷲ خود گیا تھا۔ عبدﷲ نے ڈیپارٹمنٹ کا curriculum تبدیل کردیا اور دنیا کے بہترین کورسز متعارف کروائے۔ اس شہرت اور کام کی وجہ سے عبدﷲ جلد ہی نظروں میں آگیا اور اسے ہر اُس کمیٹی کا ممبر بنا دیا جاتا جس کا اس سے دور دور تک کا واسطہ نہ ہوتا۔ اُسے سزا کے طور پر ڈرائیورز کمیٹی، گارڈن کمیٹی، اوپن ہاؤس کمیٹی اور اِس جیسی ہی نجانے کون کون سی کمیٹیاں جس میں سوائے وقت ضائع ہونے کے کچھ نہ ہوتا کی ذمہ داری سونپ دی جاتی۔
عبدﷲ جلد ہی اِس علم دشمن ماحول سے بیزار ہونے لگا، اس بیزاریت سے نجات پانے کے لئے اس نے دن رات وژن پڑھنا شروع کردیا۔ ہم کس طرح وژن بنائیں کیسے عمل کریں۔ یہ اس موضوع پر بھی چیمپین بننا چاہتا تھا، شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو اس موضوع یا اس سے متعلقہ موضوع پر جو عبدﷲ نے نہ پڑھ ڈالی ہو اور شامت آئی ہمیشہ کی طرح بے چاری بلّو کی، جسے گھر اور بچوں کے تمام معاملات کے ساتھ ساتھ عبدﷲ کو بھی manage کرنا پڑتا، اُس نے عبدﷲ کو مزید ٹریننگز کروانے کے لیے اور اس کی کتابوں کا خرچہ برداشت کرنے کے لیے اپنا زیور تک بیچ دیا اور پارٹ ٹائم کام بھی شروع کردیا کہ عبدﷲ میں زندگی کی رمق ہی اُس کا اثاثہ تھا۔ عبدﷲ نے بارہا کوشش کی کہ بلّو بھی یہ ٹریننگز کر لے، وہ گئی بھی، مگر اُس کا دل نہ لگنا تھا نہ لگا۔ وہ ہمیشہ سے اپنے آپکو ایک کمزور سی گناہ گار انسان کہتی جس سے کچھ نہ بن پڑتا ہو۔
عبدﷲ نے یونیورسٹی میں ہونے والی ہر زیادتی کے بدلے میں مزید پڑھنا شروع کر دیا، جس دن یونیورسٹی میں کوئی تلخ کلامی ہوتی اور اس دن کچھ اور نئی کتابیں، وہ بلو سے کہا کرتا کہ اس ملک میں ہونے والے مظالم کا واحد انتقام علم ہے۔ عبدﷲ جب بھی پالو آلٹو، روبن شرما، اسٹیفن کوی، جمِ کولنز یا سیم والٹن کی کتابیں پڑھتا تو آکر بلّو سے ڈسکس کرتا۔ وہ ہمیشہ ہنس کے خاموش ہوجاتی مگر کوئی نہ کوئی جملہ ایسا بول دیتی کہ عبدﷲ ہفتوں سر پیٹتا رہتا، ایک دن کہنے لگی، عبدﷲ تم اپنی ذہانت، اپنی باتوں اور لفّاظی سے کسی شخص کی زبان چپ کرواسکتے ہو، مگر دل نہیں جیت سکتے۔
دل جیتنا ہو تو surrender کرنا سیکھو۔ ایک دن کہنے لگی، عبدﷲ میرا دل ہر اُس چیز کو کرنے کا چاہتا ہے جو ﷲ کو ناپسند ہے۔ دل کی سنوں تو ﷲ ناراض، ﷲ کی سنوں تو دل ناخوش، یہ چکی تمام عمر یونہی چلتی رہے گی۔ وہ اکثر عبدﷲ سے کہتی، عبدﷲ آرام کر لیا کرو، کچھ دنوں کے لئے چھوڑ دو اس وژن کے چکر کو۔ خیر و شر کی ازلی لڑائی میں بندہ تھک بھی تو جاتا ہے، کچھ دیر آرام کرلے تو کیا مضائقہ؟
مگر عبدﷲ کو تو جو ایک دُھن سوار ہوجائے وہ ہوجائے، اسی علم و شوق میں زندگی کی گاڑی رواں دواں تھی کہ ایک دن صبح صبح عبدﷲ کو ریکٹر آفس سے کال ملی، وہ ملنے پہنچا تو ریکٹرصاحب نے خوشخبری سنائی کہ آپکی تنخواہ میں 25 ہزار روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ عبدﷲ اس غیر متوقع خبر پر پریشان ہوا، کہنے لگا آخر کیوں؟
جی وہ ہمارے سسٹم ایڈ منسٹریٹر system administrator نے استعفیٰ دے دیا ہے تو، آج سے آپ کے پاس system administrator کا ایڈیشنل چارج بھی ہے۔
مجھے قبول نہیں ریکٹر صاحب۔ مگر ڈاکٹرعبدﷲ آپ کو یہ کام آتا ہے۔ جی مجھے کھانا پکانا بھی آتا ہے تو جس دن آپ کا باورچی چلا جائے اُس کا ایڈیشنل چارج بھی فدوی کو عطا کر دیجئے گا۔ دیکھئے ریکٹر صاحب میں نے PHD کیا ہے، کوشش ہے کچھ ریسرچ ورک کر لوں۔ ازراہِ کرم میرے کیرئیر سے مذاق نہ کریں۔
ہم نے آپکو مطلع کرنے کے لیے بلایا تھا، مشور ے کے لئے نہیں۔ آپ جا سکتے ہیں،
ریکٹر نے گویا حتمی فیصلہ سنا دیا۔ عبدﷲ نے کاغذ قلم نکالا، وہیں استعفیٰ لکھا اور گھر واپس۔ بلو نظر آئی تو عبدﷲ نے زبردستی مسکراتے ہوئے عنایت علی خاں کا شعر پڑھ دیا۔
جو سر کٹنے پہ راضی ہوں، انھیں جھکنا نہیں آتا
وہی منزل کو پاتے ہیں جنھیں رکنا نہیں آتا
بلّو ایک شعر میں سب کچھ سمجھ گئی، اور گھر کی پیکنگ میں لگ گی کہ یونیورسٹی کا دیا ہوا مکان خالی کرنا ہے۔ رات کھانے پہ عبدﷲ سے پوچھا اب کیا کرو گے عبدﷲ؟ ﷲ کی زمین وسیع ہے بلّو، کچھ کرتے ہیں۔ سوچ رہا ہوں گاؤں جا کے برتنوں کی ریڑھی لگالوں۔ یونیورسٹی کا اچھا خاصہ تجربہ تھا وہاں یہ ہوا، کارپوریٹ سیکٹر کا تو تجربہ ہی نہیں ہے وہاں کیا ہوگا۔ آج جو اباََ بلّو نے بھی شعر سنا دیا۔
تو نے جو کچھ بھی کہا، میں نے وہی مان لیا
حکمِ حواّ کی قسم، جذبہِ آدم کی قسم
عبدﷲ آج ایک بار پھر روڈ پر تھا۔ جگہ جگہ نوکری کی درخواست دے رہا تھا، مگر انٹرویوز میں ہر جگہ فیل۔ کچھ لوگ اسکی ذہانت سے خوفزدہ ہوجاتے، تو کچھ کو اسکے لہجے کی کاٹ پسند نہ آتی، ایک HR مینجر تو پھٹ ہی پڑے۔ ڈاکٹر عبدﷲ آپ بہت خطرناک انسان ہیں۔ آپکو کوئی کیسے قبول کرے۔ اپنے مضمون میں آپ خود اتھارٹی ہیں تو کوئی آپکو Technically چیلنج نہیں کرسکتا۔ روپے پیسوں کی قدر آپ نہیں کرتے تو یہ طریقہ بھی بے کار مرنے سے آپکو ڈر نہیں لگتا۔ تو جو آپ چاہیں گے وہ کریں گے۔ ہم آپکو جاب نہیں دیں گے۔ اور عبدﷲ گھر آکے پھر سے بِلّو کو روداد سنا دیتا، اس اثناء میں وہ ایک 200 صفحات کا وژن ڈاکیومنٹ لکھ چکا تھا، اپنا اور اپنی فیملی کا کہ زندگی میں کرنا کیا ہے جسے
وہ ماسٹر پلان کہتا تھا۔
بلّو روز اسکی تیاری کرواتی۔ اُسے زیادہ بولنے سے منع کرتی، آج ایک ڈیفنس آرگنائزیشن میں اس کا بہت اہم انٹرویو تھا۔ جب عبدﷲ اپنے سافٹ وئیر اور مہارت کی presentation دے چکا تو CEO نے کہا کہ آپ یہیں جوائن کرلیں، آپ صرف مجھے رپورٹ کریں گے۔ آپ کو اُن ٹیکنالوجیز پر کام کرنا ہوگا جن میں بحیثیت قوم ہم دوسرے ممالک کے محتاج ہیں، کب سے شروع کریں؟
عبدﷲ کی خوشی انتہاؤں کو چھُورہی تھی۔ اچھی تنخواہ گھر، گاڑی اور کام بھی 100 فی صد اسکے اپنے وژن سے متعلق۔ وہ خوشی خوشی گھر آیا سبھی خوش تھے، سوائے بلّو کے۔ بلّو نے کہا، عبدﷲ اتنے خوش نہ ہو، خوشی تمہیں کم ہی راس آتی ہے۔
یہ دیکھو تم نے کیا کرنا ہے، تمھیں اپنے آپ سے کیا چاہیے؟ یہ بھول جاؤ دنیا تم سے کیا چاہتی ہے۔ ورنہ ہمیشہ اُداس ہی رہو گے۔ عبدﷲ نے جواب میں لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی کہ وہ کسی طرح اس وژن سے پاکستان کو تبدیل کردے گا اور بلو ہمیشہ کی طرح ہنستے ہوئے کھانا لگانے چلی گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
زندگی پھر سے مکمل رفتار سے دوڑی چلی جارہی تھی۔ کام کے سلسلے میں عبدﷲ اکثر ملک سے باہر چلا جاتا اور ساتھ میں کوئی نہ کوئی کورس بھی کر آتا، اب تو احمد صاحب نے اُسے اپنے لیکچرز میں بھی بلانا شروع کر دیا تھا جہاں وہ کلاس سے کچھ باتیں کرلیتا اور یوں عبدﷲ کی شہرت دور دور تک جانے لگی۔
بِلّو ہر رات کو صرف یہ دعا مانگتی کہ اے ﷲ! میرے عبدﷲ کا خیال رکھنا، اسکی رفتار مجھے ہمیشہ پریشان کرتی ہے، اس میں ٹھہراؤ لا، یہ پارہ کی طرح اچھلتا پھرتا ہے اور لوگوں کے حسد اور نظر کا شکار ہوجاتا ہے، اس کی طبیعت بہت تھر دیلی ہے اُس پہ رحم کر۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ایک دن عبدﷲ کے ایک دوست ڈاکٹر رمضان اسے ایک مفتی صاحب کے پاس لے گئے، عبدﷲ جانا نہیں چاہتا تھا اُسے اب مولوی حضرات اور مفتیانِ کرام سے ڈر سا لگنے لگا تھا مگر، اس دن وہ اپنے دوست کے اصرار پر چلا گیا۔ جب تک عبدﷲ پہنچا مفتی صاحب اپنا لیکچر ختم کر کے جا رہے تھے۔ عبدﷲ نے ان سے ملاقات کی اجازت مانگی اور دو ہفتوں کے بعد کا وقت مقرر ہوا۔ عبدﷲ دو ہفتوں بعد مقررہ وقت پر مفتی صاحب کے گھر پہنچ گیا یہ سوچتا ہوا کہ، انہیں وقت اور دن دونوں بھول چکے ہوں گے مگر مفتی صاحب موجود بھی تھے اور منتظر بھی۔
مفتی صاحب کے گھر میں لگ بھگ 40 ہزار کتابیں تھیں جنہیں دیکھ کر ہی عبدﷲ کا دل بلیوں اُچھلنے لگا، اُس نے بے ساختہ کہا ۔
صرف اِتنا ہے واقعہ دِل کا
ہم نے کھویا ہے تم نے پایا ہے
یہ مفتی صاحب عبدﷲ کو بہت پسند آئے، پڑھے لکھے، انگریزی بھی جانتے تھے اور کئی ممالک کا سفر بھی کیا تھا۔ نہ سیکرٹری، نہ دائیں بائیں مریدوں کا جمگھٹّا نہ تصنّع، نہ بناوٹ اور نہ ہی لفّاظی، دو چار باتیں سیدھے سادھے الفاظ میں کردیں اور بس۔ عبدﷲ کا دل ان کی جانب کھنچتا چلا گیا۔ عبدﷲ کو ان کی شخصیت اپنے مولانا عبدالرحمن صاحب جیسی لگی، اوپر سے ان کی زبان اور اُردو میں بہت چاشنی تھی۔
بقول شاعر،
سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتے ہیں
کچھ ہی عرصے میں اس جاب میں بھی وہی مسائل ہونا شروع ہوگئے، اس بار قصور عبدﷲ کا ہی تھا، اس کے رویے میں لچک نہ تھی، کیونکہ وہ اپنی زندگی کا ایک فکسڈ ڈاکیومنٹ بنا چکا تھا۔ لہٰذا کسی کے کہنے پر اس میں کوئی ردو بدل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مزید یہ کہ حاسدوں کی حسد کا بھی کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ صبح شام کوئی نہ کوئی مسئلہ کوئی نہ کوئی جھوٹ جسے برداشت کرنے اور اپنی صفائی میں عبدﷲ کا پورا دن نکل جاتا۔
دراصل جھوٹ بولنا بھی ایک صلاحیت ہے جسے خدا کسی کسی کو نہیں بھی دیتا مگر عموماََ عبدﷲ کا واسطہ باصلاحیت لوگوں سے ہی پڑا۔ عبدﷲ کا اب تک مصمّم یقین ہوگیا تھا کہ پاکستان میں کسی بچے کو نفسیاتی مریض بنانا ہو تو کسی کمپنی میں جاب کروا دو۔ ایک ہی سال میں جھوٹ، مکاری، غیبت، حسد اور ظلم اسکی
جاری ہے